1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

سلمان تاثیر کا قتل اور سیاست

'حالاتِ حاضرہ' میں موضوعات آغاز کردہ از راشد احمد, ‏7 جنوری 2011۔

  1. راشد احمد
    آف لائن

    راشد احمد ممبر

    شمولیت:
    ‏5 جنوری 2009
    پیغامات:
    2,457
    موصول پسندیدگیاں:
    15
    سلمان تاثیر کو اس کے گارڈ نے اس بات پر قتل کردیا تھا کہ سلمان تاثیر نے توہین رسالت کو کالا قانون کہا تھا۔

    اس قتل کے بعد قاتل کے ساتھ کچھ مذہبی عناصر کی ہمدردیاں ہیں۔ کچھ مذہبی عناصر اسے سلمان تاثیر کی غلطی کہتے ہیں۔

    سلمان تاثیر کے اس قتل کے بعد پیپلزپارٹی اسے سیاسی قتل قرار دیکر اس پر سیاست چمکا رہی ہے۔ اس کا الزام پنجاب حکومت پر لگا رہی ہے حالانکہ سلمان تاثیر کا قتل وفاقی دارلحکومت اسلام آباد میں‌ہوا ہے اور سلمان تاثیر کو ہیرو بنارہی ہے۔

    پیپلزپارٹی کی اس حرکت سے سلمان تاثیر تو ہیرو بنے یا نہ بنے لیکن اس کا قاتل ضرور ہیرو بن جائے گا اگر سیاسی عناصر نے علمائے کرام کو اس پر استعمال کرلیا تو
     
  2. ملک بلال
    آف لائن

    ملک بلال منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2010
    پیغامات:
    22,418
    موصول پسندیدگیاں:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: سلمان تاثیر کا قتل اور سیاست

    کافی سوچن ایبل بات ہے :143:
     
  3. بےباک
    آف لائن

    بےباک ممبر

    شمولیت:
    ‏19 فروری 2009
    پیغامات:
    2,484
    موصول پسندیدگیاں:
    17
    جواب: سلمان تاثیر کا قتل اور سیاست

    http://www.guardian.co.uk/books/2009/mar/14/stranger-to-history-aatish-taseer
    گورنر پنجاب کے بیٹے آتش کی کہانی

    لندن (ماریانہ بابر ) گورنرپنجاب سلمان تاثیر کے 29سالہ بیٹے آتش تاثیر جو کہ ایک صحافی ہیں اور لندن میں رہائش پذیر ہیں نے ایک کتاب لکھی ہے جو ان کی ذاتی یادداشتوں پر مبنی ہے اس کتاب میں انہوں نے اپنی زندگی کی کہانی بیان کی ہے ۔جس میں انہوں نے اپنے والد کے بارے میں جس طرح بیان کیا اس سے پاکستانی قارئین کو نہ صرف صدمہ ہوگا بلکہ وہ برگشتہ ہوں گے۔ کتاب کا عنوان ”تاریخ کا اجنبی، ایک بیٹے کا اسلامی سرزمین کا سفر “ ہے اور اس کتاب کا ایک ہفتے تک لندن میں اجراء ہوگا اور چند ہفتوں تک بھارت میں اجرا ہوگا۔ بھارتی میگزین”آؤٹ لک“ نے اس کتاب کے حقوق حاصل کرلئے ہیں اور خیر سگالی کے طور پر دی نیوز کے ساتھ اس کی خبر چلانے پر رضا مندی ظاہر کی ہے میگزین آج جمعہ کو بھارت کی مارکیٹ میں آئے گا ۔ میگزین نے آتش کا بھی انٹرویو کیا ہے ۔ میگزین کے مطابق کتاب مارکیٹ میں آنے کو تیار ہے اور آتش جلدکتاب کے اجرا کی بھر پور عالمی مہم پر ہوگا۔ اس کے ناشر ”پکاڈر انڈیا ”والے ہیں ۔ آؤٹ لک میگزین کے مطابق کتاب آتش کی ڈرامائی زندگی کا افسانوی بیان ہے ۔ مختصراً کہانی کچھ اس طرح سے ہے۔”پاکستانی سیاستدان سلمان تاثیر اور بھارتی صحافی تولین سنگھ کے درمیان ایک مختصر مگر بھر پور تعلق کے نتیجہ میں ایک بچہ پیدا ہوتا ہے جب تعلق ناکام ہوتا ہے تو باپ (اس کے بیٹے کے بیان کے مطابق) ماں اور شیر خوار بچے کو لندن میں چھوڑ دیتا ہے وہ دونوں دہلی چلے جاتے ہیں جہاں لڑکا (بچہ) آتش ایک سکھ اشرافیہ خاندان میں ایک امتیاز کے ساتھ پروان چڑھتا ہے کیونکہ اس کا باپ ایک پاکستانی اور مسلمان ہے“۔ آتش نے بچپن میں اپنے والد کے ساتھ تعلقات کی بحالی کیلئے 2مرتبہ کوشش کی مگر اسے دھتکار دیاگیا۔2002ء میں جب اس کی عمر 21سال تھی اس نے پھر سے کوشش کی اور لاہور پہنچ کر بڑی کامیابی حاصل کی۔ سلمان کا سیاسی کیرئیر روبہ زوال تھا ، فوجی حکمران ملک پر براجمان تھا ۔ ان کی پارٹی کی سربراہ بے نظیر بھٹو جلا وطن تھیں اور وہ (سلمان تاثیر) ایک دولتمند تاجر اور میڈیا ٹائیکون بن چکا تھا اور اپنی تیسری خوبصورت بیوی او 6بچوں کے ساتھ رہ رہا تھا“۔ آتش کے برسوں سے واقف خاندانی دوستوں اور رشتہ داروں نے سلمان کی زندگی میں داخل ہونے کیلئے اس کی مدد کی۔ اس طرح باپ بیٹے کے تعلقات کا آغاز ہوا جو کہ کسی طرح سے آسان نہ تھے ۔ اس طرح سے ناول وجود میں آتا ہے۔ آپ بیتی پر ناول لکھنے کی کوشش پر نظر دوڑاتے ہوئے آتش کہتا ہے کہ ”یہ وہ غیر معمولی کہانی ہے، لیکن اس کا مقصد کیا ہے؟۔ یہ ہر ایک کی کہانی نہیں ہے “ ”پھر ایک اہم موڑ آتا ہے۔ 2005ء میں آتش جو کہ لندن میں قیام پذیر ایک صحافی تھا نے برطانوی میگزین کیلئے پاکستانی نژاد برطانوی شہریوں کی دوسری نسل کی بنیاد پرستی کے بارے میں لکھا اور ایک زبردست دلیل دی کہ بنیاد پرستی کا تعلق مختلف محاذوں پر شناخت کی ناکامی سے ہے۔ اپنی سرورق کی کہانی شائع ہونے کی خوشی میں آتش نے یہ تحریراپنے باپ جس سے اب وہ قربت محسوس کررہا تھا کو بھی بھیجی اور اس کو اس وقت سخت صدمہ ہوا جب اس کو ایک غصے سے بھر پور جواب ملا کہ وہ مسلمانوں کیخلاف مذموم پروپیگنڈا کرکے خاندان کا نام بدنام کررہا ہے“۔ ان الزامات نے آتش کے اندر ردعمل / بدلے کا طوفان برپا کردیا ہے اس کا باپ (جیسا کہ اس نے اپنی کتاب میں بتایا) ایک مسلمان کے طور پر اس کی تحریروں سے کسطرح مشتعل ہوسکتا ہے کیونکہ وہ تو خود ہر شام ا سکاچ پیتا ہے ،روزہ رکھتا ہے نہ نماز پڑھتا ہے حتیٰ کہ سور کا گوشت تک کھاتا ہے(کچھ باتیں ناقابل اشاعت ہیں)۔ ذاتی تعلقات اور گفتگو کو برسرعام بیان کرنے کے اپنے متنازعہ فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے آتش نے کہا کہ اس کا فیصلہ میں نے اس واقعہ کے بعد اس یقین پر کیا کہ ذاتی حالات میں بڑی کہانی چھپی ہوئی ہے تاہم انہوں نے تسلیم کیا کتاب تحریر کرنے کا مقصد اس مایوسی پر قابو پانا تھا جو اسے اپنے والد کے ساتھ تعلقات اچانک ختم ہونے پر ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ ”یہ ذاتی تاریخ سے سمجھوتا کرنے کا بھی ایک طریقہ تھا“ ۔ یہ کتاب ایک صحافی کی دلچسپ روداد سفر ہے ۔ لیکن سیاسی اور ذاتی واقعات جہاں بھر پور انداز میں آئے وہ کتاب کا تیسرا حصہ ہے جہاں آتش اپنے آپ کو پاکستان میں پاکستانیوں کے درمیان پاتا ہے ۔ ذاتی مایوسی اور دانشورانہ غصہ اس کے اپنے والد کے ساتھ آخری ٹاکرے میں ملکر سامنے آتا ہے ۔ ایک سیاح کے طور پر وہ اپنے منتشر آبائی تعلق کے بارے میں سمجھنے کی کوشش کرتا ہے اور وہ پاکستانیوں بالخصوص نوجوانوں میں بھارت مخالف جذبات دیکھ کر افسردہ ہوتا ہے۔ کتاب کسی حد تک نظر یہ پاکستان (کسی حد تک بھارتی نظریے کی حمایت) کو مسترد کرتی ہوئی محسوس ہوتی ہے تاہم آتش دونوں کو ساتھ ساتھ لیکر چلتاہوا دکھائی دیتا ہے ۔ اس نے کہا کہ ”مجھے امید ہے کہ یہ کتاب پاکستان کیلئے ہے(اگرچہ) یہ کہنا انتہائی معصومانہ سی بات ہے ۔ یہ کتاب میں نے اس لئے نہیں لکھی کہ میں پاکستان یا اپنے باپ سے حساب برابر کروں مجھے امید ہے کہ وہ کچھ جو پاکستان کے بارے میں مایوسانہ نظر آتا ہے ممکن ہے وہ پاکستان کے بارے میں حقیقی تشویش اور محبت کا اظہار ہوگی“۔ آؤٹ لک کے مطابق آتش کی یہ ذاتی کہانی نئے موڑ لے چکی ہے ۔ سلمان تاثیر جس کے ساتھ آتش کا 15ماہ سے کوئی رابطہ نہیں ہے کتاب کے بارے میں سن کر اپ سیٹ ہے او ر وہ ویسے بھی آج کل پاکستان کی سیاست کے افق پر دوبارہ ابھر آئے ہیں بے یقینی کے ساتھ ہنستے ہوئے انہوں نے کہا کہ ”کتاب کے اجرا کا وقت ٹھیک نہیں ہے “ وہ (سلمان تاثیر) ایک کاروباری شخصیت تھے اور میرے خیال میں ان کیلئے یہی کافی تھا ۔ انہیں پنجاب کا گورنر بننے کی ضرورت نہیں تھی۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ اس قسم کی کتاب لکھ کر خاص طورپر اس قد ر حساس موقع پر تعلقات گنوانے کیلئے تیار ہیں تو انہوں نے کہا کہ ”میں کتاب لکھتا یا نہ لکھتا دونوں صورتوں میں میں ناپسندیدہ شخصیت ہوں“۔ لیکن اس نے مزید کہا کہ ”میرے والد ایک ذہین اور وسیع المطالعہ شخص ہیں مجھے امید ہے آخر ایک روز وہ سمجھ جائیں گے“۔ ذیل میں کتاب کے کچھ اقتباسات ہیں ۔ ”میں اپنا سفر ان سوالوں کے ساتھ شروع کرچکا تھا۔ کہ میرا باپ مسلمان کیوں تھا؟ اور اس کی کیا وجہ ہے کہ اسلام کے اخلاقی احکامات /معیارات ان کے اندر کیوں نہیں پائے جاتے ، لیکن وہ مسلمان تھے کیونکہ وہ ہولو کاسٹ پر یقین نہیں رکھتے اور امریکا اور اسرائیل سے نفرت کرتے ہیں ، ہندوؤں کو کمزور اور بزدل تصور کرتے ہیں اور اسلام کی ماضی میں شاندار کامیابیاں ان کو پر جوش بنادیتی ہیں “۔ ”ان کے اندر ایمان کمزور پڑچکا تھا، جس سے وہ کوئی اخلاقی رہنمائی حاصل نہیں کرتے تھے ان کیلئے وہ تاریخی و سیاسی شناخت کے سوا کچھ بھی نہ تھا۔ ان کے اندر ایمان کی اتنی سی ہی قوت تھی یہ اہم بات تھی کیونکہ اس طرح وہ ایک ماڈریٹ مسلمان بن گئے تھے لیکن یہ بہت کمزور اور غلط سمت میں اختیار کی کی گئی اعتدال پسندی تھی ۔یہ کوئی مسئلہ نہیں کہ کوئی کسطرح عبادت کرتا ہے ، کتنی عبادت کرتا ہے ، کیسا لباس زیب تن کرتا ہے، آیا شراب نوشی کرتا ہے یا نہیں لیکن یہ بات ضرور اہم ہے کہ کوئی یہودیوں ، امریکیوں اور ہندوؤں کے بارے میں نفرت کے جذبات رکھتا ہے یہ وہ چیز ہے جو کہ عقیدہ میں گندھی ہوئی ہے اور سیاسی مباحثوں میں شامل ہے ۔ میں کمرے سے چلے جانے کیلئے کھڑا ہوا ۔ یہ ایسا تھا جیسے کوئی نہر کا کنارا ٹوٹ گیا ہو۔ میں اور میرے والد پہلی مرتبہ پریشانی کی حدوں کو پار کرچکے تھے ۔میں کچھ دیر بعد ان کو خدا حافظ کہنے کیلئے واپس آیا لیکن وہ کچھ کہے بغیر ہی کمرہ چھوڑ کر جاچکے تھے۔ اس خالی کمرے نے میرے اندر خالی پن پیدا کردیا جو کہ ایک طرح کی مایوسی تھی میں نے پھر سے سب کچھ دوبارہ سوچنا چاہا ۔ اس میں مفاہمت شامل نہیں تھی کیونکہ اس کے بہت سے تقاضے تھے ۔ صرف احساس زیاں ہی نہیں بلکہ میرا اپنے باپ کی تلاش کا سفر لاہور میں ایک خالی کمرے پر ختم ہو ا تھا۔ ”میرے اور میرے والد کے درمیان فاصلہ زیادہ نہ تھا لیکن یہ سرزمین ایک منفرد تاریخ رکھتی ہے جس سے میرے دونوں ٹوٹے ہوئے (ماں اور باپ) ٹکڑوں کا تعلق ہے۔ میرا اپنے والد کی تلاش اور ان کے ذریعے ان کے ملک کی تلاش اپنی تاریخ کے ساتھ سمجھوتے کا ایک انداز تھا لیکن یہ بے صلہ نہ رہا۔ میرے پاکستان کے ساتھ تعلق کی تجدید ہوئی میں خوش قسمت تھا کہ میرا دونوں ملکوں کے ساتھ تعلق تھا۔ میں نے محسوس کیا کہ مجھے وہ کچھ ملا جس سے بٹوارے نے بہت سے لوگوں کو محروم کردیا تھا۔میرے لئے اس کا مطلب مختلف تعلیم اور انڈیا کی سہ جہتی یعنی اردو، سنسکرت اور انگریزی میں تاریخ کے بارے میں جاننے کے امکانات شامل تھا۔ یہ بے جوڑ تعلق تحریف شدہ تاریخ رکھنے والے لوگوں کا مقدر ہے لیکن میں ان کو انتہاپسندی پر ترجیح دیتا ہوں۔ دنیا دوغلوں سے بھری پڑی ہے۔ ”لیکن پھر وہاں خالی کمرہ تھا اور رشتوں کی ٹوٹ پھوٹ تھی جس کیلئے میرے پاس اپنے باپ کے وجود کے سوا کوئی تسلی نہیں تھی اور جس کا وجود میری پوری زندگی میں ایک سایہ کا سا تھا اب محض انتہائی بے وزن ہوگیا تھا اور کون جانتا ہے کہ یہ فضول و ہم مجھ پر کس قدر شدت سے حاوی ہے۔

    بشکریہ " جنگ " (9 جنوری 2011)
     
  4. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: سلمان تاثیر کا قتل اور سیاست

    اگر یہ باتیں درست ہیں تو بہت دکھ ہوا ہے
     
  5. راشد احمد
    آف لائن

    راشد احمد ممبر

    شمولیت:
    ‏5 جنوری 2009
    پیغامات:
    2,457
    موصول پسندیدگیاں:
    15
    جواب: سلمان تاثیر کا قتل اور سیاست

    ناموس رسالت قانون میں ترمیم ضرور ہوگی، بیٹی سلمان تاثیر

    کراچی(رپورٹ: این جی ٹی) سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کی بیٹی شہربانو تاثیر نے ناموس رسالتﷺ قانون کے مسئلہ پر اپنے والد کے موقف کی تائید کرتے ہوئے اس عز م کا اظہار کیا ہے کہ ان کے والد نے ناموس ِ رسالت ﷺ کے قانون میں ترمیم کے حوالے جو کچھ سوچا تھا وہ ان کی زندگی میں ضرو شرمندہ تعبیر ہوگا۔انہوں نے کہا کہ ان کے والد آئین کے اس شق کے مخالف تھے جس میں احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیا گیاتھا۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ گزشتہ احمدیوں کی عبادت گاہ پر حملے کے بعد جب ان کے والد نے جائے وقوع کا دورہ کیا، متاثرین کے گھر گئے اور اسپتال میں زخمیوں کی عیادت کی تو اسی وقت سے انہیں فون پر سنگین نتائج کی دھمکیاں ملنی شروع ہوگئی تھیں۔شہر بانو تاثیر نے پاکستان کے عدالتی نظام میں اہم اور بنیادی اصلاحات کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ جب پاکستان کی ہائی پروفائل شخصیت اور سب سے بڑے صوبے پنجاب کے گورنر کو تحفظ نہیں فراہم کیا جاسکا تو اس ملک میں عام آدمی کا کیا حال ہوگا؟میرے والد کو بابابلھے شاہ کی طرح بھلایا نہیں جاسکے گا،وہ نہ صرف ایک بہادر انسان بلکہ قوم کے ہیرو ہیں۔ ان خیالا ت کا اظہار انہوں نے بھارتی ٹیلی ویژن کو انٹرویو میں کیا۔ شہربانو تاثیر نے کہا کہ یقیناً والد کے قتل سے ہم سب کو شدید دھچکا لگا ہے جس پر دنیا بھر سے تعزیتی پیغامات آئے، یہ ہمارے لیے مشکل وقت ضرور ہے لیکن ان حالات میں بھی دنیا بھر سے ہماری حمایت میں آوازیں بلند ہورہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان کے والدنہ صرف ایک بہادر انسان بلکہ قوم کے ہیرو ہیں۔ ایک سوال پر شہربانو تاثیر نے کہا کہ پاکستان کے موجودہ جوڈیشل سسٹم کے لیے یہ امتحان کی گھڑی ہے کہ ہمارے ججز حضرات، پراسیکیوٹر اور وکلاء اس معاملے کو کس طرح لیتے۔

    حوالہ روزنامہ جنگ
     
  6. فواد -
    آف لائن

    فواد - ممبر

    شمولیت:
    ‏16 فروری 2008
    پیغامات:
    613
    موصول پسندیدگیاں:
    14
    جواب: سلمان تاثیر کا قتل اور سیاست

    Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

    گورنر پنجاب کے قتل پر امريکی سفير کيمرون منٹر کی جانب سے تعزيت کا پيغام

    "مجھے گورنر تاثير کے قتل سے دلی رنج ہوا ہے۔ امريکہ کی جانب سے ميں ان کی بيوی اور بچوں سے اظہار تعزيت کرتا ہوں۔ وہ برداشت اور رواداری کے چيمپين تھے اور اپنے نظريات ميں اٹل تھے۔ ان کی موت پاکستان کے عوام کے لیے ایک عظيم نقصان ہے"۔

    فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
    digitaloutreach@state.gov
    www.state.gov
    http://www.facebook.com/pages/USUrduDigitalOutreach/122365134490320?v=wall
     
  7. فواد -
    آف لائن

    فواد - ممبر

    شمولیت:
    ‏16 فروری 2008
    پیغامات:
    613
    موصول پسندیدگیاں:
    14
    جواب: سلمان تاثیر کا قتل اور سیاست

    Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

    سيکرٹری کلنٹن کی جانب سے گورنر تاثير کی وفات پر پيغام

    "ہم پاکستان ميں صوبہ پنجاب کے گورنر کے قتل کی پرزور مذمت کرتے ہیں۔ مجھے پاکستان ميں گورنر تاثير سے ملاقات کا موقع ملا تھا اور ميں نے پاکستان کے مستقبل کی نسل کے ليے تعليم اور روادری کے فروغ کے لیے ان کے کام کی تعريف کی تھی۔ ان کی موت ايک عظيم نقصان ہے۔ ہماری دلی ہمدردياں گورنر تاثير کی اہليہ اور بچوں کے ساتھ ہیں۔

    امريکہ پاکستان کے عوام اور حکومت کی جانب سے اپنے ملک ميں امن اور استحکام کے قيام کے ليے جاری مہم ميں ان کی مدد کے لیے پرعزم رہے گا۔"


    فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
    digitaloutreach@state.gov
    www.state.gov
    http://www.facebook.com/pages/USUrduDigitalOutreach/122365134490320?v=wall
     
  8. محمد نواز شریف
    آف لائن

    محمد نواز شریف ممبر

    شمولیت:
    ‏18 فروری 2009
    پیغامات:
    182
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    جواب: سلمان تاثیر کا قتل اور سیاست

    پاکستان کے گورنر کا قتل قابل مذمت ہے۔
    اگر اس طرح کا رجحان ہمارے ملک میں شروع ہو گیاتو پھر کسی کی خیر نہیں۔ہر کسی کو اپنی جان کی پڑی ہو گی۔لیکن غریب عوام تو پہلے ہے اس چکی میں پس رہی ہے۔۔۔

    اللہ تعالی اپنے محبوب کے صدقے پاکستان کی حفاظت فرمائے۔آمین
     
  9. بلال احمد
    آف لائن

    بلال احمد ممبر

    شمولیت:
    ‏11 جنوری 2011
    پیغامات:
    8
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    جواب: سلمان تاثیر کا قتل اور سیاست

    اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ایک افسوسناک امر تھا۔ لیکن یہ بھی تو ہے کہ ایسا صرف کسی بھی بڑی شخصیت کی موت پر ہی کیوں کہا جاتا ہے؟ کیا عوام کی اپمورٹنس نہیں ہوتی؟؟؟ محمد نواز بھائی اگر غریب عوام اس چکی میں پس رہی ہے تو اس کے ذمہ دار بھی تو ہم خود ہی ہیں۔ ہم ایسے حکمران کیوں منتخب کرتے ہیں جو اسلام مخالف سرگرمیوں میں ملوث پائے جاتے ہیں؟ ایک گورنر کی موت پر سب کو افسوس ہو رہا ہے اور جو لاکھوں بے گناہ کراچی و دیگر علاقوں میں ہر روز قتل کر دیے جاتے ہیں ان کا کیا؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
     
  10. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: سلمان تاثیر کا قتل اور سیاست

    [​IMG]
     

اس صفحے کو مشتہر کریں