1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

اسلام کو درپیش فتنہ ۔ عدم اعتدال ۔ ڈاکُمنٹری

'تاریخِ اسلام : ماضی ، حال اور مستقبل' میں موضوعات آغاز کردہ از وسیم, ‏21 اکتوبر 2010۔

  1. وسیم
    آف لائن

    وسیم ممبر

    شمولیت:
    ‏30 جنوری 2007
    پیغامات:
    953
    موصول پسندیدگیاں:
    43
    عصر حاضر میں انتہا پسندی اور عدم اعتدال پر مبنی سوچ نے اسلام کو بےحد نقصان پہنچایا ہے۔ زیر نظر ڈاکمنٹری میں اسی حقیقت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ دیکھیں اور غور کریں کہ یہ نکتہء نظر کہاں‌تک درست ہے۔

     
  2. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: اسلام کو درپیش فتنہ ۔ عدم اعتدال ۔ ڈاکُمنٹری

    وسیم بھائی میں تہہ دل سے مشکور ہوں کہ آپ نے میرے دماغ سے بہت سے ابہام مٹا دیئے ہیں
     
  3. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: اسلام کو درپیش فتنہ ۔ عدم اعتدال ۔ ڈاکُمنٹری

    وسیم جی بہت خوب، زبردست شئیرنگ ہے،!!!!!
     
  4. ملک بلال
    آف لائن

    ملک بلال منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2010
    پیغامات:
    22,418
    موصول پسندیدگیاں:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: اسلام کو درپیش فتنہ ۔ عدم اعتدال ۔ ڈاکُمنٹری

    میں بھی میڈیا پر پرتشدد مناظر دکھانے کے بہت خلاف ہوں اس بارے میں حکومتی سطح پر اقدامات ہونے چاہیں۔
     
  5. وصی
    آف لائن

    وصی ممبر

    شمولیت:
    ‏12 اکتوبر 2008
    پیغامات:
    46
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    جواب: اسلام کو درپیش فتنہ ۔ عدم اعتدال ۔ ڈاکُمنٹری

    مجھے کلپس کے مواد سے اتفاق ہے ۔ روحانی طرز اسلام کے علمبردار جو اولیاء و صالحین سے عقیدت رکھنے والا طبقہ ہے ان کے ہاں سے دوسرے کلمہ گو مسلمانوں سے نفرت ، ان پر تشدد یا انہیں کافر سمجھنے کا سبق نہیں پڑھایا جاتا ۔ بلکہ اگر کوئی مسلمان غلط ہو یا گنہگار ہو تو اولیاء و صالح لوگ اسے پیار سے قریب کرکے اسکی اصلاح کی کوشش کرتے ہیں۔ یہی تعلیمات اسلام ہیں۔
    جب کہ خارجی طبقہ جن کی جڑیں بالعموم عالم عرب اور بالخصوص موجودہ سعودی عرب سے نکلتی ہیں جنہوں نے دنیا بھر میں کلمہ گو مسلمانوں‌کو رسول کریم :drood: اور انکے سچے غلاموں یعنی اولیاء اللہ سے دور کرنے کا ذمہ اپنے سر لے رکھا ہے۔ اور توحید کے نام پر اپنے علاوہ باقی ہر کسی کو کافر مشرک و گمراہ بنانے کے فتووں کی توپیں اٹھا رکھی ہیں ۔ وہی طبقہ مسلمانوں کو دوسرے مسلمانوں کے خلاف تشدد پر ابھارتا ہے۔
    مندرجہ بالا کلپ میں یہ جملے واقعی قابل توجہ ہیں۔


    [*]ڈاکٹر اسرار احمد ۔۔۔ میلاد منانا بدعت ہے۔ اسکے خلاف جہاد کرو یا کم از کم میلاد منانے والوں کے لیے دل میں نفرت رکھو ۔ یہی ایمان ہے۔

    [*]مولانا توصیف الرحمن۔۔۔ جہاد کے لیے کشمیر یا سری نگر جانے والوں کو لاہور میں ہجویری کا دربار اور دیگر مزارات نظر نہیں آتے (یعنی پہلے یہاں جہاد کریں)

    اور دشمنان اسلام (منافقین) کو اسلام کے ہیرو بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔
    مثلا۔۔۔۔ یزید بدبخت جو نواسہء رسول :drood: سمیت سینکڑوں نفوس آل رسول اور سینکروں صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کا بھی قاتل ہے۔ اسکو اللہ کی رضا کا حق دار ٹھہراتے ہوئے اسکے نام کے ساتھ ڈاکٹر ذاکر نائیک کا "رضی اللہ عنہ " کہنا۔
    جبکہ اسلام کے ہیروز کے کردار کو مسخ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے
    مثلا اسی کلپ میں ڈاکٹر اسرار احمد نے ایک انتہائی ضعیف و غیر مستند حدیث کے ذریعے حضرت علی :rda: کو معاذ اللہ شرابی کہا اور وہ بھی اس درجے کا شرابی کہ شراب جن کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی اور قرآنی حکم آنے کے باوجود وہ شرابیں پیتے رہے ۔۔۔ استغفراللہ العظیم
    اس کلپ میں اس طبقہ کے مولویوں اور تشدد پسند سکالرز کی طرف اشارہ ہے جو نوجوان نسل کو اسلامی ہیروز سے برگشتہ کرکے انہیں کلمہ گو مسلمانوں کے خلاف تشدد ، نفرت کا درس دیتے ہوئے اولیاءاللہ کے مزارات اور میلاد پاک منا کر رسول اللہ :drood: سے اظہار عقیدت کرنے والے کے خلاف جہاد کا درس دیتے ہیں۔
    اور جب انہی کے دروس اور خطابات کے نتیجے میں داتا ہجویری کے دربار ، اولیائے کرام کے مزارات یا میلاد کے جلوسوں میں دہشتگردی کی جاتی ہے تو پھر مذمتی بیانات جاری کردیتے ہیں۔
     
  6. محمد شعیب خٹک
    آف لائن

    محمد شعیب خٹک ممبر

    شمولیت:
    ‏31 مئی 2010
    پیغامات:
    127
    موصول پسندیدگیاں:
    13
    جواب: اسلام کو درپیش فتنہ ۔ عدم اعتدال ۔ ڈاکُمنٹری

    یہ ویڈیو ایک اور اختلاف اور فتنہ کی علمبردار ذہنیت کی عکاسی کرتی ہے۔
    جہاد نہ ہونے کی وجہ سے آج امت اس عذاب میں مبتلاء ہے۔
    اس ویڈیو میں کوئی واضح موقف نہیں ہے کہ کیا کہنا چاہتے ہیں۔
    ڈاکٹر ذاکر نائیک نے یزید کے لئے دعائیہ کلامات کہہ کر غلطی کی۔لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ اس طرح ذبح کرنے کو صحیح سمجھتا ہے۔
    حضرت حسین :rda: کو یزید نے نہیں کیا تھا۔
    اس معاملے کی تحقیق دیکھنی ہو تو یہاں کلک کریں۔
    اور اس ویڈیو میں ڈاکٹر ذاکر نائیک کی بات اور ذبح کرنے کے منظر کو جس تکرار کے ساتھ دکھایا گیا ہے، وہ خود اعتدال کے خلاف ہے۔کوئی شخص کسی کو ملعون نہیں سمجھتا تو اس سے یہ تو لازم نہیں آتا کہ وہ انسانوں کے ذبح کو صحیح سمجھتا ہو۔
    بندہ کو اس قسم کی ویڈیوز سے اختلاف اور نفرت کی بو آتی ہے۔یہ اعتدال کے نام پر بے اعتدالی ہے۔
     
  7. وصی
    آف لائن

    وصی ممبر

    شمولیت:
    ‏12 اکتوبر 2008
    پیغامات:
    46
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    جواب: اسلام کو درپیش فتنہ ۔ عدم اعتدال ۔ ڈاکُمنٹری

    شعیب بھائی ۔ یزید صرف قاتل امام حسین رضی اللہ عنہ ہی نہیں تھا بلکہ اپنی فوج کے ذریعے اس نے مدینہ طیبہ میں صحابہ کرام کو بھی قتل کروایا۔ مسجد نبوی شریف میں اسکی فوج کشی کی وجہ سے 3 روز تک اذان و باجماعت نماز معطل رہی ۔ وہ شرابی تھا۔ بدکاری اسکا شغل تھا۔ وہ اپنی شخصی بدکرداری کی وجہ سے کسی طور رضی اللہ عنہ کہلانے کا حقدار نہیں۔ ثبوت کے لیے البدایہ والنہایہ اور دیگر تواریخ اسلامی کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔

    اس کلپ میں‌ یزید کے علاوہ ڈاکٹر اسرار احمد کا میلاد منانے والوں کے خلاف جہاد اور ان سے نفرت کرنے کا درس بھی شامل ہے۔
    اور مولانا توصیف کا بیان کہ کشمیر میں جہاد یا شہادت کے لیے جانے والوں کو پہلے لاہور میں داتار علی ہجویری کے مزار پر یہی کچھ کرنا چاہیے۔

    یہ سب دہشتگردی کی ترغیب نہیں تو اور کیا ہے !!!!
     
  8. محمد شعیب خٹک
    آف لائن

    محمد شعیب خٹک ممبر

    شمولیت:
    ‏31 مئی 2010
    پیغامات:
    127
    موصول پسندیدگیاں:
    13
    جواب: اسلام کو درپیش فتنہ ۔ عدم اعتدال ۔ ڈاکُمنٹری

    وصی بھائی !
    ایک مرتبہ رسول اﷲﷺ ام حرام بنت ملحانؓ کے ہاں دوپہر کا کھانا نوش فرما کر آرام کی غرض سے لیٹ گئے۔ کچھ دیر بعد مسکراتے ہوئے بیدار ہوئے ۔ ام حرامؓ نے مسکرانے کی وجہ پوچھی تو ارشاد فرمایا ”میری امت کے کچھ لوگ مجھے دکھائے گئے جو سمندر میں ایسے سوار ہیں گویا بادشاہ اپنے تختوں پر۔ ام حرامؓ نے عرض کی ،یا رسول اﷲﷺ آپ دعا فرمائیے کہ اﷲ مجھے بھی ان لوگوں میں شامل کر دے۔ آپ نے فرمایا، ہاں! تم ان میں شامل ہو۔ پھر آپ دوبارہ مسکراتے ہوئے بیدار ہوئے اور فرمایا کہ میری امت کے کچھ لوگ مجھے دکھائے گئے جو بحر اخضر میں ایسے سفر کررہے ہیں گویا بادشاہ اپنے تختوں پر۔ ام حرامؓ نے پھر عرض کی کہ آپ دعا فرمائیے کہ اﷲ مجھے بھی ان لوگوں میں شامل کر دے۔ آپ نے فرمایا کہ نہیں۔ تم بعد والے گروہ میں نہیں البتہ پہلے گروہ میں شامل ہو۔

    (صحیح بخاری۔ کتاب الجہاد، کتاب الاستئذان، کتاب التعبیر )
    اور قسطنطنیہ جسے اب استنبول کہا جاتا ہے، اس پر سب سے پہلے جس لشکر نے حملہ کیا تھا اس کا امیر یزید بن معاویہ :rda: تھا۔ یہاں میں رضی اللہ عنہ کا استعمال حضرت معاویہ :rda: کے لئے کیا ہے نہ کہ یزید کے لئے۔
    خیر مقصود اس روایت کے بیان سے یہ ہے کہ یزید کے بارے میں جب کوئی نص وارد نہیں ہوئی تو اس پر لعن کر کے بلا وجہ اپنی آخرت کیوں خراب کی جائے؟
    کیا یزید کے بارے میں قبر میں سوال ہو گا ؟
    ہاں البتہ اسے رضی اللہ عنہ بھی نہیں کہنا چاہئیے جیسا ڈاکٹر ذاکر نائیک نے کہا۔
    اور رہا میلاد کا مسئلہ تو وہ بھی ایک بدعت ہے۔
    لیکن ڈاکٹر اسرار نے میلاد والوں کے خلاف جو جہاد کا لفظ استعمال کیا ہے اس کی حقیقت بھی واضح ہونی چاہئیے۔ کیا اس سے قتال مراد ہے یا ان کو سمجھانا ؟
     
  9. پاکیزہ
    آف لائن

    پاکیزہ ممبر

    شمولیت:
    ‏10 جولائی 2009
    پیغامات:
    249
    موصول پسندیدگیاں:
    86
    جواب: اسلام کو درپیش فتنہ ۔ عدم اعتدال ۔ ڈاکُمنٹری

    یزید کم بخت کا دفاع دنیا میں سوائے خارجی ذہنیت اور دشمنان اہلبیت اطہار کے اور کوئی نہیں کرتا۔ وہی سچی جھوٹی دلیلیں نکال کر اس بدبخت کا دفاع کرتے ہیں۔
    حیرت ہے کہ یہاں بھی یزید کے دفاع کرنے کی ضرورت محسوس ہوگئی۔ اسکو جنتی ثابت کرنا بھی ضروری ٹھہرا ۔ لیکن رسول پاک علیہ الصلوۃ‌ والسلام کی پیدائش کی خوشی میں محافل نعت اور محافل درودوسلام منعقد کرنے والوں کو بدعت کہہ کر ان کے خلاف جہاد اور نفرت کا سبق دینے والوں میں‌کوئی برائی ہی نظر نہیں آتی۔

    ویسے مجھے تو یہ کلپ کسی شخصیت کے خلاف نہیں بلکہ ایک طرز فکر کی نشاندہی کےلیے بنایا گیا لگتا ہے۔ اور ایک مفید چیز ہے۔
     
  10. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: اسلام کو درپیش فتنہ ۔ عدم اعتدال ۔ ڈاکُمنٹری

    ماہ ربیع الاول میں بالعموم اور بارہ بارہ ربیع الاول کو بالخصوص آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت کی خوشی میں پورے عالم اسلام میں محافل میلاد منعقد کی جاتی ہیں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا میلاد منانا جائز و مستحب ہے اور اس کی اصل قرآن و سنت سے ثابت ہے۔
    ارشاد باری تعالی ہوا ، ( اور انہیں اللہ کے دن یاد دلاؤ ) ۔ ( ابراہیم ، ۵ ) امام المفسرین سیدنا عبد اللہ بن عباس ( رضی اللہ عنہما ) کے نزدیک ایام اللہ سے مراد وہ دن ہیں۔جن میں رب تعالی کی کسی نعمت کا نزول ہوا ہو ۔ ( ان ایام میں سب سے بڑی نعمت کے دن سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت و معراج کے دن ہیں ، ان کی یا د قائم کرنا بھی اس آیت کے حکم میں داخل ہے)۔ (تفسیر خزائن العرفان)
    بلاشبہ اللہ تعالی کی سب سے عظیم نعمت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مقدسہ ہے ۔ ارشاد باری تعالی ہوا ، ( بیشک اللہ کا بڑا احسان ہوا مسلمانوں پر کہ ان میں انہیں میں سے ایک رسول بھیجا)۔ (آل عمران ،۱۶۴)
    آقا و مولی صلی اللہ علیہ وسلم تو وہ عظیم نعمت ہیں کہ جن کے ملنے پر رب تعالی نے خوشیاں منانے کا حکم بھی دیا ہے ۔ ارشاد ہوا ، ( اے حبیب ! ) تم فرماؤ ( یہ ) اللہ ہی کے فضل اور اسی کی رحمت ( سے ہے ) اور اسی چاہیے کہ خوشی کریں ، وہ ( خو شی منانا ) ان کے سب دھن و دولت سے بہتر ہے ) ۔ ( یونس ، ۵۸ ) ایک اور مقام پر نعمت کا چرچا کرنے کا حکم بھی ارشاد فرما یا، (اور اپنے رب کی نعمت کا خوب چرچا کرو)۔ (الضحی ۱۱، کنز الایمان)
    خلاصہ یہ ہے کہ عید میلاد منانا لوگوں کو اللہ تعالی کے دن یا د دلانا بھی ہے، اس کی نعمت عظمی کا چرچا کرنا بھی اور اس نعمت کے ملنے کی خوشی منانا بھی۔ اگر ایمان کی نظر سے قرآن و حدیث کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ذکر میلاد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالی کی سنت بھی ہے ۔ اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت بھی۔
    سورہ آل عمران کی آیت ( ۸۱ ) ملاحظہ کیجیے ۔ رب ذوالجلا ل نے کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کرام کی محفل میں اپنے حبیب لبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد اور فضائل کا ذکر فرمایا ۔ گویا یہ سب سے پہلی محفل میلاد تھی جسے اللہ تعالی نے منعقد فرمایا ۔ اور اس محفل کے شرکاء صرف انبیاء کرام علیہم السلام تھے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دنیا میں تشریف آوری اور فضائل کا ذکر قرآن کریم کی متعدد آیات کریمہ میں موجود ہے۔
    رسول معظم صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک زمانہ کی چند محافل کا ذکر ملاحظہ فرمائیے۔ آقا و مولی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود مسجد نبوی میں منبر شریف پر اپنا ذکر ولادت فرمایا۔ (جامع ترمذی ج ۲ ص ۲۰۱) آپ نے حضرت حسان رضی اللہ عنہ کے لیے منبر پر چادر بچھائی اور انہوں نے منبر پر بیٹھ کر نعت شریف پڑھی، پھر آپ نے ان کے لیے دعا فرمائی۔ (صحیح بخاری ج ۱ ص ۶۵) حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے غزوہ تبوک سے واپسی پر بارگاہ رسالت میں ذکر میلاد پر مبنی اشعار پیش کیے (اسد الغابہ ج ۲ ص ۱۲۹)
    اسی طرح حضرات کعب بن زبیر ، سواد بن قارب ، عبد اللہ بن رواحہ ، کعب بن مالک و دیگر صحابہ کرام ( رضی اللہ عنہم ) کی نعتیں کتب احادیث و سیرت میں دیکھی جاسکتی ہیں ۔ بعض لوگ یہ وسوسہ اندازی کرتے ہیں کہ اسلام میں صرف دو عید یں ہیں لہذا تیسری عید حرام ہے ۔ ( معاذ ا للہ ) اس نظریہ کے باطل ہونے کے متعلق قرآن کریم سے دلیل لیجئے ۔ ارشاد باری تعالی ہے ، ( عیسیٰ بن مریم نے عرض کی ، اے اللہ ! اے ہمارے رب ! ہم پر آسمان سے ایک ( کھانے کا ) خوان اتار کہ وہ ہمارے لیے عید ہو ہمارے اگلوں پچھلوں کی)۔ (المائدہ ، ۱۱۴، کنزالایمان)
    صدر الافاضل فرماتے ہیں ، ( یعنی ہم اس کے نزول کے دن کو عید بنائیں ، اسکی تعظیم کریں ، خوشیاں منائیں ، تیری عبادت کریں ، شکر بجا لا ئیں ۔ اس سے معلوم ہو ا کہ جس روز اللہ تعالی کی خاص رحمت نازل ہو ۔ اس دن کو عید بنانا اور خوشیاں بنانا ، عبادتیں کرنا اور شکر بجا لانا صالحین کا طریقہ ہے ۔ اور کچھ شک نہیں کہ سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری اللہ تعالی کی عظیم ترین نعمت اور بزرگ ترین رحمت ہے اس لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت مبارکہ کے دن عید منانا اور میلاد شریف پڑھ کر شکر الہی بجا لانا اور اظہار فرح اور سرور کرنا مستحسن و محمود اور اللہ کے مقبول بندوں کا طریقہ ہے ) ۔ ( تفسیر خزائن العرفان )۔
    حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے آیت (الیوم اکملت لکم دینکم ) تلاوت فرمائی تو ایک یہود ی نے کہا، اگر یہ آیت ہم پر نازل ہوتی تو ہم اس دن کو عید مناتے۔ اس پر آپ نے فرمایا ، یہ آیت جس دن نازل ہوئی اس دن دو عیدیں تھیں، عید جمعہ اور عید عرفہ۔ (ترمذی) پس قرآن و حدیث سے ثابت ہوگیا کہ جس دن کوئی خاص نعمت نازل ہو اس دن عید منانا جائز بلکہ اللہ تعالی کے مقرب نبی حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور صحابہ کرام علیہم الرضوان کی سنت ہے۔ چونکہ عید الفطر اور عید الاضحی حضور ﷺ ہی کے صدقے میں ملی ہیں اس لیے آپ کا یوم میلاد بدرجہ اولی عید قرار پایا۔
    عید میلاد پہ ہوں قربان ہماری عیدیں
    کہ اسی عید کا صدقہ ہیں یہ ساری عیدیں
    شیخ عبد الحق محدث دہلوی قدس سرہ اکابر محدثین کے حوالے سے فرماتے ہیں کہ شب میلاد مصفطے صلی اللہ علیہ وسلم شب قدر سے افضل ہے، کیونکہ شب قدر میں قرآن نازل ہو اس لیے وہ ہزار مہنوں سے بہتر قرار پائی تو جس شب میں صاحب قرآن آیا وہ کیونکہ شب قدر سے افضل نہ ہو گی؟ (ماثبت بالستہ)
    جس سہانی گھڑی چمکا طیبہ کا چاند
    اس دل افروز ساعت پہ لاکھوں سلام
    صحیح بخاری جلد دوم میں ہے کہ ابو لہب کے مرنے کے بعد حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے اسے خ-واب میں بہت بری حالت میں دیکھا اور پوچھا ، مرنے کے بعد تیرا کیا حال رہا؟ ابو لہب نے کہا، تم سے جدا ہو کر میں نے کوئی راحت نہیں پائی سوائے اس کے کہ میں تھوڑا سا سیراب کیا جاتا ہوں کیونکہ میں نے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کی پیدائش کی خوشی میں اپنی لونڈی ثویبہ کو آزاد کیا تھا۔ امام ابن جزری فرماتے ہیں کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے میلاد کی خوشی کی وجہ سے ابو لہب جیسے کافر کا یہ حا ل ہے کہ اس کے عذاب میں کمی کردی جاتی ہے ۔ حالانکہ ا س کی مذمت میں قرآن نازل ہوا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مومن امتی کا کیا حال ہوگا ۔ جو میلاد کی خوشی میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے سبب مال خرچ کرتا ہے ۔ قسم ہے میری عمر کی ، اس کی جزا یہی ہے کہ اللہ تعالی اسے اپنے افضل و کرم سے جنت نعیم میں داخ-ل فرمادے ۔ ( مواہب الدنیہ ج ۱ ص ۲۷ ، مطبوعہ مصر )
    اب ہم یہ جائزہ لیتے ہیں کہ خالق کائنات نے اپنے محبوب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا جشن عید میلاد کیسے منایا؟ سیرت حلبیہ ج ۱ص ۷۸ اور خصائص کبری ج۱ ص ۴۷ پر یہ روایت موجود ہے کہ (جس سال نور مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا کو ودیعت ہوا وہ سال فتح و نصرت ، تر و تازگی اور خوشحالی کا سال کہلایا۔ اہل قریش اس سے قبل معاشی بد حالی اور قحط سالی میں مبتلا تھے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کی برکت سے اس سال رب کریم نے ویران زمین کو شادابی اور ہریالی عطا فرمائی، سوکھے درخت پھلوں سے لدگئے اور اہل قریش خوشحال ہوگئے ) ۔ اہلسنت اسی مناسبت سے میلاد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کی خوسی میں اپنی استطاعت کے مطابق کھانے، شیرینی اور پھل وغیرہ تقسیم کرتے ہیں ۔
    عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے موقع پر شمع رسالت کے پروانے چراغاں بھی کرتے ہیں ۔ اس کی اصل مندرجہ ذیل احادیث مبارکہ ہیں۔ آقا و مولی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے ، (میری والدہ ماجدہ نے میری پیدائش کے وقت دیکھا کہ ان سے ایسا نور نکلا جس سے شام کے محلات روشن ہوگئے(۔ (مشکوہ)
    حضرت آمنہ ( رضی اللہ عنہا ) فرماتی ہیں ، ( جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت ہوئی تو ساتھ ہی ایسا نور نکلا جس سے مشرق سے مغرب تک ساری کائنات روشن ہوگئی ) ۔ (طبقاب ابن سعد ج ۱ ص ۱۰۲، سیرت جلسہ ج ۱ ص ۹۱)
    ہم تو عید میلاد صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشی میں اپنے گھروں ا ور مساجد پر چراغاں کرتے ہیں ، خالق کائنات نے نہ صرف سا ر ی کائنات میں چراغاں کیا بلکہ آسمان کے ستاروں کو فانوس اور قمقمے بنا کر زمین کے قریب کردیا ۔ حضرت عثمان بن ابی العاص ( رضی اللہ عنہ ) کی والدہ فرماتی ہیں ، ( جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت ہوئی میں خانہ کعبہ کے پاس تھی ، میں نے دیکھا کہ خانہ کعبہ نور سے روشن ہوگیا ۔ اور ستارے زمین کے اتنے قریب آگئے کہ مجھے یہ گمان ہوا کہ کہیں وہ مجھ پر گر نہ پڑیں ) ۔ ( سیرت حلبیہ ج ۱ ص ۹۴ ، خصائص کبری ج۱ ص ۴۰ ، زرقانی علی المواہب ۱ ص ۱۱۶)
    سیدتنا آمنہ ( رضی اللہ عنہا ) فرماتی ہیں ، ( میں نے تین جھندے بھی دیکھے ، ایک مشرق میں گاڑا گیا تھا ۔ دوسرا مغرب میں اور تیسرا جھنڈا خا نہ کعبہ کی چھت پر لہرارہا تھا ) ۔ ( سیرت حلبیہ ج ۱ ص ۱۰۹ ) یہ حدیث ( الو فابا حوال مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم ) مےں محدث ابن جوزی نے بھی روایت کی ہے ۔ اس سے میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے موقع پر جھنڈے لگانے کی اصل بھی ثابت ہوئی۔
    عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے موقع پر جلوس بھی نکالا جاتا ہے اور نعرئہ رسالت بلند کیے جاتے ہیں۔ اس کی اصل یہ حدیث پاک ہے کہ جب آقا و مولی صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کر کے مدینہ طیبہ تشریف لائے تو اہلیان مدینہ نے جلوس کی صورت میں استقبال کیا۔ حدیث شریف میں ہے کہ مرد اور عورتیں گھروں کی چھتوں پر چرھ گئے اور بچے اور خدام گلیوں میں پھیل گئے، یہ سب با آواز بلند کہہ رہے تھے، یا محمد یا رسول اللہ ، یا محمد یا رسول اللہ ۔ (صلی اللہ علیہ وسلم) ۔(صحیح مسلم جلد دوم باب الھجرہ)
    جشن عید میلا د النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شرعی حیثیت بیان کرنے کے بعد اب چند تاریخی حوالہ جات پیش خدمت ہیں ۔ جن سے ثا بت ہو جائے گا کہ محافل میلاد کا سلسلہ عالم اسلام میں ہمیشہ سے جاری ہے ۔
    محدث ابن جوزی رحمہ اللہ (متوفی ۵۹۷ ھ) فرماتے ہیں، (مکہ مکرمہ ، مدینہ طیبہ ، یمن ، مصر، شام اور تمام عالم اسلام کے لوگ مشرق سے مغرب تک ہمیشہ سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت کے موقع پر محافل میلاد کا انعقاد کرتے چلے آرہے ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ اہتمام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کے تذکرے کا کیا جاتا ہے اور مسلمان ان محافل کے ذریعے اجر عظیم اور بڑی روحانی کامیابی پاتے ہیں)۔ (المیلاد النبوی ص ۵۸)
    امام ابن حجر شافعی ( رحمہ اللہ ) ۔ ( م ۸۵۲ ھ ) فرماتے ہیں ، ( محافل میلاد و اذکار اکثر خیر ہی پر مشتمل ہوتی ہیں کیونکہ ان میں صدقات ذکر الہی اور بارگاہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں درود و سلام پیش کیا جاتا ہے)۔ (فتاوی حدیثیہ ص ۱۲۹)
    امام جلال الدین سیوطی ( رحمہ اللہ ) ۔ ( م ۹۱۱ ھ ) فرماتے ہیں ، ( میرے نزدیک میلاد کے لیے اجتماع تلاوت قرآن ، حیات طیبہ کے واقعات اور میلاد کے وقت ظاہر ہونے والی علامات کا تذکرہ ان بدعات حسنہ میں سے ہے ۔ جن پر ثواب ملتا ہے ۔ کیونکہ اس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم اور آپ کی ولادت پر خوشی کا ا ظہا ر ہوتا ہے ) ۔ ( حسن المقصد فی عمل المولدنی الہاوی للفتاوی ج ۱ ص ۱۸۹)
    امام قسطلانی شارح بخاری رحمہ اللہ (م ۹۲۳ھ) فرماتے ہیں، (ربیع الاول میں تمام اہل اسلام ہمیشہ سے میلاد کی خوشی میں محافل منعقد کرتے رہے ہیں۔ محفل میلادکی یہ برکت مجرب ہے کہ اس کی وجہ سے سارا سال امن سے گزرتا ہے ۔ اور ہر مراد جلد پوری ہوتی ہے۔ اللہ تعالی اس شخص پر رحمتیں نازل فرمائے جس نے ماہ میلاد کی ہر رات کو عید بنا کر ایسے شخص پر شدت کی جس کے دل میں مرض و عناد ہے)۔ (مواہب الدنیہ ج ۱ ص ۲۷)
    شاہ عبد الرحیم محدث دہلوی رحمہ اللہ ( والد شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ ، م ۱۱۷۶ ھ ) فرماتے ہیں کہ میں ہر سال میلاد شریف کے دنوں میں کھانا پکوا کر لوگوں کو کھلایا کرتا تھا ۔ ایک سال قحط کی وجہ سے بھنے ہوئے چنوں کے سوا کچھ میسر نہ ہو ا ، میں نے وہی چنے تقسیم کرد یے ۔ رات کو خواب میں آقا و مولی صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت سے مشرف ہو اتو دیکھا کہ وہی بھنے ہوئے چنے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے رکھے ہوئے ہیں اور آپ بیحد خوش اور مسرور ہیں۔ (الدار الثمین ص ۸)
     
  11. وسیم
    آف لائن

    وسیم ممبر

    شمولیت:
    ‏30 جنوری 2007
    پیغامات:
    953
    موصول پسندیدگیاں:
    43
    جواب: اسلام کو درپیش فتنہ ۔ عدم اعتدال ۔ ڈاکُمنٹری

    آپ سب کا کلپ دیکھنے اور اپنی آراء سے نوازنے کا بہت شکریہ ۔ بالخصوص ہارون رشید بھائی آپ کا شکریہ کہ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جواز کو قرآن و حدیث اور آئمہ کبار کی تعلیمات کی روشنی میں واضح کیا۔ جزاک اللہ خیر
     

اس صفحے کو مشتہر کریں