1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

جن کے لئے دنیا جہنم بن گئی-1

'متفرقات' میں موضوعات آغاز کردہ از m aslam oad, ‏27 جون 2010۔

  1. m aslam oad
    آف لائن

    m aslam oad ممبر

    شمولیت:
    ‏15 جنوری 2010
    پیغامات:
    224
    موصول پسندیدگیاں:
    8
    گستاخانہ خاکے بنانے والے اور اسلام، قرآن یا نبی آخر الزماں محمدﷺ کی شان میں گستاخی کرنے والے آج دنیا میں کن حالات سے دوچار ہیں اور کیسی زندگی بسر کر رہے ہیں، چند اقساط میں ہم ایسے ہی بدبختوں کی عبرتناک زندگی کا احوال بیان کریں گے تاکہ سب کو نصیحت ہو۔
    گھر کے چار اطراف پولیس تھی.... خفیہ اہلکار سادہ لباس میں گشت پر تھے۔ کھڑکیاں دروازے سب بند تھے۔ آس پاس ہونے والی معمولی حرکات و سکنات کو نوٹ کرنے کے لئے سکیورٹی کیمرے نصب تھے.... گھر کے اندر ایک شخص اپنی پوتی کے ساتھ کھیل رہا تھا.... یہ شخص گزشتہ 4 سال سے اس گھر میں چھپ کر بیٹھا ہوا تھا.... وہ جہاں بیٹھا تھا اس کے بالکل ساتھ لیٹرین کا دروازہ تھا، وہ زیادہ تر اسی دروازے کے پاس بیٹھتا تھا۔ اچانک اس کے سامنے والی دیوار کی کھڑکی تڑاخ سے ٹوٹی، گھر کے اندر بیٹھے شخص کے رونگھٹے کھڑے ہو گئے، جسم ڈھیلا اور آنکھیں پتھرانے لگیں، کھڑکی سے ایک سیاہ فام نوجوان نے سر نکالا جس کے ایک ہاتھ میں کلہاڑی اور دوسرے میں چاقو تھا۔ سیاہ فام نوجوان نے نعرہ تکبیر بلند کیا اور چھلانگ لگائی۔ وہ شخص سمجھ گیا کہ یہ نوجوان اسے قتل کرنے آیا ہے۔ اس نے آﺅ دیکھا نہ تاﺅ.... اپنے قریب واقع دروازہ کھولا اور لیٹرین میں گھس گیا، یہ جگہ اصل میں بھی لیٹرین ہی تھی لیکن یہ اس گھر کا سب سے مضبوط اور محفوظ مقام بھی تھا۔ اس کا دروازہ بلٹ پروف تھا۔ اسے خاص طور پر محفوظ بنایا اور جدید سہولیات سے آراستہ کیا گیا تھا اور اسے Panic room کا نام دیا گیا تھا۔ اس شخص نے اندر گھستے ہی باہر موجود اور شہر کی پولیس کو فون شروع کر دیئے۔ پولیس اہلکاروں کی بڑی تعداد اندر داخل ہوئی۔ سیاہ فام نوجوان کو دیکھتے ہی انہوں نے زبردست فائرنگ شروع کر دی۔ کئی گولیاں نوجوان کے جسم میں پیوست ہو گئیں اور وہ گر پڑا، اسے اٹھا کر ہسپتال پہنچایا گیا اور سخت پہرہ لگا دیا گیا۔
    یہ واقعہ سال رواں کے ماہ جنوری میں ڈنمارک کے دوسرے بڑے شہرaahrus میں پیش آیا جہاں ڈنمارک کا گستاخ خاکہ نویس کرٹ ویسٹ گارڈ رہائش پذیر تھا۔ کرٹ کو حکومت ڈنمارک نے سخت سکیورٹی فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ بتایا تھا کہ اسے قتل کرنے کے خواہش مند بچوں اور دیگر اہل خاندان پر کبھی وار نہیںکرتے بلکہ اپنے مخصوص ہدف ہی کو نشانہ بناتے ہیں۔ یہ بات اسے ڈنمارک کی سکیورٹی اور انٹیلی جنس ایجنسی جسے PET کہا جاتا ہے نے بھی بتائی تھی۔ اس لئے اس کی پوتی اکثر اس کے پاس ہی رہتی تھی۔
    کرٹ ویسٹ گارڈ ڈنمارک کے ان 12 کارٹونسٹوں میں سے تھا جنہوں نے خاکے بنائے تھے۔ خاکے بنانے والے تمام کارٹونسٹ آج کل اس طرح چوروں کی سی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ کرٹ ویسٹ گارڈ کے بارے میں عالمی ذرائع ابلاغ نے بتایا کہ اب اس کی زندگی بالکل بدل کر رہ گئی ہے، وہ زندہ لاش بن گیا ہے۔ حملے کے بعد معروف عالمی برطانوی اخبار گارڈین نے اس کا انٹرویو شائع کیا جس میں اس کے شب و روز کے بارے میں مختصراً بتایا گیا۔ ویسٹ گارڈ کا کہنا تھا کہ جس گھر میں وہ رہتا ہے وہ دیکھنے کو تو عام سا گھر ہے لیکن دراصل یہ Fortress without moat ہے۔ یعنی ایسا قلعہ جس کے گرد بظاہر وہ چوڑی اور گہری خندق موجود نہیں جس میں دشمن کو روکنے کے لئے پانی بھی بھر دیا جاتا ہے۔
    چار اطراف سکیورٹی کیمرے ہیں اور کھڑکیاں دروازے انتہائی مضبوط۔ وہ گھر سے باہر نہیں نکل سکتا، اسے اپنا شیڈول ہر مہینے تبدیل کرنا پڑتا ہے۔ ہر وقت اپنے ساتھ الارم اور اس کے مقام کی نشاندہی کرنے والے آلات ”نصب“ کرنے پڑتے ہیں جہاں وہ موجود ہوتا ہے۔ پولیس کی گاڑیاں اس کے ساتھ چلتی ہیں۔ خاکے بنانے کے بعد جب ویسٹ گارڈ کے یہ حالات ہوئے تو اس نے کہا تھا کہ اس نے جو خاکہ بنایا ہے وہ مسلمانوں کے نبی حضرت محمدﷺ کا نہیں بلکہ وہ تو کسی عام انتہا پسند کی شبیہہ ہے۔ مثلاً کوئی طالبان جنگجو.... ایسا ہی حال دوسرے خاکوں کا بھی ہے لیکن انہیں the face of muhammad کی سرخی کے تحت چھاپ دیا گیا تھا جس کی وجہ سے یہ بہانہ نہ چل سکا کیونکہ اخبار نے تو مقابلہ ہی گستاخانہ خاکوں کا کرایا تھا۔
    ویسٹ گارڈ کا کہنا تھا کہ اس واقعہ کے بعد ڈنمارک کو جن حالات کا سامنا کرنا پڑا وہ دوسری جنگ عظیم کے بعد سب سے بدترین تھے۔ یہ 2007ءکی بات ہے ویسٹ گارڈ اپنی بیوی کے ہمراہ چھٹیاں منانے فرانس جانا چاہتا تھا، وہ مکمل تیاری کے بعد گھر سے نکلنے والے تھے کہ PET نے انہیں کہا کہ ان کی جان کو خطرہ ہے وہ یہاں سے باہر نہ جائیں۔ ویسٹ گارڈ کے الفاظ میں ”اس کے بعد ہمارے ساتھ کیا ہوا....؟ میں نے آسمان تک نہیں دیکھا، ایسے لگا کسی سمندر کی سی گہرائی ہے۔ سب کچھ ٹھنڈا پڑ چکا ہے۔ ذہنی دباﺅ ہے.... مایوسی کے سخت اندھیرے ہیں۔
    یہاں سے ہم ایک چھوٹے ہوٹل (جسے holiday cottage کہا جاتا ہے) سے دوسرے تک منتقل ہوئے تو ہمیں 9 مرتبہ مقامات تبدیل کرنے پڑے، 9 مختلف گاڑیوں میں بار بار سوار ہونا پڑا، ہم کسی جگہ 4 ہفتے سے زیادہ قیام نہیں کر سکے“۔
    ویسٹ گارڈ اب اپنی لائبریری سے بھی دور ہے۔ اس کا اپنا کمرہ اور بیڈ اسے نصیب نہیں، اس کا کہنا ہے کہ وہ بے تحاشہ شراب پیتا ہے اور کوئی رات نہیں گزرتی جب وہ خوب پی کر نہ سوتا ہو۔ اس پر اس کی بیوی بھی اسے کوئی برا بھلا نہیں کہتی، بلکہ اب تو وہ ایک دوسرے سے کہہ رہے ہوتے ہیں کہ ”ہم تو بس قید ہیںہم یہ بھی نہیں بتا سکتے ہیں کہ ہم نے یہاں کتنا ٹھہرنا ہے اور یہ کہ ہمارے اردگرد ہو کیا رہا ہے“ ایک دفعہ انہوں نے انتہائی احتیاط سے باہر نکلنے کی کوشش کی۔ باہر پہنچتے ہی اس کی گاڑی کے پاس چار افراد آئے۔ وہ مشرق وسطیٰ کے باشندے لگتے تھے، 2 مرد اور 2 خواتین تھیں، انہوں نے آتے ہی کہا کہ ”تم جہنم میں جاﺅ گے تم جہنم میں جاﺅ گے“ اس بات پر پولیس کو بلایا گیا لیکن پولیس کے آتے آتے دیر ہو گئی اور وہ لوگ جا چکے تھے۔ بات یہیں تک نہیں ہے اب تو اس کی بیوی جو چھوٹے بچوں کے ایک kindergarten سکول میں پڑھاتی ہے کو مقامی حکام نے فون کے ذریعے سے منع کر دیا کہ وہ اب سکول نہ جائے، اس کے مطابق ”یہ صورتحال انتہائی خوفناک تھی کہ ہمیں معاشرے میں اب کیا سمجھا جا رہا ہے....“ بات صرف اسی ایک بڑے حملے کی ہی نہیں اگر اسے اپنے خاندان میں سے کوئی اپنی پارٹی میں بلانا چاہتا ہے تو وہ پہلے انٹیلی جنس کو فون کرتا ہے کہ (کرٹ ویسٹ گارڈ کو) بلانا کیسا رہے گا اور کیا خطرے کا باعث تو نہیں ہو گا ”اب وہ صرف پناہ گاہ میں محصور ہے دفتر تک نہیں جا سکتا۔ گارڈین کے نمائندے میرے لوئیس سجوے نے بتایا کہ ”جب میں اس سے آخری بار ملا تو اداسی کے گھٹا ٹوپ اندھیروں (melancholy) میں ڈوبا ہوا تھا جو اس کی آنکھوں سے جھلک رہے تھے۔ وہ ناراض تھا اور بغاوت پر آمادہ، اس کا کہنا تھا وہ ”بذات خود اپنے آپ کو بہادر انسان نہیں پاتا۔ اگر ملک پر قبضہ ہونے جائے تو میں نہیں سمجھتا کہ مجھے جان بوجھ کر شدید نقصان کرنا چاہئے۔ میں کہیں بھی بیٹھ کر ڈرائننگ بنانا چاہوں گا لیکن موجودہ صورتحال میں تو میں پریشان ہو جاﺅں گا، یہ تو درست نہیں ہے کہ آپ اپنے ملک میں بھی اپنا کام کرتے ہوئے شدید خطرات سے دوچار ہو جائیں۔ میرے ساتھ جو ہو رہا ہے وہ ناقابل برداشت ہے، کیونکہ یہ سب حالات تو مجھے بغاوت پر آمادہ کر رہے ہیں میں تو کم از کم ان سب کا حق دار نہیں تھا۔
    (جاری ہے)
    http://www.thrpk.org/data1/articles/aliimranshaheen01.htm
     
  2. m aslam oad
    آف لائن

    m aslam oad ممبر

    شمولیت:
    ‏15 جنوری 2010
    پیغامات:
    224
    موصول پسندیدگیاں:
    8
    جن کے لئے دنیا جہنم بن گئی-2.

    ڈنمارک کے کرٹ ویسٹ گارڈ کے متعلق ابھی لکھ کر فارغ ہی ہوا تھا کہ پتہ چلا کہ اس نے جیلینیڈ پوسٹن نامی اخبار چھوڑ دیا ہے اور نوکری ختم کر دی ہے۔ ملعون کارٹونسٹ کا اس سلسلے میں کہنا تھا کہ وہ چاہتا ہے کہ مسلمانوں کے جذبات شاید اسی طرح ٹھنڈے پڑ جائیں او وہ اس کی جاں بخشی کر دیں اور وہ دوبارہ سے عام انسانوں کی سی زندگی گزارنے کے قابل ہو سکے لیکن.... کیا اب ایسا ممکن ہے....؟ یقینا نہیں یہ تو اس کا اب خواب ہی ہے جو شاید کبھی پورا نہ ہو گا۔ ہمیں تو یقین ہے کہ اب اس ملعون کو بھی امن و سکون تب ہی ملے گا جب وہ اس نبی مکرم محمدﷺ کا حکم پڑھ کر ان کا امتی بننے کا اعلان کرے گا جن کی اس نے اپنے طور پر توہین کی کوشش کی تھی (ہمارا تو ایمان ہے کہ نبی مکرمﷺ کی کافر توہین کرنے میں کامیاب ہو ہی نہیں سکتے) ابھی یہی کچھ سوچ رہا تھا کہ مولانا امیر حمزہ صاحب بتانے لگے کہ ہالینڈ سے تعلق رکھنے والا ایک صحافی ان کے پاس انٹرویو کے لئے آ رہا ہے لہٰذا آپ بھی پاس تشریف رکھیں۔ ہالینڈ کے سب سے بڑے نیوز گروپ GDP کے اس صحافی نے بتایا کہ ان کے ملک کا ایک بڑا سیاستدان جس کا نام ویلڈر ہے نے ”فتنہ“ نامی فلم بنائی تھی اور اسلام، قرآن اور نبی کریم محمدﷺ کے بارے میں نازیبا انداز و الفاظ استعمال کر کے مسلمانوں کے جذبات سے کھلواڑ کیا تھا آج کل شدید مشکلات سے دوچار ہے، اس کے چار اطراف پولیس کا پہرہ ہتا ہے۔ آزادانہ گھوم پھر نہیں سکتا، ہالینڈ میں کسی کو معمولی سے معمولی اسلحہ رکھنے کی اجازت نہیں، ملک دنیا کے پرامن ترین خطوںمیں شمار ہوتا ہے لیکن ویلڈر کو محسوس ہوتا ہے جسے موت اس کے ساتھ سائے کی طرح چل رہی ہو۔ اس پر چھوٹے موٹے حملے بھی ہوئے۔ وہ ملک سے باہر جانے سے خوفزدہ ہے۔ روپ بدلتا رہتا ہے.... اس کی زندگی انتہائی مشکل ہو چکی ہے، یہیں سے سویڈن کا خیال آیا۔ یہ ملک بھی دنیا کے پرامن ترین ممالک میں شمار ہوتا ہے۔ یہاں بھی اسلحہ کے حوالے سے ہالینڈ کا ہی قانون لاگو ہے۔ اس ملک کے دارالحکومت کا نام سٹاک ہوم ہے، جہاں کی اوپسالا یونیورسٹی میں لارس ولکس نامی شخص کا 11 مئی 2010ءکو خصوصی لیکچر رکھا گیا ہے۔ یہ وہی شخص ہے جس نے 2007ءمیں ایک گستاخانہ بنایا تھا اس وقت سے لے کر آج تک اس کے چار اطراف پولیس کے پہرے رہتے ہیں۔ خفیہ ایجنسیاں اس کی خیرگیری رکھتی ہیں۔ یہاں آتے وقت بھی اس کے ساتھ زبردست سکیورٹی کا اہتمام کیا گیا اور وہ حفاظتی انتظامات کی مکمل کلیئرنس کے بعد یہاں پہنچا تھا۔ اس نے ہال میں پہنچ کر لیکچر کا آغاز کیا ابھی 20 منٹ بیتے تھے کہ اس کی زبان سے ”اسلام“ کا لفظ نکل گیا۔ جس کے ساتھ کوئی توہین آمیز لفظ استعمال کیا گیا تھا اس کے ساتھ ہی پہلی لائن میں بیٹھے ایک شخص نے آﺅ دیکھ نہ تاﺅ، دیوانہ وار ولکس پر حملہ کر دیا۔ ولکس کے چہرے پر مکا لگا، چشمہ ٹوٹ گیا، چکرا کر گر پڑا۔ مزید کئی نوجوان اٹھے انہوں نے لاتوں، مکوں اور گھونسوں کی بارش کر دی۔ پولیس کے اہلکار جو تمام تر سازوسامان سے لیس بڑی تعداد میں کھڑے تھے نے مل کر بڑی مشکل سے ولکس کو باہر نکالا، ہجوم قابو میں نہیں آرہا تھا، پولیس نے آنسو گیس چھوڑنا شروع کی اور ولکس کو بکتر بند گاڑی میں ڈال کر محفوظ مقام کی طرف لے گئی۔ دو روز بعد اسے گھر منتقل کر دیا گیا جہاں پہلے ہی سخت ترین پہرہ لگایا گیا تھا۔ یہاں سکیورٹی کے انتظامات مزید سخت کر دیئے گئے تھے۔ یہاں دو روز ولکس نے جاگتے جاگتے گزار دیتے۔ 16 مئی کی شب اچانک دھماکہ ہوا گھر کی کھڑکیاں ٹوٹیں اور گھر میں آگ لگ گئیں۔ پولیس نے دوڑیں لگا دیں۔ فائر بریگیڈ کو طلب کر کے آگ بجھائی گئی، پتہ چلا کسی نے گھر پر یہ پٹرول بموں سے حملہ کر کے آگ لگا دی تھی۔ سٹاک ہوم کا میڈیا بھی پہنچ گیا، ولکس رو رہا تھا اور کہہ رہا تھا
    Probabey i cant live there any more ”بلا شک و شبہ اب میں یہاں مزید کسی صورت نہیں رہ سکتا“۔
    ولکس کو اسی وقت یہاں سے غائب کر دیا گیا اور نامعلوم مقام پر منتقل کردیا گیا۔ یونیورسٹی پر حملے کرنے والے دو مسلمان گرفتار کر لئے گئے۔ اس سے قبل آئر لینڈ سے بھی چار مسلمانوں جن میں دو خواتین تھیں کو گرفتار کیا گیا تھا جو سب کے سب ولکس پر حملے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔ مارچ میں ہی ایک امریکی مسلمان جس نے اپنا نام ”جہاد جین“ رکھا تھا کو بھی ولکس کے قتل کی سازش کے سلسلے میں گرفتار کیا گیا تھا۔
    ولکس اب تک نامعلوم مقام پر ہے، کسی کو پتہ نہیں وہ کہاں ہے؟ کیا کرتا ہے....؟ اس کے شب و روز کیسے ہیں؟
    (جاری ہے
    http://www.thrpk.org/data1/articles/aliimranshaheen02.htm
     
  3. m aslam oad
    آف لائن

    m aslam oad ممبر

    شمولیت:
    ‏15 جنوری 2010
    پیغامات:
    224
    موصول پسندیدگیاں:
    8
    جواب: جن کے لئے دنیا جہنم بن گئی-3

    وہ گھرمیں تنہا بیٹھی تھی، 7 ماہ بیت گئے تھے، اس نے کسی انسان سے ملاقات کی نہ اسے آسمان یا کبھی دنیا کو دیکھنے کا موقع ملا۔ وہ کوئی قیدی بھی نہیں تھی۔ نہ اس کو کسی نے نظر بند کیا تھا۔ کہنے کو تو اسے دنیا کے کروڑوں انسان جانتے تھے اسے اس کے مداحوں نے بہت سے ایوارڈ دے رکھے تھے۔ جہاں وہ اپنی خود ہی نظربندی کئے بیٹھی تھی اس سے نکل کر اگر دوسری دنیا میں پہنچے تو اسے بہت سے لوگ عزت دینے کے لئے تیار تھے لیکن وہ ان عزت دینے والوں کے پاس بھی جانے سے خوفزدہ تھی کیونکہ نجانے ان تک اسے پہنچنے کا موقع بھی ملتا ہے کہ نہیں کیونکہ بے شمار لوگ ایسے تھے جو اس کے خون کے پیاسے تھے اور اسے مار دینا اپنی زندگی کا سب سے بڑا مشن اور مقصد سمجھتے تھے۔ ان سب کے ذہنوں میں یہ بات تھی کہ اگر وہ اس عورت کو مارنے میں کامیاب ہو گئے تو دنیا و آخرت دونوں میں کامیاب ہو جائیں گے۔ اس لئے وہ دنیا کی ہر مشکل و پریشانی کو بالائے طاق رکھے ہوئے تھے۔ یہ خاتون کون تھی.... اس کا نام دنیا میں تسلیمہ نسرین مشہور تھا۔ وہ 25 اگست 1962ءکو بنگلہ دیش میں پیدا ہوئی۔ انتہائی ذہن و فطین تھی۔ چند کلاسیں پڑھنے کے بعد ہی تحریر کے میدان میں آ گئی۔ نظم و نثر لکھنا شروع کر دی۔ ناول لکھے، اخبارات میں مختلف موضوعات پر کالم اور مضامین لکھے اور خوب نام کمایا۔ 1986ءسے 1993ءتک اس کی نصف درجن کتب بھی شائع ہوئیں، لیکن 1993ءمیں لکھے ناول ”لجا“ یعنی ” بے شرمی“ نے اس کی زندگی بدل دی۔ اس کے ذہن میں یہ فتور آ گیا تھا کہ وہ برصغیر میں مسلمانوں اور ہندوﺅں کو ایک کر سکتی ہے اور اس کے لئے اسلام پر حملے کرنے چاہئیں تاکہ مسلمان ہندوﺅں کی بالادستی تسلیم کرلیں۔ اپنے ناول ”لجا“ میں اس نے ایک ہندو خاندان کو مسلمانوں کے ظلم و ستم کا نشانہ بنتا دکھایا اور مسلمانوں اور اسلام کو ظلم و جابر ثابت کیا اور شعائر اسلامی کو بدلنے کی رائے دی اور نبی مکرمﷺ کے بارے میں نازیبا الفاظ کہے۔ پھر کیا تھا.... اس کے گھر کے باہر ہزاروں لوگ جمع تھے، اس نے پولیس کو پہلے ہی طلب کر رکھا تھا۔ حکومت نے اس کو بڑی مشکل سے بچایا۔ صورتحال جب بگڑنے لگی تو اسے روپ بدل کر انتہائی خفیہ طور پر سویڈن روانہ کر دیا گیا۔ تسلیمہ نے اگلے 10 برس سویڈن اور یورپی ممالک میں چھتے چھپاتے گزار دیئے۔ کافر دنیا اسکو اس کی جرا ¿ت پر اعزازات سے نوازتی اور مسلمانوں کے جذبات سے کھلواڑ کراتی رہی لیکن تسلیمہ کو چین نصیب نہ ہو سکا۔ جنوبی ایشیا کو چھوڑے اسے 10 برس بیت گئے تھے۔ وہ واپس آنا چاہتی تھی لیکن آنہ سکتی تھی۔ چارو ناچار اس نے بھارت آنے کا فیصلہ کیا کیونکہ اسے سب سے بڑی پناہ یہی نظر آئی، کیونکہ بنگلہ دیش حکومت مسلمانوں کے غیظ و غضب کو دیکھتے ہوئے اس کی شہریت منسوخ کرنے پر مجبور ہو گئی تھی اور وہ اب یہاں کبھی نہیں آ سکتی تھی۔ وہ خفیہ طور پر بھارت منتقل ہو گئی۔ یہ 2004ءکی بات تھی یہاں تین سال انتہائی خاموشی اور خفیہ زندگی گزارتے ہوئے بسر کئے کہ اس دوران میں مسلمانوں کو خبر ہو گئی۔ اس پر اس نے بھی کھل کر سامنے آنے کا فیصلہ کیا اور کئی اخبارات میں مضامین لکھنے شروع کئے، وہ دن رات بھارت کی تعریف کرتی، کلکتہ کو اپنی پہلی گود قرار دیتی، ہندوﺅں سے راہ و رسم بڑھاتی لیکن بھارت نے پھر بھی اسے شہریت دینے سے انکار کر دیا اور اسے مرحلہ وار ویزا جاری کرنے کا فیصلہ کیا لیکن کچھ ہی دنوں بعد اس نے ایک بار پھر مسلمانوں اور اسلام کے خلاف کچھ الفاظ لکھ دیئے۔ کلکتہ میں واقع ٹیپو سلطان مسجد کے امام مولانا سید نورالرحمان برکاتی نے اعلان کیا کہ جو اس پر سیاہی پھینکے گا اس کو خصوصی انعام دیا جائے گا۔ اس اعلان نے بھی تسلیمہ کے چھکے چھڑا دیئے لیکن آل انڈیا پرسنل بورڈ نے مارچ 2007ءمیں اس کے قتل پر انعام کا اعلان کردیا۔ تسلیمہ پھر نامعلوم مقام پرمنتقل ہو گئی اور ساری دنیا سے پوشیدہ رہ کر زندگی کی سانسیں پوری کرنے لگی۔ اگست 2007ءکو ایک بار بھارتی مسلمانوں کو اندازہ ہواکہ وہ یہی کہیں چھپی ہوئی ہے کہ کلکتہ میں مسلم علماءنے مشترکہ طور پر ایک مرتبہ پھر اسے ڈھونڈ نکال کر مارنے والے کے لئے منہ مانگے انعام کا اعلان کر دیا۔ ساتھ ہی ساتھ بھارت کو یہ دھمکیاں ملیں کہ اگر تسلیمہ اس ملک میں رہیں تو مجاہدین ہر جگہ حملے کرنے کا حق رکھتے ہیں۔ اس دھمکی کو neo-jihadis کی طرف منسوب کیا گیا جس کا اہتمام بھارتی مسلمانوں کی تنظیم آل انڈیا مائینارٹی فورم نے کیا تھا صورتحال اس قدر خراب ہوئی کہ شہر میں مسلح افواج متعین کر کے حالات کو قابو کیا گیا۔ تسلیمہ کو کلکتہ سے جے پور پہنچایا گیا۔ بھارتی مسلح افواج کے دستے اس کے ہمراہ تھے لیکن وہاں بھی مسلمانوں نے اس کو قدم نہ رکھنے دیا جس کی وجہ سے وہ نئی دہلی منتقل کرنا پڑی۔ یہاں اسے حکومت ہند نے ایک خفیہ مقام پر رہائش دیدی۔ اسے یہاں سات ماہ تک ساری دنیا سے مکمل طور پر الگ تھلگ اور یکہ و تنہا رہنا پڑا۔ وہ یہاں مختلف امراض کا شکار ہوئی لیکن کوئی علاج کے لئے دستیاب نہ ہوا کیونکہ حکومت کو ڈر تھا کہ کہیں مسیحا ہی اس کا قاتل نہ بن جائے، انتہائی اعتماد کے لوگوں کو علاج کے لئے بلایا جاتا، تنہائی نے اس کے سر کے بال تک اڑا دیئے۔ نیند اڑ گئی دیواروں کو گھورنا اس کا معمول بن گیا کہ اسی دوران میں فرانس سے بھارت کو پیشکش ہوئی کہ وہ اسے اس کے ہاں بھیج سکتا ہے، بھارت سرکار نے اس پر سکون کا سانس لیا اور راتوں رات اسے برطانیہ روانہ کر دیا گیا، جہاں سے اس کی اگلی منزل فرانس تھی کیونکہ اب ایمنسٹی انٹرنیشنل نامی ادارہ بھی اس کی مدد کے لئے میدان میں آ چکا تھا۔ نئی دہلی میں اس کی زندگی اس قدر جہنم بنی کہ اس نے اپنی سوانح حیات کی آخری جلد چھپوانے سے انکار کر دیا اور یہ بھی کہہ دیا کہ میں بہت کچھ لکھ رہی ہوں لیکن اسلام کے متعلق کچھ نہیں لکھ رہی اور نہ لکھ سکتی ہوں کیونکہ اب یہ میرا موضوع نہیں ہے۔ اسے اب یورپ میں دوبارہ رہتے ہوئے سوا دو سال ہو چکے ہیں۔ گزشتہ 16 برس کے عرصہ میں بنگلہ دیش میں اس کے ماں باپ مر گئے لیکن وہ انکی آخری رسومات میں شرکت کر سکی اور نہ ان کی میت دیکھ سکی۔ جنوبی ایشیا آنے کا اس کا خواب کسی صورت پورا ہوتا نظر نہیں آتا۔ اس کے تمام رشتہ دار اسے برسوں سے چھوڑ چکے ہیں۔ وہ سخت سکیورٹی کے حصار میں آ جکل نیویارک میں مقیم ہے۔ اس نے زندگی میں تین مرتبہ شادی کی لیکن کوئی شادی کامیاب نہ ہو سکی۔ نیویارک میں رہتے ہوئے اس نے اپنا حلیہ تبدیل کر لیا ہے۔ اس کی زندگی جیتے جی ہی اندھیر ہو چکی ہے کیونکہ اس کا کوئی دوست بھی نہیں، ہر کوئی اس کے پاس جاتے یا اپنے پاس بلاتے ڈرتا ہے کہ کہیں موت اسے ہی نہ آئے۔
    اسلام کی توہین اور محمد کریمﷺ کی شان میں گستاخی کی کوشش نے اس کے لئے ساری دنیا کو اندھیر کر دیا ہے اب وہ دن رات سکون آور مختلف بیماریوں سے مقابلے کی دوائیں کھا کر زندگی کی سانسیں پوری کر رہی ہے جس پر ہر وقت حملے اور موت کا خطرہ طاری ہے۔

    http://www.thrpk.org/data1/articles/aliimranshaheen03.htm
     
  4. ملک بلال
    آف لائن

    ملک بلال منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2010
    پیغامات:
    22,418
    موصول پسندیدگیاں:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: جن کے لئے دنیا جہنم بن گئی-1

    بہت اچھے علی بھئی سبحان اللہ بہت عمدہ چیز شئیر کی آپ نے جذاک اللہ تبصرہ پھر کسی وقت کروں گا۔
    نہ جب تک کٹ مروں میں خواجہ بطحا :drood: کی عزت پہ
    خدا شاہد ہے کامل میرا ایماں ہو نہیں سکتا۔
     
  5. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: جن کے لئے دنیا جہنم بن گئی-1

    شکریہ محترم آپ نے بہت اچھی معلومات فراہم کی ہیں‌
     
  6. نور
    آف لائن

    نور ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جون 2007
    پیغامات:
    4,021
    موصول پسندیدگیاں:
    22
    جواب: جن کے لئے دنیا جہنم بن گئی-1

    علی عود ۔ آپ نے بہت اچھا مضمون ارسال کیا ۔ شکریہ اسکے لیے
     
  7. خوشی
    آف لائن

    خوشی ممبر

    شمولیت:
    ‏21 ستمبر 2008
    پیغامات:
    60,337
    موصول پسندیدگیاں:
    37
    جواب: جن کے لئے دنیا جہنم بن گئی-1

    اس شئیرنگ کے لئے شکریہ ، مگر اس پہ کوئی تبصرہ کرنے سے قاصر ہوں ، کیونکہ اس میں ایک بات کی مجھے سمجھ نہیں‌آئی کہ اگر وہ اپنی جان بچانے کے خوف سے اسلام قبول کر لے تو اسے معاف کر دیا جائے گا؟؟ ؟؟؟؟؟؟؟؟؟ کیا جان کا خوف دلا کے لوگوں کو مسلمان بنایا جائے گا پھر دین میں جبر نہیں کا کیا مطلب ھے؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
     
  8. باباتاجا
    آف لائن

    باباتاجا ممبر

    شمولیت:
    ‏31 مئی 2010
    پیغامات:
    174
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    جواب: جن کے لئے دنیا جہنم بن گئی-1

    یہ تو دنیاوی عذاب ہے آخرت میں ان کا کیا ہوگا
     
  9. m aslam oad
    آف لائن

    m aslam oad ممبر

    شمولیت:
    ‏15 جنوری 2010
    پیغامات:
    224
    موصول پسندیدگیاں:
    8
    جواب: جن کے لئے دنیا جہنم بن گئی-1

    علی عود ۔۔۔نہیں
    بلکہ
    علی اوڈ
     
  10. m aslam oad
    آف لائن

    m aslam oad ممبر

    شمولیت:
    ‏15 جنوری 2010
    پیغامات:
    224
    موصول پسندیدگیاں:
    8
    جواب: جن کے لئے دنیا جہنم بن گئی-1

    :suno: ۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں