1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

کیا ہندی اردو پر غالب آ جائے گی؟

'حالاتِ حاضرہ' میں موضوعات آغاز کردہ از واصف حسین, ‏4 جولائی 2006۔

  1. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
    آپ نے مشہور انگریزی فلمیں اور بچوں کیلئے کارٹون اردو ترجمہ کے ساتھ کی سی ڈی بازار میں ضرور دیکھی ہوں‌گی۔ اس ترجمہ کا زیادہ تر کام انڈیا میں ہو رہا ہے اور عموما یہ ہندی زبان ہے جو اردو کا لیبل لگا کر پاکستان بھیجی جاتی ہے۔
    ان ترجموں کو جس طرح پزیرائی مل رہی ہے، 10 سال بعد پاکستان میں شائد ہی کوئی شخص ایسا ملے جو ہندی اور اردو میں فرق بتا سکے۔
    یہ ہمارے لیئے لمحہء فکریہ ہے۔ صدیوں سے جاری قومی تشخص کی جنگ پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے سے ختم نہیں ہوئی بلکہ اس کا طریقہ کار تبدیل ہوا ہے۔
    میں اپنی اردو کے توسط سے اس اہم نکتے کی طرف نہ صرف آپکی توجہ مبزول کروانا چاہتا ہوں بلکہ یہ بھی چاہتا ہوں کہ ہم سب مل کر اس کا کوئی حل سوچیں۔
     
  2. محمود
    آف لائن

    محمود ممبر

    شمولیت:
    ‏28 جون 2006
    پیغامات:
    88
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    Re: کیا ہندی اردو پر غالب آ جائے گی


    محترم واصف حسین صاحب۔ ہماری اردو میں ہم آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔
    آپ نے بہت اہم بات کی طرف توجہ دلائی ہے۔ محترم اصل میں یہ کام تو حکومتِ وقت کا ہوتا ہے کہ اپنے ملک کے جغرافیائی حدوں کے ساتھ ساتھ ادبی ورثے اور زبان کی بقاء کے لئے اقدامات کرے۔ چونکہ ہماری ہر حکومتِ وقت کو ہمیشہ اپنا ہی ‘وختا‘ پڑا رہتا ہے اس لئے ان ‘پتوں‘ پر تکیہ کرکے ہم اپنا پتہ یعنی زبان کھو دینے کے خطرے سے دو چار ہو سکتے ہیں۔
    رہی بات ہندی کے اردو پر غلبہ پا لینے کی۔ میرے خیال میں ایسا مشکل ہی نہیں نا ممکن ہے۔ اس کے بر عکس موجودہ وقت میں یہ خطرہ خود ہندی زبان کواردو سے لاحق ہے۔بھارتی فلموں اور کمپیوٹر سی ڈیز میں جو زبان ہندی کے نام پر استعمال کی جاتی ہے وہ 80 فی صد سے زیادہ اردو اصل کے الفاظ پر مشتمل ہوتی ہے اور اسی زبان کو پاکستان میں اردو کے نام پر کمپیوٹر سی ڈیز میں استعمال کیا جا رہا ہے۔یعنی یہ ایک ملغوبہ ہے جو ہندی اور اردو کو ملا کر بنایا گیا ہے۔ اور اس کے نُسخے میں ایسے اجزاء شامل کئے گئے ہیں جو پاک و ہند کی ان دو بڑی زبانوں کے بولنے والوں کے لئیے یکساں
    طور پر ‘زُود ہضم‘ہیں۔
    آج اگر بھارت میں کوئی فلم اصلی ہندی زبان میں بنائی جائے تو یہ بات یقینی ہے کہ وہ فلم اپنی لاگت بھی واپس نہیں لا سکے گی اور یہی وہ وجہ ہے کہ ہندی یا اردو کے نام پر یہ ملغوبہ پیش کیا جا رہا ہے۔ آج کی دنیا سائنس اور تکنیک کی دنیا ہے۔ اس دنیا میں کامیاب وہی قوم ہوتی ہے جو وقت کا ساتھ دینے کے لئے خود کو ہمیشہ تیار رکھے۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم نے وقت کے ساتھ چلنا تو درکنار بلکہ وقت کو ‘ریورس گئیر‘ لگانے کی سعی لا حاصل شروع کر رکھی ہے۔ خود تو ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں تو ایسے میں کوئی بھی ہمارے اوپر اپنی زبان اورثقافت مسلط کر سکتا ہے۔ اگر اردو زبان ہندی سے مغلوب یا مرعوب نہیں ہوئی تو بغلیں مت بجائیے اس میں ہمارا
    کوئی دخل یا کمال نہیں۔ بلکہ آفرین کہئے اپنی اردو کو جس کے دامن میں اتنی وسعت ہے کہ یہ دنیا کی کسی بھی زبان کو اپنے اندر سمونے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ یہ تھذیب اور تمدن کی زبان ہے۔اس کے بولنے والوں میں وہ بھی شامل ہیں جو زبان کے نام پر ہم سے الگ ہوئے اور آج کے دور میں اردو کی یہ سب سے بڑی کامیابی ہے کہ اس کے دشمن بھی اس کا دم بھرتے دکھائی دیتے ہیں۔
    بھارت میں بھی آج کل اردو کی ترقی کے لئے کام ہو رہا ہے۔ خلیج اور عرب ممالک میں یہ عربی کے بعد سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان ہے۔ لیکن ہم خود اس کو بے گھر کرنے پر تُلے ہوئے ہیں۔ کیا ایٹم بم بنانے والی پاکستانی قوم کے اندر اتنی صلاحیت نہیں ہے کہ وہ انگریزی فلموں یا کارٹون کی سی ڈیز کو خود اپنی زبان میں منتقل کرے؟
    ہم کب تک اردو کو بے یارومددگار چھوڑتے رہیں گے؟
    والسلام
    محمود
     
  3. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
    اگرچہ آپ کی یہ بات بجا ہے کہ ہندی کے نام پر بنائی جانے والی فلموں میں 80٪ الفاظ اصل اردو کے ہیں لیکن ہمارے بچے اور نوجوان اس بات سے ناواقف ہیں۔ اور جب وہ ان الفاظ کواردو عام بول چال میں دیکھتے ہیں تو یہ خیال کرتے ہیں کہ ہندی اور اردو میں کوئی فرق نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آپ نوجوانوں کی بات چیت میں بہت سے ہندی الفاظ دیکتے ہیں ۔۔۔

    مثال کے طور پر“میں سمجھ گیا“ کو بہت سے لوگ عام بول چال میں “اپُن سمجھ گیا “ بولتے ہیں۔

    رہی بات حکومت کی تو جب تک عوام شامل نہ ہوں حکومت کچھ نہیں کر سکتی۔ یہ بات کہ کر میں حکومت کی طرفداری نہیں کر رہا ہوں۔ اگر میں اپنے ہی بارے میں بات کروں تو میں آج تک کوئی ایسا کام نہیں کر سکا ہوں جو میری زبان اور قومی تشخص کی ترویج کا باعث ہو۔ ہم انفرادی طور پر ایسے بہت سے اقدام کر سکتے ہیں جو اس مقصد کی تکمیل نہ سہی کم از کم اس جد وجہد کو جاری رکھنے کا باعث ضرور بن سکتے ہیں۔ انفرادی جدوجہد کے لئے اقبال کا فلسفہ ہے کہ:-

    افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر ۔۔۔۔ ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارا​

    اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم انفرادی طور پر کیا کریں؟

    ہم میں سے ہر ایک کا ایک حلقہ اثر ہے۔ اگر ہم حکومت کو کوسنے کے بجائے اپنے ارد گرد دیکھیں اور کم از کم اپنے بچوں کو اردو کی طرف راغب کریں۔ (مجھ سمیت بہت سے والدین ایسے ہیں جو بچوں کو اسکول کی کتابوں کے علاوہ کچھ اور پڑھنے پر سرزنش کرتے ہیں، اور کچھ کی کوشش ہوتی ہے کی بچے انگریزی کتب پڑھیں۔ایسے والدین کی تعداد بہت کم ہے جو بچوں کو اردو سے روشناس کرائیں)، تو ہم ایک مثبت سمت میں چلنا شروع ہو سکتے ہیں۔
     
  4. موٹروے پولیس
    آف لائن

    موٹروے پولیس ممبر

    شمولیت:
    ‏26 مئی 2006
    پیغامات:
    1,041
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    واصف بھائی سب سے پہلے آور اردو پر خوش آمدید
    آپ کی تحریر کو پڑھا تو یہ سوچ کر اچھا لگا کہ آپ جیسے لوگ ابھی ہیں جو اردو کے

    متعلق بہت اچھی سوچ رکھتے ہیں جن فلموں کا آپ نے ذکر کیا میرے خیال میں ھم سے

    زیادہ وہ فلمیں ہمارے بچے دیکھتے ہیں ھم اور آپ اردو اور ہندی میں تمیز کر سکتے

    ہیں لیکن بچوں کا ذہن ابھی بہت کچا ہے وہ تو اُس عمر میں ہیں جہاں ان کو جیسا

    سمجھایا لکھایا دکھایا سنایا جائے وہ ویسا ہی کرتے ہیں

    اب بات یہ ہے واصف بھائی میرے خیال میں اردو کا کوئی بھی لفظ اردو کا اپنا نہیں

    اب انگلش دیکھ لیں ایک نظر ۔۔سی ڈی۔۔ٹی وی۔۔وی سی آر۔۔جوس۔۔فریج۔۔پرنٹر۔۔

    کی بورڈ۔۔ ماؤس۔۔مانیٹر۔۔وغیرہ وغیرہ

    آپ صرف اتنا بتائیں جناب اردو کی تاریخ کیا ہے :?:
     
  5. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
    یہ بات ٹھیک ہے کہ اردو بہت سی زبانوں کے الفاظ کا مجمعوعہ ہے جو نظریہ ضرورت کے تحت معرض وجود میں آئی۔ اس میں فارسی،عربی، ترک، پنجابی، انگریزی اور دوسری بہت سی زبانوں کے الفاظ شامل ہیں اور مزید شامل ہونے کی گنجائش بدرجہ اتم موجود ہے۔ مگر یہاں ہم اس کا موازنہ ہندی سے کر رہے ہیں۔ اردو اور ہندی میں اگرچہ بہت سے الفاظ مشترک ہیں مگر اس کے باوجود دونوں زبانوں میں بہت اختلاف ہے۔ اور یہ اختلاف صرف رسم الخط کا ہی نہیں بلکہ قومیت کی سلامتی اور وقار کا ہے۔
     
  6. موٹروے پولیس
    آف لائن

    موٹروے پولیس ممبر

    شمولیت:
    ‏26 مئی 2006
    پیغامات:
    1,041
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    واصف بھائی آپ نے بلکل ٹھیک کہا ہے دیکھا جائے تو اردو کا کوئی بھی لفظ اردو کا اپنا

    نہیں ہے پچھلے پچاس سال سے ھم ہندی فلمیں دیکھتے آ رہے ہیں لیکن اردو کو کوئی

    فرق نہیں پڑا میرے خیال میں اگر آپ کی نظر میں اردو کو کوئی فرق پڑا ہے تو وہ ضرور

    لکھیں آپ ۔ مجھے انتظار رہے گا :?:
     
  7. ڈی این اے سحر
    آف لائن

    ڈی این اے سحر ممبر

    شمولیت:
    ‏29 مئی 2006
    پیغامات:
    191
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    سلام و علیکم اور خوش آمدید واصف ب

    سلام و علیکم اور خوش آمدید واصف بھائی !!!
    آپکے ابتدائی اور آخری پوائنٹ آف ویو کے مطابق یہ اختلاف صرف اردو رسم الخط کی بقا کا ہی نہیں بلکہ قومی تشخص کی سلامتی اور وقار کی بقا کا ہے۔‌
    اگر تھوڑی دیر کیلئے آپکی بات کو سنجیدگی سے لے لیا جائے تو جہاں موجودہ قریبا‘‘ 15 یا 16 کروڑ کی پاکستانی آبادی میں مختلف انوح ہندی روابط ۔۔۔۔۔۔۔ ہماری اردو میں ہندی الفاظ کی ؛؛ مزید ؛؛ نفوذ پزیری کا باعث ہیں۔
    وہاں قریبا‘‘ایک ڈیڑھ عرب کی کثیر ہندی آبادی ؛؛ ہماری اردو؛؛ کو ہندی کے بہترین مُتبادل کے بطور اپنے کلچر کا حصہ بنا چکی ہے۔
    ایسی صورت میں ہمیں روزمرّہ زندگی میں بدلتی ہوئی اسلامی قدروں کے تحفّظ کی فِکر کرنی چاہئے۔ سرحد پار سےغیر اسلامی رہجانات کا احاطہ کرنا چاہئے جو ہر لحظہ ہماری صبح و شام کی رسم و رواج کے راستے ہماری عادات و خصائل کا حِصّہ بنتے جا رہے ہیں۔
     
  8. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
    گزشتہ پچاس سال میں اردو کو کیا فرق پڑا ہے؟
    اردو اور ہندی محض دو زبانیں نہیں ہیں۔ یہ دو قوموں کی پہچان بن چکی ہیں۔ اور حقیقت تو یہ ہے کہ اس میں ہمارا کوئی ہاتھ نہیں۔ برصغیر میں اردو مسلمانوں کی پہچان تھی اور پہچان رہے گی۔ ہندو مزہب میں ایک بہت بڑی خوبی ہے۔ جو بھی مزہب برصغیر میں آیا ہندو مت میں ضم ہو گیا۔ مگر اسلام کی بنیادیں اتنی مضبوط ہیں کہ آج تک اپنی الگ شناخت برقرار رکھے ہوئے ہے۔ اور ہندوستان میں آج تک اردو اسلام کا نشان سمجھی جاتی ہے۔ ہندو کا مقصد اس پہچان کو ختم کرنا ہے تاکہ مسلم شناخت برقرار نہ رہے۔ اور یہ بھی کوئی نیا منصوبہ نہیں ہے۔ اگر آپ اس کو تاریخ کے دریچے میں دیکھیں تو اکبر کا دینِ الٰہی بھی مسلم شناخت کو ختم کرنے کی ایک سازش تھی۔
    آج اگر آپ برصغیر سے باہر کسی شخص سے یہ پوچھیں کہ اردو اور ہندی کیا ہے تو 70٪ کا جواب ہو گا کہ ہندی یا اردو انڈیا میں بولی جانے والی زبان ہے جبکہ 30٪ کے لئے دونوں ہی الفاظ غیر معروف ہوں گے۔
    اگر آپ کے خیال میں “اور“ کی جگہ “یا“ کا لفظ زیادہ فرق نہیں رکھتا تو میں کچھ نہیں کہ سکتا۔
    ڈی ایں اے سحر کا نقطہء نظر
    میں سحر کی بات سے مکمل اتفاق کرتا ہوں۔ اسی سلسلہ میں پیش آنے والا سچا واقعہ ذیل میں درج کر رہا ہوں:-
    میں ایک دوست کے ساتھ اس کے کسی عزیز کی فوتگی پر گیا۔ ہمارے ساتھ میرے دوست کا بیٹا بھی تھا جس کی عمر بامشکل 7 سال تھی اور وہ پہلی دفعہ کسی فوتگی پر آیا تھا۔ کچھ دیر خاموش بیٹھنے کے بعد وہ اپنے باپ سے سرگوشی میں پوچھتا ہے “ بابا اس کو جلائیں گے کب؟“
    یہ ہندی فلموں کا اثر ہے ہماری نئی پود پر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
     
  9. دوست
    آف لائن

    دوست ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مئی 2006
    پیغامات:
    79
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    یہ آپ کی بات ٹھیک ہے مگر اوپر کہی گئی بات پھر سامنے آجاتی ہے کہ یہ زبان سے زیادہ نظریات کا مسئلہ ہے۔
    ہاں غیر معروف الفاظ کی آپ نے خوب کہی بہرحال کوشش تو سب ہی کررہے ہیں دیکھیے کیا ہوتا ہے۔
     
  10. محمود
    آف لائن

    محمود ممبر

    شمولیت:
    ‏28 جون 2006
    پیغامات:
    88
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    محترم واصف حسین صاحب۔
    سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ کسی بھی زبان کو کسی مذہب کے ساتھ نتھی کر کے دیکھنا مناسب نہیں۔ زبان کسی ثقافت یا مذہب کے پھیلانے میں ایک حدتک کردار ادا کر سکتی ہے۔ ہاں البتہ ایک ملک کے باسیوں کو ایک نقطے پر متحد رکھنے اور ان کے درمیان ابلاغ کے فروغ کے لئیے اس کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔آج کے دور میں ایک ملک دوسرے ملک کی ثقافت پر اثر انداز ہونے کے لئیے جو جو طریقے اختیار کرتا ہے ان سے ہم سب بخوبی واقف ہیں۔ آج اگر انگریزی دنیا میں سب سے زیادہ بولی جاتی ہے تو اس سے یہ نتیجہ نہیں نکالا جا سکتا کہ یہ دنیا کے سب سے زیادہ لوگوں کی مادری زبان ہے۔ بلکہ اس کی وجہ اس کا سائنس اور تکنیک میں نفوذ ہے۔ لیکن اگر آپ اس کو ثقافت کے حوالے سے دیکھیں تو امریکہ اور نائجیریا کی ثقافت میں زمین آسمان کا فرق ہے اگرچہ دونوں ملکوں کی قومی زبان انگریزی ہی ہے۔ لیکن دوسری طرف آپ غور فرمائیے کہ جب کوئی پاکستانی حج یا عمرے کی سعادت کے لیئے سعودی عرب جاتا ہے یا روزگار کے سلسلہ میں عرب امارات جاتا ہے تو وہ وہاں کی ثقافت اور ماحول کو اپنے ملک کے بے حد قریب پاتا ہے حا لانکہ ان کی زبان عربی ہے۔
    نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ پہلی مثال (امریکہ اور نائجیریا) میں اگرچہ زبان مشترک ہے لیکن زبان،ثقافت کے فرق کو ختم کرنے میں ناکام دکھائی دیتی ہے اور دوسری مثال میں زبان کے فرق کے باوجود یک رنگی دکھائی دیتی ہے۔ اس کی وجہ پر غور فرمائیے۔
    اب ایک مثال اور۔ جنوبی کوریا اور شمالی کوریا میں نہ تو زبان کا فرق ہے نہ ثقافت کا۔ نہ عقائد کا نہ رسم و رواج کا۔ پھر بھی دونوں ملک ایک دوسرے کے دشمن ہیں۔کیوں؟
    چین کے ساتھ ہماری دوستی کو زمانہ مانتا ہے حیرانی کی بات ہے کہ وہ لوگ خدا کے وجود سے ہی انکاری ہیں (یعنی ہماری ثقافتی اساس کے بالکل منافی) پھر بھی ہم پاک چین دوستی کا نعرہ بڑے شوق سے لگاتے ہیں۔
    بات دور نکل رہی ہے میں اصل موضوع کی طرف پلٹتا ہوں۔ اگر ہم ہندی زبان کو اپنے مذہب ،یا کلچر کے لئیے خطرہ مان بھی لیں تو ہم اپنے ان مسلم بھائیوں کو کس نظر سے دیکھیں گے جو بھارت میں رہتے ہیں اور ہندی ان کی مادری زبان ہے۔ کیا وہ سب ہمارے دشمن ہیں صرف اس لئیے کہ ان کی زبان ہندی ہے؟ اور جو بھارتی باشندہ اردو بولتا ہو یا اس کی مادری زبان اردو ہواور وہ اپنے دل میں پاکستان کے خلاف نفرت رکھتا ہو تو کیا ہم اس کو صرف اس لئیے گلے لگا لیں گے کہ وہ اردو بولتا ہے؟
    اس بحث سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ زبان کو مذہب کی بنیاد پر پرکھ کر ہم بہت بڑی غلطی کرتے ہیں۔ اس کی وضاحت یہ ہے کہ اسرائیل کے بہت سارے یہودی،فلسطینی عربوں کی طرح سے ہی بڑی روانی سے عربی بولتے ہیں لیکن ظلم اور تعدی میں وہ اپنی صیہونی حکومت کا برابر ساتھ دیتے ہیں۔ یہاں بھی زبان ثقافت کی خلیج پاٹنے میں ناکام دکھائی دیتی ہے۔
    اب اگر اس سات سال کے بچے نے یہ سوال کیا کہ اس (مرحوم) کو جلائیں گے کب تو اس میں کسی زبان یا ثقافت یا پھر فلموں پر (یاد رہے کہ میں کسی کی وکالت نہیں کر رہا بلکہ خدا لگتی اور سچی بات کر رہا ہوں) الزام لگا کر اپنی ذمہ داریوں سے پہلو تہی اختیار کر کے ہم خود کو دھوکہ نہیں دے رہے؟ اگر ہندی فلموں کی وجہ سے ہی یہ سب ہوا ہے تو ہم اور آپ نے اپنے ماں باپ سے کبھی یہ سوال کیوں نہ کیا؟ ہم میں سے کون ہے جس نے بچپن سے ہی ہندی فلمیں نہ دیکھی ہوں؟ اس سے بھی اہم بات یہ کہ اگر ایک پاکستانی بچہ ان فلموں سے اتنا متاثر ہوا ہے تو ہمارے بھارتی مسلمان بھائیوں نے اپنے بچوں کو کون سی گیدڑ سنگھی سنگھا کر اپنے مذہب اسلام پر کاربند رکھا ہوا ہے؟ ہم نے یہ کیوں فرض کر لیا ہے کہ دوسرے لوگ ہمارے ہر برے عمل کے ذمہ دار ہیں؟ کیا اس معصوم بچے کے والدین کا فرض نہیں تھا کہ وہ اپنے بچے کو اسلام کی بنیادی تعلیمات سے روشناس کرواتے؟ کیا ماں کی گود سے بڑھ کر بھی بچے کے لئیے کوئی درس گاہ ہوتی ہے؟ سوچئیے اس کا ذمہ دار کون ہے۔ بھارتی ثقافت یا ہماری غیر ذمہ داری؟
    میں اپنی بات پھر سے دہراؤں گا کہ اردو زبان کو ہندی سے قطعًا قطعًا کوئی خطرہ نہیں ہے بلکہ معاملہ اس کے برعکس جا رہا ہے۔ مسلم ثقافت ایک زندہ ثقافت ہے اگر آج سے 1300 سال پہلے یہ ثقافت اس برصغیر میں نو وارد ہونے کے باوجود چھا گئی تھی تو آج بھی یہ ہر قسم کے چیلنج کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ کمی ہے تو ہمارے ایمان میں ہے۔ ہم منافقت کا شکار ہوتے جا رہے ہیں۔اگر آج امریکہ، افغانستان اور عراق میں اپنی انتہائی جدید تکنیک کے باوجود مار کھا رہا ہے تو پھر ہم کو اپنی ثقافت پر سوالیہ نشان لگانے کی ضرورت نہیں ہے۔ اور نہ ہی ہمیں کسی زبان کو اپنے لئیے اتنا بڑا مسئلہ بنا لینا چاہئیے کہ ہماری مایوسانہ باتیں ہماری نئی نسل کے اندر احساسِ کمتری پیدا کر دیں۔ یاد رکھئیے کہ پاکستان،اسلام کے نام پر بنا تھا زبان کے نام پر نہیں۔ نہ ہی سارا اسلام اردو میں ہے اور نہ ہے سارے کا سارا غیر اسلامی کلچر (ثقافت) ہندی میں ہے۔ ہندی زبان مین بھی آپ کو اسلام کے بارے میں بہت اچھا ادب ملے گا۔ دو قومی نظرئیے کو صرف ھندی اور اردو کے تناظر ہی میں نہ دیکھئیے۔ یہ بھی دیکھئیے کہ ہم نے یہ ملک حاصل کرتے وقت اپنے رب سے جو وعدہ کیا تھا کیا ہم اس وعدے کو پورا کر رہے ہیں؟ مذہبی،لسانی،صوبائی اور فروعی تعصبات ہمارے لئیے اس سے کہیں زیادہ نقصان دہ ہیں جتنا کہ غیر ملکی ثقافت۔
    یاد کیجئیے کہ سقوطِ ڈھاکہ پر بھارت نے کہا تھا کہ آج ہم نے دو قومی نظریہ خلیج بنگال میں ڈبو دیا۔ سوچئیے کہ اس وقت کی بھارتی حکومت کے ان الفاظ کو عملی جامہ پہنانے میں ہم لوگوں کی بد عملیوں کا کتنا دخل تھا۔65 میں بھارت کی فوج کو ناکوں چنے چبوانے والی قوم اور اس کے حکمرانوں کی وہ کون سی غلطی تھی کہ محض 6 سال بعد ہی اپنا ایک حصہ کھو بیٹھے۔ کیا آج بھی ہم اسی صورتحال کا شکار تو نہیں ہو رہے۔ مذہب اور زبان کے مسئلے پر دست و گریباں قوم کے لئیے بیرونی دشمن کی ضرورت نہیں ہوتی وہ خود ہی اپنی دشمن ہوتی ہے۔
    وقت کا تقاضہ ہے کہ اٹھئیے سائنس اور تکنیک میں دنیا کے ساتھ چلئیے پھر دیکھئیے کہ دنیا آپ کی زبان اور ثقافت کی کس طرح سے قدر کرتی ہے۔​

    والسلام
    محمود
     
  11. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
    محمود صاحب! صورتِ حال کا مفصل جائزہ لینے کا شکریہ۔ اگر آپ نے میرا دوسرا خط پڑھا ہو تو میں نے والدین کی زمہ داری پر ہی زور دیا ہے۔ ہندو اگرچہ ہندی اور اردو کو کم از کم دنیا کی نظر میں ایک ہی زبان کے طور پر پیش کرنا چاہتا ہے مگر وہ ایسا کرنے میں حق بجانب ہے۔
    میں صرف اس بات پر آپ لوگوں‌کی رائے لینا چاہتا ہوں کہ ہندو پر الزام دھرنے یا حکومت کو کوسنے کے علاوہ بھی کیا ہم انفرادی طور پر کچھ کر سکتے ہیں؟
     
  12. محمود
    آف لائن

    محمود ممبر

    شمولیت:
    ‏28 جون 2006
    پیغامات:
    88
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    محترم واصف حسین صاحب
    ایسا ہونا ممکن نہیں کہ ہندی اور اردو کو ایک ہی زبان ثابت کیا جا سکے۔اور نہ ہی ایسی کوئی کوشش کسی مستند ذریعے سے منظرِعام پر آئی ہے یا پھر کم از کم میرے علم میں نہیں ہے۔ اگر آپ کو ایسی کسی کوشش کے بارے میں علم ہے تو تحریر فرمائیے۔
    ان دونوں زبانوں کے حروف،تراکیب،اصولِ صرف و نحو،طرزِ تحریر اور اندازِ تحریر میں بعد المشرقین ہے۔ اگر کوئی چیز کسی حد تک میل کھاتی ہے تو وہ ہیں صوتی اثرات۔
    آپ اپنے کمپیوٹر پر زبان کے اختیار پر جائیے آپ کو دونوں زبانیں الگ الگ نام سے ہی لکھی ہوئی ملیں گی۔ اور اب تو کمپیوٹر کی زبان کے طور پر دونوں زبانوں پر الگ الگ نام سے کافی کام ہو چکا ہے۔ دنیا کے بہت سارے ممالک میں مقامی طور پر طبع ہونے والے اردو اور ہندی اخبارات اور جرائد اپنا علیحدہ علیحدہ حلقہ رکھتے ہیں۔ خود ہندی کے گھر یعنی بھارت میں بہت سارے روزنامے اور جرائد اردو میں چھَپتے ہیں۔ اردو کے ٹیلی وژن چینل ہیں۔ اردو یونیورسٹی (جامعہ) ہے۔ وہاں کے دینی مدرسوں میں آج بھی بنیادی تعلیم عربی اور اردو میں ہی دی جاتی ہے۔
    متذکرہ بالا حقائق اس بات کا ثبوت ہیں کہ اردو کو ہند میں بھی ایک مکمل اور علیحدہ زبان تسلیم کیا جاتا ہے۔ ابھی حال ہی میں بھارت کے وزیرِاعظم نے بہار کی جامعہ اردو کے لئیے مزید اساتذہ کے تقرر اور مالی امداد کا اعلان کیا ہے۔
    ایسے میں کسی منچلے کا اردو اور ہندی کو ایک ہی زبان ثابت کرنے کا خواب ایک سراب سے زیادہ کچھ نہیں ہو گا۔ پاک و ہند میں شاعری کی موجودہ صورت حال کا جائزہ لیجئیے آپ کو یقین کرنا پڑے گا کہ پاکستان سے زیادہ اردو شاعری بھارت میں لکھی جا رہی ہے۔ اور ان شاعروں میں مسلم،ہندو اور سکھ سب ہی شامل ہیں۔
    دُور مت جائیے اپنے انٹر نیٹ کو اردو زبان کی نثر یا شاعری کی ویب سائٹس کی کمانڈ (حکم) دے کر دیکھ لیجئیے حاصل شدہ نتائج میری بات کی تصدیق کریں گے۔
    خود بھارت کا ادبی طبقہ بھی ان دونوں زبانوں کو ایک ماننے سے انکاری ہے۔
    یہ تھا آپ کے خط کے پہلے حصے کا جواب۔ میں اس میں اتنا اضافہ اور کرنا چاہوں گا کہ یاد رکھئیے ہندی زبان سے بھارت کے بہت سارے ہندو بھی نابلد ہیں اور اس کے لکھاریوں میں بہت سارے مسلم بھی ہیں۔اس لئیے اس کو صرف ایک طبقے کی زبان نہیں سمجھنا چاہئیے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسا کہ ہمارے پاکستان کے دیہاتی یا دور دراز کےلوگ اردو کم ہی سمجھتے ہیں لیکن ہمارے ادباء اور شعراء میں کچھ نام ہمارے غیر مسلم پاکستانی بھائیوں کے بھی ہیں۔
    واصف صاحب ہم عوام کا کام ہے حکومتوں کو کوسنا اور حکومتوں کا کام ہے ہمارے مسائل سے انٹا غفیل رہنا۔ لیکن جب بات زبان اور ثقافت کی ہو توایک بات تاریخی طور پر ثابت ہے کہ جب حاکمانِ وقت نے اساتذہ،ادباء اور شعراءکی قدر کی تو امراؤ جان ادا جیسا شاہکار وجود میں آیا۔ غالب جیسا باکمال شاعر اردو کے نصیب میں آیا۔ اور جب ایسے لوگوں کی بےقدری کی تو جوش ملیح آبادی اپنے ہوش سے بے گانہ کراچی کی سڑکوں پر اپنے ماضی کے سنہرے وقت کو ڈھونڈھتا پایا گیا۔
    اب رہی بات کہ ہم انفرادی طور پہ اردو کی ترویج و ترقی کے لئیے کیا کر سکتے ہیں۔ تو جناب عرض ہے کہ خود اردو بولیں اور دوسروں کو ترغیب دیں۔ اس طرح سے ہم اردو کو رواج دینے کی طرف اپنا پہلا قدم بڑھا دیں گے۔اور راقم یہ قدم پہلے ہی بڑھا چکا ہے۔ میرا بیٹا 8 سال کا ہے ہم میاں بیوی نے آج تک اس سے ہمیشہ اردو میں ہی بات کی ہے اور وہ اپنی مادری زبان پنجابی کی طرح سے سلیس اور رواں اردو بولتا ہے۔ یہ بات ہم دونوں کے لئیے قابلِ رشک ہے۔ آپ بھی اپنے گھر والوں اور دوستوں کو اپنی قومی زبان کا حق ادا کرنے کے لئیے کہئیے۔​
    والسلام
    محمود
     
  13. ع س ق
    آف لائن

    ع س ق ممبر

    شمولیت:
    ‏18 مئی 2006
    پیغامات:
    1,333
    موصول پسندیدگیاں:
    25
    اردو کی خدمت - انفرادی و اجتماعی ک

    میری دانست میں حکومتی سطح پر بھی اردو کی ترویج میں کوششوں کی اتنی ہی ضرورت ہے جتنا کہ انفرادی سطح پر۔ دونوں کی اپنی اپنی اہمیت ہے۔ ایک کو اہم قرار دے کر دوسرے سے پہلوتہی حقیقت سے اغماض ہو گا۔ ایسے میں ہمیں 1857 سے 1947 کا زمانہ بھی یاد کرنا ہو گا، جب اردو کی پیدائش کو کوئی بہت زیادہ وقت نہیں گزرا تھا اور وہ 90 سالہ انگریز راج میں بھی زندہ رہی اور پھلتی پھولتی بھی رہی۔ بس اب میڈیا تیزتر ہے جس کی وجہ سے ہم اپنی زبان، اپنے مذہب اور اپنی ثقافت کے بارے میں متفکر ہو جاتے ہیں، اور یہ سوچ معاشرے کا ایک ذمہ دار فرد ہونے کی علامت بھی ہے۔

    ہر قوم کو یہ برابر حق پہنچتا ہے کہ وہ اپنی اقدار کے فروغ کے لئے میڈیا کو استعمال کرے۔ اگر کوئی قوم میڈیا کا صحیح استعمال سیکھ لیتی ہے تو اس کی ثقافت دوسری قوموں پر اثرانداز ہونے لگتی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ ہم نے خود اپنی زبان، اپنے مذہب یا اپنی ثقافت کو کس حد تک اپنے میڈیا پر فروغ دیا ہے۔ بات گھوم پھر کر وہیں رکتی ہے کہ ہمیں اپنا گریبان جھانکنا ہو گا۔ فرد اور معاشرے کی سطح پر اپنی اصلاح کرنا ہو گی۔

    انفرادی سطح پر اردو کو فروغ دینے کے لئے جو بندہ جس جگہ پر ہے وہاں اردو کو ترویج دینے کی کوشش کرے۔ دفتر میں ہو یا گھر میں، اردو لکھے اردو بولے۔ کمپیوٹر کی دنیا کے لوگ اسے کمپیوٹر آشنا کرنے کی کوشش میں مزید تیزی سے مگن ہوں۔ اسی طرح دیگر شعبہ ہائے حیات سے کام ہونا چاہیئے۔ اور اگر حکومتوں کی سطح پر بات ہو تو نصاب تعلیم سے لے کر دفتری نظام تک سب کو اردو میں ڈھالا جائے۔ دوسرے افراد اگر اس میں ہمارا ساتھ نہیں دیتے، نہ سہی۔ اپنے حصے کا کام ضرور کرتے چلیں۔
     
  14. الف لام میم
    آف لائن

    الف لام میم ممبر

    شمولیت:
    ‏23 مئی 2006
    پیغامات:
    331
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    فلم بینی میں خود انحصاری

    اگر انہی انگریزی فلموں کی پاکستان میں ڈبنگ ہوئی ہوتی تو یقیناً اردو میں کام ہوتا۔ جب یہاں کوئی کام کرنے کو راضی ہی نہیں تو ہندوستانیوں کی مرضی وہ جس زبان میں مرضی ڈب کریں۔

    ہم دوسروں کے کام کو سخت سے سخت تر تنقید کا نشانہ بناتے ہیں اور خود کام کی بجائے ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظرِ فردا رہتے ہیں۔ دوسری قومیں ترقی کر گئیں اور ہم انہیں کوستے رہ گئے۔ مذہبی حلقے میں تو جمود تھا ہی دنیادار طبقہ بھی سست ہی رہا۔ سب ایک ہی نفسیات میں گرفتار ہیں۔ اب یہی مثال دیکھ لیں۔ خود معیاری فلمبندی کر نہیں سکتے اور اگر ہمسایہ ملک یہ کام کر دکھائے تو اسے برا بھی کہتے ہیں۔

    دراصل آج تک ہم یہ فیصلہ نہیں کر پائے کہ ہم نے کیا کرنا ہے۔ وہ اپنے فلمی ستاروں کے نام سے مندر بناتے ہیں، ہمارا مذہبی طبقہ اپنے اسی شعبے کے لوگوں کو کنجر کہتا ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ ہم بھی ہوبہو ان کی نقالی کرنے لگیں، مگر اپنے دین و مذہب اور اپنی ثقافی روایات کی ترویج کے لئے اگر ہم فلمسازی کا ہتھیار استعمال نہیں کریں گے تو دوسری قوموں کو دشنام کرنا فضول ہو گا۔

    اپنی اگلی نسل کو غیروں کی ثقافتی یلغار سے بچانے کے لئے شترمرغ کی طرح آندھی کے خوف سے ریت میں سر دبانے کی بجائے دلیرانہ انداز اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ جس ہتھیار سے مدمقابل وار کرے اسی سے جواب دیں گے تو بات بنے گی۔ (میری رائے ہے کسی کو بری لگے تو معذرت خواہ ہوں۔)
     
  15. محمود
    آف لائن

    محمود ممبر

    شمولیت:
    ‏28 جون 2006
    پیغامات:
    88
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    Re: فلم بینی میں خود انحصاری

    محترم الف لام میم صاحب
    آپ کے پیغام میں بُرا لگنے والی کوئی بات نہیں ہے۔ آپ نے حقائق کو بہت اچھی طرح سے پیش کیا ہے۔ اور کم و بیش یہی حقائق مَیں نے اس لڑی میں اپنے پیغامات میں بیان کیے ہیں۔​

    والسلام
    محمود
     
  16. موٹروے پولیس
    آف لائن

    موٹروے پولیس ممبر

    شمولیت:
    ‏26 مئی 2006
    پیغامات:
    1,041
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    سب نے اپنی اپنی جگہ بہت اچھا لکھا ہے

    لیکن واصف بھائی اب اس کا کوئی حل بھی نکالنا ہے نہ کے سیاستدانوں کی طرح سیمینار

    کیا اور بات ختم کیا خیال ہے آپ سب کا :?:
     
  17. محمود
    آف لائن

    محمود ممبر

    شمولیت:
    ‏28 جون 2006
    پیغامات:
    88
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    اب یہ معاملہ پولیس کے ہاتھ میں چلا گیا ہے۔ دوسروں کی کیا مجال کہ دم مار سکیں۔ :lol:​
     
  18. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
    ایک خوش آئند بات جو اس بحث سے سامنے آئی وہ یہ ہے کہ یہاں موجود سب لوگ کسی بھی مسئلہ کا جائزہ لیکر کو حل سامنے لانے کی کوشش کرتے ہیں نا کہ بحث برائے بحث کرتے ہیں۔
    میری ناقص رائے کے مطابق اردو کے فروغ کیلئے حکومت سے زیادہ افراد کو کوشش کی ضرورت ہے۔
    انفرادی سطح پر شعوری کوشش، اپنے حلقہ اثر میں ترویج، اور بچوں کو اچھی اردو کتب فراہم کرنا وہ اقدام ہیں جو ہم میں سے ہر شخص حکومت کی پزیرائی کے بغیر بھی کر سکتا ہے۔
     
  19. پومی کیوپڈ
    آف لائن

    پومی کیوپڈ ممبر

    شمولیت:
    ‏26 اگست 2006
    پیغامات:
    77
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    یہ موضوع چونکہ بہت پرانا لیکن میں نے پڑھا تو مجھے آپ دوستوں کا تخلیقی مباحثہ بہت ہی اچھا لگا۔ اور خوشی بھی ہوئی۔ میرے پا س کہنے کے لیے اور تو کچھ نہیں لیکن صرف یہ ہے کہ یہاں پر ““انگلش فلموں““ کی ڈبنگ کی بات ہوئی ہے ، میں نے انگلش فلموں کو خاص طور پر اس لیے لیا ہے کہ ہالی وڈ وغیرہ میں بننے والی فلمیں اتنی ہائی کوالٹی اور اعلیٰ پائے کی ہوتی ہیں ان پر حقیقت کا گمان ہوتا ہے۔ چاہے وہ سائنس فکش ہو۔ چاہے لو سٹوری ہو۔ چاہے ایکشن مووی ہو۔ (ٹائٹینک، ڈی نیٹ، ٹرمینیٹر، دی میٹرکس، دی ایکس فائلز، ماسک، ٹومب ڑائڈر) ان فلموں میں بہت اعلیٰ پائے کی ٹیکنالوجی استعمال کی جاتی ہے۔ ان کے ذریعے لوگوں کو تعلیم بھی دی جا سکتی ہے۔انہیں نئے سے نئے آئیڈیاز دئیے جا سکتے ہیں۔
    وہ چند دوست جو فلموں سے متعلقہ سافٹ وئیرز اور ٹیکنالوجی کو جانتے ہیں آپس میں مل کر ایک گروپ بنائیں اور انگلش فلموں کی چھوٹے پیمانے پر اردو ڈبنگ شروع کر دیں۔ پھر آہستہ آہستہ اسے بڑھاتے ہوئے اسے بڑے لیول پر لے جائیں۔
    میں اس کی آپ دوستوں کا مثال دیتا ہوں لاہور میں میری چند لڑکوں سےملاقات ہوئی جو کے ویب سائٹس ڈیزائن کرتے تھے پہلے انہوں نے ایک ادارے کے ساتھ منسلک ہو کر چھوٹے لیول پر کام شروع کیا ۔آج ماشاء اللہ وہ اپنے کام کو بڑھاتے ہوئے ملکی لیول سے بڑھا کر بین الاقوامی لیول پر لے جا رہے ہیں انہوں نے یہ ساری کامیابی آٹھ سے دس سال کے اندر اندر حاصل کی ہے۔ واصف بھائی جان جو یہ مسئلہ مباحثہ کے لیے سامنے رکھا ہے اس کا یہ سب سے بہترین حل ہے کیونکہ جب تک کوئی قدم نہیں اٹھایا جائے گا اس وقت تک یہ کام ہوئی ہی نہیں سکے گا۔ اس جو اس شعبہ سے متعلق معلومات اور علم رکھتا ہے وہ ابھی سے ابتداء کر دے۔
     
  20. پٹھان
    آف لائن

    پٹھان ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مئی 2006
    پیغامات:
    514
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    واہ پومی جی آپ کی بات بالکل درست ہے بات عملی قدم اٹھانے سے ہی بنے گی
     
  21. Admin
    آف لائن

    Admin منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 اگست 2006
    پیغامات:
    687
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    ملک کا جھنڈا:
    اس کا حل بھی تو بتائیں نا
     
  22. شامی
    آف لائن

    شامی ممبر

    شمولیت:
    ‏25 اگست 2006
    پیغامات:
    562
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    پٹھان صاحب آپ بھی کوئی حل تلاش کر لیا کرو
     
  23. ثناءاللہ
    آف لائن

    ثناءاللہ ممبر

    شمولیت:
    ‏31 مئی 2006
    پیغامات:
    79
    موصول پسندیدگیاں:
    1
  24. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    محترم ثناء اللہ بھائی !

    بہت ہی معلوماتی مضمون ہے۔ اور اس لڑی کے عنوان کے عین مطابق ہے۔

    امید ہے واصف بھائی کے لیے دلچسپی کا باعث ہوگا۔ کیونکہ اس لڑی کے اکثر شرکاء غیر مستعد (Inactive) ہو چکے ہیں۔

    اللہ تعالی انہیں آپکے اس مضمون کے صدقے جلدی سے مستعد کر دے۔ آمین :)
     
  25. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
    اگرچہ لڑی بہت پرانی ہو گئی ہے مگر ایک دوست نے کل اپنے بچوں کا ایک واقعہ سنایا تو یہ لڑی یاد آ گئی اور سوچا کہ یہاں ضرور بیان کروں۔

    اپنی بیٹی کو اردو پڑھا رہے تھے اور اقبال کی نظم لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری پڑھی جا رہی تھی۔
    جب اس مصرعے پر پہنچے کہ علم کی شمع سے ہو مجھ کو محبت یا رب اور انہوں نے بیٹی سے پوچھا کہ شمع کا کیا مطلب ہے ۔۔۔۔




    بیٹی نے معصومیت سے














    ہاتھ جوڑ کر






    کہا













    شما کا مطلب ہے معافی
     
  26. کاشفی
    آف لائن

    کاشفی شمس الخاصان

    شمولیت:
    ‏5 جون 2007
    پیغامات:
    4,774
    موصول پسندیدگیاں:
    16
    جی یہ بہت افسوس کی بات ہے۔۔
     
  27. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    جی واقعی مقام افسوس ہے۔
    کسی دوست سے واقعہ سنا تھا کہ ایک پاکستانی فیملی کسی دوسرے پاکستانی کی شادی میں شریک تھی ۔ جب فنکشن ختم ہوگیا اور سب گھر جانے لگے تو ایک بچی نے اپنی ماں سے پوچھا کہ کیا شادی ہو گئی ؟ ماں نے کہاں ‌۔ ہاں بیٹا ۔ شادی ہو گئی ۔
    تو بچی بولی ۔
    “لیکن امی ۔ دولہا دلہن نے آگ کے گرد پھیرے تو لیے ہی نہیں۔ پھر شادی کیسے ہوگئی؟ :176:
     
  28. نور
    آف لائن

    نور ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جون 2007
    پیغامات:
    4,021
    موصول پسندیدگیاں:
    22
    افسوس ۔ صد ۔ افسوس
     
  29. طاہرا مسعود
    آف لائن

    طاہرا مسعود ممبر

    شمولیت:
    ‏31 جنوری 2007
    پیغامات:
    89
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    میں محمود صاحب سے کافی حد تک متفق ہوں
    میرے خیال میں ‌زبان کا کوئی مذہب نہیں ہے

    میں ن
     
  30. طاہرا مسعود
    آف لائن

    طاہرا مسعود ممبر

    شمولیت:
    ‏31 جنوری 2007
    پیغامات:
    89
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    میں محمود صاحب سے کافی حد تک متفق ہوں
    میرے خیال میں زبان کا کوئی مذہب نہیں ہےمیں نے مصر کے عیسائیوں کو خوبصورت عربی بولتے دیکھا ہے۔کئی ہندو اور سکھ اردو کے والا وشیدا ہیں اور اس کی ترقی اور تر ویج کے لیے کوشاں ہیں۔ ا ور تو اور ان فلموں سے بھی ایک طرح اردو ہی دنیا میں متعارف ہو رہی ہے۔ لکھنے میں مختلف مگر بولنے میں تقریبا یکساں ہے۔یہی حال پنجابی کا ہے جو سکھوں کی وجہ سے برطانیہ کی ایک بڑی زبان بن چکی ہے۔یعنی بولنا تو انہوں نے سکھا دیا اب پمارا کام ہے کہ پڑھنا لکھنا سکھائیں۔ اتنا سا کام باقی ہے
     

اس صفحے کو مشتہر کریں