1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

::: فطرت کی سنتیں :::

'تعلیماتِ قرآن و حدیث' میں موضوعات آغاز کردہ از عادل سہیل, ‏12 مارچ 2010۔

  1. عادل سہیل
    آف لائن

    عادل سہیل ممبر

    شمولیت:
    ‏24 جولائی 2008
    پیغامات:
    410
    موصول پسندیدگیاں:
    11
    ملک کا جھنڈا:
    سُنن الفطرۃ ::: فطرت کی سُنّتیں​

    ابو ہُریرہ رضی اللہ عنہ ُ کا کہنا ہے کہ ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلم نے فرمایا (((((خَمسٌ مِن الفِطرۃِ : الاستِحدادُ ، و الخَتانُ ، و قَصُّ الشَّارِبِ ، و نَتف ُ الاِبطِ ، و تَقلِیمُ الاظفارِ ::: پانچ کام فطرت میں سے ہیں (١) شرم گاہ کے بال اُتارنا (٢) ختنہ کرنا (٣) مونچھیں کُترنا (٤) اور بغلوں کے بال اُکھیڑنا (٥)اور ناخُن کاٹنا ))))) یہ حدیث صحیح البُخاری ، صحیح مُسلم ، اور باقی چار سُنن میں روایت ہے ،
    یہاں اِختصار کے ساتھ اِس حدیث کی شرح بیان کی جائے گی ، اِن شاء اللہ۔
    فطرت کی سُنّت کا کیا معنیٰ ہے ؟​

    اِمام محمد بن علی الشوکانی نے نیل الاوطار / کتاب الطہارۃ / باب سُنن الفطرۃ ، میں لکھا ''' فطرت کی سُنّت سے مُراد ہے کہ یہ پانچ کام ایسے ہیں جِن کو کرنے والے کے بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ اُس فطرت پر ہے جِس پر اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو بنایا ، اور اِسی لیے اللہ نے ( اپنے رسول صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلم کے ذریعے لوگوں کو )اِن کاموں کے کرنے کی ترغیب دِلائی اور اِن کاموں کو کرنا اُن کے لیے پسند فرمایا ، تا کہ وہ مکمل ( فطرتی ) صفات اور صورت والے بنیں '''
    اور مزید لکھا کہ ''' (اِمام ) البیضاوی نے اِس حدیث میں بیان کیے گئے کاموں کو فطرت کہنے کی شرح میں کہا ::: اِن کاموں کو فطرت کہنے سے مُراد یہ ہے کہ یہ کام کرنا تمام تر نبیوں کی ہمیشہ سے سنّت رہی ہے ، اور اِن کاموں کا کرنا تمام شریعتوں میں مُقرر رہا ہے ، گویا کہ یہ ایسے کام ہیں جو اِنسان کی جبلت ( گُھٹی ) میں ہیں '''
    ( ١ ) الاستحداد ، شرم گاہ کے بال اُتارنا ::: الاستحداد کا لفظی معنیٰ ہے ، لوہے کی دھاری دار چیز، چُھری، چاقو ، خنجر ، تلوار وغیرہ کی دھار کو تیز کروانا ،
    اور اِسی مفہوم میں سے بال مونڈھنے کے عمل کو ''' استحداد ''' کا نام اِس لیے دِیا گیا ہے کہ اِس کام کرنے کے لیئے اُستریٰ اِستعمال کیا جاتا تھا ، اور ہم نے ترجمہ میں ''' شرم گاہ کے بال اُتارنا ''' اِس لیے لکھا ہے کہ یہ بات بھی دوسری احادیث سے معلوم ہوتی ہے کہ جِسم کی کونسی جگہ سے بال مونڈھنے کا حُکم دِیا گیا ہے ،
    جیسا کہ اِیمان والوں کی والدہ محترمہ ، عائشہ رضی اللہ عنہا کا کہنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلم نے فرمایا ((((( عَشرٌ مَن الفِطرۃِ :: قَصُّ الشَارِبِ ،و اِعفاءُ اللحِیۃِ ،و السِّواکُ ، و اِستَنشَاق ُ الماءُ ،و قَصُّ الاظَافرِ ، و غَسلُ البَراجِمِ ،و نَتف ُ الابطِ ، و حَلق ُ العَانۃِ ،، و اِنتقاصُ الماءِ )))))
    و قال زِکریا ، قال مصعب ، نسیتُ العاشرہ الا ان تکون((((( المضمضۃِ ))))) ((((( دس ( کام ) فطرت میں سے ہیں :: (١)مونچھیں کُترنا (٢)داڑھی کو (کاٹنے کُترنے سے )معاف رکھنا (٣)مسواک کرنا (٤) ناک صاف کرنے کے لیے ناک میں پانی چڑھا کر اُسے واپس نکالنا(٥)ناخُن کاٹنا (٦) (ہاتھ اور پیر کی) انگلیوں کے جوڑوں کو دھونا (٧)بغلوں کے بال اُکھیڑنا (٨) العانہ (ناف کے نیچے شرم گاہ کے اِرد گرد والے حصے )کے بال مونڈھنا (٩) شرم گاہ کو دھونا ( یعنی پانی سے استنجاء کرنا )))))
    اورایک دوسری روایت جو کہ سُنن ابن ماجہ میں ہے ، اور اِمام الالبانی صحیح الجامع الصغیر ، حدیث ٤٦٩٥ میں صحیح قرار دِیا ہے کی بُنیاد پر کہا گیا کہ اِس سے مُراد وضوء کے بعد شرم گاہ کو پانی سے دھونا ہے تا کہ پلیدگی کا کوئی وسوسہ نہ رہے
    زکریا (حدیث کے ایک راوی) کا کہنا ہے کہ ، مُصعب ( ایک دوسرے راوی) کا کہنا ہے کہ وہ دسویں چیز بھول گئے ہیں لیکن اُمید کرتے ہیں کہ وہ دسویں چیز ((((( خوب اچھی طرح سے کُلی کرنا ))))) ہو گی ۔ صحیح مُسلم ، حدیث ٢٦١ / کتاب الطہارۃ /باب ١٦خصال الفطرۃ ،
    دوسری روایت عبداللہ ابن عُمر رضی اللہ عنہما سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلم نے فرمایا ((((( مِن الفِطرۃِ حَلق ُ العَانَۃِ ، و تَقلیِمُ الاظفارِ ، و قَصُّ الشَّارِبِ ::: شرم گاہ کے اِرد گِرد سے بال مونڈھنا ، اور ناخُن کاٹنا ، اور مونچھیں کاٹنا فطرت میں سے ہیں ))))) صحیح البُخاری ، حدیث ٥٨٩٠ /کتاب اللباس / باب٦٤،
    ''' استحداد ''' سے مُراد ''' شرم گاہ کے بال اُتارنا ''' کی تیسری روایت انس ابن مالک رضی اللہ عنہ ُ کی ہے ، جِس کا ذِکراِن شا اللہ ابھی کِیا جائے گا،
    یہاں اِس بات کا ذِکر کرنا انتہائی مُناسب لگتا ہے کہ ہمارے ماحول میں عام طور پر بڑے عجیب و غریب فتوے پائے جاتے ہیں ، اور اُن فتووں کی سچائی کے ثبوت پر اُن سے بڑھ کر عجیب و غریب واقعات سُنائے جاتے ہیں ، اور ایسے فتوؤں میں سے چند اِس موضوع سے متعلق بھی ہیں، جِن کا لُبِ لُباب یہ ہے کہ عورت اپنے جِسم سے کوئی بال کاٹنے کے لیئے لوہا اِستعمال نہیں کرے گی اور اگر ایسا کیا تو اُس پر اتنا اتنا گُناہ ہے ،ا ور اُس کی یہ یہ سزا ہے ، جب کہ اوپر بیان کی گئی حدیث میں صاف طور پرتیز دھار اوزار اِستعمال کرنے کا ذِکر ہے اور عورت اور مرد کے لیے کوئی فرق نہیں، یوں بھی شاید ہی کوئی ایسا ہو گا جو یہ نہ سمجھتا ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلم اور صحابہ کے زمانے میں اور اُنکے معاشرے میں بال صاف کرنے کے لیے آج جیسی چیزیں نہ تِھیں ،اور خواتین اور مرد سب ہی اپنے بال صاف کرنے کے لیے لوہے کے بنے ہوئے اوزار اِستعمال کرتے تھے ، پلاسٹک بلیڈز یا ریزرز ( پلاسٹک کے چاقو یا اُسترے ) میسر تھے ، اور نہ ہی ہیر ریمونگ کریمز یا لیکوڈز (بال اُتارنے والے معجون یا تیل وغیرہ ) لہذا اِس قِسم کے فتوؤں اور قصے کہانیوں کی کوئی شرعی حقیقت نہیں ،
    (٢) ختنہ کروانا ::: یہ کام بھی مردوں اور عورتوں کے لیے مشترکہ ہے ، گو کہ ہمارے معاشرے میں بچیوں کاختنہ تقریباً بالکل غیر معروف چیز ہے لیکن عرب معاشرے میں یہ کام رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلم کے زمانے سے پہلے بھی تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلم نے اِسے فطرت کی سُنّتوں میں شامل قرار دے کر بر قرار رکھا ، اور آج تک عرب معاشرے میں اِس پر عمل کیا جاتا ہے ، اِس کی تفصیل کا میں یہاں ذِکرنہیں کر رہا ، صِرف ایک حدیث ذِکر کرتا ہوں جو اِس بات کی دلیل ہے ،
    انس ابن مالک رضی اللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلم نے اُم عطیہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا ((((( اِذا خَفَضتِ فَاَشِمَّی ، و لا تَنھِکِی ، فَاِنَّہ ُ اسرَی لِلوجہِ و احظَیٰ للزوج ::: جب تُم ختنہ کرو تو جِلد تھوڑی سی چھیل دو بالکل کاٹو نہیں، ایسا کرنا (یعنی چھیلنا ، لڑکی کے ) چہرے کے لیے رونق اور اُسکے خاوند کے لیے لطف کا سبب ہے ))))) سلسلہ الاحادیث الصحیحہ ، حدیث ٨٢٢ ۔
    (٣) مونچھیں کاٹنا یا کُترنا ::: بڑی اور لمبی مونچھیں جِنہیں کافروں اور مشرکوں کے نقالی کرتے ہوئے اور اُن کے فلسفوں کا شِکار بن کر ''' مردانگی کی عِلامت ''' سمجھا جاتا ہے ، فطرت کی بھی خِلاف ورزی ہیں ، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلم کے حُکم ((((( احفُوا الشَّوَارِبَ و اعفُو اللَّحَی ::: مونچھوں کو ہلکا کرو اور داڑھیوں کو (مونڈھنے ، کُترنے سے ) معاف رکھو))))) ٭٭ کی بھی ، اِسی طرح مونچھوں کو بالکل مونڈھ دینا بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلم کے اِس حُکم کی ، اور راویِ حدیث صحابی کی سُنّت کی ، اور سُنّتِ فطرت کی خِلاف ورزی ہے ۔
    ٭٭ عبداللہ ابن عُمر رضی اللہ عنہما اِس حدیث کے راوی ہیں اور حدیث صحیح مُسلم /کتاب الطہارۃ /باب ١٦خصال الفطرۃ میں ہے ، اور صحیح البُخاری/ کتاب الطب؟ / باب٦٣ قُص الشارب ، میں اِمام البُخاری رحمہ ُ اللہ نے تعلیقاً روایت کیا کہ """ ابن عُمراپنی مونچھیں اتنی ہلکی کرتے تھے کہ نیچے سے جِلد کی سُفیدی دِکھائی دیتی تھی اور مونچھوں اور داڑھی کے درمیانی حصے سے بھی بال اُتارتے تھے """
    اور اِمام الالبانی نے ''' سلسلہ الاحادیث الموضوعہ و الضعیفہ، حدیث ٤٠٥٦ '''کی تخریج کے آخر میں لکھا ''' (اِمام ) الطحاوی نے ( شرح المعانی میں ) اِس اثر (یعنی عبداللہ ابن عُمر رضی اللہ عنہما کے اِس فعل ) کو مُختلف سندوں سے روایت کیا ، جِن میں سے کچھ صحیح ہیں ''' ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلم کے کِسی حُکم کی سب سے بہترین شرح خُود اُن کے اپنے عمل یا فعل سے ملتی ہے اُس کے بعدصحابہ کے قول و فعل سے اور اُن میں بھی خاص طور پر حدیث روایت کرنے والے صحابی کے قول و فعل سے ، لہذا عبداللہ ابن عُمر رضی اللہ عنہما کا یہ فعل رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلم کے حُکم کی سب سے بہترین عملی تشریح ہے ۔
    (٤) بغلوں کے بال اُکھیڑنا ::: اِس مضمون کے پہلے صفحے میں نقل کی گئی پہلی اور دوسری حدیث میں بغلوں کے بال اُکھیڑنے کا ذِکر ہے ، اِمام النووی رحمہُ اللہ نے پہلی حدیث کی شرح میں لکھا ''' بغلوں کے بال اُکھیڑنا گو کہ تکلیف دہ ہوتا ہے لیکن یہ ہی سُنّت ہے ، اگر کِسی سے برداشت نہ ہو سکے تو وہ اُسترے سے بغلوں کے بال مُونڈھ سکتا ہے یا سفوف اِستعمال کر کے اُنہیں اُتار سکتا ہے ''' بحوالہ شرح النووی علیٰ صحیح مُسلم ، کتاب الطہارۃ /باب ١٦خصال الفطرۃ ۔
    (٥) ناخُن کاٹنا ::: ناخُن کاٹنے کو بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلم نے فطرت کی سُنّتوں میں شُمار فرمایا ۔
    اِن کاموں کوزیادہ سے زیادہ کتنی دیر بعد کرلینا چاہیئے ؟
    انس بن مالک رضی اللہ عنہ ُ کا کہنا ہے ((((( وُقِّت َ لنَا فِی قَصُّ الشَّارِبِ ، و تَقلِیمُ الاظفارِ ، و نَتف ُ الإِبطِ ، و حَلق العانَۃِ ان لا نترُکَ اکثر مِن اربعینَ لیلۃً ::: ہمارے لیے مُقرر کر دِیا گیا کہ ہم مونچھیں کُترنے ، اور ناخن کاٹنے اور بغلوں کے بال اُکھیڑنے اور زیر ناف بال مونڈھنے میں چالیس راتوں سے زیادہ دیر نہ کریں ))))) صحیح مُسلم / کتاب الطہارۃ/باب١٦ خصال الفطرۃ ،
    مُسند احمد ، سُنن ابن ماجہ ، سُنن الترمذی ، سُنن النسائی ، سُنن ابو داؤد ،
    اِس حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ نے جِن کاموں کو فطرت کی سُنّتوں میں شُمار فرمایا ہے اُن میں سے یہ پانچ کام ایسے ہیں جِن کو کرنے میں زیادہ سے زیادہ چالیس دِن کی مُدت کی چُھوٹ دِی گئی ہے ، یعنی اِن کاموں کو چالیس دِن سے زیادہ دیر تک نہ کرنا ناجائز ہے ، کیونکہ رسول اللہ کے حُکم کی خِلاف ورزی ہے ۔
    آخر میں قارئین کی توجہ ایک بات کی طرف مبذول کرنا چاہتا ہوں کہ ابھی بیان کئی گئی احادیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلم نے جو کام بتائے ہیں اُنہیں ''' فطرت کی سُنّتوں میں سے ''' فرمایا ہے ، جِسکا مطلب ہے کہ صِرف یہ ہی فطرت کی سُنّتیں نہیں ہیں ، لیکن یہ وہ ہیں جِن کو ہمارے لیے برقرار رکھا گیا ہے ، اور جو کوئی اِن کے عِلاوہ ہیں اُن کا ہمیں بتایا نہیں گیا ، پس کِسی کام کو اپنے طور پر فطرت کی سُنّت سمجھ لینا اور اُس پر عمل کرنے کی کوئی گُنجائش نہیں ، اور اِس سے بڑھ کر یہ کہ کِسی ممنوع کام کو کھینچ تان کر سُنّتِ فطرت بنا کر اُسکو کرنے کا جواز بنایا جائے گویا کہ اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلم سے بڑھ کر عِلم اور دانائی والا ہونے کا عملی دعویٰ کیا جارہا ہے ، یہ بات کہنے کا سبب کُچھ لوگوں کی ایک فلسفیانہ دلیل ہے جو وہ اپنے چہرے کا حُلیہ بگاڑنے یعنی داڑھی مونڈھنے یا کترنے کے لیے پیش کرتے ہیں ، اور وہ یہ کہ ، اللہ تعالیٰ نے ہر اِنسان کو فطرت پر بنایا ہے اور پیدائش کے وقت اِنسان کے چہرے پر بال نہیں ہوتے ، لہذا اِن بالوں کو صاف کرنا عین فطرتی معاملہ ہے بلکہ فطرت کی سُنّت پر عمل ہے ،
    اِسی قِسم کے گمراہ فلسفے کے شِکار ایک صاحب ایک عالِم کے سامنے اپنے فلسفے کا اِظہار فرما رہے تھے ، عالِم خاموشی سے اُن کی لاف و گزاف سُنتے رہے ، اور وہ صاحب سمجھے کہاُن کے فلسفے نے عالِم کو خاموش کر دِیا ہے اور وہ جواب دینے کے قابل نہیں ، تو بڑے فخر اور تکبر کے ساتھ اُس عالِم کو مخاطب کر کے کہا ''' جی ، حضرت آپ ہماری اِس فطری بات کا کوئی جواب آپ دے سکتے ہیں ؟''' عالِم صاحب یہ جان چُکے تھے کہ یہ بیوقوف شخص اور اِس کے فلسفے سے مُتاثر دوسرے اِس جیسے لوگ قُران اور سُنّت کی بات کو عقل اور فلسفے پر پرکھنے والے ہیں ، لہذا پہلے اِنہیں عقل اور فلسفے سے ہی ا،ن کے فلسفے کا جادو توڑا جائے اور پھر قُران و سُنّت کا بیان ہو ، تو عالِم صاحب نے جواب دِیا ''' میں آپ کی بات سے فی الحال اِتفاق کرتا ہوں کہ چونکہ اللہ کے حُکم سے جب اِنسان کی پیدائش ہوتی ہے تو وہ فطرت کی حالت پر ہوتا ہے ، قطع نظر اِس کے کہ فطرت سے کیا مُراد ہے ، آپ کی بات کے مُطابق مان لیتے ہیں کہ چونکہ اُس فطری حالت میں اِنسان کے چہرے پر داڑھی نہیں ہوتی لہذا داڑھی مونڈھنا فطری عمل ہے ، اور اب اُس پیدائش کے وقت کو سامنے رکھتے ہوئے میں یہ کہتا ہوں کہ مجھے اجازت دی جائے کہ میں آپ کے فلسفے زدہ سر پر اتنے جوتے برساؤں کہ آپ کے بال اُسی طرح بہت تھوڑے اور ہلکے ہو جائیں جیسا کہ پیدائش کے وقت تھے ، کیونکہ اگر اُسترے سے مونڈھے جائیں گے تو پھر فطری حالت میں تو نہیں آ سکیں گے ، اور صِرف اِس وقت نہیں بلکہ وقتاً فوقتاً جب بھی آپ کے بال آپ کے فلسفے کی مقرر کردہ فطری حالت سے خارج ہونے لگیں ،میں آپ کی یہ خدمت کرنے کے لیے تیار ہوں ،
    اور پیدائش کے وقت اِنسان کے دانت بھی نہیں ہوتے ، لہذا آپ کے فلسفے کے پر عمل کرتے ہوئے میں آپ کے دانت توڑنا بھی خوش نصیبی سمجھوں گا ، اور پیدائش کے وقت اِنسان بات کرنے کی صلاحیت بھی نہیں رکھتا لہذا آپ کے فلسفے پر عمل کرتے ہوئے ، میں اپنے خرچے پر آپ کے لیے کِسی ایسے جراح طبیب ( سرجن) کا اِنتظام بھی کروا سکتا ہوں جو آپ کی زُبان کے وہ پٹھے ( مسلز ) بے حس کر دے جو بات کرنے کے لیے زُبان کو حرکت میں لاتے ہیں ، اور پیدائش کے وقت چونکہ اِنسان ، ابھی عالِم صاحب کی بات جاری تھی کہ وہ صاحب چیخ اُٹھے ''' بس بس جناب ، میں سمجھ گیا کہ میری سوچ ٹھیک نہیں تھی ، آپ ہمیں تفصیل سے سمجھائیے کہ ہمیں ایک اچھے مُسلمان کی حیثیت سے کیا کرنا چاہیئے '''
    عالِم صاحب اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے مجلس میں موجود سب صاحبان کو اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلم کی بلا مشروط اور عقل و فلسفے کی زد میں لائے بغیر اطاعت اور تابع فرمانی کا درس دینے لگے ۔
    اللہ تعالیٰ ہم سب کو بھی یہ توفیق عطاء فرمائے کہ ہم حق کو پہچان سکیں اور کِسی شرم ، بُزدِلی ، مجبوری کا شِکار ہوئے بغیر اُس کو مانیں اور اُس پر عمل کریں اور اُس کی دعوت ہر ایک تک پہنچائیں، اور اللہ تعالیٰ ہمارے نیک عملوں کو قُبُول فرمائے اور گناہوں ، غلطیوں اور کوتاہیوں سے درگُزر فرمائے اور ہمارے خاتمے اِیمان پر فرمائے ۔
    السلامُ علیکُم و رحمۃ ُ اللہ و برکاتہ ُ ، طلباگارِ دُعا ، آپ کا بھائی، عادِل سُہیل ظفر۔
     
  2. الف
    آف لائن

    الف ممبر

    شمولیت:
    ‏1 اگست 2008
    پیغامات:
    398
    موصول پسندیدگیاں:
    3
    جواب: ::: فطرت کی سنتیں :::

    سر کے بالوں پر کوئی حکم نہھیں ؟
     
  3. عادل سہیل
    آف لائن

    عادل سہیل ممبر

    شمولیت:
    ‏24 جولائی 2008
    پیغامات:
    410
    موصول پسندیدگیاں:
    11
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: ::: فطرت کی سنتیں :::

    السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ ،
    بھائی ، یا ، بہن ، اگر آپ اپنے سوال کو کچھ وضاحت اور تفصیل سے کریں تو ان شاء اللہ جواب پیش کروں ، اس طرح کے مجمل سوال کے جواب میں تو بہت کچھ لکھنا پڑے گا اور پھر بھی یہ ممکن ہے کہ آپ جو پوچھنا چاہ رہے ہیں اس کا جواب آپ کو نہ مل سکے لہذا اپنے سوال کو کھول کر کیجیے ، و السلام علیکم۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں