1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

::::: سابقہ نازل شدہ کتابیں ، اور اُن کی شرعی حیثیت :::::

'تعلیماتِ قرآن و حدیث' میں موضوعات آغاز کردہ از عادل سہیل, ‏12 مارچ 2010۔

  1. عادل سہیل
    آف لائن

    عادل سہیل ممبر

    شمولیت:
    ‏24 جولائی 2008
    پیغامات:
    410
    موصول پسندیدگیاں:
    11
    ملک کا جھنڈا:
    ::::: سابقہ نازل شدہ کتابیں ، اور اُن کی شرعی حیثیت :::::​

    الحَمدُ لِلَّہِ وَحدَہُ و الصَّلاۃُ و السَّلامُ عَلیٰ مَن لا نَبِيَّ وَ لا مَعصُومَ بَعدَہُ ، وَ عَلیٰ آلہِ وَ ازوَاجِہِ وَ اصَحَابِہِ وَ مَن تَبعَھُم باِحسَانٍ اِلیٰ یَومِ الدِین:::
    خالص اور حقیقی تعریف اکیلے اللہ کے لیے ہے ، اور اللہ کی رحمتیں اور سلامتی ہو محمد پر جِنکے بعد کوئی نبی اور معصوم نہیں ، اور اُن
    صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی آل پر ، اور مقدس بیگمات پر اور تمام اصحاب پر اور جو اُن سب کی ٹھیک طرح سے مکمل پیروی کریں اُن سب پر ،
    السلام علیکم و رحمۃُ اللہ و برکاتہُ ،
    یہاں میں آپ صاحبان سے سابقہ الہامی ، آسمانی کتابوں ، اگر اب اُن میں سے کوئی اپنی اصلی حالت میں کہیں موجود ہے تو بھی ، اُن کتابوں کی شرعی حیثیت کے بارے میں کچھ عرض کروں گا کیونکہ ہمارے کچھ مُسلمان بھائی اُن کتابوں میں سے اپنے کِسی قول یا عمل کے لیے دلیل تلاش کرتے اور دلیل بنانے کی کوشش میں مظر آتے ہیں ،
    ہمیں اُن سب کتابوں پر اِیمان رکھنے کا حُکم ہے کہ ، وہ کتابیں ، یا صحیفے ، جِن کا ذِکر اللہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ وہ اللہ کی طرف سے نازل شدہ ہیں ، تو ہم اُن کے اللہ کی طرف سے ہونے پر اِیمان رکھیں ، لیکن اُن اِلفاظ پر جو پایہ ثبوت تک پہنچتے ہوں کہ وہ اللہ کی طرف سے ہیں ، نہ کہ تحریف اور تبدیل شدہ اِلفاظ پر ، اور الحمدُ للہ ہم اُن کتابوں کے اللہ کی طرف سے ہونے پر اِیمان رکھتے ہیں ، لیکن اُن کے تحریف و تبدیل شدہ نسخوں کو قابل اعتماد نہیں جانتے ، اور یہ اللہ کی طرف سے اُمتِ محمدیہ علی صاحبھا الصلاۃ و السلام پر اللہ کی خاص نعمتوں میں سے ایک ہے کہ اُس کی طرف نازل کی گئی کتاب اللہ نے محفوظ رکھی اور قیامت تک محفوظ رکھنے کا وعدہ فرمایا ، اور اُس کتاب قُران کے عِلاوہ کوئی اور سابقہ آسمانی کتاب محفوظ نہیں رہی ،
    قطع نظر اِس کے کہ وہ کتابیں اللہ کے نازل کردہ الفاظ میں محفوظ رہِیں یا نہیں ، ہم یہ سمجھنا چاہتے ہیں کہ اُن کتابوں کا شریعتِ محمدیہ علی صاحبھا الصلاۃ و السلام میں کوئی عقیدہ ، یا عِبادت ، یا حُکم اختیار کرنے کا ذریعہ یا دلیل ہونے کا معاملہ کیا ہے ؟؟؟ اور کیا حُکم ہے ؟؟؟
    تو اِس کے بارے میں عرض ہے کہ ، وہ سب کتابیں ، ایک ایک قوم کی طرف تِھیں اور اُسی اُسی قوم کی زُبان میں تِھیں ،
    رسول اللہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سب سے آخر میں آئے ، اللہ کی آخری شریعت لے کر آئے ، وہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کِسی ایک قوم کے لیے نہیں بلکہ تمام انسانیت کے لیے رسول تھے ،
    اللہ سُبحانہُ و تعالیٰ کا فرمان ہے
    ((((( وَمَا اَرسَلنَاکَ اِلَّا کَافَّۃً لِّلنَّاسِ بَشِیراً وَنَذِیراً وَلَکِنَّ اَکثَرَ النَّاسِ لَا یَعلَمُونَ ::: اور ہم نے آپ کو سارے انسانوں کے لیے خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے لیکن لوگوں کی اکثریت یہ حقیقت نہیں جانتی )
    )))) سورت سباء آیت ٢٨،
    اورمحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی رسالت تا قیامت ہے ، اُن کے ذریعے بھیجی جانے والی شریعت تا قیامت ہے ، کِسی ایک قوم کے لیے نہیں قیامت تک آنے والے ہر ایک اِنسان کے لیے ، قران و رسالت کی زُبان عربی مقرر ہو چکی ، اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے بیان کیے گئے ، عقائد ، احکامات ،اور آدم علیہ السلام سے لے کر محمد صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم تک ہر ایک رسول اور نبی کی مشترکہ دعوت ، اللہ کی توحید ، جِس کی اصل اساس اللہ کا تعارف اور پہچان ہے ، قیامت تک کے لیے اُس زبان میں ہے ، ہم اُن کو سمجھنے کے لیے اپنی غیر عرب زبانوں سے مدد تو لے سکتے ہیں ہیں لیکن ، اللہ کے نام اور صفات ، اور احکام ، زُبان کے قواعد کے ذریعے یا اپنی اپنی قدیم یا جدید زُبانوں کے مفاہیم کی روشنی میں نہیں سمجھے جا سکتے ، کیونکہ ایسا کرنا بلا شک و شبہہ دِین دُنیا اور آخرت کے گھاٹے والا کام ہے ، پس مُسلمانوں کو اپنے عقائد و احکامات اپنانے کے لیے صرف اللہ کی آخری کتاب اور آخری رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے قول و فعل کو صحابہ رضی اللہ عنہم کی جماعت کے اقوال و افعال کی حدود میں رہنا ہے ، سابقہ الہامی ، یا وحی شدہ، یا لکھی لکھائی دی گئی کتابوں ، یا سابقہ نبیوں علیہم السلام سے مروی روایات کو دلیل بنا کر کوئی عقیدہ ، عبادت ، دِینی حُکم ، معاشرتی حُکم ، کاروباری ، تجارتی حُکم کوئی بھی معاملہ جِس کے لیے قران و صحیح سنّت کی موافقت نہ ہو ، نہیں اپنایا جا سکتا ،
    اور ایسا اِس لیے کہ اللہ کے مُقرر کردہ قانون کے مُطابق ہر نئے نبی کی اتباع یعنی تابع فرمانی کرنا اُس سے پہلے والے(سابقہ ، پُرانے ) نبی پر فرض ہے، اور اُمتیوں پر نبی سے زیادہ فرض ہے ، اور ہر نئی شریعت اُس سے پہلے والی(سابقہ ، پُرانی) شریعت (عقائد و احکامات) کو منسوخ کرتی ہے ،

    :::::::: مُلاحظہ فرمائیے کہ اِس سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حُکم کیا ہے ،
    جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہُ سے روایت ہے کہ ''''' ایک دِن عُمر ابن الخطاب (رضی اللہ عنہما ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے پاس تورات کا ایک نسخہ لے کر آئے اور عرض کیا ::: اے اللہ کے رسول یہ تورات کا نسخہ ہے :::رسول اللہ
    صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم خاموش رہے ، تو عُمر (رضی اللہ عنہُ ) نے اُس کو پڑہنا شروع کر دِیا جیسے جیسے وہ پڑہتے جا رہے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک (غصے کی وجہ سے )بدلتا جا رہا تھا ، یہ دیکھ کر ابو بکر (رضی اللہ عنہُ ) نے عُمر (رضی اللہ عنہُ ) سے کہا ::: تُماری ماں تُمہیں گنوا دے کیا تُم دیکھتے کیوں نہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم) کے چہرے مُبارک پر کیا ہے ؟ (یعنی کتنا غُصہ ہے؟)::: تو عُمر (رضی اللہ عنہُ ) نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے چہرہ مُبارک کی طرف دیکھا ، اور فوراً پکار اُٹھے ::::: اَعُوذُ بِاللَّہِ من غَضَبِ اللَّہِ ومن غضب رَسُولِہِ رَضِینَا بِاللَّہِ رَبًّا وَبِالاِسلَامِ دِینًا وَبِمُحَمَّدٍ نَبِیًّا ، میں اللہ کے غصے سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں اور اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم) کے غصے سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں ، ہم اِس پر راضی ہیں کہ اللہ ہی ہمارا رب ہے اور اِسلام ہی ہمار دِین ہے اور محمد (صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم) ہمارے نبی ہیں ::::: تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا ((((( وَالَّذِی نَفسُ مُحَمَّدٍ بِیَدہِ ، لَو بَدَاء لَکُم مُوسَی فَاتَّبَعتُمُوہُ وَتَرَکتُمُونِی لَضَلَلتُم عَن سَوَاء ِ السَّبِیلِ ، وَلَو کَان حَیًّا وَاَدرَکَ نُبُوَّتِی لَاتَّبَعَنِی ::: اُس ذات کی قِسم جِس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے ، اگر موسیٰ تُم لوگوں کے سامنے آ جائیں اور تُم لوگ مجھے چھوڑ کر اُن کی اتباع (پیروی ، تابع فرمانی ) کرنے لگو تو یقینا تُم لوگ دُرست راستے سے بھٹکے ہوئے ہو جاؤ گے ، اور اگر مُوسیٰ میری نبوت کے وقت میں زندہ ہوتے تو یقینا میری اتباع (پیروی ، تابع فرمانی) کرتے ))))) سنن الدارمی /حدیث ٣٤٥ ، الالبانی ، مشکاۃ ١٩٤،٥٥،
    ::::: اِس حدیث میں جہاں صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین ، کا تقویٰ ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سے محبت ، اور اُن کی اطاعت کے طریقے کے اظہار ہوتا ہے ، وہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان سے اللہ تعالیٰ کا مندرجہ بالا فرمان مزید واضح ہو گیا کہ محمد
    ث میں جہاں صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین ، کا تقویٰ ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم قیامت تک کے لیے تمام انسانوں کے لیے بھجے جانے والے آخری رسول اور نبی ہیں ، اور اُن ث میں جہاں صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین ، کا تقویٰ ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے ذریعے بھیجی جانی والی کتاب ، اور شریعت ، اور عقیدہ ، اور احکام ، سابقہ کتابوں ، شریعتوں ، عقائد و عِبادات کو منسوخ کرنے والے ہیں ، اور قیامت تک کے لیے ہیں ،
    اورجو کتاب ، اور شریعت ، اور عقیدہ ، اور احکام ، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے بھیجے گئے ہیں اُن محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے قول و فعل کے مطابق ہی عمل کرنا فرض ہے ، اور سابقہ کتابوں ، نبیوں ، اُمتوں ، کے واقعات ، و احکام سے کوئی حکم نہیں لیا جا سکتا ، بلکہ وہ سب منسوخ ہیں ، یہاں تک کہ اگر سابقہ نبیوں میں سے کِسی کو اللہ تعالیٰ دوبارہ دُنیا میں بھیج بھی دے تو وہ محمد
    صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت پر عمل کرے گا ، نہ کہ خود اُس پر یا اُس کی قوم کی طرف نازل شدہ عقائد و احکام کو اپنائے گا ،
    مزید غور فرمائیے ، اللہ تعالیٰ کے اِس فرمان پر ((((( وَاِذ اَخَذَ اللّہُ مِیثَاقَ النَّبِیِّینَ لَمَا آتَیتُکُم مِّن کِتَابٍ وَحِکمَۃٍ ثُمَّ جَاء کُم رَسُولٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَکُم لَتُؤمِنُنَّ بِہِ وَلَتَنصُرُنَّہُ قَالَ اَاَقرَرتُم وَاَخَذتُم عَلَی ذَلِکُم اِصرِی قَالُوا اَقرَرنَا قَالَ فَاشہَدُوا وَاَنَا مَعَکُم مِّنَ الشَّاہِدِینَ ::: اور جن اللہ نے تمام نبیوں سے عہد لیا کہ میں تُم (نبیوں) کو کتاب او رحِکمت میں سے ( احکام و پیغامات )دوں گا پھر (اُس کے بعد میر ا) رسول وہ کچھ لے کر آئے گا جو تمہارے پاس (پہلے سے )موجود (کتاب و حِکمت ) کے تصدیق کرے گا ، اور( میں تُم نبیوں سے یہ عہدلے رہا ہوں کہ ) تُم ضرور اُس (رسول) پر اِیمان لاؤ گے اور اُس کی مدد کرو گے ، پھر اللہ نے فرمایا کیا تُم لوگ ایسا کرنے کا اِقرار کرتے ہو اور اِس پر میرا عہد تھامتے ہو ، سب نبیوں نے کہا ، ہم اقرار کرتے ہیں ، اللہ نے کہا ، پس تُم سب بھی گواہ رہو اور میں خود بھی تُم سب کے ساتھ گوا ہ ہوں )
    )))) سورت آل عمران / آیت ٨١ ،
    اِس کے بعد کِسی صاحبِ اِیمان ، اور عقل سلیم والے مُسلمان کے لیے کیا گنجائش ہے کہ وہ اپنی یا اپنے بڑوں کی کِسی غلط فہمی کو درست ثابت کرنے کے لیے اللہ کی آخری شریعت اور اللہ کے آخری رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے اقوال و افعال کو چھوڑ کر سابقہ نازل شدہ کتابوں ، صحیفوں ، یا سابقہ نبیوں ، اور اُمتوں کو دلیل بنائے ؟؟؟

    میرے مُسلمان بھائیو، بہنوں ، سابقہ نبیوں اور اُمتوں کے واقعات کو اللہ تعالیٰ نے اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف عبرت و سبق کے لیے بیان فرمایا ہے ، نہ کہ اُن سے کوئی عقیدہ اخذ کرنے ، اللہ کے نام اور صفات اپنانے ، یا عبادات و احکام بنانے کے لیے ،
    غور سے پڑہیئے اِیمان والو ، اللہ تعالیٰ کی پُکاریں ، یہ پُکاریں کافروں یا مشرکوں کو نہیں ، بلا سمجھے کلمہ پڑھ کر مُسلمانوں کی گنتی میں شامل ہونے والوں کو نہیں ، یہ پکاریں اِیمان لانے والوں کے لیے ہیں ، اللہ اُن کو پُکار پُکار کر کیا حُکم دیتا ہے ، غور سے پڑہیئے ((((( یٰۤاَ اَیّْھَا الذَّینَ اَمَنُوا ادخُلُوا فی السِّلمِ کَآفَۃً وَ لا تَتَّبِعُوا الشَّیطٰنَ اِنَّہُ لَکُم عَدُوٌ مُبِینٌ فَاِن زَلَلتُم مِّن بَعدِ مَا جَآء َتکُمُ البَیِّنَاتُ فَاعلَمُوا اِنَّ اللّٰہ عَزِیزٌ حَکِیمٌ ::: اے لوگوں جو اِیمان لائے ہو پورے کے پورے اِسلام میں داخل ہو جاؤ اور شیطان کے پیچھے مت چلو ، بے شک وہ تمہارا کُھلا دشمن ہے اور اگر تُم لوگوں تک واضح باتیں آنے کے بعد بھی تُم لوگ گمراہ ہوتے ہو تو جان رکھو کہ اللہ زبردست اور حکمت والا ہے ) سورت البقرۃ / آ یت ٢٠٨ ،
    ((((( یٰۤاَ اَیّْھَا الذَّینَ اَمَنُوا اَطِیعْوا اللّٰہَ وَ رَسُولَہُ وَ لاتَوَلَّوا عَنہُ وَ اَنتُم تَسمَعُونَ o وَ لَا تَکُونُوا کَالَّذِینَ قَالُواسَمِعنَا وَ ھُم لَا یَسمَعُونَ o اِنَّ شَرَّ الدََّّوَآبِّ عِندَ اللّٰہِ الصّْمُ البُکمُ الَّذِینَ لَا یَعقِلُونَ::: اے لوگو جو اِیمان لائے ہو اللہ اور رسول کی اطاعت کرو اور سنتے جانتے ہوئے رسول سے منہ نہیں پھیرو o اور اُن لوگوں کی طرح مت ہو جاؤ جو کہتے ہیں کہ ہم سن رہے ہیں لیکن وہ سنتے نہیں o بے شک اللہ کے سامنے سب سے بُرے وہ ہیں جو(عقل کے ) بہرے اور گونگے ہیں اور سمجھتے نہیں
    ))))) سورت ا لانفال /آ یت ٢٠ ، ٢١ ، ٢٢ ،
    ((((( یٰۤاَ اَیّْھَا الذَّینَ اَمَنُوا لَا تقدمُوا بَین َ یَدی اللَّّہ و رسَولَہُ و اتَّقُوا اللَّہ اِنَّ اللَّہ سَمِیعٌ عَلِیمٌ ::: اے ( لوگو) جواِیمان لائے ہو اللہ اور اُس کے رسول سے آگے مت بڑھو اور اللہ سے بچو ( یعنی اُس کے عذاب سے ) بے شک اللہ سنتا اور جانتا ہے )
    ))))سورت الحجرات / آیت ١ ۔
    پس اے اِیمان والو اپنے رب ،اکیلے و تنہا خالق و معبودِ حقیقی اللہ کی پکار پر لیبک کہتے ہوئے اُن پر عمل پیرا ہوجائیے ،
    والسلام علیکم و رحمۃُ اللہ و برکاتہُ ۔
     
  2. الف
    آف لائن

    الف ممبر

    شمولیت:
    ‏1 اگست 2008
    پیغامات:
    398
    موصول پسندیدگیاں:
    3
    جواب: ::::: سابقہ نازل شدہ کتابیں ، اور اُن کی شرعی حیثیت :::::

    سلام علیکم جی
    آپ نے تو بھہت اچھہا مضمون لکہا۔ ماشائ اللہ

    ذرا اس آیت کا شان نزول اور مفھوم سمجھہا دین جو آپ نے لکھہی

    ((((( یٰۤاَ اَیّْھَا الذَّینَ اَمَنُوا لَا تقدمُوا بَین َ یَدی اللَّّہ و رسَولَہُ و اتَّقُوا اللَّہ اِنَّ اللَّہ سَمِیعٌ عَلِیمٌ ::: اے ( لوگو) جواِیمان لائے ہو اللہ اور اُس کے رسول سے آگے مت بڑھو اور اللہ سے بچو ( یعنی اُس کے عذاب سے ) بے شک اللہ سنتا اور جانتا ہے )))))سورت الحجرات / آیت ١ ۔

    مھربانی ۔
     
  3. عادل سہیل
    آف لائن

    عادل سہیل ممبر

    شمولیت:
    ‏24 جولائی 2008
    پیغامات:
    410
    موصول پسندیدگیاں:
    11
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: ::::: سابقہ نازل شدہ کتابیں ، اور اُن کی شرعی حیثیت :::::

    السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ،
    پسندیدگی پر شکریہ قبول فرمایے اور سوال کرنے پر بھی ، اس طرح سوال و جواب کے ذریعے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملتا ہے ، باذن اللہ ،
    اب آپ کے سوال کا جواب پیش کرتا ہوں
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    اس آیت مبارکہ اور اس کے بعد والی آیت کے شان نزول میں تین مختلف اسباب کا ذکر ملتا ہے جن میں سے سب سے زیادہ صحیح وہ واقعہ ہے جو صحیح البخاری میں مذکور ہے کہ :::
    """ قَدِمَ رَكْبٌ من بَنِي تَمِيمٍ على النبي صلی اللہ علیہِ وعلی آلہ وسلّم فقال أبو بَكْرٍ أَمِّرْ الْقَعْقَاعَ بن مَعْبَدٍ وقال عُمَرُ بَلْ أَمِّرْ الْأَقْرَعَ بن حَابِسٍ فقال أبو بَكْرٍ ما أَرَدْتَ إلى أو إلا خِلَافِي فقال عُمَرُ ما أَرَدْتُ خِلَافَكَ فَتَمَارَيَا حتى ارْتَفَعَتْ أَصْوَاتُهُمَا فَنَزَلَ في ذلك يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُقَدِّمُوا بين يَدَيْ اللَّهِ وَرَسُولِهِ
    """ ایک دفعہ بنی تمیم کا ایک وفد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اُن پر امیر یعنی سربراہ مقرر کرنے کے بارے میں ابو بکر الصدیق رضی اللہ عنہ ُ نے مشورہ دیا کہ القعقاع بن معبد کو امیر بنا دیا جائے ، اورعمر الفاروق رضی اللہ عنہ ُ نے مشورہ دیا کہ الاقراع بن حابس کو امیر بنایا جائے ،
    تو ابو بکر الصدیق رضی اللہ عنہ ُ نے کہا ، تُم نے صرف میری مخالفت کرنے کے لیے یہ مشورہ دِیا ہے ،
    عمر الفاروق رضی اللہ عنہ ُ نے کہا ، میں نے آپ کی مخالفت کا کوئی ارادہ نہیں کیا ،"""
    ایک دوسرے سے بات کرتے ہوئے دونوں رضی اللہ عنہما کی آوازیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی موجودگی میں اونچی ہو گئیں ، تو اللہ تعالیٰ نے (((((
    يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُقَدِّمُوا بين يَدَيْ اللَّهِ وَرَسُولِهِ ))))) نازل فرمائی """
    صحیح البخاری /کتاب التفسیر/باب تفیسر سورت الحجرات ،
    اس کے علاوہ ان آیات کے نزول کے اسباب میں کچھ اور اقوال بھی ہیں جن کو مختلف تفیسروں میں دیکھا جا سکتا ہے اگر سب اقوال کا مطالعہ ایک ہی جگہ کرنا چاہیں تو """ تفسیر الجامع لاحکام القران """ جسے عام طور پر تفیسر القرطبی """ کہا جاتا ہے ، اور اس کے علاوہ """ تفیسر جامع البیان عن آیی القران """ جسے عام طور پر """ تفسیر الطبری """ کہا جاتا ہے ، میں دیکھ سکتے ہیں ،
    اس آیت میں اللہ تعالیٰ کے حُکم ((((( لاَ تُقَدِّمُواْ بَيْنَ يَدَيِ ٱللَّهِ وَرَسُولِهِ ::: اللہ اور اس کے رسول سے آگے مت بڑھو ))))) کی تفسیر میں عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کے دو قول منقول ہیں :::
    (۱) """ لا تقولوا خلاف الكتاب والسنة ::: کتاب اور سُنّت کے خِلاف بات مت کرو """
    یعنی ، کوئی ایسی بات مت کرو جس کی دلیل کتاب اللہ اور سُنت مبارکہ میں میسر نہ ہو اور اپنی رائے سے بات کرنے سے باز رہو ،
    (۲) """ نُهُوا أن يتكلموا بين يدي كلامه ::: (اس آیت مبارکہ میں )مسلمانوں کو منع کیا گیا کہ(کسی معاملے میں ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی بات سے پہلے بات نہ کریں ،
    مجاھد رحمہ ُ اللہ کا یہ قول بھی منقول ہے کہ """ لا تفتاتوا على رسول الله صلى الله عليه وسلم بشيء حتى يقضيه الله على لسانه ::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے پہلے فتویٰ مت دو (انتظار کرو ) یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ز ُبان مبارک پر کوئی فیصلہ نازل فرما دے """
    ان تینوں اقوال کا حوالہ بھی سابقہ مذکور تفاسیر ہیں اُن کے ساتھ ساتھ """ تفیسر ابن کثیر """ میں بھی یہ اقوال میسر ہیں ،
    تینوں اقوال سے یہ سمجھ آتا ہے کہ کسی کے لیے یہ جائز نہیں کہ کسی بھی معاملے میں کوئی ایسا فیصلہ یا فتویٰ صادر فرمائے جس کے لیے اللہ یا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی طرف سے دلیل میسر نہ ہو ،اور اللہ کے دیگر احکام کے مطابق اللہ اوراللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے اقوال کو سمجھنے کے لیے ایک کسوٹی بھی مقرر ہے اس کا ذکر ایک الگ مضمون ::::::: احکام شریعت جاننے کی کسوٹیاں ::::::: میں کیا گیا ہے ،
    اس مضمون کا مطالعہ بھی ان شاء اللہ مفید ریے گا ، و السلام علیکم۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں