1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

احادیث مبارکہ :: حضور اکرم علیہ الصلوۃ والسلام کے فرامین

'تعلیماتِ قرآن و حدیث' میں موضوعات آغاز کردہ از نعیم, ‏23 نومبر 2006۔

  1. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: احادیث مبارکہ :: حضور اکرم علیہ الصلوۃ والسلام کے فرامین

    حضور اکرم :saw: ہر امتی کو نام و علامت سے پہچانتے ہیں۔

    عن مجاهد قال : قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم إنکم تعرضون عَلَيَّ بأسمائکم و سيمائکم فأحسنوا الصلاة عَلَيَّ.
    ’’حضرت مجاہد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
    " تم اپنے ناموں اور علامتوں کے ساتھ میرے سامنے پیش کیے جاتے ہو اس لئے
    مجھ پر نہایت خوبصورت انداز سے درود بھیجا کرو۔
    ‘‘

    عبدالرزاق، المصنف، 2 : 214، رقم : 3111

    اللھم صل علی سیدنا ومولانا محمد وعلی آلہ وصحبہ وبارک وسلم
    الصلوۃ والسلام علیک یا سیدی یا رسول اللہ
    وعلی آلک واصحبک یا سیدی یا حبیب اللہ

    اللھم صل علی سیدنا ومولانا محمد وعلی آلہ وصحبہ وبارک وسلم
     
  2. حسن رضا
    آف لائن

    حسن رضا ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جنوری 2009
    پیغامات:
    28,857
    موصول پسندیدگیاں:
    592
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: احادیث مبارکہ :: حضور اکرم علیہ الصلوۃ والسلام کے فرامین

    جزاک اللہ خیر

    اللھم صل علی محمد وعلی آل محمد کما صلیت علی اِبراھیم وعلی آل اِبراھیم اِنک حمید مجیدہ
    اللھم بارک علی محمد وعلی آل محمد کما بارکت علی اِبراھیم وعلی آل اِبراھیم انک حمید مجیدہ
     
  3. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    حضور نبی اکرم ص کا جانوروں کی بولیاں سمجھنا

    حضور نبی اکرم :saw: کا جانوروں کی زبان سمجھنا اور ان پر شفقت فرمانا۔

    عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضي الله عنه قَالَ : مَرَّ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم عَلَي قَوْمٍ قَدْ صَادُوْا ظَبْيَةً فَشَدُّوْهَا إِلَي عَمُوْدِ الْفُسْطَاطِ. فَقَالَتْ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، إِنِّي وَضَعْتُ وَلِي خَشْفَانِ. فَاسْتَأْذِنْ لِي أَنْ أُرْضِعَهُمَا ثُمَّ أَعُوْدُ إِلَيْهِمْ. فَقَالَ : أَيْنَ صَاحِبُ هَذِهِ؟ فَقَالَ الْقَوْمُ : نَحْنُ، يَا رَسُوْلَ اﷲِ. فَقَالَ : رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : خُلُّوْا عَنْهَا حَتَّي تَأْتِيَ خَشْفَيْهَا تُرْضِعُهُمَا وَتَأْتِيَ إِلَيْکُمْ. قَالُوْا : وَمَنْ لَنَا بِذَلِکَ، يَارَسُوْلَ اﷲِ؟ قَالَ : أَنَا. فَأَطْلَقُوْهَا فَذَهَبَتْ فَأَرْضَعَتْ ثُمَّ رَجَعَتْ إِلَيْهِمْ فَأَوْثَقُوْهَا. فَمَرَّ بِهِمُ النَّبِيُّ صلي الله عليه وآله وسلم فَقَالَ : أَيْنَ أَصْحَابُ هَذِهِ؟ قَالُوْا : هُوَ ذَا نَحْنُ، يَارَسُوْلَ اﷲِ. قَالَ : تَبِيْعُوْنِهَا؟ قَالُوْا : يَارَسُوْلَ اﷲِ، هِيَ لَکَ. فَخَلُّوْا عَنْهَا فَأَطْلَقُوْهَا فَذَهَبَتْ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَأَبُوْنُعَيْمٍ.

    ’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک گروہ کے پاس سے گزرے۔ انہوں نے ایک ہرنی کو شکار کرکے ایک بانس کے ساتھ باندھ رکھا تھا۔ اس ہرنی نے عرض کیا : یارسول اﷲ! میرے دو چھوٹے بچے ہیں جنہیں میں نے حال ہی میں جنا ہے۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھے ان سے اجازت دلوا دیں کہ میں اپنے بچوں کو دودھ پلا کر واپس آجاؤں۔
    آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اس کا مالک کہاں ہے؟ اس گروہ نے کہا : یارسول اﷲ، ہم اس کے مالک ہیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اسے چھوڑ دو یہاں تک کہ یہ اپنے بچوں کو دودھ پلا کر تمہارے پاس واپس آجائے۔ انہوں نے عرض کیا : یارسول اﷲ! اس کی واپسی کی ہمیں کون ضمانت دے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : "میں۔"
    انہوں نے ہرنی کو چھوڑ دیا پس وہ گئی اور اپنے بچوں کو دودھ پلا کر واپس لوٹ آئی۔ انہوں نے اسے پھر باندھ دیا۔ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دوبارہ ان لوگوں کے پاس سے گزرے اور ان سے پوچھا : اس کا مالک کہاں ہے؟ اس گروہ نے عرض کیا : یارسول اﷲ! وہ ہم ہی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کیا تم اس ہرنی کو مجھے فروخت کرو گے؟ انہوں نے عرض کیا : یارسول اﷲ! یہ آپ ہی کی ہے۔ پس انہوں نے اسے کھول کر آزاد کر دیا اور وہ چلی گئی۔‘‘

    أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 6 / 358، الرقم : 5547، وأبو نعيم في دلائل النبوة، 376، الرقم : 274، و ابن کثير في شمائل الرسول، 347.
     
  4. حسن رضا
    آف لائن

    حسن رضا ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جنوری 2009
    پیغامات:
    28,857
    موصول پسندیدگیاں:
    592
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: احادیث مبارکہ :: حضور اکرم علیہ الصلوۃ والسلام کے فرامین

    جزاک اللہ خیر

    اللہ پاک آپ کو ہمیشہ خوش و خرم رکھے آمین

    اللھم صل علی محمد وعلی آل محمد کما صلیت علی اِبراھیم وعلی آل اِبراھیم اِنک حمید مجیدہ
    اللھم بارک علی محمد وعلی آل محمد کما بارکت علی اِبراھیم وعلی آل اِبراھیم انک حمید مجیدہ
     
  5. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: احادیث مبارکہ :: حضور اکرم علیہ الصلوۃ والسلام کے فرامین

    حقیقتِ ایمان اور اولیاء اللہ کی پہچان
    ذکر اولیاء -ذکر الہی ، اور ذکر الہی - ذکر اولیاء

    عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَمِقِ رضي الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : لَا يُحِقُّ الْعَبْدُ حَقِيقَةَ الإِيْمَانِ حَتَّي يَغْضَبَِﷲِ وَيَرْضَيﷲِ، فَإِذَا فَعَلَ ذَلِکَ، اسْتَحَقَّ حَقِيْقَةَ الإِيْمَانِ، وَإِنَّ أَحِبَّائِي وَأَوْلِيَائِي الَّذِيْنَ يُذْکَرُوْنَ بِذِکْرِي وَأُذْکَرُ بِذِکْرِهِمْ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَأَحْمَدُ.

    ’’حضرت عمرو بن حمق رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
    بندہ اس وقت تک ایمان کی حقیقت کو نہیں پا سکتا جب تک کہ وہ اللہ تعالیٰ کے لئے ہی (کسی سے) ناراض اور اللہ تعالیٰ کے لئے ہی (کسی سے) راضی نہ ہو (یعنی اس کی رضا کا مرکز و محور فقط ذاتِ الٰہی ہو جائے) اور جب اس نے یہ کام کر لیا تو اس نے ایمان کی حقیقت کو پا لیا، اور بے شک میرے احباب اور اولیاء وہ لوگ ہیں کہ میرے ذکر سے ان کی یاد آجاتی ہے اور ان کے ذکر سے میری یاد آ جاتی ہے (یعنی میرا ذکر ان کا ذکر ہے اور ان کا ذکر میرا ذکر ہے)۔‘‘

    الطبراني في المعجم الأوسط، 1 / 203، الرقم : 651، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 430، الرقم : 15634، وابن رجب في جامع العلوم والحکم، 1 / 365، وابن أبي الدنيا في کتاب الأولياء، 1 / 15، الرقم : 19، والديلمي في مسند الفردوس، 5 / 152، الرقم : 7789، والمنذري في الترغيب والترهيب، 4 / 14، الرقم : 4589، والهيثمي في مجمع الزوائد، 1 / 58.
     
  6. حسن رضا
    آف لائن

    حسن رضا ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جنوری 2009
    پیغامات:
    28,857
    موصول پسندیدگیاں:
    592
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: احادیث مبارکہ :: حضور اکرم علیہ الصلوۃ والسلام کے فرامین

    جزاک اللہ خیر

    اللہ پاک آپ کو ہمیشہ آپ کی فیملی کے ساتھ خوش و خرم رکھے آمین

    اللھم صل علی محمد وعلی آل محمد کما صلیت علی اِبراھیم وعلی آل اِبراھیم اِنک حمید مجیدہ
    اللھم بارک علی محمد وعلی آل محمد کما بارکت علی اِبراھیم وعلی آل اِبراھیم انک حمید مجیدہ
     
  7. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: احادیث مبارکہ :: حضور اکرم علیہ الصلوۃ والسلام کے فرامین

    اسلام میں نیک کام جاری کرنے کا ثواب اور برا کام جاری کرنے کا گناہ

    عَنْ جَرِيْرِ بْنِ عَبْدِ اﷲِ رضي الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : مَنْ سَنَّ فِي الإِسْلَامِ سُنَّةً حَسَنَةً فَلَهُ أَجْرُهَا، وَأَجْرُ مَنْ عَمِلَ بِهَا بَعْدَهُ. مِنْ غَيْرِ أَنْ يُنْقَصَ مِنْ أُجُورِهِمْ شَيئٌ. وَمَنْ سَنَّ فِي الإِسْلَامِ سُنَّةً سَيِئَةً، کَانَ عَلَيْهِ وِزْرُهَا وَوِزْرُ مَنْ عَمِلَ بِهَا مِنْ بَعْدِهِ. مِنْ غَيْرِ أَنْ يُنْقَصَ مِنْ أَوْزَارِهِمْ شَيئٌ.

    ’’حضرت جَریر بن عبد اﷲ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
    " جو شخص اسلام میں کسی نیک کام کی بنیاد ڈالے تو اس کے لئے اس کے اپنے اعمال کا بھی ثواب ہے اور جو لوگ اس کے بعد اس پر عمل کریں گے ان کا ثواب بھی ہے۔ بغیر اس کے کہ ان کے ثواب میں کوئی کمی کی جائے
    اور
    جس نے اسلام میں کسی بری بات کی ابتدا کی تو اس پر اس کے اپنے عمل کا بھی گناہ ہے اور جو لوگ اس کے بعد اس پر عمل کریں گے اس پر ان کا گناہ بھی ہے۔ بغیر اس کے کہ ان کے گناہ میں کچھ کمی ہو۔‘‘

    مسلم في الصحيح، کتاب : الزکاة، باب : الحث علي الصدقة ولو بشق تمرة أو کلمة طيبة وأنها حجاب من النار، 2 / 704، الرقم : 1017، وفي کتاب : العلم، باب : من سن سنة حسنة أو سيئة ومن دعا إلي هدي أوضلالة، 4 / 2059، الرقم : 1017، والنسائي في السنن، کتاب : الزکاة، باب : التحريض علي الصدقة، 5 / 75، الرقم : 2554، وابن ماجه في السنن، المقدمة، باب : من سن سنة حسنة أو سيئة، 1 / 74.75، الرقم : 203، 206، 207، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 / 358، والدارمي في السنن، 1 / 140، الرقم : 512، والبزار في المسند، 7 / 366، الرقم : 2963.
     
  8. حسن رضا
    آف لائن

    حسن رضا ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جنوری 2009
    پیغامات:
    28,857
    موصول پسندیدگیاں:
    592
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: احادیث مبارکہ :: حضور اکرم علیہ الصلوۃ والسلام کے فرامین

    جزاک اللہ خیر


    اللھم صل علی محمد وعلی آل محمد کما صلیت علی اِبراھیم وعلی آل اِبراھیم اِنک حمید مجیدہ
    اللھم بارک علی محمد وعلی آل محمد کما بارکت علی اِبراھیم وعلی آل اِبراھیم انک حمید مجیدہ
     
  9. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: احادیث مبارکہ :: حضور اکرم علیہ الصلوۃ والسلام کے فرامین

    حضور اکرم :saw: کی بیداریء قلب
    حضور اکرم :saw: کی اطاعت ، اللہ کی اطاعت
    حضور اکرم :saw: کی نافرمانی، اللہ کی نافرمانی
    حضور اکرم :saw: کی ذات مبارکہ ، حق و باطل میں فرق
    عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اﷲِ رضي اﷲ عنهما قَالَ : جَاءَتْ مَلَائِکَةٌ إِلَي النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم وَهُوَ نَائِمٌ. . . فَقَالَ بَعْضُهُمْ : إِنَّهُ نَائِمٌ، وَقَالَ بَعْضُهُمْ : إِنَّ الْعَيْنَ نَائِمَةٌ وَالْقَلْبَ يقْظَانُ، فَقَالُوْا : فَالدَّارُ الْجَنَّةُ، وَالدَّاعِي مُحَمَّدٌ صلي الله عليه وآله وسلم، فَمَنْ أَطَاعَ مُحَمَّّدًا فَقَدْ أَطَاعَ اﷲَ، وَمَنْ عَصَي مُحَمَّدًا فَقَدْ عَصَي اﷲَ، وَمُحَمَّدٌ فَرَّقَ بَيْنَ النَّاسِ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ.

    ’’حضرت جابر بن عبداللہ رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے کہ کچھ فرشتے حضور نبی اکرم :saw: کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے جبکہ آپ :saw: استراحت فرما رہے تھے تو ان میں سے ایک نے کہا : یہ تو سوئے ہوئے ہیں۔ دوسرے نے کہا : (ان کی) آنکھ سوتی ہے مگر دل بیدار رہتا ہے۔ پھر انہوں نے کہا : حقیقی گھر جنت ہی ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (حق کی طرف) بلانے والے ہیں۔
    جس نے محمد :saw: کی اطاعت کی (درحقیقت) اس نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی
    اور جس نے محمد :saw: کی نافرمانی کی اس نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی،
    محمد :saw: (اچھے اور برے) لوگوں میں فرق کرنے والے ہیں۔‘‘


    البخاري في الصحيح، کتاب : الاعتصام بالکتاب والسنة، باب : الاقتداء بِسُنَنِ رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، 6 / 2655، الرقم : 6852.
     
  10. حسن رضا
    آف لائن

    حسن رضا ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جنوری 2009
    پیغامات:
    28,857
    موصول پسندیدگیاں:
    592
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: احادیث مبارکہ :: حضور اکرم علیہ الصلوۃ والسلام کے فرامین

    جزاک اللہ خیر

    اللھم صل علی محمد وعلی آل محمد کما صلیت علی اِبراھیم وعلی آل اِبراھیم اِنک حمید مجیدہ
    اللھم بارک علی محمد وعلی آل محمد کما بارکت علی اِبراھیم وعلی آل اِبراھیم انک حمید مجیدہ
     
  11. کاکا سپاہی
    آف لائن

    کاکا سپاہی ممبر

    شمولیت:
    ‏24 مئی 2007
    پیغامات:
    3,796
    موصول پسندیدگیاں:
    596
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: احادیث مبارکہ :: حضور اکرم علیہ الصلوۃ والسلام کے فرامین

    جزاک اللہ ۔
     
  12. وسیم
    آف لائن

    وسیم ممبر

    شمولیت:
    ‏30 جنوری 2007
    پیغامات:
    953
    موصول پسندیدگیاں:
    43
    جواب: احادیث مبارکہ :: حضور اکرم علیہ الصلوۃ والسلام کے فرامین

    سبحان اللہ العظیم۔
    لیکن ایسے حضرات کا کیا کیا جائے جو ہر نیک کام بےشک اس کی بنیاد قرآن و سنت میں موجود ہو ۔ اس پر فورا بدعت و گمراہی کا فتوی صادر فرما دیتے ہیں ؟ :(
     
  13. عادل سہیل
    آف لائن

    عادل سہیل ممبر

    شمولیت:
    ‏24 جولائی 2008
    پیغامات:
    410
    موصول پسندیدگیاں:
    11
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: احادیث مبارکہ :: حضور اکرم علیہ الصلوۃ والسلام کے فرامین

    السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ،
    وسیم بھائی آپ نے واقعتا ایک غلطی کی نشاندہی ہے ، لیکن اس کے ایک پہلو کی طرف ہی التفات کروایا ہے ، کسی بھی کام کے بارے میں مکمل معلومات حاصل کرنے سے پہلے کوئی فیصلہ کرنا ، کوئی فتوی دینا یقینا درست نہیں ،
    اور قران و احادیث کی کسی نص میں بیان کردہ کسی مسئلے کو سیاق و سباق اور اسی مسئلہ سے متعلق دیگر نصوص اور ان نصوص کو صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کی جماعت کے اقوال و افعال کی روشنی میں سمجھے بغیر کوئی نتیجہ اخذ کرنا بھی عموما درست نہیں ہوتا ، خاص طور پر عقائد اور عبادات کو اور ان سے متعلقہ مسائل میں ،
    اسی حدیث پاک کی مثال لیتے ہیں جو بھائی نعیم رضا نے ذکر کی ، اگر اس واقعہ کو پورا پڑھا جائے تو بات کچھ اور طرح سے سمجھ میں آتی ہے ، کہ اس حدیث پاک میں سنت اور بدعت کا فرق ہی بیان کیا گیا ہے ، بدعت کو سنت نہیں کہا گیا ، اور نہ ہی اسلام میں کسی کام کی اصل موجود ہونے کی صورت میں اس کی کسی نئی کیفیت کو سنت کہے جا سکنے کی کوئی دلیل میسر ہے ،
    آیے اس پورے واقعہ کا مطالعہ کرتے ہیں ،

    جَاءَ نَاسٌ مِنَ الأَعْرَابِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم
    دیہاتی لوگوں میں کچھ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے پاس آئے
    عَلَيْهِمُ الصُّوفُ فَرَأَى سُوءَ حَالِهِمْ قَدْ أَصَابَتْهُمْ حَاجَةٌ
    ان پر موٹے کھردرے کپڑے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے ان کی بد حالی دیکھی کہ ان لوگوں کوضرورت نے پکڑ رکھا ہے
    فَحَثَّ النَّاسَ عَلَى الصَّدَقَةِ فَأَبْطَئُوا عَنْهُ حَتَّى رُئِيَ ذَلِكَ فِي وَجْهِهِ
    تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے لوگوں کو صدقہ کرنے کی ترغیب دی ، تو لوگ صدقہ کرنے میں سست رہے یہاں تک اس کا اثر( ناراضگی یا دکھ کی صورت میں ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے چہرہ مبارک پر دیکھا گیا
    - قَالَ - ثُمَّ إِنَّ رَجُلاً مِنَ الأَنْصَارِ جَاءَ بِصُرَّةٍ مِنْ وَرِقٍ
    جریر بن عبداللہ رضی اللہ ( اس واقعہ کے روای مزید ) کہتے ہیں ، پھر انصار میں سے ایک آدمی چاندی سے بھری ہوئی ایک تھیلی لے کر آیا
    ثُمَّ جَاءَ آخَرُ ثُمَّ تَتَابَعُوا
    پھر ایک اور آیا ، پھر لوگوں نے (اُس کی ) اتباع کی ،
    حَتَّى عُرِفَ السُّرُورُ فِي وَجْهِهِ
    یہاں تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے چہرہ مبارک پرخوشی جان لی گئی ،

    فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏(((((‏ مَنْ سَنَّ فِي الإِسْلاَمِ سُنَّةً حَسَنَةً فَعُمِلَ بِهَا بَعْدَهُ كُتِبَ لَهُ مِثْلُ أَجْرِ مَنْ عَمِلَ بِهَا وَلاَ يَنْقُصُ مِنْ أُجُورِهِمْ شَىْءٌ وَمَنْ سَنَّ فِي الإِسْلاَمِ سُنَّةً سَيِّئَةً فَعُمِلَ بِهَا بَعْدَهُ كُتِبَ عَلَيْهِ مِثْلُ وِزْرِ مَنْ عَمِلَ بِهَا وَلاَ يَنْقُصُ مِنْ أَوْزَارِهِمْ شَىْءٌ ‏)))))
    تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ((((( جس نے اسلام میں اچھا طریقہ بنایا اور اس (بنانے والے) کے بعد اس طریقے پر عمل کیا گیا (تو) اس (بنانے والے ) کے لیے اس طریقے پر عمل کرنے والوں کے اجر کے برابر اجر لکھ دیا جاتا ہے اور ان ( طریقہ بنانے اور اس پر عمل کرنےوالوں میں سے کسی ) کے اجر میں کوئی کمی نہیں ہوگی اور جس نے اسلام میں برا طریقہ بنایا اور اس (بنانے والے) کے بعد اس طریقے پر عمل کیا گیا (تو) اس (بنانے والے ) کے لیے اس طریقے پر عمل کرنے والوں کے گناہ کے برابر گناہ لکھ دیے جاتے ہیں اور ان ( طریقہ بنانے اور اس پر عمل کرنےوالوں میں سے کسی ) کے گناہوں میں کوئی کمی نہیں ہوگی )))))
    محترم بھائی ، اس واقعے میں بڑے صاف طور پر پتہ چلتا ہے کہ کسی نے اسلام میں کوئی نیا کام ایجاد نہیں کیا تھا ، اور نہ ہی کسی ایسے کام کو کسی نئی صفت سے ادا کیا جس کام کی اصل قران و سنت میں تھی ،
    بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ترغیب پر اور ان کی ناراضگی یا دُکھ دیکھ کر ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے صدقہ کرنے میں پہل کی اور خوب کی کہ چاندی سے بھری ہوئی ایک تھیلی لیے آئے ،
    پہلے سے موجود ایک کام """ صدقہ کرنا """ میں ان کی اس اچھی پہل کو دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے یہ فرمان ان کے اس عمل کے بارے میں فرمایا ،
    اس میں کہیں بھی کوئی ایسی بات نہیں جسے اسلام میں نیا کام ایجاد کرنے یا بنانے کی دلیل ملتی ہوئی ، یا کسی پہلے سے موجود کام کی کوئی نئی صفت کوئی نئی کیفیت بنانے کی دلیل ملتی ہو، بلکہ کسی جائز کام کو اس کی معروف کیفیات میں کر گذرنے میں پہل کرنے کی ترغیب ہے ، اور اس کے فائدے کا بیان ہے ،

    رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم اہل لغت ہی نہیں تھے بلکہ وہ اللہ کی طرف سے وحی کے مطابق کلام فرماتے تھے ، انہوں نے یہ نہیں فرمایا کہ ((((( مَن ابتدع فی الاسلام بدعۃ حسنۃ ::: جس نے اسلام میں اچھی بدعت بنائی ))))) بلکہ فرمایا (((( من سن فی اسلام سنۃ حسنۃ ::: جس نے اسلام میں اچھا طریقہ بنایا )))) پس بات بہت واضح ہے کہ ، وہاں نہ تو کوئی نیا کام ایجاد کیا گیا تھا ، اور نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے کسی نئی ایجاد کا ذکر فرمایا ، اور نہ ہی پہلے سے موجود کسی کام کی کوئی نئی کیفیت مقرر کی گئی اور نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے کسی نئی کیفیت کے بارے میں اِرشاد فرمایا بلکہ ایک کام کو کرنے لیے اچھے طور پر پہل کر کے اس کام کےلیے ایک اچھا طریقہ بنانے یا دکھانے کے بارے میں یہ فرمایا ،
    پس محترم بھائی ، اگر غور کیا جائے تو ہمیں ، بدعت اور سنت کا فرق یہاں اس واقعہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے فرمان میں مزید واضح ہو جاتا ہے ، اور واضح ہو جاتا ہے کہ اس واقعہ میں کہیں ایسی کوئی بات نہیں جسے ہم اسلام میں کوئی نیا کام بنانے کا جواز جان سکیں ، یا کسی پہلے سے موجود کام میں کسی نئی کیفیت اور صفت کے اضافے کی دلیل جان سکیں ،

    وسیم بھائی ، ایک وضاحت بہت ضروری ہے کہ اس حدیث پاک میں اور اس موضوع سے متعلق تمام نصوص میں """ کام """ سے مراد عقائد اور عبادات سے متعلقہ کام ہیں کوئی بھی کام نہیں ، اس موضوع کی تفصیلات بہت ہیں ، اللہ نے چاہا تو پھر کبھی ان کے بارے میں بات کی جا سکتی ہے ،
    اللہ تعالیٰ ان معلومات کوسب پڑھنے والوں کے لیے دین دنیا اور آخرت میں فائدہ مند بنائے ، و السلام علیکم۔
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    یہ تھریڈ چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے فرامین مبارکہ ذکر کرنے کے لیے ہے لہذا اس کار خیر میں حصہ ڈالنے کے لیے میں ابھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا ایک فرمان مبارک ذکر کرتا ہوں ،
    عن أنس عن النبي صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم قال ((((( إنِی فَرطُکُم عَلیٰ الحَوضِ مَن مَرَّ عليَّ شَرِبَ و مَن شَرِبَ لم یَظمَاء ُ أبداً لَیَرِدُنّ عَليّ أقواماً أعرِفُھُم و یَعرِفُونِي ثُمَّ یُحَالُ بینی و بینَھُم فأقولُ إِنَّھُم مِنی ، فَیُقال ،إِنکَ لا تدری ما أحدَثُوا بَعدَکَ ، قَأقُولُ سُحقاً سُحقاً لَمِن غَیَّرَ بَعدِی ::: [font=&quot] میں تم لوگوں سے پہلے حوض پر ہوں گا جو میرے پاس آئے گا وہ ( اُس حوض میں سے ) پیئے گا اور جو پیئے گا اُسے ( پھر ) کبھی پیاس نہیں لگے گی ، میرے پاس حوض پر کچھ لوگ آئیں گے یہاں تک میں اُنہیں پہچان لوں گا اور وہ مجھے پہچان لیں گے ( کہ یہ میرے اُمتی ہیں اور میں اُن کا رسول ہوں)، پھر اُن کے اور میرے درمیان (کچھ پردہ وغیرہ)حائل کر دیا جائے گا ، اور میں کہوں گا یہ مجھ میں سے ہیں( یعنی میرے اُمتی ہیں ، جیسا کہ صحیح مُسلم کی روایت میں ہے )، تو ( اللہ تعالیٰ ) کہے گا آپ نہیں جانتے کہ اِنہوں نے آپ کے بعد کیا نئے کام کیئے ، تو میں کہوں گا دُور ہوں دُور ہوں ، جِس نے میرے بعد تبدیلی کی ))))))
    [/font]و قال ابن عباس سُحقاً بُعداً سُحیقٌ بَعِیدٌ سُحقۃً ، و أسحقہُ أبعَدُہ
    اور عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا ::: سُحقاً یعنی دُور ہونا ، ُ
    صحیح البُخاری/حدیث ٦٥٨٣ ، ٦٥٨٤/ کتاب الرقاق/ باب فی الحوض، صحیح مسلم / حدیث ٢٢٩٠، ٢٢٩١ /کتاب الفضائل/باب اِثبات حوض نبیّنا صلی اللہ علیہ وسلم و صفاتہ ۔
    وسیم بھائی ، اس حدیث پاک میں کے آخری جملے پر غور فرمایے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم """ نئے کام """ کو تبدیلی سے تعبیر فرمایا ہے ، یعنی ایک کام جس کی اصل تو تھی لیکن اس میں تبدیلی کر دی گئی ، و السلام علیکم۔
     
  14. کاکا سپاہی
    آف لائن

    کاکا سپاہی ممبر

    شمولیت:
    ‏24 مئی 2007
    پیغامات:
    3,796
    موصول پسندیدگیاں:
    596
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: احادیث مبارکہ :: حضور اکرم علیہ الصلوۃ والسلام کے فرامین

    [​IMG]
     
  15. حسن رضا
    آف لائن

    حسن رضا ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جنوری 2009
    پیغامات:
    28,857
    موصول پسندیدگیاں:
    592
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: احادیث مبارکہ :: حضور اکرم علیہ الصلوۃ والسلام کے فرامین

    جزاک اللہ خیر

    اللھم صل علی محمد وعلی آل محمد کما صلیت علی اِبراھیم وعلی آل اِبراھیم اِنک حمید مجیدہ
    اللھم بارک علی محمد وعلی آل محمد کما بارکت علی اِبراھیم وعلی آل اِبراھیم انک حمید مجیدہ
     
  16. عادل سہیل
    آف لائن

    عادل سہیل ممبر

    شمولیت:
    ‏24 جولائی 2008
    پیغامات:
    410
    موصول پسندیدگیاں:
    11
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: احادیث مبارکہ :: حضور اکرم علیہ الصلوۃ والسلام کے فرامین

    السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ،
    ایک دفعہ میں نے """""" نیکیوں کے خزانے """"""" عنوان کے تحت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے فرامین مبارکہ میں سے ثابت شدہ اذکار کو جمع کیا اور ان کو تصویری صورت میں بھی تیار کیا اور ایک جیبی کتاب کی صورت میں چھپوا کر تقسیم بھی کیا ،
    یہاں تصویری مراسلات کی روانی دیکھ کر سوچا کہ اس میں سے کچھ ارسال کر دوں

    [​IMG]
    و السلام علیکم
     
  17. کاکا سپاہی
    آف لائن

    کاکا سپاہی ممبر

    شمولیت:
    ‏24 مئی 2007
    پیغامات:
    3,796
    موصول پسندیدگیاں:
    596
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: احادیث مبارکہ :: حضور اکرم علیہ الصلوۃ والسلام کے فرامین

    جزاک اللہ خیر
     
  18. حسن رضا
    آف لائن

    حسن رضا ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جنوری 2009
    پیغامات:
    28,857
    موصول پسندیدگیاں:
    592
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: احادیث مبارکہ :: حضور اکرم علیہ الصلوۃ والسلام کے فرامین

    جزاک اللہ خیر :222:
     
  19. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: احادیث مبارکہ :: حضور اکرم علیہ الصلوۃ والسلام کے فرامین

    حضور اکرم :saw: کا اپنے تذکرہء میلاد کے لیے اہتمامِ اجتماع


    حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول مبارک تھا کہ آپ :saw: صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے اِجتماع سے خطبہ جمعہ کے علاوہ بھی وقتاً فوقتاً دینی و ایمانی، اَخلاقی و روحانی، علمی و فکری، سیاسی و سماجی، معاشی و معاشرتی، قانونی و پارلیمانی، اِنتظامی و اِنصرامی اور تنظیمی و تربیتی موضوعات پر خطبات اِرشاد فرماتے۔ اس کے علاوہ کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی حسبی و نسبی فضیلت اوربے مثل ولادت پربھی گفتگو فرماتے۔
    درج ذیل اَحادیثِ مبارکہ سے واضح ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنی تخلیق و ولادت کی خصوصیت و فضیلت کے بیان کے لیے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے اِجتماع کا اہتمام فرمایا۔

    حدیث نمبر 1۔

    حضرت مطلب بن ابی وداعہ سے مروی ہے :

    جاء العباس إلي رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم فکأنه سمع شيئاً، فقام النّبي صلي الله عليه وآله وسلم علي المنبر، فقال : من أنا؟ فقالوا : أنت رسول اﷲ، عليک السّلام. قال : أنا محمد بن عبد اﷲ بن عبد المطّلب، إن اﷲ خلق الخلق فجعلني في خيرهم فرقة، ثم جعلهم فرقتين، فجعلني في خيرهم فرقة، ثم جعلهم قبائل، فجعلني في خيرهم قبيلة، ثم جعلهم بيوتاً، فجعلني في خيرهم بيتاً وخيرهم نسباً.

    ’’حضرت عباس رضی اللہ عنہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے، (اس وقت ان کی کیفیت ایسی تھی) گویا انہوں نے (حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کفار سے) کچھ (نازیبا الفاظ) سن رکھے تھے (اور وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بتانا چاہتے تھے)۔ (حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے یہ کلمات حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بتائے یا آپ :saw: علمِ نبوت سے جان گئے) تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر جلوہ اَفروز ہوئے اور فرمایا : میں کون ہوں؟ سب نے عرض کیا : آپ پر سلام ہو، آپ اﷲ تعالیٰ کے رسول ہیں۔
    آپ :saw: نے فرمایا : میں عبد اللہ کا بیٹا محمد ( :saw: ) ہوں۔ اﷲ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا کیا اور اس مخلوق میں سے بہترین گروہ (انسان) کے اندر مجھے پیدا فرمایا اور پھر اس کو دو گروہوں (عرب و عجم) میں تقسیم کیا اور ان میں سے بہترین گروہ (عرب) میں مجھے پیدا کیا۔ پھر اﷲتعالیٰ نے اس حصے کے قبائل بنائے اور ان میں سے بہترین قبیلہ (قریش) کے اندر مجھے پیدا کیا اور پھر اس بہترین قبیلہ کے گھر بنائے تو مجھے بہترین گھر اور نسب (بنو ہاشم) میں پیدا کیا۔‘‘

    1. ترمذي، الجامع الصحيح، کتاب الدعوات، 5 : 543، رقم : 3532
    2۔ ترمذی نے’’الجامع الصحیح (کتاب المناقب، باب فی فضل النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، 5 : 584، رقم : 3608)‘‘ میں وخیرھم نسبا کی جگہ وخیرھم نفسا کے الفاظ بھی بیان کیے ہیں۔
    3۔ احمدبن حنبل نے ’’المسند (1 : 210، رقم : 1788)‘‘ میں آخر حدیث میں ’’فانا خیرکم بیتا وخیرکم نفسا‘‘ کا اضافہ کیا ہے۔

    4. أحمد بن حنبل، المسند، 4 : 165
    5. هيثمي، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، 8 : 216
    6. بيهقي، دلائل النبوة ومعرفة أحوال صاحب الشريعة، 1 : 169


    اس حدیث مبارکہ میں درج ذیل نکات قابلِ غور ہیں :

    (1) حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا کہ جب کسی موضوع پر کوئی اَہم اور قابلِ توجہ بات تمام صحابہ کو بتانا مقصود ہوتی توآپ :saw: اپنا خطبہ یا تقریر منبر پر کھڑے ہو کر اِرشاد فرماتے۔ اگر معمول کی کوئی بات ہوتی تو آپ :saw: موقع پر موجود صحابہ کے گوش گزار کر دیتے لیکن منبر پر کھڑے ہو کر خاص نشست کا اہتمام عامۃ المسلمین تک کوئی خاص بات پہنچانے کے لیے ہوتاتھا۔ حدیثِ مذکورہ میں بھی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر کھڑے ہو کر اِرشاد فرما رہے ہیں، اور یہ اِہتمام اِس اَمر کی طرف اشارہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ سے کوئی اہم بات کرنے والے ہیں۔

    (2) حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے سوال کیا : ’’میں کون ہوں؟‘‘ سب نے عرض کیا : ’’آپ پر سلام ہو، آپ اﷲ کے رسول ہیں۔‘‘ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کا یہ جواب اگرچہ حق و صداقت پر مبنی تھا لیکن مقتضائے حال کے مطابق نہ تھا۔ اس دن اس سوال کا مقصد کچھ اور تھا اور آپ :saw: اس کا جواب بھی مختلف سننا چاہتے تھے۔ جب صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی طرف سے متعلقہ جواب موصول نہ ہوا تو آپ :saw: نے خود ہی فرمایا : ’’میں عبد اﷲ کا بیٹا محمد ہوں۔‘‘ معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں اپنی ولادت اور نسبی فضیلت کے باب میں کچھ ارشاد فرمانا چاہتے تھے۔ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ کا وہ گوشہ ہے جس کا تعلق براہِ راست آپ :saw: کے میلاد سے ہے۔ اگرچہ یہ وہ معلومات تھیں جو صحابہ کرام رضی اللہ عنھم بہ خوبی جانتے تھے مگر اس کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اِس قدر اِہتمام کے ساتھ اس مضمون کو بیان فرمانے کا ایک مقصد جشنِ میلاد کو اپنی سنت بنانا تھا۔

    (3) مذکورہ حدیث میں اَحکامِ اِلٰہی بیان ہوئے ہیں نہ اَعمال و اَخلاق سے متعلق کوئی مضمون بیان ہوا ہے بلکہ آپ :saw: نے لوگوں کو اپنی ولادت اور نسبی فضیلت کے بارے آگاہ فرمایا ہے جو موضوعاتِ میلاد میں سے ہے۔

    (4) حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ بیان انفرادی سطح پر نہیں بلکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے اجتماع سے تھا جو خصوصی اِنتظام و اِنصرام کی طرف واضح اِشارہ ہے۔

    کتبِ حدیث اور سیرت و فضائل میں سے امام بخاری (194۔ 256ھ)، امام مسلم (206۔ 261ھ)، امام ترمذی (210۔ 279ھ)، قاضی عیاض (476۔ 544ھ)، علامہ قسطلانی (851۔ 923ھ)، علامہ نبہانی (1265۔ 1350ھ) جیسے نام وَر اَئمہ و محدثین اور شارحین کی تصانیف میں ایسی بہت سی احادیث موجود ہیں جن کا تعلق کسی شرعی مسئلہ سے نہیں بلکہ آپ :saw: کی ولادت، حسب و نسب، خاندانی شرافت و نجابت اور ذاتی عظمت و فضیلت سے ہے۔

    حدیث نمبر 2۔ حضور اکرم :saw: نے اپنا ذکر میلاد اجتماع میں فرمایا۔

    حضرت عباس بن عبد المطلب رضی اﷲ عنھما روایت کرتے ہیں :

    قلت : يارسول اﷲ! إن قريشاً جلسوا فتذاکروا أحسابهم بينهم، فجعلوا مثلک کمثل نخلة في کبوة من الأرض، فقال النّبيّ صلي الله عليه وآله وسلم : إن اﷲ خلق الخلق فجعلني من خيرهم من خير فرقهم وخير الفريقين، ثم تخيّر القبائل فجعلني من خير قبيلة، ثم تخيّر البيوت فجعلني من خير بيوتهم، فأنا خيرهم نفساً وخيرهم بيتا.

    ’’میں نے عرض کیا : یارسول اﷲ! قریش نے ایک مجلس میں اپنے حسب و نسب کا ذکر کرتے ہوئے آپ کی مثال کھجور کے اُس درخت سے دی جو کسی ٹیلہ پر ہو۔ اِس پر
    آپ :saw: نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا فرمایا تو مجھے ان کی بہترین جماعت میں رکھا اور ان کے بہترین گروہ میں رکھا اور دونوں گروہوں میں سے بہترین گروہ میں بنایا، پھر قبائل کو منتخب فرمایا اور مجھے بہترین قبیلے میں رکھا، پھر اُس نے گھرانے منتخب فرمائے تو مجھے اُن میں سے بہتر گھرانے میں رکھا، پس میں اُن میں سے بہترین فرد اور بہترین خاندان والا ہوں۔‘‘


    1. ترمذي، الجامع الصحيح، ابواب المناقب، باب في فضل النبي صلي الله عليه وآله وسلم ، 5 : 584، رقم : 3607
    2. أحمد بن حنبل، فضائل الصحابة، 2 : 937، رقم : 1803
    3. أبو يعلي، المسند، 4 : 140، رقم : 1316
     
  20. حسن رضا
    آف لائن

    حسن رضا ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جنوری 2009
    پیغامات:
    28,857
    موصول پسندیدگیاں:
    592
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: احادیث مبارکہ :: حضور اکرم علیہ الصلوۃ والسلام کے فرامین

    جزاک اللہ خیر

    اللھم صل علی محمد وعلی آل محمد کما صلیت علی اِبراھیم وعلی آل اِبراھیم اِنک حمید مجیدہ
    اللھم بارک علی محمد وعلی آل محمد کما بارکت علی اِبراھیم وعلی آل اِبراھیم انک حمید مجیدہ
     
  21. کاکا سپاہی
    آف لائن

    کاکا سپاہی ممبر

    شمولیت:
    ‏24 مئی 2007
    پیغامات:
    3,796
    موصول پسندیدگیاں:
    596
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: احادیث مبارکہ :: حضور اکرم علیہ الصلوۃ والسلام کے فرامین

    جزاک اللہ خیر
     
  22. وسیم
    آف لائن

    وسیم ممبر

    شمولیت:
    ‏30 جنوری 2007
    پیغامات:
    953
    موصول پسندیدگیاں:
    43
    جواب: احادیث مبارکہ :: حضور اکرم علیہ الصلوۃ والسلام کے فرامین

    سبحان اللہ ۔ بہت خوبصورت فرامین مبارک ہیں۔
    خدا کرے میلاد کا انکار کرنے والوں کو بھی بات سمجھ میں آجائے۔ آمین
     
  23. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: احادیث مبارکہ :: حضور اکرم علیہ الصلوۃ والسلام کے فرامین

    جزاک اللٌہ خیر
     
  24. عادل سہیل
    آف لائن

    عادل سہیل ممبر

    شمولیت:
    ‏24 جولائی 2008
    پیغامات:
    410
    موصول پسندیدگیاں:
    11
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: احادیث مبارکہ :: حضور اکرم علیہ الصلوۃ والسلام کے فرامین

    السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ،
    مغیرہ رضی اللہ عنہ کا کہنا ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا (((((
    إِنَّ كَذِبًا عَلَيَّ ليس كَكَذِبٍ على أَحَدٍ من كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ من النَّارِ::: مجھ سے جھوٹے طور پر کچھ منسوب کرنا کسی اور سے جھوٹ منسوب کردینے کی طرح نہیں ہے جس نے جان بوجھ کرمجھ سے جھوٹے طور پر کچھ منسوب کیا تو اُس نے اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لیا ))))) صحیح البُخاری / کتاب الجنائز / باب ۳۳ ، صحیح مسلم /حدیث ۴ ،
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    امیر المومنین عثمان بن عفان ، سلمہ ، ابو ہریرہ ، اور ابو قتادہ رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ((((( من يَقُلْ عَلَيَّ ما لم أَقُلْ فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ من النَّارِ::: جس نے مجھ سے منسوب کر کے ایسی بات کہی جو میں نے نہیں کہی تو اُس نے اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لیا ))))) صحیح البُخاری/کتاب العلم / باب ۳۸ ، الاحادیث المختارۃ /حدیث ۳۵۱ ، المستدرک الحاکم /حدیث ۳۴۹ ، ۳۷۹ ، سنن الدارمی / حدیث ۲۳۷ /باب ۲۵ ، سنن ابن ماجہ/حدیث ۳۴ /باب ۴ ،
    و السلام علیکم۔
     
  25. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    حضور اکرم علیہ الصلوۃ والسلام کا صحابی حضرت حسان سے نعت سننا اور دعا دینا

    ثنائے مصطفی :saw: (نعت ) پڑھنا ، سننا ، سنت رسول :saw: ہے۔
    حضور اکرم :saw: نے صحابی حضرت حسان :ra: کو منبر پر بٹھا کر اپنی نعت سنی اور دعا دی ۔

    عن عائشۃ : کان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يضع لحسان منبراً في المسجد يقوم عليه قائماً يفاخر عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم أو قالت : ينافح عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم.

    ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتی ہیں کہ’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت حسان رضی اللہ عنہ کے لیے مسجد نبوی میں منبر رکھواتے، وہ اس پر کھڑے ہو کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق (کفار و مشرکین کے مقابلہ میں) فخریہ شعر پڑھتے یا فرمایا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دفاع کرتے۔‘‘

    اس حدیث میں لفظ ’’کَانَ‘‘ سے واضح ہوتا ہے یہ واقعہ بار بار ہوا ۔آپ :saw: کا معمول تھا کہ ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کو مسجد نبوی میں منبر پر بلاتے اور وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں نعت پڑھتے اور کفار کی ہجو میں لکھا ہوا کلام سناتے۔
    سیدہ عائشہ رضی اﷲ عنہا آگے بیان کرتی ہیں کہ حضرت حسان آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نعت پڑھتے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خوش ہوکر فرماتے :

    إن اﷲ تعالي يؤيّد حسان بروح القدس ما يفاخر أو ينافح عن رسول اﷲ.

    ’’بے شک اللہ تعالیٰ روح القدس کے ذریعے حسان کی مدد فرماتا ہے جب تک وہ اﷲ کے رسول کے متعلق فخریہ اَشعار بیان کرتا ہے یا (اَشعار کی صورت میں) ان کا دفاع کرتا ہے۔‘‘

    1. ترمذي، الجامع الصحيح، کتاب الأدب، باب في إنشاد الشعر، 5 : 138، رقم : 2846
    2. احمد بن حنبل، المسند، 6 : 72، رقم : 24481
    3. حاکم، المستدرک علي الصحيحين، 3 : 554، رقم : 6058
    4. ابو يعلي، المسند، 8 : 189، رقم : 4746


    اُم المؤ منین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا روایت کرتی ہے کہ اُنہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حضرت حسان رضی اللہ عنہ سے فرماتے ہوئے سنا :

    إن روح القدس لا يزال يؤيّدک ما نافحت عن اﷲ ورسوله. . . . هجاهم حسان فشفي واشتفي.

    ’’بے شک روح القدس (جبرئیل امین) تمہاری مدد میں رہتے ہیں جب تک تم اللہ اور اُس کے رسول کا دفاع کرتے ہو۔ ۔ ۔ ۔ حسان نے کافروں کی ہجو کی، (مسلمانوں کو) تشفی دی اور خود بھی تشفی پائی۔‘‘

    اور سیدنا حسان رضی اللہ عنہ نے یہ اَشعار پڑھے :

    هجوت محمداً فأجبت عنه
    وعند اﷲ في ذاک الجزاء

    هجوت محمداً برًّا تقيا
    رسول اﷲ شِيمَتُه الوفاء

    فإن أبي ووالده وعرضي
    لِعِرْض محمد منکم وِقَاءُ

    (تو نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں گستاخی کی تو میں اس کا جواب دیتا ہوں اور اِس (جواب) پر اللہ کے پاس جزا ہے۔ تو نے اس محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں گستاخی کی ہے جو کہ نیک، پرہیزگار، اللہ کے رسول ہیں، وفا جن کی خصلت ہے۔ پس بے شک میرے والد، اور ان کے والد (یعنی میرے دادا) اور میری عزت و آبرو تمہارے مقابلے میں عزت و ناموسِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دفاع کا ذریعہ ہے۔)

    1. مسلم، الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب فضائل حسان بن ثابت، 4 : 1936، رقم : 2490
    2. بيهقي، السنن الکبري، 10 : 238
    3. طبراني، المعجم الکبير، 4 : 38، رقم : 3582
    4. حسان بن ثابت، ديوان : 20، 21
     
  26. حسن رضا
    آف لائن

    حسن رضا ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جنوری 2009
    پیغامات:
    28,857
    موصول پسندیدگیاں:
    592
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: احادیث مبارکہ :: حضور اکرم علیہ الصلوۃ والسلام کے فرامین

    جزاک اللہ خیر

    اللھم صل علی محمد وعلی آل محمد کما صلیت علی اِبراھیم وعلی آل اِبراھیم اِنک حمید مجیدہ
    اللھم بارک علی محمد وعلی آل محمد کما بارکت علی اِبراھیم وعلی آل اِبراھیم انک حمید مجیدہ
     
  27. عادل سہیل
    آف لائن

    عادل سہیل ممبر

    شمولیت:
    ‏24 جولائی 2008
    پیغامات:
    410
    موصول پسندیدگیاں:
    11
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: احادیث مبارکہ :: حضور اکرم علیہ الصلوۃ والسلام کے فرامین

    السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ،
    ((((( وَالَّذِی نَفسُ مُحَمَّدٍ بِیَدہِ ، لَو بَدَاء لَکُم مُوسَی فَاتَّبَعتُمُوہُ وَتَرَکتُمُونِی لَضَلَلتُم عَن سَوَاء ِ السَّبِیلِ ، وَلَو کَان حَیًّا وَاَدرَکَ نُبُوَّتِی لَاتَّبَعَنِی ::: اُس ذات کی قِسم جِس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے ، اگر موسیٰ تُم لوگوں کے سامنے آ جائیں اور تُم لوگ مجھے چھوڑ کر اُن کی اتباع (پیروی ، تابع فرمانی ) کرنے لگو تو یقینا تُم لوگ دُرست راستے سے بھٹکے ہوئے ہو جاؤ گے ، اور اگر مُوسیٰ میری نبوت کے وقت میں زندہ ہوتے تو یقینا میری اتباع (پیروی ، تابع فرمانی) کرتے ))))) سنن الدارمی /حدیث ٣٤٥ ، الالبانی ، مشکاۃ ١٩٤،٥٥،
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    اس حدیث مبارک کی کچھ شرح """"""
    ::::: سابقہ نازل شدہ کتابیں ، اور اُن کی شرعی حیثیت ::::: """"" میں ملاحظہ کی جا سکتی ہے ، والسلام علیکم۔
     
  28. الف
    آف لائن

    الف ممبر

    شمولیت:
    ‏1 اگست 2008
    پیغامات:
    398
    موصول پسندیدگیاں:
    3
    جواب: احادیث مبارکہ :: حضور اکرم علیہ الصلوۃ والسلام کے فرامین

    سبحان اللھ ۔ بھت عمدھہ :a180:
     
  29. الف
    آف لائن

    الف ممبر

    شمولیت:
    ‏1 اگست 2008
    پیغامات:
    398
    موصول پسندیدگیاں:
    3
    جواب: حضور اکرم علیہ الصلوۃ والسلام کا صحابی حضرت حسان سے نعت سننا اور دعا دینا

    خدا تعالی ھم سب کو پیارے نبی علیہ صلاۃ وسلام کا غلام اور نعت خوان بنادے۔آمین
     
  30. عادل سہیل
    آف لائن

    عادل سہیل ممبر

    شمولیت:
    ‏24 جولائی 2008
    پیغامات:
    410
    موصول پسندیدگیاں:
    11
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: حضور اکرم علیہ الصلوۃ والسلام کا صحابی حضرت حسان سے نعت سننا اور دعا دینا

    السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ،
    اللہ تعالی ہم سب اُس کے اور ہمارے محبوب رسول محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا حقیقی طور پر عملی محب اور فرمانبردار اور مدح سرا بنائے ، و السلام علیکم۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں