1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

شاہ رخ خان ۔ اصلی ہیرو اور انتہا پسند ہندو

'حالاتِ حاضرہ' میں موضوعات آغاز کردہ از وسیم, ‏24 فروری 2010۔

  1. وسیم
    آف لائن

    وسیم ممبر

    شمولیت:
    ‏30 جنوری 2007
    پیغامات:
    953
    موصول پسندیدگیاں:
    43
    بالی وڈ کا ہیرو ۔۔ شاہ رخ خان
    فریحہ مبارک


    بھارت کے یوم جمہوریہ کو منائے ابھی زیادہ دن نہیں گزرے اور دنیا کے سب سے بڑے سیکولر ملک ہونے کے دعویدار بھارت کے ان الفاظ کی سالانہ تجدید کی بازگشت بھی ابھی گونج رہی تھی کہ سیکولر بھارت اپنی تمام اقلیتوں کا مکمل محافظ اور نگران ہے۔ اور اس میں رہنے والے مسلمان، عیسائی، تامل اور دیگر مذاہب کے ماننے والے اپنے بنیادی حقوق کے ساتھ آزادانہ زندگی بسر کر رہے ہیں۔ کہ اسی دوران ایک ایسا واقعہ رونما ہو گیا جس نے بھارت کے اس دعویٰ کو ایک بار پھر گہنا دیا، بالی ووڈ کے سپر اسٹار شاہ رخ خان نے پاکستانی کرکٹرز کو آئی پی ایل میں شامل نہ کئے جانے کے خلاف ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ ”ممبئی حملے کی وجہ سے پاکستانی کرکٹرز کو آئی پی ایل میں نہ کھلانا غلط ہے “ یہ الفاظ گویا ہندو انتہا پسند تنظیم شیو سینا کے لئے اعلان جنگ تھے کہ بال ٹھاکرے نے شاہ رخ سے مطالبہ کر دیا کہ ” معافی مانگو“ شاہ رخ نے معافی کے بجائے کہہ دیا کہ ” میں کس لئے معافی مانگوں جب میں نے کچھ غلط نہیں کیا، چاہے میری فلم کو نقصان ہو جائے پھر بھی معافی نہیں مانگوں گا“ الغرض یہ الفاظ نہیں توپ کے وہ گولے تھے جس کے جواب میں شیو سینا نے ملک میں احتجاج کا اعلان کرتے ہوئے شاہ رخ کے خلاف مظاہروں کا سلسلہ شروع کر دیا، شاہ رخ خان کے گھر کے باہر نعرے بازی، ان کے پتلے بنا کر جلائے گئے اور حال ہی میں ریلیز ہونے والی ان کی فلم ”مائی نیم از خان“ کو بالخصوص ممبئی کے سینما گھروں میں دکھانے نہیں دیا گیا۔ اس فلم کی کہانی بھی مسلمانوں کو دنیا بھر میں امیج کو تبدیل کرنے کے گرد گھومتی ہے جس میں عالمی سظح پر مسلمانوں پر دہشت گردی کے لیبل کی نفی کی گئی ہے۔ الغرض شیو سینا کے لئے یہ سب حقائق تو آگ پر تیل کا کام ہیں۔ مگر ان سب سے بڑھ کر ایک مسلمان کا اور وہ بھی پاکستان کے حق میں بیان دینا ہے۔
    ان حالات و واقعات کے تناظر میں دیکھا جائے تو بھارت اپنی تمام تر ترقیوں کے دعوؤں کے باوجود آج بھی1930میں کھڑا نظر آتا ہے۔ جب ہندوستان میں ہندو مسلم اتحاد کے حامی ایک بڑے لیڈر نے کانگریس ہندو لیڈروں کی نیت کو جانچ کرتے ہوئے ایک نتیجہ خیز انقلابی فیصلہ کیا۔ یہ ہندو مسلم اتحاد کے حامی لیڈر قائد اعظم محمد علی جناح تھے جنہیں منافقانہ سیاست سے نفرت تھی۔اسی بناء پر انہوں نے کانگریس کی رکنیت چھوڑ کر مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی اور مسلمانوں کے لئے ایک الگ آزاد ملک کی بنیاد ڈالنے کی جدوجہد شروع کی۔ بعد ازاں یہ ثابت ہو گیا کہ کانگریس ہندوستان میں رہنے والی دوسری قوموں کی نمائندگی کے بجائے ہندوؤں کے اکھنڈ بھارت کی نیت رکھتی ہے۔1937میں وائسرائے لارڈ لنلتھگو(Linlithgu)نے جب وزارت سازی کا اعلان کیا اور مختلف صوبوں میں جب کانگریس وزارتیں قائم ہو گئی تو ہندؤوں کو یہ غلط فہمی لاحق ہو گئی کہ ہندوستان میں ہندو راج کی داغ بیل نہیں پڑ چکی ہے۔ چنانچہ انہوں نے حکومت سنبھالتے ہی ترنگے کو قومی جھنڈا اور بندے ماترم کو قومی ترانہ قرار دیا۔ اس ترانے کے پس منظر کی وجہ سے قائد اعظم نے بندے ماترم کو مسلمانوں کے خلاف اعلان جنگ قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ اس سے ”شرک کی بو“ آتی ہے۔ اور لارڈزٹ لینڈ (Lord Zitland)نے کہا کہ یہ ترانہ نہیں اعلان جنگ ہے جو مسلمانوں کے خلاف ہندوؤں نے قومی تحریک چلانے کیلے وضع کیا تھا۔ اس ترانے کا پس منظر یہ ہے کہ یہ ترانہ ایک بنگالی ”بنکم چندر چیڑ جی کے ناول “ آنند مٹھ“ سے لیا گیا ہے اس ناول اور ترانے کا مطالعہ کرنے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ یہ مسلمانوں سے نفرت اور نجات کے گھرد گھومتا ہے۔ جس میں بنگال پر سراج الدولہ کی حکومت کے خاتمے اور مرشد آباد کے نواب کو شکست دینے کی خاطر مسلمان حکومت کا تختہ الٹنے کیلئے ہندو فوج کی تشکیل کی کہانی بیان کی گئی ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہ اعلان بھی رائج ہو گیا کہ ہندوستان میں تمام قومیتوں کو جوڑ نے کیلئے ہندی زبان اور دیو نا گری رسم الخط کو تمام زبانوں پر فوقیت دے دی گئی۔
    یہ وہ منظر نامہ ہے جس کی ”تاریخ ”جبر“ پہ استوار ہے جو بال ٹھاکرے جیسے لیڈروں اور ان کو اپنے اقدامات اور دھمیکوں سے باز نہ رکھنے والی سرکار کا ذہنی پس منظر ہے۔ سیکولر بھارت کا راگ الاپنا اور متضاد رویوں نے بھارت میں ہمیشہ علیحدگی اور اقلیتوں کے احتجاج کی تحریکوں کو گرم رکھا ہے۔بھارت کے مسلمان حکومتی استحصال اور انتہا پسندانہ رویے کا شکار سب سے زیادہ نظر آتے ہیں۔ غربت، بیروزگاری، پسماندگی اور مسلمان علاقوں میں بنیادی انسانی ضروریات کی عدم فراہمی و بدحالی اس کا ثبوت ہیں۔ بابری مسجد کی شہادت، گجرات اور احمد آباد کے میں سرکاری سرپرست میں مسلمانوں کا قتل عام اور سب سے بڑھ کر مقبوضہ کشمیر جموں و کشمیر میں ایک لاکھ سے زائد مسلمانوں کی شہادت کے ساتھ جبرو استبداد ایک تاریخ رقم کی جا چکی ہے۔ انسانی حقوق کے ادارے بھارت بشمول کشمیر میں انتہا پسندی اور فوجی چیرہ دستیوں کا شکار ہونے والے اعداد و شمار پیش کرتے ہیں تو بھارت انہیں یکسر مسترد کر دیتا ہے۔ دیگر اقلیتوں عیسائی، سکھ، حتیٰ کہ نچلی ذات کے ہندو بھی زیر عتاب نظر آتے ہیں۔ بھارت کے دامن پہ گولڈن ٹیپمل اور چھٹی سنگھ پورہ میں سکھوں کے قتل عام کے داغ ہمیشہ اس کے سیکولر ازم کی نفی کرتے رہیں گے۔
    الغرض قائد اعظم نے گاندھی کی شخصیت کا جو تجزیہ 6اگست 1945کے ممبئی کے جلسہ عام میں پیش کیا تھا بھارت آج بھی اسی منزل پر ہے قائد اعظم نے تقریر میں کہا تھا کہ ”ہمیں جس حلیف سے پالا پڑا ہے وہ گرگٹ کی طرح رنگ بدلتا ہے جب ان کے مفاد کا مطلب ہوتا ہے تو کہہ دیتے ہیں کہ وہ کسی کے نمائندے نہیں، وہ محض انفرادی حیثیت میں گفتگو کر رہے ہیں وہ تو کانگریس کے چار آنے ممبر بھی نہیں اور جب ضرورت ہوتی ہے تو سارے ہندوستان کے نمائندے بن جاتے ہیں اور جب اور حربوں سے کام نہیں چلتا تو مرن برت رکھ لیتے ہیں۔ جب کوئی دلیل نہیں بن آتی تو اندرونی آواز کو بلا لیتے ہیں۔کہیے ایسے شخص سے کسی طرح بات کر سکتے ہیں وہ تو ایک چیستاں ہیں معمہ ہیں۔
    گویا دل میں کچھ ہے اور زبان پر کچھ اور ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بھارت، سیاسی و سماجی شعور کی ابھی اسی سیڑھی اور منزل پر کھڑا ہے جہاں تقسیم ہند سے بھی کئی عشرے قبل تھا۔
    حقیقت یہ ہے کہ بھارت کے ماتھے پر جو غربت ، بیروزگاری ، شعورکی کمی اور مطلوبہ تیز فتار ترقی میں سست روی کی جھلک نظر آتی ہے اس کی ایک بڑی وجہ اس کا اقلیتوں سے مخاصمانہ رویہ ،بالخصوص مسلمانوں کو ترقی کے سفر میں نظر انداز کرتے ہوئے تعصب کا نشانہ بنانا بھی ہے، آج بھارت، دنیا پر ترقی کا جو تاثر ڈال رہا ہے وہ ان اعداد و شمار کی روشنی میں دیکھا جانا ضروری ہے۔ کہ تقسیم ہند کے وقت بھارت نے پاکستان کے حصے کے وسائل پر بھی قبضہ کر لیا تھا۔ بھارت نے اپنی ترقی کا سفر، وہاں سے شروع کیا جب متعصبانہ رویئے کے تحت ملازمتوں، تعلیم اور کاروبار میں دیگر اقوام کو نظر انداز کر کے صرف ہندوؤں کو ہی نوازا گیا ۔ ہر ہر شعبہ میں ہندو جمے جمائے نظام کے ساتھ 1947میں آگے بڑھے۔ اسی لئے ہم کہتے ہیں کہ بھارت کو اپنی مطلوبہ ترقی کا موازنہ ان وسائل اور اپنی متضاد پالیسیز کو سامنے رکھتے ہوئے کرنا چاہئے تاکہ حقائق واضح ہوں۔
    بھارت کو یہ بھی ضرور سوچنا ہو گا کہ دنیا آج گلوبل ویلج بن چکی ہے خیالات کے تبادلے کی رفتار بہت تیز ہے۔ اور دنیا بھر میں بھارت کے اس متعصبانہ رویے کا کیا تائر جا رہا ہو گا کہ بھارت میں اپنے ایک قومی ہیرو کو صرف اس لئے تعصب کا نشانہ بنایا جا رہا ہے کہ اس نے حق بات کہی جب کہ وہ مسلمان تھا! بھارتی سیاست دانوں اور اساتذہ کرام کی اس موقع پر ہم یہ ذمہ داری بنتی ہیکہ وہ بھارت میں سیاسی و سماجی شعور اجاگر کریں کہ ہم دنیا کی سب سے بڑی سیکولر ریاست ہیں۔ اقلیتوں کے حقوق کے محافظ ہیں اور سب کو مل کر ساتھ چلانے کی صلاحیت رکھتے ہیں تو حقیقتاً ہمیں ایسا بن کر دکھانے کی ضرورت ہے۔ کیوں کہ منافقت، متضاد رویئے، دوغلی پالیسیز ، اقلیتوں کا استحصال اور اس کے قدم بقدم معاشی ،سیاسی ،سماجی اٹھان اور ترقی کے خواب نہیں چل سکتے۔ آخر بھارت اپنے اس رویئے کے ساتھ اکھنڈ بھارت کا سفر کب تک جاری رکھ سکے گا ۔ بھارتی حکمرانوں اور شیو سینا جیسی تنظیموں کے سامنے یہ ایک بڑا سوالیہ نشان رہے گا خواہ وہ اس سے کتنی ہی چشم پوشی کریں اور کتنی ہی عینکیں بدلیں۔


    جنگ ادارتی صفحہ ۔
     
  2. خوشی
    آف لائن

    خوشی ممبر

    شمولیت:
    ‏21 ستمبر 2008
    پیغامات:
    60,337
    موصول پسندیدگیاں:
    37
    جواب: شاہ رخ خان ۔ اصلی ہیرو اور انتہا پسند ہندو

    شکریہ وسیم جی اس تحریر کو ہم تک پہنچانے کا ، ویسے اس فلم میں مسلمانوں کو کافی اچھا دکھایا گیا ھے، چلیں شاہ رخ خان ہی اس کوشش میں کامیاب ہو جائے جس میں‌آج کے نام نہاد علما کامیابی نحاصل نہیں کر پائے
     
  3. راجہ اکرام
    آف لائن

    راجہ اکرام ممبر

    شمولیت:
    ‏26 دسمبر 2008
    پیغامات:
    84
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    جواب: شاہ رخ خان ۔ اصلی ہیرو اور انتہا پسند ہندو

    شاہ رخ بھی کامیاب ہو جائے گا ’خدا کے لئے‘ والے کامیاب ہو گئے تھے دین کی مبادیات کو چیلنج کرنے میں۔
     
  4. الف
    آف لائن

    الف ممبر

    شمولیت:
    ‏1 اگست 2008
    پیغامات:
    398
    موصول پسندیدگیاں:
    3
    جواب: شاہ رخ خان ۔ اصلی ہیرو اور انتہا پسند ہندو

    دین کی مبادیات کیا ہوتا ھے؟ براھ کرم ذرا وضاھت کردین۔ شکریہہ
     
  5. محمد نواز شریف
    آف لائن

    محمد نواز شریف ممبر

    شمولیت:
    ‏18 فروری 2009
    پیغامات:
    182
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    جواب: شاہ رخ خان ۔ اصلی ہیرو اور انتہا پسند ہندو

    بہت خوب جناب وسیم صاحب
     

اس صفحے کو مشتہر کریں