کہتا ہے زمانے سے يہ درويش جواں مرد جاتا ہے جدھر بندئہ حق، تو بھي ادھر جا! ہنگامے ہيں ميرے تري طاقت سے زيادہ بچتا ہوا بنگاہ قلندر سے گزر جا ميں کشتي و ملاح کا محتاج نہ ہوں گا چڑھتا ہوا دريا ہے اگر تو تو اتر جا توڑا نہيں جادو مري تکبير نے تيرا؟ ہے تجھ ميں مکر جانے کي جرات تو مکر جا! مہر و مہ و انجم کا محاسب ہے قلندر ايام کا مرکب نہيں، راکب ہے قلندر ( شاعر مشرق)
شبیر کربلا کی حکومت کا تاجدار کامل امام، دوشِ نبوت کا شہ سوار ہے جس کی ٹھوکروں میں خدائی کا اقتدار جس کے گداگروں میں دنیا کے تاجدار وہ جس کی عاجزی میں سمٹ آئے سروری کھولے دلوں پہ جس نے رموزِ سکندری کٹ کر بھی کر رہا ہے شریعت کی یاوری جس نے سمندروں کی سکھائی ہے شناوری جس کے غلام اب بھی سلیماں سے کم نہیں جس کا مزار خلد کے ایواں سے کم نہیں جس کی زبان وعدہء یزداں سے کم نہیں جس کا سخن لطافتِ قرآں سے کم نہیں جو میرِ کاروانِ موءدت ہے وہ حسین جو مرکزِ نگاہِ مشیت ہے وہ حسین جو رازدارِ کنزِ حقیقت ہے وہ حسین جو تاجدارِ ملکِ شریعت ہے وہ حسین
بہت خوب عبدالجبار صاحب منزل وفا دار سمجھ کر رستے سے ساتھی بنایا تھاتجھے ۔ منزل پہ جا کے دغا دو یہ سوچا نہ تھا ہم نے۔ فقیہہ شہر نے یہ تہمت لگائی ساغر پرکہ۔ یہ شخص درد کی دولت عام کرتا ہے۔