1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

معراج النبی ص پر اعلیحضرت رح کا قلمی کرشمہ

'نعتِ سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم' میں موضوعات آغاز کردہ از نعیم, ‏15 جولائی 2009۔

  1. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    اللھم صل علی سیدنا ومولانا محمد صاحب التاج والمعراج والبراق والعلم
    وعلی آلہ واصحابہ وبارک وسلم

    وہ سرور کشور رسالت جو عرش پر جلوہ گر ہوئے تھے
    نئے نرالے طرب کے ساماں عرب کے مہمان کے لئے تھے

    بہار ہے شادیاں مبارک چمن کو آبادیاں مبارک
    ملک فلک اپنی اپنی لے میں یہ گھر عنادل کا بولتے تھے

    وہاں فلک پر یہاں زمیں میں رچی تھی شادی مچی تھی دھومیں
    ادھر سے انوار ہنستے آتے ادھر سے نفحات اٹھ رہے تھے

    یہ چھوٹ پڑتی تھی ان کے رخ کی کہ عرش تک چاندنی تھی چھٹکی
    وہ رات کیا جگمگا رہی تھی جگہ جگہ نصب آئینے تھے

    نئی دلہن کی پھبن میں کعبہ نکھر کے سنورا سنور کے نکھرا
    حجر کے صدقے کمر کے اک تل میں رنگ لاکھوں بناؤ کے تھے

    خوشی کے بادل امڈ کے آئے دلوں کے طاؤس رنگ لائے
    وہ نغمہٴ نعت کا سماں تھا حرم کو خود وجد آرہے تھے

    یہ جھوما میزاب زر کا جھومر کہ آرہا کان پر ڈھلک کر
    پھوہار برسی تو موتی جھڑ کی حطیم کی گود میں بھرے تھے

    دلہن کی خوشبو سے مست کپڑے نسیم گستاخ آنچلوں سے
    غلاف مشکیں جو اڑ رہا تھا غزال نافے بسا رہے تھے

    پہاڑیوں کا وہ حسن تزئین وہ اونچی چوٹی وہ نازو تمکین
    صبا سے سبزہ میں لہریں آئیں دوپٹے دھانی چنے ہوئے تھے

    نہا کے نہروں نے وہ چمکتا لباس آب رواں کا پہنا
    کہ موجیں چھڑیاں تھیں دھار لچکا حباب تاباں کے تھل ٹکے تھے

    پرانا پر داغ ملگجا تھا اٹھا دیا فرش چاندنی کا
    ہجوم تار نگہ سے کوسوں قدم قدم فرش باؤلے تھے

    غبار بن کر نثار جائیں کہاں اب اس رہ گزر کو پائیں
    ہمارے دل حوریوں کی آنکھیں فرشتوں کے پر جہاں بچھے تھے

    خدا ہی دے صبر جان پرغم دکھاؤں کیونکر تجھے وہ عالم
    جب ان کو جھرمٹ میں لے کے قدسی جناں کا دولہا بنا رہے تھے

    اتار کر ان کے رخ کا صدقہ وہ نور کا بٹ رہا تھا باڑا
    کہ چاند سورج مچل مچل کر جبیں کی خیرات مانگتے تھے

    وہی تو اب تک چھلک رہا ہے وہی تو جو بن ٹپک رہا ہے
    نہانے میں جو گرا تھا پانی کٹورے تاروں نے بھر لئے تھے

    بچا جو تلوؤں کا ان کے دھوون بنا وہ جنت کا رنگ وروغن
    جنہوں نے دولہا کا پائی اترن وہ پھول گلزار نور کے تھے

    خبر یہ تحویل مہر کی تھی کہ رت سہانی گھڑی پھرے گی
    وہاں کی پوشاک زیب تن کی یہاں کا جوڑا بڑھا چکے تھے

    تجلی حق کا سہرا سر پر صلوٰۃ و تسلیم کی نچھاور
    دو رویہ قدسی پرے جما کر کھڑے سلامی کے واسطے تھے

    جو ہم بھی واں ہوتے خاک گلشن لپٹ کے قدموں سے لیتے اترن
    مگر کریں کیا نصیب میں تو یہ نامرادی کے دن لکھے تھے

    ابھی نہ آتے تھے پشت زیں تک کہ سر ہوئی مغفرت کی شلک
    صدا شفاعت نے دی مبارک گناہ مستانہ جھومتے تھے

    عجب نہ تھا رخش کا چمکنا غزال دم خوردہ سا بھڑکنا
    شعاعیں بکے اڑا رہی تھی تڑپتے آنکھوں پہ صاعقے تھے

    ہجوم امید ہے گھٹاؤ مرادیں دے کر انہیں ہٹاؤ
    ادب کی باگیں لئے بڑھاؤ ملائکہ میں یہ غلغلے تھے

    اٹھی جو گرد رہ منور وہ نور برسا کہ راستے بھر
    گھرے تھے بادل بھرے تھے جل تھل امنڈ کے جنگل ابل رہے تھے

    ستم کیا کیسی مت کٹی تھی قمر وہ خاک ان کے رہ گذر کی
    اٹھا نہ لایا کہ ملتے ملتے یہ داخ سب دیکھنا مٹے تھے

    براق کے نقش سم کے صدقے وہ گل کھلائے کہ سارے رستے
    مہکتے گلبن مہکتے گلشن ہرے بھرے لہلہارہے تھے

    نماز اقصیٰ میں تھا یہی سر عیاں ہوں معنی اول آخر
    کہ دست بستہ ہیں پیچھے حاضر جو سلطنت آگے کر گئے تھے

    یہ ان کی آمد کا دبدبہ تھا نکھار ہر شے کا ہو رہا تھا
    نجوم و افلاک جام و مینا اجالتے تھے کھنگالتے تھے

    نقب الٹے وہ مہر انور جلال رخسار گرمیوں پر
    فلک کو ہیبت سے تپ چڑھی تھی تپکتے انجم کے آبلے تھے

    یہ جوشش نور کا اثر تھا کہ آب گوہر کمر کمر تھا
    صفائے راہ سے پھسل پھسل کر ستارے قدموں پہ لوٹے تھے

    پڑھا یہ لہرا کے بحر وحدت کہ دھل گیا نام رنگ کثرت
    فلک کے ٹیلوں کی کیا حقیقت یہ عرش و کرسی دو بلبلے تھے

    وہ ظل رحمت وہ رخ کے جلوے کہ تارے چھپتے نہ کھلنے پاتے
    سنہری زربفت اودی اطلس یہ تھان سب دھوپ چھاؤں کے تھے

    چلا وہ سرو چماں خراماں نہ رک سکا سدرہ سے بھی داماں
    پلک جھپکتی رہی وہ کب کے سب این و آں سے گزر چکے تھے

    جھلک سے اک قدسیوں پر آئی ہوا بھی دامن کی پھر نہ پائی
    سواری دولہا کی دور پہنچی برات میں ہوش ہی گئے تھے

    تھکے تھے روح الامین کے بازو چھٹا وہ دامن کہاں وہ پہلو
    رکاب چھوٹی امید ٹوٹی نگاہ حسرت کے ولولے تھے

    روش کی گرمی کو جس نے سوچا دماغ سے اک بھبو کا پھوٹا
    خرد کے جنگل میں پھول چمکا دہر دہر پیڑ جل رہے تھے

    جلو میں مرغ عقل اڑے تھے عجب برے حالوں گرتے پڑتے
    وہ سدرہ ہی پر رہے تھے تھک کر چڑھا تھا دم تیور آگئے تھے

    قوی تھے مرغان وہم کے پر اڑے تو اڑنے کو اور دم بھر
    اٹھائی سینے کی ایسی ٹھوکر کہ خون اندیشہ تھوکتے تھے

    سنا یہ اتنے میں عرش حق نے کہا مبارک ہوں تاج والے
    وہی قدم خیر سے پھر آئے جو پہلے تاج شرف تیرے تھے

    یہ سن کے بے خود پکار اٹھا نثار جاؤں کہاں ہیں آقا
    پھر ان کے تلوؤں کا پاؤں بوسہ یہ میری آنکھوں کے دن پھرے تھے

    جھکا تھا مجرے کو عرش اعلیٰ گرے تھے سجدے میں بزم بالا
    یہ آنکھیں قدموں سے مل رہا تھا وہ گرد قربان ہورہے تھے

    ضیائیں کچھ عرش پر یہ آئیں کہ ساری قندیلیں جھلملائیں
    حضور خورشید کیا چمکتے چراغ منہ اپنا دیکھتے تھے

    یہی سماں تھا کہ پیک رحمت خبر یہ لایا کہ چلئے حضرت
    تمہاری خاطر کشادہ ہیں جو کلیم پر بند راستے تھے

    بڑھ اے محمد (ص) قریں ہو احمد‘ قریب آ سرور ممجد
    نثار جاؤں یہ کیا ندا تھی یہ کیا سماں تھا یہ کیا مزے تھے

    تبارک الله شان تیری تجھی کو زیبا ہے بے نیازی
    کہیں تو وہ جوش لن ترانی کہیں تقاضے وصال کے تھے

    خرد سے کہہ دو کہ سر جھکالے گماں سے گزرے گزرنے والے
    پڑے ہیں یاں خود جہت کو لالے کسے بتائے کدھر گئے تھے

    سراغ این و متی کہاں تھا نشان کیف و الیٰ کہاں تھا
    نہ کوئی راہی نہ کوئی ساتھی نہ سنگ منزل نہ مرحلے تھے

    ادھر سے پیہم تقاضے آنا ادھر تھا مشکل قدم بڑھانا
    جلال و ہیبت کا سامنا تھا جمال و رحمت ابھارتے تھے

    بڑھے تو لیکن جھجکتے ڈرتے حیا سے جھکتے ادب سے رکتے
    جو قرب انہیں کی روش پہ رکھتے تو لاکھوں منزل کے فاصلے تھے

    پر ان کا بڑھنا تو نام کو تھا حقیقتاً" فعل تھا اُدھر کا
    تنزلوں میں ترقی افزا دنا تدلیٰ کے سلسلے تھے

    ہوا یہ آخر کہ ایک بجرا تموج بحر ہو میں ابھرا
    دنا کی گودی میں ان کو لے کر فنا کے لنگر اٹھادیئے تھے

    کسے ملے گھاٹ کا کنارہ کدھر سے گزرا کہاں اتارا
    بھرا جو مثل نظر طرارا وہ اپنی آنکھوں سے خود چھپے تھے

    اٹھے جو قصر دنیٰ کے پردے کوئی خبر دے تو کیا خبر دے
    وہاں تو جاہی نہیں دوئی کی نہ کہہ کہ وہ ہی نہ تھے ارے تھے

    وہ باغ کچھ ایسا رنگ لایا کہ غنچہ و گل کا فرق اٹھایا
    گرہ میں کلیوں کے باغ پھولے گلوں کے تکمے لگے ہوئے تھے

    محیط و مرکز میں فرق مشکل رہے نہ فاصل خطوط واصل
    کمانیں حیرت میں سر جھکائے عجیب چکر میں دائرے تھے

    حجاب اٹھنے میں لاکھوں پردے ہر ایک پردے میں لاکھوں جلوے
    عجب گھڑی تھی کہ وصل فرقت جنم کے بچھڑے گلے ملے تھے

    زبانیں سوکھی دکھا کے موجیں تڑپ رہی تھیں کہ پانی پائیں
    بھنور کو یہ ضعف تشنگی تھا کہ حلقے آنکھوں میں پڑگئے تھے

    وہی ہے اول وہی ہے آخر وہی ہے باطن وہی ہے ظاہر
    اسی کے جلوے اسی سے ملنے اسی سے اس کی طرف گئے تھے

    گمان وامکاں کے جھوٹے نقطو تم اول آخر کے پھیر میں ہو
    محیط کی چال سے تو پوچھو کدھر سے آئے کدھر گئے تھے

    ادھر سے تھیں نذر شہ نمازیں ادھر سے انعام خسروی میں
    سلام ورحمت کے ہار گندہ کر گلوئے پر نور میں پڑے تھے

    زبان کو انتظار گفتن تو گوش کو حسرت شنیدن
    یہاں جو کہنا تھا کہہ لیا تھا جو بات سننی تھی سن چکے تھے

    وہ برج بطحا کا ماہ پارا بہشت کی سیر کو سدھارا
    چمک پہ تھا خلد کا ستارا کہ اس قمر کے قدم گئے تھے

    سرور مقدم کے روشنی تھی کہ تابشوں سے مہ عرب کی
    جناں کے گلشن تھے جھاڑ فرشی جو پھول تھے سب کنول بنے تھے

    طرب کی نازش کہ ہاں لچکئے ادب وہ بندش کہ ہل نہ سکئے
    یہ جوش ضدین تھا کہ پودے کشاکش ارہ کے تلے تھے

    خدا کی قدرت کہ چاند حق کے کروڑوں منزل میں جلوہ کرکے
    ابھی نہ تاروں کی چھاؤں بدلی کہ نور کے تڑکے آلئے تھے

    نبئ رحمت شفیع امت رضا پہ للہ ہو عنایت
    اسے بھی ان خلعتوں سے حصہ جو خاص رحمت کے واں بٹے تھے
    ثنائے سرکار ہے وظیفہ قبول سرکار ہے تمنا
    نہ شاعری کی ہوس نہ پروا ردی تھی کیا کیسے قافیئے تھے


    اللھم صل علی سیدنا ومولانا محمد صاحب التاج والمعراج والبراق والعلم
    وعلی آلہ واصحابہ وبارک وسلم



    شاعر : اعلیحضرت شاہ احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ ۔​
     
  2. مبارز
    آف لائن

    مبارز ممبر

    شمولیت:
    ‏3 اگست 2008
    پیغامات:
    8,835
    موصول پسندیدگیاں:
    26
    جزاک اللہ۔ بہت ہی خوب۔۔۔

    صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
     
  3. جمیل جی
    آف لائن

    جمیل جی ممبر

    شمولیت:
    ‏7 اکتوبر 2008
    پیغامات:
    3,822
    موصول پسندیدگیاں:
    108
    ملک کا جھنڈا:
    بہت اچھے نعیم بھائی
    اللہ آپکو اجر دے
     
  4. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    کاشفی بھائی اور جمیل بھائی ۔ آپ دونوں بھائیوں کا بہت شکریہ ۔
    یہ نعت شریف اردو مجموعاتِ نعت میں انتہائی اعلی درجے کی اہمیت ہے۔ ایک ایک لفظ سے وارفتگی، اثرآفرین، لفاظی، روانگی ، وزن کا وہ معیار نمایاں ہے جو بہت کم شعرا کے ہاں پایا جاتا ہے۔

    گو بعض الفاظ میری سمجھ میں نہیں آئے لیکن لغت کی مدد سے جہاں تک ممکن ہوا ۔ میں نے سمجھنے کی کوشش کی اور ایک ایک شعر پر دل جھوم جھوم اٹھتا ہے۔ سبحان اللہ
     
  5. زاہرا
    آف لائن

    زاہرا ---------------

    شمولیت:
    ‏17 نومبر 2006
    پیغامات:
    4,208
    موصول پسندیدگیاں:
    11
    سبحان اللہ ۔ ایک ایک شعر سے عقیدت، محبت اور وارفتگی کی انتہا جھلکتی ہے۔
    اعلیحضرت رحمۃ اللہ علیہ بلاشبہ غرقِ بحرِ عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔
     
  6. بزم خیال
    آف لائن

    بزم خیال ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 جولائی 2009
    پیغامات:
    2,753
    موصول پسندیدگیاں:
    334
    ملک کا جھنڈا:
    سبحان اللہ نعیم بھائی کیا خوبصورت قلب کو چھولینے والی اعلیحضرت شاہ احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کی نعت ہے اعلی حضرت کا سارا نعتیہ کلام ہی ایک خاص رنگ اور جازبیت رکھتا ہے پڑھیں تو پڑھتے ہی جائیں اگر سنے تو سنتے ہی جائیں


    زاہرا بہن آپ کا بھی شکریہ کہ اس لڑی کو سامنے لائی اور ہمارے ایمان کو عقیدت محمد:saw: میں سرشار کیا
     
  7. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    زاہرا بہن اور بزم خیال بھائی ۔
    اگر انسان غیرجانبدارانہ نظریہ اپنا کر اعلی حضرت رحمہ اللہ تعالی کے علمی مقام و مرتبہ کو سمجھنے کی کوشش کرے تو وہ دنگ رہ جاتا ہے کہ ایک شخصیت کو اللہ پاک نے علم و عرفان کا آسمان بنا کر کم و بیش 56 علوم و فنون کا مرقع بنا رکھا تھا۔
    اللہ تعالی انکی مرقد اطہر پر کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے۔ آمین
     
  8. بزم خیال
    آف لائن

    بزم خیال ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 جولائی 2009
    پیغامات:
    2,753
    موصول پسندیدگیاں:
    334
    ملک کا جھنڈا:
    نعیم بھائی اعلیحضرت شاہ احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کے اسی کلام کو اویس رضا قادری کی آواز میں سنیئے




     
  9. زاہرا
    آف لائن

    زاہرا ---------------

    شمولیت:
    ‏17 نومبر 2006
    پیغامات:
    4,208
    موصول پسندیدگیاں:
    11
    ماشاءاللہ ۔ بہت خوب شراکت ہے۔
     
  10. حسن رضا
    آف لائن

    حسن رضا ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جنوری 2009
    پیغامات:
    28,857
    موصول پسندیدگیاں:
    592
    ملک کا جھنڈا:
    محمود بھائی ماشاءاللہ
     
  11. خوشی
    آف لائن

    خوشی ممبر

    شمولیت:
    ‏21 ستمبر 2008
    پیغامات:
    60,337
    موصول پسندیدگیاں:
    37
    اچھی شئیرنگ ھے بہت خوب
     
  12. بزم خیال
    آف لائن

    بزم خیال ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 جولائی 2009
    پیغامات:
    2,753
    موصول پسندیدگیاں:
    334
    ملک کا جھنڈا:
    میں اسے پڑھ رہا تھا تو میری شریک حیات نے کہا کہ کیو ٹی وی پر انہوں نے یہ کلام سنا ہے سو میں نے تلاش شروع کردی اور آخر کار ربط مل ہی گیا اسی طرح قطرہ سے قطرہ ملے تو دریا بنتا ہے کوئی ایک ربط دیتا ہے تو کوئی دوسرا ! ہماری اردو کا یہی وصف تو کمال کا ہے اللہ تعالی اسی طرح محبت کے ان رشتوں کو پروان چڑھائے آمین
     
  13. janammi
    آف لائن

    janammi ممبر

    شمولیت:
    ‏13 اگست 2009
    پیغامات:
    6
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    سبحان اللہ! کیا عکاسی کی ہے۔جزاک اللہ!
     

اس صفحے کو مشتہر کریں