1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

حییرت ھے ڈھول پیٹنے والوں میں نام کی مماثلت

'حالاتِ حاضرہ' میں موضوعات آغاز کردہ از بھوت, ‏7 نومبر 2009۔

  1. بھوت
    آف لائن

    بھوت ممبر

    شمولیت:
    ‏31 اگست 2008
    پیغامات:
    265
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    یہ کالم جناب ہارون رشید کا ھے کیا کہا جی جی ہاں وہی کہا جو اپ سمجھ چُکے ہیں تو پھر میں کیا کروں۔میں اِس وجہ سے حیرت میں ھوں کہ نام کی مماثلت ہوں بھی ھوتی ہے اخباروں کی دُنیا میں یاں صحافت کی دُنیا میں اجکل عجیب ہو رہا ھے دو واضع گروپ تشکیل پا چُکے ہیں ایک طرف برائی کا پرچار کرنے والے جو حکومت کے ہر اچھے کام میں کیڑے نکتالنا اپنا فریضہ سمجھتے ہیں اِن کچھ تو درپردہ دہشت گردی کو سپورٹ کر رہے ہیں اور اُن کا مقصد طالبان کا ہوا کھڑا کرکے پاکستان کی جڑیں کاٹنا ہیں یہ لوگ ہر اُس کام میں مدد گار بنے ھوئے ہیں جس سے حکومت کو نقصان ھو اور فوج کا راستہ ہموار ھو اور فوج کو یہ موقع ملے کہ وہ اقتدار پر قبضہ کر لے۔اچھا اِن لوگوں نےجیو پر قیامت ڈھائی ھوئی ھے ہر طرح سے حکومت کو بے بس کر کے پیش کرنا ھے اور یہ لوگ یہ ثابت کرنے پر تُلے ھوئے ہیں جو حکومت چند روز کی مہمان ھے ہر پندرہ دن سے پہلے اگلے پندرہ دن کی یہ لوگ پیشن گوئی کر رہے ہیں عجیب زمانہ ھے اِن کا بغض اِس طرح کا ھے جس طرح پرانے زمانے میں نواسہ رسول :saw: کے ساتھ رکھا گیا تھا۔یہ منافقوں کا ایسا ٹولہ ہیں جو اپنے کام کی ابتدا اس طرح کرتے ہیں جس میں کوئی مذہبی پہلو شامل ھو تاکہ لوگوں کو مذہبی طور پر بلیک میل کیا جا سکے اور فوج کی راہ ہموار کی جا سکے یہ اپنے گندے کالموں میں اُن ہستیوں کو بھی نہیں چھوڑتے جس سے پاکستان کے باسیوں کی عقیدت ہے اصل میں اِن کا اصل مقصد اپنے شیطانی خیالات اور شیطان کی آلہ کاری کرنا ھے۔اور حکومت کو کام نہ کرنے دینا حکومت کو ناکام پیش کرنا تاکہ فوج ایک بار پھر شب خون مارے لیکن اگر اس بار فوج نے حوکمت کے اُوپر شب خون مارا تو پاکستان کی عوام کی جنگ فوج اور عدلیہ کے ساتھ ھو گئی کیوں کہ یہ دونوں ادارے کرپشن میں سب سے ٹاپ پر ہے۔خیر صحافت کی دُنیا میں ڈھول کا کام ہارون رشید سے لیا جا رہا ھے
    نہیں نہیں اپ غلط مت سمجھے پلیز مجھ کو معاف کر دیں میں تفصیل لکھتا ھوں جی میں تو کہا رہا تھا ڈھول پیٹنے کا کام ایک صحافی کے ہاتھ میں دیا گیا ھے اللہ سبحان تعالی کی قدرت ھے جو نام میں مماثلت نکل آئی ھے تو کیا ہارون رشید نام نہیں رکھنا چاہیے کیوں کہ اس نام کیا برکت ھے کہ ہر کوئی اِس نام کے ہاتھ میں ڈھول پکڑا دیتا ھے۔
    خیر اپ لوگ کالم پڑھیں مجھ کو تو معاف رکھیں کیوں کہ اجکل میرے ستارے شاید گردش ایام میں ہیں میں خود رو رہا ھوں میرا پیر و مرشد حضرت سرکار حضرت گھسیٹا خان مجھ سے کچھ ناراض ھو گیا ھے اس میں میں نے اپ حضرت کی غیر مہجودگی میں اپ حضرت کے کچھ اقوال کہیں پوسٹ کیے تھے یہاں نہیں جناب کیہں اور اب میں کیا کہو نا تو اب مجھ سے سنجیدہ بات کہی جا رہی ہے نا ہی بات میں کوئی لطف آ رہا ھے کیا کروں جس کو بہن بنانے کی کوشش کی تھی اُس نے شاید دُعا کے لیے ہاتھ اُٹھانے بند کر دیے ہیں اِس وجہ سے تھوڑا سا اداس بھی ھوں میں۔اوپر سے اپ حضرت کی خاموشی بھی تو ہے
    خیر کالم حاضر خدمت ھے


    چھاج تو بولے چھلنی کیوں بولے,,,,ناتمام…ہارون الرشید




    افق پر طوفان کے آثار ہیں۔ رک جائیے حضور، زمانہ بدل چکا۔ کوئی نہ بچے گا۔ کوئی ظالم نہ بچے گا۔ رک جائیے، اس سے پہلے کہ بہت دیر ہوجائے۔
    شاعر کو شکایت تھی کہ پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے پہ ناحق۔ اخبار نویس مگر اپنی فرد عمل خود لکھتا ہے۔ عظیم ترین انسانی مغا لطوں میں سے ایک یہ ہے کہ آدمی اپنی ایسی تصویر پیش کرنے کی کوشش کرتا ہے ، اس کی اصل شخصیت سے ، جس کا کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ تصویر سازی یعنی (Image building)ایک احمقانہ مفروضہ ہے ۔ سگریٹ ، صابن اور ٹوتھ پیسٹ کی بات دوسری ہے ۔ جہاں تک آدم زاد کا تعلق ہے ، وہ کیسا ہی بہروپ بھر لے ، درحقیقت ویسا ہی نظر آتا ہے ، جیسا کہ دراصل وہ ہوتا ہے ۔ ہمارے صنعت کار دوست محسن طارق بہت دن سے نہیں ملے ۔ کیسی نکتے کی بات کرتے ہیں ۔ ایک دن یہ کہا: وہ احمق نہیں تو اور کیا ہے جو کسی مینار یا پہاڑ کی چوٹی پر کھڑا ہو جائے ۔ سیاست میں آجائے کہ لوگو، مجھے دیکھو، میں کیسا خوش خصال ہوں۔ اپنے عیوب آشکار کرنے کے سوا وہ کیا حاصل کرے گا۔ تیرہ برس تک ، کس طرح ڈٹ کر عمران خاں کا مقدمہ لڑا گیا۔ اس کی سادگی، صداقت شعاری، شجاعت اور خدمتِ خلق سے تو کبھی کسی کو انکار نہ تھا لیکن کیا اسے ایک سیاسی مدبّر ثابت کیا جا سکا؟ اللہ تعالیٰ سبھی کو امان میں رکھے اور تلافی کی توفیق دے ۔ اللہ کے آخری رسولﷺ نے فرمایا تھا: کوئی اس دنیا سے اٹھے گا نہیں، جب تک اس کا ظاہر و باطن آشکار نہ ہوجائے۔ شاعر شعیب بن عزیز کا قول یہ ہے "مبالغہ بھی کریں تو نباہنے تک ہے"۔
    بعض اخبار نویسوں نے کچھ دن سے عجیب روش اپنا لی ہے ۔ حکومت پر نکتہ چینی کرنے والوں کی مذمت میں وہ حد سے گزر گئے۔ طرح طرح کے نام رکھتے اور پھبتیاں کستے ہیں۔ حیرت ہوتی ہے کہ شیشے کے گھروں میں بیٹھ کر سنگ زنی کی ایسی جرأت۔ اقتدارکی غلام گردشوں میں کیسی ہوا بہتی ہے کہ آنکھیں ہی چندھیا جاتی ہیں، عقلیں دم توڑ دیتی ہیں۔ ذاتی احترام لازم ہے اور وضع داری ہاتھ پکڑ لیتی ہے ، ورنہ ایک ایک کے کارنامے گنوائے جا سکتے ہیں۔ پھر وہ کہاں پناہ پکڑیں گے۔ پنجابی محاورے کے مطابق کس کی ماں کوماسی کہیں گے۔ ایک صاحب بہت بے قابو ہو رہے تھے۔ عرض کیا کہ آنجناب کے کم از کم 17کروڑ روپے لندن کے ایک بینک میں پڑے ہیں اور ظاہر ہے کہ ایک کے بعد دوسری حکومت کی خدمت گزاری اور اس کردار کے طفیل جو موزوں الفاظ میں بیان کیا جائے تو کاغذ آلودہ ہو جائے۔ کچھ دن قرار سے رہے لیکن اب پھر سے دہن بگڑ رہا ہے ۔ انہیں خوش فہمی ہے کہ وہ بڑے جنگجو ہیں۔ کچھ بھی نہیں۔ چند ساعت بھی ٹھہر نہ سکیں گے۔ خوف کا عالم یہ ہے کہ ہر شب نیا ٹھکانہ تلاش کرتے ہیں۔
    شاہین صہبائی ، ڈاکٹر شاہد مسعود اور کامران خان سے مجھے نیاز حاصل نہیں۔ شاہین صاحب سے برسوں پہلے ایک مختصر سی ملاقات ہوئی تھی۔ ڈاکٹر صاحب گزشتہ ہفتے اسلام آباد آئے اور ملاقات کی خواہش ظاہر کی تو عرض کیا کہ غریب خانے کو رونق بخشیں مگر شاید مصروفیت کے سبب نہ آسکے۔ انصار عباسی اور رؤف کلاسرا سے دوستانہ بے تکلفی کے ساتھ عرض کیا: جو کچھ آپ لکھتے ہیں، وہی لکھئے کہ آدمی کو اپنے ذوق اور ضمیر کے مطابق ہی بات کرنی چاہئے لیکن اگر ممکن ہو تو لہجے کی تلخی کسی قدر کم ہونی چاہئے۔ عنایت یہ ہے کہ ہر بار میری بات توجہ سے سنی ، حالانکہ وہ بڑے قد آور اخبار نویس ہیں۔
    "منفی ایک"فارمولے کا چرچا ہوا تو شاہین صہبائی ، ڈاکٹرشاہد مسعود ، کامران خان اور انصار عباسی پر بے رحمی سے نکتہ چینی ہونے لگی۔ کبھی نام لے کر اور اکثر نام لئے بغیر لیکن بیشتر تحقیر کے انداز میں۔ ضروری نہیں کہ ان کے تجزیوں سے اتفاق کیاجائے اور ان کی خبروں کے ہر لفظ اور تناظر پر ایمان لایا جائے ۔ خود اس ناچیز کو بھی اختلاف ہوتا ہے لیکن کیا بنیادی طور پر وہ سچّے لوگ نہیں؟ کیا وہ ہماری صحافت کا سرمایہ نہیں۔ حیف کہ معمولی لوگ ان پر طعنہ زن ہوں۔ شاہی خاندانوں کے قصیدے لکھنے والے ان کا مذاق اڑانے کی کوشش کریں۔ وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی کے ساتھ ایّامِ اسیری سے رؤف کلاسرا کے ذاتی مراسم ہیں لیکن خبر میں وہ رعایت نہیں کرتے۔ نون لیگ کے لیڈر ان سے ناراض ہوئے ۔ اس جماعت کی ویب سائٹ پر کردار کشی کی مہم شروع ہوئی ۔ میں نے ٹوکا تو مجھے بھی گالی دی اور اب تک جاری ہے ۔ افسوس کہ بعض اخبار نویسوں نے اس کارِ خیر میں خفیہ طور پر ہاتھ بٹایا۔ کامران خان نے مالی بدعنوانی پر جو انکشافات کئے، ان میں سے کسی ایک کی تردید نہ کی جا سکی۔ اس نظامِ زروظلم کے غلیظ باطن کو انہوں نے واشگاف کر دیا اور یہی وہ خدمت ہے جو ایک صحافی انجام دے سکتا ہے ۔ سب سے بڑی خبر لیکن انصار عباسی نے دی ہے چنانچہ واویلا بھی بہت ہے ۔ یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ کہانی خفیہ ایجنسیوں کی مدد سے لکھی گئی۔ انصار عباسی سے مجھے اختلاف ہوتا ہے اور تناظر کا ایسا شدید اختلاف کہ شاید کبھی تحلیل نہ ہو سکے لیکن اگر وہ خفیہ ایجنسیوں کا کارندہ ہے تو پھر اس ملک میں ایک بھی آزاد اخبار نویس موجود نہیں ۔ میں گواہ ہوں کہ آئی ایس آئی کے ایک سربراہ کو اس نے ٹکا سا جواب دے دیا تھا ۔ رؤف کلاسرا کی اہلیہ کو دھمکیاں دی جاتی رہیں۔ پہاڑکی طرح وہ ڈٹ کر کھڑے رہے۔افسانے الگ ، شاہین صہبائی کی آزاد روی میں کسی احمق یا متعصب ہی کو کلام ہو گا۔ انہی چند آدمیوں کا ذکر نہیں، گزشتہ چند برس میں پاکستانی اخبارات اور ٹی وی چینلوں نے ایک سے بڑھ کر ایک جواں مرد اخبار نویس کو دیکھا ہے ۔ فرشتے نہیں، وہ آدمی ہیں، خامیاں ہیں، گاہے تعصبات غالب آتے ہیں، پسند اور نا پسند بھی ۔ کبھی کوئی حماقت بھی کرگزرتا ہے، اندازے غلط بھی ہو جاتے ہیں،کبھی اس نفرت کا غلبہ بھی جو غریب اور درمیانے طبقے سے ابھرنے والوں کو ظلم اور ظالموں سے لازماً ہوتی ہے لیکن بددیانتی؟ اگر یہ لوگ بددیانت ہیں تو دیانت داری کیا ہوتی ہے۔ بخدا یہ لوگ اکثر سیاستدانوں سے ہزارگنا بہتر ہیں۔ اختلاف بجا لیکن انجیل کی اصطلاح کے مطابق یہی لوگ زمین کا نمک ہیں اور ان کے ہم نفس۔ مناصب ، دولت اور سرپرستی درکار ہوتی تو اپنے طعنہ زنی کرنے والوں کی طرح وہ بھی درباروں کا طواف کرتے۔ عیب جوئی کرنے والوں کی پوری تصویر دکھا دی جائے تولوگ دنگ رہ جائیں لیکن یہ مقصود نہیں ۔ ہونا بھی کبھی نہ چاہئے۔ بحث افراد سے نہیں ، ظلم اور بدعنوانی سے ہے ۔ بہت ہو چکا، بہت ۔پستی اور زوال کی کوئی آخری حد بھی ہے یا کہ نہیں، جہاں اس ملک اور معاشرے کو جا رکنا ہے ۔ استعمار کے کارندوں اور قومی خزانہ لوٹنے والوں کی مدح سرائی اور اپنے قبیلے کے بہترین لوگوں کی کردار کشی؟ رک جائیے حضور، زمانہ بدل چکا۔ افق پر طوفان کے آثارہیں۔مہلت مختصر ہے،یہی دو تین برس ہیں۔آزاد عدلیہ ، بیدار عوام اور جاگتے اخبار نویس فیصلہ صادر کریں گے۔اللہ کا حکم نافذ ہو کر رہے گا۔ کوئی نہ بچے گا، کوئی ظالم نہ بچے گا۔ رک جائیے ، اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے۔
     
  2. بھوت
    آف لائن

    بھوت ممبر

    شمولیت:
    ‏31 اگست 2008
    پیغامات:
    265
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    اچھا جناب اپ نے اوپر والہ کام پڑھا ھو گا نا شکریہ اگر پڑھ لیا ھے اگر نہیں پڑھا تو پھر کسی اور وقت پڑھ لیں کیوں کہ صحافیوں کی خبریں دن کے اُجالے میں پڑھنی چاہیے تاکہ رات کو سوتے میں ڈر نا لگے نا ہی ہارٹ اٹیک ھو ورنہ اِن لوگوں کا کیا ھے یہ تو بندوں کو روز مار کے خوش ھوتے ہیں
    خیر اب اس گروپ کی نشاندہی ھو رہی ھے جو اگر حکومت اچھا کام کررہی ھے تو اچھا لکھے گئے اور اگر برا کر رہی ھے تو بُرا ضرور لکھتے ہیں۔


    بازار سیاست میں,,,,سویرے سویرے…نذیر ناجی
    مسلم لیگ (ن) کے بعض لیڈروں کو وسط مدتی انتخابات کا تصور مسحور کئے رکھتا ہے۔ وہ گزشتہ انتخابی نتائج پر ضرورت سے زیادہ پراعتماد نظر آتے ہیں اور سوچ رہے ہیں کہ وقت سے پہلے انتخابات ہو گئے ‘ تو نوازشریف کی مقبولیت کی لہر پہلے سے بھی اونچی ہو گی اور وہ صوبائی اور قومی اسمبلیوں کی نشستیں تنکوں کی طرح‘ اس لہر کی لپیٹ میں لے لیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ نواز لیگ موجودہ جمہوری انتظام پر بار بار ضربیں لگا رہی ہے اور صدر زرداری کو اقتدار کے ڈھانچے میں درپیش مشکلات میں گھرے دیکھ کر موقع بہ موقع‘ اس کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتی ہے۔ اگر میں غلط نہیں سمجھتا تو یہ جمہوری انتظام کسی ایک کی طاقت یا فتح و شکست کی وجہ سے نہیں ہوا‘ یہ انتہائی موثر اور زبردست طاقتوں کا تشکیل دیا ہوا انتظام ہے۔ دہشت گردی نے پاکستان کو ساری دنیا کی توجہ کا مرکز بنا رکھا ہے۔ امریکہ ‘ بھارت‘ چین‘ روس‘ برطانیہ‘ سپین‘ اٹلی‘ جرمنی‘ فرانس ‘ ایران غرض دنیا کے انتہائی طاقتور اور بااثر ملکوں میں سے بیشتر‘ اس دہشت گردی کے متاثرین میں سے ہیں‘ جس کے مراکز پاکستان میں ہونے کا الزام لگایا جاتا ہے۔ پرویزمشرف کی حکومت کسی سیاستدان یا پاکستان کے کسی پاور پلیئر نے ختم نہیں کی۔ وہ حکومت پرویزمشرف کے طرزعمل کی وجہ سے دہشت گردی کے تمام عالمی متاثرین کے لئے ناقابل برداشت ہو گئی تھی۔ جس طرح افغانستان میں سوویت یونین کی پسپائی کا سہرا ‘مختلف گروہ اور مقامی طاقتیں‘ اپنے سر باندھتی رہتی ہیں‘ اسی طرح پرویزمشرف کے زوال کا کریڈٹ لینے والوں کی تعداد بھی کم نہیں۔ اندر سے سب جانتے ہیں کہ درحقیقت کیا ہوا؟ دیومالائی کہانیوں سے آراستہ ”انکار“ سے لے کر‘ انتخابی نتائج تک‘ سب کچھ تیار کردہ ڈیزائن کے مطابق ہوا اور اس ڈیزائن میں جس کا جو کردار متعین ہے‘ وہی برقرار رہے گا تو موجودہ انتظام چل سکتا ہے اور اگر کسی کا خیال ہے کہ اس انتظام کو توڑ پھوڑ کے‘ وہ اپنے اقتدار کا راستہ ہموار کر لے گا تو اسے اپنی غلط فہمی دور کر لینا چاہیے۔
    پرویزمشرف کو رخصت کرنے کا فیصلہ درست ثابت ہوا۔ ان کی عدم مقبولیت ‘ عدم برداشت اور عوام میں مقبول سیاستدانوں کو اقتدار سے باہر رکھنے کی ضد نے‘ انہیں بال و پر سے محروم کر دیا تھا۔ ان کے ساتھ عوامی نفرت کا عالم یہ ہو گیا تھا کہ وہ جو پالیسی بھی اختیار کرتے‘ عوام اسے مسترد کر دیتے۔اس صورتحال میں دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ پاکستان کے ہاتھوں سے نکلتی جا رہی تھی۔ پرویزمشرف متذبذب حکمران تھے۔ وہ کوئی فیصلہ بھی پوری قوت سے کر کے تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ عملدرآمد نہیں کر پا رہے تھے۔ انہوں نے اپنے آپ کو ایک بہادر اور لبرل کے طور پر متعارف کرایا تھا اور مصطفیٰ کمال پاشا کو اپنا آئیڈیل کہہ کے یہ امید پیدا کی تھی کہ انتہاپسندی اور دہشت گردی کی گرفت میں آتے ہوئے پاکستان کو‘ وہ ایک مہذب اورپرامن ملک بنا سکتے ہیں۔ مگر جیسے ہی انتہاپسندوں اور مذہبی سیاستدانوں نے ان پر دباؤ ڈالا تو وہ پیچھے ہٹتے چلے گئے اور جنرل اقتدار میں ہو یا میدان جنگ میں۔ جب اس کا ایک قدم پیچھے ہٹتا ہے تو پھر کوئی اسے آگے بڑھنے کا موقع نہیں دیتا۔ پرویزمشرف ایک قدم آگے بڑھاتے ‘ تو انتہاپسند قوتیں‘ انہیں دس قدم پیچھے ہٹا دیتیں۔ اسی تذبذب اور کشمکش سے ان کے بیرونی سرپرست بیزار ہوئے ۔ پاکستان میں جمہوری نظام لانے کا فیصلہ کیا گیا اور یہ فیصلہ درست نکلا۔
    آپ کو یاد ہو گا کہ پاک فوج کی قیادت‘ دہشت گردی کے خلاف میدان جنگ میں اترنے سے گریزاں تھی۔ پرویزمشرف کے زمانے میں فوج کے امیج کو بہت نقصان پہنچا اور خیال کیا جارہا تھا کہ اگر فوج کو دہشت گردوں کے خلاف میدان میں اتارا گیا تو اسے عوام کی طرف سے مطلوبہ حمایت نہیں مل سکے گی۔ یہی وجہ تھی کہ اگلا قدم اٹھانے سے پہلے‘ فوج نے باربار سیاسی قیادت سے مطالبہ گیا کہ وہ اس جنگ کی اونرشپ قبول کرے۔ یعنی خدانخواستہ اگر برسرپیکار فوج کے خلاف ناموافق ردعمل سامنے آ گیا ‘ تو اس کا سامنا سیاستدانوں کو کرنا پڑے گا۔ سیاسی قیادت نے یہ چیلنج قبول کیا۔ عین اس وقت جب منتخب حکومت‘ دہشت گردوں کے خلاف موثر کارروائی کے لئے تیار تھی‘ دہشت گردوں نے ممبئی میں دہشت گردی کی واردات کر کے نئی نئی منتخب حکومت کو ساری دنیا کے سامنے ایک ملزم بنا کر رکھ دیا۔ صدر آصف زرداری ‘ وزیراعظم گیلانی اور ہمہ وقت سرگرم رہنے والے وزیرداخلہ رحمن ملک نے ممبئی میں ہونے والی دہشت گردی کے نتیجے میں اٹھنے والے عالمی طوفان سے جرات مندانہ انداز میں ٹکر لی اور بھارت کی سفارتی جارحیت کا ڈٹ کر مقابلہ کرتے ہوئے پاکستان کو اس دباؤ سے نکالا جو عالمی حمایت سے بدمست بھارت‘ پاکستان پر بڑھاتا چلا جا رہا تھا اور جب سوات کا آپریشن شروع ہوا‘ تو سب اسے امید اور تشویش کے ساتھ دیکھ رہے تھے۔ آپ کو یاد ہو گا کہ میڈیا ‘ مذہبی جماعتیں اور دہشت گردی سے خوفزدہ سیاستدان‘ ابتداء میں دہشت گردوں کے لئے ہمدردیاں پیدا کرنے لگے تھے۔ صرف حکومت ‘ اس کے بعض اتحادی جن میں ایم کیو ایم اور اے این پی شامل ہیں‘ اس آپریشن کی حمایت میں سامنے آئے۔ آپ کو یہ بھی یاد ہو گا کہ ٹیلی ویژن اور اخبارات پاک فوج کے شہداء کو ”ہلاک اور جاں بحق“ لکھا کرتے تھے۔ مجھے باربار احتجاج کرتے ہوئے یہ مطالبہ کرنا پڑا کہ خدا کے لئے وطن اور انسانیت کی خاطر جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والوں کو‘ شہید لکھا کریں‘ کیونکہ وہ ہر اعتبار سے اس درجے کے مستحق ہیں۔ ایسے لوگوں کو سوات آپریشن کی ضرورت کا احساس اور اس کی افادیت سمجھنے میں کافی دیر لگی۔ صدر آصف زرداری نے اس انتہائی نازک صورتحال میں استقامت کے ساتھ اس جنگ کی اونرشپ کو قبول کرتے ہوئے‘ فوج کے حق میں مہم جاری رکھی اور ہماری فوج نے بہترین پیشہ وارانہ مہارت کا مظاہرہ کرتے ہوئے‘ اس قدر تیزرفتاری سے کامیابی حاصل کی کہ کڑی نظروں سے جائزہ لینے والے دنگ رہ گئے۔ امریکہ نے شروع میں اس آپریشن کے خلاف تھا‘ اسے بھی اس کی افادیت کو تسلیم کرنا پڑا اور جب پاک فوج نے جنوبی وزیرستان میں کارروائی شروع کی تو امریکہ کی سمجھ میں آگیا کہ اگر پہلے سوات آپریشن کر کے فوج کامیاب نہ ہوتی تو جنوبی وزیرستان کا آپریشن یوں کامیابی کی طرف نہ بڑھتا جیسا کہ اب بڑھ رہا ہے۔ اس آپریشن میں فوج کو عوام اور میڈیا کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔ یہ سب کچھ اس وجہ سے ہوا کہ منتخب حکومت نے اپنے حامیوں کے ساتھ مل کر اونرشپ کا حق ادا کر دیا۔ ظاہر ہے کہ کوئی بھی حکومت حالت جنگ میں (اور جنگ بھی اپنی سرزمین پر) عوامی خدمات اور ترقیاتی کام اس طرح جاری نہیں رکھ سکتی‘ جیسے حالت امن میں کیا جاتا ہے۔
    بعض مفادپرست لوگ حکومت کی اس مجبوری کو سیاسی مفادات کے لئے ایکسپلائیٹ کر رہے ہیں۔ لیکن عالمی سٹیک ہولڈرز اچھی طرح جانتے ہیں کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاک فوج کو جو کامیابیاں حاصل ہو رہی ہیں‘ اس کی وجوہ کیا ہیں؟ یہی وجہ ہے کہ امریکہ ہو یا چین‘ روس ہو یا برطانیہ سب موجودہ جمہوری نظام کو درہم برہم ہوتے ہوئے نہیں دیکھنا چاہتے۔ وہ یہی بھی جانتے ہیں کہ آصف زرداری کو ہٹانے کے بعد جو بھی ان کی جگہ لے گا اور امور مملکت سنبھالے گا‘ وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کی اونرشپ اس طرح نہیں لے گا‘ جیسے کہ آصف زرداری نے لے رکھی ہے۔ یہ بات پاک فوج کو بھی معلوم ہے۔ وہ یہ بھی جانتی ہے کہ کون کون سا سیاستدان دہشت گردوں کے ساتھ رابطے میں ہے؟ جو لوگ پاک فوج پر گولیاں چلا رہے ہوں اور پرامن شہریوں کی ہلاکتوں کے ذمہ دار ہوں‘ان کے ساتھ ہمدردیاں رکھنے والوں کو ملک کا نظم و نسق چلانے پر نہیں لگایا جا سکتا۔ موجودہ جمہوری انتظام کو اگر چلنا ہے تو وہ موجودہ صورت کے ساتھ ہی چلے گا۔ ورنہ چلتا بنے گا۔ کوئی ملکی یا عوامی طاقت‘ ایسی سیاسی حکومت قبول نہیں کرے گی‘ جو دہشت گردوں کے معاملے میں متذبذب ہو۔ صدر زرداری کی ذاتی خامیاں اپنی جگہ لیکن اس وقت پاک فوج کو جس طرح کی جمہوری قیادت مطلوب ہے‘ وہ آصف زرداری کے سوا سیاست کے بازار میں دستیاب نہیں۔
     
  3. راشد احمد
    آف لائن

    راشد احمد ممبر

    شمولیت:
    ‏5 جنوری 2009
    پیغامات:
    2,457
    موصول پسندیدگیاں:
    15
    بھوت بھائی
    یہ سارے کالم میں پڑھ چکا ہوں اور یہ بھی سمجھ چکا ہوں کہ کون طالبان کا حمایتی ہے اور کون مخالف
    نذیر ناجی جیسے زرد صحافی تو حکومت کی حمایت کرتے رہتے ہیں۔ میری آپ سے گزارش ہے کہ نذیر ناجی کے پرویز مشرف دور میں لکھے گئے کالم اور بے نظیر اور نواز شریف دور میں لکھےگئے کالم ضرور پڑھئے گا۔

    مشرف دور میں‌مشرف کے قصیدے
    نواز شریف دور میں اس کی تعریفیں کرتا تھا اور اس کا تقریر نویس کا کام کرتا تھا۔
    اب زرداری دور میں اس کی شان میں قصیدے لکھتا ہے۔

    نذیر ناجی ہر حکومت کا حمایتی ہے جبکہ ہارون الرشید دہشت گردی اور طالبان کے خلاف ضرور ہے لیکن حکومت کی پالیسیوں پر تنقید بھی کرتا ہے۔ یہ وہی نذیر ناجی ہے جس نے شراب پی کر ایک صحافی کو فون پر گالیاں دیں تھیں۔ جس کے ثبوت یوٹیوب اور pkpolitics.com پردستیاب ہیں۔

    سوچیں! صحافی حکومت پر تنقید کیوں کرتے ہیں؟
    کیا حکومت نے اللے تللے چھوڑ دئیے ہیں؟
    کیا کرپشن کرنا ختم کردی ہے؟
    کیا این آر او جیسے غیر اخلاقی قوانین کا سہارا لینا بند کردیا ہے؟
    کیا عوام کو چینی، روزگار، تعلیم میسر آرہی ہے؟
    کیا عوام کے جان ومال کا تحفظ کیا جارہا ہے؟
    کیا ذخیرہ اندوزی، مہنگائی کا خاتمہ ہوگیا ہے؟
    کیا ناانصافی اور لاقانونیت کا خاتمہ کیا جارہا ہے؟
    کیا انہوں نے کبھی ایوان صدر نے نکل کردیکھا ہے کہ عوام کس حال میں ہیں؟
    کیا غیر ملکی چنگل سے ملک آزاد ہوچکا ہے اور آزادانہ فیصلے کرتا ہے؟

    ان سب کا جواب نہیں ہے تو اس کا مطلب ہے کہ حکومت پر تنقید جائز ہے۔ بھائی جان اگرحکومت اپنا قبلہ درست کرلیں تو گارنٹی ہے کہ فوج کبھی شب خون نہیں‌مارے گی۔ وینزویلا میں‌جب فوج نے شب خان مارا تھا تو عوام سڑکوں پر نکل آئی تھی اور عوام اس وقت تک گھروں میں نہیں‌گئی جب تک فوج واپس بیرکوں میں نہیں‌چلی گئی۔ حکومت عوام کی فلاح کے لئے کام کرے فوج کبھی شب خون نہیں مارے گی۔ ویسے بھی فوج کو لانے میں سیاستدانوں کا کردار ہے اب تو انہیں سدھر جانا چاہئے۔

    ہارون الرشید نے اپنے کالم میں جن صحافیوں کا ذکر کیا ہے یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے حکومت کی کرپشن بے نقاب کی ہے۔ اگر آپ کو اعتراض ہے کہ صحافی زرداری جیسے کرپٹ لوگوں کی کرپشن بے نقاب نہ کریں تو آپ کی مرضی۔
     
  4. بھوت
    آف لائن

    بھوت ممبر

    شمولیت:
    ‏31 اگست 2008
    پیغامات:
    265
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    ہم کھڑے ہیں ،گوش بر آواز تیرے شہر میں....وکالت نامہ…سینیٹر ڈاکٹر بابراعوان




    گریٹ بریٹن نے وہ ایمپائر کہاں کھڑے ہو کر سوچی ہو گی جس نے سینکڑوں سال تک اپنے اوپر سورج کو بھی غروب نہیں ہونے دیا۔ اور اُس کے جوانوں نے وہ منصوبہ سازی کہاں بیٹھ کر کی ہو گی جس کے نتیجے میں وہ اجنبی زمینوں، دُوردیس کی گنجلک زبانوں اور رنگ رنگ کے نا آشنا معاشروں اور تہذیبوں کو "یونین جیک" کے تسلط میں لا کر کرہ ارض کے سب سے بڑے عسکری فاتحین کہلاتے ہیں، یہ سب کب ہوا تھا ؟ کسی نروان کے لمحے میں ؟ کسی گوشہ تنہائی میں؟ کسی دانش کدئے میں یا بر سر بازار واقع ہائیڈ پارک لندن کے اُس "شاؤٹنگ کارنر" میں جہاں دنیا کے سارے حکمرانوں ، تمام نظاموں سمیت جس کسی کو چاہو " رگڑ" دو۔ کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا۔ یہ سوال پاکستان کے موجودہ "حوار المفتوح " یا اُس کھلے ڈُلے ڈائیلاگ کے تناظر میں پیدا ہوتا ہے جو ہر موضوع پر ہر جگہ یوں جاری ہیں کہ اُن کے نتیجے میں " بریکنگ نیوز"، "بریک تھرو" ، " بریک اووے"، "بریک اِن" ، سب کچھ ایک ایسا ملغوبہ بن گیا ہے، جیسا کسی شہری مینا بازار یا کسی دیہاتی میلے ٹھیلے میں لگے بہت سے سٹال اپنی اپنی "پراڈکٹ" فروخت کرنے کے لیے بیک وقت سینکڑوں
    لاوڈ اسپیکروں پر پبلسٹی کے ذریعے اپنے اپنے مال کی خوبیاں بیان کر رہے ہوں۔ یہ مال بھی بڑے مزے کا ہے۔ کہیں سیاسی رشوتوں کے انکشافات ہیں۔ کہیں انٹیلیجنس ایجنسیوں کے ایجنٹوں کی فہرستیں۔ کہیں الیکشن چوری کرنے کے منصوبہ سازوں کی تفصیلات۔ کہیں غریب عوام کے فائدے کے لیے شرعی اور مقدس ناموں پر بنوائے جانے والے محاذ اور اتحادوں کی کہانیاں، اور کہیں حساس ترین اور سٹریٹیجک معاملات پر اس انداز کے تبصرے جیسے مچھلی منڈی میں " جھینگے" اور "رہو "کے ریٹ کا مقابلہ یا بھابڑے کی تنگ گلیوں میں گھسیٹے جانے والے سبزی اور فروٹ کے ٹھیلوں میں سے اُٹھنے والی مخصوص آوازیں۔لیکن کبھی کبھی ایسی آوازیں بھی سُنائی دیتی ہیں جن کا انداز حضرتِ ِاسرافیل کے پھُونکے جانے والے "صور" سے ملتا جلتا ہے۔ اور ظاہر ہے کہ صورپھُونکے جانے کے بعد اگلا مرحلہ قیامت کا ہے۔ اور کچھ وہ ہیں جو خود تو عمرِدراز کا ایک ایک لمحہ، ثانیہ اور دقیقہ مزے لینے میں خرچ کرتے ہیں لیکن لوگوں کو عاقبت آشنائی اور آخرت کی ہنگامی تیاریوں پر لگا رہے ہیں۔
    یہ سارا شور شرابہ ، غلغلہ، طنطنہ، ولولہ اور ھمھمہ ایسا ہے جس میں گونجنے والی اکثر آوازیں بے سمت ہیں۔ جبکہ دوسری طرف امید اور پسپائی کے درمیان کہیں کھڑی پاکستانی قوم اس شہرِ غل غپاڑا کے درمیان گوش بر آواز ہے مگر اُسے سمجھانے کی بجائے سُنانے کا، اُسے جوڑنے کی بجائے توڑنے کا، اُٹھانے کی بجائے پچھاڑنے کا اور دلاسہ دینے کی بجائے دھکا دینے والوں کے ذریعے چلنے والا کاروبار زوروں پر ہے۔لیکن سیانے کہتے ہیں مایوسی کفرانِ نعمت ہے لہذا کچھ دیگر آوازوں کا تذکرہ نہ کرنا بھی ایسا ہی ہے۔ ہماری مراد اس شہر خرابی میں کچھ وہ آوازیں بھی ہیں جو اپنی سر زمین کے لیے دُعا ہی نہیں ، پاکستان کی بقا کے دلائل بھی دیتی ہیں۔ ان بے لوث صداؤں پر ہی اصل توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ان میں سے کچھ وہ ہیں جن کا مسئلہ غریبوں کے لیے اچھی گورننس اور اچھی گورننس کے لیے بہتر انتظام اور قانون کا بندوبست ہے اور کچھ وہ بھی ہیں جو کمزور ترین جمھوریت کو منظم ترین آمریت پر ترجیح دینے کی تبلیغ کرنے والوں کی ہیں۔ یہ وہ ہیں کہ جن کے لیے صوفی لوگ بھی یہ صدا لگاتے ہیں۔ " تیری آواز مکے مدینے" ۔ مگر غصّے میں بھنائے ہوئے ، جھوٹی انا کے بے لگام گھوڑوں پر سوار،ذات پسندی اور خود پرستی کے مریض، وہ جتھے قابلِ ذکر اور قابلِ غور ہیں جو ہر وقت "آئی۔ می اینڈ مائی سیلف "کا ورد اور وظیفہ کرتے رہتے ہیں۔ اُن کے نزدیک صرف وہی درست سوچتے ہیں۔ صرف وہ درست بات کہتے ہیں۔ صرف یہی برتر ترین، ارفع ترین، اعلیٰ ترین اور ذہین ترین ہیں۔ جبکہ باقی سارے" اچھوت" یا ٹچ کرنے کے قابل نہیں ہیں۔ اِن کو سُنیں تو یوں لگتا ہے کہ صرف یہی بُلبُل اور کوئل جیسا بولتے ہیں، اور اِنہیں پڑھنا شروع کریں تو یوں لگتا ہے کہ آخری سچائی وہی ہے جو اِن کے قلم سے قرطاس پر اُترتی ہے۔
    آج کا قاری ہو یا سامع۔ ووٹر ہو یا کسی کا سپورٹر ۔ عام آدمی ہو یا خاص آدمی۔ پڑھا لکھا ہو یا کورا۔ ان سب کیٹگریز میں بے خبر کوئی بھی نہیں ہے۔ لوگ صرف اُن باتوں پر توجہ دیتے ہیں جو روح میں اُتریں، کانوں میں نہ ٹھونسی جائیں اور ہتھوڑے کی طرح کسی مخصوص ایجنڈے پر نہ برسائی جائیں۔ سیاست اور جمھوریت کی ابتدا ہی اختلافِ رائے سے ہوتی ہے۔ کیونکہ الیکشن لڑنے کے لیے فریق چاھیں اور جمھوری ایکسرسائیز میں کامیابی کے لیے اکثریت کی حمایت درکار ہوتی ہے۔ ظاہر ہے کہ ہر دو صورتوں میں مقابلہ کم از کم دو فریقین کے درمیان ہوتا ہے۔ رولز آف گیمز کے مطابق یہ دو فریق ایک دوسرے کو طے شدہ وقت تک برداشت کرنے کے پابند ہوتے ہیں ۔ اور سیاسی حریفوں کو سیاسی طور پر زندہ رکھتے ہیں، تاکہ سیاسی نظام چلتا رہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ، جہاں سیاست میں حریف باقی نہ رہے، وہاں آمریت، مارشل لاء، بادشاہی، پاپائیت آتی ہے اور پھر خون کا خراج لیکر رخصت ہوتی ہے۔ ہر جگہ ، اور ہر وقت رخصتی ضروری نہیں۔ جنھیں یقین نہیں آتا وہ میانمار کی "آن وان سوئچی" بمقابلہ برما کے چوالیس سالہ مارشل لاء کی داستان پڑھ لیں۔ یہ ماضیِ مرحوم کا قصّہِ پارینہ نہیں، نئے ملینیئم کے پہلے عشرے کی ایسی لائیو اور مُسلسل خون آشام حقیقت ہے جو پچھلے ملینیئم کے تینتیس سالوں کا تسلسُل بھی ہے۔ ایک ایسا معاشرہ یا قوم جس کے حیلہ باز " پاور گیم" کے لیے برسرِ پیکار ہوں، وہاں عام آدمی بھی آوازوں کا پس منظر سمجھ لیتا ہے۔ اور آج جو شور شرابے کے اردگرد ہجوم نظر آتا ہے، وہ بھی اس بیدار قوم کی طرف سے خود پسندوں کے بارے میں اعلانِ لا تعلقی ہے۔ یا شاید کچھ یوں بھی ہے۔
    ہم کھڑے ہیں گوش بر آواز، تیرے شہر میں
    برسرِ طاقت ہیں حیلہ باز، تیرے شہر میں
     
  5. بھوت
    آف لائن

    بھوت ممبر

    شمولیت:
    ‏31 اگست 2008
    پیغامات:
    265
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    جناب اپ تنقید کریں یہ تو جمہوریت کا حسن ھے۔اس تنقید سے ایک بات کا خیال رکھیں وہ یہ کہ ذاتی بغض نہ حاوی ھونے پائے ۔اگر ذاتی بغض شامل ھو گا تو نقصان اپ کا ھے کسی کی صحت پر تو اثر نہیں پڑے گا نا۔بلکہ جو قوتیں پاکستان کو نقصان دینا چاہتی ھے اُن کو خوشی ھو جو قوتیں پاکستان کو فرقے میں تقسیم کرکے فوج کو حکومت کی لت لگا چُکی ھے اُن کو خوش کرنا مقصود ھے تو جی آیا نو۔اور فوج کو حکومت کی لت لگانے میں ایران اور سعودی عرب پیش پیش ھے ۔اور کچھ لوگ دوسروں ملکوں میں بیٹھ کر بھی مختلف ویب سائٹ کے اُوپر تفرقہ پھیلا رہے ھے اور باحیثت ایک پاکستانی کے اور اِس دھرتی کی خاطر جو اج پاکستان کے نام سے منسوب ھے اِن دونوں لعنتیوں "اِن کو لعنتی اس وجہ سے لکھا کیوں کہ اِن دونوں کے اپنے اپنے مفاد ھے " پر لعنت دینی ھو گئی کیوں کہ اِس دھرتی کے مقامیوں کا حق ھے اور اس دھرتی کے مقامی کون ھے یہ مجھ کو لکھنے کی نہ تو ضرورت ھے اور نہ ہی کوئی اشارہ دینے کی۔یہ جو ایران سے افغان سے سعودی عرب سے برما سے تاجکستان سے اور دوسرے ملکوں سے آ کر آباد ھوئے ہیں یہ ہمارا حق کھا رہے ہیں اور اُوپر سے تفرقہ کی آگ بھی جلا رہے اور ہم نا سمجھی میں اِن کے آلہ کار بنے ھوئے اور ہم کس کے نام پر آلہ کار بنے ھوئے ہیں وہ مذہب کے نام پر حالانکہ اِن ممالک میں مذہب کو کیا حثیت ھے وہ میں کسی دن بتاؤ گا جو ایران میں رہنے والے کون ھے اور سعودی عرب کے رہنے والے کون ھے لیکن وہ لوگ ہمارے ممالک میں آ کر ہم کو سبق دے رہے ہیں اسلام کا۔
    خیر پھر کسی دن
    خیر اپ تنقید کریں اور بڑے جوش و خروش کے ساتھ کریں جی آیا نو ۔
    اچھا مجھ کو یہ ضرور بتائے گا کہ اس کالم میں نذیر ناجی کے اس کالم میں کیا جھوٹ ہے اور کیا فریب ھے

    انتظار کی حد,,,,سویرے سویرے…نذیر ناجی




    جمہوریت سے محرومی کے سیاہ دور میں ‘ہم کیسی کیسی قیمتیں چکاتے ہیں؟ اور جمہوریت بحال ہوتے ہی‘ جس تیزی کے ساتھ انہیں بھول جاتے ہیں۔ اس کی مثال شاید ہی کہیں اور ملتی ہو۔ پاکستان میں آمریتوں کی مجموعی مدت جنرل فرانکو کے عرصہ اقتدار کے قریب ہے۔ چلی‘ ارجنٹائن‘ فلپائن‘ انڈونیشیا اور ایسے دیگر کئی ملکوں میں طویل آمریتوں کے بعد جمہوریت بحال ہوئی تو پھر وہاں کی سیاسی قیادتوں نے باہمی کشمکش اور شدید ترین اختلافات کے باوجود‘ کبھی ایسا موقع پیدا نہیں کیا جس کا فائدہ اٹھا کر فوج دوبارہ اقتدار پر قابض ہو جائے۔ جیسی بری بھلی جمہوریتیں وہ چلا سکے‘ چلاتے رہے۔ مگر جس کشتی میں سب سوار ہیں‘ اسے ڈبونے کی غلطی سے بچ رہے ہیں۔ دیگر کئی ملکوں کی مثالیں بھی دی جا سکتی ہیں۔ لیکن ہمارے سیاستدان اپنا سبق فوراً ہی بھول جاتے ہیں۔ پرویزمشرف کے طویل آمرانہ دور میں مقبول سیاستدانوں کو‘ کیا کیا مصائب نہیں جھیلنا پڑے۔ انہیں کال کوٹھڑیوں میں رکھا گیا۔ ہتھکڑیاں لگائی گئیں۔ ان پر سانپ اور بچھو چھوڑے گئے۔ جلا وطن کیا گیا۔ جب وہ اس تکلیف دہ صورتحال سے گزر رہے تھے تو اس بات کا اظہار کیا کرتے تھے کہ انہوں نے اب سبق سیکھ لیا ہے۔ ایسے ہی جذبات و خیالات کے تحت انہوں نے میثاق جمہوریت تیار کر کے اسے مستقبل کے سیاسی ایجنڈے کا درجہ دیا۔دوسری طرف میڈیا‘ بحالی جمہوریت کے لئے بھرپور جدوجہد کرتا رہا‘ جس پر بیشتر اداروں اور ان کے کارکنوں کو مشکلات اور پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ مگر جمہوریت کو بحال ہوئے‘ ابھی چند روز بھی نہیں گزرے تھے کہ یہ سب کے سب اسے غیرمستحکم کرنے میں لگ گئے۔
    نوازشریف اور آصف زرداری دونوں نے سیاسی جرات مندی اور تدبر کا ثبوت دیتے ہوئے‘ ایک دوسرے سے عہدوپیمان کئے کہ وہ جمہوری نظام کو متزلزل نہیں ہونے دیں گے۔ کچھ دنوں تک دونوں طرف سے اس وعدے پر عمل بھی ہوا۔ لیکن جلد ہی ان کے پرانے طورطریقے بحال ہونے لگے۔ منہ سے دونوں یہی کہتے ہیں کہ ہم اپنے وعدوں پر قائم ہیں‘ مگر اندر اندر وہی کام کر رہے ہیں جو 90ء کے عشرے میں کرتے رہے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کسی ایک مطالبے پر سخت موقف اختیار کر کے ساتھ یہ وعدہ بھی کرتی رہی کہ نیا مطالبہ پورا ہونے پر‘ وہ کوئی دوسرا مطالبہ نہیں کرے گی۔ مگر جیسے ہی ایک مطالبہ پورا ہوتا ہے‘ چند روز گزار کے‘ وہ ایک نئے مطالبے کے ساتھ زیادہ پرزور طریقے سے سامنے آ جاتی ہے۔ پنجاب اور وفاق میں دونوں بڑی جماعتوں نے مخلوط حکومتیں بنائیں۔ لیکن (ن)لیگ وفاقی حکومت سے جلد ہی علیحدہ ہو گئی اور پنجاب میں مسلم لیگ (ق) کے لوٹے توڑ کر ‘ پیپلز پارٹی کی محتاجی سے آزاد ہو گئی اور اسے مخلوط حکومت سے نکل جانے کے لئے دھکے دینا شروع کر دیئے۔ دوسری طرف پیپلزپارٹی نے انتہائی قدم اٹھاتے ہوئے پنجاب حکومت ہی توڑ دی اور یہ سیاسی تنازعہ سڑکوں پر آ گیا اور یوں لگا جیسے محاذ آرائی جمہوریت کو کسی بڑے صدمے سے دوچار کرنے والی ہے۔ لیکن عدالتی فیصلے نے اس جنگ کا راستہ روک دیا۔ شہبازحکومت بحال ہو گئی اور دونوں فریق ان تلخیوں سے نکلنے کی کوشش میں لگ گئے‘ جنہیں پیدا کرنے کے ذمہ دار بھی یہ خود تھے۔ غیرمنتخب سیاسی قیادتیں ‘ جن کے لئے اقتدار کے ڈھانچے میں جگہ نہیں ہے۔ وہ ان کی باہمی کشیدگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے نظام کو غیرمستحکم کرنے میں لگ گئیں اور میڈیا کے بعض عناصر جو نامعلوم وجوہ کی بنا پرصدر زرداری کو ذاتی طور پر ہدف بناتے رہتے ہیں‘وہ بھی پرامید ہو کر مزید زوروشور سے اپنے ہدف پر نشانے لگانے لگے۔فوج کے بارے میں افواہیں پھیلنے لگیں کہ وہ اقتدار میں واپسی کی راہیں نکال رہی ہے اور پاکستانی روایت کے عین مطابق مایوس سیاستدان اسے درپردہ حمایت کا یقین دلانے لگے۔ جیسے کہ میں لکھتا رہتا ہوں کہ فوج کبھی خودنہیں آتی۔ اقتدار پر قبضہ کرنے والے جنرل دعویٰ ہمیشہ یہ کرتے ہیں کہ انہیں اچانک اور بادل ناخواستہ اقتدار پر قبضہ کرنا پڑا۔ مگر بعد میں یہ حقیقت سامنے آئی کہ حکومت مخالف سیاستدان‘ درپردہ ان جنرلوں کو اپنی حمایت کا یقین دلا چکے تھے اور یہ کہہ چکے تھے کہ جیسے ہی وہ حکومت ختم کر کے اقتدار میں آئیں گے‘ ان کا خیرمقدم کیا جائے گا۔ ایوب خان سے لے کر جنرل مشرف تک ہربار یہی منظر دیکھنے میں آئے۔ قوم کو وہ تمام سیاستدان یاد ہیں‘ جنہوں نے فوجی حکومت کی آمد پر ان کے خیرمقدم کئے۔ حلوے پکائے۔ مٹھائیاں بانٹیں اور خیرمقدمی بیانات سے اخبارات کے صفحات بھر دیئے۔جب سے فوجی مداخلت کی افواہیں شروع ہوئی ہیں ۔ میں اسی وقت یہ باور کرنے لگا تھا کہ پرانے پاپی اندر ہی اندر اپنا کام شروع کر چکے ہیں بلکہ مجھے یہ شک بھی پیدا ہو گیا تھا کہ وہ صرف رسمی وعدے ہی نہیں کر رہے بلکہ قومی سلامتی اور استحکام کا نام لے کر فوج کومسلسل ترغیب دے رہے ہیں کہ اگر آپ نہ آئے‘ تو صدر زرداری ملک کو برباد کر دیں گے۔ کرپشن اور لوٹ مار کے بے تحاشہ الزامات کی بوچھاڑ شروع ہے۔ کسی کو یہ اندازہ لگانے کی فرصت نہیں کہ آمریت کے پہنچائے ہوئے نقصانات کے سامنے ‘ کرپشن کی حیثیت پرکاہ کے برابر بھی نہیں۔ ایوب خان نے 65ء کی جنگ میں جو نقصان پہنچایا‘ وہ تمام سیاسی حکومتوں کی تمام کرپشن میں لوٹی ہوئی دولت سے کئی گنا زیادہ ہے۔ یحییٰ خان آدھا پاکستان ہی دشمن کے سپرد کر گیا۔ یہ نقصان اتنا زیادہ ہے کہ اس کا تخمینہ لگاتے ہوئے بھی چکر آنے لگتے ہیں۔ ضیا الحق نے ملک کو اسلحہ‘ بدامنی اور ڈرگز کے جو امراض لگائے‘ کیا کسی فرد یا گروہ کی کرپشن ان سے زیادہ ضرررساں ہے؟ اور پرویزمشرف نے دہشت گردی کا جو عفریت یہاں پر مسلط کیا اور جو ابھی تک ہمارے معاشرے کو پٹخنیاں دے رہا ہے۔ ہماری معیشت برباد ہو رہی ہے۔ سرمایہ کار بھاگ رہے ہیں۔ امن و امان اور تحفظ کا نام و نشان نہیں رہا۔بقول ڈاکٹر مبشر حسن ”ہم اور آپ اس لئے زندہ نہیں کہ ہمیں کوئی تحفظ حاصل ہے۔ ہم صرف اس لئے زندہ ہیں کہ ہماری باری نہیں آئی۔“ حیرت کی بات ہے کہ بڑے بڑے دانشور ان عظیم نقصانات کا ذکر تک نہیں کرتے۔ مگر سیاستدانوں کی اس لوٹ مار پر آہ و بکا کرنے لگتے ہیں ‘ جو بقول ان کے چند ارب روپے پر مشتمل ہے۔ میں کرپشن کا حامی نہیں۔ صرف یہ واضح کرنے کی کوشش کر رہا ہوں کہ معاشرے ‘ کرپشن کی چوٹ سہہ لیتے ہیں اور اس کا علاج بھی کرتے رہتے ہیں۔ جمہوریت خود ایک احتسابی عمل کا نام ہے۔ آج عوام کے اندر کرپشن کے خلاف جو جذبات پائے جاتے ہیں‘ وہ رنگ لا رہے ہیں۔ کرپشن کی شدید حوصلہ شکنی ہو رہی ہے۔ عدلیہ‘ میڈیا اور احتسابی ادارے اپنا کردار ادا کر رہے ہیں اور یہ کردار وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا جا رہا ہے اور اگر جمہوری عمل میں خلل پیدا نہ ہوا‘ تو میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ آنے والے چند سالوں کے دوران پاکستان میں کرپشن کی سطح اس درجے پر آ جائے گی ‘ جس پر اردگرد کے ملکوں میں ہے۔ کرپشن کا مکمل خاتمہ کسی سرمایہ دارانہ نظام میں ممکن نہیں ہوتا۔ اسے صرف مارجنلائز کیا جا سکتا ہے۔ مگر کرپشن کے نام پر جمہوریت کی بساط لپیٹنا مہنگا سودا ہے اور اب تو اتنا مہنگا ہے کہ ملکی بقا اور سلامتی داؤ پر لگ جائے گی۔ یہ بات نوازشریف سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت کے ساتھ ان کی تلخی میں جیسے ہی پوائنٹ آف نو ریٹرن کا مرحلہ آنے لگتا ہے‘ وہ فوراً پہل کر کے عوام اور سازشی عناصر کو انتباہ کر دیتے ہیں کہ وہ” کسی غیرجمہوری اقدام کی مخالفت ہی نہیں مزاحمت بھی کریں گے۔“ جس پر انہیں فرینڈلی اپوزیشن کے طعنے سننا پڑتے ہیں اور اس بار تو لگتا ہے کہ انہیں بھی نئے نئے الزامات کا نشانہ بنانے کی تیاریاں ہیں۔مگر دونوں بڑی جماعتوں کی قیادتوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ عوام کی بھاری اکثریت ان کے ساتھ ہے اور اگر وہ متحد رہے تو نہ کوئی سازشی ان کا کچھ بگاڑ سکتا ہے اور نہ ہی کوئی طاقت جمہوریت پر شب خون مار سکتی ہے۔ ان دونوں کی سیاست‘ اقتدار اور اہمیت جمہوری نظام کے ساتھ ہے اور امید کرنا چاہیے کہ یہ دونوں اپنے پیروں پر کلہاڑی نہیں ماریں گے۔ جمہوریت کے تحت نوازشریف کیلئے انتظارکی حد تین ساڑھے تین سال سے زیادہ نہیں اور خدانخواستہ جمہوریت کی بساط لپٹ گئی تو انتظار کی کوئی حد نہیں۔
     
  6. خوشی
    آف لائن

    خوشی ممبر

    شمولیت:
    ‏21 ستمبر 2008
    پیغامات:
    60,337
    موصول پسندیدگیاں:
    37
    جواب: حییرت ھے ڈھول پیٹنے والوں میں نام کی مماثلت

    حیرت ھے بھوت جی کہ یہ شئیرنگ پہلے میری نظر سے نہیں گزری،

    بہت‌خوب مگر اب بھوت کیا کوہ قاف واپس چلے گئے ھیں
     
  7. بھوت
    آف لائن

    بھوت ممبر

    شمولیت:
    ‏31 اگست 2008
    پیغامات:
    265
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    جواب: حییرت ھے ڈھول پیٹنے والوں میں نام کی مماثلت

    نہیں خوشی جی بھوت تو ہر وقت ہر جگہ ہر مقام پر ھوتے ہیں ۔اصل میں کچھ مہنوں سے مصروف ھو گیا ھوں ۔اور ایک بات اور وہ یہ کہ میں نے سوچا کچھ دن درباری بھی سُکھ کی نیند سو جائے اس وجہ سے کہ درباری کا رکھوالہ جو جاپان میں بیٹھ کر ہم کو سکھانے کی کوشش میں تھا وہ بھی خوش ھو جائے۔:201:
    چلو اچھا ھوا بھوت سے جان چھوٹی:201:
     
  8. بھوت
    آف لائن

    بھوت ممبر

    شمولیت:
    ‏31 اگست 2008
    پیغامات:
    265
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    جواب: حییرت ھے ڈھول پیٹنے والوں میں نام کی مماثلت

    میں آ گیا ہوں :201:
     

اس صفحے کو مشتہر کریں