1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

مرد اور عورت کا اعتکاف

'تعلیماتِ قرآن و حدیث' میں موضوعات آغاز کردہ از فتاة القرآن, ‏16 ستمبر 2009۔

  1. فتاة القرآن
    آف لائن

    فتاة القرآن ممبر

    شمولیت:
    ‏16 ستمبر 2009
    پیغامات:
    35
    موصول پسندیدگیاں:
    2

    [​IMG]

    مسجد کے علاوہ کہیں بھی عورت اورمرد کااعتکاف صحیح نہیں

    کیا عورت گھر میں اعتکاف کرسکتی ہے ؟


    الحمد للہ :

    علماء کرام اس پرمتفق ہیں کہ مرد کا مسجد کے علاوہ کہیں اوراعتکاف صحیح نہیں ، اس لیے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :

    { اورتم عورتوں سے اس وقت مباشرت نہ کرو جب تم مسجدوں میں اعتکاف کی حالت میں ہو }البقرۃ ( 187 ) ۔

    مندرجہ بالاآیت میں اعتکاف کو مسجد کےساتھ خاص کیا گیا ہے لھذا یہ ثابت ہوا
    کہ مسجد کے علاوہ کہیں بھی اعتکاف کرنا صحیح نہيں ہوگا ۔


    عورت کے بارہ میں جمہور علماء کرام کا کہنا ہے مرد کی طرح عورت کا اعتکاف بھی مسجد کے علاوہ کسی جگہ صحیح نہیں ، جس کی دلیل بھی مندرجہ بالا آیت ہے :

    { اورعورتوں سے اس وقت مباشرت نہ کرو جب تم مسجد میں اعتکاف کی حالت میں ہو } البقرۃ ( 187 ) ۔

    اوراس لیے بھی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات رضی اللہ تعالی عنہن نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مسجد میں اعتکاف کرنے کی اجازت طلب کی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہيں اجازت دے دی ، اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد بھی وہ مسجد میں ہی اعتکاف کیا کرتی تھیں ۔
    اوراگر عورت کا اپنے گھر
    میں اعتکاف کرنا جائز ہوتا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کی راہنمائي فرماتے کیونکہ مسجدمیں جانے سے اس کے اپنے گھرمیں پردہ زيادہ ہے ، اس کے باوجود آپ نے مسجد میں ہی اعتکاف کی اجازت دی ۔


    بعض علماء کرام کا کہنا ہے کہ :
    عورت گھر میں اپنی نماز والی جگہ پر اعتکاف کرسکتی ہے ، لیکن جمہور علماء کرام نے ایسا کرنے سے منع کرتےہوئے کہا ہے :
    اس کے گھرمیں نماز والی جگہ کو مسجد نہيں کہا جاسکتا صرف مجازی طورپر اسے مسجد کا نام دیا جاسکتا اورحقیقتا وہ مسجد کانام حاصل نہیں کرسکتی اس لیے اس کے احکام بھی مسجد والے نہیں ہونگے ، اسی لیے وہاں یعنی گھرمیں نماز والی جگہ پر جنبی اورحائضہ عورت داخل ہوسکتی ہے ۔

    عورت اورمرد کا مسجد کے بغیر اعتکاف صحیح نہیں ، نہ توعورت کا گھرکی مسجد میں اورنہ ہی مرد کا اپنی گھرمیں نماز والی جگہ پر اعتکاف کرنا صحیح ہے ،
    یعنی اس جگہ جو گھر کے ایک کونے میں نماز کے لیے تیار کی گئي ہو اسے گھرکی مسجد کہا جاتا ہے ۔

    کسی عالم سے مندرجہ ذيل سوال پوچھا گيا :
    اگرعورت اعتکاف کرنا چاہے تو وہ کس جگہ اعتکاف کرے گی ؟

    تو ان کا جواب تھا :

    جب کوئي عورت اعتکاف کرنا چاہے تو اگر اس میں کوئي شرعی محذور نہ پایاجائے
    تو وہ مسجد میں اعتکاف کرے گی ، اوراگر اس میں کوئي شرعی محذور ہوتو پھر عورت اعتکاف نہیں کرے گی ۔

    اورالموسوعیۃ الفقھیۃ میں ہے کہ :

    عورت کے اعتکاف کی جگہ میں اختلاف ہے ، جمہور علماء کرام اسے مرد کی طرح قرار دیتے اور کہتے ہیں کہ مسجد کے علاوہ کہیں بھی عورت کا اعتکاف صحیح نہیں ، تواس بنا پر عورت کا اپنے گھرمیں اعتکاف کرنا صحیح نہیں ، اس کی دلیل مندرجہ ذيل حدیث میں ہے :

    ابن عباس رضي اللہ تعالی عنہما سے جب عورت کا اپنے گھرکی مسجد میں اعتکاف کے بارہ میں سوال کیا گيا تووہ کہنے لگے :

    گھرمیں عورت کا اعتکاف کرنا بدعت ہے ، اوراللہ تعالی کے ہاں مبغوض ترین اعمال بدعات ہیں ، اس لیے نماز باجماعت والی مسجد کےعلاوہ کہیں بھی اعتکاف صحیح نہیں ، اس لیے کہ گھرمیں نمازوالی جگہ نہ تو حقیقتا مسجد ہے اورنہ ہی حکما اس کا بدلنا اور اس میں جنبی شخص کا سونا بھی جائز ہے ، اوراگر یہ جائز ہوتا تو سب سے پہلے امہات المؤمنین رضی اللہ عنہن اس پر عمل پیرا ہوتیں ، اس کے جواز کے لیے اگرچہ وہ ایک بارہی عمل کرتیں

    واللہ اعلم .
     
  2. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم محترم !
    آپکا شکریہ کہ آپ نے اتنی مفید معلومات ارسال فرمائیں۔ جزاک اللہ

    براہ مہربانی ممکن ہوتو اتنی اہم فقہی دینی تحریر کا کسی مستند عالم دین، مستند کتاب یا مستند حوالہ دے دیجئیے۔ شکریہ
     
  3. وقاص قائم
    آف لائن

    وقاص قائم ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2009
    پیغامات:
    116
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم
    بھائی یہ تو بہت ہی عجیب بحث چھیڑ دی آپ نے۔ دراصل اس قسم کے فارم میں جہاں لوگ مختلف قسم کے مکاتب فکر سے تعلق رکھتے ہیں وہاں ایسی بحث نامناسب معلوم ہوتی ہے باقی آپ سمجھ دار ہیں۔ اس تحریر کے ضمن میں چند گزارشات درج ہیں۔
    پہلی بات تو یہ کہ آپ جو آیت تحریر کی اس میں مسجد میں اعتکاف کرنے کا ثبوت ملتا ہے۔ گھر میں اعتکاف کرنے کی ممانعت نہیں ملتی۔
    دوئم جمہور علما کی رائے۔۔۔۔۔ یہ جمہور علما کون ہیں ذرا چند کے نام ارشاد فرما دیجئے۔
    کسی عالم سے پوچھا ۔۔۔۔۔۔ یہ کسی عالم کیا ہوتا ہے موصوف کا نام بتائیں۔ نام بتانے میں کیا قباحت ہے۔
    ابن عباس کا جو حوالہ آپ نے دیا اس کا بھی کوئی حوالہ درج نہیں۔
    برائے مہربانی اس تحریر پر نظر ثانی فرمائیں۔ شکریہ
     
  4. فتاة القرآن
    آف لائن

    فتاة القرآن ممبر

    شمولیت:
    ‏16 ستمبر 2009
    پیغامات:
    35
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    شیخ ابن عثيمین رحمہ اللہ سے پوچھا گیا۔۔۔
    دیکھیں المغنی لابن قدامہ المقدسی ( 4 / 464 ) ۔
    امام نووی رحمہ اللہ تعالی اپنی کتاب " المجموع " میں کہتے ہيں :
    عورت اورمرد کا مسجد کے بغیر اعتکاف صحیح نہیں ، نہ توعورت کا گھرکی مسجد میں اورنہ ہی مرد کا اپنی گھرمیں نمازوالی جگہ پر اعتکاف کرنا صحیح ہے ، یعنی اس جگہ جو گھر کے ایک کونے میں نماز کے لیے تیار کی گئي ہو اسے گھرکی مسجد کہا جاتا ہے ۔
    دیکھیں المجموع ( 6 / 505 )
    دیکھیں الموسوعۃ الفقھیۃ ( 5 / 212 ) ۔
     
  5. برادر
    آف لائن

    برادر ممبر

    شمولیت:
    ‏21 اپریل 2007
    پیغامات:
    1,227
    موصول پسندیدگیاں:
    78
    السلام علیکم محترمہ فتاۃ القرآن بہن۔
    آپ نے نیک نیتی سے دینی علوم کی ترویج کا بیڑہ اٹھایا ہے۔ اللہ تعالی آپکو جزاءے خیر دے۔ آمین

    لیکن میری گذارش ہے کہ ایسا فورم، ایسی مجلس، ایسی محفل جہاں مختلف الخیال اور مختلف مکاتب فکر سے متعلق لوگ آتے جاتے ہیں وہاں اختلافی مسائل سے درگذرکرنا ہی بہتر ہوتا ہے۔

    تبلیغ کرنے کے مختلف انداز ہوتے ہیں۔ سب سے بہتر انداز تبلیغ یہ ہے کہ آپ اپنی سمجھ بوجھ یا اپنے اساتذہ و علمائے کرام کے سکھائے ہوئے طریقہ کار کو مثبت انداز میں بیان کردیں۔ دوسرے نقطہء نظر غلط، گمراہ ، ناجائز، حرام ، کفر و شرک اور بدعت وغیرہ کے القابات سے نہ نوازیں۔

    لیکن اپنی بات منوانے کے لیے سیدھا دوسروں کے عقائد پر ہی بدعت، ناجائز و حرام کے فتوی صادر فرما دینا ۔۔ مناسب انداز تبلیغ نہیں ہے۔

    امید ہے آپ گذارش پر غور فرماتے ہوئے آئندہ اختلافی مسائل سے اجتناب فرمائیں گی ۔

    اللہ تعالی ہم سب کو تفقہہ فی الدین عطا فرمائے۔ آمین

    والسلام علیکم ورحمۃ اللہ
     
  6. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم۔

    بدعت کا فتوی اکثر دین اسلام کی محدود اور قدامت پسندانہ انداز میں تشریح کرنے والے ایک خاص طبقہء فکر کی طرف سے دیگر مسلمانوں پر عموماً صادر ہوتا ہے۔ اور اتنی شد و مد سے صادر ہوتا ہے کہ بےچارہ عام مسلمان گھبرا کر بہت سارے نیک اعمال کرنا ہی چھوڑ‌دیتا ہے۔ آئیے بدعت کی حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

    حقیقتِ بدعت ۔
    بدعتِ حسنہ اور بدعتِ سئیہ

    ہماری بد قسمت یہ ہے کہ کئی مدعیانِ علم رائے تصور اور عقیدۂ و نظریہ پہلے قائم کر لیتے ہیں اور قرآن و حدیث کا مطالعہ اس کے تابع ہو کر کرتے ہیں اس لئے نفسِ مسئلہ کی صحیح معرفت نصیب نہیں ہوتی۔ اگر اہل علم دامنِ ذہن کو خالی رکھ کر یعنی اسے پہلے سے Engage کئے بغیر پہلی خیرات ہی قرآن و حدیث اور آثارِ صحابہ سے لیں تو تصورات یکسر بدل جائیں گے۔

    اہل علم حضرات بخوبی جانتے ہیں کہ بدعت کے در اصل دو اِطلاقات ہیں : ایک شرعی اور دوسرا لغوی۔ شرعی اِطلاق میں بدعت ’’محدثات الامور‘‘ کو شامل ہے اور یہی ’’بدعتِ سیّئہ‘‘ ہے۔ سو اس معنی میں ’’کل بدعۃ ضلالۃٌ‘‘ درست ہے، کیونکہ اس کا معنی و مراد ہی ’’کل بدعۃٍ سیّئۃٍ ضلالۃٌ‘‘ ہے۔ لیکن لغوی اِطلاق میں بدعت کی تقسیم ہوگی۔ اگر وہ مخالفِ دلیلِ شرعی یا منافی و ناسخِ سنّت ہو تو خود بخود ’’بدعت شرعی‘‘ ہو جائے گی اور وہی ’’بدعتِ سیّئہ‘‘ ’’بدعتِ مذمومہ‘‘ یا ’’بدعتِ ضلالۃ‘‘ ہوگی اگر مخالفِ شریعت نہ ہو اور نہ ہی ناسخِ سنّت ہو تو وہ مباح اور جائز ہوگی۔ پھر اس کی اہمیت و ضرورت اور افادیت و مصلحت کے اعتبار سے اس کی مزید درجہ بندی ہوگی، سو یا وہ فقط بدعتِ مباحہ ہوگی، یا بدعتِ مندوبہ (مستحبّہ) ہوگی یا بدعتِ واجبہ یعنی صورۃً وھیئۃً تو وہ کوئی نیا کام ہوگا مگر اصلًا و دلالۃً وہ امرِ خیر اور امر صالح ہوگا جسے شریعتِ اسلامیہ کے عمومی دلائل و احکام کی اصولی تائید میسّر ہوگی۔ اسی لئے تمام ائمہ و محدثین اور فقہاء و محققین نے ہر زمانے میںبدعت کی یہ تقسیم بیان کی ہے۔

    اگر ہر نیا کام جو عہدِ رسالت مآب اور عہدِ صحابہ میں متداول اور معمول بہ نہ تھا محض اپنے نئے ہونے کی وجہ سے ناجائز قرار پائے تو تعلیماتِ دین اور فقہ اسلامی کا بیشتر حصہ ناجائز کے زمرے میں آجائے گا اور اجتہاد کی ساری صورتیں، قیاس، استحسان، مصالح مرسلہ، استحصاب، استدلال اور استنباط کی جملہ شکلیں ناجائز کہلائیں گی۔ اسی طرح دینی علوم و فنون مثلاً اُصولِ تفسیر، اصول حدیث، فقہ و اُصولِ فقہ، ان کی تدوین، اور ان کو سمجھنے کے لئے صرف و نحو، بلاغت و معانی، منطق و فلسفہ اور دیگر معاشرتی و معاشی جملہ علوم خادمہ جو فہمِِ دین کے لئے ضروری اور عصری تقاضوں کے مطابق لابدی ہیں ان کا سیکھنا، سکھانا بھی حرام قرار پائے گا کیونکہ یہ سب علوم و فنون اپنی موجودہ شکل میں نہ عہدِ رسالت میں موجود تھے نہ ہی عہدِصحابہ کرام میں، انہیں تو بعد میں ضرورت کے پیش نظر وضع اور مرتب کیا گیا۔ یہ تمام علوم و فنون اپنی ہیئت، اصول، اصطلاحات، تعریفات اور قواعد و ضوابط کے اعتبار سے نئے ہیں اس لئے بلا شک و شبہ بدعتِ لغوی کے زمرے میں آتے ہیں۔

    اگر ہر نیا کام بدعتِ شرعی اور ضلالت و گمراہی قرار پائے تودینی مدارس کی مروجہ تعلیم و تدریس اور نصابات کا بیشتر حصّہ بھی گمراہی قرار پائے گا کیونکہ موجودہ درس نظامی کے نصابات کے مطابق درس و تدریس نہ تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ اقدس میں تھی اور نہ ہی اس طرح کسی صحابی نے تعلیم حاصل کی تھی ان کا طریقہ نہایت سادہ تھا فقط قرآن و حدیث کا سماع و روایت، بلکہ قرآن حکیم کی موجودہ شکل میں طباعت و زیبائش سے لیکر حرم کعبہ اور مساجد کی پختہ تعمیر اور تزئین و آرائش تک بہت سے معاملات کا جواز بھی مجروح اور ساقط ہو جائے گا۔


    اسی طرح یہ امر بھی نہایت اہم ہے کہ اگر کسی مسئلہ کا کوئی حل قرآن مجید اور سنّت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دونوں سے نہ ملے تو ’’اجتہاد‘‘ کرنا، یہ حکم نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے اور یہ حکم از خود نئے کام کو جو قرآن و سنّت میں نہ تھا محض خیر اور دینی ضرورت و مصلحت کی بنا پر نہ صرف جواز فراہم کر رہا ہے بلکہ خود اس عملِ اجتہاد کو بھی سنّت بنا رہا ہے۔ اس حقیقت پر حدیثِ معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ شاہد عادل ہے۔ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو یمن کا قاضی بنا کر بھیجتے وقت حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُن سے پوچھا :

    کيف تقضي إذا عرض لک قضاء قال : أقضي بکتاب اﷲ قال : فإن لم تجده في کتاب اﷲ قال : أقضي بسنة رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم قال : فإن لم تجده في سنة رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم قال : أجتهد برأي لا آلو قال : فضرب بيده في صدري و قال : الحمد ﷲ الذي وفّق رسول رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم لما يرضي رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم.

    ’’(اے معاذ) جب آپ کے سامنے کوئی معاملہ پیش کیا جائے گا تو آپ کس طرح اس کا فیصلہ کریں گے؟ تو انہوں نے عرض کیا : میں کتاب اﷲ کے مطابق فیصلہ کروں گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تو اس معاملے کو کتاب اﷲ میں نہ پائے تو اس پر حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ پھر میں سنت رسول کے مطابق فیصلہ کروں گا۔ پھر حضور علیہ الصلاۃ و السلام نے فرمایا : اگر تو اس معاملے کا حل سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں بھی نہ پائے تو انہوں نے عرض کیا کہ پھر میں اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا اور کوئی کوتاہی نہیں کروں گا۔ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا دستِ شفقت میرے سینے پر مارا اور فرمایا تمام تعریفیں اس خدا کی ہیں جس نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نمائندہ کو ایسی توفیق بخشی جو اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رضا کا سبب ہے۔‘‘

    1. ترمذي، الجامع الصحيح، ابواب الأحکام، باب ما جاء في القاضي، 3 : 616، رقم : 1327
    2. بيهقي، السنن الکبريٰ، 10 : 114، رقم : 20339


    مذکورہ حدیثِ مبارکہ میں حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کے الفاظ ’’أَجْتَهِدُ بِرَأْي‘‘ اور اس پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ’’الحمد ﷲ الَّذي وفّق رسول رسول اﷲ لما يرضٰی رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم‘‘ سے ثابت ہوتا ہے کہ جو امر قرآن و سنت میں نہ ہو بلکہ اِجتہاد اور رائے محمود کی بنیاد پر طے کیا جائے تو یہ نہ صرف مستحسن ہے بلکہ بارگہِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا منظور شدہ طریق ہے۔ یہی اصول ’’بدعت حسنہ‘‘ میں کار فرما ہے جو اس حدیثِ مبارکہ سے ثابت ہے۔

    بدعت کے اس تصور اور تقسیم کی بنیاد بھی خود حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قائم فرمائی ہے۔ جو اس حدیث صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے صاف ظاہر ہے۔

    من سن فی الاسلام سنة حسنة فله أجرها و أجر من عمل بها بعده من غير أن ينقص من أجورهم شئ ومن سن في الاسلام سنة سيئة کان عليه وزرها و وزر من عمل بها من بعده من غير أن ينقص من أوزارهم شيئ.

    ’’جس شخص نے اسلام میں کسی نیک کام کی ابتداء کی اس کو اپنے عمل کا بھی اجر ملے گا اور بعد میں عمل کرنے والوں کے عمل کا بھی اجر ملے گا اور ان عاملین کے اجر میں کوئی کمی نہیں ہوگی اور جس نے اسلام میں کسی برے عمل کی ابتدا کی اسے اپنے عمل کا بھی گناہ ہوگا اور بعد میں عمل کرنے والوں کے عمل کا بھی گناہ ہوگا اور ان عاملین کے گناہ میں کوئی کمی نہیں ہوگی۔‘‘

    1. مسلم، الصحيح، 2 : 705، کتاب الزکوٰة، باب الحث علي الصدقه، رقم : 1017

    اگر کچھ تعمّق اور تفکّر سے کام لیا جائے تو یہ واضح ہو جائیگا کہ یہاں لفظ ’’سنّت‘‘ سے مراد سنّتِ شرعی نہیں ہے بلکہ یہ سنّتِ لغوی ہے۔

    غور طلب امر یہ ہے کہ جب لفظِ سنّت بھی، لغوی اور شرعی تقسیم کے ساتھ خود حسنہ اور سیّئہ کی دو قسموں پر حدیث سے ثابت ہوگیا تو لفظِ بدعت کو اسی اصول پر حسنہ اور سیّئہ کی دو اقسام پر تسلیم کرنے میں کون سا امر مانع رہ گیا۔ سوائے ضد، ہٹ دھرمی یا جہالت اور لا علمی کے۔ پھر اس اصول کی تصریح سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے اپنے مبارک ارشاد سے فرما دی ہے جسے امام بخاری نے ’’الجامع الصحیح‘‘ میں روایت کیا ہے۔

    خرجت مع عمر بن الخطاب رضي الله عنه ليلة في رمضان إلي المسجد فإذا الناس أوزاع متفرقون يصلي الرجل لنفسه و يصلي الرجل فيصلي بصلاته الرهط، فقال عمر : إني أري لو جمعت هؤلاء علي قارئ واحد لکان أمثل ثم عزم فجمعهم علي أبي بن کعب ثم خرجت معه ليلة أُخري والناس يصلون بصلوة قارئهم، قال عمر : نعم البدعة هذه والتي ينامون عنها أفضل من التي يقومون يريد آخر الليل و کان الناس يقومون أوّله.

    ’’میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ رمضان کی ایک رات مسجد کی طرف نکلا تو لوگ متفرق تھے ایک آدمی تنہا نماز پڑھ رہا تھا اور ایک آدمی گروہ کے ساتھ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میرے خیال میں انہیں ایک قاری کے پیچھے جمع کردیا جائے تو اچھا ہوگا، پس آپ نے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کے پیچھے سب کو جمع کردیا۔ پھر میں دوسری رات کو ان کے ساتھ نکلا تو دیکھا کہ لوگ اپنے قاری کے پیچھے نماز پڑھ رہے تھے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : یہ کتنی اچھی بدعت ہے اور رات کا وہ حصہ جس میں لوگ سو جاتے اس سے بہتر وہ حصہ ہے جس میں وہ قیام کرتے ہیں مراد رات کا آخری حصہ تھا جبکہ لوگ پہلے حصے میں قیام کرتے تھے۔‘‘

    1. بخاري، الصحيح، 2 : 707، کتاب صلاة التراويح، باب فضل من قام رمضان، رقم : 1906

    آپ نے غور فرمایا کہ سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے نماز تراویح کے بعد باجماعت اہتمام کو ’’بدعت‘‘ بھی کہا اور ’’نعمۃ‘‘ یعنی ’’حسنۃ‘‘ بھی کہا۔ وجہ یہی تھی کہ یہ کام اپنی ظاہری حالت اور ہیئت کے حوالے سے نیا تھا۔ جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اختیار نہیں فرمایا تھا اس لئے اسے ’’بدعۃً‘‘ کہا۔ مگر باعثِ خیر اور مبنی بر مصلحت تھا اس لئے اسے ’’نعمۃ یعنی حسنۃ ‘‘ قرار دیدیا۔

    سو بدعت کی اس تقسیم کی بنیاد بعد کے ائمہ و محدثین اور علماء و فقہاء اسلام نے ہرگز نہیں رکھی۔ بلکہ انہوں نے ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور سنّتِ خلفائے راشدین کی ہی تشریح و توضیح کی ہے۔ اور اسے خاص علمی نظم کے ساتھ بیان کر دیا ہے۔

    زیر نظر علمائے کرام، آئمہ و محدثین و مفسرین کی فہرست پر غور فرمائیے۔ یہ وہ شخصیات ہیں جن کی علمی ثقاہت، تبحر اور تعمق پر کسی کو شک نہیں۔ اور یہ سارے اوپر بیان کردہ تصور بدعت ہی کے قائل ہیں۔

    امام محمد بن اِدریس بن عباس الشافعی رحمۃ اللہ علیہ (المتوفی 204ھ)
    اِمام ابو عبداﷲ محمد بن احمد القرطبی رحمۃ اللہ علیہ (المتوفی 380ھ)
    اِمام علی بن اَحمد ابن حزم الاندلسی رحمۃ اللہ علیہ (456 ھ)
    اِمام ابوبکر احمد بن حسین البیہقی رحمۃ اللہ علیہ (458 ھ)
    اِمام ابو حامد محمد بن محمد الغزالی رحمۃ اللہ علیہ (المتوفی 505ھ)

    اِمام مبارک بن محمد ابن اثیر الجزری رحمۃ اللہ علیہ (المتوفی 606ھ)
    اِمام عز الدین عبدالعزیز بن عبد السلام رحمۃ اللہ علیہ (660ھ)
    امام ابو زکریا محی الدین بن شرف النووی رحمۃ اللہ علیہ (المتوفی 676ھ) امام شہاب الدین احمد القرافی المالکی (684ھ)
    علامہ جمال الدین محمد بن مکرم بن منظور الافریقی رحمۃ اللہ علیہ (711ھ)
    علامہ تقی الدین احمد بن عبدالحلیم ابنِ تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ (728ھ)
    امام حافظ عمادالدین ابوالفدا اسماعیل ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ (774ھ)
    امام ابو اسحاق ابراہیم بن موسیٰ الشاطبی رحمۃ اللہ علیہ (790ھ)
    امام بدر الدین محمد بن عبداﷲ الزرکشی رحمۃ اللہ علیہ (794ھ)
    امام عبدالرحمن بن شہاب الدین ابن رجب الحنبلی رحمۃ اللہ علیہ (795ھ) علامہ شمس الدین محمد بن یوسف الکرمانی رحمۃ اللہ علیہ (796 ھ)
    علامہ ابو عبداﷲ محمد بن خلفہ الوشتانی المالکی رحمۃ اللہ علیہ (828ھ)
    امام ابوالفضل احمد بن علی بن محمد ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ (852ھ) امام ابو محمد بدرالدین محمود العینی رحمۃ اللہ علیہ (855 ھ)
    امام محمد بن عبدالرحمن شمس الدین محمود السخاوی رحمۃ اللہ علیہ (902ھ)
    امام جلال الدین عبدالرحمن بن ابو بکر السیوطی رحمۃ اللہ علیہ (911ھ)
    امام ابو العباس احمد بن محمد شہاب الدین القسطلانی رحمۃ اللہ علیہ (923ھ)

    امام ابو عبداللہ محمد بن یوسف صالحی الشامی رحمۃ اللہ علیہ (942ھ)
    امام عبدالوھاب بن احمد علی الشعرانی رحمۃ اللہ علیہ (973ھ)
    امام احمد شہاب الدین ابن الحجر المکی الہیتمی رحمۃ اللہ علیہ (974ھ)
    الشیخ محمد شمس الدین الشربینی الخطیب رحمۃ اللہ علیہ (977ھ)
    امام ملا علی بن سلطان محمد القاری رحمۃ اللہ علیہ (1014ھ)
    الشیخ عبدالحمید الشروانی رحمۃ اللہ علیہ ( ھ)
    امام عبدالرؤوف زین الدین المناوی الشافعی رحمۃ اللہ علیہ (1031ھ)
    شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ (1052 ھ)
    علامہ علاؤ الدین محمدبن علی بن محمد الحصکفی رحمۃ اللہ علیہ (1088ھ)
    امام ابو عبداﷲ محمدعبدالباقی الزرقانی المالکی رحمۃ اللہ علیہ (1122ھ)
    علامہ مرتضیٰ حسینی الزبیدی الحنفی رحمۃ اللہ علیہ (1205ھ)
    علامہ سید محمد امین ابن عابدین الشامی رحمۃ اللہ علیہ (1252ھ)
    شیخ محمد بن علی بن محمد الشوکانی رحمۃ اللہ علیہ (1255ھ)
    علامہ شہاب الدین سید محمود آلوسی رحمۃ اللہ علیہ (1270ھ)

    مولانا احمد علی سہارنپوری (1297ھ)
    نواب صدیق حسن خان بھوپالی (1307ھ)
    مولانا وحیدالزمان (1327ھ)
    مولانا عبدالرحمن مبارکپوری (1353ھ)
    مولانا شبیر احمد عثمانی (1369ھ)
    مولانا محمد زکریا کاندھلوی (1402ھ)
    الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز ( 1421ھ)
    الشیخ محمد بن علوی المالکی المکی رحمۃ اللہ علیہ (1425ھ)

    واللہ ورسولہ :saw: اعلم

    والسلام علیکم


    مزید تفصیلات کے لیے ڈاکٹر طاہر القادری کی کتاب " البدعۃ عند الآئمہ و المحدثین" کا مطالعہ فرمائیے ۔
     
  7. بنت الاسلام
    آف لائن

    بنت الاسلام ممبر

    شمولیت:
    ‏15 ستمبر 2009
    پیغامات:
    15
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    بسم اللہ الرحمن الرحیم

    بدعت حسنہ وسیئہ کی تقسیم



    از قلم : شیخ عبد الہادی عبد الخالق مدنی



    { پیشکش : مکتب توعیۃ الجالیات الغاط، www.islamdawah.com/urdu }





    بعض لوگوں کا خیال ہے کہ بدعت کی دو قسمیں ہیں :

    ١۔ بدعت حسنہ

    ٢۔ بدعت سیئہ

    ذیل میں ہم ان کے شبہات کا ذکر کریں گے، اور ساتھ ہی ان کا علمی جائزہ لیں گے اور ان کے ازالہ کی کوشش کریں گے۔

    پہلا شبہ :

    عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں لوگوں کو تراویح کے لئے جمع کیا تھا اور پھر فرمایا تھا :

    (نِعْمَتِ الْبِدْعَةُ ھٰذِہِ)یہ کتنی اچھی بدعت ہے!

    (بخاری٥٨٣)

    ازالہ:

    عمر رضی اللہ عنہ کا یہ قول شریعت کے اندر بدعت حسنہ کی دلیل نہیں بن سکتا، کیونکہ یہاں انھوں نے اس کا لغوی مفہوم مراد لیا ہے۔ اس لئے کہ یہ عمل ہر اعتبار سے سنت تھا :

    ٭ خود قیام رمضان سنت ہے۔آپ ۖ نے اس کی ترغیب فرمائی ہے۔آپ نے فرمایا ہے:

    مَنْ قَامَ رَمَضَانَ ِیْمَاناً وَّاحْتِسَاباً غُفِرَ لَہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہِ (بخاری٥٨٣)

    {جس نے ایمان کے ساتھ اور حصول ثواب کی نیت سے رمضان کا قیام کیا(تراویح پڑھی)اس کے تمام پچھلے گناہ بخش دیئے جائیں گے }

    ٭آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کو کئی راتیں باجماعت تراویح پڑھائی، جب لوگوں کی تعداد کافی بڑھ گئی تو آپ اس اندیشہ کی وجہ سے کہ کہیں اسے فرض نہ کردیا جائے لوگوں کی طرف نکلنے سے باز رہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات تک معاملہ اسی پر باقی رہا۔ (ملاحظہ ہو بخاری٥٨٣ـ٥٩)

    جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوگئی،اور وحی کے بند ہوجانے کی وجہ سے اس کے فرض کردیئے جانے کا اندیشہ ختم ہوگیا، تو عمر فاروق ص نے اپنے عہد خلافت میں لوگوں کو ایک امام پر جمع کردیا، اور اس بات پر صحابہ کا اجماع ہوگیا۔

    ٭نیز یہ بات بھی ملحوظ رہے کہ یہ ایک خلیفۂ راشد کی سنت ہے جن کی اتباع کا ہمیں حکم دیا گیا ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

    فَعَلَیْکُمْ بِسُنَّتِْ وَسُنَّةِ الْخُلَفَائِ الرَّاشِدِیْنَ الْمَہْدِیِّیْنَ مِنْ بَعْدِْ

    (مسند احمد١٢٧٤، ابوداود١٣٥ـ١٥،ترمذی١٤٩٤ـ١٥٠)

    اور جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ ابو بکر صدیق صکے زمانے میں اسے باجماعت کیوں نہیں اداکیا گیا؟تو اس کی ایک وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ ابوبکر ص کی رائے کے مطابق آخر شب کا قیام اول شب میں امام کے ساتھ اکٹھا پڑھنے سے افضل تھا، لہذاآپ نے اول شب میں ایک امام کے ساتھ پڑھنے پر انھیں جمع نہیں کیا۔

    دوسری وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ ایک تو آپ کی مدت خلافت کافی مختصر تھی، نیز مرتدین ومانعین زکاة وغیرہ کے ساتھ معرکہ آرایئوںکی بنا پر آپ کو اس کی فرصت نہ ملی کہ ان امور پر غور کرسکتے۔ عمر ص کے زمانے میں چونکہ سارے فتنے سرد پڑچکے تھے، اسلامی حکومت مستحکم ہوچکی تھی، اس لئے آپ نے ان امور پر توجہ دی اور سنت کے احیا ء کی فضیلت آپ کو حاصل ہوئی۔

    ٭اگر مذکورہ بحث سے اطمینان حاصل نہ ہو تو یہ قاعدہ ذہن نشین کرلیں کہ قول صحابی قول رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف حجت اور دلیل نہیں بن سکتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قول ہے :

    کُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَة {ہر بدعت گمراہی ہے }

    حدیث بالکل عام ہے، اس میں کسی قسم کا استثناء نہیں ہے،لہذا اس عموم کے خلاف کسی صحابی کے قول کو دلیل نہیں بنایا جاسکتا ہے۔

    دوسرا شبہ :

    بدعت کو حسنہ اور سیئہ میں تقسیم کرنے والے دوسری دلیل کے طور پر حدیث ذیل کو پیش کرتے ہیں۔

    عَنْ جَرِیْرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ ص قَالَ قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ۖ مَنْ سَنَّ فِْ الِسْلاَمِ سُنَّةً حَسَنَةً فَلَہُ أَجْرُہَا وَأَجْرُ مَنْ عَمِلَ بِہَا بَعْدَہُ مِنْ غَیْرِ أَنْ یَّنْقُصَ مِنْ أُجُورِہِمْ شَْئ وَمَنْ سَنَّ فِْ الِسْلاَمِ سُنَّةً سَیِّئَةً کَانَ عَلَیْہِ وِزْرُہَا وَوِزْرُ مَنْ عَمِلَ بِہَا مِنْ بَعْدِہِ مِنْ غَیْرِ أَنْ یَّنْقُصَ ذَالِکَ مِنْ أَوْزَارِہِمْ شَْئ۔

    (صحیح مسلم٧٠٤٢ـ٧٠٥)

    {جس نے اسلام میں کوئی اچھا طریقہ شروع کیا خود اسے اس کا اجر ملے گا اور ان تمام لوگوں کا اجر بھی جو اس کے بعد اس پر عمل کریںگے بغیر اس کے کہ ان لوگوں کے ا جر میں کسی قسم کی کمی واقع ہو۔ اور جس نے اسلام میں کوئی برا طریقہ شروع کیا تو اس کے اوپر اس کا اپنا گناہ ہوگا اور ان لوگوں کا بھی جنہوں نے اس کے بعد اس پر عمل کیا بغیر اس کے کہ ان لوگوں کے گناہ میں کسی قسم کی کمی واقع ہو}۔

    اس حدیث سے وجہ استدلال یہ ہے کہ یہ حدیث کُلُّ بِدْعَةٍ ضَلاَلَة والی حدیث کے عموم کی تخصیص کرتی ہے۔

    اس حدیث میں سَنَّ کا لفظ آیا ہے جو اخترع(ایجادکرنے)اور ابتدع(بلا مثال سابق شروع کرنے)کے ہم معنی ہے، نیز اس کے شروع کرنے کو شارع کے بجائے مکلف کی طرف منسوب کیا گیا ہے، بالکل اس حدیث کی طرح جس میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :

    لَیْسَ مِنْ نَفْسٍ تُقْتَلُ ظُلْماً ِلاَّ کَانَ عَلَیٰ ابْنِ آدَمَ الَوَّلِ کِفْل مِّنْ دَمِہَا لَنَّہُ أَوَّلُ مَنْ سَنَّ الْقَتْلَ۔ (بخاری ١٢٧٩)

    {جو نفس بھی ظلماً قتل کیا جائے گا آدم کے پہلے بیٹے پر اس کے خون کا ایک حصہ(گناہ) جائے گا اس لئے کہ سب سے پہلے اسی نے قتل کا طریقہ شروع کیا}۔

    اس حدیث میں بھی سَنَّ کا لفظ اخترع یعنی ایجادکرنے کے معنی میں ہے، کیونکہ قابیل نے ہی قتل کا طریقہ سب سے پہلے شروع کیا ہے، اس سے پہلے قتل کا وجود نہیں تھا۔ اگر حدیث میں یہ کہنا مقصود ہوتا کہ شریعت میں ثابت کسی سنت پر کسی نے عمل شروع کیا تو سَنَّ کے بجائے یوں کہا جاتا: مَنْ عَمِلَ بِسُنَّتِْ ـیاـ بِسُنَّةٍ مِّنْ سُنَّتِْ ـ یاـ مَنْ أَحْیَا سُنَّةً مِنْ سُنَّتِ{جس کسی نے میری سنت پر عمل کیا یا میری کسی سنت کو زندہ کیا}

    ازالہ:

    مذکورہ حدیث میں کسی نئے عمل کی ایجاد مراد نہیں ہے بلکہ کسی سنت ثابتہ پر عمل یا کسی سنت متروکہ کا احیاء مراد ہے۔ اس کی وضاحت دو طرح سے ہوگی۔

    ١۔ حدیث کی مراد اس کے سبب ورود سے واضح ہوگی۔

    چنانچہ پوری حدیث اس طرح ہے :

    '' جریر بن عبد اللہ ص نے فرمایاکہ دن کے شروع حصہ میں ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے کہ آپ کے پاس ایک قوم آئی۔ جو ننگے بدن تھی، دھاری دار اونی چادر اوڑھے ہوئے تھی، تلواریں لٹکائے ہوئے تھی۔ ان میں سے بیشتر بلکہ سب کے سب قبیلہ مضر کے تھے۔ ان کا فقروفاقہ دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے کا رنگ متغیر ہوگیا۔ آپ گھر میں داخل ہوئے، پھر باہر نکلے، پھر بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا، انھوں نے اذان واقامت کہی،پھر آپ نے صلاة پڑھائی، خطبہ دیا اور ان آیات کی تلاوت فرمائی :

    ( یٰأَیُّہَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمُ الَّذِْ خَلَقَکُمْ مِنْ نَفْسٍ وَّاحِدَةٍ۔۔۔)الآیة اور (اِتَّقُوْا اللّٰہَ وَلْتَنْظُرْ نَفْس مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ وَّاتَّقُوْا اللّٰہَ)۔

    اور فرمایا : لوگ صدقہ دیں اپنے دینار سے، اپنے درہم سے، اپنے کپڑے سے، اپنے ایک صاع گیہوں اور ایک صاع کھجور سے،حتی کہ آپ نے فرمایا: اگر چہ کھجور کا ایک ٹکڑا ہی کیوں نہ ہو۔راوی کہتے ہیں کہ پھر ایک انصاری ایک تھیلی لے کر آئے، جس سے ان کا ہاتھ تھکا جاتا تھابلکہ تھک گیا تھا، پھر لوگوں کا سلسلہ لگ گیا، یہاں تک کہ میں نے غلے اور کپڑے کے دو ڈھیر دیکھے، اور دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا روئے مبارک کھل اٹھا ہے اور کندن کی طرح دمک رہا ہے۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

    مَنْ سَنَّ فِْ الِسْلاَمِ سُنَّةً حَسَنَةً۔۔۔۔۔(مسلم٧٠٥٢)

    اس حدیث کے سیاق سے معلوم ہوتا ہے کہ سنت حسنہ سے انصاری صحابی والے عمل جیسا عمل مراد ہے۔کیونکہ جب وہ تھیلی بھر کر لائے تو صدقہ کا دروازہ کھل گیا، اور لوگ یکے بعد دیگرے اپنے صدقات لانے لگے۔ مگر بہر حال اس خیر وبھلائی کے شروعات کی فضیلت انھیں ہی حاصل ہوئی۔ صحابی مذکور کا عمل کوئی نئی چیز نہیں،بلکہ شریعت سے ثابت ایک عمل تھا۔ زیادہ سے زیاہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ صحابہ کو متنبہ کرنے اور انھیں صدقہ پر ابھارنے میں ان کے کردار کا ہاتھ تھا۔ چنانچہ معلوم ہوا کہ سنت حسنہ سے مراد کسی سنت پر عمل کرنا ہے، خصوصاً اس وقت جب لوگ اس سے غافل ہوں یا اسے ترک کرچکے ہوں۔

    ٢۔ اس حدیث میں سَنَّ کے لفظ کو اختراع وایجاد کے معنی پر محمول کرنا درست نہیں ہے۔ کیونکہ کسی عمل کا اچھا یا برا ہونا شریعت کی موافقت یا مخالفت ہی سے معلوم ہوسکتا ہے۔اگر شریعت کے موافق ہے تو سنت حسنہ ورنہ سنت سیئہ۔

    سنت سیئہ دو چیزوں پر بولا جاتا ہے :

    الف۔ گناہ ومعصیت کے کاموں کو شروع کرنا،جیسا کہ قابیل سے متعلق حدیث میں ہے جو پچھلے صفحات میں گذر چکی ہے۔

    ب۔ دین میں کسی بدعت کو شروع کرنا۔

    اگر بالفرض مذکورہ حدیث سے شریعت کے اندر بدعت حسنہ کے وجود پر استدلال کیا جائے تو یہ حدیث ان احادیث سے متعارض ہوگی جس میں بدعت کی عمومی مذمت کی گئی ہے، اور یہ قاعدہ معلوم ہے کہ جب عموم اور تخصیص کے دلائل باہم متعارض ہوتے ہیں تو تخصیص ناقابل قبول ہوتی ہے۔ (الموافقات٢٣٢٣)

    تیسرا شبہ :

    بدعت حسنہ کی دلیل کے طور پر یہ روایت بھی ذکر کی جاتی ہے:

    عَنْ بِلَالِ بْنِ الْحَارِثِ ص أَنَّ النَّبَِّ ۖ قَالَ لَہُ ِعْلَمْ۔ قَالَ مَا أَعْلَمُ یَا رَسُولَ اللّٰہِ ؟ قَالَ : ِنَّہُ مَنْ أَحْیَا سُنَّةً مِّنْ سُنَّتِْ قَدْ أُمِیْتَتْ بَعْدِْ کَانَ لَہُ مِنَ الَجْرِ مِثْلَ أُجُوْرِ مَنْ عَمِلَ بِہَا مِنْ غَیْرِ أَنْ یَّنْقُصَ مِنْ أُجُوْرِہِمْ شَیْئاً وَمَنِ ابْتَدَعَ بِدْعَةً ضَلَالَةً لاَ یَرْضَاہَا اللّٰہُ وَرَسُوْلُہُ کَانَ عَلَیْہِ مِثْلَ آثَامِ مَنْ عَمِلَ بِہَا لاَ یَنْقُصُ ذَالِکَ مِنْ أَوْزَارِ النَّاسِ شَیْئاً۔ (ترمذی١٥٠٤ـ١٥١)

    {بلال بن حارث صسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جان لو۔ انھوں نے کہا : کیا جان لوں اے اللہ کے رسول ؟ آپ نے فرمایا : جس نے میری کسی ایسی سنت کو زندہ کیا جو میرے بعدمردہ کی جاچکی تھی، تو اس کو اس پر عمل کرنے والے کے برابر اجر ملے گا، بغیر اس کے کہ ان لوگوں کے اجر میں کسی طرح کی کمی ہو۔ اور جس نے کوئی بدعت ضلالت ایجاد کی جو الله اور اس کے رسول کو پسند نہیں، تو اس کو اس پر عمل کرنے والوں کے برابر گناہ ملے گا، بغیر اس کے کہ ان کے گناہوں میں کوئی کمی واقع ہو }۔

    اس حدیث سے وجہ استدلال یہ ہے کہ اس میں مطلقاً ہر بدعت کی مذمت نہیں کی گئی ہے بلکہ صرف اسی بدعت کی مذمت کی گئی ہے جوالله اور اس کے رسول کی مرضی کے خلاف ہو اور بدعت ضلالت ہو۔

    ازالہ:

    مذکورہ حدیث سے استدلال درست نہیں کیونکہ وہ ضعیف ہے، اس میں ایک راوی کثیر بن عبد اللہ بن عمرو بن عوف المزنی ہے جو متروک ومجروح ہے اور اس کی روایت ناقابل اعتبار ہے۔

    چوتھا شبہ :

    عبد اللہ بن مسعودص فرماتے ہیں : مَا رَآہُ الْمُسْلِمُوْنَ حَسَناً فَہُوَ عِنْدَ اللّٰہِ حَسَن (مسند احمد٣٧٩١)

    {جس چیز کو مسلمان اچھا سمجھیں وہ اﷲ کے نزدیک بھی اچھا ہے}۔

    وجہ استدلال یہ ہے کہ اچھا سمجھنے کی نسبت مسلمانوں کی طرف کی گئی ہے، دلیل کی طرف نہیں۔ جس سے معلوم ہوا کہ بدعت اچھی اور بری دونوں طرح ہوسکتی ہے۔

    ازالہ:

    مذکورہ حدیث ایک طویل حدیث کا ٹکڑا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ اس شبہ کے ازالہ کی خاطر پوری حدیث مکمل سیاق کے ساتھ پہلے یہاں ذکر کردیں۔

    عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍص قَالَ: ِنَّ اللّٰہَ نَظَرَ فِْ قُلُوْبِ الْعِبَادِفَوَجَدَ قَلْبَ مُحَمَّدٍ ۖ خَیْرَ قُلُوْبِ الْعِبَادِ فَاصْطَفَاہُ لِنَفْسِہِ وَابْتَعَثَہُ بِرِسَالِتِہِ ثُمَّ نَظَرَ فِْ قُلُوْبِ الْعِبَاِد بَعْدَ قَلْبِ مُحَمَّدٍ ۖ فَوَجَدَ قُلُوْبَ أَصْحَابِہِ خَیْرَ قُلُوْبِ الْعِبَادِ فَجَعَلَہُمْ وُزَرَائَ نَبِیِّہِ یُقَاتِلُوْنَ عَلَیٰ دِیْنِہِ فَمَا رَأَیٰ الْمُسْلِمُوْنَ حَسَناً فَہُوَ عِنْدَ اللّٰہِ حَسَن وَّمَا رَأَوْہُ سَیْئاً فَہُوَ عِنْدَ اللّٰہِ سَِّئ(مسند احمد ٣٧٩١)

    {عبد اللہ بن مسعودص فرماتے ہیں : اللہ تعالی نے بندوں کے دلوں میں دیکھا، تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا دل بندوں کے دلوں میں سب سے بہتر پایا۔چنانچہ آپ کو اپنے لئے منتخب کرلیا اور آپ کو اپنی رسالت دے کر مبعوث فرمایا۔ پھر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بندوں کے دلوں میں دیکھا، تو آپ کے صحابہ کے دلوں کو بندوں کے دلوں میں سب سے بہتر پایا۔ چنانچہ انھیں اپنے نبی کا وزیر بنایا،جو اللہ کے دین کے لئے جنگ کرتے ہیں۔ لہذا جسے مسلمان اچھا سمجھیں وہ اللہ کے نزدیک بھی اچھا ہے۔ اور جسے مسلمان برا سمجھیں وہ اللہ کے نزدیک بھی برا ہے۔

    یہ حدیث کئی اسباب کی بنا پربدعت حسنہ کے لئے دلیل نہیں بن سکتی:

    ١۔ یہ حدیث موقوف ہے، مرفوع نہیں ہے۔ لہذا اسے مرفوع کے مقابلے میں پیش کرنا درست نہیں ہے۔ یعنی یہ صحابی کا قول ہے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول سے ٹکرانا درست نہیں ہے۔

    ٢۔ اگر فرض کرلیا جائے کہ یہ حجت ہے تو اس سے مراد اجماع صحابہ ہوگا۔

    ٣۔ اگر یہ مان لیا جائے کہ اس سے مراد غیر صحابہ ہیں، تو عالم وجاہل تمام مسلمان اس سے مراد نہیں ہوں گے، بلکہ اہل اجماع مقصود ہوں گے۔ اگر کوئی یہ کہتا ہے کے عالم وجاہل تمام مسلمان مراد ہیں تو اس سے دو باطل چیزیں لازم آئیں گی:

    اول:یہ درج ذیل حدیث سے متناقض ہوگا۔

    سَتَفْتَرِقُ أُمَّتِْ عَلَیٰ ثَلاَثٍ وَّ سَبْعِیْنَ فِرْقَةً کُلُّہُمْ فِْ النَّارِ ِلاَّ وَاحِدَة۔ (ابوداود٥٥ـ٦،مسند احمد ١٠٢٤،حاکم١٢٨١)

    {اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ میری امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی، سب جہنم میں جائیں گے سوائے ایک کے}۔

    تناقض کی صورت یہ ہے کہ سابقہ حدیث سے یہ استدلال کیا گیا ہے کہ کوئی مسلمان کسی چیز کواچھا سمجھے تو وہ اچھی چیز ہے۔ یعنی اس کی بات اور اس کا خیال غلط نہیں ہوسکتا ہے۔ اگر معاملہ ایسا ہی ہے تو پھر تہتر فرقوں میں تقسیم اور ایک کے سوا سب کے جہنمی ہونے کا کیا مطلب ہوگا!!

    دوم : اس کا تقاضہ یہ ہوگا کہ کوئی عمل کسی کے نزدیک حسن ہو اور کسی کے نزدیک قبیح، حالانکہ یہ باطل ہے۔ اور اگر عبد اللہ بن مسعود صکی حدیث سے یہ مراد لی جائے کہ جسے عام مسلمان اچھا سمجھیں وہ اچھا ہے،تو گویا دین میں بدعت ایجاد کرنے کے لئے چوردروازہ کھول دیا گیا۔

    حقیقت یہ ہے کہ ابن مسعود صکی حدیث سے بدعت حسنہ کے وجود یا جواز پر استدلال کرنا کسی صورت میں درست نہیں ہے۔

    پانچواں شبہ :

    سلف صالحین نے کچھ ایسے اعمال انجام دیئے ہیں جن سے متعلق خاص اور صریح نص وارد نہیں ہے۔ جیسے جمع قرآن اور تصنیف علوم وغیرہ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ شریعت میں بدعت حسنہ کا وجود ہے۔

    ازالہ :

    معلوم ہونا چاہئے کہ وہ چیز بدعت نہیں ہے جس کے الله اور اس کے رسول کی اطاعت ہونے کے بارے میں شرعی دلیل موجود ہو۔

    جہاں تک جمع قرآن کا معاملہ ہے تو اگرچہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیات مبارکہ میں ایسا نہیں کیا،مگر آپ نے قرآن مجید کے لکھنے کا حکم دیا، جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

    لاَتَکْتُبُوْا عَنِّْ غَیْرَ الْقُرْآنِ وَمَنْ کَتَبَ عَنِّْ غَیْرَ الْقُرْآنِ فَلْیَمْحُہُ

    (صحیح مسلم ٢٢٩٨٤)

    {میری طرف سے قرآن کے سوا کچھ نہ لکھو، جس نے قرآن کے سوا کچھ لکھا ہو اسے مٹا دے}۔

    البتہ جہاں تک ایک مصحف میں دو دفتیوں کے درمیان قرآن مجیدکے جمع کرنے کی بات ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں ایسا اس لئے نہیں کیاکیونکہ کچھ آیات یا کچھ سورتوں کے نازل ہونے یا کچھ آیتوں کے منسوخ ہونے کا احتمال تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد یہ احتمال ختم ہوگیا۔ چنانچہ ابوبکر صنے یہ مبارک عمل انجام دیا۔ پھر عثمان صنے لوگوں کو ایک مصحف پر جمع کردیا اور تمام صحابہ کا اس بات پر اجماع ہوگیا۔ جہاں تک احادیث نبویہ کی تدوین اور علوم شرعیہ کی تصنیف کا سوال ہے تو یہ تبلیغ شریعت کے ضمن میں داخل ہے اور اس کے دلائل واضح اور معلوم ہیں۔

    بہر حال سلف کے وہ اعمال جن سے بدعت حسنہ کے وجود پر استدلال کیا گیا ہے، یا تو وہ سنت کے وسیع مفہوم میں شامل اور داخل ہیں، یا تو کسی شرعی کام کی انجام دہی کا وسیلہ اور ذریعہ ہیں لہذا بدعت نہیں ہیں۔

    یہاں پریہ بات ذہن نشین رہے کہ یہ اختلاف لفظی ہے، ورنہ تمام معتبر اہل علم اس بات پر متفق ہیں کہ تمام بدعات مذمومہ ضلالت ہیں جن کا خلاصہ بیان ہوچکا ہے۔

    ختم شدہ





    { پیشکش : مکتب توعیۃ الجالیات الغاط، www.islamdawah.com/urdu }
     
  8. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم بنت الاسلام بہن۔
    جواب عنایت فرمانے کا بہت شکریہ ۔
    لیکن یہ تو محض ایک مقالہ تھا۔ اور شیخ عبدالہادی کی رائے ہے۔ جو انہوں نے اپنے نکتہء نظر کا احقاق اور مخالف نکتہء نظر کا ابطال کرنے کے لیے پیش کی ۔


    ان بعض لوگوں‌ میں ۔ جن کا ذکر اس عامیانہ انداز میں فرمایا گیا ہے۔ سب سے پہلے تو سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ ہی کو لے لیجئے۔ جو بذات خود بدعت حسنہ کے قائل ہیں۔ اور بدعت حسنہ و بدعت سئیہ کی یہ تقسیم اگر بقول مولانا عبدالہادی ایک شبہ ہے۔ تو سب سے پہلے یہ شبہ معاذ اللہ خود سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو ہوا۔ جن کے بارے میں رسول اکرم :saw: کا فرمان ہے کہ

    عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : إِنَّ اﷲَ جَعَلَ الْحَقَّ عَلی لِسَانِ عُمَرَ وَ قَلْبِهہ۔۔۔ الی الخ

    ’’حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اﷲ نے عمر کی زبان اور دل پر حق جاری کر دیا ہے۔
    الترمذی فی الجامع الصحيح، کتاب المناقب، باب فی مناقب عمر، 5 / 617، الحديث رقم : 3682، و ابن حبان فی الصحيح، 15 / 318، الحديث رقم : 6895، و في 15 / 312، الحديث رقم : 6889، و أحمد بن حنبل فی المسند، 2 / 53، الحديث رقم : 5145، و الحاکم في المستدرک، 3 / 93، الحديث رقم : 4501، و الهيثمي في موراد الظمان، 1 / 536، الحديث رقم : 2184.
    حیرت ہے کہ مولانا عبدالہادی کی نظر میں ایک عام مولانا اور سیدنا فاروق اعظم :rda: کی رائے ایک برابر اہمیت رکھتی ہے۔

    یہ دلیل بھی حیران کن ہے۔ اس امر میں کوئی شک نہیں کہ حضور اکرم :saw:نے نماز تراویح ادا فرمائی اور چند دن باجماعت بھی ادا فرمائی۔ لیکن منظم انداز میں رمضان کے 30 دنوں‌تک روزانہ باجماعت نماز تراویح کا پڑھایا جانا سنت رسول :saw:سے کہیں‌بھی ثابت نہیں۔ نہ ہی سیدنا صدیق اکبر :rda: کے دور مبارک میں اس کا اہتمام کیا گیا۔
    بلکہ سیدنا عمر فاروق :rda: نے اپنے دور میں اسکا اہتمام و انصرام فرمایا۔ اور لوگوں کو رمضان کے 30 یا 29 دنوں کی ہررات باجماعت نماز تراویح پر قائم فرمایا۔ جو کہ ایک ایسی نئی بات (بدعت حسنہ)‌تھی جس کی اصل شریعت میں کسی نہ کسی شکل میں موجود تھی ۔

    اور یہی بات ہم بھی عرض کررہے ہیں کہ بدعت حسنہ وہ ہے جس کی اصل کسی نہ کسی صورت میں قرآن و سنت میں‌موجود ہو لیکن بعد کے زمانے کے علماء و آئمہ اس دور کے تقاضوں‌کے مطابق اس پر عمل شروع کریں۔ وہ اپنی ہیئت کے اعتبار سے تو نیا کام ، نیا امر اور نئی بات نظر آئے لیکن اسکی اصل قرآن و سنت میں‌موجود ہو۔

    شکر ہے یہ حدیث پاک بھی آپ نے خود ہی یہاں درج کر دی جس سے ہماری دلیل اور بھی واضح ہوگئی کہ حضور اکرم :saw: کی سنت کے بعد خلفائے راشدین کا عمل بھی دین میں‌حجت ہے۔
    اور یہ کہنا کہ جو کام اللہ و رسول :saw: کے قرآن یا فرمودات نبوی :saw: میں نہیں وہ سب کا سب بدعت ہے۔ یہ سراسر غلط ہے کیونکہ خود حضور اکرم :saw: نے دین اسلام کو آسان تر بنانے کے لیے امت کے لیے اپنے علاوہ خلفائے راشدین رضوان اللہ عنھم کے عمل کو بھی حجت اور دلیل بنا دیا۔ یعنی کوئی ایسا نیا کام ، نیا عمل، نیا امر جو خود خلفائے راشدین رضوان اللہ عنھم کے دور میں بھی کیا گیا ہو۔ وہ بھی بعض کے دور کے لیے حجت ٹھہرے گا۔ لیکن اگر مولانا عبدالہادی عبدالخالق یا اس طریق کے دیگر علما کا موقف مان لیا جائے کہ ہر نیا کام بدعت سئیہ اور بالکل گمراہی ہے۔ تو سنئیے۔۔۔

    اگر ہر نیا کام جو عہدِ رسالت مآب اور عہدِ صحابہ میں متداول اور معمول بہ نہ تھا محض اپنے نئے ہونے کی وجہ سے ناجائز قرار پائے تو تعلیماتِ دین اور فقہ اسلامی کا بیشتر حصہ ناجائز کے زمرے میں آجائے گا اور اجتہاد کی ساری صورتیں، قیاس، استحسان، مصالح مرسلہ، استحصاب، استدلال اور استنباط کی جملہ شکلیں ناجائز کہلائیں گی۔ اسی طرح دینی علوم و فنون مثلاً اُصولِ تفسیر، اصول حدیث، فقہ و اُصولِ فقہ، ان کی تدوین، اور ان کو سمجھنے کے لئے صرف و نحو، بلاغت و معانی، منطق و فلسفہ اور دیگر معاشرتی و معاشی جملہ علوم خادمہ جو فہمِ دین کے لئے ضروری اور عصری تقاضوں کے مطابق لابدی ہیں ان کا سیکھنا، سکھانا بھی حرام قرار پائے گا کیونکہ یہ سب علوم و فنون اپنی موجودہ شکل میں نہ عہدِ رسالت میں موجود تھے نہ ہی عہدِصحابہ کرام میں، انہیں تو بعد میں ضرورت کے پیش نظر وضع اور مرتب کیا گیا۔ یہ تمام علوم و فنون اپنی ہیئت، اصول، اصطلاحات، تعریفات اور قواعد و ضوابط کے اعتبار سے نئے ہیں اس لئے بلا شک و شبہ بدعتِ لغوی کے زمرے میں آتے ہیں۔

    اگر ہر نیا کام بدعتِ شرعی اور ضلالت و گمراہی قرار پائے تودینی مدارس کی مروجہ تعلیم و تدریس اور نصابات کا بیشتر حصّہ بھی گمراہی قرار پائے گا کیونکہ موجودہ درس نظامی کے نصابات کے مطابق درس و تدریس نہ تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ اقدس میں تھی اور نہ ہی اس طرح کسی صحابی نے تعلیم حاصل کی تھی ان کا طریقہ نہایت سادہ تھا فقط قرآن و حدیث کا سماع و روایت، بلکہ قرآن حکیم کی موجودہ شکل میں طباعت و زیبائش سے لیکر حرم کعبہ اور مساجد کی پختہ تعمیر اور تزئین و آرائش تک بہت سے معاملات کا جواز بھی مجروح اور ساقط ہو جائے گا۔

    میں نے پہلے بھی عرض کی کہ مولانا صاحب کی کافی دلیل حیران کن حد تک بےبنیاد ہیں۔ اسی طرح اب محض اپنے قیاس سے وہ سیدنا صدیق اکبر :rda: کے بارے میں معاذاللہ یہ ثابت کرنا چاہ رہے ہیں کہ دیگر امور میں مصروف رہنے کی وجہ سے وہ تراویح جیسی سنت کا اہتمام نہ کروا سکے۔ حالانکہ حق یہ ہے سیدنا صدیق اکبر :rda: جیسا سنت کا پیروکار دنیا میں کوئی ہو ہی نہیں سکتا۔ جبھی تو رسول اکرم :saw: کی طرف سے انہیں خلیفہ ء اول نہ صرف مقرر کیا گیا بلکہ آج تک ساری امت انکی فضیلت و عظمت پر متفق بھی ہے۔

    اسلام اور شریعت کی سمجھ تو شاید آجائے لیکن مولانا عبدالہادی کا یہ اصول سمجھ میں نہیں آتا کہ ابھی دو پیراگراف اوپر خود فرمان رسول :saw: سے ثابت کررہے ہیں کہ " اے امت !‌میرے بعد تم پر میرے خلفائے راشدین مہدین (ہدایت یافتہ) کی سنت پر عمل بھی لازم ہے " فَعَلَیْکُمْ بِسُنَّتِْ وَسُنَّةِ الْخُلَفَائِ الرَّاشِدِیْنَ الْمَہْدِیِّیْنَ مِنْ بَعْدِْ
    (مسند احمد١٢٧٤، ابوداود١٣٥ـ١٥،ترمذی١٤٩٤ـ١٥٠)

    اور یہاں جناب خود ہی اسکی نفی فرما کر اپنے زور قلم کا مظاہرہ فرمانے کی کوشش کررہے ہیں۔ گویا

    جو چاہے آپکا حسن کرشمہ ساز کرے۔​

    ایک صحیح حدیث کے واضح الفاظ مل جانےکے بعد انکی توجیہہ و توضیح کرکے یعنی موڑ توڑ کر اپنے حق میں کرنے کا کیا فائدہ ؟ خدارا اعتدال کا رستہ اختیار کیجئے۔ اس سے اگر بدعت حسنہ (یعنی نئے اور نیک کام کا شروع کیا جانا مراد لیا جائے ) تو اس بھی وسیع القلبی سے تسلیم کریں۔ کہ علمی دیانت کا تقاضا یہی ہے۔

    حضرت ! ہم بھی یہی عرض کررہے تھے کہ جس کام اصل شریعت میں‌کسی نہ کسی طور موجود ہو ۔ اور وہ نیا کام شریعت سے متصادم و مخالف نہ ہو ۔ وہ بدعت حسنہ کے زمرے میں تو آسکتا ہے۔ لیکن کھلی گمراہی اور ضلالت کے زمرے میں‌نہیں آئے گا۔ اس لیے ہر مستحسن نئے کام پر بدعت کا فتوی لگا کر گمراہی، شرک اور کفر قرار دینا کسی طور بھی اسلام میں‌جائز نہیں ۔

    اتنی گذارشات کر چکنے کے بعد صرف چند عظیم آئمہ کبار کے اقوال نقل کرکے اجازت چاہوں‌گا تاکہ نفس مسئلہ مزید واضح ہوجائے کہ اسلام میں بدعت کے ضمن میں ہمیشہ دو قسم بدعات (بدعت حسنہ اور بدعت سئیہ) کا عقیدہ موجود رہا ہے اور اسے آئمہ اسلاف نے کبھی کلیتاً گمراہی و ضلالت پر تعبیر نہیں کیا۔

    امام محمد بن اِدریس بن عباس الشافعی رحمۃ اللہ علیہ (المتوفی 204ھ)

    امام بیہقی (المتوفی 458 ھ) نے اپنی سند کے ساتھ ’’مناقبِ شافعی‘‘ میں روایت کیا ہے کہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ بدعت کی تقسیم ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں :

    1. المحدثات من الأمور ضربان : أحدهما ما أحدث مما يخالف کتاباً أوسنة أو اثرًا أو إجماعاً فهذه البدعة ضلالة، و الثانية ما أحدث من الخير لا خلاف فيه لواحد من هذا فهذه محدثة غير مذمومة، قد قال عمر رضي الله عنه في قيام رمضان نعمت البدعة هذه(1) يعني إِنَّها محدثة لم تکن و إِذا کانت ليس فيها ردُّ لما مضي. (2)


    ’’محدثات میں دو قسم کے امور شامل ہیں : پہلی قسم میں تو وہ نئے امور ہیں جو قرآن و سنت یا اثر صحابہ یا اجماع امت کے خلاف ہوں وہ بدعت ضلالہ ہے، اور دوسری قسم میں وہ نئے امور ہیں جن کو بھلائی کے لیے انجام دیا جائے اور کوئی ان میں سے کسی (امرِ شریعت) کی مخالفت نہ کرتا ہو پس یہ امور یعنی نئے کام محدثہ غیر مذمومۃ ہیں۔ اسی لیے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے رمضان میں تراویح کے قیام کے موقع پر فرمایا تھا کہ ’’یہ کتنی اچھی بدعت ہے یعنی یہ ایک ایسا محدثہ ہے جو پہلے نہ تھا اور اگر یہ پہلے ہوتا تو پھر مردود نہ ہوتا۔‘‘


    1. بيهقي، المدخل الي السنن الکبريٰ، 1 : 206
    2. ذهبي، سير أعلام النبلاء، 8 : 408
    3. نووي، تهذيب الاسماء واللغات، 3 : 21


    اِمام ابو عبداﷲ محمد بن احمد القرطبی رحمۃ اللہ علیہ (المتوفی 380ھ)

    ’’ہر بدعت جو مخلوق سے صادر ہوتی ہے دوحالتوں سے خالی نہیں ہوتی وہ یہ کہ اس کی اصل شریعت میں ہوتی ہے یا نہیں اگر اس کی اصل شریعت میں ہو تو پھر وہ لازمی طور پر عموم کے تحت واقع ہوگی جس کو اﷲ تعاليٰ نے مستحب قرار دیا ہے اور رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس حکم پر برانگیختہ کیا ہو پس یہ بدعت مقامِ مدح میں ہوگی اور اگر ان کی مثال پہلے سے موجود نہ ہو جیسے جود و سخاء وغیرہ کی اقسام اور معروف کام تو ایسے امور کا سر انجام دینا افعال محمودہ میں سے ہے چاہے کسی نے یہ کام پہلے نہ کئے ہوں اور یہ عمل حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے قول، ’’ نعمت البدعۃ ہذہ‘‘ کو تقویت دیتا ہے جو کہ اچھے کاموں میں سے تھی اور وہ محمود کاموں میں داخل ہیں اور وہ یہ ہے کہ بے شک نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نماز تراویح کو پڑھا تھا مگر آپ نے اسے (باجماعت) ترک کر دیا اور اس کی محافظت نہیں فرمائی اور نہ ہی لوگوں کو اس کے لئے جمع کیا پس (بعد میں مصلحت وقت کے تحت) حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس (نمازِ تراویح) کی محافظت کی اور لوگوں کو اس کے لئے جمع کیا اور انہوں نے لوگوں کو اس کی ترغیب دی تو وہ بدعت ہوئی لیکن بدعت محمودہ اور ممدوحہ ہے،،،،

    قرطبي، الجامع لأحکام القرآن، 2 : 87

    اِمام ابوبکر احمد بن حسین البیہقی رحمۃ اللہ علیہ (458 ھ)

    ’’محدثات میں دو قسم کے امور شامل ہیں : پہلی قسم میں تو وہ نئے امور ہیں جو قرآن و سنت یا اثر صحابہ یا اجماع امت کے خلاف ہوں وہ بدعت ضلالہ ہے، اور دوسری قسم میں وہ نئے امور ہیں جن کو بھلائی کے لیے انجام دیا جائے اور کوئی ان میں سے کسی (امرِ شریعت) کی مخالفت نہ کرتا ہو پس یہ امور محدثہ غیر مذمومۃ ہیں۔ اسی لیے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے رمضان میں تراویح کے قیام کے موقع پر فرمایا تھا کہ ’’یہ کتنی اچھی بدعت ہے۔ یعنی یہ ایک ایسا محدثہ یعنی نیا عمل ہے جو پہلے نہ تھا اور اگر یہ پہلے ہوتا تو پھر مردود نہ ہوتا۔‘‘

    بيهقي، المدخل الي السنن الکبري، 1 : 206
    ذهبي، سير أعلام النبلاء، 8 : 408
    نووي، تهذيب الاسماء واللغات، 3 : 21


    اِمام ابو حامد محمد بن محمد الغزالی رحمۃ اللہ علیہ (المتوفی 505ھ)

    امام ابوحامد محمد بن محمد غزالی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب’’احیاء علوم الدین‘‘ میں بدعت کے حوالے سے رقمطراز ہیں :

    ’’ہر بدعت ممنوع نہیں ہوتی بلکہ ممنوع صرف بدعت وہ ہوتی ہے جو سنتِ ثابتہ سے متضاد ہو اور اس سنت کی علت کے ہوتے ہوئے اَمرِ شریعت کو اٹھادے (مزید برآں) بعض احوال میں جب اسباب متغیر ہوجائیں تو بدعت واجب ہوجاتی ہے اور بلند دسترخوان میں یہی بات تو ہے کہ کھانے کی آسانی کے لیے کھانے کو زمین سے بلند کیا جاتا ہے اور اس قسم کے کاموں میں کراہت نہیں ہوتی۔ جن چار باتوں کو جمع کیا گیا کہ یہ بدعت ہیں تو یہ سب برابر بھی نہیں ہیں بلکہ اُشنان (ایک بوٹی جو صفائی کے کام آتی ہے) اچھی چیز ہے کیونکہ اس میں نظافت ہے کیونکہ پاکیزگی حاصل کرنے کے لیے غسل مستحب ہے اور اُشنان اس نظافت کو مکمل کرتی ہے اور وہ لوگ اس لیے استعمال نہیں کرتے تھے کہ ان کی عادت نہیں تھی یا انہیں حاصل نہیں ہوتی تھی۔ یا وہ نظافت سے زیادہ اہمیت کے کاموں میں مشغول ہوتے تھے بعض اوقات وہ ہاتھ بھی نہیں دھوتے تھے اور ان کے رومال پاؤں کے تلوے ہوتے تھے (یعنی پاؤں کے تلوؤں سے ہاتھ صاف کرلیتے تھے) اور یہ عمل، دھونے کے استحباب کے خلاف نہیں، چھلنی سے مقصود کھانے کو صاف کرنا ہوتا ہے اور یہ جائز ہے جب تک حد سے متجاوز عیاشی کی طرف نہ لے جائے۔ اونچے دسترخوان سے چونکہ کھانا کھانے میں آسانی ہوتی ہے لہٰذا یہ بھی جائز ہے جب تک تکبر اور بڑائی پیدا نہ کرے شکم سیری ان چاروں میں سے زیادہ سخت ہے کیونکہ اس سے خواہشات ابھرتی ہیں اور بدن میں بیماریاں پیدا ہوتی ہیں تو ان چاروں بدعات میں فرق معلوم ہونا چاہے۔‘‘

    غزالي، إحياء علوم الدين، 2 : 3

    امام ابو زکریا محی الدین بن شرف النووی رحمۃ اللہ علیہ (المتوفی 676ھ)

    امام ابو زکریا محی الدین بن شرف نووی رحمۃ اللہ علیہ بدعت کی تعریف اور اس کی اقسام بیان کرتے ہوئے اپنی کتاب ’’تہذیب الاسماء واللغات‘‘ میں فرماتے ہیں :

    ’’شریعت میں بدعت سے مراد وہ امور ہیں جو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں نہ تھے، بدعت کو بدعت حسنہ اور بدعت قبیحہ میں تقسیم کیا گیا ہے اور شیخ عبدالعزیز بن عبدالسلام ’’کتاب القواعد‘‘ میں فرماتے ہیں۔ بدعت کو بدعت واجبۃ، محرمۃ، مندوبۃ، مکروھۃ اور مباحۃ میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ اس کے جاننے کا طریقہ یہ ہے کہ بدعت کا قواعدِ شرعیہ سے موازنہ کیا جائے، اگر وہ بدعت قواعد ایجاب کے تحت داخل ہے تو واجب ہے اور اگر قواعدِ تحریم کے تحت داخل ہے تو حرام ہے اور اگر قواعدِ استحباب کے تحت داخل ہے تو مستحب ہے اور اگر کراھت کے قاعدہ کے تحت داخل ہے تو مکروہ اور اگر اباحت کے قاعدہ میں داخل ہے تومباح ہے۔ بدعات واجبہ کی بعض مثالیں یہ ہیں : علم نحو کا پڑھنا جس پر قرآن اور حدیث کا سمجھنا موقوف ہے، یہ اس لیے واجب ہے کہ علم شریعت کا حصول واجب ہے اور قرآن اور حدیث کے بغیر علم شریعت حاصل نہیں ہو سکتا اور جس چیز پر کوئی واجب موقوف ہو وہ بھی واجب ہوتی ہے۔ دوسری مثال قرآن و حدیث کے معانی جاننے کیلئے علم لغت کا حاصل کرنا ہے، تیسری مثال دین کے قواعد اور اصول فقہ کو مرتب کرنا ہے جبکہ چوتھی مثال سندِ حدیث میں جرح اور تعدیل کا علم حاصل کرنا تاکہ صحیح اور ضعیف حدیث میں امتیا زہو سکے اور قواعدِ شرعیہ اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ اپنی ضروریات سے زیادہ علم شریعت حاصل کرنا فرض کفایہ ہے اور یہ علم مذکور الصدر علوم کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتا۔ بدعات محرمہ کی بعض مثالیں یہ ہیں : قدریہ، جبریہ، مرجیۂ اور مجسمہ کے نظریات اور ان لوگوں پر رد کرنا بدعات واجبہ کی قسم میں داخل ہے۔ بدعاتِ مستحبہ کی بعض مثالیں یہ ہیں سرائے، مدارس اور بلند عمارتیں بنانا اور ہر ایسا اصلاحی اور فلاحی کام جو عہد رسالت میں نہیں تھا (تمام رمضان میں) باجماعت تراویح، تصوف کی دقیق ابحاث، بد عقیدہ فرقوں سے مناظرہ اور اس مقصد کیلئے جلسے منعقد کرنا بشرطیکہ اس سے مقصود رضائے الٰہی ہو۔ بدعات مکروھہ کی بعض مثالیں یہ ہیں : مساجد کی زیب و زینت، (متاخرین فقہاء نے اس کو جائز قرار دیا) مصحف (قرآن) کو مزین کرنا (یہ بھی متاخرین کے نزدیک جائز ہے) اور قرآن کو ایسی سر سے پڑھنا کہ اس کے الفاظ عربی وضع سے پھر جائیں اور زیادہ اصح یہ ہے کہ یہ بدعت محرمہ ہے۔ بدعات مباحہ کی بعض مثالیں یہ ہیں : صبح اور عصر کی نماز کے بعد مصافحہ کرنا، کھانے پینے، پہننے اور رہائش کے معاملات میں وسعت اختیار کرنا، سبز چادریں اوڑھنا، کھلی آستینوں کی قمیض پہننا، ان امور میں اختلاف ہے۔ بعض علماء نے ان امور کو بدعاتِ مکروھۃ میں داخل کیا ہے اور بعض علماء نے ان کو عہدِ رسالت اور عہد صحابہ کی سنتوں میں داخل کیا ہے جیسے نماز میں تعوُّذ و تسمیہ جھراً پڑھنے میں سنت ہونے نہ ہونے کا اختلاف ہے۔‘‘

    1. نووي، تهذيب الأسماء واللغات، 3 : 22
    2. نووي، شرح صحيح مسلم، 1 : 286
    3. سيوطي، حسن المقصد في عمل المولد : 51
    4. صالحي، سبل الهدي والرشاد، 1 : 370


    اِمام نووی رحمۃ اللہ علیہ شرح صحیح مسلم میں بدعت کی اقسام اور "کل البدعۃ ضلالۃ" کی وضاحت اور پھر ان میں سے ہر قسم کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔

    ’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان کہ ’’ہر بدعت ضلالت ہے‘‘ عام مخصوص ہے عام طور پر اس سے مراد بدعتِ سيّئہ لیا جاتا ہے اہل لغت نے کہا ہے کہ ہر وہ چیز جس پر مثال سابق کے بغیر عمل کیا جائے وہ بدعت ہے۔ علماء نے بدعت کی پانچ اقسام بدعت واجبہ، مندوبہ، محرمہ، مکروہۃ اور مباحہ بیان کی ہیں بدعت واجبہ کی مثال متکلمین کے دلائل کو ملحدین، مبتدعین اور اس جیسے دیگر امور کے رد کے لئے استعمال کرنا ہے اور بدعت مستحبہ کی مثال جیسے کتب تصنیف کرنا، مدارس، سرائے اور اس جیسی دیگر چیزیں تعمیر کرنا۔ بدعت مباح کی مثال یہ ہے کہ مختلف انواع کے کھانے اور اس جیسی چیزوں کو اپنانا ہے جبکہ بدعت حرام اور مکروہ واضح ہیں اور اس مسئلہ کو تفصیلی دلائل کے ساتھ میں نے ’’تہذیب الاسماء واللغات‘‘ میں واضح کردیا ہے۔ ۔۔۔۔۔

    نووي، شرح صحيح مسلم، 6 : 154


    علامہ تقی الدین احمد بن عبد الحلیم ابن تیمیہ (المتوفی 728 ھ)

    امام ابن تیمیہ اپنی کتاب ’’منہاج السنۃ‘‘ میں لغوی بدعت اور شرعی بدعت کو واضح کرتے ہوئے ’’نعمت البدعۃ ہذہ‘‘ کے ذیل میں بیان کرتے ہیں۔

    ’’اِسے بدعت اِس لیے کہا گیا کہ یہ عمل اس سے پہلے اِس انداز میں نہیں ہوا تھا لہٰذا یہ بدعتِ لغوی ہے بدعتِ شرعی نہیں ہے کیونکہ بدعتِ شرعی وہ گمراہی ہوتی ہے جو دلیل شرعی کے بغیر سر انجام دی جائے۔‘‘

    ابن تيميه، منهاج السنة، 4 : 224

    علامہ ابن تیمیہ ’’بدعت حسنہ‘‘ اور ’’بدعت ضلالۃ‘‘ کے مفہوم کو مزید واضح کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں :

    ’’اور اس کلام سے لفظ ’’ضلال‘‘ کا مفہوم سمجھا جاسکتا ہے کہ اگر کسی شخص نے یہ جانتے ہوئے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے بیان نہیں کیا کسی طریقے یا عقیدے کی ابتداء اس گمان سے کی کہ بے شک ایمان اس کے بغیر مکمل نہیں ہوتا تو یہ ’’ضلالۃ‘‘ ہے اور جو چیز نصوص کے مخالف ہو وہ مسلمانوں کے اتفاق رائے کے ساتھ بدعت ہے۔ اور جس چیز کے بارے یہ معلوم نہ ہو کہ اس نے کتاب و سنت کی مخالفت کی ہے ایسی چیز کو بدعت کا نام نہیں دیا جاسکتا۔ اور امام شافعی رحمۃ اﷲ علیہ نے بدعت کی دو قسمیں بیان کی ہیں۔ ایک وہ بدعت جو قرآن و سنت، اجماع اور بعض اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اقوال کے خلاف ہو تو وہ بدعت ضلالہ ہے۔ اور جو بدعت ان تمام چیزوں (یعنی قرآن و سنت، اجماع اور اثر صحابہ) میں سے کسی کے مخالف نہ ہو تو وہی بدعت حسنہ ہے۔ جیسے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قول ہے ’’نعمت البدعۃ ہذہ‘‘ یہ یا اس جیسا دوسرا بیان اسے امام بیہقی نے اپنی صحیح اسناد کے ساتھ ’’المدخل‘‘ میں روایت کیا ہے۔‘‘

    ابن تيمية، کتب ورسائل و فتاوي ابن تيمية في الفقه، 20 : 16

    نوٹ : یاد رہے کہ علمائے سلف اور اہلحدیث حضرات کے ہاں‌علامہ ابن تیمیہ انتہائی عظیم مقام و مرتبہ رکھتے ہیں اور انکے مدارس میں ابن تیمیہ کی کتب بطور نصاب پڑھائی جاتی ہیں۔

    اِمام ابو الفضل احمدبن علی بن محمد ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ (المتوفی، 852ھ)

    علامہ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی مشہور و معروف تصنیف ’’فتح الباری شرح صحیح البخاری‘‘ میں بدعت کی تعریف اور تقسیم پر بحث کرتے ہوئے لکھا ہے :

    ’’بدعت سے مراد ایسے نئے امور کا پیدا کیا جانا ہے جن کی مثال سابقہ دور میں نہ ملے اور ان امور کا اطلاق شریعت میں سنت کے خلاف ہو پس یہ ناپسندیدہ عمل ہے، اور بالتحقیق اگر وہ بدعت شریعت میں مستحسن ہو تو وہ بدعت حسنہ ہے اور اگر وہ بدعت شریعت میں ناپسندیدہ ہو تو وہ بدعت مستقبحہ یعنی بری بدعت کہلائے گی اور اگر ایسی نہ ہو تو اس کا شمار بدعت مباحہ میں ہوگا۔ بدعت کو شریعت میں پانچ اقسام میں تقسیم کیا جاتا ہے (واجبہ، مندوبہ، محرمہ، مکروہہ اور مباحہ)۔‘‘

    1. عسقلاني، فتح الباري شرح صحيح البخاري، 4 : 253
    2. شوکاني، نيل الأوطار، 3 : 63


    کل بدعۃ ضلالۃ کی شرح کرتے ہوئے مشہور محدث اِمام ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ (متوفی، 1014ھ) حدیث مبارکہ ’’کل بدعۃ ضلالۃ‘‘ کی شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

    ’’یعنی ہر بری بدعت ( بدعت سئیہ) گمراہی ہے۔ کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے ’’ جس نے اسلام میں کوئی اچھا طریقہ ایجاد کیا تو اس کو اس عمل کا اور اس پر عمل کرنے والے کا اجر ملے گا۔‘‘ اور یہ کہ حضرت شیخین ابوبکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ نے قرآن کریم کو جمع کیا اور حصرت زید رضی اللہ عنہ نے اس کو صحیفہ میں لکھا اور عہد عثمانی میں اس کی تجدید کی گئی۔‘‘

    ملا علي قاري، مرقاة، شرح مشکاة، 1 : 216

    شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ (المتوفی 1052 ھ)

    شیخ عبدالحق محدث دہلوی اپنی کتاب ’’اشعۃ اللمعات‘‘ میں بدعت کی اقسام بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

    ’’بعض بدعتیں ایسی ہیں جو کہ واجب ہیں مثلاً علمِ صرف و نحو کاسیکھنا اور سکھانا کہ ان کے ذریعے آیات و احادیث کے معانی کی صحیح پہچان ہوتی ہے، اسی طرح کتاب و سنت کے غرائب اور دوسری بہت سی چیزوں کو حفظ کرنا جن پر دین و ملت کی حفاظت موقوف ہے۔ اور کچھ بدعات مستحسن اور مستحب ہیں جیسے سرائے اور دینی مدرسے تعمیر کرنا، اور بعض بدعات بعض علماء کے نزدیک مکروہ ہیں جیسے مساجد اور قرآن حکیم کی آرائش و زیبائش کرنا۔ بعض بدعات مباح ہیں جیسے کھانے پینے کی لذیذ چیزوں اور لباس فاخرہ کی فراوانی کا حسب ضرورت استعمال، لیکن شرط یہ ہے کہ حلال ہو اور سرکشی، تکبر و رعونت اورفخر کا باعث نہ ہو، اور دوسری ایسی مباحات جوکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں نہ تھیں جیسے کہ آٹے کو چھلنی سے چھاننا وغیرہ۔ بعض بدعات حرام ہیں ان میں اہل بدعت کے نفسانی خواہشات کی اتباع میں نئے مذاہب ہیں جو سنت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، جماعت اور خلفائے راشدین کے طریقوں کے خلاف ہیں۔

    عبدالحق محدث دهلوي، اشعة اللمعات، باب الاعتصام بالکتاب والسنة، 1 : 125

    نوٹ : شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمہ اللہ بھی ایسے آئمہ کرام میں ہیں جو اہلسنت و الجماعت کے ساتھ ساتھ اہلحدیث و سلفی حضرات کے ہاں بھی دلیل کا درجہ رکھتے ہیں۔

    شیخ محمد بن علی بن محمد الشوکانی رحمۃ اللہ علیہ (المتوفی 1255ھ)

    یمن کے معروف غیر مقلد عالم شیخ شوکانی حدیث عمر ’’نعمت البدعۃ ھذہ‘‘ کے ذیل میں فتح الباری کے حوالے سے اقسام بدعت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

    ’’لغت میں بدعت اس کام کو کہتے ہیں جس کی پہلے کوئی مثال نہ ہو اور اصطلاح شرع میں سنت کے مقابلہ میں بدعت کا اطلاق ہوتا ہے اس لیے یہ مذموم ہے اور تحقیق یہ ہے کہ بدعت اگر کسی ایسے اصول کے تحت داخل ہے جو شریعت میں مستحسن ہے تو یہ بدعت حسنہ ہے اور اگر ایسے اصول کے تحت داخل ہے جو شریعت میں قبیح ہے تو یہ بدعت سیئہ ہے ورنہ بدعت مباحہ ہے اور بلا شبہ بدعت کی پانچ قسمیں ہیں۔‘‘

    شوکاني، نيل الاوطار شرح منتقي الأخبار، 3 : 63

    شیخ عبد العزیز بن عبد اﷲ بن باز (1421ھ)

    عصر قریب میں (تقریبا 8-9 برس پہلے) مملکت سعودی عرب کے معروف مفتی شیخ عبد العزیز بن عبد اﷲ بن باز نے سعودی حکومت کے شعبہ ’’الافتاء والدعوہ والارشاد‘‘ کے زیر اہتمام چھپنے والے اپنے فتاويٰ جات کے مجموعہ ’’فتاوی اللجنۃ الدائمۃ للبحُوث العلمیۃ والافتاء‘‘ میں بدعت حسنہ اور بدعت سیہ کی تقسیم بیان کرتے ہوئے لکھا ہے :

    ’’علماء کرام نے بدعت کو بدعت دینیہ اور بدعت دنیویہ میں تقسیم کیا ہے، بدعت دینیہ یہ ہے کہ ایسی عبادت کو شروع کرنا جسے اللہ تبارک و تعالی نے مشروع نہ کیا ہو اور یہی اس حدیث سے مراد ہے جو ذکر کی جا چکی ہے اور اس طرح کی دیگر احادیث سے بھی یہی مراد ہے اور دوسری بدعت دنیوی ہے اور وہ یہ ہے کہ جس میں مصلحت والا پہلو فساد والے پہلو پر غالب ہو اور وہ جائز ہے اور اگر ایسا نہ ہو (یعنی مصلحت والا پہلو فساد والے پہلو پر غالب نہ ہو) تو وہ ممنوع ہے۔ اس کی مثالوں میں مختلف اقسام کا اسلحہ سواریاں اور اس جیسی دیگر چیزیں بنانا اسی طرح قرآن پاک کی طباعت و کتابت اس کو حفظ کرنے، اسے سیکھنے اور سکھانے کے وسائل اور وہ وسائل جن کے لیے غایات (اھداف) کا حکم ہے پس یہ ساری چیزیں مشروع ہیں اور ممنوعہ بدعات میں سے نہیں ہیں کیونکہ اللہ تبارک و تعالی نے قرآن پاک کے حفظ کی ضمانت دی ہے اور یہ (سب اس کے) وسائل حفظ میں سے ہے۔‘‘

    ابن باز، فتاويٰ اللجنة، 2 : 325

    ایک اور سوال کے جواب میں ابن باز بدعت دینیۃ اور بدعت عادیۃ کی تقسیم بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

    ’’بدعت کو بدعت دینیہ اور بدعت عادیہ میں تقسیم کیا جاتا ہے پس بدعت عادیہ سے مراد ہر وہ نئی چیز جو کہ مصنوعات یا ایجادات میں سے ہو اور دراصل میں اس پر جواز کا حکم ہے سوائے اس چیز کے کہ جس کے منع پر کوئی شرعی دلیل آ چکی ہو اور پھر بدعت دینی یہ ہے کہ ہر نئی چیز جو دین میں ایجاد کی جائے جو اللہ تعاليٰ کی شرع کے متشابہ ہو (یہ ناجائز ہے)۔‘‘

    ابن باز، فتاويٰ اللجنة، 2 : 329

    بدعت کی لغوی تعریف کے بعد بدعت خیر اور بدعت شر کی تفصیل بیان کرتے ہوئے علامہ ابن باز لکھتے ہیں :

    ’’ہر وہ چیز جو مثال سابق کے بغیر ایجاد کی جائے بدعت کہلاتی ہے۔ پھر ان میں سے جو چیزیں معاملات اور دنیاوی کاموں میں سے ہوں جیسے نقل و حمل کے آلات میں سے جہاز، گاڑیاں، ریلوے انجن، بجلی کا سامان، صنعتی آلات اور ایئرکنڈیشنرز جو کہ ٹھنڈک اور حرارت کے لئے استعمال ہوتے ہیں وغیرہ وغیرہ، اور اسی طرح جنگی آلات میں سے ایٹم بم، آبدوزیں اور ٹینک یا اس جیسی دیگر چیزیں جن کو لوگ اپنی دنیاوی مصلحت کے پیش نظر ترجیح دیتے ہیں۔ یہ تمام چیزیں ایسی ہیں کہ فی نفسہ ان کی ایجادات میں نہ تو کوئی گناہ ہے اور نہ ہی کسی قسم کا حرج ہے مگر ان چیزوں کے مقصد ایجاد کے پیش نظر کہا جا سکتا ہے کہ اگر تو ان چیزوں کے استعمال کا مقصد خیر و سلامتی ہے تو ان چیزوں سے خیر کے معاملے میں مدد حاصل کی جا سکتی ہے تو یہ ایک بھلائی ہے اور اگر ان چیزوں کا مقصد ایجاد زمین میں شر، فساد، تخریب کاری اور تباہی ہے تو پھر ان چیزوں سے مدد حاصل کرنا تباہی و بربادی ہے اور یہ ایک شر اور بلاء ہے۔‘‘

    ابن باز، فتاويٰ اللجنة، 2 : 321

    نوٹ : قارئین کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ شیخ ابن باز بھی اہلحدیث اور غیر مقلد علما میں سے ہیں اور اپنے پیروکاروں میں انتہائی اہم مقام رکھتے ہیں۔ نیز امام کعبہ کےمنصب پر بھی فائز رہے ہیں۔

    آخری گذارش :

    قارئین کرام !‌آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ شریعت اسلامیہ میں بدعت کو کلیتا گمراہی قرار نہیں دیا جاسکتا بلکہ علمائے کرام و محدثین عظام نے ہمیشہ بدعت کو دو قسم کی بدعات میں‌تقسیم کیا ہے۔ بدعت معلوم ہوجانے کے بعد اسکی تحقیق، تعبیر و تشریح کی جاتی ہے جو کہ علمائے کرام اور آئمہ و محدثین کا کام ہے۔کسی بھی نئے کام کے جائز و ناجائز، حسنہ و سئیہ، خیر و بد، مستحب و ضلالۃ ہونے کا تعین علمائے کرام بہتر انداز میں کرسکتے ہیں۔

    اوپر دی گئی فہرست کثیر علماء و آئمہ کرام کے ناموں میں سے چند ایک نام اور انکے اقوال دیے گئے ہیں ورنہ درجنوں اور بیسیوں عظیم علماء و محدثین ایسے ہیں جو بدعت کی تقسیم اور بدعت حسنہ و سئیہ کے قائل ہیں۔

    اللہ تعالی ہمیں دین اسلام کو ایک آسانی والا دین کے طور پر سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اور اس پر آسانی سے عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین ۔
     
  9. فتاة القرآن
    آف لائن

    فتاة القرآن ممبر

    شمولیت:
    ‏16 ستمبر 2009
    پیغامات:
    35
    موصول پسندیدگیاں:
    2

    حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو علم ہوا کہ کچھ لوگ مسجد نبوی میں ایک محفل ذکر میں شریک ہیں ایک کہتا ہے کہ سو بار اللہ اکبر پڑھو تو حاضرین سو دفعہ کنکریوں پر اللہ اکبر پڑھتے ہیں پھر وہ کہتا ہے کہ سو بار کلمہ طیبہ کا ورد کرو تو حاضرین سو دفعہ تہلیل پڑھتے ہیں۔ پھر وہ کہتا ہے سو بار سبحان اللہ کہو تو حاضرین سو دفعہ تسبیح پڑھتے ہیں ۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے ان سے سوال کیا کہ تم ان پر کیا پڑھتے ہو تو انہوں نے کہا کہ ہم تکبیر و تہلیل اور تسبیح پڑھتے ہیں تو آپ نے ان سے کہا کہ

    "تم ان کنکریوں پر اپنے گناہ شمار کرو میں اس بات کا ضامن ہوں کہ تمہاری نیکیوں سے کچھ بھی ضائع نہ ہوگا۔ اے امت محمد تم پر افسوس ہے کہ تم کتنی جلدی ہلاکت میں پڑ گئے ہو جبکہ ابھی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھنے والے تم میں بہت زیادہ موجود ہیں۔ علاوہ ازیں ابھی تو جناب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑے بھی پرانے نہیں ہوئے اور آپ علیہ السلام کے برتن نہیں ٹوٹے۔ اور تمہاری یہ حالت ہے کہ تم بدعت و گمراہی کا دروازہ کھولتے ہو "۔
    [سنن الدارمی صفحہ ۷۹ جلد ۱، رقم الحدیث ۲۰۴]

    میراسوال ہے پلئیز تشریح کیجئے اس حدیث کی
    یھاں جلیل القدر صحابی ذکر اللہ کوبدعت سے کیوں تعبیرکر رہے ہیں ؟


    جزاکم اللہ خیر
     
  10. نور
    آف لائن

    نور ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جون 2007
    پیغامات:
    4,021
    موصول پسندیدگیاں:
    22
    اتنی مفید اور تحقیقی پوسٹ کے لیے شکریہ ۔
    خدا تعالی اجر عطا فرمائے۔ آمین
     
  11. نور
    آف لائن

    نور ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جون 2007
    پیغامات:
    4,021
    موصول پسندیدگیاں:
    22
    بےشک حقیقت یہی ہے جو یہاں اوپر بیان کی گئی ہے۔ اور آئمہ اسلاف بھی اسی پر ہمیشہ سے متفق رہے ہیں ۔ علمائے حق کی عظمت پر اللہ رب العزت نے قرآن حکیم اور احادیث میں ان سے فیض حاصل کرنے کی طرف کتنی رغبت دلائی ہے۔ کاش ہم اسے بھی سمجھ سکیں۔
     
  12. راجہ اکرام
    آف لائن

    راجہ اکرام ممبر

    شمولیت:
    ‏26 دسمبر 2008
    پیغامات:
    84
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    جواب: مرد اور عورت کا اعتکاف

    مکرمی فتاۃ القرآن اور مکرمی بنت الاسلام کو اللہ جزائے خیر عطا فرمائے اس اہم مراسلے پر
    آمین
     

اس صفحے کو مشتہر کریں