1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

عید الفطر۔ ایک سچی خوشی منانے کا دن

'حالاتِ حاضرہ' میں موضوعات آغاز کردہ از گوہر, ‏21 ستمبر 2009۔

  1. گوہر
    آف لائن

    گوہر ممبر

    شمولیت:
    ‏13 مئی 2009
    پیغامات:
    56
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    تحریر: محمد الطاف گوہر
    mrgohar@yahoo.com
    عید الفطر ؛ یا عید عالم اسلام کا ایک مذہبی تہوار ہے جو کہ ماہ رمضان المبارک کے اختتام کی نشاندہی کرتا ہے اور ہر سال بڑی دھوم دھا م سے یکم شوال کو منایا جاتا ہے جبکہ شوال اسلامی کیلنڈر کا دسواں مہینہ ہے۔عید عربی زبان کا لفظ ہے جسکے معنی ؛ خوشی؛ جشن ؛ فرحت اور چہل پہل کے ہیں جبکہ فطر کے معنی روزہ کھولنے کے ہیں؛ یعنی ''روزہ توڑنا یا ختم کرنا''۔ عید الفطر کے دن روزوں کا سلسلہ ختم ہوتا ہے، اس روز اللہ تعالیٰ بندوں کو روزہ اور عبادتِ رمضان کا ثواب عطا فرماتے ہیں، لہذا اس تہوار کو ''عید الفطر'' قرار دیا گیا ہے۔

    عالم اسلام ہر سال دو عیدیں مناتے ہیں ؛عید الفطر اور عید الضحٰی۔عیدالفطر کا یہ تہوار جو کہ پورے ایک دن پر محیط ہے اسے ”چھوٹی عید” کے نام سے بھی جانا جاتا ہے جبکہ اسکی یہ نسبت عیدالاضحیٰ کی وجہ سے ہے کیونکہ عید اضحیٰ تین روز پر مشتمل ہے اور اسے ” بڑی عید” بھی کہا جاتا ہے۔قرآن کریم میں سورت البقر (185آیت) میں اللہ تعالٰی کے فرمان کے مطابق ؛ ہر مسلمان پر ماہ رمضان کے تمام روزے رکھنا فرض ہیں جبکہ اسی ماہ میں قرآن مجید کے اتارے جانے کا بھی تذکرہ ہے؛ لہذا اس مبارک مہینے میں قرآن کریم کی تلاوت کی جاتی ہے۔
    عمومی طور پر عید کی رسموں میں مسلمانوں کا آپس میں ”عید مبارک” کہنا ؛ گرم جوشی سے ایک دوسرے سے نہ صرف ملنا بلکہ آپس میں مرد حضرات کا مردوں سے بغل گیر ہونا ؛ رشتہ داروں اور دوستوں کی آو بھگت کرنا شامل ہیں۔علاوہ ازیں بڑ ے بوڑھے بچے اور جوان نت نئے کپڑے زیب تن کرتے ہیں اور خوشی کا اظہار کرتے ہیں ،ایک دوسرے کی دعوت کرتے ہیں ،مختلف قسم کے کھانے پکائے جاتے ہیں اور جگہ جگہ میلے ٹھیلے منعقد ہوتے ہیں ؛ جن میں اکثر مقامی زبان اور علاقائی ثقافت کا عنصر بھی شامل ہوتا ہے۔
    خصوصی طور پر مسلمان صبح سویرے سورج نکلنے سے پہلے بیدار ہوتے ہیں اور نماز فجر ادا کرتے ہیں پھر دن چڑھے ایک مختصر سا ناشتہ یا پھر کھجوریں کھانے پر ہی اکتفا کرتے ہیں جو کہ ایک طرح سے اس دن روزہ کے نہ ہونے کی علامت ہے۔مسلمانوں کی ایسے مواقع پر اچھے یا نئے لباس زیب تن کرنے کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے جبکہ نئے اور عمدہ لباس پہن کر مسلمان اجتماعی طور پر عید کی نماز ادا کرنے کے لیے مساجد؛ عید گاہوں اور کھلے میدانوں میں جاتے ہیں۔نماز عید میں آتے اور جاتے ہوئے آہستہ تکبیریں کہنا اور راستہ تبدیل کرنا سنت ہے۔ عید کے روز غسل کرنا، خوشبو استعمال کرنا، اور اچھا لباس پہننا سنت ہے۔ عید الفطر کے روز روزہ رکھنا حرام ہے۔
    عید کی نماز کا وقت سورج کے ایک نیزہ کے برابر بلند ہو نے سے ''ضحو ہ کبریٰ'' تک ہے۔ ضحو ہ کبریٰ کا صبح صادق سے غروب آفتاب تک کے کل وقت کا نصف پورا ہونے پر آغاز ہوتا ہے۔ ہر نماز کے ادا کرنے سے پہلے اذان کا دیا جانا اور اقامت کہنا ضروری ہے مگر عید کی نماز کو اذان اور اقامت سے مستثنیٰ رکھا گیا ہے جبکہ اس نماز کی صرف دو رکعات ہوتی ہیں؛ پہلی رکعت میں ثناء کے بعد اور دوسری رکعت میں قرآت سورت کے بعد ہاتھ اٹھا کر تین تین زائد تکبیریں مسنون ہیں۔عیدالفطر کی نماز کے موقع پر خطبہ عید کے علاوہ بنی نوع انسانیت کی بھلائی اور عالم اسلام کے لیے خصوصی دعائیں کی جاتی ہیں جس میں اللہ تعالٰی سے کوتاہیوں اور گناہوں کی معافی مانگی جاتی ہے ؛ اللہ تعالٰی سے اسکی مدد اور رحمت مانگی جاتی ہے۔ علاوہ ازیں خطبہ عید میں عیدالفطر سے متعلق مذہبی ذمہ داریوں کی تلقین کی جاتی ہے جیسے ؛ فطرانہ ؛ کی ادائیگی وغیرہ۔ اسکے بعد دعا کے اختتام پر ہر فرد اپنے دائیں بائیں بیٹھے ہوئے افراد کو عید مبارک کہتا ہوا بغل گیر ہو جاتا ہے۔ نماز کی ادائیگی کے بعد لوگ اپنے رشتہ داروں ؛ دوستوں اور جان پہچان کے تمام لوگوں کیطرف ملاقات کی غرض سے جاتے ہیں جبکہ کچھ لوگ زیارت القبور کی خاطر قبرستان کی طرف جاتے ہیں۔
    شوال یعنی عید کا چاند نظر آتے ہی رمضان المبارک کا مہینہ اپنے اختتام کو پہنچتا ہے جبکہ ہر ایک مسلمان کی زبان سے بے اختیار اللہ کی عظمت کی اور شان کے الفاظ جاری ہو جاتے ہیں ؛ یعنی آہستہ آواز سے تکبیریں کہی جاتی ہے: یعنی؛ اللہ اکبر اللہ اکبر، لاالہ الا اللہ، واللہ اکبر اللہ اکبر و للہ الحمد ؛ تکبیر کہنے کا یہ سلسلہ نماز عید ادا کرنے تک چلتا ہے۔ عید کی نماز ادا کرنے سے پہلے ہر صاحب استطاعت مسلمان مرد و عورت پر صدقہ فطر یا فطرانہ ادا کرنا فرض جو کہ ماہ رمضان سے متعلق ہے۔ مندرجہ ذیل چند باتیں بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہیں: جنکا بیان احادیث مبارکہ ﷺ میں واضح طور پر موجود ہے:
    صدقہ فطر فرض ہے۔ صدقہ فطر نمازِ عید سے قبل ادا کرنا چاہیے ورنہ عام صدقہ شمار ہو گا۔
    صدقہ فطر ہر مسلمان مرد، عورت، آزاد، غلام، چھوٹے، بڑے سب پر فرض ہے۔
    صدقہ کی مقدار ایک صاع ہے جو پونے تین سیر یا ڈھائی کلو گرام کے برابر ہے۔
    گیہوں، چاول، جو، کھجور، منقہ یا پنیر میں سے جو چیز زیر استعمال ہو، وہی دینی چاہیے۔
    صدقہ فطر ادا کرنے کا وقت آخری روزہ افطار کرنے کے بعد شروع ہوتا ہے‘ لیکن نماز عید سے پہلے تک ادا کیا جا سکتا ہے۔جبکہ اسکی مقدار مندرجہ بالا اجناس کی نسبت سے ہے البتہ ان کے علاوہ اس کے برابر قیمت کیش کی شکل میں بھی ادا کی جا سکتی ہے جسکا تعین مقامی طور کیا جاتا ہے اور زیادہ تر مساجد میں ادا کردیا جاتا ہے یا پھر مقامی ضرورت مندوں ؛ غربا اور مساکین میں تقسیم کر دیا جاتا ہے۔
    اسلامی روایات میں عید الفطر ماہ رمضان المبارک کے اختتام کی ایک علامت ہے جبکہ مسلم برادری میں روزہ بنیادی اقدار کا حامل ہے۔علماء کے نزدیک بنیادی طور پر روزہ کا امتیاز یہ ہے کہ اسے انسان کی نفسی محکومی پر روحانیت کی مہر ثبت کرنا تصور کیا جاتا ہے۔اقوام عالم میں مسلم امہ عید کا تہوار بڑے شاندار انداز میں مناتے ہیں۔
    ہجرت مدینہ سے پہلے یثرب کے لوگ دو عیدیں مناتے تھے، جن میں وہ لہو و لعب میں مشغول ہوتے اور بے راہ روی کے مرتکب ہوتے۔ خالص اسلامی فکر اور دینی مزاج کے مطابق اسلامی تمدن ، معاشرت اور اِجتماعی زندگی کا آغاز ہجرت کے بعد مدینہ منورہ میں ہوا ، چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی مدنی زندگی کے ابتدائی دور میں عیدین کا مبارک سلسلہ شروع ہوگیا تھا جس کا تذکرہ سنن ابی داؤد کی حدیث میں ملتا ہے ، حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اہل مدینہ دو دن بہ طور تہوار منایا کرتے تھے جن میں وہ کھیل تماشے کیا کرتے تھے ، رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ان سے دریافت کیا فرمایا : یہ دو دن جو تم مناتے ہو ، ان کی حقیقت اور حیثیت کیا ہے ؟ ( یعنی اب تہواروں کی اصلیت اور تاریخی پس منظر کیا ہے ؟)انہوں نے عرض کیا کہ ہم عہد جاہلیت میں (یعنی اسلام سے پہلے) یہ تہوار اسی طرح منایا کرتے تھے۔یہ سن کر رسول مکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا : اللہ تعالٰی نے تمہارے ان دونوں تہواروں کے بدلے میں تمہارے لیے ان سے بہتر دو دن مقرر فرما دیے ہیں ،یوم (عید ) الاضحٰی اور یوم (عید) الفطر۔ غالباً وہ تہوار جو اہل مدینہ اسلام سے پہلے عہد جاہلیت میں عید کے طور پر منایا کرتے تھے وہ نوروز اور مہرجان کے ایام تھے ، مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ تہوار منانے سے منع فرما دیا اور فرمایا اللہ تعالٰی نے ان کے بدلے میں اپنے خصوصی انعام و اکرام کے طور پر عید الفطر اور عید الاضحٰی کے مبارک ایام مسلمانوں کو عطا فرمائے ہیں۔

    رسول اللہ صلی علیہ و آلہ و سلم کے ارشاد کے مطابق ؛جب مسلمانوں کی عید یعنی عید الفطر کا دن آتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرشتوں کے سامنے اپنے بندوں پر فخر فرماتا ہے، اے میرے فرشتو! اس مزدور کی کیا جزاء ہے جو اپنا کام مکمل کر دے؟ فرشتے عرض کرتے ہیں: اسکی جزاء یہ ہے کہ اس کو پورا اجر و ثواب عطا کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: اے فرشتو! میرے بندوں اور باندیوں نے اپنا فرض ادا کیا پھر وہ (نماز عید کی صورت میں) دعاء کیلئے چلاتے ہوئے نکل آئے ہیں، مجھے میری عزت و جلال، میرے کرم اور میرے بلند مرتبہ کی قسم! میں اِن کی دعاؤں کو ضرو ر قبول کروں گا۔ پھر فرماتا ہے: بندو! تم گھروں کو لوٹ جاﺅ میں نے تمہیں بخش دیا اور تمہارے گناہوں کو نیکیوں میں بد ل دیا۔
    نبی پاک صلی علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: پھر وہ بندے (عید کی نماز سے) لوٹتے ہیں حالانکہ انکے گناہ معاف ہو چکے ہوتے ہیں''
    قرآن مجید میں سورہ ء المائدہ کی آیت 114 میں حضرت عیسی علیہ السلام کی ایک دعا کے حوالے سے عید کا ذکر موجود ہے :ارشاد باری تعالٰی ہے :
    عیسی ابن مریم نے عرض کیا کہ اے اللہ ! ہمارے پروردگار ! ہم پر آسمان سے کھانے کا ایک خوان اتار دے (اور اس طرح اس کے اترنے کا دن ) ہمارے لیے اور ہمارے اگلوں اور پچھلوں کے لیے (بہ طور) عید (یادگار) قرار پائے اور تیری طرف سے ایک نشانی ہو اور ہمیں رزق عطا فرما اور تو بہترین رزق عطا فرمانے والا ہے۔ (5:114)
    اس سے اگلی آیت میں ارشاد ہے :
    اللہ تعالٰی نے فرمایا کہ میں*یہ (خوان) تم پر اتار تو دیتا ہوں ، مگر اس کے بعد جو کفر کرے تو میں اسے ایسا عذاب دوں گا جو سارے جہانوں میں اور کسی کہ نہ دیا ہو۔
    کسی قوم کی خوشی اور مسرت کے دن کا قرآن نے عید کے عنوان سے ذکر کیا ہے اور جو دن کسی قوم کے لیے اللہ تعالٰی کی کسی خصوصی نعمت کے نزول کا دن ہو وہ اس دن کو اپنا یوم عید کہہ سکتی ہے۔
    آج پوری دنیا میں مسلمان بڑی دھوم دھام سے عید الفطر کا تہوار مناتے ہیں جہاں خوشی منانے کے ساتھ ساتھ اسلامی اخلاقی اقدار کی پاسداری بھی کی جاتی ہے۔ جبکہ اقوام عالم امت مسلمہ کے اس تہوار کو بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔پاکستان میں جو کہ ایک اسلامی نظریاتی مملکت ہے ؛ عید بڑے شاندار طریقے سے منائی جاتی ہے۔ سرکاری طور پر عام تعطیل ہوتی ہے۔ بچہ ہو یا بڑا ؛ عید کی تیاری میں جوش و خروش کا عنصر شامل ہوتا ہے۔ خواتین اور بچوں کی تیاری تو قابل دید ہے۔ عید کی تیاری میں نت نئے لباس و دیگر لوازمات کی شاپنگ دیکھنے کو آتی ہے جو کہ ایک زندہ قوم کی روح رواں کے طور پر سامنے آتی ہے۔

    چاند رات کو تو ایک جشن کا سماں بند جاتا ہے ؛ بازاروں میں تل دھرنے کی جگہ میں ملتی۔ خواتین عید کی شاپنگ میں مصروف نظر آتی ہیں اور اس روز کی شاپنگ میں مہندی ؛ چوڑیاں اور عید کارڈ وغیرہ کی خریداری نمایاں نظر آتی ہے۔ جبکہ مختلف مقامات پر خصوصی عید بازاروں کا اہتمام بھی ہو تا ہے۔ جن میں خاصی تعداد میں نوجوان دوکاندار نظر آتے ہیں۔ عید کے پیغامات کا سلسلہ تو چاند نظر آنے کے بعد سے ہی شروع ہو جاتا ہے۔ موبائل ایس ایم ایس کی گھنٹیوں کا سلسلہ باندھ لیتے ہیں جبکہ جدت کے عنصر کے باعث انٹرنیٹ ای میل کی وساطت سے خوبصورت عید کارڈ کے پیغامات دوست و احباب کو ارسال کئے جاتے ہیں۔ خصوصی طور پر پیاروں کو یاد کیا جاتا ہے اور اس تیز رفتار زندگی میں کچھ لمحات ایسے آتے ہیں کہ ان لوگوں کو جو عزیز ہوتے ہیں مگر مصروفیت کے باعث وقتی طور پر بھلا چکے ہوتے ہیں ان سے روابط استوار کیے جاتے ہیں۔ روٹھوں کا منایا جاتا ہے ؛ نفرتوں پر پیار کی آبیاری کی جاتی ہیں۔
    پاکستان میں عید کے روز ہر گھر میں صبح کے وقت سویاں پکائی جاتی ہے اور اس کا ناشتہ کیا جاتا ہے۔ سویاں پاکستان کے علاوہ بھارت اور چلی میں بھی عید کے روز پکانے کا رواج ہے۔ہمارے ہاں عید منانے کی تیاریاں عموما پہلے ہفتے سے ہی شروع ہو جاتی ہیں اور لوگ نئے کپڑوں کی خریداری اور سلائی میں مشغول ہو جاتے ہیں ، نئے جوتے خریدے جاتے ہیں،بازاروں میں رش بڑھ جاتا ہے دکاندار اشیاء کی قیمتیں بڑھا دیتے ہیں اور ایک دوسرے سے مہنگی خریداری کی جاتی ہے۔ اب تو عید ایک نمود و نمائش کا موقع بن چکا ہے۔مختلف کھانے پکائے جاتے ہیں اور اپنے سے چھوٹوں کو عید دی جاتی ہے اور بڑوں سے وصول کی جاتی ہے۔یہ عیدی تحفوں کے علاوہ نقد رقم پر مشتمل ہوتی ہے۔اس روز ہر شہر ، دیہات اور گاؤں میں سرکس اور میلے لگتے ہیں۔ البتہ ایک بات نوجوانوں کی بہت خطرناک ہے ؛ آج نوجوان سڑکوں پر گھڑ سواری نہیں کرسکتے البتہ موٹر سائیکل یا بائیسکل سے اپنی تشنگی پورا کرتے ہیں۔ نوجوان موٹر سائیکل کو تیز چلانے کے دوران اچانک اگلا پہیہ ہوا میں اٹھا دیتے ہیں اور سارا وزن پچھلے پہیے پر ڈال دیتے ہیں اور اس طرح موٹر سائیکل ایک پہیہ پر چلتی ہے۔اس عمل کو ون ویلنگ کہا جاتا ہے۔ ایک طرف اگر دور سے دیکھنے والے یہ منظر بڑا دلربا محسوس ہوتا ہے تو دوسری طرف موٹر سائیکل چلانے والے کو ایک انجانی لذت کا احساس ہوتا ہے جو اسے بار بار اس موت و زندگی کا کھیل کھیلنے پر مجبور کرتا ہے۔ ون ویلنگ کرنے والے کو اس کا انجام معلوم نہیں کہ کھیل ہی کھیل میں کیا نقصان ہوسکتا ہے۔ نوجوان ایک دوسرے سے بازی لے جانے کے شوق میں اکثر اپنے ہنستے بستے خاندان کو غمناک المیہ سے دوچار کر جاتے ہیں۔ موٹر سائیکل کا توازن اگر برقرار نہ رہے تو اس کی انتہائی قیمتی جان پلک جھپک میں موت کا شکار ہوجاتی ہے۔حکومت کی طرف سے اس موت و زندگی کے کھیل کو روکنے کی کوئی خاطر خواہ کوشش نہیں کی گئی لہذا جب کبھی کوئی تہوار، عید و میلہ کا موقع ہوتا ہے من چلے کوئی بھی موقع اپنے ہاتھ سے جانے نہیں دیتے اور اپنا ون ویلنگ کا شوق ضرور پورا کرتے ہیں ضرورت اس بات کی ہے کہ اس عمل سے نوجوانوں کو روکا جائے انسانی جان سے زیادہ قیمتی چیز اس دنیا میں کوئی نہیں .
    تمام قارئین کو میری طرف سے عید مبارک ؛ اور امید ہے کہ سب لوگ رسمی رکھ رکھاؤ کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنے سے کم رتبہ اور غریب لوگوں کو بھی گلے سے لگائیں گے کیونکہ سچی خوشی تو وہی ہے جو آپ کو ردعمل کے طور پر ملے اور جب کسی دکھی ؛ غریب ؛ کمزور کو سینے سے لگایا جاتا ہے تو یقین مانیں یہ حالت آپکی مسرتوں میں اضافہ کا باعث بنے گی۔ عید کے موقع پر نفرتوں کو بھول کر نہ صرف اپنوں بلکہ غیروں کو بھی گلے سے لگا لینا چاہئے۔ عید کا دن پھر ہی یاد گار بن سکتا ہے اگر ہم ایسے نقش چھوڑ جائیں کہ ہر طرف خوشیاں ہی خوشیاں بکھیر دیں۔
    عید پر سعید کے موقع پر اپنی خوشیوں میں انکو ضرور شامل کریں جنکا کوئی پوچھنے والا نہیں، کیونکہ اسلامی معاشرہ مساوات اور روداری کا درس دیتا ہے جبکہ سب ارکان اپنی جداگانہ اہمیت رکھتے ہیں کسی کو اس خوشی کے موقع پر کسی کمی کا احساس نہ رہے ، جو نعمت اللہ تعالیٰ نے آپ کو دی ہے دوسروں کو اس میں شامل کریں۔ خوشیاں بانٹنے سے بڑھتی ہیں اور یہی چھوٹی چھوٹی خوشیاں ہی تو زندگی کی راہوں میں تازگی اور مسرتوں کے چراغ ہیں اگر انکی روشنی دوسروں کی راہوں میں بکھیر دی جائے ان میں کمی نہیں ہو گی ۔اسکے ساتھ ساتھ والدین کو خصوصی وقت دینا چاہیے کیونکہ زندگی کے انتہائی تیز رفتار شب و روز میں اکثر بزرگوں کو دینے کیلئے ہر چیز ہم خرید کر تو دے دیتے ہیں اور اشیا صرف کا انبار بھی لگا دیتے ہیں مگر ایک چیز جسکی شدید کمی ہے اور وہ وقت ہے جو ہم لوگ اپنے والدین اور بزرگوں نہیں دے پاتے ، کبھی انکی آنکھوں میں چھپی ہوئی یاسیت اور تکان کو پڑھنے کی کوشش نہیں کرتے ۔ عید کا دن جہاں پیار محبت اور خوشیاں بانٹنے کا دن ہے وہاں نفرتوں ، ملامتوں اور ناراضگی کے مٹانے کا بھی دن ہے ، آئیے اپنے اقربا اور احباب کی کھوئی ہوئی مسکان انکو لوٹا دیں جو کبھی کی رشتوں کی کڑواہٹ کے بھینٹ چڑ چکی ہے ، نہ معلوم اگلی عید کے موقع پر اسکے چکانے کا موقع ملے نہ ملے ۔ رب العزت سے دعا ہے کہ سب کی دلی مرادیں پوری کرے اور ہم سب کو دائمی خوشی سے نوازے اور سب کو بار بار لاثانی مسرتوں سے لبریز عید کے مواقع دیکھنے نصیب کرے !!! آمین
     
  2. خوشی
    آف لائن

    خوشی ممبر

    شمولیت:
    ‏21 ستمبر 2008
    پیغامات:
    60,337
    موصول پسندیدگیاں:
    37
    بہت شکریہ اس شئیرنگ کا ، مگر تکبیروں کا قرات کے بعد پڑھنا شاید یہاں کچھ غلطی ھے،

    باقی مضمون خوبصورت ھے
     
  3. گوہر
    آف لائن

    گوہر ممبر

    شمولیت:
    ‏13 مئی 2009
    پیغامات:
    56
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    شکریہ نشاندہی کا، اپنی طرف سے تو کوشش یہی ہوتی ہے کہ معلومات کو صحیح طور تحریر کیا جائے البتہ کہیں کوئی کوتاہی ہو جائے تو اللہ تعالٰی معاف فرمائے ، مگر اختلافی امور کا میرے پاس کوئی جواب نہیں۔
     
  4. فواد -
    آف لائن

    فواد - ممبر

    شمولیت:
    ‏16 فروری 2008
    پیغامات:
    613
    موصول پسندیدگیاں:
    14
    Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

    عید الفطر کے موقع پر صدر اوبامہ کا پیغام

    اب جب کہ امریکہ اور دنیا بھر کے مسلمان ماہ صیام مکمل کرکے عید الفطر منارہے ہیں، مشیل اورمیں اس پرمسرت موقع پر دلی مبارکباد پیش کرتے ہیں ۔ عید تیس دن کی شب وروزعبادت کی تکمیل پر خوشی منانے کا وقت ہے۔ لیکن خوشی کے اس تہوار کو مناتے ہوئے بھی مسلمان،غربت ، بھوک ، تنازعے اور بیماری سے متاثرہ افراد سمیت ان لوگوں کو یاد رکھتے ہیں جو کم خوش نصیب ہیں۔ پورے ماہ رمضان میں ، مسلمان کمیونٹیز زکواة الفطر اکٹھی اور تقسیم کرتی ہیں تاکہ تمام مسلمان عید کی خوشیوں میں شریک ہوسکیں ۔ جیسا کہ میں نے قاہرہ میں کہا تھا ، میری انتظامیہ اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کر رہی ہے کہ مسلمان صرف رمضان ہی میں نہیں بلکہ سارا سال اپنی فلاحی ذمہ داریاں پوری کر سکیں ۔ ہم امریکی عوام کی جانب سے امریکہ اور دنیا بھر کے مسلمانوں کو اس متبرک دن پر مبارکباد پیش کرتے ہیں ۔ عید مبارک۔


    فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
    digitaloutreach@state.gov
    www.state.gov
     
  5. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم الطاف گوہر بھائی ۔ کثرتِ امت، سوادِ اعظم اہلسنت والجماعت کے ہاں عید کی نماز کا یہی طریقہ ہے جو آپ نے بیان فرمایا ہے اور یہی سنت طریقہ ہے۔

    آپ کو بھی عید مبارک ہو۔
    اور موقع کی مناسبت سے اتنا معلومات افزا مضمون ارسال فرمانے پر بہت شکریہ ۔
     
  6. خوشی
    آف لائن

    خوشی ممبر

    شمولیت:
    ‏21 ستمبر 2008
    پیغامات:
    60,337
    موصول پسندیدگیاں:
    37
    گوہر جی ، میں نے‌ غلطی نکالنے کی غرض سے نہیں کہا تھا اور نہ ہی میرا کسی اختلافی امور پہ کوئی بحث شروع کروانے کا ارادہ تھا ، کیونکہ میں بخوبی جانتی ہوں ایسے معاملات میں اعلی اخلاق کے لوگ بھی پٹری سے اتر جاتے ھیں

    آپ کی تحریر بلاشبہ قابل تعریف تھی سو تعریف کی ، میں تو اس قسم کے اختلافات سے بچنے کی خاطر ہی ایسے موضوعات کی بحث میں حصہ ہی نہیں لیتی
     
  7. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    گوھر جی,!!!!
    جزاک اللہ خیر،!!!!!!!!
    خوبصورت ماشااللٌہ،!!!!!!
     
  8. گوہر
    آف لائن

    گوہر ممبر

    شمولیت:
    ‏13 مئی 2009
    پیغامات:
    56
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    اسلام علیکم!
    آپ سب کا شکریہ کہ میری تحریر آپکو پسند آئی ۔
    بحر حال میرا ہر آرٹیکل پہلے دلیل پھر حوالہ اور جدت کی کسوٹی سے گزر کر پھر منطق کی سیڑھیاں عبور کرکے آپ تک پہنچتا ہے ، یہ دراصل میری عادت ہے کسی بھی بات کو پرکھنے یا لکھنے کی ۔
    البتہ بحیثیت انسان کبھی اپنے الفاظ کو حرف آخر نہیں کہا ، کوئی بھی تصحیح اپنے لیے دل و جان سے قبول کرتا ہوں کیونکہ انسان سیکھتا یا سیکھا تا ہی اچھا لگتا ہے۔
    فواد صاحب کا بھی شکریہ کہ انہوں نے عید الفطر کے موقع پر صدر اوبامہ کا پیغام ہمیں پہنچایا البتہ ان سے ایک گلہ ضرور ہے کہ اگر آپ اپنے پیغام کے ساتھ ای میل ایڈریس لکھتے ہیں تو کسی کی میل کا جواب بھی دیا کریں ۔۔۔ کیونکہ ایک میل بھجوایا تھا ، مگر
    ہنوز دلی دور است
     
  9. راشد احمد
    آف لائن

    راشد احمد ممبر

    شمولیت:
    ‏5 جنوری 2009
    پیغامات:
    2,457
    موصول پسندیدگیاں:
    15
    بہت عمدہ مضمون ہے الطاف بھائی

    عید کی سچی خوشی یہ ہے کہ عید پر دوسروں کا خیال رکھا جائے

    اس عید پر زرداری صاحب ساری قوم کو چھوڑ کر امریکہ چلے گئے تھے۔ شہباز شریف صاحب نے بے سہارا بچوں کے ایک ادارے میں عید منائی تھی جبکہ ہمارے وفاقی وزاء اور ایم این ایز و ایم پی ایز نے کسی ادارے کا رخ نہیں کیا۔
    اصولی طور پر انہیں یہ کرنا چاہئے کہ عید کا کچھ وقت کسی یتیم خانے، اولڈ ایج ہومز، بے سہارا بچوں کے سکولز اور غریب بستیوں میں منانی چاہئے ان کے لئے مل کر کیک، آئس کریم اور پکوان کابندوبست کرنا چاہئے تاکہ وہ بھی عید کی حقیقی مل سکیں۔

    جہاں ہم قوم کو بے حس کہتے ہیں وہیں ہمارے حکام بھی بے‌حس ہیں۔ اس وقت اس ملک کےعظیم سیاہ ستدان بیرون ملک عید منارہے ہیں
    زرداری اور اسفندیار ولی امریکہ میں
    نواز شریف جدہ میں
    الطاف حسین لندن میں
    عمران‌خان اٹلی میں
     
  10. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    اگر عوام کو یورپ یا امریکہ کا ویزہ مل جائے تو کوئی بھی پاکستان نہ رہے ۔ سبھی باہر عیدیں منا رہے ہوں ۔
    وہ تو ان بےچاروں کو ویزہ نہیں ملتا اسی لیے پاکستان بیٹھے ہیں۔ :201:
     
  11. محبوب خان
    آف لائن

    محبوب خان ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏28 جولائی 2008
    پیغامات:
    7,126
    موصول پسندیدگیاں:
    1,499
    ملک کا جھنڈا:
    نعیم بھائی ۔۔۔ بہت ہی خوبصورت اور مبنی بر حقیقت بات کی ہے بلکہ ایک اہم پہلو کی طرف نشاندہی کی ہے۔
     
  12. راشد احمد
    آف لائن

    راشد احمد ممبر

    شمولیت:
    ‏5 جنوری 2009
    پیغامات:
    2,457
    موصول پسندیدگیاں:
    15
    اچھی بات ہے پاکستان کی آبادی کم ہوجائے گی اور ملکہ گالیات فردوس عاشق اعوان کو پاکستانی عوام پر دو سے زیادہ بچوں پر ٹیکس لگانے کا موقع نہیں مل سکے گا :201:
     
  13. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    ویسے میں نے یوٹیوب پر کل ہی ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان ٹاک شو کے کلپس دیکھے ہیں ۔ اور یقین کریں دیکھ کر سر شرم سے جھک گیا کہ قومی چینل پر بھی " ڈاکٹر " صاحبہ ایسی گفتگو فرما سکتی ہیں
    اور
    نہ صرف فرما سکتی ہیں بلکہ اس کے بجا، درست ہونے پر اصرار بھی فرما سکتی ہیں۔ :mad:
     
  14. بزم خیال
    آف لائن

    بزم خیال ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 جولائی 2009
    پیغامات:
    2,753
    موصول پسندیدگیاں:
    334
    ملک کا جھنڈا:
    مجھے قوی یقین ہے کہ ائندہ الیکشن میں ڈاکٹر فردوس زیادہ لیڈ سے جیتے گی اتنی اعلی اور معیاری گفتگو کے بعد ان کا گراف اوپر چلا گیا ہو گا اپنے حلقہ میں ،عوام کو لوٹوں سے اس لئے پیار ہے کہ وہ لوٹتے اور کار خاصوں سے لٹواتے ہیں بری سے بری قوم بھی اپنے لئے بے داغ راہنما چاہتی ہے اور ہمیں چاہئے صرف داغدار!!!!!!!!!
    داغ تو اچھے ہوتے ہیں​
     

اس صفحے کو مشتہر کریں