1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

”اتنی رقم نہیں کہ ٹریفک سگنل بحال کیا جاسکے“

'حالاتِ حاضرہ' میں موضوعات آغاز کردہ از فیصل شیخ, ‏21 جولائی 2009۔

  1. فیصل شیخ
    آف لائن

    فیصل شیخ ممبر

    شمولیت:
    ‏6 اپریل 2007
    پیغامات:
    159
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    ”اتنی رقم نہیں کہ ٹریفک سگنل بحال کیا جاسکے“
    ایک فلسفی کا قول ہے کہ اگر کسی قوم کے نظم و ضبط کو جانچنا ہو تو اس کی ٹریفک سے اندازہ لگالو۔مگر کیا کوئی تصور بھی کرسکتا ہے کہ اس ترقی یافتہ دور میں کسی ملک کا سب سے بڑے رقبے والا صوبہ اپنے دارالحکومت سمیت ٹریفک کے نظم ونسق اور سگنلز سے محروم ہوسکتا ہے یہ صورتحال آپ کو بلوچستان کے تمام اضلاع میں دیکھنے کو ملے گی اور بالالخصوص کوئٹہ شہر جس کی آبادی 20لاکھ سے تجاوز کرگئی ہے جہاں بے ہنگم ٹریفک کااژدھام ہے مگر شہری زندگی کوترتیب میں رکھنے اور ٹریفک کو رواں رکھنے کیلئے شہری حکومت اور ٹریفک پولیس کی جانب سے کوئی موثر نظام موجود نہیں۔

    صوبے کے 30اضلاع اور صوبائی دارالحکومت میں ٹریفک کے برقی اشارے موجود نہیں ۔5سال قبل کروڑوں روپے کی لاگت سے کوئٹہ میں ایک درجن چوراہوں پر سگنلز لگائے تو گئے مگر صرف ایک دن چلنے کے بعد اب یہ نظام ناکارہ ہوگیا ہے اور ٹریفک پولیس کے اہلکار ہاتھ کے اشاروں سے بے ہنگم ٹریفک کو کنٹرول کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں جو تیز رفتاری کے اس دور میں بظاہر صرف سرکاری نوکری اور ڈیوٹی کے اوقات پوری کرنے کی ایک کوشش لگتی ہے۔

    ٹریفک کے سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس فقیر حسین کے بقول برقی اشاروں کو چلانا اور اسے درست کرنا ضلعی حکومتوں کا کام ہے جس سے پولیس کا کوئی سروکار نہیں ان کا کہنا تھا کہ کوئٹہ جسے انگریزوں نے 75ہزار کی آبادی کیلئے ڈیزائن کیا تھا اور اسی حوالے سے سڑکوں کی ترتیب اور چوڑائی رکھی تھی آج اسی شہر کی آبادی 20لاکھ سے تجاوز کرگئی ہے مگر سڑکوں کی تعداد اور ان کی چوڑائی وہی ہے۔جبکہ گاڑیوں کی تعداد 1لاکھ سے زیادہ ہے انہوں نے انکشاف کیا کہ ٹریفک کیلئے ملک کے دوسرے حصوں میں باقاعدہ ٹریفک انجینئرنگ بیورو موجود ہیں جو منصوبہ بندی کرتے ہیں اور جہاں اوور ہیڈ برجز اور انڈرپاسز کی ضرورت ہوتی ہے اس سے حکومت کو آگاہ کرتے ہیں مگر بلوچستان میں اس قسم کا کوئی ادارہ نہیں ہے ۔ان کا کہنا تھا کہ صوبائی دارالحکومت میں ٹریفک کے صرف 200اہلکار ہیں جو انتہائی ناکافی ہیں ان اہلکاروں میں زیادہ تر ڈبل ڈیوٹی کرنے کے باعث نفسیاتی اور کم خوابی کے مریض بن گئے ہیں ۔فقیر حسین نے بتایا کہ شہریوں میں ٹریفک سینس بھی نہ ہونے کے برابر ہے اوپر سے 13ہزار سی این جی رکشوں کا بوجھ بھی ڈال دیا گیا اور یہ رکشے ایسے افراد کو سابقہ حکومت نے دیئے ہیں جن کے پاس لائسنس ہے اور نہ ہی شعور۔

    اس بارے میں جب ضلعی حکومت کے نائب ناظم منظور احمد کاکڑ سے بات کی تو انہوں نے بھی تسلیم کیا کہ کوئٹہ میں ٹریفک کا کوئی قانون نہیں جس کی مرضی اسی طرف نکل جاتا ہے اور ٹریفک جام کے مسئلے نے شدت اختیار کرلی ہے سکول اور سرکاری دفتروں کے اوقات میں تو ان کے بقول گاڑی نکالنا انتہائی مشکل ہے ۔ٹریفک سگنلز کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ جس ٹھیکیدار نے اسے نصب کیا تھا وہ بھاگ چکا ہے اور ضلعی حکومت کے پاس مزید اتنی رقم نہیں ہے کہ سگنلز کے نظام کو دوبارہ چالو کرائے ۔ٹریفک انجینئرنگ بیورو کے حوالے سے انہوں نے سارا ملبہ صوبائی حکومت پر ڈالتے ہوئے کہا کہ جب حکومت فنڈز فراہم کریگی تو ضلعی حکومتیں کوئی اچھا کام کرسکیں گی۔


    دوسری جانب عوام کا کہنا ہے کہ جنرل پرویز مشرف کے ضلعی حکومتوں کے نظام نے ہر نظام کو بھگاڑ دیا ہے کوئی کسی کو جوابدہ نہیں نہ ہی احتساب کے ادارے ضلعی سطح پر وجود رکھتے ہیں ان کے بقول یہاں آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے جو بھی آتا ہے عوام کو طفل تسلیاں دیکر اور اپنی لوٹ مار کرکے چلا
    جاتا ہے کوئٹہ کو کسی نے اب تک اپنا شہر سمجھتے ہوئے اس کی ترقی کیلئے کوئی کام نہیں کیا۔
     
  2. راشد احمد
    آف لائن

    راشد احمد ممبر

    شمولیت:
    ‏5 جنوری 2009
    پیغامات:
    2,457
    موصول پسندیدگیاں:
    15
    شیخ صاحب
    ضلعی حکومتوں کا نظام برا نہیں تھا بلکہ اسے بنادیا گیا ہے۔ میں اس نظام کے حق میں ہوں‌کیونکہ اس سے سیاست میں کئی لوگ نچلے طبقے سے آتے ہیں لیکن ہوا کچھ الٹ

    1۔ ضلعی سیاست میں بڑے سیاستدانوں اور سیاسی جماعتوں کے سربراہوں‌کے عزیز رشتہ دار آگئے
    2۔ ضلعی حکومت کو سیاستدان اپنے مذموم مقاصد کے لئے استعمال کرتے رہے۔
    3۔ ضلعی سیاست کی وجہ سے جرائم، مہنگائی کی شرح میں اضافہ ہوا۔
    4۔ مشرف دور میں‌ضلعی حکومتیں مخالفین کو انتقام اور ووٹ اکٹھے کرنے کا ذریعہ بناتی رہیں۔

    اب اسے ختم کرکے آپ بیوروکریسی کی‌صورت میں ایک اور بلا اوپر نازل کرلیں گے۔ لیکن اسے ختم کرنے کی بجائے اسے refine کرنا چاہئے تھا اور مڈل کلاس طبقے کو اس میں سو فیصد نمائندگی دی جانی چاہئے تھی

    یورپ، امریکہ، چین، جنوبی کوریا اور دیگر ممالک میں اچھی قیادت ضلعی نظام ہی مہیا کرتا ہے جیسے مہاتیر محمد، احمدی نژاد، من موہن سنگھ وغیرہ
    اس لئے اسے درست کرنے کی ضرورت ہے۔
     
  3. راشد احمد
    آف لائن

    راشد احمد ممبر

    شمولیت:
    ‏5 جنوری 2009
    پیغامات:
    2,457
    موصول پسندیدگیاں:
    15
    ٹریفک سگنلز کا مسئلہ ہرجگہ ہے اس کی وجہ کچھ سیاستدانوں کی ملی بھگت سے معیاری کمپنیوں کے ٹریفک سگنلز کا انتخاب ہے۔ لاہور میں ایک کمپنی کو میں جانتا ہوں جس نے سرکاری اثرورسوخ پر ٹریفک سگنلز لگائے ہیں لیکن تمام کے تمام ناقص
     
  4. وقاص علی قریشی
    آف لائن

    وقاص علی قریشی ممبر

    شمولیت:
    ‏15 فروری 2009
    پیغامات:
    79
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    کوئٹہ کی آبادی صرف 20 لاکھ ہے حیدرآباد کی آبادی 30 لاکھ تک پہنچ چکی ہے پاکستان کا ساتواں بڑا شہر میں آتا ہے جبکہ کوئٹہ شاید چھوتے یا پانچوے نبمر پر
     
  5. زاہرا
    آف لائن

    زاہرا ---------------

    شمولیت:
    ‏17 نومبر 2006
    پیغامات:
    4,208
    موصول پسندیدگیاں:
    11
    جزوی تبدیلیوں پر رونے کی بجائے کسی اجتماعی انقلاب کی طرف کیوں نہ چلا جائے؟
     
  6. چیٹرcheater
    آف لائن

    چیٹرcheater ممبر

    شمولیت:
    ‏26 دسمبر 2007
    پیغامات:
    147
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    ملک کا جھنڈا:
    جناب میں نے لاہور کی سڑکوں پر بھی جن میں مال روڈ بھی شامل ہے ٹریفک سارجنٹس کو ہاتھوں کے اشاروں سے ٹریفک کنٹرول کرتے دیکھا ہے۔
     
  7. انجم رشید
    آف لائن

    انجم رشید ممبر

    شمولیت:
    ‏27 فروری 2009
    پیغامات:
    1,681
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    زہرا جی بلکل سچ کہا آپ نے یہاں اب انقلاب کی ضرورت ہے
     
  8. انجم رشید
    آف لائن

    انجم رشید ممبر

    شمولیت:
    ‏27 فروری 2009
    پیغامات:
    1,681
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    مجھے ایک واقع یاد آگیا چار سال پہلے میرے ساتھ میرے گورے دوست بھی پاکستان آے تھے
    رات کے دوبجھے تھے ہم لاہور مال روڈ پر جا رہے تھے آگے اشارہ سرخ تھا ڈریور نے پراہ نہ کی اگلے چوک پر اشارا سبز تھا ڈریور نے گاڑی روک لی گوروں نے پوچھا کہ یہ کیا ماجرہ ہے سرخ اشارہ توڑ دیا اور سبز پر گاڑی روک لی تو ڈریور نے کہا اس لیے گاڑی روکی ہے کہ دوسری طرف سے ہماری شاید کوی سرخ اشارا نہ توڑ دے
    تو گورا کہنے لگا تم لوگ پھر ایسا کرو کہ نظام بدل دو سرخ نہ رکیں اور سبز پر رک جایا کریں
    جب ہم خود ہی نہیں بدل سکتے تو حکومت کو کیا کہنا
     

اس صفحے کو مشتہر کریں