1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

بلوچستان کے مسائل کے حل میں سنجیدگی ضروری ہے

'حالاتِ حاضرہ' میں موضوعات آغاز کردہ از راشد احمد, ‏8 مئی 2009۔

  1. راشد احمد
    آف لائن

    راشد احمد ممبر

    شمولیت:
    ‏5 جنوری 2009
    پیغامات:
    2,457
    موصول پسندیدگیاں:
    15
    پاکستان اس وقت کئی مسائل کا شکار ہے ایک طرف مہنگائی، بیروزگاری، لوڈشیڈنگ، بدامنی عام ہے تو دوسری طرف حکومتی رٹ کو چیلنج کیا جارہا ہے۔ سوات، بلوچستان، بونیر، کراچی بدامنی کا شکار ہے۔ بلوچستان ایک طرف غیر ملکی سازشوں کا مرکز ہے تو دوسری طرف بلوچستانی عوام کو یہ باور کرایا جارہا ہے کہ ان کے مسائل کا ذمہ دار پنجاب ہی ہے۔

    ذوالفقار علی بھٹو نے سردار اختر مینگل کی حکومت ختم کرکے صوبے میں اضطراب، بے چینی بڑھا دی۔اور بعد میں بلوچستان میں مری اور بگٹی قبیلے پر لشکر کشی کردی جس کا ذمہ دار پنجاب کو قرار دیا جاتا رہا۔ مشرف دور میں نواب اکبر بگٹی کو ہلاک کیاگیا جس کی وجہ سے ملبہ ایک بار پھر پنجاب پر ڈال دیا گیا۔ پھر آصف زرداری کے دورحکومت میں تین سرداروں کو ہلاک کیا گیا تو پھر پنجاب زیر عتاب آگیا۔

    دیکھا جائے تو بھٹو، زرداری، پرویز مشرف کا تعلق سندھ سے تھا نا کہ پنجاب سے۔ لیکن اس کے باوجود بلوچستان میں مقیم پنجابیوں، سندھیوں پختونوں پر حملے کی وارداتیں عام ہوچکی ہیں ان کے قتل اور گھروں کو جلانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ بلوچستان میں نفرت پھیلانے کے پیچھے کونسے ہاتھ کارفرما ہیں ان میں ماضی کے صدر مشرف، بھٹو قابل ذکر ہیں جبکہ موجودہ صدر آصف زرداری بھی سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کررہے۔

    ان حالات میں میاں محمد نواز شریف کا کردار مثبت ہے۔ انہوں نے وزیراعظم گیلانی کو کچھ دن پہلے تجویز دی کہ قومی کانفرنس بلائی جائے لیکن اس تجویز کے کچھ دن بعد ہی زرداری لیبیا کے دورہ پر چلے گئے حالانکہ لیبیا کا دورہ بعد میں بھی کیا جاسکتا تھا۔جب تک زرداری صاحب آمادہ نہیں ہوتے یہ کانفرنس ممکن نہیں کیونکہ حکومت کی باگ دوڑ ان کے ہاتھ میں ہے۔ دوسری طرف کراچی میں دہشت گردی کی وارداتیں ہورہی تھیں اور معصوم لوگ جانوں سے ہاتھ دھورہے تھے تو زرداری‌صاحب طرابلس میں شہیدوں کے مزاروں پر حاضری فرمارہے تھے حالانکہ انہیں اسی وقت دورہ ادھورا چھوڑ کر وطن واپس آنا چاہئے تھا۔ جب برطانیہ میں 7 جولائی کو بم دھماکے ہوئے تو ٹونی بلئیر بیرون ملک تھے وہ دورہ ادھورا چھوڑ کر واپس آگئے۔ اسے کہتے ہیں‌ذمہ داری

    بلوچستان کے مسائل کیا ہیں اور انہیں کیسے حل کیا جاسکتا ہے۔ امید ہے کہ حکومت کو بلوچیوں کا موقف معلوم ہوگا۔ بلوچیوں کے مسائل باآسانی حل کئے جاسکتے ہیں۔ بلوچی رہنماؤں کو ایک کانفرنس کے تحت بلایا جائے اور ان سے پوچھا جائے کہ ان کے مسائل کیا کیا ہیں اور ان کے مسائل جنگی بنیادوں پر حل کئے جائیں۔ مجھ جیسے ناقص العلم قاری کے مطابق بلوچستان کے درج ذیل حل ہوسکتے ہیں۔

    1۔ بلوچستان کے تمام میگا پراجیکٹس میں پہلے بلوچیوں کوشریک کیاجائے۔ اگر ان میں اتنی اہلیت نہ ہوتو ان کی مناسب ٹریننگ کی جائے۔

    2۔ بلوچیوں کی جن زمینوں سے گیس نکلتی ہے ان علاقوں میں ایک ضابطہ کے تحت مکمل خودمختاری دی جائے۔ بلوچیوں کو صنعتیں بنا کر دی جائیں تاکہ وہ ایل پی جی، سی این جی گیس خود تیارکرسکیں۔

    3۔ دوسرے صوبوں کو گیس کی فراہمی کی صورت میں حکومت آمدنی کم از کم پچاس فیصد حصہ بلوچستان حکومت کو دے۔

    4۔ شرح خواندگی بڑھانے کے لئے بلوچستان میں ایک بڑی تعداد میں سکول، کالج، یونیورسٹیاں قائم کی جائیں، خاص طور پر ووکیشنل اور ٹیکنیکل انسٹی ٹیوٹ بنائے جائیں۔

    5۔ بلوچستان میں افغانستان سے آنیوالوں کی باقاعدہ رجسٹریشن کی جائے تاکہ امن وامان کی‌صورت حال خراب نہ ہوں۔

    6۔ بلوچستان کے حقوق اس شرط میں پورے کئے جائیں کہ یہاں سرداری نظام ختم کریں۔تاکہ برابری کی فضاء پیدا ہو اور لوگ سرداری نظام کے اثر سے نکل سکیں۔

    7۔ بلوچستان کو وفاقی وزارتوں اور ملازمتوں میں متناسب نمائندگی دی جائے

    8۔ بلوچستان میں تمام سرکاری ملازمتیں‌صرف بلوچیوں کو دی جائیں۔

    9۔ بلوچستان میں‌صنعتوں کا جال بچھایا جائے جن میں پہلے بلوچیوں کو ملازمت دی جائے۔

    ماضی میں ہم مشرقی پاکستان اسی وجہ سے کھو چکے ہیں کہ ہم نے مشرقی پاکستان کے لوگوں کو حقوق سے محروم رکھا، جس کا نتیجہ ہم بنگلہ دیش کی صورت میں بھگت رہے ہیں آج وہ بنگلہ دیش ترقی میں ہم سے آگے نکل گیا ہے اور ہم اس سے بہت پیچھے جارہے ہیں اس کی وجہ ناانصافی پر مبنی نظام ہے۔ خدانخواستہ بلوچستان میں جاری شورش کو کنٹرول نہ کیاگیا اور ہم بلوچستان سے ہاتھ دھو بیٹھے تو ان وسائل سے بھی ہاتھ دھو بیٹھیں گے جنہیں ہم استعمال کررہے ہیں۔طاقت سے مسائل حل نہیں ہوتے مزید الجھتے ہیں، اچھی سیاست وہی ہوتی ہے جو مذاکرت اور مفاہمت سے کی جائے۔اگر ابھی بلوچستان کے مسائل کے حل میں سنجیدگی نہ دکھائی گئی اور تاخیری حربے استعمال کئے گئے تو خدانخواستہ ایک اور نتیجہ بنگلہ دیش کی صورت میں نکل سکتا ہےاور پیپلزپارٹی کو ایک بار پھر ملک توڑنے کا ذمہ دار ٹھہرایا جاسکتا ہے۔
     
  2. محبوب خان
    آف لائن

    محبوب خان ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏28 جولائی 2008
    پیغامات:
    7,126
    موصول پسندیدگیاں:
    1,499
    ملک کا جھنڈا:
    ذوالفقار علی بھٹو نے سردار اختر مینگل کی حکومت ختم نہیں کی بلکہ ان کے والد سردار عطاء اللہ مینگل کی حکومت ختم کی تھی۔

    یہ تینوں سردار نہیں‌تھے۔۔۔۔۔اور دوسری اہم بات کہ مکران ڈویژن میں کوئی قبائلی نظام موجود ہی نہیں ہے۔۔۔۔۔سو کسی کے سردار ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں‌ہوتا۔
     
  3. راشد احمد
    آف لائن

    راشد احمد ممبر

    شمولیت:
    ‏5 جنوری 2009
    پیغامات:
    2,457
    موصول پسندیدگیاں:
    15
    تصحیح کے لئے شکریہ محبوب بھائی :flor:
     
  4. خوشی
    آف لائن

    خوشی ممبر

    شمولیت:
    ‏21 ستمبر 2008
    پیغامات:
    60,337
    موصول پسندیدگیاں:
    37
    اچھی شئیرنگ ھے خان جی کی نشاندہی پہ اور بھی اچھی ہو گئی :a180:
     
  5. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم۔ راشد بھائی ۔ آپ کی تحریر بہت معلوماتی ہے۔ ماشاءاللہ ۔ بہت شکریہ ۔

    محبوب خان بھائی ۔ آپ کا تعلق چونکہ بنیادی طور پر اسی علاقے سے ہے اس لیے آپ سے گذارش ہے کہ بلوچستان کے ماضی و حال پر کچھ روشنی ڈالیے تاکہ ہم سمجھ سکیں کہ حقائق کیا ہیں اور پراپیگنڈہ کیا ہے ۔

    پیشگی شکریہ ۔
     
  6. محبوب خان
    آف لائن

    محبوب خان ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏28 جولائی 2008
    پیغامات:
    7,126
    موصول پسندیدگیاں:
    1,499
    ملک کا جھنڈا:
    نعیم بھائی دل تو میرا کررہا تھا کہ جامع مضمون لکھوں اور پھر ارسال کردو۔۔۔۔مگر جب دو دن کی کشمکش کے بعد کچھ لکھ بھی نہیں‌پایا تو سوچا کہ نعیم بھائی فرمائش کریں اور وہ بھی ایک موضوع پر تو اور نہیں‌تو کچھ تو لکھا جائے اور پھر دوسرے احباب بھی کچھ نہ کچھ جب زینت موضوع کریں گے تو امید ہے کہ مزید معلومات مل جائیں گی۔

    بلوچستان کے مسئلے کا آغاز سوویت یونین نے کیا تھا۔۔۔۔۔کیونکہ سوویت یونین کو گرم پانیوں تک پہنچنا تھا۔۔۔۔۔۔اور گوادر۔۔۔۔۔۔کوئی نیا منصوبہ نہیں‌ہے بلکہ ذورالفقار علی بھٹو صاحب بھی گوادر پورٹ کو بنانے میں‌دلچسپی رکھتے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔یاد رہے کہ موجودہ افریقی ملک تنزانیہ اسکا کچھ حصہ ۔۔۔ایک جزیرے کی صورت۔۔۔۔۔۔جو کہ عربی میں‌زنجبار اور اب ۔۔۔زینیبار۔۔۔کہلاتا ہے سلطنت عمان کا حصہ تھا اور اس وقت بھی یہ لوگ گوادر پورٹ کے زریعے ۔۔۔۔یعنی گلف سے گوادر آتے اور پھر کچھ آرام کے بعد افریقہ کی طرف نکل پڑتے۔۔۔۔۔اس وقت بادبانی کشیوں کی وجہ ۔۔۔۔چلنی والی ہواؤں کا رخ بھی ان کے لیے مجبور تھی کہ بلوچستان کے ساحلی علاقے سے ہوکے آگے چلیں‌جائیں اور دوسری اہم بات کہ وہ یہاں سے لوگوں کو اپنے فوج بھرتی کرکے آگے لے جاتے تھے اور زینیبار میں اب بلوچی رہتے ہیں جو اس وقت وہاں چلے گئے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایک تحقیق سے تو یہ بھی ثابت ہے کہ محمد بن قاسم بھی شاید مکران کے ساحلوں میں‌ہی اترے اور اس کے بعد دیبل کی طرف گئے ۔۔۔۔۔۔ یہاں ایک اور ساحلی شہر ہے جیونی۔۔۔۔۔جیونی کی موجودہ وجہ شہرت دنیا کی بہترین "سن سیٹ" کے نظارے ہیں۔۔۔۔۔اس کے علاوہ دوسری جنگ عظیم میں‌اور اس سے کچھ پہلے انگریزوں نے یہاں نیول ہیڈ کواٹر بنایا تھا ۔۔۔۔۔اور اب بھی وہ نیول بیس پاکستان نیوی کے زیر استعمال ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہاں چلتے چلتے ذکر کروں‌کہ 5000 بی سی سال پرانے تہزیب میں‌موہنجو داڑو "نزد موجودہ لاڑکانہ، سندھ" اور ہڑپہ کے ہم عصر بلوچستان میں "اوماڑہ" شہر آباد تھا۔

    بلوچستان کے ساحلی علاقوں میں‌افریقی نسل بلوچ بھی ہیں وہ اس طرح کہ یہ لوگ اصل میں افریقی ہیں مگر آکے بلوچستان میں ساحلوں‌میں‌آباد ہوگئے اور پھر بلوچ ہی کہلائے۔۔۔۔۔ان کے پکے رنگ اور گھنگھریالے بال ان کی پہچان ہیں۔۔۔۔۔اس کے علاہ موجودہ کراچی کے علاقے "لیاری" میں کافی آبادی ہے۔۔۔۔۔۔۔اور یہی لوگ سندھ میں "شیدی" کہلاتے ہیں۔

    مکران کو پہلے کیچ بھی کہتے تھے بلکہ اب بھی مقامی لوگ کیچ یا کیچ مکران کہتے ہیں اور "سسی، پنّو" لوک داستان میں سے پنّو کا تعلق مکران سے ہی تھا۔۔۔۔۔۔۔مکران ڈویژن میں جیساکہ گوادر، پسنی، جیونی، اوماڑہ، تربت، مند، بلو، بلیدہ، زامران، خاران وغیرہ کے علاقوں میں کوئی قبائلی نظام موجود نہیں‌ہے یعنی قبیلے تو موجود ہیں مگر کوئی سردار وغیرہ کوئی نہیں‌ہے اس کے علاوہ باقی بلوچستان کے نسبت یہاں پڑھے لکھے لوگ زیادہ ہیں اور سیاسی طور پر بھی کافی بالغ نظر ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہاں جو بلوچی زبان بولی جاتی ہے اس میں فارسی لفظوں‌کی آمیزش زیادہ ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔۔اور ان کا لہجہ بھی فارسی بیسڈ ہے کسی حد تک۔۔۔۔۔۔۔۔اس کے علاہ کوئیٹہ، چمن، پشین، ژوب، زیارت وغیرہ میں پٹھان آباد ہیں اور یہ حصہ بلوچستان کا ذرخیز ترین علاقہ ہے ۔۔۔۔۔۔ ڈرائی فروٹ، سیب اور انگور کے باغوں‌کی وجہ سے بہت ہی زیادہ شہرت رکھتا ہے۔۔۔۔۔۔اس حصے کے لوگ زیادہ مزہبی ہیں جیساکہ خان صاحب ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔جبکہ بلوچ قبائل مزہب کی بجائے اپنے رسم و رواج کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں گو کہ ان کے کچھ رسم و رواج مزہب ہی کے پرانے کچھ تبدیل شدہ شکلیں ہیں جیساکہ۔۔۔۔۔۔۔ڈیرہ بگٹی، کوہلو اور دیگر مشرقی بلوچستان میں عام طور پر لوگ بڑے ہی شوق اور ذوق سے داڑھیاں‌رکھتے ہیں اور اس چیز کو وہ اپنا رسم و رواج ہی سمجتھے ہیں اور اس کے علاہ کئی امثال موجود ہیں۔۔۔۔۔۔بلوچستان کے تیسرے علاقے میں‌مری، بگٹی اضلاع، جعفرآباد، نصیرآباد، سبی، بولان، بارکھان وغیرہ آتے ہیں جہاں بولی جانے والی بلوچی میں‌سندھی، سرائیکی اور پنجابی کے الفاظ زیاد ہیں جس کی وجہ سے یہ بلوچی اور مکرانی بلوچی میں‌بہت زیادہ فرق ہے اور یہاں‌تک ممکن ہے مکرانی بلوچی آکے ان علاقوں میں‌اردو یا ملا جلا بلوچی بول کے بات چیت کرسکے۔۔۔۔۔۔
    کچھ اضلاع جیسا کہ قلات، ساراوان، جھالاوان، خضدار وغیرہ میں براہوی قبائل آباد ہیں اور وہ براہوی زبان بولتے ہیں اور یہ قدیم دراوڑی زبان کی ایک شکل ہے۔

    پہلی دفعہ مری قبائل نے سوویت یونین کے تعاون سے جو کہ موجودہ ضلع کوہلو‌میں آباد تھے اور ہیں‌ حکومت پاکستان کے خلاف جدوجہد کا اعلان کیا اور مکرانی بلوچوں‌سے صرف سیاسی نعرے لگائے جبکہ جانی و مالی نقصان مری قبائل کا ہوا۔۔۔۔۔اور ان میں‌کچھ بھاگ کر افغانستان اور ماسکو چلے گئے تھے اس وقت بھٹو صاحب وزیر اعظم تھے جبکہ بگٹی صاحب گورنر بلوچستان تھے ۔۔۔۔۔۔یہ غالبا 1974ء کی بات ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پھر مشرف کے دور میں ایک بار پھر وہی صورت حال پیدا ہوگئی اور اب کے بار مری اور بگٹی قبائل نے پھر سے اسی پرانے نعرے کے ذریعے اپنی کوششیں کی ۔۔۔۔۔۔۔۔جس کی ایک تان موجودہ صورت حال ہے۔۔۔۔۔۔۔بلوچستان میں تعلیم کے شدید کمی نے اور وہاں کسی بھی انفراسٹکرچر کی غیر موجودگی نے وہاں کے عام لوگوں کو ترقی کے دوڑ میں پیچھے ہی رکھا۔۔۔۔گو کہ لوگ صرف یہ الزام لگا کے خاموش ہوجاتے ہیں کہ وہاں کے سردار اس میں رکاوٹ ہیں تو عرض‌ہے کہ جہاں‌سرداری نظام موجود نہیں‌ہے وہاں‌کیا گیا ہے۔۔۔۔۔۔۔سو اگر وہاں تعلیمی اداروں کو ۔۔۔۔۔اور جو موجود ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ وہ تو بس ہیں‌ہی ورنہ معیار کس بلا کا نام ہے انھیں اس سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔اپ ڈیٹ کیا جائے۔۔۔۔۔۔۔اور یاد رکھیں کہ پرائمری اور سیکنڈری تعلیم ہی میں‌توجہ دینے کی ضرورت ہے۔۔۔۔اس کے علاہ ریلوے اور سڑکوں‌کا فقدان ہے۔۔۔۔۔۔جو چیز عام ہے کچھ شورش زدہ علاقوں میں‌وہ ہے اسلحہ کی ریل پیل۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور جو ہر جگہ عام ہے وہ ہے قوم پرستی کے خالی خولی نعرے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جس طرح صوبہ سرحد میں‌سیاسی لوگ "مزہب " کا نعرہ لگا کے ووٹ لیتے ہیں‌اسی طرح وہاں‌قومیت کا نعرہ لگا کے ووٹ لیے جاتے ہیں۔۔۔۔مگر جن علاقوں‌میں سرداری نظام ہے وہاں‌نہ مزہب نہ قومیت بلکہ صرف اپنا قبیلا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جب یہ سب کچھ لکھنے لگا تھا تو صرف یہ ارادہ تھا کہ نعیم بھائی نے فرمائش کی ہے توکچھ لکھ ہی لوں ۔۔۔۔۔۔اور مجھے معلوم ہے کہ موضوع میں‌روانی قابو سے باہر ہوگیا کہ ماضی و حال دونوں کے بارے کچھ بیان کرتے کرتے تسلسل کی کمی ہے مگر کچھ تو لکھا ہی ہے سو "ناٹ دی لاسٹ بٹ لیسٹ" سمجھ کے قبول کرلیں‌۔
     
  7. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم۔ پیارے محبوب خان بھائی ۔

    یقین کریں وطنِ عزیز کے اہم حصہ بلوچستان کے بارے میں اتنی جامع و تفصیلی معلومات ایک ہی نشست میں پہلی دفعہ پڑھنے کو ملیں۔ میں آپکا دل کی گہرائیوں سے ممنون ہوں ۔ بہت سی معلومات قابلِ فخر بھی ہیں۔ اور بہت سی قابلِ غور و فکر بھی ۔

    محبوب بھائی ۔ آپ نے درست فرمایا کہ بنیادی تعلیم اور بنیادی انسانی حقوق کی فراہمی کسی بھی ریاست کے بنیادی فرائص میں ہوتا ہے اور وہی ریاستیں نقشہء ارضی پر تادیر موجود رہتی ہیں جو اپنے عوام کو یہ سہولیات بطریق احسن مہیا کرتی ہیں۔ ہمیں بطور پاکستانی اس امر پر سوچنا اور غور کرنا ہوگا اور ایسے نااہل حکمرانوں سے نجات حاصل کرنا ہوگی جو آج تک پاکستان کے مختلف خطوں کو اپنی مفاد پرستی کی بھینٹ چڑھا کر بنیادی حقوق سے محروم رکھے ہوئے ہیں۔

    محبوب خان بھائی ۔ ایک بار پھر دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ نے اتنی محبت سے پیارے بلوچستان کے بارے ہمیں بتلایا ۔ آپکے قلم کی روانی سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ اس موضوع پر ابھی بہت کچھ مزید لکھ سکتے ہیں ۔ اور امید ہے کہ گاہے بگاہے یہ علمی کام سر انجام دیتے رہیں گے۔ انشاءاللہ ۔

    اللہ تعالی آپکو جان و ایمان کی سلامتی عطا فرمائے۔ آمین
     
  8. محبوب خان
    آف لائن

    محبوب خان ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏28 جولائی 2008
    پیغامات:
    7,126
    موصول پسندیدگیاں:
    1,499
    ملک کا جھنڈا:
    نعیم بھائی پسندیدگی اور نیک تمناؤں‌کا شکریہ اور انشاء اللہ کوشش کرونگا کہ بلوچستان کے بارے جو کہ رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا تقریبًا 44 فیصد ہے جبکہ آبادی اندازہ ایک کروڑ کے قریب ہے۔ ۔۔۔ کچھ نہ کچھ بیان کرتا رہوں۔

    گوادر سمندری بندرگاہ کے بارے کچھ بیان کرنے کو جی چارہا ہے سو کراچی بندرگاہ سے اس کی اہمیت کیوں‌ زیادہ ہے ۔۔۔۔۔ کراچی بندرگاہ میں‌زیادہ سے زیادہ ۔۔۔جہاں تک مجھے معلوم ہے ۔۔۔تصحیح کی دعوت احباب کو ہے۔۔۔۔۔70 ہزار ٹن وزنی جہاز لنگر انداز ہوسکتے ہیں۔۔۔۔اس کے علاوہ اس بندرگاہ کے ایک طرف دریائے سندھ کے گرنے سے ۔۔۔۔۔دریائی مٹی کی وجہ سے دلدلی ہوگیا ہے۔۔۔۔۔جبکہ دوسری طرف یعنی بلوچستان کے سائیڈ۔۔۔۔۔سمندر کے نیچے چٹانی پہاڑ ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔اب کسی جہاز کو اگر کراچی بندرگاہ پہ لنگر انداز ہونا ہے تو اس کا مطلب ہے ایک طرف دلدلی علاقہ اور دوسری طرف چٹانیں، سو ان کا خیال رکھتے ہوئے جہاز کو بندرگاہ کی طرف لے جانا ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔یاد رکھیں کہ بندرگاہ کی گہرائی کا تعلق اس میں‌اتنے ہی وزنی جہاز لنگرانداز ہوسکنے کا سبب بنتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ سب بیان کرنے کے ہرگز مطلب نہیں کہ کراچی بندرگاہ کی کوئی اہمیت نہیں‌بلکہ مقصود یہ ہے کہ ہم یہ دیکھیں‌گے کہ اس کے مقابلے میں جب آج کل ہرطرف گوادر پورٹ کا جو شور ہے وہ کیوں ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔گوادر بندرگاہ قدرتی طور پر گہرے بندرگاہوں میں‌شمار کیا جاتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ بلوچستان کے ساحل میں ایسے کئی گہرے قدرتی گہرے بندگاہ موجود ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔70 ہزار ٹن کے مقابلے ۔۔۔۔کراچی بندرگاہ۔۔۔یہاں 5 لاکھ ٹن وزنی جہاز بغیر کسی دقت کے لنگر انداز ہوسکتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔اور پچھلے دنوں یوریا کھاد کے لدے وزنی جہاز گوادر بندرگاہ میں ہی ان لوڈ کیے گئے۔۔۔۔۔اس کے علاہ کراچی اور گوادر کو ملانے کے لیے کوسٹل ہائی وے بھی بنا دیا گیا ہے مگر اپنے معیار کی وجہ سے وہ شدید ٹھوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔۔۔۔۔۔۔۔یہ ہائی وے اس لیے بنایا گیا کہ بڑے بڑے مال بردار بحری جہاز یہاں لنگر انداز ہوں اور اس کے بعد وہاں سے کراچی سامان کو لے جایا جائے کیوں کہ کارخانے تو کراچی میں قائم ہیں اور اگر ہم لوگ کچھ پیدا بھی کریں تو اسی طرح بیجھا بھی جاسکتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن اس کے علاوہ افغانستان کے راستے جو وسط ایشائی ریاست جو کہ سویت یونین کے ٹوٹنے سے وجود میں‌آئے میں گوادر کے ذریعے کاروبار وغیرہ کرسکتے ہیں۔۔۔۔۔اس کی اہمیت چین کے لیے بھی اتنا ہی اہم ہے کیوں چین کے اپنے بندرگاہ ان کے شمالی حصوں سے 5000 ہزار کلومیٹر تک دور ہیں جبکہ اس کے مقابلے میں گوادر صرف 2000 ہزار کلو میٹر دوری پہ ہے۔

    لیکن ان فائدوں کے باوجود گوارد پورٹ کے کچھ نقصانات بھی ہیں‌مثًلا ایرانی بندرگاہ اور دبئی بندرگا ہوں کو اس سے خطرہ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسا کہ ملائشیاء اور سنگار پور کے بندرگا ہیں ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔سنگار پور کیوں کہ پہلے آتا ہے اور ملاییشیاء زرا اندر کرکے ہے تو عام طور پر سنگاپور کو ہی بحری جہاز استعمال کرتے ہیں۔۔۔۔۔یہ ایسے ہی ہے کہ ایک بندرگاہ مین روڈ پہ واقعہ ہو اور ایک کسی اندرونی گلی میں۔۔۔تو ہرکوئی مین روڈ سے گزرتے ہوئے اسی پہ واقع سہولت سے مستفید ہوگا نہ کہ وہ میں‌روڈ سے اتریں اور پھر اس گلی میں جائیں‌اور پھر کچھ فائدہ حاصل کریں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سو گوادر کے کئی اندرونی و بیرونی مخالف ہیں۔۔۔کچھ بڑی طاقتیں بھی اس سے خائف ہیں کہ چائینہ اور وسط ایشائی ریاستیں اگر استعمال کریں گی تو نہ صرف وہ ملک بلکہ پاکستان کو اس کا بہت ہی زیادہ فائدہ ہوگا۔

    اس سے آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ بلوچستان میں بے چینی کیوں پھیلائی جارہی ہے اور کون سے کون سے شاہ اور شاہوں کے وفادار میں اس میں اپنا حصہ ڈال رہے تاکہ اس منصوبے کو ناکام بنایا جا سکے۔
     
  9. نیلو
    آف لائن

    نیلو ممبر

    شمولیت:
    ‏8 اپریل 2009
    پیغامات:
    1,399
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    محبوب خان صاحب ۔ آپ تو :mashallah: بلوچستان کا انسائیکلوپیڈیا ہیں۔
    بہت سا شکریہ
     
  10. راشد احمد
    آف لائن

    راشد احمد ممبر

    شمولیت:
    ‏5 جنوری 2009
    پیغامات:
    2,457
    موصول پسندیدگیاں:
    15
    شکریہ محبوب بھائی مفید انفارمیشن ہیں۔
     
  11. زاہرا
    آف لائن

    زاہرا ---------------

    شمولیت:
    ‏17 نومبر 2006
    پیغامات:
    4,208
    موصول پسندیدگیاں:
    11
    السلام علیکم۔ جناب محبوب خان صاحب۔
    بلوچستان صوبہ سے متعلق مفصل معلومات ارسال فرمانے کے لیے شکریہ ۔ :titli:
     
  12. بےلگام
    آف لائن

    بےلگام مہمان

    میں بھی ادھر اپنی کوئی رہے دے سکتا ہوں :nose:
     
  13. بےلگام
    آف لائن

    بےلگام مہمان

    بہت خوب
     
  14. نصیراحمد
    آف لائن

    نصیراحمد ممبر

    شمولیت:
    ‏30 اپریل 2009
    پیغامات:
    57
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    حکمرانوں کی پالیسیوں میں تضاد ہے،بلوچستان کے عوام کو معاشی و سیاسی حقوق دئیے جائیں،قیام امن کیلئے سوات ضرورت جاؤنگا،ظفر الحق
    جمعرات اپریل 23, 2009
    اسلام آباد ( رپورٹ: قاسم نواز) پاکستان مسلم لیگ ( ن) کے چیئرمین راجہ ظفر الحق نے اعلان کیا ہے کہ وہ سوا ت میں قیام امن کے لیے وہاں ضرور جائیں گے اور مقامی لیڈر شپ سے مذاکرات کریں گے تاکہ یہ مسئلہ حل ہوسکے بلوچستان کے مسائل بھی مذاکرات سے حل کئے جاسکتے ہیں وہاں ابھی تک حالات کنٹرول میں ہیں تاہم رابطے اور اعتماد کی کمی کا سامنا ہے اندرونی و بیرونی سازشوں اور دخل اند ا ز یوں کا مقابلہ کرنے کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کو اتحاد کا عملی ثبوت دینا چاہیے ان خیالات کا اظہار انہوں نے چیف ایڈیٹر’’ جناح‘‘ خو شنو د علی خان کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے کیا خو شنو د علی خان نے اپنی گفتگو میں راجہ ظفر الحق سے سوال کیا کہ راجہ صاحب آپ جیسے قدوقامت کے سیاسی رہنما کو ضرور قیام امن کے لیے سو ات جانا چاہیے اس سے امن کا راستہ ضرور نکلے گا وقت گزر جاتا ہے اب آپ جیسے رہنماؤں کو سو ات کی طرف امن لانگ مارچ کرنا چاہیے جس پر مسلم لیگ ( ن) کے چیئرمین نے جواب دیا کہ وہ خود بھی سوچ رہے ہیں کہ سو ات میں قیام امن کے لیے وہاں جانا چاہیے اور وہاں جاکر مثالی لیڈر شپ سے بات کرنی چاہیے اور ان لوگوں اور رہنماؤں سے بھی رابطہ کرنا چاہیے کیونکہ مذاکرات سے مسائل حل ہوسکتے ہیں راجہ ظفر الحق نے مزید کہا کہ بلوچستان کے حالات اس وقت گھمبیر صورتحال اختیار کر چکے ہیں حکمرانوں کی پالیسیوں میں تضاد ہے جس کی وجہ سے حالات اس نہج تک پہنچ گئے ہیں اگر بلوچستان کے عوام کو اس کے معاشی اور سیاسی حقوق دے دئیے جائیں تو یہ مسئلہ بھی حل ہوسکتا ہے ا نہو ں نے کہا کہ ماضی میں بلوچستان کے عوام سے بڑی زیادتی ہوئی ہے سوئی گیس کی بلوچستان کو رائلٹی 50روپے اور سندھ اور پنجاب سے نکلنے والی گیس پر 200روپے رائلٹی دی جارہی ہے جو زیادتی ہے اس کو برابری کی سطح پر لانا چاہیے ملازمتیں میرٹ پر دی جائیں انہوں نے کہا کہ 77ء میں فوجی آپریشن بند ہوا تو وفاقی حکومت نے ریلوے ، وا پڈ ا اور مواصلات کے افسروں کی ایک مشترکہ ٹیم کوئٹہ بھجوائی تھی جس نے تمام بے روزگار نوجوانوں کو بھرتی کیا تھا جس کی وجہ سے نہ صرف امن بحال ہوگیا تھا بلکہ اس سے ان کے خاندان کو بھی معاشی استحکام ملا اور انہیں محسوس ہوا کہ وہ بھی پاکستان کا حصہ ہیں راجہ ظفر الحق نے کہا کہ اگر ایک جاب کے لیے بی اے کی شرط ہے تو اسے کم کرکے ایف اے کر دیا جائے تاکہ زیادہ سے زیادہ نوجوان ملازمتوں میں آسکیں اور بلوچستان کے نوجوانوں کو پنجاب اور وفاق کے علاوہ دوسرے صوبوں اور فوج میں بھی ملاز متیں دی جانی چاہیئں انہوں نے کہا کہ بیورو کر یسی نے ہمیشہ وسائل کی تقسیم کیلئے آبادی کو بنیاد بنایا جس کی وجہ سے بلوچستان جو رقبے کے اعتبار سے آدھے پاکستان سے زیادہ ہے اس کے ساتھ ناانصافی ہوئی اس لیے اب ضرورت ہے کہ پہلے ناانصافی ختم ہو اور دوسرے علاقوں کو برابر لانے کے لیے اقدامات کیے جائیں راجہ ظفر الحق نے کہا کہ بلوچ سردار ترقی کے دشمن نہیں ہیں یہ سارا پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے اگر انہیں آئین کے مطابق حقوق دئیے جائیں یو نیو ر سٹیا ں ، کالج اور میڈیکل کالج بنا دئیے جائیں تو حالات بہتر ہوسکتے ہیں صرف چھاؤنیاں بنانے سے مسائل حل نہیں ہوتے بلوچستان میں کاریز کا سسٹم ناکارہ ہوگیا ہے اگر وہاں پانی کی فراوانی شروع ہوجائے تو وہاں کی زمین دوسرے صوبوں سے بہتر فصل پیدا کرتی ہے اور سب کی پیداوار دوگنا ہوجائے گی سعودی عرب اور مصر کی طرح سمندری پانی کو قابل استعمال بنا کر پانی کا مسئلہ حل کیا جائے ایک سوال کے جواب میں راجہ ظفر الحق نے کہا طالبانائزیشن کے مسئلے کو سنجیدگی سے لینا چاہیے اس بارے میں بہت سے ممالک پاکستان کو غیر مستحکم کرنا چاہتے ہیں اور اپنے اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھا رہے ہیں جن میں ان کی کوشش ہے کہ ہمارے اندرونی اختلافات کو بڑھایا جائے اور ان کی پہلی کوشش یہ ہے کہ ہمیں کمزور کرکے ہماری ایٹمی صلاحیت کو چھین لیا جائے اور باقی پاکستان کو چھپنے والے نقشوں کے مطابق مختلف حصوں میں تقسیم کر دیا جائے انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں ابھی تک صورتحال کنٹرول میں ہے رابطہ کی کمی کی وجہ سے اعتماد کی کمی ہے اور بیرونی ہاتھ بھی اس میں ملوث ہے اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ سب سیاسی جماعتوں کو مل کر HANDS OF PAKISTANبنایا جائے اور باہر سے آنے والوں کو مل جل کر روکنا چاہیے انہوں نے کہا کہ میاں نواز شریف کی پالیسیوں میں کوئی تضاد نہیں وہ پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ روایتی نظام بارے عوام میں بے چینی پائی جاتی ہے اور عام آدمی چاہتا ہے کہ اس کی زندگی میں آسانیاں پیدا ہوں اس لئے انہوں نے کہا تھا کہ اگر عدالتی اصلاحات نہ ہوئیں تو حالات اسی رخ کی طرف جاسکتے ہیں جس طرح سو ات کے ہیں اور پھر مارچ کو روکنے والے ناکام رہیں گے
     
  15. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم۔ محبوب خان بھائی ۔
    اتنی تفصیلی معلومات مہیا کرنے پر آپ نے پھر سے مجھے اپنا گرویدہ کر لیا۔
    بہت بہت شکریہ ۔

    اللہ تعالی ہمارے ملک کو دشمنوں کی نظرِ بد سے محفوظ رکھے۔ آمین
     
  16. محبوب خان
    آف لائن

    محبوب خان ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏28 جولائی 2008
    پیغامات:
    7,126
    موصول پسندیدگیاں:
    1,499
    ملک کا جھنڈا:
    پسندیدگی کے لیے شکریہ نیلو صاحبہ۔۔۔۔۔بس جو کچھ جانتا ہوں ۔۔۔۔کہیں پڑھا ہے ۔۔۔۔۔یا کہیں سے سنا ہے۔۔۔۔۔۔اپنے ٹوٹے ہوئے الفاظوں سے بیان کرنے کی سعی کررہا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور انشاء اللہ مزید اس سلسلے میں لکھتا رہونگا۔
     
  17. محبوب خان
    آف لائن

    محبوب خان ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏28 جولائی 2008
    پیغامات:
    7,126
    موصول پسندیدگیاں:
    1,499
    ملک کا جھنڈا:
    بہت خوب نصیر صاحب :dilphool:
     
  18. محبوب خان
    آف لائن

    محبوب خان ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏28 جولائی 2008
    پیغامات:
    7,126
    موصول پسندیدگیاں:
    1,499
    ملک کا جھنڈا:
    آمین ثم آمین۔۔۔۔۔۔نعیم بھائی کم علمی بھی ایک محرومی ہے اور اس کا نقصان ہم سقوط ڈھاکہ کی صورت میں‌اٹھا چکے ہیں کہ "سب اچھا بھائی سب اچھا" کی رپورٹ عام اور محب وطن عوام کو دے دیا جاتا تھا اور پتا اس وقت چلا جب "چڑیا چگ گئیں کھیت"۔۔۔۔۔۔۔لیکن اب کے انشاء اللہ ایسے نہیں ہوگا۔۔۔۔۔۔۔۔اور تمام اہل وطن۔۔۔۔۔اپنے اپنے حیثیت اور صلاحیتوں کے مطابق۔۔۔۔دفاع وطن میں اور بین الاقوامی برادری میں‌اپنا مقام بنانے کے لیے سرگرم عمل ہیں جو کہ فرض عین ہے۔

    سو ہمیں‌جو کچھ پتا ہے اسے اگر کم از کم طشت ازبام کرتے جائیں تو کم علمی کے سوراخ سے کوئی ہمیں‌ دوبارہ نہیں‌ڈس سکتا۔

    مزید مضامین بھی انشاء اللہ زیب ہماری اردو کرتا رہونگا۔
     
  19. محبوب خان
    آف لائن

    محبوب خان ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏28 جولائی 2008
    پیغامات:
    7,126
    موصول پسندیدگیاں:
    1,499
    ملک کا جھنڈا:
    راشد بھائی یہ آپ ہی کا شروع کیا ہوا لڑی ہے سو کوشش کررہا ہوں کہ کچھ حق ادا ہو۔۔۔۔۔اور نعیم بھائی کا شکریہ کہ ان کے توجہ دلانے سے بات بنی۔
     
  20. محبوب خان
    آف لائن

    محبوب خان ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏28 جولائی 2008
    پیغامات:
    7,126
    موصول پسندیدگیاں:
    1,499
    ملک کا جھنڈا:
    پسندیدگی و حوصلہ افزائی کے لیے شکریہ۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں