1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

2006 اور مسئلہ کشمیر

'حالاتِ حاضرہ' میں موضوعات آغاز کردہ از نعیم, ‏30 دسمبر 2006۔

  1. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    کشمیر 2006 :فارمولوں،مظاہروں اور لچک کا سال

    ریاض مسرور
    بی بی سی اُردو ڈاٹ کام، سرینگر​

    2006 میں کشمیر میں سیاحوں پر چوبیس بم حملے ہوئے
    ہندوستان کے زیرِانتظام کشمیر میں2006 کے دوران امن عمل اور تشدد ساتھ ساتھ جاری رہا۔
    ایسا پہلی بار ہوا کہ جنسی دلالی کے معاملے کو لے کر قریب تین ماہ تک عوامی تحریک جاری رہی یہاں تک کہ سکینڈل کی سرغنہ سمیت کئی سرکردہ شخصیات اور سیاستدانوں کو قید کی سزا ہوئی۔

    تاہم سال بھر پاکستانی صدر جنرل پرویز مشرف کی تجاویز کے حوالے سے سیاسی ماحول خاصا گرم رہا اور یہی وجہ ہے کہ 2006 کو مسئلہ کشمیر کے حل سے متعلق فارمولوں، سیاسی کانفرنسوں اور لیڈروں کے بیرونی دوروں کا سال قرار دیا جا رہا ہے۔

    مشرف کے فارمولے

    اس سال کے آغاز میں 25 جنوری کو ناروے کے دارالحکومت اوسلو میں نوبل انسٹیٹیوٹ کی تقریب سے خطاب کے دوران جنرل مشرف نے کہا کہ وہ ’آؤٹ آف بُکس‘ حل کے لیے تجاویز پر بحث کے لیے تیار ہیں، کیونکہ بقول ان کے آزادی کا آپشن ہندوستان کو تسلیم نہ ہوگا۔

    پاکستانی صدر اس برس کشمیر کے مسئلے کے حل کے لیے سرگرم نطر آئے

    یہ بیان اسلام آباد، نئی دلّی اور سرینگر میں مباحثوں اور کانفرنسوں نیز لیڈروں کے دوروں کا گویا محرک بن گیا۔ بعدازاں 14 جنوری کو سی این این ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے جنرل مشرف نے نئی دلّی کے اس بیان کو ’400 فیصد غلط‘ بتایا جس میں کہا گیا تھا کہ ان کے آئیڈیاز پر ’بیک چینل ڈپلومیسی‘ نہیں ہوئی۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ تجاویز کو تحریری طور بہت پہلے حکومت ہند کو پیش کیا جا چکا ہے اور یہ کہ، ’جب تجاویز کا جواب نہیں آیا تو مجھے اِنہیں پبلک کرنا پڑا‘۔

    27 فروری کو پاکستانی دفتر خارجہ کی ترجمان تسنیم اسلم نے پریس کانفرنس میں انکشاف کیا کہ ان تجاویز کو’مختلف سطحوں پر ڈسکس کیا جا رہا ہے‘ جبکہ 10 مارچ کو ایک تقریب میں صدر مشرف نے انکشاف کیا کہ جموں کشمیر کے مشترکہ کنٹرول کی تجویز دراصل حکومت ہند کے خفیہ مصالحت کار آنجہانی جے این ڈکشٹ نے درپردہ مکالموں کے دوران اپنے پاکستانی ہم منصب طارق عزیز کو دی تھی۔ انہوں نے اسی تقریب میں یہ اعلان بھی کیا کہ’ اگر مجھے سرینگر میں منموہن سنگھ اور کشمیری لیڈروں کے ساتھ مذاکرات کی دعوت دی گئی تو میں تیار ہوں‘۔

    ہندوستان کا ردعمل

    شبیر شاہ مذاکرات میں شریک نہ ہوئے
    دریں اثنا نئی دلّی میں یہ تاثر تقویت پاگیا کہ کشمیر میں حریت کانفرنس کے علاوہ دوسرے گروپوں سے بھی مذاکرات کیے جائیں۔ چنانچہ ہندوستان کے وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ نے حریت کانفرنس کے دونوں دھڑوں سے باہر سرگرم گروپوں کے لیڈروں یٰسین ملک، شبیر شاہ اور سجاد غنی لون کو مذاکرات کی دعوت دی۔ شبیر شاہ نے مذاکرات میں حصہ نہ لیا ، تاہم یٰسین ملک اور سجاد نے جنوری اور فروری کے دوران الگ الگ مواقع پر ڈاکٹر سنگھ کے ساتھ ملاقات کی۔

    لیڈروں کے بیرونی دورے

    امریکی این جی او پگواش نے کٹھمنڈو، اسلام آباد اور قاہرہ میں کانفرنسیں بلائیں جن میں ہند مخالف اور ہند نواز دونوں حلقوں کے لیڈر شرکت کرتے رہے۔ اس کے علاوہ مالدیپ، نیویارک، واشنگٹن، کراچی ، نئی دلی اور جموں میں بھی کشمیر کے متبادل حل کے حوالے سے مباحثوں کا اہتمام کیا گیا۔

    اس دوران میر واعظ عمر فاروق کی قیادت میں حریت کانفرنس کا وفد اس اعلان کے ساتھ پاکستان گیا کہ ’ہم وہاں اکتوبر 2005 میں آئے زلزلے سے متاثرہ لوگوں کی دلجوئی کریں گے‘۔

    میر واعظ عمر فاروق نے اپنے دورہ پاکستان میں صدر اور وزیراعظم سے ملاقات کی

    کشمیریوں کے اہم وفد نے پاکستان کے صدر اور وزیراعظم کے ساتھ ملاقاتیں کیں۔ یٰسین ملک بھی اسی اثنا میں علیٰحدہ طور پاکستان گئے اور انفرادی طور جنرل مشرف اور وزیراعظم شوکت عزیز سے ملاقات کی۔

    میر واعظ عمر فاروق نے پاکستان میں قیام کے دوران یہ بیان دیا کہ حریت کانفرنس کشمیر کے دونوں حصوں کو ملاکر ایک متحدہ وفاق تشکیل دینا چاہتی ہے جس کی پاکستان اور ہندوستان مشترکہ نگرانی کرینگے۔ اسے انہوں نے یونائیٹڈ سٹیٹس آف کشمیر بتایا۔

    مارچ میں امریکی صدر جارج بش اپنے جنوبی ایشیائی دورے کے دوران بھارت آئے تو ان کی آمد سے ذرا دیر قبل میر واعظ نے یہ بیان دیا کہ کنٹرول لائن کی نگرانی اور جموں کشمیر میں فوجی انخلا کو یقینی بنانے کے لئے کئی ملکوں کے عسکری اتحاد ’نیٹو‘ کی مدد لی جائے۔

    اس سال 15 دسمبر تک ریاست میں دو سو پچانوے فورسز اہلکار، تین سو پینتالیس جنگجو اور ساڑھے تین سو عام شہری مارے گئے جبکہ مختلف الزامات کے تحت سات سو سے زائد افراد کو حراست میں لیا گیا۔


    تاہم صدر بش نے روایتی انداز میں دونوں ملکوں پر زور دیا کہ وہ مسئلہ کشمیر کو افہام و تفہیم کے ذریعہ حل کریں۔ اسی دوران 2 اپریل کو راولپنڈی میں صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے میرواعظ نے کہا کہ ’مسئلہ کشمیر سے متعلق اس سال کے آخر تک فریم ورک طے ہوگا‘۔ میر واعظ عمر فاروق اور یٰسین ملک نے امریکہ اور یورپ کا دورہ کیا۔ وزیراعلیٰ غلام نبی آزاد اور سابق وزیراعلیٰ مفتی محمد سعید بھی امریکہ گئے جہاں انہوں نے اپنے اپنے موقف کی وکالت کی۔

    علی گیلانی اٹل رہے

    علی گیلانی اپنے مؤقف سے ایک انچ پیچھے نہیں ہٹے
    اس سارے عرصے کے دوران سید علی شاہ گیلانی امن عمل اور دو طرفہ مذاکراتی عمل کو مسترد کرتے رہے اور کشمیر کے ساتھ ساتھ جموں کے مسلم اکثریتی علاقوں میں اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عملدرآمد کے حق میں انہوں نے مہم چلائی۔ حکومت ہند نے انہیں سرینگر میں وزیراعظم کے راؤنڈ ٹیبل اجلاس میں شرکت کے لئے باقاعدہ دعوت دی جسے انہوں نے رد کر دیا۔اسی دوران مظفر آباد میں مقیم کئی مسلح گروپوں کے اتحاد متحدہ جہاد کونسل کے سربراہ سید صلاح الدین نے، جو مقامی عسکری جماعت حزب المجاہدین کے سپریم کمانڈر بھی ہیں، اخباری بیان کے ذریعہ اعلان کیا ’جموں کشمیرسے ہندوستانی فوجوں کے مکمل انخلا تک مسلح جدوجہد جاری رہے گی‘۔

    ہند نوازوں کا لہجہ تبدیل

    سال کے پہلے تین ماہ کے دوران ہی مقامی سیاست میں تبدیلیوں کے آثار نمایاں ہوگئے تھے۔ تاریخ میں پہلی مرتبہ عمر عبداللہ سمیت کئی سرکردہ ہند نواز لیڈروں نے پاکستان کا دورہ کیا اور وہاں جنرل مشرف سے ملاقات کی اور واپسی پر مشرف کی تجاویز کی جم کر وکالت شروع کر دی۔ یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔

    سیکس سکینڈل

    سیکس سکینڈل کے خلاف کشمیری خواتین نے جلوس نکالے
    ایک ایسے وقت جب ہند نواز اور ہند مخالف حلقے فوجی انخلا کے لیے یکساں شدت کے ساتھ آواز بلند کر رہے تھے، ہندوستان کی کئی ریاستوں سے شائع ہونے والے ایک انگریزی روزنامہ نے وادی میں ایک ایسے جنسی سکینڈل کو بےنقاب کر دیا جسے بعد ازاں ہندوستانی وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ نے ’شرمناک واقعہ‘ قرار دیا۔ دختران ملّت کی سربراہ آسیہ اندرابی نے اس حوالے سے تحریک چلا دی اور تمام ریستورانوں کے کیبن تہس نہس کر دیے گئے۔ معاملہ بالاخر حکومت ہند کے مرکزی تفتیشی بیورو کے سپرد ہوا اور عدالت نے ریاست کے دو سابق وزرا جو ارکان اسمبلی بھی تھے، عدلیہ کے ایک اعلیٰ عہدیدار اور بارڈر سکیورٹی فورس و جموں کشمیر پولیس کے دو سینئر افسروں کو جنسی دلالی کی سرغنہ خاتون سمیت جیل بھیج دیا گیا۔ فی الوقت ان میں سے بعض کو ضمانت پر رہا کر دیا گیا ہے۔

    تشدد کی لہر

    دریں اثنا ہندوستانی پارلیمنٹ میں وزیر دفاع اے کے آنتونی نے انکشاف کیا کہ سال 2006 کے دوران بارہ افسران سمیت فوج کے ایک سو اسّی جوان جنگجوؤں کے حملوں میں ہلاک ہوگئے۔ ہلاکتوں اور جنگجو سرگرمیوں کا ریکارڑ رکھنے کے لیے پولیس کے خصوصی سیل کے ایک افسر نے بتایا کہ اس سال 15 دسمبر تک ریاست میں دو سو پچانوے فورسز اہلکار، تین سو پینتالیس جنگجو اور ساڑھے تین سو عام شہری مارے گئے۔ ریاستی امور داخلہ سے وابستہ ایک افسر نے بتایا کہ اس سال مختلف الزامات کے تحت سات سو سے زائد افراد کو حراست میں لیا گیا۔

    ’ جنگجوؤں کو مختلف آپریشنوں کے دوران ’نیوٹرلائز‘ کیا گیا‘

    اس دوران سینکڑوں افراد جن میں جنگجو، عام شہری اور سیاح شامل ہیں، تشدد کے مختلف واقعات میں مارے گئے۔ موسمِ گرما کے دوران جب سیاحوں کی آمد عروج پر تھی سرینگر اور گردونواح میں اپریل سے وسط جولائی تک دو درجن بم حملے ہوئے جن کا زیادہ تر ہدف گجرات، مغربی بنگال اور ممبئی سے کشمیر کی سیر کے لئے آئے سیلانی تھے۔ ان حملوں میں چار سیاح ہلاک جبکہ ایک سو دس زخمی ہوگئے۔

    جموں کشمیر پولیس کے انسپکٹر جنرل ایس ایم سہائے کے مطابق اس سال گیارہ ماہ میں تشدد کے 224 واقعات رونما ہوئے اور 160 نوجوانوں کو گرفتار کر لیا گیا جن میں سے سو کو پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت جیل بھیج دیا گیا۔انہوں نے بتایا کہ اس سال تشدد آمیز واقعات میں جموں کشمیر پولیس کے پچاس اہلکار مارے گئے۔

    افضل گرو بچاؤ تحریک کشمیر سے دلی تک پھیل گئی

    سال کے آخری تین ماہ کے دوران ہندوستانی پارلیمنٹ پر حملے کے مجرم افضل گورو کی پھانسی کی سزا کے لیے تاریخ کا تعین ہوا تو پورے کشمیر میں ’افضل بچاؤ‘ تحریک شروع ہوئی۔ اس تحریک کی حمایت میں نئی دلّی کی سول سوسائٹی نے بھی دھرنا دیا اور اخباروں میں افضل کے حق میں مضامین لکھے گئے۔ افضل کے لواحقین کی جانب سے صدر جمہوریہ کو رحم کی اپیل کے بعد پھانسی ٹلی اور ابھی تک اس معاملے میں صدر نے کوئی فیصلہ نہیں سنایا۔

    تبدیلی کے آثار
    سال کے آخری ایام میں پاکستان نے کشمیر سے متعلق اپنی روایتی پالیسی کو ترک کرنے کے واضح اشارے دیے اور یہاں کی سیاسی تقسیم کے دونوں جانب یہ آوازیں مزید بلند ہوگئیں کہ مشرف کی تجاویز کا جواب دیا جائے ورنہ دیر ہو جائے گی‘۔ ( یہ فقرہ عمر عبداللہ اور میرواعظ عمر نے یکساں لہجہ کے ساتھ الگ الگ مواقع پر ادا کیا)۔

    چودہ دسبمر کو ہندوستان کے وزیر خارجہ پرنابھ مکھرجی نے پارلیمنٹ میں یہ بیان دیا کہ حکومت ہند کشمیر کی سرحدوں میں’اِدھر اُدھر‘ سمجھوتہ پر آمادہ ہے۔ دو روز بعد ہندوستانی وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ نے جاپانی دورے سے واپسی پر اُن تمام ’نئے آئیڈیاز‘ کا خیر مقدم کیا جو دونوں ملکوں کے تعلقات کی بحالی اور مسئلہ کشمیر سمیت تمام تنازعات حل کرنے میں مدد دیں۔


    موسمِ گرما کے دوران جب سیاحوں کی آمد عروج پر تھی سرینگر اور گردونواح میں اپریل سے وسط جولائی تک دو درجن بم حملے ہوئے جن کا زیادہ تر ہدف گجرات، مغربی بنگال اور ممبئی سے کشمیر کی سیر کے لئے آئے سیلانی تھے۔ ان حملوں میں چار سیاح ہلاک جبکہ ایک سو دس زخمی ہوگئے۔


    یوں یہ سال کشمیر کے تعلق سے تجاویز کے شور سے شروع ہوا اور ہندوستان کی جانب سے خارجہ پالیسی میں لچک کے معنی خیز اشارے پر اختتام پذیر ہوا۔ درمیان میں جنسی سکنڈل کے خلاف تحریک اور ہند نوازوں کے لہجہ میں سختی ایسے عناصر ہیں جو 2006 کو سترہ سالہ پرتشدد دور سے ممیز کرتے ہیں۔ دیگر خصائص میں تشدد میں کمی(آرمی چیف جے جے سنگھ کا سرینگر میں بیان) اور متبادل حل پر گیلانی کے بغیر باقی تمام ہند نوازوں، ہند مخالف حلقوں اور مسلح قیادت کا تقریباً اتفاق رائے قابل ذکر ہیں۔

    سال 2007 کا آغاز عوامی حلقوں میں پیدا شدہ ان سوالات سے ہو رہا ہے کہ کیا ڈاکٹر منموہن سنگھ اور جنرل مشرف کشمیرسمجھوتہ پر متفق بھی ہوں گے اور اپنے ملکوں کے عوام کو متفقہ حل پر مطمئن بھی کریں گے؟
    جبکہ اصولی طور پر کوئی بھی ایسا حل جس میں کشمیری براہِ راست شامل نہ ہوں کم از کم کشمیریوں کے لیے قابلِ قبول نہ ہو گا
     
  2. گھنٹہ گھر
    آف لائن

    گھنٹہ گھر ممبر

    شمولیت:
    ‏15 مئی 2006
    پیغامات:
    636
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    اتنا معلومات افزاء مضمون فراہم کرنے پر آپ کا شکریہ
     
  3. عقرب
    آف لائن

    عقرب ممبر

    شمولیت:
    ‏14 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    3,201
    موصول پسندیدگیاں:
    200
    بہت اچھا اور معلوماتی مضمون ہے کشمیر ایشو پر

    نعیم بھائی ۔ :a180:
     

اس صفحے کو مشتہر کریں