1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

یہودی اپنے اتحادیوں سمیت فنا کی جانب گامزن(ہرمجدون کیا ہے؟)

'حالاتِ حاضرہ' میں موضوعات آغاز کردہ از علی عمران, ‏15 اپریل 2009۔

  1. علی عمران
    آف لائن

    علی عمران ممبر

    شمولیت:
    ‏28 فروری 2009
    پیغامات:
    677
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    قرآن مجید میں اللہ کا تعالی کا ارشاد ہے“اور ہم نے اپنے صحائف آسمانی میں بنی اسرائیل کو اس بات پر واضح طور پر متنبہ کر دیا تھا کہ دو مرتبہ کرہ ارض پر فسادِ عظیم برپا کرو گے اور بڑی سرکشی دکھاؤ گے“(بنی اسرائیل 4)
    ابو داؤد میں حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی ایک حدیث پاک سے معلوم ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل نے بلا وجہ اپنے سینکروں نبیوں اور رسولوں کو قتل کیا ایک دوسری حدیث مبارک میں حضور سرورِ کائینات‌ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد پاک ہے کہ سب سے بڑا ظالم ،جابر،دہشت گرد،فسادی اور اور سخت ترین عذاب الہی کا مستحق وہ شقی القلب شخص ہے جس نے نبی یا اللہ کے رسول کا خون بہایا۔
    یعنی بنی اسرائیل کے فساد کا ایک دور گزر چکا ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دوسرا دور کب شروع ہو گا؟یا اگر ہو چکا تو اس کے ظلم و ستم پر ان کو سزا کب ملے گی؟
    قرآن مجید کے علاوہ بائبل کے مجموعہ کتب میں یہ فساد اور تنبیہات حضرت یسیعاہ نبی،حضرت یرمیاہ،حضرت جزتی ایل،اور حضرت داؤد کی زبانی مختلف مقامات پر ملتی ہیں۔مثال کے طور پر حضرت یسعیاہ نبی علیہ اسلام اپنے صحیفے کے باب 30 آیت9۔14 میں فرماتے ہیں“وہ (خدا وند) اسے(بنی اسرائیل)کو کمہار کے برتن کی طرح توڑ ڈالے گا(زمین پر ان کی فسادات کی وجہ سے)اسے بے دریغ چکنا چور کرے گا اس کے ٹکروں میں ایک ٹھیکرا بھی ایسا نہ ملے گا جس میں چولہے سے آگ یا حوض سے پانی لیا جا سکے“
    اپنے پیغمبروں کے ذریعے اس خدائی تنبیہ اور سخت ترین سزاؤں کے باوجود بنو اسرائیل کا فساد فی الارض یعنی عالمی دہشت گردی کا یہ سلسلہ تاریخ انسانی کے کسی دور میں بھی بند نہیں ہوا بلکہ کسی نہ کسی انداز میں چلتا ہی رہا ہے۔اور آج بھی پورے زورو شور سے جاری ہے صرف طریقہ کار تبدیل ہوا ہے۔اب وہ براہ راست نہیں بلکہ دنیا میں فساد فی الارض یا ریساتی دہشت گردی کی آگ بھڑکانے میں بلواسطہ ملوث ہیں۔امریکہ اس کے اتحادیوں اور ہندوستان وغیرہ طاقتوں کے کندھوں پر بندوق رکھ کر چلا رہے ہیں قرآن مجید میں اللہ تعا لی کا ارشاد ہے۔“زمین پر فساد برپا نہ کرو جب کہ اس کی اصلاح ہو گئی ہو یعنی امن و امان قائم ہو چکا ہو“(الاعراف56)اور سورۃ البقرۃ کی آیت گیارہ اور بارہ میں یوں ارشاد ہوتا ہے“جب کبھی ان سے کہا گیا کہ کرہ ارض پر فساد کھڑا کرو تو انہوں نے یہی کہا کہ ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں بیشک یہی لوگ فسادی اور دہشت گرد ہیں“
    قرآن حکیم کی یہ حقیقت کس قدر سچائی پر مبنی ہے کہ آخر انہوں نے اپنی عالمی ریاستی دہشت گردی اور فساد فی الارض کے ذریعے ساری دنیا کو اور بطور خاص عالم اسلام کو جہنم بنایا ہوا ہے مگر تاریخ کے اس سب سے بڑے جھوٹ اور مکروفریب کو اپنی موثر ترین پروپیگنڈا مشین کے زور پر دنیا بھر کو باور کروایا جا رہا ہے۔کہ وہ یہ سب کچھ دنیا کی اصلاح اور امن و امان کے قیام کے لئے کر رہے ہیں
    اور پھر اپنی آخری اور سخت وارننگ کے طور پر اللہ نے فرمایا“پھر جب دوسرے وعدے کا وقت آیا تو ہم نے تمہارے دشمنوں کو تم پر مسلط کر دیا تاکہ تمہارے چہرے بگاڑ دیں“(بنی اسرائیل۔7)
    اس حوالے سے بائبل میں حضرت یرمیاہ نبی علیہ اسلام کا یہ قول بھی بہت اہمیت کا حامل ہے۔“اے اسرائیل کے گھرانے!دیکھ میں ایک قوم کو دور سے تجھ پر چڑھاؤں گا خداوند فرماتا ہے کہ وہ بڑی ہی زبردست قوم ہے وہ قدیم قوم ہے جس کی زبان تو نہیں جانتا اور ان کی بات کو تو نہیں سمجھتا ان کے ترکش کھلی قبریں ہیں وہ سب بہادر مرد ہیں وہ تیری فصل کا اناج اور تیری روٹی جو تیرے بیٹوں کے کھانے کی تھی کھا جائیں گے تیری گائے بیل اور بکریوں کو چٹ کر جائیں گے، تیرے انگور اور انجیر نگل جائیں گے تیرے مضبوط شہروں کو جن پر تیرا بھروسا ہے تلواروں سے ویران کر دیں گے(باب 5 آیت نمبر 15۔17)
    بائبل کے اس متذکرہ بالا اقتباس میں دور سے چڑھا لائی جانے والی جس زبردست قدیم بہدر وجری قوم کا ذکر ہے اس کے بارے میں آسمانی کتابوں کے حامل مذاہب کی اقوام کے ہر طبقہ فکر کے پڑھے لکھے لوگ بخوبی جانتے ہیں کہ یہ اشارہ اس سیاہ جھنڈوں والے عظیم لشکر کی جانب ہے جو اسرائیلی روایات اور احادیث نبوی کے مطابق خراسان(موجودہ ایران،پاکستان،افغانستان)سے حضرت محمد بن عبداللہ مہدی علیہ اسلام کی مدد و معاونت کے لئے روانہ ہو گا اور وہ شام و فلسطین کی سر زمین پر یہودیوں، امریکیوں اور دوسرے اتحادیوں کے خلاف لڑی جانے والی ملحمۃ الکبری(جنگ عظیم)میں حضرت مہدی عجل اللہ قیامہ اور ان کی افواج کا ساتھ دے گا اور انہیں فتح و کامرانی سے ہم کنار کر کے وہاں ان کی اسلامی حکومت(خلافت)کے قیام کی راہ ہموار کرنے میں ان کا مدد گار بنے گا۔
    ترمذی شریف،سنن ابن ماجہ اور مسند احمد بن حنبل میں مخبر صادق حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ حدیث مبارک موجود ہے جسے حضرت ابو ہریرہ اور حضرت عبد اللہ بن الحارث رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے کہ کوہ ہندوکش یعنی خراسان سے سیاہ جہادی جھنڈوں والا ایک لشکر عظیم نکلے گا اور دنیا کی کوئی طاقت اس کا راستہ نہ روک سکے گی اور وہ راہ کی ساری رکاوٹیں توڑتا ہوا علاقوں پر علاقے فتح کرتا ہوا ایلیا(بیت المقدس)تک پہنچ جائے گا۔ اسی روایت کے حوالے سے حضرت امام ابن کثیر اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں سیاہ جھنڈوں والا یہ عظیم الشان لشکر مشرق(پاکستان،ایران،افغانستان) سے حضرت محمد بن عبد اللہ مہدی علیہ اسلام کی قیادت میں نکلے گا۔
    مصر کی اسلامی یونیورسٹی جامعہ الازہر قاہرہ کے پروفیسر امین محمد جمال الدین نے اس ضمن حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت کردہ ایک حدیث مبارکہ اپنی کتاب ہر مجدون(Armegadon)میں نقل کی ہے جس میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد پاک ہے۔
    “چودہویں صدی ہجری ختم ہونے کے تین دہائیوں بعد(1430ھ)کے آخری زمانہ میں ملحمۃ الکبری(جنگ عظیم)برپا ہو گی۔ اسی دوران مہدی امین کا ظہور ہو گا وہ دنیا بھر کی باطل طاقتوں سے جنگ کرے گا اللہ کے مغضوب و ملعون وکفار سب اس کے خلاف متحد ہو کر اٹھ کھڑے ہوں گے۔ ان میں وہ( اس وقت کے ترقی یافتہ ممالک)بھی شامل ہو گے جو نفاق و کذب کی حد کمال تک پہنچے ہوئے ہوں گے یہ سب“مجدون“پہاڑ کے قریب جمع ہوں گے اور ساری دنیا کی مکار اور بدکار ملکہ(امریکہ)ان ساری باطل طاقتوں کی قیادت کرتے ہوئے مہدی برحق اور اس کے لشکروں کے مقابلہ کے لئے نکلیں گی۔اس انتشار و بد امنی کے زمانہ میں وہ ملکہ ساری دنیا کو فواحش و بد اخلاقی و گمراہی کی طرف ورغلائے گی اور اس زمانہ میں یہودی اوجِ کمال تک پہنچے ہوئے ہوں گے بری، بحری،فضائی ہر طرف سے دشمن حملہ آور ہوں گے مہدی امین کو احساس ہو گا کہ ساری باطل قوتیں خطرناک قسم کی سازشوں کے جال بن کر اس کے خلاف صف آرا ہیں۔پھر وہ(باذن اللہ)ان باطل طاقتوں پر انتہائی کرب ناک اور ہلاکت خیز تیر پھینکے گا اور دشمن کی ساری افواج کو جلا کر راکھ کر ڈالے گا آسمان سے بھی ان دشمنان دین الحق پر آفتٰن نازل ہوں گی اور زمین والے ان پر لعنت بھیجیں گے اور بالآخر اللہ حی القیوم کفر و شرک کو مٹا دینے کی اجازت دیں گے“۔
    بخاری شریف کی ایک حدیث میں جس کے راوی حضرت عون بن مالک رضی اللہ عنہ ہیں حضور سرور کائینات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے
    “یہود اس جنگ(ملحمۃ الکبری)یعی ہر مجدون میں مسلمانوں کے خلاف روم(یورپ و امریکہ)کے عیسائیوں کو ساتھ ملا کر اسی(80)جھنڈوں کے نیچے جمع ہو کر ایک بڑے لشکر کے ساتھ حملہ آور ہوں گے اور ہر جھنڈے کے نیچے بارہ ہزار فوجی ہوں گے(واضح رہے کہ موجودہ دور میں ایک ڈویژن فوج بارہ ہزار فوجیوں پر مشتمل ہوتی ہے گویا وہ لشکر دشمن نو لاکھ ساٹھ ہزار فوجیوں پر مشتمل ہو گا) اس ملحمۃ الکبری میں اللہ تعالی مسلمانوں کو فتح و کامرانی سے ہمکنار فرمائے گا“۔
    ایک اور حدیث مقدسہ میں جسے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آزاد کردہ غلام حضرت ثوبان رضہ اللہ عنہ نے روایت کیا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے کہ“جب تم دیکھو کہ خراسان(موجودہ پاکستان،ایران و افغانستان)سے سیاہ جہادی جھنڈے والے لشکر آ رہے ہیں تو ان میں شامل ہونے کے لئے ان کی طرف دوڑ پڑنا خواہ تمہں برف پر سے پھسل کر ہی کیوں نہ آنا پڑے کیونکہ ان سیاہ جہادی جھنڈوں کے ساتھ خلیفہ مہدی ہوں گے“
    اسی سے ملتی جلتی روایے حضرت علی علیہ اسلام سے بھی مروی ہے جس میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ“آخری زمانہ میں بڑا فتنہ برپا ہو گا اس وقت میرے اہلیبیت(علیہ اسلام) میں سے ایک شخص تین جھنڈوں والی جماعت(لشکر) مشرق(افغانستان، پاکستان، ایران)سے لے کر نکلے گا اور اسلام دشمنوں سے جنگ کرے گا اللہ مسلمانوں کو فتح و کامرانی کی نعمت سے ہمکنار کرے گا“۔
    مشہور کتاب"Prodamadon of Lord, Jesuschrist"جو 1934 میں شائع ہوئی کا فاضل غیر متعصب مولف “ٹی بی بیٹس“ پیش گوئی کرتے ہوئے رقم طراز ہے۔
    “عیسائی اور اسرائیلی یہودی امریکہ کی زیر کمان ایلیا(بیت المقدس) میں اپنی عظیم افاج جمع کریں گے دوسری جانب مشرق (افغانستان،پاکستان،ایران) کے حکمران اور مجاہدین سیاہ جہادی جھنڈوں والے لشکر(چین کی قیادت میں)اسرائیل پر حملہ کر کے اس کی حدوں کے اندر فوجیں اکٹھی کریں گے، اس طرح مجدون پہاڑی کے گرد و نواح میں دنیا کی آخری جنگ عظیم(Armegadon)کا آغاز ہو گا۔یہودیوں اور ان کے اتحادیوں کے لئے یہ یوم الغضب ہو گا کیونکہ وہ مشرقی جنگجوؤں کے سیلابی ریلہ کا مقابلہ نہ کر سکیں گے اسلامی جذبہ جہاد سے سرشار وہ بہادر اور جری جنگجو یہودیوں اور ان کے اتحادیوں پر حاوی ہو جائیں گے اور یہی شمال مشرقی جنگجو مجاہد اسرائیلی ریاست کی تباہی و بربادی کا باعث بنیں گے“۔
    اس ہولناک جنگ کا آغاذ کرتے ہوئے اسرائیل، امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو شاید یقین تھا نہ اندازہ تھا کہ جس میدان جنگ کی طرف(افغانستان،پاکستان،عراق،فلسطین) وہ بڑے جوش و زعم میں بھاگ کر گئے تھے وہاں انہیں قیدی بنا کر گرفتار کر لیا جائے گا اور جہنمی آگ میں زندہ جھونک دیا جائے گا۔یہودیوں اور امریکیوں کی اس عبرت ناک شکست کے بعد وہ بے گناہ نیک نفیس شخصیات جو ان کے ظلم و جبر اور خوف دہشت گردی کی وجہ سے پہاڑوں اور غاروں میں چھپ گئے تھے سر عزت و وقار اور جرات و جوانمردی سے بلند کریں گے“۔
    بائبل کے عہدنامہ قدیم اور تورات کے صحیفہ زکریا علیہ اسلام کے باب 13 کی آیت 8 میں ہے۔
    “خدا وند فرماتا ہے کہ قیامت کے قریب زمانہ میں زیادہ تر یہودی ہرمجدون کی جنگ میں ہلاک ہو جائیں گے اور ان کی دو تہائی آبادی فنا کے گھاٹ اتر جائے گی“۔
    اسی طرح بائبل کے صحیفہ جزتی ایل عیلہ اسلام کے باب 39 کی آیت12 کا مفہوم کچھ اس طرح ہے۔
    “اور سات مہینوں تک بنی اسرائیل اپنے مردوں کو دفن کرتے رہیں گے تاکہ اپنی زمین صاف کر سکیں“۔
    اس تباہ کن جنگ عظیم میں ہونے والی تباہی کے حوالے سے مبر صادق حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان مبارک ہے کہ اس جنگ میں اس قدر لاشیں گریں گی کہ پورا علاقہ ڈھک جائے گا۔ایک پرندہ مسلسل اڑتا چلا جائے گا اور اسے زمین میں بیٹھنے کے لئے خالی جگہ نہیں ملے گی۔
    مکہ مکرمہ کی ام القری یونیورسٹی کے پروفیسر شیخ سفر بن عبد الرحمن حوالی اپنی کتاب“یوم الغضب“ میں لکھتے ہیں۔
    “یہودیوں پر یوم الغضب کے نزول کے حوالے سے بائبل کے صحیفہ دانیال علیہ اسلام میں حضرت دانیال علیہ اسلام فرماتے ہیں۔
    “کرب یعنی ظلم و جبر کی حکمرانی اور کشائش یعنی امن و انصاف کی حکمرانی کے درمیان پینتالیس(45)برس کا وقفہ ہو گا(حضرت دانیال علیہ اسلام کے متعین کردہ وقت کے مطابق اسرائیلی ریاست 1967 میں بیت المقدس اور عربوں کے دیگر علاقوں پر غاصبانہ قبضہ کے بعد صحیح معنوں میں قائم ہوئی ہے۔ گویا جون 1967 سے شروع ہونے والے صیہونی ظلم و جبر اور ریاستی دہشت گردی کا دور کرب 2012 میں ختم ہو گا جب مہدی برحق اور ان کے مجاہدوں ک ہاتھوں اسرائیلی ریاست کا خاتمہ ہو گا)“۔
    مشہور و معروف کتاب“ہرمجدون“ کے مولف پروفیسر امین محمد جمال الدین نے اپنی کتاب میں اس سے ملتے جلتے خیالات کا اظہار کیا ہے،وہ لکھتے ہیں۔
    “اس بارے میں مجھے حق الیقین کی کیفیت حاصل ہے کہ 2012 جارح اسرائیلی ریاست کے خاتمہ کا سال ہے اور اس غاصب اور ناجائز ریاست کے خاتمہ کا آغاز مہدی برحق اور مجاہدین کے ہاتھوں ہو گا اور اس کے ساتھ ہی دو تہائی یہودی صفحہ ہستی ست مٹ جائیں گےاور باقی ماندہ یہودیوں کا خاتمہ حضرت عیسی ابن مریم علیہ اسلام اور ان کے مجاہدوں کے ہاتھوں اس وقت ہو گا جب دجال کی قیادت میں ستر ہزار یہودیوں کا لشکر شام پر حملہ آور ہو گا دجال اپنے لشکر کی قیادت کرتے ہوئے جب دمشق کے قریب پہنچے گا تو حضرت عیسی علیہ اسلام دشمن کے مشرقی حصہ میں ایک سفید منار کے قریب فجر کے وقت آسمان سے اتریں گے اور نماز فجر کے بعد اسلامی لشکر کی قیادت کرتے ہوئے دجال کے مقابلہ کے لئے نکلیں گے دجال پسپا ہو کر“افیق“ کی گھاٹی کی طرف بھاگے گا(دمشق سے کچھ فاصلے پر شام،اسرائیل سرحد پر ایک نشیبی راستہ اسرائیل کی جانب نکلتا ہے جسے“افیق کی گھاٹی“کہا جاتا ہے)حضرت عیسی علیہ اسلام اس کا تعاقب کریں گے اور لدا( LYDA)(جو اس وقت اسرائیل کا ایک بڑا فوجی ہوائی اڈا ہے)کے مقام پر جہنم رسید کر دیں گے،یہودیوں کا قتل عام صیہونی قوم کے کاتمہ پر منتج ہو گا اور یوں بنی اسرائیل سے متعلق اللہ احکم الحاکمین کے قرآن پاک کی سورۃ بنی اسرائیل کی آیت نمبر 8 میں درج اس کائیناتی اٹل اصول ضابطے اور فرمان کا اطلاق ہو گا۔
    “اے بنی اسرائیل!اگر تم نے اپنی سابقہ روش نہ بدلی اور اس کا اعادہ کیا تو پھر ہم بھی اپنی سخت سزا اور شدید عذاب کا اعادہ کریں گے“۔
    اس ضمن میں حامل قرآن حضور کائینات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان مبارک بھی بڑا اہم ہے۔
    “قیامت قائم نہ ہو گی جب تک کہ تم یہودیوں سے آخری اور فیصلہ کن جنگ نہ کر لو، یہاں تک کے درخت اور پتھر پکار اٹھیں گے کہ اے مسلمان!اللہ کے بندے!یہ دیکھ میرے پیچھے یہودی چھپا ہے پس اسے قتل کرنے میں ذرا دیر نہ کر“۔
    ابو داؤد اور مسند احمد میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک حدیث مبارکہ ہے جس کے راوی حضرت ابو ہریرہ ہیں۔
    “وہ(حضرت عیسی بن مریم علیہ اسلام) اسلام پر لوگوں سے جنگ کریں گے صلیب کو پاش پاش کر دیں گے خنزیر کو قتل کریں گے دجال کو ہلاک کردیں گے جزیہ ختم کر دیں گے اللہ ان کے دور میں اسلام کے سوا تمام مذاہب و ادیان اور ملتوں کو مٹا دے گا زمین پر وہ چالیں برس تک ٹھہریں گے پھر ان کا انتقال ہو جائے گا اور مسلمان باقاعدہ ان کی نماز جنازہ پڑھیں گے“۔
    اور یوں اللہ تعالی کے اس کائیناتی ورلڈ آرڈر کے عین مطابق قرآن مجید کی یہ سرمدی پیش گویاں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کلی پر مبنی دین اسلام کا دنیا بھر کے باطل اور مسخ شدہ ادیان پر غلبہ یعنی ملت اسلامیہ کہ نشاۃ ثانیہ کا آغاز“ہرمجدون“کی عالمی جنگ سے ہو گا اور اس آخری عالمی جنگ عظیم جا کا آغاز نائن الیون کی خود ساختہ واردات کے بعد افغانستان پر اور بلواسطہ طور ہر پاکستان پر اسلام دشمن طاقتوں کے بلا جواز حملہ سے ہو چکا اور جس کا آخری اور فیصلہ کن راؤنڈ فلسطین کی سرزمین پر “مجدون“ کے مقام پر لڑا جائے گا۔ اس میں متحدہ باطل طاقتوں کو مکمل شکست ہو گی اور ناجائز اسرائیلی ریاست کا خاتمہ ہو جائے گا۔
     
  2. محبوب خان
    آف لائن

    محبوب خان ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏28 جولائی 2008
    پیغامات:
    7,126
    موصول پسندیدگیاں:
    1,499
    ملک کا جھنڈا:
    علی عمران بھائی سب سے پہلے تو اس معلوماتی مضمون کے لیے شکریہ۔۔۔ ڈاکٹر شاہد مسعود نے جب اے آر وائی پہ اپنا مہشور زمانہ پروگرام "اینڈ آف ٹائم" پیش کی تو اس موضوع پہ پہ بھی اظہار خیال کیا تھا۔
     
  3. مسلم پاور
    آف لائن

    مسلم پاور ممبر

    شمولیت:
    ‏3 اپریل 2009
    پیغامات:
    19
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    بہت زبردست معلوماتی ارٹیکل شیعر کیا علی عمران
    بہت شکریہ
     
  4. علی عمران
    آف لائن

    علی عمران ممبر

    شمولیت:
    ‏28 فروری 2009
    پیغامات:
    677
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    جی بلکل محبوب بھائی آج کل اس پر ہر جانب اچھے خاصے تبصرے ہو رہے ہیں۔میں اس سلسلے میں ایک مضمون کافی پہلے بھی یہاں سینڈ کر چکا ہوں۔یہ دوسرا مضمون ہے۔ جتنی معلومات ملیں گی انشاء اللہ پہنچاتا رہوں گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پسند کرنے کا شکریہ

    مسلم پاور جی آپ کا بھی پسند کرنے کا شکریہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ :dilphool: :dilphool: :dilphool: :dilphool: :dilphool: :dilphool: :dilphool:
     
  5. مسز مرزا
    آف لائن

    مسز مرزا ممبر

    شمولیت:
    ‏11 مارچ 2007
    پیغامات:
    5,466
    موصول پسندیدگیاں:
    22
    علی عمران بھائی اتنا اچھا مضمون ارسال کرنے پہ بے حد شکریہ

    اسے پڑھ کے میرا ذہن بے اختیار طالبان کی طرف گیا ہے۔ اللہ معاف کرے صرف وہی جانتا ہے کون سچا ہے اور کون جھوٹا۔
    ابھی پچھلے دنوں سوات میں ایک شخص سے کئے جانے والے انٹرویو کے بعد ذہن میں خیال آیا کہ بے شک امریکہ اپنے بندے اسلام کو کچلنے کی خاطر ہر جگہ پھیلا سکتا ہے۔ کیا آپ بھی سوچتے ہیں کہ یہ جو ہمیں خبریں ملتی ہیں کہ فلاں شخص نے مسجد میں یا کسی اور جگہ جا کے اپنے آپ کو بارود سے اڑا دیا اللہ جانے وہ مسلمان ہے بھی یا نہیں!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!
    نجانے کب ہمارا بلاوا آ جائے ۔۔۔۔بچوں کا کیا بنے گا!!!!! بے شک وہی نگہبان ہے لیکن ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنے بچوں کو لیکر بیٹھیں اور انہیں اسلام دشمن طاقتوں کی چالوں سے آگاہ کریں۔۔۔۔۔۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمارا اور ہماری نسلوں کا خاتمہ بلایمان کرے اور رہتی دنیا تک ہماری نسلوں کو اپنے حفظ و امان میں رکھے اور انہیں سیدھے اور سچے رستے پہ ڈالے جو سیدھا اسی ذات پاک کی طرف جاتا ہو آمین ثم آمین
     
  6. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم۔ علی عمران بھائی ۔
    آپ نے بہت محنت شاقہ سے مضمون تحریر فرما کر ہم تک پہنچایا ۔ اللہ کریم آپکو جزائے خیر عطا فرمائے۔ آمین

    جہاں‌تک جامعہ الازہر کے پروفیسر صاحب کی تحقیق کا تعلق ہے تو انکی رائے اپنی جگہ محترم ہے۔

    لیکن دیگر احادیث نبویہ :saw: کی روشنی میں امام مہدی علیہ السلام کی آمد کے جو حالات بتلائے گئے ہیں ۔ انکی روشنی میں عالم اسلام ، علم، فن، ٹیکنالوجی کی بلندیوں پر پہنچے گا ۔ اور غالباً کئی درجن بحری بیڑے مسلمانوں کے پاس ہوں گے۔ جبکہ 2012 تک ہمارے پاس جنگی بحری بیڑے ملنے کا کہاں امکان ہے ؟ اور 2012 تک ہم کیسے علم ، ٹیکنالوجی کی ترقی کے آسمانوں تک پہنچ سکتے ہیں ؟ کیونکہ دنیا کی مضبوط ترین طاقتوں سے جنگ کرنے کے لیے امام مہدی علیہ السلام کوئی کرامت نہیں دکھائیں گے۔ بلکہ معروضی وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے باقاعدہ جنگ کریں گے۔ جس کے لیے اس وقت کی ٹیکنالوجی کے مطابق اسلحہ و ہتھیار و وسائل ناگزیر ہوں گے۔

    جہاں تک خراسان کے علاقے کا تعلق ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہاں سے ٹھنڈی ہوا آتی تھی اور یہاں سے ایک عظیم انقلاب کی توقع بھی قائم ہے۔

    لیکن موجودہ حالات ۔۔۔ افغانستان۔۔ پاکستان۔۔۔ اور ایران ۔۔ اور 2012 میں‌اسرائیل پر چڑھائی ؟؟؟؟

    افغانستان ، ایران اور پاکستان کا خطہ پہلے متحد تو ہولے۔ پہلے ایک دوسرے کو کافر سمجھنا تو ختم کردیں۔ طالبان ، مزارات کے علمبرداروں کو اسلام سے خارج سمجھتے ہیں۔ شیعہ کو کافر سمجھنا اور انہیں مارنا تو غزوہ بدر کے کافروں کو مارنے کے مترادف سمجھا جاتا ہے۔ (یہ بات میرے ذاتی مشاہدے میں ہے) ۔ اسی طرح سنیوں میں کچھ طبقات وہابی اہلحدیث کو کافر سمجھتے اور انکے پیچھے نمازیں تک نہیں پڑھتے۔
    سیاسی صورتحال بھی کسی سے پوشیدہ نہیں۔ اگر موجودہ افغانی صدر کرزائی یا اس جیسے کسی "امریکی وفادار" سے یہ امید لگا لی جائے کہ وہ پاکستان ، ایران کا تعاون کرکے اسرائیل تک چڑھائی میں مدد دے گا یا امام مہدی علیہ السلام کی آمد پر ان کے ساتھ ہوجائے گا تو ایسی سوچ ہی کتنی مضحکہ خیز ہے ؟ اور اگر بالفرض طالبان اقتدار میں آجاتے ہیں تو روس کے انخلا کے بعد افغانستان میں انہی مجاہدین نے امریکی دراندازی سے قبل تک ایک دوسرے کے خلاف خونی جنگ کرکے جس اتحاد و اتفاق کا مظاہرہ فرمایا تھا اس سے انکی " اسلامی اخوت" بھی ساری دنیا پر عیاں ہوگئی تھی ۔ اور چند سالوں میں ایسا کوئی معجزہ بھی بپا نہیں ہوا جو انکی دماغی حالت کو درست کردے۔ بلکہ میری نظر میں تنگ نظری میں اور اضافہ ہوا ہے ۔
    اور اگر کوئی یہ سمجھے کہ طالبان یا طالبانی اسلام کے علمبردار عنقریب پورے پاکستان کو اپنے طالبانی اسلام کے زیر تسلط کرکے "نظامِ عدل " برپا کردیں گے تو یہ بھی خام خیالی ہے۔ پنجاب سے لے کر سندھ تک کوئی بھی دانشمند مسلمان اسے قبول کرنے کو تیار نہ ہے اور نہ کبھی ہوگا۔ طالبان ، امریکی ڈالرز اور سعودی ریالوں سے گذشتہ 30 سالوں میں سرحد کے مدرسہ جات کی پیداوار تھے اور وہیں تک رہیں گے۔

    پاکستان کے سیاسی و معاشی حالات کسی سے پوشیدہ نہیں۔ یہ درست ہے کہ ہم مسلمان ہیں اور "مایوسی کفر ہے" پر ایمان رکھنا ہمارے لیے ضروری ہے۔ لیکن اللہ کریم نے امید قائم رکھنے کے ساتھ ساتھ ، حسنِ نیت، عزمِ صادق، عملِ صالح کے جو احکامات صادر فرمائے ہیں ۔ ہم ان سے مکمل طور پر غافل ہیں۔ کاسہ پھیلائےدر در کے بھکارے بن رہےہیں۔ ہمارے ملک میں آلو پیاز کی قیمتیں تک ورلڈ بنک میں مقرر کی جاتی ہیں۔ امریکہ ایک ایک ڈالر کی بھیک دینے سے پہلے 10 شرائط رکھتا اور منواتا ہے۔ اور ہمارے بےضمیر حکمران انہیں مان کر قومی انا کا سودا کرکے باہر پریس کانفرنس میں سینہ تان کر اعلان کرتے ہیں کہ ڈیڑھ ارب سالانہ کی امداد ی بھیک لے کر " ملک کے لیے اہم کارنامہ " سرانجام دے دیا ہے۔ تف ہے ایسی سوچ پر ۔۔۔
    اور اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ اگلے چند سالوں میں یہ قوم اس سارے نظام کو ٹھکرا کر کوئی صالح، اہل، لائق، باغیرت، دانشمند اور غریب و مظلوم کے حقوق کے پاسدار قیادت کو سامنے لانے والی ہے۔ تو خواب دیکھنے میں‌کوئی حرج نہیں۔ البتہ حقیقت میں فی الحال ایسا ہوتا ناممکن دکھائی دیتا ہے۔ اور ایسے امریکی وفاداروں اور ملک سے غداروں کے ہوتے ہوئے یہ خواب دیکھنا کہ کالے جھنڈوں والے "مسلمان" اسرائیل کا دھڑن تختہ کرنے پہنچ جائیں گے۔ تو یہ میرے لیے ایک لطیفے سے کم نہیں۔
    ایران کی صورتحال قدرے مختلف ہے۔ وہاں ایک باغیرت قیادت موجود ہے۔ اور وہ ایک قوت بننے کی اہلیت بھی رکھتے ہیں۔ لیکن موجودہ ایران کے ساتھ ۔۔ امریکہ و یورپ کی دشمنی مول لے کر ، پاکستان اور افغانستان کیسے ہاتھ جوڑ سکتا ہے ؟ اور مذہبی سطح پر میں پہلے ہی عرض کرچکا ہوں کہ عرب دنیا اور اسکے متاثر اسلامی ممالک میں ایران کے شیعہ ہونے کی وجہ سے ناپسندیدگی کا جو عنصر ہے وہ بھی ایک واضح حقیقت ہے۔

    ایسے حالات میں کونسا چمتکار ہوگا جو 2012 میں کالے جھنڈے والوں کا لشکر لے کر اسرائیل جاپہنچے گا؟

    امام مہدی علیہ السلام کی آمد میں ابھی طویل عرصہ ہے۔ وہ اللہ تعالی اور اسکے حبیب :saw: کو ہی معلوم ہے کہ کب وہ وقت آئے گا۔

    لیکن ہمارے کرنے کا کام یہ ہے کہ ہم " ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظرِ فردا " بیٹھنے کی بجائے ، اپنی اپنی اصلاح کی فکر کریں۔ میرا ایمان ہے کہ اگر ہم آج خود کو سنوار کے، پاکستان اور عالمِ اسلام کو عظمت و وقار دینے کی نیت سے اپنی اپنی بساط کے مطابق ذاتی و اجتماعی سطح پر عزم و عمل کے جھنڈا لے کر نکل کھڑے ہوں تو قیامت کے دن ہمارا شمار بھی امام مہدی کے لشکر کے سپاہیوں میں ہی ہوگا۔ انشاءاللہ ۔

    اللہ تعالی ہمارے حال پر لطف و کرم فرمائے۔ اور اسلام کو دنیا میں عظمت و وقار عطا فرمائے۔ اور ہمیں اس میں اپنی بساط بھر کاوش و جدوجہد کی توفیق مرحمت فرمائے۔ آمین بجاہِ النبی الرحمۃ ۔ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔

    والسلام
     
  7. نور
    آف لائن

    نور ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جون 2007
    پیغامات:
    4,021
    موصول پسندیدگیاں:
    22
    السلام علیکم۔ علی عمران صاحب ۔
    آپ کی تحریر سے عیاں ہے کہ آپ نے بہت محنت و تحقیق سے یہ مضمون ارسال کیا ہے۔
    اللہ تعالی آپ کو جزا عطا کرے۔ آمین

    لیکن آپکے مضمون سے جو تاثر نکلتا ہے کہ بس چند ہی برسوں میں دنیا اپنے اختتام کو جانے والی ہے ، آخری جنگ عظیم اور امام مہدی کا ظہور ہونے والا ہے۔ میرا ذہن، مطالعہ اور مشاہدہ اس چیز کو تسلیم کرنے سے انکاری ہے۔

    البتہ نعیم صاحب کا مضمون اور تجزیہ عصرِ حاضر کے حالات اور مستقبل قریب کے حوالے سے منطقی ہے۔ اور کافی حد تک ذہن قبول کرتا ہے۔

    بہرحال آپ دونوں حضرات کا اتنے اہم موضوع پر اتنی مفید معلومات ارسال فرمانے کا بہت شکریہ ۔

    اللہ کریم آپکو جزائے خیر دے اور عالم اسلام کے حال پر کرم فرمائے۔ آمین
     
  8. راشد احمد
    آف لائن

    راشد احمد ممبر

    شمولیت:
    ‏5 جنوری 2009
    پیغامات:
    2,457
    موصول پسندیدگیاں:
    15
    شکریہ عمران بھائی

    بہت معلوماتی مضمون آپ نے تحریر کیا ہے۔
     
  9. نیلو
    آف لائن

    نیلو ممبر

    شمولیت:
    ‏8 اپریل 2009
    پیغامات:
    1,399
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    سلام عرض ہے۔
    بہت عمدہ ، دلچسپ اور مفید موضوع ہے۔
     
  10. علی عمران
    آف لائن

    علی عمران ممبر

    شمولیت:
    ‏28 فروری 2009
    پیغامات:
    677
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    ہم میں سے شاید کوئی بھی ایک متعین عرصے کا تعین نہیں کر سکتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور میرا مقصد بھی صرف معلومات دینا ہے نہ کہ کوئی تائم فریم بتانا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    رہی بات ہونے نہ ہونے کی تو قدرت سے کچھ بعید نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

    اور مسلمان اس وقت اوجِ کمال نہیں بلکہ اوجِ زوال میں ہوں گے۔۔۔۔۔۔۔اور یہودی اوجِ کمال پر ہوں گے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آپ نے شاید پورا مضمون غور سے نہیں پڑھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جس میں ایک حدیث مبارکہ میں بری، بحری، اور فضائی فوج کی طاقت دشمن کے پاس ہی بتائی گئی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

    واللہ اعلم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
     
  11. مسلم پاور
    آف لائن

    مسلم پاور ممبر

    شمولیت:
    ‏3 اپریل 2009
    پیغامات:
    19
    موصول پسندیدگیاں:
    0
  12. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم۔ مسلم پاور بھائی ۔
    بہت اچھا اور معلوماتی لنک ہے۔
    شکریہ
     
  13. عبدمنیب
    آف لائن

    عبدمنیب ممبر

    شمولیت:
    ‏15 دسمبر 2008
    پیغامات:
    40
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    مجھے حق الیقین ہے کہ 2012 سے اس جنگ کا آغاز ہو گا اور اسرائیلی ریاست کا خاتمہ10 سال میں ہو جائے گا اور اس غاصب اور ناجائز ریاست کے خاتمہ کا آغاز مہدی برحق اور مجاہدین کے ہاتھوں ہو گا اور اس کے ساتھ ہی دو تہائی یہودی صفحہ ہستی ست مٹ جائیں گےاور باقی ماندہ یہودیوں کا خاتمہ حضرت عیسی ابن مریم علیہ اسلام اور ان کے مجاہدوں کے ہاتھوں اس وقت ہو گا جب دجال کی قیادت میں ستر ہزار یہودیوں کا لشکر شام پر حملہ آور ہو گا دجال اپنے لشکر کی قیادت کرتے ہوئے جب دمشق کے قریب پہنچے گا تو حضرت عیسی علیہ اسلام دشمن کے مشرقی حصہ میں ایک سفید منار کے قریب فجر کے وقت آسمان سے اتریں گے اور نماز فجر کے بعد اسلامی لشکر کی قیادت کرتے ہوئے دجال کے مقابلہ کے لئے نکلیں گے دجال پسپا ہو کر“افیق“ کی گھاٹی کی طرف بھاگے گا(دمشق سے کچھ فاصلے پر شام،اسرائیل سرحد پر ایک نشیبی راستہ اسرائیل کی جانب نکلتا ہے جسے“افیق کی گھاٹی“کہا جاتا ہے)حضرت عیسی علیہ اسلام اس کا تعاقب کریں گے اور لدا( LYDA)(جو اس وقت اسرائیل کا ایک بڑا فوجی ہوائی اڈا ہے)کے مقام پر جہنم رسید کر دیں گے،یہودیوں کا قتل عام صیہونی قوم کے کاتمہ پر منتج ہو گا حضرت عیسی علیہ اسلام کے ہاتھوں تمام عیسائی مسلمان ہو جائیں گے۔
     
  14. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم۔
    عبد منیب آپکے " حق الیقین " کے حساب سے اگر چند سال زندگی اور رہی تو امام مہدی علیہ السلام اور حضرت عیسی علیہ السلام کی زیارت ہم اپنی آنکھوں سے کر لیں گے۔ انشاءاللہ
     
  15. خوشی
    آف لائن

    خوشی ممبر

    شمولیت:
    ‏21 ستمبر 2008
    پیغامات:
    60,337
    موصول پسندیدگیاں:
    37
    اللہ تعالی ہم سب کو سیدھے راستے پہ چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور حق و باطل میں تمیز کا شعور بھی عطا فرمائے
     
  16. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    آمین ثم آمین ۔ :yes:
     
  17. علی عمران
    آف لائن

    علی عمران ممبر

    شمولیت:
    ‏28 فروری 2009
    پیغامات:
    677
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    آمین ثم آمین :yes:
     
  18. راشد احمد
    آف لائن

    راشد احمد ممبر

    شمولیت:
    ‏5 جنوری 2009
    پیغامات:
    2,457
    موصول پسندیدگیاں:
    15
    آئن سٹائن سے کسی نے پوچھا تھا کہ تیسری جنگ عظیم کیسی ہوگی تو آئن سٹائن نے جواب دیا تھا کہ تیسری جنگ عظیم کا مجھے پتہ نہیں لیکن چوتھی جنگ عظیم تلواروں اور ڈنڈوں سے ہوگی۔ میرا خیال ہے کہ یہ چوتھی جنگ ہی ہوگی۔ کیونکہ تیسری جنگ عظیم میں تو ایٹم بم اور دیگر ٹیکنالوجی استعمال ہوگی جو بعد میں ہر ملک سے ختم ہوجائے گی۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں