1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

باراک حسین اوباما

'حالاتِ حاضرہ' میں موضوعات آغاز کردہ از بےباک, ‏3 مارچ 2009۔

  1. بےباک
    آف لائن

    بےباک ممبر

    شمولیت:
    ‏19 فروری 2009
    پیغامات:
    2,484
    موصول پسندیدگیاں:
    17
    کافی سارے مسلمان اس مغالطے کا شکار ہیں کہ باراک حسین اوباما ایک مسلمان ہے،یا اس کا والد ایک مسلمان تھا ،
    یہ تصویریں خود منہ بولتا ثبوت ہیں ، تبصرے کی ضرورت ہرگز نہیں ،کہ وہ کون ہے اور کس کے ایجنڈے پر کام کر رہا ہے ،
    وہ وہی یہود جیسی مکاری کی چالیں چل رہا ہے ، کہ مسلمان بھی خوش رہیں اور مار بھی کھاتے رہیں ،
    مجھے اس موقع پر ایک پرانا لطیفہ یاد آ گیا ،
    روس میں سیاسی (پولٹیکل) تعلیم کے دوران ایک پروفیسر نے طلبا سے سامنے سوال رکھا، کہ ہمیں بلی کو سرخ مرچیں کھلانی ہیں ،کون سا طریقہ مناسب رہے گا، کہ بلی شوق سے کھا لے ،
    ایک طالب علم بولا ،کہ قیمے کے کباب بنا کر اس کے اندر مرچ چھپا کر اس کے سامنے رکھیں گے اور وہ کباب کو ایک دم کھائے گی تو مرچ اندر چلی جائے گی، پروفیسر نے کہا یہ طریقہ مناسب نہیں ،
    دوسرا طالب علم بولا ،کہ ہم بلی کو پکڑ کر اس کے منہ میں مرچیں ٹھونس دیں گے ،پروفیسر نے کہا جبر بالکل نہیں ،
    اس کے بعد پروفیسر نے کہا، کہ بلی کی دُم پر سرخ مرچوں کا پیسٹ گاڑھا لگا دیں ، آپ دیکھیں گے کہ وہ خود اسے چاٹ چاٹ کر اسے کھا لے گی، یہی حال ہم مسلمانوں کا ہے ، ہم بخوشی امریکن مرچیں کھا رہے ہیں اور چاٹ رہے ہیں۔ اور خوش بھی ہو رہے ہیں ،

    آپ سب کا مخلص: بےباک

    [​IMG]،،
    مزید
    [​IMG]،،،،،
    مزید
    [​IMG]،،،،،
    مزید
    [​IMG]،،،،
    مزید
    [​IMG]،،
    مزید
    [​IMG]،،
    مزید

    [​IMG] :happy:

    دیوارِگریہ کے سامنے توریت پڑھتے ہوئے ، آپ سب نے دیکھ لیا ہے ،
     
  2. ایم عتیق
    آف لائن

    ایم عتیق ممبر

    شمولیت:
    ‏14 دسمبر 2008
    پیغامات:
    141
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    کوئی تبصرہ نہیں :no:
     
  3. بےباک
    آف لائن

    بےباک ممبر

    شمولیت:
    ‏19 فروری 2009
    پیغامات:
    2,484
    موصول پسندیدگیاں:
    17
    بس اتنا ہی کافی ہے ، بغیر تبصرے کے
     
  4. مسز مرزا
    آف لائن

    مسز مرزا ممبر

    شمولیت:
    ‏11 مارچ 2007
    پیغامات:
    5,466
    موصول پسندیدگیاں:
    22
    خیر یہ تو کوئی نئی بات نہیں۔۔۔میں نے تو اسی وقت سمجھ لیا تھا جب اپنے خاص الخاص مشیر اس نے یہودیوں میں سے چنے تھے اور وہ یہودی جو کہ یہودی نہیں بلکہ zionists ہیں :neu:
     
  5. بےباک
    آف لائن

    بےباک ممبر

    شمولیت:
    ‏19 فروری 2009
    پیغامات:
    2,484
    موصول پسندیدگیاں:
    17
    میں نے کچھ ٹی وی چینل پر ایسے تبصرے دیکھے تھے ، اس لیے اصل صورت پبلک کے سامنے لایا ہوں ، تاکہ غلطی کی گنجائش بالکل ختم ہو جائے،


    آپ سب کا مخلص:بےباک
    :dilphool:
     
  6. راشد احمد
    آف لائن

    راشد احمد ممبر

    شمولیت:
    ‏5 جنوری 2009
    پیغامات:
    2,457
    موصول پسندیدگیاں:
    15
    بارک حسین اوباما

    اس شخص نے صدارتی الیکشن مہم کے دوران مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ، پاکستان پر حملے کی دھمکی دی تھی۔یہ کیسے مسلمان ہوسکتا ہے؟
     
  7. بےباک
    آف لائن

    بےباک ممبر

    شمولیت:
    ‏19 فروری 2009
    پیغامات:
    2,484
    موصول پسندیدگیاں:
    17
    سچ کہا ۔راشد احمد ،

    کچھ لوگ پھر بھی مغالطے میں تھے ، اور اب بھی ہیں ، ان کو یہ صورت دکھانی دی،

    آپ کا مخلص: بےباک
     
  8. فواد -
    آف لائن

    فواد - ممبر

    شمولیت:
    ‏16 فروری 2008
    پیغامات:
    613
    موصول پسندیدگیاں:
    14
    Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

    يہ بات خاصی دلچسپ ہے کہ آپ نے صدر اوبامہ کی يہودی مذہبی رسومات ميں شرکت کی تصاوير شائع کر کے يہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ ان کا جھکاؤ يہودی مفادات کی جانب زيادہ ہے۔ اس منطق کے غير جانب دار تجزيے کے ليے يہ ضروری ہے کہ کسی نتيجے پر پہنچنے سے پہلے محض چند مخصوص بيانات، تصاوير اور اقدامات تک اپنی توجہ مرکوز کرکے صدر اوبامہ کی پاليسيوں کو جانب دار قرار دينے کی پيشن گوئ کرنے کی بجاۓ مکمل کينوس پر نظر دوڑائ جاۓ۔

    امريکی عوام اور امريکی سياسی قائدين اکثر ملک کے اندر بسنے والے بے شمار مذہبی، لسانی اور نسلی گروہوں سے اظہار يکجہتی کے لیے انکی مذہبی، ثقافتی اور سماجی تقریبات ميں شرکت کرتے رہتے ہیں۔

    باہمی احترام کے يہ اقدامات امريکی اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ اور امريکی فوج سميت معاشرے کی ہر سطح پر دکھائ ديتے ہيں۔ ايک مسلمان ہونے کی حيثيت سے ميں آپ کو اپنے ذاتی تجربے کی روشنی ميں يہ بتا سکتا ہوں کہ ہميں عيد اور رمضان سميت تمام اہم مذہبی مواقع پر امريکی صدر سميت تمام اہم حکومتی عہديداروں کی جانب سے ای ميل اور پيغامات موصول ہوتے ہيں۔ چند ماہ قبل اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ ميں عيد کے موقع پر مسلمانوں نے دعوت کا اہتمام کيا جس ميں بے شمار سينير حکومتی عہديداروں نے شرکت کی۔

    اس ضمن ميں خاص طور پر ايک مسلم سکالرڈاکٹر اينگرڈ ميٹسن کا ذکر کرنا چاہوں گا جنھوں نے صدر اوبامہ کی ابتدائ دعائيہ تقريب ميں دعائيہ کلمات ادا کيے۔ ڈاکٹر ميٹسن ايک مسلم تنظيم آئ – ايس – اين – اے کی صدارت سنبھالنے والی پہلی مسلم خاتون کی حيثيت سے خاصی شہرت رکھتی ہيں۔

    تقريب ميں شرکت کرنے کے بعد انھوں نے صدر اوبامہ کی جانب سے مسلمانوں سے اظہار يکجہتی کے اظہار پر شکريہ ادا کيا اور دعائيہ تقريب ميں ايک مسلمان کی شرکت کو امريکہ معاشرے کی وسعت پسندی کی ايک مثال قرار ديا۔



    فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
    digitaloutreach@state.gov
    http://www.state.gov
     
  9. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    فواد بھائی ۔ آپ نے درست کہا۔
    میں متفق ہوں۔

    ہم پاکستانی قوم ہمیشہ ہر غلطی کا ملبہ دوسروں پر ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔
    خاص کر اسلامی دنیا میں اگر اپنی قومی و اندرونی غلط پالیسیوں کی وجہ سے کسی مشکل میں پھنس جائیں
    تو الزام سیدھا امریکہ ، یہودیوں پر ڈال کر اپنی جان چھڑاتے ہوئے خود کو " معصوم فرشتہ" ثابت کرنا ہمارا قومی وطیرہ بن چکا ہے۔

    کاش ہم کبھی اپنے گریبان میں جھانک کر اپنا احتساب کرتے ہوئے اپنی اصلاح کی بھی فکر کر لیں۔
     
  10. بےباک
    آف لائن

    بےباک ممبر

    شمولیت:
    ‏19 فروری 2009
    پیغامات:
    2,484
    موصول پسندیدگیاں:
    17
    شکریہ فواد بھائی اور نعیم بھائی،

    شامل ہونا اور عبادات کرنا دو مختلف باتیں ہیں ، مسلمان بھی دوسروں کی خوشیوں میں شامل ہوتے ہیں اور اسی طرح غیر مسلم بھی ، مگر ان کی عبادات ہرگز سرانجام نہیں دیتے،

    توجہ دلانے کا شکریہ ،۔۔۔۔

    آپ سب کا مخلص: بےباک :dilphool: :dilphool:
     
  11. فواد -
    آف لائن

    فواد - ممبر

    شمولیت:
    ‏16 فروری 2008
    پیغامات:
    613
    موصول پسندیدگیاں:
    14
    Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

    صدر اوبامہ کی تصاوير سے مجھے سال 2006 کا ايک واقعہ ياد آ گيا جو آپ دوستوں کے ساتھ شيئر کرنا چاہتا ہوں جس سے آپ کو امريکی معاشرے ميں مذہبی آزادی اور روادری کے تصور کو سمجھنے ميں مدد ملے گی۔

    ماہ رمضان سے کچھ پہلے ميں نے اپنے مينجر سے درخواست کی کہ مجھے ايک ماہ کے ليے دفتر ميں کھانے کے وقفے کی ضرورت نہيں ہو گی لہذا مجھے اپنے دفتری اوقات ميں تبديلی کی اجازت دی جاۓ۔ ميرے مينجر کو روزے کے حوالے سے کافی تجسس ہوا اور اس نے مجھ سے اس ضمن ميں کئ سوالات کيے۔ موصوف کا يہ دعوی تھا کہ ايک ماہ تک بھوک اور پياس برداشت کر کے دنياوی فرائض انجام دينا ممکن نہيں ہے۔ کچھ ہی دير ميں ہماری گفتگو دلچسپ بحث ميں تبديل ہو گئ۔ آخر ميں نے اپنے مينجر کو دعوت دی کہ وہ بھی ميرے ساتھ رمضان کے روزے رکھيں۔ کچھ تاخير کے بعد انھوں نے حامی بھر لی۔ پھر کچھ سوچ کر انھوں نے مجھ سے سحر اور افطار کی دعائيں بھی مانگيں۔ ميں نے اپنے مينجر کو ان دعاؤں کے انگريزی ترجمے لا کر ديے۔ ميرا ذاتی خيال يہ تھا کہ وہ دو چار دن کے بعد اپنا ارادہ ترک کر ديں گے۔

    ليکن ميرا اندازہ غلط ثابت ہوا۔

    ان صاحب نے ايک ماہ تک سحر اور افطار کی دعاؤں سميت رمضان کے سارے روزے رکھے۔ ميں نے اپنے مينجر کو کجھوروں کا ايک پيکٹ بھی تحفے کے طور پر ديا اور انھيں بتايا کہ مسلمان اپنی روايات کے مطابق کجھور سے روزہ افطار کرتے ہيں۔ رمضان کے اختتام پر ميں دفتر ميں مٹھائ کا ڈبہ لے کر آيا اور ہم نے اکٹھے عيد منائ۔

    يہاں ميں يہ بھی واضح کر دوں کہ ميرے مينجر کے اہل خانہ اور دفتر کے تمام لوگ (جو کہ سارے غير مسلم تھے) اس بات سے واقف تھے کہ وہ ميرے ساتھ رمضان کے روزے رکھ رہے ہیں ليکن نہ کسی نے ان پر مسلمان ہونے کا "الزام" لگايا اور نہ ہی ان کے عمل کو کسی سازش کا حصہ قرار ديا۔ اس کے علاوہ ميرے اوپر بھی کسی نے يہ الزام نہيں لگايا کہ ميں اپنے مذہبی خيالات کا پرچار کر رہا ہوں۔ اس کے برخلاف دفتر کے تمام لوگ ہمارے اس "معاہدے" سے لطف اندوز ہوتے رہے اور ميرے مينجر کی حوصلہ افزائ کرتے رہے۔ امريکی معاشرے ميں برداشت اور ايک دوسرے کو سمجھنے کا يہ تصور بہت عام ہے۔

    صدر اوبامہ کی ايک يہودی عبادت گاہ ميں موجودگی اسی جذبے کی عکاسی کرتی ہے جس کا مشاہدہ اور تجربہ ميں خود امريکی معاشرے ميں کر چکا ہوں۔ مچھے نيو جرسی ميں ايک ايسی عيد ملن تقريب ميں بھی شرکت کرنے کا اتفاق ہوا جس ميں علاقے کی يہودی کميونٹی کے اہم ترين ارکان اور ايک امريکی سينيٹر بھی موجود تھے۔

    ليکن مختلف مذاہب کے افراد کے مابين برداشت اور مروت کے يہ مناظر اسی وقت ممکن ہوتے ہيں جب ڈائيلاگ اور بات چيت کا عمل جاری رکھا جاۓ اور اس کے ليے ضروری ہے کہ ہر انسان کے ليے اسکی مذہبی وابستگی سے قطعی نظر برداشت کا مادہ موجود ہو۔


    فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
    digitaloutreach@state.gov
    http://www.state.gov
     
  12. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    فواد بھائی ۔ گوکہ معاشرتی سوچ کو سمجھانے کی حد تک آپکی بات صحیح ہے۔

    لیکن باراک ابامہ جیسے راہنما کا ایک لفظ، یا ایک عمل کا موازنہ ۔۔ ایک عام شہری کے الفاظ و اعمال سے کرنا
    کچھ نامناسب سی بات لگتی ہے۔

    مثلاً میں اگر کہہ دوں " امریکہ دہشت گرد ملک ہے "
    تو شاید کچھ بھی نہ ہو

    لیکن اگر صدر زرداری کہہ دے

    تو دنیا میں طوفان مچ جائے۔۔
    شاید پاکستان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی جائے۔
    اور خود آپکے انسٹیٹیوٹ کو بھی ہزاروں مضامین اسکے دفاع میں لکھنے پڑ جائیں۔
     
  13. انجم رشید
    آف لائن

    انجم رشید ممبر

    شمولیت:
    ‏27 فروری 2009
    پیغامات:
    1,681
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    واہ فواد بھائی آپ پنی ملازمت کا خوب دفاع کر رہے ہیں يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ کا تو یہی کام ہے کہ پراپوگنڈہ جاری رکھو
    مجھے بھی بیس سال ہو گے ہیں یونان میں ایسی ہزاروں مسالیں میں آپ کو دے سکتا ہوں
    الحمد اللہ مجھے یونانیت اور عیسایت پر کافی معلومات ہیں یہاں کے چرچ نے اپنی زمین مخصوص کی ہے مسجد کے لیے جو کہ
    ایتھنز شہر کی پہلی جامع مسجد ہوگی تو کیا میں خود یونانی دوستوں کی ہر قسم کی تقریبات میں شامل ہوتا ہوں جینا مرنا سب میں آپ اس کو کیا کہیں گے کرسمس کے موقع پر پاکستان کے کیسی نہ کیسی عہدار کا عیسائی برادری کو مبارک باد کا پیغام ضرور ہوگا اس سے آپ کیا ثابت کریں گے
     

اس صفحے کو مشتہر کریں