1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

::::: ویلنٹائن ڈے ، عید محبت :::::

'حالاتِ حاضرہ' میں موضوعات آغاز کردہ از عادل سہیل, ‏12 فروری 2009۔

موضوع کا سٹیٹس:
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
  1. عادل سہیل
    آف لائن

    عادل سہیل ممبر

    شمولیت:
    ‏24 جولائی 2008
    پیغامات:
    410
    موصول پسندیدگیاں:
    11
    ملک کا جھنڈا:
    عید محبت یا ویلنٹائن ڈے​
    الحمد للّہ والصلاۃ والسلام عَلی أشرف الأنبیاء والمُرسلین نبینا محمد و علی آلہ وسلم ،
    پچھلے چند سالوں سے ہماری امت میں اور ہمارے پاکستانی معاشرے میں بھی ایک """ دن منانے""" کی رسم کو بڑے شد و مد سے رائج کیا جا رہا ہے ، دیگر بیسویں رسموں ، اور عادات کی طرح ہم مسلمان اپنی وسعت قلبی کا ثبوت پیش کرنے کے لیے اسے بھی قبول کرتے جا رہے ہیں ، جبکہ اس رسم اور اس طرح کی دوسری غیر اسلامی رسموں کو قبول کرنے کا اصل اور حقیقی سبب وسعت قلبی نہیں ، اپنے دین سے جہالت اور دین کے مخالفین کی فکری یلغار سے ہارنا ہے ،
    جی میں یہاں اس رسم کی بات کرنے والا ہوں جسے """ ویلنٹائن ڈے """ اور """ عید محبت """ کہا جاتا ہے ، اور اس رسم کو پورا کررنے کے لیے ایک خاص دن """ چودہ فروری """ مقرر ہے ، جس دن میں اس رسم کی تکمیل کے لیے نوجوان لڑکے اور لڑکیا ں ، بلکہ مرد و عورت ایک دوسرے کو تحفے تحائف دے کر اپنی محبت اور دوستی کا اظہار و اقرار کرتے ہیں ، اور ناجائز حرام تعلقات کا آغاز یا تجدید کرتے ہیں ،
    جی ہاں ، ناجائز اور حرام کام کرتے ہوئے ، ناجائز اور حرام تعلقات قائم کرتے ہیں ، آغاز بھی جہنم اور آخرت بھی جہنم ،
    ٹھہریے ، """ بنیاد پرستی """ ، """ دقیانوسیت """ ، اور جدید دور کے نئے مفاہیم کے مطابق """ دہشت گردی """ کی بات سمجھ کر غصہ مت کیجیے ، میں نے جو کچھ کہا اس کا ثبوت اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے فرامین میں دینے سے پہلے ضروری ہے کہ اس """ ویلنٹائن ڈے """ یا """ عید محبت """ کی اصلیت اور تاریخ جانی جائے ، اور یہ تاریخ میری نہیں ان کی لکھی ہوئی ہے جن کے گھر کی بات ہے ،
    علم و حق کی کیسی مفلسی ہے کہ جس عادت اور رسم کو اپنائے ہوئے ہیں اس کی اصلیت و تاریخ بھی ایک نہیں جانتے ، ( یہ مفلسی اُدھر ہی نہیں اِدھر بھی ہے کہ ہم مسلمان بھی کئی ایسے عقائد اور عبادات اور رسمیں اپنائے ہوئے ہیں جن کی حقیقیت اور اصلیت نہیں جانتے بس """ بل نتبع ما الفینا علیہ آباونا ::: بلکہ ہم اس کی پیروی کریں گے جس پر اپنے بڑوں کو پایا """ کی عملی تصویر بنے ہوئے ہیں ,
    جی تو بات تھی """ ویلنٹائن ڈے """ یا """ عید محبت """ کی اصلیت اور تاریخ کی ، اس کی تاریخ کے بارے میں مختلف باتیں ملتی ہیں ، ان کو بہت مختصر طور پر یہاں ذکر کرتا ہوں ،

    [highlight=#FFFF80:yaz7gvs4]::::: (1) :::::[/highlight:yaz7gvs4] کہا گیا کہ تقریبا 1700 سال پہلے جب روم میں بہت سے رب مانے جاتے تھے بہت سے معبودوں کی عبادت کی جاتی تھی ، بارش والا معبود الگ ، روشنی والا الگ ، اندھیرے والا الگ ، محبت والا الگ ، نفرت والا الگ ، طاقت والا الگ ، کمزوری والا الگ ، کفر و شرک کا ایک لامتناہی سللسہ تھا ، ایسے میں رومیوں کے ایک مذہبی راہنما """ ویلنٹائن """ نے عیسائت قبول کر لی ، پس حکومت روم کے پاس اس کے علاوہ اور کوئی حل نہ تھا کہ اس کو قتل کر دیا جاتا تا کہ ان کے آباو ا جداد کا اور حکومتی دین محفوظ رہے ، پس """ ویلنٹائن""" کو قتل کر دیا ، وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ جب روم میں عیسائیت عام ہو گئی تو لوگوں """ ویلنٹائن""" کے قتل کا دن """ منانا """ شروع کیا ، تا کہ اس کو یاد رکھا جائے اور اس کے قتل پر ندامت کا اظہار کیا جائے ، ( وہ اظہار کیسے کیا جاتا تھا اس کا ذکر ان شاء اللہ ابھی کروں گا )
    [highlight=#FFFF80:yaz7gvs4]::::: ( 2) :::::[/highlight:yaz7gvs4] کہا گیا ، 14 فروری رومیوں کی ایک مقدس معبودہ (معبود کی مونث ، دیوی ) """ یونو یا جونو """ کا دن تھا ، اس معبودہ کے بارے میں رومیوں کا عقیدہ تھا کہ وہ ان کے سب معبودوں کی ملکہ ہے اور اس کو عورتوں اور شادی کے معاملات کے لیے خاص سمجھا جاتا تھا ، پس اسی کفریہ عقیدے کی بنا پر اس معبودہ کا دن منانا عورتوں ، محبت اور شادی یا بغیر شادی کے ہی شادی والے تعلقات بنانے کے لیے خاص جان کر """منایا """ جانے لگا ،
    [highlight=#FFFF80:yaz7gvs4]::::: (3) :::::[/highlight:yaz7gvs4]رومیوں کی ایک اور معبودہ """ لیسیوس """ نامی بھی تھی ، جو ایک مونث بھڑیا تھی ، رومیوں کا عقیدہ تھا کہ اس """ لیسیوس """ نے روم کے دونوں بانیوں Rumulusاور Remusکو ان کے بچپن میں دودھ پلایا تھا ، پس اس 14 فروری کو انہوں نے """ محبت """ نامی عبادت گاہ میں اس بھیڑیا معبودہ کا دن """ منانا""" شروع کیا ، اس عبادت گاہ کو """ محبت """ نام اس لیے دیا گیا کہ ان کے کفریہ عقیدے کے مطابق ان کی یہ بھڑیا معبودہ روم بنانے والے دونوں بچوں کو محبت کرتی تھی
    [highlight=#FFFF80:yaz7gvs4]::::: (4) :::::[/highlight:yaz7gvs4] قدیم رومی بادشاہ کلاڈیس 2 نے رومی مردوں کی مطلوبہ تعداد کو اپنی فوج میں شامل کرنے میں کافی مشکلات محسوس کیں ، کلاڈیس نے جب اس کا سبب تلاش کرنا چاہا تو پتہ چلا کہ شادی شدہ مرد اپنی بیویوں اور خاندانوں کو چھوڑ کر فوج میں شامل نہیں ہونا چاہتے تو کلاڈیس نے یہ شادیوں سے ممانعت کا فیصلہ صادر کر دیا ، اسوقت کے روم کے ایک بڑے پادری """ ویلنٹائن """ نے اپنے بادشاہ کی بات کو غلط جانتے ہوئے اس کی خلاف ورزی کی اور اپنے گرجا میں خفیہ طور پر محبت کرنے والے جوڑوں کی شادیاں کرواتا رہا کچھ عرصہ بعد یہ بات بادشاہ کو معلوم ہو گئی تو اس نے بتاریخ 14 ، فروری ، 269عیسوئی ویلنٹائن کو قتل کروا دیا ، اور یوں یہ ویلنٹائن محبت کرنے کروانے کے سلسلے میں ایک مثالی شخصیت بن گیا ،
    [highlight=#FFFF80:yaz7gvs4]::::: (5) :::::[/highlight:yaz7gvs4] قتل کیے جانے سے پہلے ویلنٹائن اور اس کے ایک اور ساتھی پادری ماریوس کو جیل میں قید رکھا گیا ، اس قید کے دوران ویلنٹائن ایک لڑکی کی محبت میں گرفتار ہو گیا ، جو غالبا جیلر کی بیٹی تھی ، جو اس کو قتل والے دن یعنی 14 فروری کو دیکھنے یا ملنے آئی تو ویلنٹائن نے اسے ایک محبت نامہ دیا ،
    [highlight=#FFFF80:yaz7gvs4]::::: (6) :::::[/highlight:yaz7gvs4] قدیم روم میں جوان لڑکے اور لڑکیوں کی ملاقات اور میل جول پر سخت پابندی تھی ، سوائے ایک میلے یا عید کے موقع پر جسے""" Lupercalia لیوپیرکالیا""" کہا جاتا تھا ،
    یہ عید بھی ایک جھوٹے باطل معبود """ Lupercus لیوپرکاس """ کی تعظیم کے لیے منائی جاتی تھی جسے رومی اپنے چرواہوں اور جانوروں کی حفاظت اور مدد کرنے والا سمجھتے تھے ،
    اس دن جوان لڑکیاں اپنے نام کی پرچیاں بوتلوں میں ڈال کر رکھ دیتیں اور مرد یا لڑکے ان پرچیوں کو نکالتے جس کے ہاتھ جس کے نام کی پرچی لگتی ان کو ایک سال تک یعنی اگلی عید Lupercalia تک ایک دوسرے کے ساتھ تعلق استوار کرنے کی عام چھٹی ہو جاتی کبھی وہ جوڑا شادی کر لیتا اور کبھی بغیر شادی کے ہی سال بھر یا سال سے کم کسی مدت تک میاں بیوی جیسے تعلق کے ساتھ رہتا ،
    اس میلے یا عید کی تاریخ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ فروری تھی ، اور یہ بھی لکھا جاتا ہے کہ سے فروری تک یہ عید منائی جاتی رہتی تھی ،
    ویلنٹائن کی موت کی یادگار منانے کی تاریخ اسی میلے کے ساتھ جا ملی اور دونوں کی کہانیاں اور گناہ مل کر ایک دن منائے جانے لگے اور نام بدنام کیا جانے لگا محبت کا ، جو ایک مثبت جذبہ ہے اور صرف اسی کیفیت تک محدود نہیں جس کی تعلیم اس عید اور اس کی کہانی اور اس جیسی دوسری گناہ آلود کہانیوں میں دی جاتی ہے ،
    1969 عیسوئی تک تو بین الاقوامی طور پر یہ دن اُس ویلنٹائن سے منسوب کر کے رومی بنیادی گرجا کی طرف سے """ منایا """ جاتا رہا ، اور اس سے کچھ عرصہ پہلے تک اسی گرجا کی طرف سے یہ دن بھیڑیا معبودہ کی طرف منسوب کیا جاتا رہا
    [highlight=#FFFF80:yaz7gvs4]::::: (7) :::::[/highlight:yaz7gvs4] پندرھویں صدی کے آغاز میں """ اگن کورٹ Agincourt """کی جنگ میں ایک فرانسی ریاست اورلینز کا نواب """ Duke of Orleans """ انگریزوں کے ہاتھ قید ہوا جسے کئی سال تک لندن کے قلعے میں بند رکھا گیا ، وہاں سے وہ اپنی بیوی کے لیے عشقیہ شاعری بھیجتا رہا ، جن میں سے تقریبا ساٹھ نظمیں اب بھی برٹش میوزم میں موجود ہیں ، اس کی شاعری کو جدید دور کے """ ویلنٹائنز """ کا آغاز سمجھا جاتا ہے ،
    [highlight=#FFFF80:yaz7gvs4]::::: (8) :::::[/highlight:yaz7gvs4] اس کے تقریبا دو سو سال بعد """ ویلنٹائن کے دن """ پر پھول وغیرہ دینے کی رسم کا یوں آغاز ہوا کہ فرانس کے بادشاہ ہنری چہارم Henry IV کی ایک بیٹی نے """ پادری ویلنٹائن کا دن """ مناتے ہوئے یہ اہتمام کیا کہ ہر عورت اور لڑکی کو اس کا اختیار کردہ مرد یا لڑکا پھولوں کا ایک گلدستہ پیش کرے ،
    [highlight=#FFFF80:yaz7gvs4]::::: (9) :::::[/highlight:yaz7gvs4] انیسویں صدی کے درمیان میں اس گندگی کو پھیلانے میں تیزی پیدا ہوئی کہ طرح طرح کارڈز اور پیغامات کی چھپائی ہونے لگی ، امریکہ وغیرہ نے ان کارڈز کی ترسیل کے لیے ڈاک کے نرخ بھی کم کر دیے ، اور آہستہ آہستہ ابلیس کا شکار ہو کر بہت سے لوگ اپنی اپنی دنیا کمانے کے چکر میں طرح طرح کی ایجادات کرتے اور ان کو ہر ممکن طور نشر کرتے چلے آ رہے ہیں ،
    مسلمانو، اس دن کی نسبت ، اور اس کی اصلییت ، ان مندرجہ بالا قصوں میں سے کسی کے ساتھ بھی ہو ، بہر صورت اس کی اصلییت کفر و شرک گناہ و غلاظت ہی ہے ، اور اب بھی اس دن کو غیر اخلاقی اور یقینا ہمارے دین کے مطابق حرام میل ملاقات رکھنے والے مرد و عورت یا لڑکے اور لڑکیوں کے لیے شیطان ایک """ عید """ کا نام دے کر ، دھوکے کا ایک لباس مہیا کیا ، جسے اوڑھ کر کھلے عام ایک دوسرے کو ناجائز تعلقات کی دعوت دی جاتی ہے ، بلکہ ایسے تعلقات قائم کیے جاتے ہیں ، اور ابلیس کا دیا ہوا یہ لباس ہر دفعہ مزید خوش منظر ہو کر آتا ہے کہ اہل معاشرہ بھی اس کے پیچھے ہونے والے شیطانی کاموں کو اچھا اور بہتر اور فطری سمجھتے ہیں ،
    اس بات سے اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں کہ یہ عید یا دن مسلمانوں کا ہر گز نہیں اور جو کچھ اس دن میں کیا جاتا ہے اسلام میں اس کی کوئی گنجائش نہیں ، اسلام تو بہت بلند و برتر ہے ، عیسائی کنیسا نے بھی اس ویلنٹائن دن میں ہونے والی حرافات کو کسی دین کے ساتھ منسوب رکھنا نا مناسب سمھتے ہوئے اس کی باقاعدہ سرپرستی ترک کر دی ، لیکن افسوس ، مسلمانوں کو اس کی کوئی پرواہ نہیں ، اپنی نفسانی خواہشات کی تکمیل ، اپنی تجارت کو بڑھانے چمکانے کے لیے اس غیر اسلامی حرام دن منانے کی رسم کی تمام تر ضروریات کو بدرجہ اتم مہیا کیا جاتا ہے ، اور لوگوں کو اس کی طرف مائل کرنے کے لیے ہر ممکن ذریعہ اور وسیلہ اختیار کیا جاتا ہے ،
    اس عید یا دن کو منانے میں اب ہمارے مسلمان بھائی بہن بھی ابلیسی نعروں اور فکر کے زیر اثر شامل ہوتے ہیں ، اور اس کے گناہ کا کوئی شعور نہیں رکھتے ،
    اس کفر و شرک اور بے حیائی اور بے غیرتی اور گناہ کی بنیاد پر منائے جانے والے دن اور اس میں کیے جانے والے کاموں کی تاریخ اور اصلییت بتانے کے بعد اب میں کوئی لمبی چوڑی تفصیلی بات کرنے کی بجائے اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے فرامین سناتا ہوں کہ ایمان والوں کے لیے اس سے بڑھ کر حجت کوئی اور نہیں اور نہ ہی اور کی ضرورت رہتی ہے اور جو نہ مانے یا کسی تاویل کے ذریعے راہ فرار اختیار کرنے کی کوشش کرے یا کسی فلسفے کا شکار ہو کر اس گناہ کو گناہ سمجھنے میں تردد محسوس کرے وہ اپنے ایمان کی خبر لے ،
    [highlight=#FF80BF:yaz7gvs4]:::::::[/highlight:yaz7gvs4] اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا حکم ہے اور تنبیہ ہے (((((لاَّ یَتَّخِذِ المُؤمِنُونَ الکَافِرِینَ أَولِیَاء مِن دُونِ المُؤمِنِینَ وَمَن یَفعَل ذَلِکَ فَلَیسَ مِنَ اللّہِ فِی شَیء ٍ إِلاَّ أَن تَتَّقُوا مِنہُم تُقَاۃً وَیُحَذِّرُکُمُ اللّہُ نَفسَہُ وَإِلَی اللّہِ المَصِیرُ::: ایمان والے ، ایمان والوں کی بجائے کافروں کو اپنا دوست ( راہبر ، راہنما ، پیشوا ) نہ بنائیں اور جو ایسا کرے گا اس کے لیے اللہ کی طرف سے کوئی مددگاری نہیں ہاں اگر تم لوگوں (کافروں کے شر سے ) کوئی بچاو کرنا چاہو تو (صرف اس صورت میں اسیا کیا جا سکتا ہے ) ، اور اللہ تم لوگوں کو خود اُس (کے عذاب ) سے ڈراتا ہے اور اللہ کی طرف ہی پلٹنا ہے ( پس اسکے عذاب سے بچ نہ پاؤ گے ))))) سورت آل عمران / آیت 28
    [highlight=#FF80BF:yaz7gvs4]:::::::[/highlight:yaz7gvs4] اور مزید حکم فرمایا اور نافرمانی کا نتیجہ بھی بتایا (((((یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا لاَ تَتَّخِذُوا الیَہُودَ وَالنَّصَارَی أَولِیَاء بَعضُہُم أَولِیَاء بَعضٍ وَمَن یَتَوَلَّہُم مِّنکُم فَإِنَّہُ مِنہُم إِنَّ اللّہَ لاَ یَہدِی القَومَ الظَّالِمِینَ ::: اے ایمان لانے والو یہودیوں اور عیسائیوں کو دوست ( راہبر ، راہنما ،پیشوا ) نہ بناؤ وہ ایک دوسرے کے دوست ہیں (تمہارے ہر گز نہیں ) اور تم لوگوں میں سے جو کوئی انہیں دوست بنائے گا تو بے شک وہ ان ہی میں سے ہے بے شک اللہ ظلم کرنے والوں کو ہدایت نہیں دیتا ))))) سورت المائدہ / آیت 51
    یہ بات واضح ہے کہ ویلنٹائن کا دن یا محبت کی عید غیر اسلامی دینی تہوار ہیں اور ان کو منایا جانا اسلام کی بجائے دوسرے دین کے لیے رضامندی کا اظہار ہے اور اس باطل دین کو پھیلانے کی کوشش اور سبب ہے ، اور اللہ توتعالیٰ کا فرمان ہے (((((وَمَن یَبتَغِ غَیرَ الإِسلاَمِ دِیناً فَلَن یُقبَلَ مِنہُ وَ ہُوَ فِی الآخِرَۃِ مِنَ الخَاسِرِینَ ::: اور جو کوئی اسلام کے علاوہ کچھ اور کو دین چاہے گا تو اس کا کوئی عمل قُبُول نہ ہوگا اور وہ آخرت میں نقصان اُٹھانے والوں میں ہو گا ))))) سورت آل عمران / آیت 85
    [highlight=#FF80BF:yaz7gvs4]:::::::[/highlight:yaz7gvs4] اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کا فیصلہ ہے (((((مَن تشبَّہ بِقومٍ فَھُو مِنھُم ::: جِس نے جِس قوم کی نقالی کی وہ اُن ہی ( یعنی اُسی قوم ) میں سے ہے ))))) سُنن أبو داؤد /حدیث 4025 /کتاب اللباس / باب 4 لبس الشھرۃ ۔
    رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فیصلہ عام ہے اور اِس میں سے کِسی چیز کو نکالنے کی کوئی گُنجائش نہیں ، لہذا لباس ، طرز رہائش ، عادات و اطوار ، رسم و رواج ، کِسی بھی معاملے میں کافروں کی نقالی کرنا جائز نہیں ، اپنی بُرائی کو اچھائی بنانے کے لیے اُسے اچھائی سے تبدیل کرنا ہوتا ہے ، کوئی اچھا نام دینے سے وہ بُرائی اچھائی نہیں بنتی ،
    جی یہ سمجھ میری نہیں ، انبیاء کے بعد سب سے پاک ہستیوں کی ہے ، جنہیں صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کہا جاتا ہے ، ملاحظہ فرمایے ،

    [highlight=#BFFF40:yaz7gvs4]:::::::[/highlight:yaz7gvs4] دوسرے بلا فصل خلیفہ امیر المؤمنین عُمر رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے (((((أجتنبُوا أعداء اللَّہ فی أعیادھم ::: اللہ کے دشمنوں سے ان کی عیدوں (کے دنوں ) میں دور رہو ))))) سنن البیہقی الکبُریٰ ، کتاب الجزیۃ ، باب 56 ، اسنادہ صحیح ،
    یعنی جب کسی جگہ پر کفار کے ساتھ معاشرتی ساتھ ہو تو خاص طور پر ان کی عیدوں کے دنوں میں ان سے دور رہا کرو ،
    [highlight=#BFFF40:yaz7gvs4]:::::::[/highlight:yaz7gvs4] چوتھے بلا فصل خلیفہ ، امیر المؤمنین علی رضی اللہ عنہ کو ایک دن کچھ تحفہ موصول ہوا ، دریافت فرمایا (((((ما ہذہ ؟ ::: یہ کیا ہے ؟ ))))) بتایا گیا "" اے امیر المؤمنین یہ نیروز (تہوار )کا دن ہے (اور یہ اس تہوار کا تحفہ ہے ) """ فرمایا (((((فاصنعوا کل یوم نیروز::: تو ہر ایک دن کو ہی نیروز بنا لو ))))) ابو اسامہ اس روایت کے ایک راوی فرماتے ہیں کہ """ کرہ أن یقول نیروز ::: (امیر المؤمنین )علی رضی اللہ عنہ نے اس چیز سے کراہت کا اظہار فرمایا کہ کسی دن کو نیروز کہا جائے """ سابقہ حوالہ ، باسناد صحیح
    غور فرمایے ، کہ علی رضی اللہ عنہ نے کسی دن کو وہ نام تک دینا پسند نہیں فرمایا جو کافروں نے دیا ہوا تھا ، اور یہ اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے احکام کی قلبی قبولیت اورعملی تطبیق کی ایک بہترین مثال ہے ،
    آج ہم انہی شخصیات سے محبت اور ان کی پیروی کا دعویٰ کرتے ہیں ، لیکن ہماری سوچ و فکر ، ایمان و عمل ان سے کوئی مطابقت نہیں رکھتے ، انا للہ و انا الیہ راجعون،
    [highlight=#BFFF40:yaz7gvs4]:::::::[/highlight:yaz7gvs4] عبداللہ بن عَمرو العاص رضی اللہ عنہما کا فرمان ہے (((((مَن بَنیٰ ببلاد الأعاجم و صنع نیروزھم و مھرجانھم ، و تشبھ بھم حتیٰ یَموت و ھو کذلک حُشِرَ معھم یوم القیامۃ ::: جس نے کفار کے شہروں میں رہائش گاہیں بنائیں اور ان کے تہوار اور میلے منائے اور ان کی نقالی کی یہاں تک کہ اسی حال میں مر گیا قیامت والے دِن اُس کا حشر اُن کافروں کے ساتھ ہی ہو گا ))))) سابقہ حوالہ ، صحیح الاسناد ،
    ایسی روایات کو حُکماً مرفوع یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کا قول سمجھا جاتا ہے کیونکہ یہ غیب کی خبر اور غیب کی خبر صرف اللہ کو ہے اور اللہ کی طرف سے جتنی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کو دی گئی پس کسی صحابی رضی اللہ عنہ کی طرف سے ایسی کوئی خبر اس کی اپنی بات نہیں ہو سکتی ،
    اس ویلنٹائن کے دن ، یا عیدء ِ محبت منانے کو ایک اور زوایے سے بھی دیکھتے چلیں کہ اس دن ، اس نسبت سے اور اس کو منانے کے لیے جو کچھ بھی کیا جاتا ہے وہ قطعا غیر ضروری ہے اور ان غیر ضروری چیزوں پر ایک پائی بھی خرچ کرنا فضول خرچی ہے ، اور فضول خرچی کرنے والوں کا اللہ کے ہاں کیا رتبہ ہے وہ اللہ تعالیٰ نے بتا دیا ہے (((((اِنَّ المبذِرِینَ کان أِخوان الشیاطین و کان الشیطنُ لِربِّہِ کَفُوراً ::: فضول خرچی کرنے والے شیطانوں کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے رب کا بڑا ہی نا شکرا ہے ))))) سورت الا سراء َ ، ( بنی اسرائیل )/آیت ،27 ،
    کفر وشرک ، گناہ و غلاظت کے اس دن کو مناتے ہوئے اگر ایک پیسہ بھی خرچ کیا جائے ، ایک لمحہ بھی خرچ کیا جائے تو وہ سوائے اللہ کے عذاب کے کچھ اور نہیں کمائے گا ، اور اگر یہی کچھ ، کسی مسلمان کی مدد کے لیے خرچ کیا جائے ، یا اپنی اور اپنوں کی کوئی جائز ضرورت پوری کرنے کے لیے خرچ کیا جائے تو ان شاء اللہ تعالیٰ نتیجہ بالعکس ہو گا ،
    جو لوگ اس عیدء ِ محبت کو گوارہ کرتے ہیںاور دوسروں کی خواتین کو پھانسنے کی کوشش کرتے ہیں یا ایسا کر گذرنے کو بڑا کارنامہ سمجھتے ہیں اور اس کارنامے کی انتہا جنسی بے راہ روی تک لے جانے کے خواہش مند ہوتے ہیں ، انہیں یہ شعر سناتا چلوں
    ::: إن الزنا دین فإن أقرضتہ ::: کان الوفاء من أہل بیتک فاعلم
    زنا قرض ہے اگر تم نے یہ قرض لیا تو یاد رکھو ::: اس کی ادائیگی تمہارے گھر والوں میں سے ہو گی
    من یَزنی یُزنی ولَو بجدارہ ::: إن کنت یا ہذا لبیباً فافہم
    جو زنا کرے گا ، اس کے ساتھ زنا ہو گا خواہ اس کی دیوار کے ساتھ کیا جائے ::: اگر اے سننے والے تم عقل مند ہو تو (میری بات )سمجھ جاؤ ( اور ایسے کاموں سے باز رہو )

    اللہ تعالیٰ میرے یہ الفاظ ، میرے اور ہر پڑھنے والے کے دین دنیا اور آخرت کی خیر کے اسباب میں بنا دے، ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ ہم کسی ضد ، تعصب اور منطق و فلسفے کا شکار نہ ہوں اور حق پہچانیں ، قبول کریں اور اسی پر عمل کرتے ہوئے ہماری زندگیاں تمام ہوں اور اسی پر یوم قیامت ہمارا حشر ہو ، و السلام علیکم۔[/size]
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    مضمون کا برقی نسخہ پی ڈی ایف مندرجہ ذیل رابط سے اتارا جا سکتا ہے ، URL="http://www.4shared.com/file/87314347/8b6085f9/valentine_urdu_col_stm_A4_v1.html
    ہر پڑھنے والا اس خیر کو نشر کرے اور کفر و شرک اور گناہ و غلاظت کی اور رسم کو اپنے معاشرے میں پنپنے سے روکنے کی کوشش میں شامل ہو ،
     
  2. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم ۔ عادل سہیل بھائی ۔ اللہ تعالی آپکی سعی جمیلہ کو قبول فرمائے۔ آمین
    ایک سوال ذہن میں‌آیا ہے کہ ۔۔۔۔

    اگر شادی شدہ میاں بیوی آپس میں اس دن یا کسی اور خاص موقع مثلاً شادی کی سالگرہ کے موقع پر ایک دوسرے کو پھول یا تحائف " خرید " کر پیش کریں
    تو آپ اس بارے میں کیا فرماتے ہیں ؟
     
  3. عادل سہیل
    آف لائن

    عادل سہیل ممبر

    شمولیت:
    ‏24 جولائی 2008
    پیغامات:
    410
    موصول پسندیدگیاں:
    11
    ملک کا جھنڈا:
    و علیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ ،
    اللہ آپ کی دعا قبول فرمائے نعیم بھائی اور آپ کو اس کا بھی بہترین صلہ عطا فرمائے ،
    نعیم بھائی ،آپ کے سوال کے جواب میں میری گذراش یوں ہے کہ ،
    میاں بیوی کو ایک دوسرے کی محبت میں اضافہ کرنے کے لیے تحائف کا تبادلہ کرتے رہنا چاہیے ، اس میں‌کوئی برائی یا عیب نہیں بلکہ شریعت کی حدود میں رہ کر ایسا کرنا مطلوب ہے ،
    لیکن ، اس ویلنٹائن کے دن پر ، یا اپنی شادی والے دن کی تاریخ پر ایسا کرنا شریعت کی حدود سے خارج ہو جاتا ہے اور ممنوع کاموں میں داخل ہو جاتا ہے ،
    ویلنٹائن کے دن کی حقیقت اور بنیاد تو بلا شک و شبہ کفر و شرک ہے ، لہذا اس کی نسبت سے ، اسی دن یا کچھ آگے پیچھے کر کے اس کی نسبت سے اس کے حق میں یا اس میں کیے جانے والوں کاموں کے مطابق یا ان کی بنیاد پر ان کی موافقت میں کوئی بھی قول و فعل جائز نہیں
    اور کچھ اسی طرح سالگرہ کا معاملہ ہے ، کیونکہ مسلمانوں کے سب سے زیادہ خیر والے تین ادوار میں کبھی کسی خوشی یا غمی کا دن نہیں منایا جاتا تھا ، اور نہ ہی کہیں ایسی سوچ تھی ،
    یہ بھی کافروں کی عطا میں سے ہے ، اور اس کی بنیاد کرسمس ڈے ہے ، اور اسی قسم کی دوسری سالانہ عیدیں اور دن ہیں جن میں سے ایک یہ ویلنٹائن ڈے ہے ،
    تو میرے محترم نعیم بھائی ، سالگرہ اسلامی تعلیمات میں سے نہیں ، نہ ہی خیر القرون میں کہیں اس کا کوئی نام و نشان ملتا ہے ، پس کافروں کی معاشرت میں سے ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کا فرمان ((((( من تشبہ بقوم فھو منھم ))))) کفار کی معاشرت ، معیشت ، عقائد ، و عبادات ، ہر ایک چیز ، ہر ایک معاملے میں‌ ان کی نقالی کو حرام قرار دیتا ہے ،
    اللہ سے دعا ہے کہ آپ اور ہر پڑھنے والا اس معاملے کو سمجھے اور اپنی زندگی میں سے کفار کی مشابہت والا ہر ایک معاملہ ختم کر سکے ،
    کسی دن ، کسی رسم کی نسبت کے بغیر آپ بھابھی کو تحائف دیجیے ، بلکہ اگر بھابھی جی ہماری اس گفتگو کا علم رکھتی ہیں تو پھر تو بھائی ایک آدھ تحفہ ابھی تو ضرور ہی دیجیے میں کسی کی بد دعا نہیں لینا چاہتا اور نہ ہی چاہتا ہوں کہ میرے کسی بھائی اور بھابھی کے درمیان :boxing: یا :hathora: جیسا معاملہ در پیش ہو جائے ،
    بلکہ میری دعا ہے کہ ہر مسلمان میاں بیوی کا معاملہ ہمیشہ :dilphool: رہے اور اللہ انہیں دنیا اور آخرت کی خیر اور برکت عطا فرمائے ، و السلام علیکم۔
     
  4. برادر
    آف لائن

    برادر ممبر

    شمولیت:
    ‏21 اپریل 2007
    پیغامات:
    1,227
    موصول پسندیدگیاں:
    78
    السلام علیکم ۔
    ویلنٹائن ڈے وغیرہ منانے کے حق میں میں نہیں‌ہوں۔ اور محترم عادل سہیل صاحب کا شکریہ جنہوں نے پوری وضاحت سے اس حقیقت کو واضح‌کرکے غیر شادی شدہ مسلمان نوجوان لڑکے لڑکیوں‌کو کسی بھی طرح کے ناجائز کام سے باز رہنے کی تلقین فرمائی ہے۔ اللہ پاک انہیں‌جزائے خیر دے۔ آمین

    لیکن نعیم بھائی کے سوال " شادی کی سالگرہ یا بچوں کی سالگرہ پر خوشی کا اہتمام کرنا " کے جواب میں ، میں‌ اپنی رائے عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں ۔ ایک بات عرض کر دوں میں کوئی عالم نہیں ہوں نہ ہی کسی مخصوص طرزِ فکر اور عقائد کے حامل مدرسوں میں تعلیم حاصل کرنے کا " شرف " حاصل ہوا ہے۔ کہ میں‌ہر بات کو ایک مخصوص نکتہء نظر سے ہی دیکھتا جاؤں ۔ البتہ میں اہل علم کی باتیں‌بہت غور سے پڑھتا سنتا ہوں۔

    کیونکہ اسلام ایک دین فطرت ہے جوانسانی زندگی کے ہر جذبے کی جائز انداز میں تکمیل کی راہنمائی مہیا فرماتا ہے۔

    نعیم بھائی کے سوال کے جواب میں عرض کروں گا کہ شریعت اسلام میں آئمہ و فقہائے کرام کا متفقہ اصول اور مسلمہ فقہی قاعدہ ہے کہ اصلاً ہر امر مباح (جائز) ہے تاوقتیکہ قرآن و سنت میں اسکی حرمت (منع) واقع نہ ہو۔ بلاشبہ بہت سے امور دین ۔۔ جی ہاں‌امور دین ۔۔ ایسے ہی جو پہلے دورِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور دورِ صحابہ رض میں نہیں‌ملتے لیکن بعد میں زمانے اور حالات کے بدلتے ہوئے تقاضوں کے مطابق انہیں اپنایا گیا۔ بےشمار مثالیں ہیں لیکن ایک واضح مثال " مساجد کی آرائش و زیبائش " ہے۔ دوسری مثال ۔ مساجد میں لاؤڈ سپیکر کا استعمال ہے۔ تیسری مثال قمری مہینہ کے شروع ہونے کے لیے چاند دیکھنے میں جدید آلات کا استعمال ہے۔ علی ہذ القیاس درجنوں‌بلکہ بیسیوں مثالیں دی جاسکتی ہیں کہ جو دورِ صحابہ کرام رض میں اپنائی نہیں جاسکیں۔ لیکن اصلاً وہ قرآن و حدیث کے خلاف بھی نہ تھیں۔ بعد کے حالات اور تقاضوں کی وجہ سے انہیں اپنا یا گیا اور آج عرب و عجم اور مشرق و مغرب کے مسلمان انہیں اپنائے ہوئے ہیں۔

    سب سے پہلے تو قرآن مجید میں دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالی کے فضل و کرم اور انعام و اکرام پر خوشی کا اظہار کرنے کا کیا حکم ہے۔

    اللہ تعالی کے فضل، انعام اور رحمت کے عطا ہونے پر خوشی منانے کا قرآنی حکم۔​


    قُلْ بِفَضْلِ اللّهِ وَبِرَحْمَتِهِ فَبِذَلِكَ فَلْيَفْرَحُواْ هُوَ خَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُونَO (يُوْنـُس ، 10 : 58)
    فرما دیجئے: (یہ سب کچھ) اللہ کے فضل اور اس کی رحمت کے باعث ہے ، پس مسلمانوں کو چاہئے کہ اس پر خوشیاں منائیں، یہ اس (سارے مال و دولت) سے کہیں بہتر ہے جسے وہ جمع کرتے ہیںo

    اس آیت کریمہ کے تفسیری نکات میں بعثت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم ، نزول قرآن حکیم کو بھی اللہ تعالی کا فضل و رحمت ٹھہرایا گیا ہے۔
    لیکن عمومی ترجمہ میں ہمیں‌واضح ہدایت ملتی ہے کہ اللہ تعالی کے فضل ، رحمت کے عطا ہوجانے پر خوشی کا اظہار کرنا نہ صرف جائز بلکہ اس آیت کے تحت حکمِ الہی ہے۔

    پھر قرآن حکیم میں‌فرمایا

    وَأَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثْO (الضُّحٰی ، 93 : 11)
    اور اپنے رب کی نعمتوں کا (خوب) تذکرہ و بیان کریںo

    یہاں‌بھی اللہ تعالی کی نعمتوں کا ذکر کرنا، بیان کرنا، ایک امرِ لازم کے طور پر بتایا گیا ہے۔

    اب سوچنے کی بات ہے کہ کیا زندگی بذاتِ خود ایک نعمت نہیں ہے ؟
    کیا اچھا ، نیک ، صالح شریک حیات ایک نعمتِ الہی نہیں ہے ؟
    کیا اولاد ، بچے ، بیٹے بیٹیاں ۔ اللہ تعالی کی عطا اور نعمت نہیں ہیں ؟

    جب ہیں تو پھر ان کے ملنے پر جائز انداز میں خوشی منانے سے قرآن حکیم نے تو کہیں منع نہیں فرمایا ۔ ہم اسکو حرام کیسے تصور کر لیں ؟
    اور جب ایک کام کسی بھی دن جائز ہے تو اس نعمت کے مل جانے کے دن اس جائز کام کو کرلینے میں کیا مضائقہ ہے جب کہ قرآن و حدیث کی بنیادی تعلیمات میں کوئی منع نہیں۔

    قرآن مجید ہی میں دعوت و ضیافت کرنے، کھانا کھانے اور کھلانے کے تصور کو بھی دیکھ لیتے ہیں

    وَّكُلُواْ وَاشْرَبُواْ وَلاَ تُسْرِفُواْ إِنَّهُ لاَ يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَO (الْأَعْرَاف ، 7 : 31)
    اے اولادِ آدم! تم ہر نماز کے وقت اپنا لباسِ زینت (پہن) لیا کرو اور کھاؤ اور پیو اور حد سے زیادہ خرچ نہ کرو کہ بیشک وہ بے جا خرچ کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتاo
    یعنی اسراف سے بچتے ہوئے جائز حد تک کھانا پینا، اپنے اہل و عیال اور دوست احباب کی دعوت و ضیافت کے اہتمام کرنا اور خوشی کا اظہار کرنےمیں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔
    میری ان معروضات کی تائید میں ہی قرآن مجید کی مندرجہ ذیل آیت کو بھی ملاحظہ فرمائیے۔ اللہ کے پیغمبر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی دعا پڑھیے جس کو اللہ تعالی نے قرآنی آیت کا حصہ بنا کر ہمارے لیے ہدایت اور دلیل بنا دیا۔

    قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ اللَّهُمَّ رَبَّنَا أَنزِلْ عَلَيْنَا مَآئِدَةً مِّنَ السَّمَاءِ تَكُونُ لَنَا عِيداً لِّأَوَّلِنَا وَآخِرِنَا ۔۔۔۔۔O (المائدہ ۔ 114)
    عیسٰی ابن مریم (علیہ السلام) نے عرض کیا: اے اﷲ! اے ہمارے رب! ہم پر آسمان سے خوانِ (نعمت) نازل فرما دے کہ (اس کے اترنے کا دن) ہمارے لئے عید ہوجائے ہمار ے اگلوں کے لئے (بھی) اور ہمارے پچھلوں کے لئے ۔

    عید بمعنی خوشی ۔ اللہ کی نعمت کے اترنے کے خاص دن کو عید یعنی خوشی کے طور پر منانے کا ذکر قرآن حکیم میں میسر آگیا۔

    نیک و جائز امر میں یہودو نصاریٰ سے مشابہت​


    سب سے پہلے تو قرآن حکیم سے یہ امر واضح ہوجاتا ہے کہ اللہ تعالی کی نظر میں سارے کے سارے اہل کتاب بھی برے نہیں ہیں۔ بلکہ اللہ پاک نیک اہل کتاب کی تعریف فرماتا ہے۔

    لَيْسُواْ سَوَاءً مِّنْ أَهْلِ الْكِتَابِ أُمَّةٌ قَآئِمَةٌ يَتْلُونَ آيَاتِ اللّهِ آنَاءَ اللَّيْلِ وَهُمْ يَسْجُدُونَO (آل عِمْرَان ، 3 : 113)
    یہ سب برابر نہیں ہیں، اہلِ کتاب میں سے کچھ لوگ حق پر (بھی) قائم ہیں وہ رات کی ساعتوں میں اللہ کی آیات کی تلاوت کرتے ہیں اور سر بسجود رہتے ہیںo

    کیا اس آیت سے ہمیں یہ سبق نہیں‌ملتا ہے کہ ہم بھی اپنے دین و ایمان پر قائم رہتے ہوئے دیگر اقوام سے فراغ دلی سے پیش آئیں اور انکے اچھے امور کا سنت الہیہ کے مطابق اعتراف کریں۔ !

    جبکہ اس فورم پر اس لنک میں‌دس محرم کے روزے کی وضاحت کرتے ہوئے جناب عادل سہیل صاحب کی طرف سے ارسال کردہ حدیث پاک ان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے نقل کرتا ہوں۔۔
    عبداللہ ابنِ عباس رضی اللہ عنہما کا کہنا ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو یہودی دس محرم کا روزہ رکھا کرتے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نےدریافت فرمایا کہ ((( مَا ھَذا؟ ::: یہ کیا ہے؟ ))) تو اُنہیں بتایا گیا کہ ''' یہ دِن اچھا ہے (کیونکہ )اِس دِن اللہ نے بنی اسرائیل کو اُن کے دشمن ( فرعون ) سے نجات دِی تھی تو اُنہوں نے روزہ رکھا تھا '' ' تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ((( فَانَا احقُ بِمُوسیٰ مِنکُم ::: میرا حق موسیٰ پر تُم لوگوں سے زیادہ ہے ))) اور (((رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِس دِن کا روزہ رکھا اور روزہ رکھنے کا حُکم دِیا )))صحیح البُخاری /حدیث2004/کتاب الصوم/باب69 ۔
    ابو موسی رضی اللہ عنہُ کا کہنا ہے کہ''' دس محرم کے دِن کو یہودی عید جانتے تھے تو نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا ((( تُم لوگ اِس دِن کا روزہ رکھو ))) صحیح البُخاری /حدیث 2005/کتاب الصوم/باب69۔

    صیح بخاری کی اس صحیح حدیث سے کیا یہ پتہ نہیں چلتا کہ یہودی ایک دن کو عید یعنی خوشی کے طور پر مناتے تھے اور اسی دن کو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی جائز طریقے سے منایا؟
    اب اگر یہ کہیں کہ صرف روزہ ہی رکھا تھا۔ تواتنا تو معلوم ہوگیا کہ مخصوص دن منایاگیا۔
    اس سے یہ بھی پتہ چل گیا کہ نیک اور بہتر کام میں اگر اتفاق سے یہودی و نصاریٰ سے مشابہت بھی ہوجائے تو اسے محض مشابہت کی بنا پر حرام قرار نہیں دیا جاسکتا۔

    حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق جمعۃ المبارک آدم علیہ السلام کی پیدائش کا دن بھی ہے اور عید کا دن بھی ہے بلکہ عند اللہ عید الاضحٰی اور عید الفطر سے بھی بڑا دن ہے ۔
    (بحوالہ : مشکوٰۃ شریف صفحہ 123/140 )
    جمعہ کے دن ، خوشی کے اظہار کے لیے اچھے صاف ستھرے کپڑے پہن کر ایک خاص نماز ادا کرنے کا حکم بھی اس دن کو عام دنوں کی فہرست سے نکال کر " خاص دن " بناتا ہے۔

    ایک اور حدیث پاک ملاحظہ فرمائیے۔

    حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے آیت الیوم اکملت لکم دینکم ۔ تلاوت فرمائی ۔ تو ایک یہودی نے کہا : اگر یہ آیت ہم پر نازل ہوتی تو ہم اس دن کو عید مناتے ۔
    اس پر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا:: یہ آیت نازل ہی اسی دن ہوئی جس دن دو عیدیں تھیں (یوم جمعہ اور یوم عرفہ )
    بحوالہ : جامع ترمذی ۔ ابواب تفسیر القرآن ۔ جلد دوم ۔ مشکوٰۃ شریف صفحہ 121

    اسی فورم کی ایک لڑی میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ آمد پر مسلمانوں کا خوشی منانابھی کتب احادیث‌کے حوالہ جات کے ساتھ عرض کیا گیا تھا۔

    حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ طیبہ تشریف لائے تو حبشہ کے لوگوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کےقدم رنجہ فرمانے کی فرحت و خوشی میں ایسا ہی کھیل اور رقص پیش کیا۔

    امام بخاری ، التاریخ الصغیر ، جلد 1، صفحہ 8، رقم 15
    ابو داؤد، المسند ،جلد 4، صفحہ 281، رقم 4923
    امام احمد بن حنبل المسند، جلد 3، صفحہ 161

    اسی طرح مختلف مقامات پر کھیل کود، دف بجا کر اور اخلاقیات کی شاعری کی صورت میں کئی سنت طریقے ہیں جن سے خوشی منانا ثابت ہے۔ لہذا نعیم بھائی کے سوال کے جواب میں میری رائے یہی ہے کہ قرآن و سنت میں میاں بیوی کی شادی کی سالگرہ، یا بچوں کی سالگرہ یا اسطرح اللہ تعالی کی نعمت کے شکرانے کے طور پر خوشی منانے میں کوئی حرج و مضائقہ نہیں ۔ بشرطیکہ شرعی حدود کے اندر ہو اور فضول خرچی یا دکھاوے کا شائبہ نہ ہو۔

    واللہ اعلم بالصواب

    والسلام علیکم
     
  5. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم۔
    جناب عادل سہیل بھائی ۔ میرے استفسار پر جواب کا شکریہ ۔ اللہ تعالی آپکی محنت قبول فرمائے۔ لیکن ذرا ذرا سی بات پر " خارج از شریعت اور خارج از اسلام" کرنا کچھ عجیب سا لگا۔ بہر حال۔ جزاک اللہ خیرا

    جناب برادر بھائی ۔ آپ کی وضاحت کا بہت شکریہ ۔
    مجھے ذاتی طور پر آپ کی باتوں سے اتفاق بھی ہے اور میں بھی دین اسلام میں ایسی کی فکروسوچ کا قائل ہوں۔
    البتہ مستند حوالہ جات سے میرے تیقین کی پختگی کا سامان فرمانے پر شکریہ ۔ جزاک اللہ خیرا۔

    والسلام
     
  6. نور
    آف لائن

    نور ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جون 2007
    پیغامات:
    4,021
    موصول پسندیدگیاں:
    22
    السلام علیکم محترم برادر صاحب۔
    بہت ایمان افروز تحریر ہے۔ اور دل و دماغ اسلام کے اسی روشن پہلو کو تسلیم کرتا ہے۔
    اللہ تعالی آپ کے علم و عرفان میں برکت عطا فرمائے۔ آمین
    جزاک اللہ خیرا
     
  7. commando
    آف لائن

    commando ممبر

    شمولیت:
    ‏16 دسمبر 2008
    پیغامات:
    95
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    نعیم بھائی اسلام علیکم

    بات ذرا ذرا کی نہیں بات ہے حق اور باطل کی۔۔۔۔ بات ہے نیکی اور بدی کی۔۔۔۔۔ بات ہے اسلام اور کفر کی۔۔۔۔
    کلمہ پڑھنے اور نہ پڑھنے میں کتنا وقت لگتا ہے۔۔۔ذرا سا۔۔۔۔۔۔۔جس نے پڑھ لیا وہ مسلمان جس نے نہ پڑھا ۔۔۔۔کافر ۔۔۔۔۔۔۔۔
    ایک آدمی نے سارے قرآن کو مانا۔۔۔۔۔۔ لیکن قرآن کی ایک آیت کو نہ مانا۔۔۔۔ذرا سی تو بات تھی ۔۔۔۔لیکن کافر ہو گیا۔۔۔۔۔

    ابلیس نے سجدہ نہ کیا۔۔۔۔کتنا ٹائم لگتا تھا۔؟۔۔۔۔۔ذرا سا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نہ کیا تو مردود ہوا۔۔۔۔

    امید ہے تسلی ہو جائے گی۔۔۔۔۔۔۔

    عادل سہیل بھائی آپ کا شکریہ۔۔۔۔۔
     
  8. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم کمانڈو صاحب
    آپکے سمجھانے کا بھی شکریہ ۔
    لیکن میری سوچ اب بھی یہی ہے کہ ہمیں غیر مسلموں کو مسلمان بنانے کی زیادہ فکر کرنی چاہیے۔
    بجائے اسکے کہ ہم مسلمانوں پر ہی دین کو تنگ کرکے انہیں خارج از اسلام اور خارج از شریعت کرتے پھریں۔

    والسلام
     
  9. commando
    آف لائن

    commando ممبر

    شمولیت:
    ‏16 دسمبر 2008
    پیغامات:
    95
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہونا چاہیئے کہ دوسروں کو دعوت دیتے رہیں اور خود جو جی چاہے کرتے پھریں۔۔۔۔۔پنجابی میں ایک مثال ہے
    اگا دوڑ ۔۔۔ تے ۔۔۔ پیچھا چوڑ................. :hasna: :hasna:
    یعنی ‘ آگے بڑھنے کا اتنا جذبہ ہے کہ پیچھلا کام چوپٹ ہوا جاتا ہے۔۔۔۔۔۔۔ :car:
     
  10. خوشی
    آف لائن

    خوشی ممبر

    شمولیت:
    ‏21 ستمبر 2008
    پیغامات:
    60,337
    موصول پسندیدگیاں:
    37
    مجھے آپ کی بحث میں حصہ لئے بنا صرف اتنا کہنا ھے
    کہ کسی کو مسلمان یا کافر کہنے کا حق خدا نے کس کو دیا ھے؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟

    اوسر دوسری بات


    نبی کریم :saw: کے زمانے کی کوئی کم از کم ایک بھی بیان کریں جس میں کسی مسلمان کو کافر کہہ کے دائرہ اسلام سے خارج کیا گیا ہو
     
  11. عادل سہیل
    آف لائن

    عادل سہیل ممبر

    شمولیت:
    ‏24 جولائی 2008
    پیغامات:
    410
    موصول پسندیدگیاں:
    11
    ملک کا جھنڈا:
    و علیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ ،
    برادر ، بھائی اللہ تعالیٰ آپ کی دُعا قبول فرمائے اور آپکو بھی بہترین اجر عطاء فرمائے ،

    عزیز برادر ، اللہ تعالیٰ ہم سب کو اللہ کا دین اسی طرح سمجھنے اور اپنانے کی توفیق عطا فرمائے جس طرح اللہ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم پر نازل فرمایا ، محترم بھائی ، دین میں کسی کی رائے کوئی حیثیت نہیں رکھتی ، عُلماء کی بات حصول علم کے ذرائع میں سے اور کسی چیز کے حصول کے لیے ذرائع استعمال کرنا ہی ہوتے ہیں ، لیکن ذریعہ کو غرض و غایت جان لینا حصولءِ مطلوب کا ضیاع ہوتا ہے ، پس میرے بھائی جس طرح آپ کسی خاص طرز فِکر اور عقائد کے حامل مدرسے میں تعلیم حاصل کرنے کے """شرف """ سے سرفراز نہیں ہوئے ، میں بھی ایسا ہی ہوں ، لیکن اس بات کی مکمل کوشش کرتا ہوں کہ اللہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے کسی فرمان کا ذاتی سوچ کی بنا پر کوئی مفہوم نہ اپناؤں ، نہ ہی محض لغوی معانی پر توقف کرتے ہوئے نصوص کو سمجھتا ہوں ، اور نہ ہی کسی ایک نص کو اس موضوع یا معاملے کی واحد دلیل جان کر اسی کو لیے چلتا ہوں جب تک کہ اس کی یگانگت ثابت نہ ہو جائے ، اور کسی بھی موضوع پر بات کرنے سے پہلے تائید و تردید دونوں طرف کے دلائل کا اور حوالہ جات کا اصل کتابوں سے مطالعہ کرتا ہوں ، اور اللہ کی مقرر کردہ کسوٹیوں کے مطابق ان کا مفہوم جاننے کی بھرپور کوشش کرتا ہوں ،و للہ الحمد و المِنۃ،
     
  12. عادل سہیل
    آف لائن

    عادل سہیل ممبر

    شمولیت:
    ‏24 جولائی 2008
    پیغامات:
    410
    موصول پسندیدگیاں:
    11
    ملک کا جھنڈا:
    جی برادر بھائی درست فرمایا آپ نے ، خیال فرمایے گا کہ آپ نے فرمایا """ جائز انداز میں """ ، اور اس """ جائز """ کو سمجھنے کے لیے میرا طریقہ میرا منہج میں نے ابھی بیان کیا ہے ، کہ اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی مقرر کردہ حدود اور کسوٹیوں کے مطابق """ جائز ، نا جائز """ کو سمجھا جاتا ہے ، میری یا کسی کی رائے سوچ و فِکر ، سمجھ و عقل ، دین کے معاملات سمجھنے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتی ،
    محترم بھائی ، وقواعد و اصول میں یہ قاعدہ کچھ یوں ہے کہ """" الاصل فی العادات اِباحہ و الاصل فی العِبادات منع اِلا أن یصرفھا صارف ::: عادات کا اصل حکم یہ ہے کہ وہ سب جائز سمجھی جائیں ، اور عِبادات کی اصل یہ ہے کہ وہ سب ممنوع سمجھی جائیں سوائے اس کے کی کوئی حکم ان کو اصل سے نکال دے """" اور میرے بھائی ہم جس معاملے کو یہاں سمجھ رہے ہیں وہ صحیح نصوص کے ذریعے اپنی اصل حالت یعنی جائز ہونے سے نکل کر حُکمی حالت یعنی ناجائز ہونے میں داخل ہے ،
    جی ہاں ، نصوص کو سمجھنے کے لیے طریقہ کے فرق کی وجہ سے ہماری بات مختلف ہو رہی ہے ، میرا منہج اور طریقہ میں بیان کر چکا ہوں ، اور آپ کا منہج اور طریقہ """ رائے """ ہے ،
    [highlight=#FFFFBF:mo2mjj55]اگر آپ مندرجہ ذیل لنک سے ایک مضمون """ احکام ءِ شریعت جاننے کی کسوٹیاں """ کا مطالعہ فرمائیں تو ان شاء اللہ فائدہ مند ہو گا ،
    http://www.4shared.com/file/88629792/5a ... A4_st.html[/highlight:mo2mjj55]
    آپ نے اپنے مندرجہ بالا بند (پیراگراف ) میں جن کاموں کی مثالیں """ امور دین """ کے طور پر دی ہیں کہ ان کے بارے میں گذارش کرنا چاہتا ہوں کہ ان میں سے سوائے پہلے کام کے باقی کام """ دینی امور """ کی تکمیل کے ذرائع ہیں ، نہ کہ بذات خود """ امور دین """ ، اور پہلا کام نہ ذریعہ ہے نہ """ دینی امر """ ، توجہ فرمایے ،
    [highlight=#FFFF80:mo2mjj55](1) مساجد کی آرائش ::: اس کی ممانعت ہے ،[/highlight:mo2mjj55] جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کا فرمان مبارک ہے ((((( ما اُمرِتُ بتشیید المساجد ::: مجھے مساجد کی خوبصورتی کا حکم نہیں دیا گیا ))) اور راوی حدیث عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہُ کا فرمان ہے ((((( لتزخرفنّھا کما زخرفتھا یھود و النصاریٰ ::: تم لوگ ضرور مساجد میں نقش و نگاری کرو گے جس طرح یہودیوں ور عیسائیوں نے کی)))) سنن ابو داؤد ، کتاب الصلاۃ ، باب ، 12 باب فی بِناء المساجد ، اور امام البخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں اس قول کو تعلیقاً ذکر فرمایا ہے ،
    [highlight=#FFBF80:mo2mjj55]چلتے چلتے بطور اضافی فائدہ یہ بھی بتاتا چلوں کہ[/highlight:mo2mjj55] ابن عباس رضی اللہ عنہ کا فرمان بھی حدیث رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے حکم میں ہے ، ایسی روایات کو """ فی حُکم الرفع """ کہا جاتا ہے ، یعنی سنداً تو بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم تک نہیں پہنچتی لیکن کیونکہ امور غیبی میں سے ہے جو صرف اللہ جانتا ہے یا جس کی جتنی خبر اللہ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کو دی وہ جانتے تھے ، پس کسی صحابی رضی اللہ عنہ کی طرف سے ایسی بات اگر سنداً صحیح ہو تو وہ اُسے """ موقوفٌ علی صحابی فی حُکم الرفع """ مانا جاتا ہے ،
    یہ بھی جانتے چلیے ، کہ امیر المؤمنین عمر رضی اللہ عنہ نے مسجد نبوی کی توسیع کرواتے ہوئے معمار کو حکم دیا تھا ((((( اکن النّاس من المطر و ایّاک أن تحمرأو تُصفرفتفتن الناس ::: لوگوں کو بارش (وغیرہ) سے بچانا (ہے) اور خبردار تم اسے سرخ پیلا کر کے لوگوں کو فتنہ میں مبتلا نہ کرنا ))))) یعنی سادگی سے ساتھ مسجد کی عمارت تعمیر کرو ، جس میں لوگ باہر کے موسم کی شدت سے محفوظ رہیں ، لیکن کسی خوبصورتی کے لیے کوئی رنگ وغیرہ نہیں کرنا ، صحیح البُخاری ، کتاب المساجد ، ابواب المساجد ، باب29 ،
    اس کے علاوہ صحیح احادیث میں مساجد کے بارے میں ایسے کاموں کی ممانعت اور مذمت بھی موجود ہے جو آج کل مسلمانوں کی اکثریت کرتی ہے ،
    پس اگر مسلمانوں کی اکثریت ایسے کاموں کا شکار ہو چکی ہے تو یہ اُن کاموں کی درستگی کی دلیل نہیں میرے بھائی ، بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے فرامین اور احکام وہ کام کرنے والوں کی غلطی کی یقینی دلیل ہیں ،

    [highlight=#FFFF80:mo2mjj55](2) مساجد میں لاؤڈ سپیکرز کا استعمال :::[/highlight:mo2mjj55] رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے دور مبارک سے """ مکبر ::: بلند آواز سے بات دور تک پہنچانے والا """ کا استعمال موجود تھا ، اللہ کی عطا کردہ نئے وسائل میں سے ایک وسیلہ یا ذریعہ اس مقصد کے حصول کے استعمال کیا جانا ہر ایک نئی چیز اور عمل کی درستگی کی دلیل نہیں ہو سکتا ،
    اذان کے آغاز کا واقعہ ، اور اذان کا طریقہ اور الفاظ مسلمانوں تک پہنچنے کا واقعہ آپ کے علم میں ہو گا ہی ، جس کے آخر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے عبداللہ ابن زید رضی اللہ عنہ سے فرمایا ((((( علمہ بلال أنہ أندیٰ صوتاً منک ::: یہ (اذان) بلال کو سکھا دو کیونکہ وہ تم سے زیادہ بلند آواز ہے ))))) سنن ابن ماجہ ، کتاب الصلاۃ ، باب ، سنن ابی داؤد ،
    تو اذان کے لیے بلند آواز والے لوگوں کو استعمال کرنا ، پھر بلند جگہ پر کھڑا ہو کر اذان کہنا ، اور امام یا خطیب کا خود بہت ہی شدت سے بلند آواز میں خطاب کرنا ، یہ سب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی ذات مبارک ، اور ان کے خلفاء الرشدین کے دور مبارک سے موجود ہے ، پس میرے بھائی ، ایک """ دینی امر """ کی تکمیل کا ذریعہ اگر کسی ناجائز کی زد میں نہیں آتا تو اس کو اپنا """ دینی امر """ نہیں ،
    اگر آج میسر ذرائع اور وسائل اس وقت ہوتے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم اس کو ترک کرتے یا صحابہ رضی اللہ عنہم کے دور میں ہوتے اور وہ ترک کرتے تو آپ کی بات درست سمجھی جا سکتی تھی ، لہذا یہ کہنا مناسب نہیں کہ """ علی ہذ القیاس درجنوں‌بلکہ بیسیوں مثالیں دی جاسکتی ہیں کہ جو دورِ صحابہ کرام رض میں اپنائی نہیں جاسکیں۔ لیکن اصلاً وہ قرآن و حدیث کے خلاف بھی نہ تھیں۔ """" بلکہ یہ آلات و علوم اس وقت تک اللہ نے میسر ہی نہیں فرمائے تھے ، ان کا وجود ہی نہ تھا ، پس اپنائی نہ جا سکنے کی بات ہی نہیں ، اور نہ ہی کسی غیر معلوم ، غیر محسوس ، بلا وجود چیز کے قران و حدیث کے خلاف ہونے کی بات کی جا سکتی ہے میرے برادر بھائی ،
    پس کسی بھی """ دینی امر """ یا """ اللہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے کسی حکم """ کی تکمیل کا معاملہ ایسا ہی ہے ، کہ مطلوب و وسائل ، مقصود و ذرائع ، کے عدم اور وجود دونوں کو سامنے رکھتے ہوئے کیفیت و اندازءِ تکمیل اختیار کیا جائے گا ، نہ کہ میری یا آپ کی یا کسی کی بھی """ رائے """ کے مطابق ، ان شاء مزید کچھ گذارشات ابھی پیش کرتا ہوں ،
    [highlight=#FFFF80:mo2mjj55](3) چاند دیکھنے لے لیے جدید آلات کا استعمال :::[/highlight:mo2mjj55] اس میں ابھی تک علماء کا اختلاف ہے ، اس کی بات کیے بغیر عرض کروں کہ یہ مثال بھی مثال نمبر دو کی طرح ہے ،
     
  13. عادل سہیل
    آف لائن

    عادل سہیل ممبر

    شمولیت:
    ‏24 جولائی 2008
    پیغامات:
    410
    موصول پسندیدگیاں:
    11
    ملک کا جھنڈا:
    برادر بھائی ، اللہ ہم سب کو حق سمجھنے کی توفیق عطاء فرمائے ، میرے بھائی ، پہلی آیات کے تفسیری نکات کی بات پھر سہی ان شاء اللہ ، فی الحال اپنے اس روان موضوع تک محدود رہنے لیے میں نے ابھی ابھی جو گذارشات کی ہیں ان کی مزید تفصیل میں یہ کہتا ہوں کہ ، اللہ کی عطاء کردہ نعمتوں پر اللہ کا شکر کرنے کا حکم جب اللہ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کو دیا ،ا ور ان کی زبان مبارک سے تمام ایمان والوں کو دیا ، قطع نظر اس کے کہ """ تفسیری نکات """ میں کیا ہے ؟ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم اور صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین نے اس کا کیا معنی و مفہوم اپنایا ، آپ کی ہی بات ہر چلتا ہوں کہ زندگی ، صالح شریک حیات ، اولاد ، اور اضافہ کرتا ہوں کہ ماں باپ ، بھائی بہن ، مال ، عزت ، قوت ، حشمت ، صحت ، عِلم نافع ، اس پر عمل کی توفیق ، غرض کی اللہ کی نعمتوں کی گنتی تقریبا نا ممکن ہے جیسا کہ خود اللہ نے فرمایا ہے (((((و اِن تَعدّوا نَعمۃ اللہ لا تُحصُوھا اِنّ اللہ لَغَفورٌ رَحیم ::: اور اگر تم لوگ اللہ کی نعمتیں گننے لگو تو انہیں شُمار نہیں کر سکتے بے شک اللہ بہت ہی بخشش کرنے والا اور بہت ہی رحم کرنے والا ہے )))) سورت النحل ، آیت 18 ،
    میرے بھائی ، یہ سب نعمتیں ، خاص طور پر آپ کی سوال کردہ سب نعمتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم اور صحابہ رضی اللہ عنہم کو بھی اللہ نے عطا کر رکھی تھیں اور ہمیں بھی عطاء کی ہیں ، اور یقیناً انہیں عطاء کردہ ہمیں عطاء کردہ سے ہر لحاظ سے بلا مقارنہ ابھی اور بہتر تھیں ،
    تو میرے بھائی ، حکم بھی موجود تھا ، علت ءِ عمل ،یا کہیے حکم پر عمل کا سبب بھی موجود تھا ، اور تکمیل حکم کے اسباب بھی میسر تھے ، کہیں ایسا ہے ، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے ان نعمتوں کا شکر ادا کرنے کے لیے ، ان نعمتوں کی """ تحدیث """ یعنی """ بات و خبر """ کرنے کے لیے کچھ """ منایا """ ہو ؟؟؟ ان نعمتوں کے ملنے کے دن ، تاریخ ، سبب ، وغیرہ کی نسبت سے کوئی بھی کام کیا ہو ؟؟؟
    اگر ایسا ہوا ہو تو آپ کی بات درست اور اگر نہیں تو میری گذارشات پر پھر سے غور فرمایے ،

    اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے منصب رسالت میں یہ مقرر فرمایا ((((( و أنزلنا اِلیک الذکر لتُبین للناس ما نُزل الیھم و لعلھم یتفکرون ::: اور ہم نے آپ کی طرف یہ ذِکر (قران) اس لیے نازل فرمایا ہے کہ آپ لوگوں پر واضح فرما دیں کہ ان کی طرف کیا نازل کیا گیا اور اس لیے کہ وہ ( قران میں آپ کے بیان کے مطابق غور و) فکر کریں )))) سورت النحل ، آیت 44
    لہذا بھائی اللہ کے کلام اور احکام پر کس طرح عمل کرنا ہے وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی سنت مبارک میں سے سمجھا جائے گا اپنی رإئے کے مطابق نہیں
     
  14. عادل سہیل
    آف لائن

    عادل سہیل ممبر

    شمولیت:
    ‏24 جولائی 2008
    پیغامات:
    410
    موصول پسندیدگیاں:
    11
    ملک کا جھنڈا:
    برادر بھائی ، یہاں بھی سابقہ بات دہراتا ہوں ، قران میں موجود احکام ، سابقہ امتوں کے واقعات ، اور عقائد سے متعلقہ باتیں ، سب کچھ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے قولی اور عملی بیان سے سمجھی جائیں گی ، لفظی ترجمے ، یا ذاتی آراء کی بنا پر نہیں ،
    خوشی کے اظہار میں کھانا کھلانا ، سبحان اللہ اس آیت کا یہ مفہوم واقعتا سوچ و رائے کا پھل ہی ہوسکتا ہے ،
    بھائی میرے معاذ اللہ ، کیا اللہ کے فرامین کی یہ سمجھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کو یا صحابہ رضی اللہ عنہم کو نہ آ سکی تھی کہ انہوں نے حکم ، علت ءِ عمل ، وسائل تکمیل سب کچھ ہوتے ہوئے اس طور نہ کوئی عمل کیا اور نہ ہی ایسے عمل کی طرف کوئی اشارہ تک کیا جو آپ کی """ رائے """ میں ہے ۔
    یہ آیات اور ان سے اس قسم کے استدلال اور بھی کاموں کے لیے کیے جاتے ہیں ، ان کے بارے میں کافی مفصل جواب میری ایک کتاب میں میسر ہیں ، یہاں طوالت کے ڈر سے میں وہ ذکر نہیں کررہا ،
    آپ یا کوئی بھی اور قاری اگر وہ سب کچھ پڑھنا پسند کرے تو مندرجہ ذیل ربط سے برقی کتاب اتار سکتا ہے ،
    [highlight=#FFFFBF:21iyg8tw][/highlight:21iyg8tw]
    http://www.4shared.com/file/75052467/a4 ... _lnkd.html
     
  15. عادل سہیل
    آف لائن

    عادل سہیل ممبر

    شمولیت:
    ‏24 جولائی 2008
    پیغامات:
    410
    موصول پسندیدگیاں:
    11
    ملک کا جھنڈا:
    برادر بھائی ، مذکورہ بالا آیت کا سیاق و سباق بھی ذکر کرتے تو اچھا ہوتا ، بہر حال اس آیت میں کسی کی بالخصوص جن کا زکر ہے ان کی اتباع ، یا نقالی ، یا مشابہت کا کوئی جواز نہیں میرے بھائی
    اس میں اھل کتاب کے اچھے عبادت گذار لوگوں کا ذکر کر کے یہ بتایا گیا ہے کہ ان میں کچھ ایسے بھی ہیں ، یہ تو نہیں کہا گیا کہ ہم ان کی مشابہت اختیار کریں ، اگر ایسا ہی ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم ان کی مخالفت کے احکام صادر نہ فرماتے ،
    اور اگر ان کی عبادات کی مشابہت درست ہوتی تو اللہ تعالیٰ ہمارے لیے اذان ، نماز ، روزہ وغیرہ کی الگ کیفیات اور طریقے مقرر نہ فرماتے ، ان کی مشابہت سے ہی کام چل جاتا ،
    لیکن ایسا نہیں ہوا ، اللہ نے ہمیں سابقہ امتوں میں ہونے والی عبادات میں سے جس کو ہمارے لیے برقرار رکھا اس کا الگ طریقہ عطاء فرمایا ، پس میرے محترم بھائی ، آپ کی رائے اللہ کی عطاء کے موافق نہیں ،
    رہا معاملہ کسی کے بھی ایسے عمل کا جو شریعت کے مطابق اچھا بنتا ہو ، اس کا اعتراف کیا جانا چاہیے ، لیکن یہ یاد رکھنا چاہیے کسی شریعت کے مطابق اچھے عمل کا عامل شریعت کے مطابق اچھا ہے یا نہیں یہ ایک الگ معاملہ ہے ،
    اور اسی طرح میرے بھائی ، مخلوق میں کسی کی استطاعت نہیں کہ وہ اللہ کی سنت پر عمل کر سکے ، جی ہاں یہ ضرور ہوتا رہا اور ہوتا رہے گا کہ مخلوق اللہ کی سنت کے مطابق مقررکردہ طریقوں پر کام کرے یا نہ کرے اور ہر کسی نے اپنے عمل کے مطابق جزا حاصل کرنا ہی ہے ۔
     
  16. عادل سہیل
    آف لائن

    عادل سہیل ممبر

    شمولیت:
    ‏24 جولائی 2008
    پیغامات:
    410
    موصول پسندیدگیاں:
    11
    ملک کا جھنڈا:
    میرے بھائی ، نیک و صالح عمل وہ ہی ہیں جنہیں اللہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی موافقت میسر ہو ، ایسے اعمال میں سے اگر کوئی سابقہ امتوں کے اعمال میں بھی رہا ہو ، تو وہ کفار کی مشابہت کے حکم سے مستثنیٰ ہو گا ، [highlight=#FFBF80:yqzyn1x2][/highlight:yqzyn1x2]علم الاصول الفقہ میں اس کو """ الاستثناء من العام """ کہا جاتا ہے ،
    جیسا کہ دس محرم والے روزے کا معاملہ ہے ، کہ اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی طرف سے موافقت میسر ہوئی ، آپ نے اس موضوع یعنی """ دس محرم کا روزہ """ کے بارے میں دوسری احادیث تو پڑھی ہی ہوں گی جن میں بڑی وضاحت کے ساتھ کفار کی """ مشابہت """ سے منع فرمایا گیا ، مثلا (((((صوموا يوم عاشوراء وخالفوا اليهود صوموا قبله يوما أو بعده يوما ::: عاشوراء (دس محرم ) کا روزہ رکھو اور یہودیوں کی مخالفت کرو (لہذا) عاشوراء سے ایک دن پہلے یا ایک دن بعد (کا) روزہ (بھی) رکھو ))))) صحیح ابن خزیمۃ ، کتاب الصیام ِ باب 155
    اور خود بھی اس پر عمل کا ارادہ ظاہر فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا (((((لَئِنْ بَقِيتُ الي قَابِلٍ لَأَصُومَنَّ التَّاسِعَ ::: اگر میں اگلے سال تک باقی رہا (یعنی دُنیا میں رہا) تو میں ضرور نو (محرم) کا روزہ رکھوں گا ))))) صحیح مُسلم ، کتاب الصیام ، باب 20 ،
    اور اس کے علاوہ یہ بات معروف ہے اور کئی صحیح احادیث میں میسر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کفار کی مخالفت کی تعلیم بلکہ حکم فرمایا کرتے تھے ،
    [highlight=#FFFF40:yqzyn1x2]مثلاً (1)[/highlight:yqzyn1x2] داڑھی رکھنے اور مونچھیں کترنے کے حکم والی احادیث [highlight=#FFFF40:yqzyn1x2](2)[/highlight:yqzyn1x2]جوتوں میں نماز پڑھنے والی حدیث [highlight=#FFFF40:yqzyn1x2](3)[/highlight:yqzyn1x2] بالوں کو خصاب لگانے کے حکم والی حدیث ، سب میں کفار کی مخالفت کا حکم ہے ،
    یہاں تک یہودی لعنھم اللہ یہ کہا کرتے تھے کہ """ ما نرىٰ هذا الرجل يدع شيئا مِن أمرنا إلا يخالفنا ::: ہم تو یہ ہی دیکھتے ہیں کہ یہ شخص (محمد صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم ) کوئی کام ایسا نہ چھوڑے گا جس میں ہماری مخالفت نہ کرے """" صحیح ابن حبان ، کتاب الطہارۃ ، باب الحیض و الاستحاضۃ ،
    اور آپ کی رائے ہے کہ """"" کہ نیک اور بہتر کام میں اگر اتفاق سے یہودی و نصاریٰ سے مشابہت بھی ہوجائے تو اسے محض مشابہت کی بنا پر حرام قرار نہیں دیا جاسکتا۔ """""
    اللہ ہی بہتر جانتا ہے یہ رائے ، ان سب احادیث کو جانتے ہوئے اپنائی گئی یا بن جانے ؟؟؟
    [highlight=#FFFFBF:yqzyn1x2][/highlight:yqzyn1x2]
     
  17. عادل سہیل
    آف لائن

    عادل سہیل ممبر

    شمولیت:
    ‏24 جولائی 2008
    پیغامات:
    410
    موصول پسندیدگیاں:
    11
    ملک کا جھنڈا:
    میرے بھائی جمعہ کی فضیلت والی صحیح احادیث میں فضیلت ان الفاظ میں بیان ہوئی ہے ،
    """" خير يوم طلعت عليه الشمس يوم الجمعة """" اور """" """" ان من أفضل أيامكم يوم الجمعة """" یہ روایات حدیث کی بہت سی کتابوں میں ہیں ،
    اور یہ جو حدیث آپ نے بحوالہ مشکوۃ شریف ذکر کی ہے ، امام خطیب التبریزی رحمہ اللہ کی """ المشکاۃ المصابیح """ میں مجھے کسی روایت میں ایسے الفاظ نہیں ملے جن کا معنی یا مفہوم """"" بلکہ عند اللہ عید الاضحیٰ اور عید الفطر سے بھی زیادہ بڑا دن ہے """" بنتا ہو ، اگر """مشکوۃ شریف """ سے آپ کی مراد کوئی اور کتاب ہو تو اس کی وضاحت فرما کرشکریے کا موقع عنایت فرمایے ،
    آپ کے لکھے ہوئے الفاظ ان الفاظ والی روایت امام ابن ماجہ رحمہ اللہ نے اپنی سنن ابن ماجہ ، کتاب اِقامۃ الصلاۃ و السنۃ فیھا ، باب 79 میں امام احمد رحمہ اللہ نے اپنی مُسند احمد میں ، حدیث ابی لبابۃ بن عبد المُنذر البدری کی آخری روایت کے طور پر روایت کی ہیں اور مصنف ابن ابی شیبہ میں بھی یہ روایت ان ہی کی سند سے مروی ہے ،
    اور میرے بھائی ، یہ روایت ضعیف ، یعنی ناقابل حجت و دلیل ہے ، تفصیلات کے لیے ملاحظہ فرمایے السلسۃ الاحادیث الضعیفہ و الموضوعۃ کی حدیث 3726 ،
    محترم بھائی ، جمعے کی فضیلت اور اس کا عید ہونا کئی صحیح احادیث میں ثابت ہے ، لیکن """عید """ کا کیا معنی و مفہوم ہے اس کے لیے پھر گذارش کروں گا کہ اوپر جس کتاب کا ڈوان لوڈ لنک دیا ہے اس کا مطالعہ فرمایے ، ان شاء اللہ فائدہ مند ہو گا ،
    [highlight=#FFFFBF:2abkua6h]اور اسی طرح سابقہ امتوں کے کاموں کو دلیل بنانے کا معاملہ سمجھنے کے لیے میرے ایک اور مضمون کا برقی نُسخہ مندرجہ ذیل ربط پر میسر ہے ان شاء اللہ اس کا مطالعہ بھی معاملے کی وضاحت میں مدد گار ہو گا ،
    http://www.4shared.com/file/88629792/5a ... A4_st.html[/highlight:2abkua6h]
    رہا معاملہ ، جمعہ کی نماز کی خاص کیفیت اور طریقہ کا ، اور اس نماز میں حاضری کے لیے خصوصی صفائی سے حاضری کا تو (1) یہ سب کچھ مسلمانوں کو اللہ کی طرف سے الگ طور پر دیا گیا ، نہ کہ سابقہ امتوں سے لے کر بنانے کا اختیار دیا گیا ، اور نہ ہی سابقہ امتوں کی مشابہت کے لیے دیا گیا ہے ، (2) اور نہ ہی کسی واقعے کی یاد منانے کے لیے اور نہ ہی کوئی خوشی منانے کے لیے ، احادیث اور تفسیر کی کتابوں میں جمعہ کے متعلق صحیح روایات کا مطالعہ فرمایے ان شاء اللہ فائدہ ہو گا ۔
     
  18. عادل سہیل
    آف لائن

    عادل سہیل ممبر

    شمولیت:
    ‏24 جولائی 2008
    پیغامات:
    410
    موصول پسندیدگیاں:
    11
    ملک کا جھنڈا:
    برادر بھائی پہلی بات تو یہ کہ ، یہ واقعیہ صحیح طور پر امیر المؤمنین عمر رضی اللہ عنہ سے منسوب ہے اور ان کا ہے ، عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کا نہیں ، آپ کی ذکر کردہ اس روایت کے بعد خود امام النسائی رحمہ اللہ نے فرمایا """ حسن غریب """ جو ان کی اصطلاحات کے مطابق روایت کی کمزوری کا بیان ہے ، اور یہ روایت صرف انہوں نے ہی ذکر کی ہے پس کسی اور سند کے ذریعے اس کی کمزوری کے دور ہونے کا امکان بھی نہیں ،
    حدیث کی دیگر معروف کتابوں میں صحیح سند کے ساتھ یہ واقعہ امیر المؤمنین عمر رضی اللہ عنہ کا بیان ہوا ہے ،
    چلیے وقتی طور پر اس سے قطع نظر کیے لیتے ہیں کہ یہ واقعہ کس کا تھا ، برادر بھائی سوچنے اور سمجھنے کی بات یہ ہے کہ جس کا بھی یہ واقعہ تھا کیا انہوں نے اس یہودی کی اس """ اچھی بات """ کے جواب میں اس دن جب اللہ نے ایک نہیں دو دو عظیم نعمتیں عطاء فرمائیں کہ دینءِ اسلام مکمل فرما دیا اور اپنی اس نعمت کے مکمل ہونے کا اعلان فرما دیا اور اس دین یعنی اسلام کے مسلمانوں کے لیے دین ہونے پر راضی ہونے کی بشارت عطاء فرما دی ، ان نعمتوں کا شکرنہ ادا کرنے کے لیے ، اس نعمت کی تحدیث (بیان و ذکر ) کے لیے کیا اس دن کو کبھی کسی بھی طور منایا گیا ؟؟؟ اس دن کے ساتھ کوئی رسم کوئی عبادت اس وجہ سے منسلک کی گئی ؟؟؟ قطعاً نہیں ، ایسا کچھ نہ ہوا ،
    تو افسوس کے ساتھ سوچنا پڑتا ہے کہ معاذ اللہ ، کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم اور صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین اللہ تعالیٰ کے فرامین کو زیادہ سمجھتے تھے یا وہ جو نعمتوں کے شکرانے اور ذکر کے لیے اپنے طور رسمیں اور عبادات بنائے ہوئے ہیں ؟؟؟
    ایک دفعہ پھر گذارش کرتا ہوں کہ اوپر جس کتاب کا ڈاؤن لوڈ لنک دیا ہے اُسے اتار کر ، جس طالب علمانہ جستجو کا آپ نے آغاز میں ذکر کیا اس کے ساتھ آرام آرام سے غور و فکر کے ساتھ اس کا مطالعہ فرمایے ، ان شاء اللہ تعالیٰ فائدہ مند ہو گا ،
     
  19. عادل سہیل
    آف لائن

    عادل سہیل ممبر

    شمولیت:
    ‏24 جولائی 2008
    پیغامات:
    410
    موصول پسندیدگیاں:
    11
    ملک کا جھنڈا:
    اس موضوع پر کچھ گذارشات وہیں اسی جگہ ارسال کر چکا ہوں جہاں کا پتہ آپ نے دیا ہے ، اور باقی کا بھی وہیں ان شاء اللہ ، وہاں تو ہم ایک طریقے کی درستگی اور نا درستگی کو طے نہیں کر پائے اور یہاں آپ """ کئی سنت طریقے """ بتا رہے ہیں ، خیر ان شاء اللہ ، جہاں کی بات وہیں کریں گے ،
    یہاں کے موضوع کے متعلق اب تک کی گفتگو تو تمام ہونے کو ہے ، مجھے امید ہے کہ اب تک یہ واضح ہو گیا ہو گا کہ نیکی یا بدی ، اچھائی یا برائی ، اور دین کا کوئی بھی معاملہ اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی مقرر کردہ حدود اور کسوٹیوں کے مطابق سمجھا جانا لازم ہے ، اور کسی بھی معاملے سے متعلق تمام نصوص کے مطالعہ کے بعد ہی درست نتیجے تک پہنچا جا سکتا ہے ،
    ذاتی آراء یا ذاتی سوچ کی بنا پر نصوص سے اخذ کیے نتائج کے ذریعے درستگی تک نہیں پہنچا جا سکتا ،
    سالگرہ کسی بھی طور اسلام میں داخل نہیں ہو پاتی ، اچھے کی یاد میں ہو یا برے کی ، خوشی کی ہو یا غمی کی ، نہ ہی اللہ کا شکر ادا کرنے کے انداز و اطوار میں اس کو شامل کیا جا سکتا ہے ،

    سبحان اللہ ،اللہ کا شکر ادا کیا جائے گا ، اللہ کے رسول کی نافرمانی کر کے !!!؟؟؟ انا للہ و انا الیہ راجعون ،[highlight=#BFFF40:girdbbd0][/highlight:girdbbd0]
    آخر میں ایک برادرانہ نصیحت کے طور پر امیر المؤمنین علی رضی اللہ عنہ کا یہ فرمان سناتا ہوں ((((( لو کان الدِین بالرأی لکان أسفل الخُف أولیٰ بالمسح مِن أعلاہُ و قد راأیتُ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم یمسحُ علیٰ ظاہر خُفّیہِ ::: اگر دِین رائے سے ہوتا تو خُف (چمڑے کی جراب) پر نیچے کی طرف سے مسح کرنا زیادہ بہتر ( محسوس ) ہوتا (ہے) اور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کو دیکھا کہ وہ اپنی دونوں خُف کے اوپر کی طرف مسح فرمایا کرتے ))))) سنن ابو داؤد ، باب 62 ،
    اور اپنی بات کا اختتام اللہ تعالیٰ کے اس فرمان پر کرتا ہوں ((((( یا ایھا الذین آمنوا اُدخُلوا فی السِّلمِ کآفۃ و لا تَتبعوا خُطوات الشیطان اِنّہُ لکم عَدوٌ مُبین ::: اے اِیمان لانے والو اسلام میں پورے کے پورے داخل ہو جاؤ اور شیطان کے نقش قدم پر مت چلو بے شک وہ تم سب کا کھلا دشمن ہے )))))
    اللہ تعالیٰ ہمیں شیطان کے پر پھندے سے محفوظ رکھے اور ہمیں اس کا دین اسی طرح سیکھنے اور سمجھنے ، ماننے اور اپنانے کی ہمت دے جس حالت و کیفیت میں اس نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم پر نازل فرمایا ، و السلام علیکم۔
     
  20. عادل سہیل
    آف لائن

    عادل سہیل ممبر

    شمولیت:
    ‏24 جولائی 2008
    پیغامات:
    410
    موصول پسندیدگیاں:
    11
    ملک کا جھنڈا:
    و علیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ ،
    نعیم بھائی شکریہ کے لیے شکریہ ، جزاک اللہ خیر ا، اللہ آپ کی دعا قبول فرمائے ، کیا آپ اس بات کی وضاحت فرمائیں گے """ لیکن ذرا ذرا سی بات پر " خارج از شریعت اور خارج از اسلام " کرنا کچھ عجیب لگا "
    نعیم بھائی فی الحال اس بات کے جواب میں‌موسیٰ علیہ السلام کی دُعا کرتا ہوں کہ """" اعوذُ باللہ ان اکون من الجاھلین ::: میں اس بات سے اللہ کی پناہ طلب کرتا ہوں کہ میں جاھلوں میں سے ہو جاوں """" نعیم بھإی کسی کلمہ گو کو خارج از اسلام اور کسی کام کو خارج از شریعت کرنا اللہ کا حق ہے اور اللہ کے فرامین کے مطابق سول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کا حق ہے ، کوئی بھی اور ایسا کوئی فیصلہ دینے کے لیے اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے فرامین کا محتاج و پابند ہے ، خاص طور پر کسی کلمہ گو کو خارج از اسلام کہنا یا قرار دینا اتمام حجت کا متقاضہی ہوتا ہے ، محض عملی کفر دیکھ کر کسی کو کافر نہیں مانا جا سکتا ، اس موضوع پر بات اگر آپ کرنا چاہیں تو بھائی حاضر ہے ، فی الحال یہ گذارش ہے کہ میری طرف سے کوئی بات ایسی ہوئی ہو جو محض میری ہو ، تو براہ مہربانی اس کی نشاندہی فرمایے تا کہ میں‌ اپنی غلطی کا ازالہ کر سکوں اور ان شا اللہ اس میں آپ کے لیے بھی اجر عظیم ہو گا ،
    برادر بھائی نے جو کچھ لکھا تھا اس کے بارے میں کچھ وضاحتیں اور گذاشات میں ارسال کر چکا ہوں آپ کی توجہ بھی درکار ہے ، اللہ ہم سب کو واقعتا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کا حقیقی تابع فرمان بنا دے ، و اسلام علیکم۔
     
  21. عادل سہیل
    آف لائن

    عادل سہیل ممبر

    شمولیت:
    ‏24 جولائی 2008
    پیغامات:
    410
    موصول پسندیدگیاں:
    11
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ ،
    جزاک اللہ خیر ا بھائی کمانڈو ، آپ نے بہت مختصر اور اچھے طور پر بات کی ، اللہ قبول فرمائے ، اپنے اعمال کے بارے میں غفلت اور غلط فہمی میں رہنے کی مصیبت اب ہم تک پہنچتے پہنچتے کتنی بڑی ہو چکی ہو گی اس کا اندازہ انس ابن مالک رضی اللہ عنہ کے اس فرمان سے لگایا جا سکتا ہے جو وہ تابعین کے زمانے کے لوگوں کو کہا کرتے تھے کہ ((((( انکم لتعلمون اعمالا ھی ادق فی اعینکم من الشعر ان کنا لنعدھا فی عھد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم من الموبقات ::: تم لوگوں ان کاموں کو جان لو گے (یعنی جب ان کا نتیجہ سامنے آئے گا تو ان کی حقیقت جان لو گے) جو کام تمہاری آنکھوں میں بال سے بھی باریک ہیں (یعنی تم انہیں کچھ سمجھتے ہی نہیں ) اور ہم لوگ (صحابہ رضی اللہ عنہم ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے زمانہ مبارک میں ان کاموں کو ھلاک کر دینے والی چیزوں میں گنا کرتے تھے ))))) صحیح البخاری ،
    اور اس سے ملتا جلتا فرمان ابی سعید الخُدری ، اور عبادہ بن قرط رضی اللہ عنہما سے بھی مروی ہے ، ((( مسند احمد ، مسند ابی یعلی الموصلی ، وغیرہ )))
    تو میرے کمانڈر بھائی ، جب صحابہ رضی اللہ عنہم کی موجودگی میں ، تابعین کے زمانے میں لوگوں میں اس قسم کی غلط فہمی پائی جاتی تھی جب کہیں شاذ و نادر ہی کوئی اپنی سوچ و فکر کو دینی معاملات میں دخل انداز کرتا تھا ، اور نہ ہی کوئی خاص بیرونی عوامل علمی و فکری تخریب کاری کر رہے تھے ، اس وقت بھی کچھ لوگ ایسے تھے جو کسی کام کی حیققت نہ سمجھتے تھے کسی گناہ کو گناہ ہی نہ سمجھتے تھے یا بہت ہی ہلکا سا سمجھتے تھے تو اب جبکہ ہر طرف سے مسلمان کو اس کے دین سے دور رکھنے کے لیے اندرونی اور بیرونی یلغاریں ہیں کیا کچھ دیکھنے اور سننے کو نہ ملے گا ،
    بس اللہ اپنی خاص رحمت والا معاملہ فرمائے اور ہمارے ظاہر وباطن کی اصلاح ہو جائے ، ورنہ من حیث القوم ہم نے اپنی تباہی کو دعوت دینے میں کوئی کمی نہیں رکھی ہوئی ،
    ایک دفعہ پھر مختصر اور جامع بات پر آپ کا شکریہ ، اللہ پ کو بہترین اجر عطا فرمائے ، و السلام علیکم۔
     
  22. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم ۔

    میرا خیال ہے موضوع پر دوطرفہ سیر حاصل گفتگو ہوچکی ہے۔
    جناب عادل سہیل صاحب نے بھی بہت اچھی طرح اپنا موقف واضح کیا ہے۔
    برادر بھائی نے بھی قرآن و سنت پر مبنی دلائل ہی دیے ہیں۔
    جسے " اپنی رائے " کا عنوان دے کر بات کا رخ موڑنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

    اگر کوئی دوست آج کے دور میں " اجتہاد " کا قائل نہیں تو یہ ایک فکر و فہم کا " اختلافی مسئلہ " ہے جو علمائے کرام اور آئمہ دین کے ہاں موجود ہے۔

    لیکن میری درخواست صرف اتنی ہے کہ دونوں‌اطراف کا موقف بیان ہو چکنے کے بعد اب اس لڑی کو مزید بحث و مباحثہ کے ذریعے طوالت دینا " ہماری اردو " کے خوشگوار ماحول کے لیے نامناسب ہوسکتا ہے۔
    لہذا اس گفتگو کو یہیں روک دیا جانا چاہیے۔
    دعا ہے کہ اللہ کریم عادل سہیل بھائی اور برادر بھائی کو دینی علوم میں مزید ترقی عطا فرمائے۔ آمین
    اور ہم سب کو دین کی صحیح سمجھ، شعور اور فہم عطا فرما کر اس پر عمل کی توفیق دے۔ آمین
     
  23. زاہرا
    آف لائن

    زاہرا ---------------

    شمولیت:
    ‏17 نومبر 2006
    پیغامات:
    4,208
    موصول پسندیدگیاں:
    11
    السلام علیکم
    میں‌عالم دین تو نہیں البتہ قرآن مجید کی آیت کریمہ ضرور پڑھی ہے۔

    "دین میں تنگی (زبردستی) نہیں ہے۔ "

    پھر آقا کریم :saw: کی ایک حدیث پاک ہے جس کا مفہوم کچھ یوں ہے۔

    "دین میں آسانی کرو، تنگی نہ کرو۔ (لوگوں کو) بشارتیں اور خوشخبریاں دو انہیں متنفر نہ کرو "

    خود اللہ تعالی اپنی شانِ رحمت کا اظہار ہمیشہ زیادہ فرماتا ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو رحمت اللعالمین بنا کر بھیجا ۔

    اگر یہ سارے پہلو ذہن میں‌رکھے جائیں تو میرا ایمان ہے کہ دین اسلام ، مسلمانوں‌کو ہر دور میں آسانی اور خوشخبری کے راستے دکھاتا ہے۔

    اللہ تعالی ہمیں دین کا صحیح فہم اور اس پر عمل کرنا آسان فرمائے۔ آمین

    اس موضوع کو دونوں‌اطراف کا موقف واضح ہوجانے کے بعد مقفل کیا جاتا ہے۔

    والسلام
     
موضوع کا سٹیٹس:
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

اس صفحے کو مشتہر کریں