1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

DNA ٹیسٹ کی خامیاں ثابت کرکے برٹش ہائی کمشن سے مقدمہ جیت

'میڈیکل سائنس' میں موضوعات آغاز کردہ از نور, ‏22 جنوری 2009۔

  1. نور
    آف لائن

    نور ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جون 2007
    پیغامات:
    4,021
    موصول پسندیدگیاں:
    22
    برٹش ہائی کمیشن نے ڈی این اے کی بنیاد پرمیاں بیوی کو بہن بھائی قرار دیدیا تھا
    بیرسٹر عبدالقیوم نے ڈی این اے ٹیسٹ کے نقائص ثابت کرکے مقدمہ جیت لیا

    برمنگھم (جنگ نیوز) میرپور آزاد کشمیر کے صابر حسین نے جو برطانوی شہری اور رادھرم میں مقیم ہیں، اپنی بیوی چچا زاد زاہد بی بی اور دو گود لئے بچوں کو برطانیہ لانے کے لیے جب برٹش ہائی کمیشن اسلام آباد میں درخواست دی تو ہائی کمیشن نے فیصلہ دینے سے پہلے دونوں میاں بیوی اور بچوں کا ڈی این اے ٹیسٹ کرایا۔ درخواست گزار کی چونکہ اپنی اولاد نہیں تھی اس لئے گود لئے ہوئے دو بچوں کو جس طرح حقیقی اولاد کا درجہ حاصل تھا اسی طرح کاغذات میں لکھ دیا مگر لیبارٹری رپورٹ کے بعد بچوں کو حقیقی اولاد نہ تسلیم کرتے ہوئے اور میاں بیوی کو حقیقی بہن بھائی قرار دیتے ہوئے میاں بیوی ماننے اور ویزا جاری کرنے سے انکار کر دیا۔ صابر حسین نے اس فیصلے کے خلاف امیگریشن ٹریبونل میں اپیل کر دی۔ بریڈ فورڈ میں سماعت کے بعد لیبارٹری رپورٹ کی بنیاد پر کورٹ نے برٹش ہائی کمیشن اسلام آباد کا فیصلہ درست قرار دیدیا کہ صابر حسین حقیقی بہن سے جب شادی ہی نہیں کر سکتا تو بیوی کے طور پر برطانیہ کیسے لا سکتا ہے۔ صابر حسین نے ہار ماننے کے بجائے کچھ عرصہ بعد دوبارہ برٹش ہائی کمیشن اسلام آباد میں درخواست دی تو ہائی کمیشن نے پہلے کی طرح اسی پہلی بنیاد پر درخواست مسترد کر دی، جس کے بعد صابر حسین نے بیرسٹر عبدالقیوم چوہدری سے قانونی مدد کی درخواست کی۔ سماعت کی تاریخ سے پہلے بیرسٹر چوہدری نے ایک ڈی این اے ایکسپرٹ ڈاکٹر راجر بلارڈ کی خدمات حاصل کر کے انہیں میرپور بھیجا تاکہ وہ عدالت میں پیشی سے پہلے یہ تسلی کر لیں کہ مسلمان اور خصوصاً آزاد کشمیر کے لوگ اپنی چچا زاد سے شادیاں کرتے ہیں اور اس صورت میں دونوں کے درمیان کراس بریڈنگ ہونا ظاہر ہے محض ڈی این اے رپورٹ کی بنیاد پر انہیں میاں بیوی کے بجائے حقیقی بہن بھائی تسلیم کر لینا درست نہیں۔ ڈاکٹر بلارڈ نے میرپور کے مضافات چھترو تک کا سفر اور آزادانہ معلوم جمع کرنے کے بعد ڈی این اے پر ٹیکنیکل تنقید اور تبصرہ لکھا جو کیس کی سماعت کے ابتدا میں عدالت کو پیش کر دیا گیا۔ بیرسٹر عبدالقیوم چوہدری نے ہوم آفس کے وکیل سے اختلاف کرتے ہوئے عدالت کے سامنے دلائل پیش کئے کہ (1) صابر حسین اور اس کی بیوی دونوں فرسٹ کزن ہیں۔ (2) ڈی این اے ٹیسٹ بنیادی طور پر ایک منفی ٹیسٹ ہے جو یہ تو ثابت کر سکتا ہے کہ زید بکر کا والد نہیں ہو سکتا مگر یہ ثابت نہیں کر سکتا کہ زید بکر کا یقینی طور پر والد ہے۔ ڈی این اے ٹیسٹ کی 23 سالہ تاریخ میں یہ ایک نیا نکتہ تھا لہٰذا فاضل جج نے اسے فی الفور تسلیم کر لیا۔ (3) ڈی این اے ٹیسٹ رپورٹ میں دونوں بچوں کو حقیقی بھائی تسلیم کرتے ہوئے ایک کے لیے کہا گیا کہ یہ صابر حسین کی بیوی کا بھانجہ یا بھتیجا تو ہو سکتا ہے مگر دوسرا نہیں۔ بیرسٹر عبدالقیوم چوہدری نے فاضل جج کو باور کرایا کہ یہ تضاد اس لئے سامنے آیا کہ بنیادی طور پر ڈی این اے کے تحت بلڈ ٹیسٹ سسٹم میں نقص ہے جو آج تک سامنے نہیں آ سکا وگرنہ دونوں بچے سگے بھائی ہونے کے بعد ایک صابر حسین کی بیوی کا بھانجہ یا بھتیجا تو ہو سکتا ہے مگر دوسرا نہیں یہ عجیب معاملہ ہے۔ ان دلائل کے بعد شادی کی ویڈیو اور گواہ بھی عدالت کے سامنے پیش کئے جس کے بعد فاضل جج نے بیرسٹر عبدالقیوم چوہدری سے اتفاق کرتے ہوئے گیارہ صفحات پر مشتمل تاریخی فیصلہ لکھا اور اگرچہ ہوم آفس کو اپیل کا حق دیا گیا مگر اپیل نہیں کی گئی اس طرح مسلم کمیونٹی آئندہ کے لیے بہت سی قانونی مشکلات سے بچ گئی ہے۔

    رپورٹ : روزنامہ جنگ 22 جنوری 2009
     
  2. مبارز
    آف لائن

    مبارز ممبر

    شمولیت:
    ‏3 اگست 2008
    پیغامات:
    8,835
    موصول پسندیدگیاں:
    26
    بہت شکریہ ہم سے شیئر کرنے کے لیئے۔۔۔جیتی رہیں خوش رہیں۔۔
     
  3. ڈاکٹر نسرین
    آف لائن

    ڈاکٹر نسرین ممبر

    شمولیت:
    ‏20 مئی 2008
    پیغامات:
    159
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    بہت خوب لکھا ہے نور جی!
     

اس صفحے کو مشتہر کریں