1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

موسیقی، تصاویر، اسلام اور فلم “خدا کے لیے“

'حالاتِ حاضرہ' میں موضوعات آغاز کردہ از نعیم, ‏7 اگست 2007۔

  1. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    فلم ’خدا کے لیے‘ عدالت میں


    احمدرضا
    بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی​

    سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس صبیح الدین احمد نے فلم ’خدا کے لیے‘ کی نمائش بند کرانے کی درخواست دینے والے جامعہ بنوریہ العالمی کے مدرس سیف اللہ ربّانی کے وکیل سے کہا ہے کہ وہ قرآن و سنت کی روشنی میں ثابت کریں کہ خدا موسیقی اور مصوری کو ناپسند کرتا ہے۔

    جسٹس صبیح الدین احمد نے یہ ہدایت منگل کو فلم کی نمائش کے خلاف درخواست کی سماعت کے دوران اس وقت کی جب درخواست گزار کے وکیل نے موسیقی اور مصوری کے خلاف مختلف فتووں کا حوالہ دیا۔

    یہ درخواست جامعہ بنوری العالمی سائیٹ کراچی کے مدرس سیف اللہ ربانی نے داخل کی ہے جس میں محکمۂ ثقافت حکومت سندھ، جیو ٹی وی، پیمرا، فلم سنسر بورڈ اور فلم کے ڈائریکٹر شعیب منصور کے علاوہ فلم سٹارز شان اور ایمان علی اور پرنس سنیما کراچی کے مالک کو جوابدہ بنایا گیا ہے۔

    درخواست گزار کا موقف ہے کہ فلم ’خدا کے لیے‘ اسلامی تعلیمات کے منافی خیالات پر مبنی ہے، لہذا اس کی نمائش فوری طور پر بند کرائی جائے اور فلم بنانے اور اس میں کام کرنے والوں کے علاوہ فلم کی نمائش اور تشہیر کرنے والوں کے خلاف تعزیرات پاکستان کے تحت اسلام کو نقصان پہنچانے اور مسلمانوں کے جذبات مجروح کرنے کے جرم میں کارروائی کی جائے۔

    جسٹس صبیح الدین احمد اور جسٹس افضل سومرو پر مشتمل ہائی کورٹ کی دو رکنی بینچ نے جب درخواست کی سماعت شروع کی تو درخواست گزار کے وکیل مقبول الرحمن نے فلم کے اس جملے کا حوالہ دیا جس میں بھارتی اداکار نصیرالدین شاہ ایک عالم کا کردار نبھاتے ہوئے کہتے ہیں: ’میں یہ کیسے مان لوں کہ خدا موسیقی اور مصوری سے نفرت کرتا ہے۔‘

    مقبول الرحمن نے موسیقی اور مصوری کے خلاف مختلف علما کے فتووں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اسلام میں موسیقی اور مصوری دونوں کی ممانعت ہے اور اس کے خلاف فتوے موجود ہیں۔

    “فتوؤں کا حوالہ نہ دیں بلکہ اگر قرآن و حدیث سے کوئی شواہد پیش کر سکتے ہیں تو کریں “
    چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ​


    اس پر چیف جسٹس ہائی کورٹ صبیح الدین احمد نے ان سے کہا کہ وہ فتووں کا حوالہ نہ دیں بلکہ اگر قرآن و حدیث میں اس بارے میں کوئی شواہد پیش کرسکتے ہیں تو کریں۔ عدالت نے اس درخواست کی آئندہ سماعت کے لیے دس اگست کی تاریخ مقرر کی ہے۔

    ’خدا کے لیے‘ کی نمائش پرنس سنیما کراچی سمیت ملک کے مختلف سنیما گھروں میں جاری ہے جس میں لوگ غیرمعمولی دلچسپی کا اظہار کر رہے ہیں۔

    یہ فلم آج کل اسلامی دنیا خاص طور پر پاکستان جیسے ممالک میں زیر بحث جہاد، موسیقی، مغربی لباس اور زبردستی کی شادی جیسے موضوعات کے گرد گھومتی ہے اور اس میں موسیقی اور مغربی لباس کو غیراسلامی قرار دینے والوں کے مقابلے میں ایسے علماء پر سامنے آنے کے لیے زور دیا گیا ہے جو اپنے موقف کو پیش کرنے میں اب تک سستی سے کام لیتے رہے ہیں۔

    بشکریہ ۔ بی بی سی اردو ڈاٹ کام
     
  2. نور
    آف لائن

    نور ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جون 2007
    پیغامات:
    4,021
    موصول پسندیدگیاں:
    22
    چلیں اسی بہانے موسیقی اور تصاویر کے حوالے سے صحیح اسلامی تصوّر تو واضح ہوجائے گا۔
     
  3. ثانیہ
    آف لائن

    ثانیہ ممبر

    شمولیت:
    ‏23 نومبر 2008
    پیغامات:
    33
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    :hands: :hands: :hands:
    یہ فلم میں نے دیکھی ہے اس میں تو صرف راہ اعتدال کی بات کی گئی ہے صرف یہ بتایا گیا ہے کہ چند افراد کی نادانیوں کو پوری قوم پوری جماعت کے اوپر تھونپ دینا کوئی بہادری یا کام کی چیز نہیں غلطیاں ہر طرف سے ہو سکتی ہیں
    اور یہ فلم کم ازکم 3 بر اعظموں کے درمیاں موجود کشیدگی کو کم کرنے بہتریں ذریعہ ثابت ہوتی نظر آ رہی ہے جو کام پیر فقیر مولانا حضرات(الا ماشاللہ) نہیں کر سکے وہ اس فلم نے بہتریں طریق پر کیا ہے
    رھا سوال موسیقی کا

    حضرت امیر معاویہ کا موسیقی سننا ثابت ہے
    حوالہ اسلام اور موسیقی مصنف مولانا شاہ محمد جعفر پھلواری شاگرد رشید مولانا نواب صدیق حسن خان بھوپالی)
    لہذا صحابی کا عمل خلاف شرع نہیں ہو سکتا اور صحابی بھی وہ جو کاتبیین وحی میں سے ہوں

    اور یہ بھی حدیث مبارکہ ہے
    اصحابی کنجوم بایھیم اقتدیتم اھتدیتم رواہ فی صحیین
    میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں جس کی اقتدا کرو گے فلاح پا جاو گے

    کیا سمجھے نعیم بھیا
     
  4. ثناءاللہ
    آف لائن

    ثناءاللہ ممبر

    شمولیت:
    ‏31 مئی 2006
    پیغامات:
    79
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    فلم خدا کے لیے دیکھی ہے۔ بری اچھی لگی اور اس کے ساتھ ساتھ یہ بحث بھی بڑی اچھی لگی اور ثانیہ اگر آپ
    مندرجہ بالا کتاب کے علاوہ قرون اولیٰ کی کسی کتاب کا حوالہ دیں تو میں مشکور ہوں گا۔
    شکریہ
     
  5. راشد احمد
    آف لائن

    راشد احمد ممبر

    شمولیت:
    ‏5 جنوری 2009
    پیغامات:
    2,457
    موصول پسندیدگیاں:
    15
    حضرت امامہ باہلی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”بلاشبہ اللہ تعالٰی نے مجھے مسلمانوں کے لیے ہدایت و رحمت بنا کر بھیجا ہے اور مجھے حکم دیا ہے کہ میں بانسری، طنبورہ، صلیب اور امور جاہلیت کو مٹا دوں”۔
    (ابوداؤد)

    آج ہمارے معاشرے میں گانے کا رواج بہت عام ہوچکا ہے۔ گھر گھر، گلی گلی، فلمی گانوں اور موسیقی کی آواز سے گونج رہے ہیں۔ ریڈیو، ٹی وی، وی سی آر، ڈش اور کیبل وغیرہ نے ان کو بامِ عروج پر پہنچا دیا ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ مسلمانوں کے دل سے اس کا گناہ ہونا نکل چکا ہے۔ بلکہ اس کو روح کی غذا بتایا جارہا ہے۔ لیکن قرآن پاک میں اللہ رب العزت نے اس کو حرام قرار دیا ہے۔ ارشاد باری تعالٰی ہے۔ ”بعض لوگ ایسے ہیں جو ان باتوں کے خریدار ہیں جو اللہ تعالٰی سے غافل کرنے والی ہیں۔ تاکہ بے سوچے سمجھے اللہ کی راہ سے بھٹکائیں اور اس راہ حق کا مذاق اڑائیں۔ یہ لوگ ہیں جن کے لیے ذلت دینے والا عذاب ہے”۔ (لقمان۔6)۔

    اس آیت میں لھو الحدیث (غافل کرنے والی بات) سے مراد گانا، بجانا اس کا سازوسامان اور آلات ہیں۔ چنانچہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ سے جب اس آیت کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا: ”قسم ہے اس ذات کی جس کے سوا کوئی معبود نہیں اس مراد گانا ہی ہے”۔ آپ نے یہ جملہ تین بار دہرایا۔ اس آیت کے نزول کا واقعہ یہ ہے کہ نضر بن حارث جو اسلام کا سخت دشمن تھا اور چاہتا تھا کہ لوگ قرآن کی طرف متوجہ نہ ہوں اور اس سلسلے میں وہ مختلف کوششیں کرتا رہتا تھا جن میں سے ایک یہ بھی تھی کہ اس نے ایک گانے والی کنیز رکھی ہوئی تھی۔ وہ جس کو اسلام کی طرف مائل دیکھتا اس کنیز کا گانا سنواتا اور پوچھتا بتاؤ، مزہ گانے میں ہے یا قرآن کریم میں؟ اس سے اس کا مقصد یہ تھا کہ لوگ قرآن سے دور اور گانے بجانے میں لگ جائیں اور اللہ نے اس آیت کے ذریعے اس کو حرام قرار دے دیا۔


    لیکن دین سے دور کرنے جو طریقہ نضر بن حارث نے دکھایا اس کے پیروکار آج بھی اس کو استعمال کر رہے ہیں۔ اس اعتبار سے اس میں گلوکار اور گلوکارائیں بھی آجاتی ہیں جو آج کل فنکار، فلمی ستارہ اور ثقافتی سفیر اور نا جانے کیسے کیسے مہذب، خوشنما اور دل فریب ناموں سے پکاری جاتے ہیں۔ آج کل میڈیا کے ذریعے عریاں فلمیں، فحش ڈرامے، ناچ گانے، چوری ڈکیتی اور قتل و غارت گاری کے پروگرام دکھا کر یہ مقصد خوب حاصل کیا جارہا ہے۔ بلکہ قوم کی ساری خرابیوں کا واحد علاج عریانی فحاشی اور گانا بجانا بتایا جا رہا ہے۔ درحقیقت یہ ایسا نشہ ہے کہ جب کوئی قوم اس میں مست ہو جاتی ہے تو پھر سب کچھ بھول جاتی ہے۔ دین کا توکیا کہنا اپنی دنیا سے بھی غافل ہو جاتی ہے۔

    صفوان بن امیہ کہتے ہیں کہ ہم سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے کہ عمروبن مزہ حاضر خدمت ہوا اور یہ درخواست کی کہ حضرت میں تنگدست ہوں۔ میرے لیے ذریعہ معاش صرف دف بجانا ہی ہے۔ جناب مجھے اجازت فرما دیں۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کےدشمن تم جھوٹ کہتے ہو۔ تجھے اللہ تعالٰی نے حلال رزق دیا تونے اسے حرام بنا لیا۔ اگر تونے اس برے کام سے توبہ نہ کی تو میں سر منڈوا کر تجھے مدینہ سے نکال دوں گا اور مدینہ کے نوجوانوں کو حکم دوں گا کہ وہ تیرا مال لوٹ لیں۔ یہ تو دنیا میں تیر حشر ہوگا اور قیامت کے دن تو ننگا اور ہیجڑا بن کر اٹھے گا۔ تیری دماغی حالت اس انسان کی طرح ہوگی جس کا دماغی توازن مرگی نے ضائع کردیا ہو۔ پھر جب وہ چلا گیا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ وہ نافرمان ہیں کہ اگر ان میں سے کوئی بغیر توبہ کے مر گیا تو قیامت کے دن اسے اللہ تعالٰی ہیجڑا اور ننگا اٹھائے گا اس کے بدن پر ذرا بھی کپڑا نہ ہوگا۔ جب کبھی کھڑا ہوگا بےہوش ہو کر گر پڑے گا۔ (بحوالہ ابن ماجہ)

    دف کی بنیاد پر موسیقی کو جائز قراردینے والے اس روایت پر غور فرمائیں اور اپنی سوچ اور فکر کو ٹھیک کر لیں۔ موسیقی وغیرہ سے کچھ مسرت اور تسکین نفس کے پجاریوں کو حاصل ہو جاتی ہے مگر ایمان والوں کے دلوں کا اطمینان تو اللہ کے ذکر میں ہے۔

    ”جو لوگ ایمان لائے ان کے دل اللہ کے ذکر سے اطمینان حاصل کرتے ہیں۔ یادرکھو اللہ کے ذکر سے ہی دلوں کو تسلی حاصل ہوتی ہے۔ (الرعد)
     

اس صفحے کو مشتہر کریں