1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

غزل (میر تقی میر)

'اردو شاعری' میں موضوعات آغاز کردہ از وہاب اعجاز, ‏30 مئی 2006۔

  1. وہاب اعجاز
    آف لائن

    وہاب اعجاز ممبر

    شمولیت:
    ‏23 مئی 2006
    پیغامات:
    13
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    سوزشِ دل سے مفت گلتے ہیں
    داغ جیسے چراغ جلتے ہیں

    اس طرح دل گیا کہ اب تک ہم
    بیٹھے روتے ہیں، ہاتھ ملتے ہیں

    بھری آتی ہیں آج یوں آنکھیں
    جیسے دریا کہیں اُبلتے ہیں

    دمِ آخر ہے بیٹھ جا ، مت جا
    صبر کر ٹک کہ ہم بھی چلتے ہیں

    تیرے بے خود جو ہیں سو کیا چیتیں
    ایسے ڈوبے کہیں اُچھلتے ہیں!

    فتنہ در سر، بتانِ حشر خرام
    ہائے رے کس ٹھسک سے چلتے ہیں

    نظر اٹھتی نہیں کہ جب خوباں
    سوتے سے اُٹھ کے آنکھ ملتے ہیں

    شمع رُو موم کے بنے ہیں مگر
    گرم ٹک ملیے تو پگھلتے ہیں

    میر صاحب کو دیکھیے جو بنے
    اب بہت گھر سے کم نکلتے ہیں
     
  2. ثناء
    آف لائن

    ثناء ممبر

    شمولیت:
    ‏13 مئی 2006
    پیغامات:
    245
    موصول پسندیدگیاں:
    5
    بہت خوبصورت انتخاب ہے۔ اسی طرح کچھ اور بھی اس میں اضافہ کیجیے نا
     
  3. وہاب اعجاز
    آف لائن

    وہاب اعجاز ممبر

    شمولیت:
    ‏23 مئی 2006
    پیغامات:
    13
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    رہی نہ گفتہ مرے دل میں داستاں میری
    نہ اس دیار میں سمجھا کوئی زباں میری

    بہ رنگِ صوتِ جرس تجھ سے دور ہوں تنہا
    خبر نہیں ہے تجھے آہ کارواں میری

    ترے نہ آج کے آنے میں صبح کے مجھ پاس
    ہزار جائے گئی طبعِ بدگماں میری

    شب اُس کے کُوچے میں جاتا ہوں اس توقع پر
    کہ ایک دوست ہے واں خوابِ پاسباں میری

    اُسی سے دور رہا اصل مدعا جوتھا
    گئی یہ عمرِ عزیز آہ رائگاں میری

    ترے فراق میں جیسے خیال مفلس کا
    گئی ہے فکرِ پریشاں کہاں کہاں میری

    دیا دکھائی مجھے تو اُسی کا جلوہ میر
    پڑی جہان میں جاکر نظر جہاں میری
     
  4. وہاب اعجاز
    آف لائن

    وہاب اعجاز ممبر

    شمولیت:
    ‏23 مئی 2006
    پیغامات:
    13
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    دیکھ تو دل کہ جاں سے اُٹھتا ہے
    یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے

    گور کس دل جلے کی ہے یہ فلک
    شعلہ اک صبح یاں سے اٹھتا ہے

    خانہء دل سے زینہار نہ جا
    کوئی ایسے مکاں سے اٹھتا ہے!

    نالہ سر کھینچتا ہے جب میرا
    شور اک آسماں سے اُٹھتا ہے

    لڑتی ہے اُس کی چشمِ شوخ جہاں
    ایک آشوب واں سے اٹھتا ہے

    سدھ لے گھر کی بھی شعلہء آواز
    دُود کچھ آشیاں سے اُٹھتا ہے

    بیٹھنے کون دے ہے پھر اُس کو
    جو ترے آستاں سے اُٹھتا ہے

    یوں اُٹھے آہ اُس گلی سے ہم
    جیسے کوئی جہاں سے اٹھتا ہے

    عشق ایک میر بھاری پتھر ہے
    کب یہ تجھ ناتواں سے اٹھتا ہے
     
  5. پیاجی
    آف لائن

    پیاجی ممبر

    شمولیت:
    ‏13 مئی 2006
    پیغامات:
    1,094
    موصول پسندیدگیاں:
    19
    وہاب اعجاز صاحب نہایت خوبصورت! مزید اضافہ فرما
     
  6. وہاب اعجاز
    آف لائن

    وہاب اعجاز ممبر

    شمولیت:
    ‏23 مئی 2006
    پیغامات:
    13
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    کرے کیا کہ دل بھی تو مجبور ہے
    زمیں سخت ہے، آسماں دُور ہے

    جرس راہ میں جملہ تن شور ہے
    مگر قافلے سے کوئی دُور ہے

    تمنائے دل کے لیے جان دی
    سلیقہ ہمارا تو مشہور ہے

    نہ ہو کس طرح فکرِ انجام کار
    بھروسا ہے جس پہ سو مغرور ہے

    پلک کی سیاہی میں ہے وہ نگاہ
    کس کا مگر خون منظور ہے

    دل اپنا نہایت ہے نازک مزاج
    گِرا گر یہ شیشہ تو پھر چُور ہے

    کہیں جو تسلی ہوا ہو یہ دل
    وہی بے قراری بدستور ہے

    بہت سعی کریے تو مر رہیے میر
    بس اپنا تو اتنا ہی مقدور ہے
     
  7. وہاب اعجاز
    آف لائن

    وہاب اعجاز ممبر

    شمولیت:
    ‏23 مئی 2006
    پیغامات:
    13
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    کب تلک جی رکے، خفا ہووے
    آہ کریے کہ ٹک ہوا ہووے

    جی ٹھہر جائے یا ہوا ہووے
    دیکھیے ہوتے ہوتے کیا ہووے

    کاہشِ دل کی کیجیے تدبیر
    جان میں کچھ بھی جو رہا ہووے

    چپ کا باعث ہے بے تمنائی
    کہیے کچھ بھی تو مدعا ہووے

    بے کلی مارے ڈالتی ہے نسیم
    دیکھیے اب کے سال کیا ہووے

    مر گئے ہم تو مر گئے ، تُو جیے
    دل گرفتہ تری بَلا ہووے

    عشق کیا ہے درست اے ناصح
    جانے وہ جس کا دل لگا ہووے

    نہ سنا رات ہم نے اک نالہ
    غالباَ َ میر مر رہا ہووے
     
  8. وہاب اعجاز
    آف لائن

    وہاب اعجاز ممبر

    شمولیت:
    ‏23 مئی 2006
    پیغامات:
    13
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    نہیں وسواس جی گنوانے کے
    ہائے رے ذوق دل لگانے کے

    میرے تغییرِ حال پر مت جا
    اتفاقات ہیں زمانے کے

    دمِ آخر ہی کیا نہ آنا تھا
    اور بھی وقت تھے بہانے کے

    اس کدورت کوہم سمجھتے ہیں
    ڈھب ہیں یہ خاک میں ملانے کے

    مرنے پر بیٹھے ہیں سنو صاحب
    بندے ہیں اپنے جی چلانے کے

    چشمِ نجم سہپر جھپکے ہے
    صدقے اس انکھڑیاں لڑانے کے

    دل و دیں، ہوش و صبر سب ہی گئے
    آگے آگے تمہارے آنے کے
     
  9. پیاجی
    آف لائن

    پیاجی ممبر

    شمولیت:
    ‏13 مئی 2006
    پیغامات:
    1,094
    موصول پسندیدگیاں:
    19
    نہایت خوبصورت
     
  10. وہاب اعجاز
    آف لائن

    وہاب اعجاز ممبر

    شمولیت:
    ‏23 مئی 2006
    پیغامات:
    13
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    فقیرانہ آئے صدا کرچلے
    میاں ، خوش رہو ہم دعا کر چلے

    جو تجھ بِن نہ جینے کو کہتے تھے ہم
    سو اُس عہد کو اب وفا کر چلے

    شفا اپنی تقدیر ہی میں نہ تھی
    کہ مقدور تک تو دوا کر چلے

    وہ کیا چیز ہے آہ جس کے لیے
    ہر اک چیز سے دل اُٹھا کر چلے

    کوئی ناامیدانہ کرتے نگاہ
    سو تم ہم سے منھ بھی چُھپا کر چلے

    بہت آرزو تھی گلی کی تری
    سو یاں سے لہو میں نہا کر چلے

    دکھائی دیے یوں کہ بے خود کیا
    ہمیں آپ سے بھی جدا کر چلے

    (ق)

    جبیں سجدہ کرتے ہی کرتے گئی
    حقِ بندگی ہم ادا کر چلے

    پرستش کی یاں تک کہ اے بُت تجھے
    نظر میں سبھوں کی خدا کر چلے

    نہ دیکھا غمِ دوستاں شکر ہے
    ہمیں داغ اپنا دکھا کر چلے

    (ق)

    گئی عمر در بندِ فکرِ غزل
    سو اس فن کو ایسا بُرا کر چلے

    کہیں کیا جو پوچھے کوئی ہم سے میر
    جہاں میں تم آئے تھے، کیا کر چلے!
     
  11. ہما
    آف لائن

    ہما مشیر

    شمولیت:
    ‏13 مئی 2006
    پیغامات:
    251
    موصول پسندیدگیاں:
    5
    ماشاءاللہ میر تقی میر تو ویسے ہی اساتذہ میں سے ہیں مگر آپ کا انتخاب بھی بہت اچھا ہے۔ مزید بھی کچھ شائع کریں نا۔
     
  12. خوشی
    آف لائن

    خوشی ممبر

    شمولیت:
    ‏21 ستمبر 2008
    پیغامات:
    60,337
    موصول پسندیدگیاں:
    37
    وہاب جی میر کا کلام شئیر کرنے کا بہت شکریہ کیا اچھا ہوتا کہ یہ لڑی بھی‌آگے چلتی رہتی
     
  13. نادر سرگروہ
    آف لائن

    نادر سرگروہ ممبر

    شمولیت:
    ‏5 جون 2008
    پیغامات:
    600
    موصول پسندیدگیاں:
    6
    ؛
    بہت شکریہ
    وہاب اعجاز صاحب
     

اس صفحے کو مشتہر کریں