1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

جرم، توبہ اور اصلاح احوال

'تعلیماتِ قرآن و حدیث' میں موضوعات آغاز کردہ از پیاجی, ‏26 اگست 2006۔

  1. پیاجی
    آف لائن

    پیاجی ممبر

    شمولیت:
    ‏13 مئی 2006
    پیغامات:
    1,094
    موصول پسندیدگیاں:
    19
    جرم، توبہ اور اصلاح احوال

    انسانی فطرت دو چیزوں سے مرکب ہے ارادہ خیر اور ارادہ شر، ان دونوں قوتوں میں تصادم جاری رہتا ہے۔ اگر ارادہ شرکی قوتیں غالب آ جائیں تو انسان اسفل السافلین کی منزل تک جا پہنچتا ہے اور اگر ارادہ خیر کی قوتیں غالب و فائق ہو جائیں تو وہ انسان، انسان مرتضیٰ بن جاتا ہے خوش قسمت ہیں وہ افراد جو ان دونوں خلقی و جبلی قوتوں کی کشمکش میں خیر و نیکی کی قوتوں کے نفس انسانی پر تغلب کے لئے ساماں کرتے ہیں۔ محروم و خاسر ہیں وہ لوگ جو برائی و شر کی قوتوں کو پروان چڑھاتے ہیں اس کشمکش میں اسلام نیکی و خیر کی قوتوں کے فروغ و ترویج کے لئے تحریک و تشویق دیتا ہے برائی و شر، گناہ و خطا، معصیت و نافرمانی سے بچنے کی تلقین کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام گناہگار و خطا کار سے نہیں گناہ و خطا سے نفرت کا درس دیتا ہے، مظلوم سے نہیں ظلم سے تعلق منقطع کرنے کی تعلیم دیتا ہے، محکوم سے نہیں ظالم و مستبد حاکم سے دوبدو پنجہ آزمائی کے لئے ابھارتا ہے، مجبور مقہور سے نہیں جابر و ستم شعار سے تذلیل و تحقیر آمیز سلوک کے لئے آمادہ کرتا ہے، مجرم سے نہیں جرم سے ناپسندیدگی کا اظہار کرتا ہے۔ قرآن حکیم کا یہ ارشاد غور و توجہ کا مستحق اور دلچسپی کا حامل ہے:

    اے محبوب فرما دیجئے اے میرے بندو جو اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھیں تمہیں اللہ کی رحمت سے کسی حال میں مایوس نہیں ہونا۔ (الزمر، 39 : 53)

    اس آیہ کریمہ میں اللہ رب العزت نے فرمایا کہ اے محبوب! میرا یہ پیغام میرے بندوں تک پہنچا دیجئے۔ یہ پیغام کیا ہے اور کن بندوں کے نام دیا جا رہا ہے۔ ارشاد ہوا کہ آپ فرما دیجئے۔ یٰعِبَادِیَ الَّذِینَ اَسرَفُوا عَلٰی اَنفُسِھِم اے میرے بندو! جو اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھیں۔ غور کیجئے! خطاب ان لوگوں سے نہیں جو پرہیزگار، پارسا اور متقی ہیں بات ان کی نہیں ہو رہی جو تقوٰی، زہد و ورع، صالحیت اور علم و عمل کی بناء پر بلند درجہ رکھتے ہیں بلکہ ان گنہگاروں اور خطا کاروں کی بات ہو رہی ہے جو نفس یا شیطان کے بہکاوے میں آ کر یا کسی بھی محبوری یا سبب سے اللہ کے حکم سے سرتابی اور نافرمانی کے مرتکب ہوگئے اور ان سے دانستہ یا نادانستہ غلطیاں اور خطائیں سرزد ہوگئیں۔ گویا اللہ کی نگاہ کرم ان لوگوں کی طرف اٹھی ہے جو مجرم ہیں اور ان کے شب و روز معصیت اور نافرمانی میں بسر ہوتے ہیں۔ اللہ سے ان کا تعلق ٹوٹ گیا یا کمزور پڑگیا ہے۔ کتنے لطف کا مقام ہے کہ اللہ تعالی کو اپنے وہ بندے یاد آرہے ہیں جو اسے بھول گئے اور اس کے راستے سے دور ہٹ گئے لیکن وہ اپنے ان گم کردہ راہ بندوں سے بے خبر نہیں ہے۔ اللہ اپنے محبوب کے توسط سے انہیں اپنا پیغام پہنچا رہا ہے اس لئے کہ جو نیکوکار اور پرہیزگار ہیں انہیں تو ہر وقت پیغام پہنچتا ہی رہتا ہے۔

    یہاں پیغام کے مندرجات (Contents) سمجھنے سے پہلے خطاب کے اسلوب کو سمجھنا ضروری ہے۔ یٰعِبَادِیَ الَّذِینَ اَسرَفُوا عَلٰی اَنفُسِھِم ”اے میرے بندو جو اپنی جانوں پر گناہ و جرم و معصیت جیسے مظالم کے مرتکب ہو بیٹھے۔ “ اس میں چھوٹے بڑے سب گنہگار آگئے۔ بات یوں بھی کی جاسکتی تھی کہ اے میرے بندو! میرا پیغام سن لو لیکن ”یا عبادی“ یعنی ”اے میرے گنہگار بندو!“ کہنے کی بات ہی کچھ اور ہے کیونکہ خطاب تمام بندوں سے نہیں بلکہ صرف گنہگار اور خطا کاروں سے ہے۔ پرہیزگاروں کو اس خطاب سے الگ کیا گیا ہے۔ اس لئے کہ ہوسکتا ہے انکو اپنی پرہیزگاری، عبادت، تقویٰ اور صالحیت پر فخر اور گھمنڈ ہو۔ یہ خطاب فقط ان لوگوں کے لئے ہے جو غلطی اورگناہ کے بعد پریشان و پشیمان ہیں، ان کے دل ٹوٹ چکے ہیں اور وہ یہ سوچتے ہیں کہ ہم نے اپنے گناہوں سے اللہ کو ناراض کر دیا ہے۔ اب ہماری مغفرت اور بخشش کا سامان ہوگا بھی یا نہیں۔ یہ دل شکستہ اور پریشان حال دکھی لوگ وہ ہیں جو احساس جرم کے نیچے دبے ہوئے ہیں اور انہیں اپنی معصیت کوشی کی وجہ سے خود اپنے آپ سے شرم آ رہی ہے اور اپنی خطاکاریوں کے پیش نظر ندامت سے ان میں لوگوں کا سامنا کرنے کی ہمت بھی نہیں ہے لیکن اللہ کی رحمت انہیں پیار سے پکار رہی ہے اور انہیں اپنے محبوب کی وساطت سے پیار بھرے انداز میں سندیسہ بھیجا جا رہا ہے۔ خطاب کا یہ اسلوب اختیار کرنے کی وجہ کیا ہے؟ میرے گنہگار بندو! کی بجائے صرف گنہگار بندو! کہہ دیا جاتا تو کیا فرق پڑتا؟ اس کا فرق جاننے کے لئے یہ نکتہ سمجھ لیں کہ اگر صرف گنہگار بندو! سے خطاب کا آغاز ہوتا تو وہ گنہگار بندے تو بارِگناہ سے پہلے ہی لرزہ بر اندام اور دبے ہوئے تھے، انہیں کیا خبر تھی کہ پروردگار کیا کہنا چاہتا ہے۔ ممکن تھا کہ وہ یہ بات سن کر ڈر جاتے اور اندیشہ ہائے دور دراز میں ہلکان ہو جاتے کہ ان کا رب انہیں کوئی ایسا حکم دینا چاہتا ہے جس میں کوئی سزا اور اس کی رحمت سے دوری کی وعید ہے۔ پریشان، مایوس اور شکستہ دل تو پہلے ہی سے تھے اور اب اگر یہ خطاب ان کے کانوں میں پڑ جاتا تو خدا جانے ان پر مزید کیا گزرتی۔ وہ اور بھی دل گرفتہ ہو جاتے اور اس سوچ میں پڑ جاتے کہ شاید کوتاہیوں اور خطاؤں پر ان کی گرفت ہونے والی ہے۔ لیکن اس خطاب میں جو اپنائیت اور چاہت کا انداز ہے اس نے ان ڈھارس بندھا دی ہے۔ اللہ کی ذات رحیم اپنے محبوب سے کہہ رہی ہے کہ میں اپنے بندوں کے ٹوٹے ہوئے دل جوڑنا اور ان دکھیاروں کو راحت اور آسودگی سے نوازنا چاہتا ہوں وہ جو گناہ کرکے مایوسی کے عالم میں میری بارگاہ سے دور بھاگے جا رہے ہیں میں انہیں اپنی رحمت کا مژدہ جانفزا سنا کر اپنے قریب کرنا چاہ رہا ہوں۔ اے محبوب مکرم تو انہیں میرے بندے کہہ کر پکار اور میری طرف بلا۔ اس لئے کہ جب وہ یہ پکار اور بلاوا سنیں گے تو ان کی وحشت دل اسی وقت دور ہو جائے گی اور وہ کھچے ہوئے میری بارگاہ ناز میں چلے آئیں گے۔ محبوبِ حقیقی اپنی زبان سے کسی کو میرا، کہہ کر پکارے تو چاہے وہ کتنا ہی سیاہ کار اور خطا کوش کیوں نہ ہو اس کی مایوسیوں کے بادل چھٹ جاتے ہیں اور پریشانیوں کی پرچھائیاں دور ہو جاتی ہیں۔ یعٰبادی کا لفظ کانوں میں پڑتے ہی وہ قدم جو وحشت زدگی میں اللہ کی رحمت سے دور بھاگے جا رہے تھے رک جاتے ہیں اور وہ بندہ لوٹ کر پیچھے تکنے لگتا ہے کہ میرے رب نے گناہوں کے باوجود مجھے اپنا کہہ کر بلایا ہے۔

    جرم اور گناہ میں فرق

    یہ بات سمجھنے کے لائق ہے کہ جرم اور گناہ کے درمیان کیا فرق ہے؟ گناہ اللہ کی نافرمانی کو کہتے ہیں اور جرم کہتے ہیں اللہ کی اس نافرمانی کو جس پر ریاست سزا دے۔ گویا ہر جرم گناہ ہوتا ہے لیکن ہر گناہ جرم نہیں ہوتا۔ بہت سے گناہ ایسے ہوتے ہیں جن پر عدالتی سطح پر ریاست کی طرف سے کوئی سزا نہیں۔ مثال کے طور پر جھوٹ بولنا گناہ ہے لیکن اس کی کوئی سزا ریاست نے مقرر نہیں کی۔ یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ ضروری نہیں ہر جرم گناہ سے بڑا ہو۔ کچھ جرم ہلکے ہوتے ہیں اور کئی گناہ محض گناہ ہو کر کئی گنا بھاری ہوتے ہیں۔ یہ بات ممکن ہے کہ کسی نے ہلکا سا جرم کیا اور اسے پکڑ کر داخل زنداں کر دیا گیا۔ اس کے مقابلے میں کسی نے ایسا گناہ کیا جو جرم سے بھاری تھا لیکن پکڑا نہ گیا اور وہ معاشرے میں معزز بنا پھرتا رہا۔ جرم و گناہ کے باب میں یہ نکتہ قابل توجہ ہے۔ معلوم نہیں ہم میں کتنے ایسے گناہ گار ہیں جو اللہ کی بارگاہ میں ان سے کہیں زیادہ جوابدہ ہیں جنہیں کسی نہ کسی جرم کی بناء پر جیل میں ڈال دیا گیا ہے اور وہ گنہگار اپنے اوپر باعزت اور باوقار ہونے کا لبادہ اوڑھے بیٹھے ہیں۔ چونکہ وہ یہاں گرفت سے محفوظ ہیں اس لئے ان کے معزز ہونے کا بھرم بنا ہوا ہے۔ لیکن انہیں روز جزا اپنے کردہ گناہوں کا حساب دینا پڑے گا اور وہ اللہ کی بارگاہ میں جوابدہ ٹھہرائے جائیں گے۔ ان کے برعکس اسیران جیل میں ایسے بھی ہوتے ہیں جن سے سرزد ہونے والا جرم اتنا بڑا نہیں ہوگا جتنا کہ ہم جیل سے باہر بظاہر محفوظ بیٹھے رہنے والوں سے صادر ہوا ہوگا لیکن اللہ نے چاہا کہ ان کے گناہ کا حساب یہاں چکا دیا جائے اور آخرت میں ان سے کوئی پوچھ گچھ نہ ہو اور وہاں وہ ہرقسم کی گرفت اور مواخذے سے محفوظ ہوں۔ یہ اس لئے ہے کہ اللہ تعالی کا قاعدہ و قانون ہے کہ جو ایک دفعہ سزا سے گزر جائے اسے دوسری بار سزا نہیں دی جاتی۔ اس دنیا کا بھی یہی قانون ہے کہ جو ایک دفعہ سزا بھگت لے اسے دوبارہ سزا نہیں دی جا سکتی۔

    توبہ سے گناہوں کا ازالہ ممکن ہے

    اللہ کی ذات سراسر رحمت ہے۔ اسے یہ کب گوارا ہوسکتا ہے کہ جرم تو ایک دفعہ کیا جائے اور جرم کرنے والے کوسزا دو بار دی جائے۔ اس لئے جو اپنے جرم کی یہاں سزا پا چکے مبارکباد کے مستحق ہیں کہ وہ اسی دنیا میں چھوٹ گئے اور آخرت میں جوابدہی اور مواخذے سے بچ گئے۔ لیکن وہ بھی ہیں جنہوں نے گناہ کیا اور پکڑے نہ گئے۔ قانون کی گرفت میں نہ آنے کی وجہ سے وہ سزا نہ پا سکے۔ اگر وہ یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ یہاں چھوٹ گئے ہیں تو کبھی گرفت میں نہیں آئیں گے تو یہ ان کی بھول ہے، آخرت میں خدا جانے وہ کس طرح چھوٹیں گے اور ان کا حشر کیا ہوگا۔ لیکن ایک چیز جو گناہ کا ازالہ کرنے والی ہے وہ توبہ ہے۔ جب کوئی گنہ گار اللہ کی طرف رجوع کرکے توبہ کرتا ہے تو اس کے گناہوں پر قلم عفو پھیر دیا جاتا ہے۔ اللہ رب العزت کا اپنے گنہگار بندوں سے یا عبادی کہہ کر خطاب فرمانا انہیں یہ باور کرانے کے لئے ہے کہ اگرچہ تم بندے ہو کر مجھے بھول گئے ہو لیکن میں تمہارا رب ہو کر تمہیں نہیں بھولا تم خطاؤں اور گناہوں میں مبتلا ہو کر مجھ سے دور چلے گئے اور میرا رب ہونا تمہیں یاد نہ رہا لیکن تم چاہے کتنے ہی نافرمان اور سرکش کیوں نہ ہو جاؤ میری رحمت پھر بھی تمہیں اپنی طرف بلاتی رہتی ہے اس لئے کہ

    رحمت حق بہانہ می جوید بہا نمی جوید​

    یاد رہے کہ انسان گناہ کرتا ہے تو اس لمحے وہ اپنے رب کو بھولا ہوا ہوتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو وہ گناہ کے قریب بھی پھٹک نہیں سکتا تھا۔ اگر وہ خدا کو یاد رکھے تو گناہ کے ارتکاب کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ بندہ جس وقت گناہ کے کسی کام میں مشغول ہوتا ہے، چاہے اس کا محرک نفسانی خواہش یا لذت کی تسکین ہو یا دنیاوی آسائشوں، راحتوں اور معیار زندگی بلند کرنے کی ہوس ہو، اگر خدا کی یاد اس کے دل میں جاگزیں ہو تو اس کے لئے گناہ کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ وہ انسان کتنا نادان ہے جسے یہ بھی علم ہے کہ وہ اپنے رب کا بندہ ہے پھر بھی وہ اپنے رب کی نافرمانی پر کمر بستہ رہتا ہے اور گناہ و خطا میں محو و بدمست ہو کر اپنے رب کو بھول جاتا ہے۔ یہ بات واضح رہے کہ گناہ چاہے جس بنیاد پر بھی ہو اور گناہ کا مرتکب چاہے ڈاکہ ڈالے، چوری کرے یا کسی اور جرم کا ارتکاب کرے اس سے گناہ اس وقت تک سرزد نہیں ہوسکتا جب تک وہ اپنے رب کو نہ بھول جائے۔

    بندے اور رب کے باہمی تعلق کی نوعیت

    وہ بندہ کتنا بد نصیب ہے جو اپنے رب کو بھول جائے۔ وہ رب یا عبادی کہہ کر اپنے بندے کو گویا یہ یاد دلا رہا ہے کہ دیکھ تجھ میں اور مجھ میں یہ فرق ہے کہ تو بندہ ہو کر مجھے بھول گیا اور میں رب ہو کر (تیرے گناہوں کو تو دیکھ رہا ہوں لیکن) تجھے نہیں بھولا۔ یا عبادی کہنے میں یہ حکمت پوشیدہ ہے کہ اے میرے بندے اگر تو مجھے اپنا رب مانتا ہے تو جس طرح میں تجھے اپنا بندہ کہہ کر پکار رہا ہوں تو بھی مجھے اپنا رب کہہ کر پکار۔ اس حکمت کے پیش نظر بندہ نماز میں جب رکوع میں جاتا ہے تو ”سبحان ربی العظیم“ اور سجدے میں ”سبحان ربی الاعلیٰ“ کہہ کر اپنے رب کو یاد کرتا ہے یعنی پاک ہے تو اے میرے عظمتوں والے اور بلندیوں والے رب! یہ نہیں کہ پاک ہے رب عظیم اور پاک ہے رب اعلی اس لئے کہ اول الذکر کلمات میں جو اپنائیت کا انداز پایا جاتا ہے وہ آخر الذکر میں کہاں! واضح ہو کہ بندے کو یہ تعلیم اپنے رب سے محبت کا تعلق استوار کرنے کے لئے دی جا رہی ہے اس لئے کہ بندگی کا مزہ آہی نہیں سکتا جب تک اس کا اپنے رب سے تعلق محبت مستحکم نہ ہو جائے۔ بندگی کا حق تبھی ادا ہوسکے گا جب تعلق محبت میں پختگی آئے گے۔ نماز میں اللہ تعالیٰ یہ تصور دینا چاہتا ہے کہ اے میرے بند ے تیرا رکوع اور سجدہ اس وقت تک رکوع اور سجدہ نہیں ہوگا جب تک تو اپنے دل کی گہرائیوں سے مجھے اپنا رب کہہ کر نہ پکارے۔ اپنائیت اور محبت پرمبنی یہ تعلق استوار ہوگا تو تجھے عبادت میں لذت اور مزہ نصیب ہوگا۔ یا عبادی کہنے میں جو اسلوب خطاب اختیار کیا گیا تھا اسمیں باری تعالیٰ اپنے بندوں سے اپنائیت کا اظہار کر رہے ہیں اور اس میں یہ تلقین بھی مضمر ہے کہ اے میرے بندے تو بھی مجھے اپنا سمجھ اور جان لے کہ اگر تو مجھے اپنا سمجھے گا تو پھر کبھی تجھ سے نافرمانی اور گناہ و خطا سرزد نہیں ہوں گے۔ دیکھ اے بندے! میں تیرا تھا لیکن تو نے مجھے اپنا نہ جانا اور ادھر تو ہے میرا لیکن تو اپنے آپ کو غیر بنانے کی فکر میں مجھے سے دور رہا۔ مگر اس کے باوجود میں تجھے اپنا بناتا ہوں اور تیرے جرموں، گناہوں اور خطاؤں کے باوجود تجھے اپنا بندہ کہتا ہوں۔ اس خطاب کے ہونے کی دیر تھی کہ بندے پر گناہوں کی وجہ سے جو ماسیوں کے سیاہ بادل چھائے ہوئے تھے وہ چھٹ گئے اور فضا میں یاس و بے یقینی کی جگہ آس اور امید نے لے لی۔ اس طرح رب کی رحمت سے ایک رشتہ امید قائم ہوگیا۔ بندے کے قدم جو خوف سے لڑکھڑا رہے تھے ان میں ایک ٹھہراؤ اور جماؤ آگیا۔ جسم پر جو لرزہ طاری تھا سکون میں بدل گیا۔ جب اس کے دل کے کانوں نے یہ ندا سنی کہ مجھ جیسے گنہگار کو میرا رب اپنا بندہ کہہ کر پکار رہا ہے تو اس کے روئیں روئیں سے آواز آنے لگی کہ اے رب مجھے بتا کہ میرے لئے تیرا کیا حکم ہے؟ رب تعالیٰ نے اپنے محبوب سے کہا کہ میرے اس بندے کو اپنے قریب کر کے یہ محبت بھرا پیغام اپنی میٹھی اور شیریں آواز میں سنا دے لیکن اس سے پہلے اسے ڈھارس دے کہ ڈر اور وحشت کی ضرورت نہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ گناہوں، خطاؤں اور معصیت کوشیوں سے تو شکستہ دل اور نادم و شرمندہ ہے مگر پھر بھی میں تجھے ایک پیغام دینا چاہتا ہوں۔ رب تعالیٰ کا پیغام رحمت بندے کے کانوں میں پڑنا تھا کہ بندہ سراپا انتظار و اضطراب بن کر اس الوہی پیغام کے لیے گوش برآواز ہوگیا۔ وہ پیغام کیا تھا؟ اس کے لئے الفاظ روح میں یوں رس گھولتے ہوئے آئے کہ بندے پر وجدو مستی اور یک گونہ کیف و انبساط کی کیفیت طاری ہوگئی۔

    آواز آئی۔

    اللہ تعالی کی رحمت سے ناامید نہ ہونا۔ اے میرے بندے میرا پیغام بس یہی ہے کہ تیرے گناہ چاہے یہاڑ جتنے ہوں تجھے میری رحمت سے کسی حال میں مایوس نہیں ہونا۔ یہ جان لے کہ میری رحمت فقط نیکو کاروں، پارساؤں اور متقیوں کے لئے نہیں، گنہگاروں اور خطاکاروں کے لئے اس سے بھی زیادہ ہے۔ ذہن میں سوال پیدا ہوسکتا ہے کہ اللہ کی رحمت کے زیادہ مستحق نیکوکار اور اللہ کی اطاعت کرنے والے ہیں یا وہ گنہگار جو اللہ کی اطاعت سے منہ موڑے ہوئے طغیان و بغاوت کی راہ پر ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ گنہگار بندے نیکو کاروں سے بھی بڑھ کر رحمت خداوندی کے مستحق ہیں منطق کی رو سے اس کی مثال اس طرح ہے کہ دو اشخاص میں سے ایک صحت مند اور دوسرا مریض ہے۔ اگر کوئی پوچھے کہ ان میں طبیب کی شفقت اور توجہ کا زیادہ مستحق کون ہے؟ تو ہر صاحب عقل سلیم یہی کہے گا کہ مریض ہی زیادہ مستحق ہے۔ اس تمثیل کے پیش نظر گنہگار روحانی مریض ہے جب کہ نیکو کار روحانی طور پر تندرست ہے اور اسے اس قدر روحانی توجہ اور علاج کی ضرورت نہیں جتنی کہ روحانی مریض کو ہے۔ اس اعتبار سے مستحق رحمت نیکو کاروں سے کہیں بڑھ کر گنہگار ہیں۔ گناہ سے نفرت، گنہگار سے نہیں۔ حدیث نبوی سے ایک مثال ملتی ہے کہمسلمہ طور پر اسلام کی تعلیم یہی ہے اور یہی تصور حرز جان بنا لینا چاہئیے کہ گنہگار انسان قابل نفرت نہیں ہوتے بلکہ گناہ قابل نفرت ہے۔ اسلام نے بلاشبہ یہی تعلیم دی ہے جس کی مثال ایک حدیث پاک میں ہمیں مل جاتی ہے۔ حدیث پاک کے مطابق ایک دفعہ حضور اکرم کی بارگاہ میں قبیلہ قریش کا ایک نوجوان حاضر ہوا۔ اس وقت صحابہ کرام سراپا ادب بنے ہوئے آقائے دو جہاں کی مجلس میں بزم آراء تھے۔ وہ نوجوان جو عنفوان شباب کے عالم میں تھا یوں عرض گزار ہوا: یا رسول اللہ! میں آپ کا ہر حکم مانوں گا مگر آپ مجھے ایک گناہ کی اجازت دے دیں کہ میں یہ گناہ کئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ نبی کریم نے استفسار فرمایا کہ وہ کون سا گناہ ہے تووہ کہنے لگا کہ حضور مجھے بدکاری کی اجازت دے دیں۔ اس لئے کہ اسے چھوڑنا میرے بس کی بات نہیں۔ اس موقع پر کوئی زاہد خشک مصلح اور مبلغ محض ہوتا تو نہ جانے وہ درشتی کلام کے اس انداز سے اسے جھڑک دیتا کہ ظالم تو نے یہ کیا بات کہہ دی۔ عین ممکن تھا کہ طیش میں آ کر وہ اسے اپنی مجلس ہی سے نکال دیتا۔ لیکن مصلح اعظم اور طبیب امراض روحانی جناب سرکار دو عالم کی جبین مبارک پر ذرہ برابر بھی شکن نمودار نہ ہوئے۔ صحابہ متعجب و حیران دیکھ رہے تھے۔ حضور اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس قریشی نوجوان کو اپنے قریب کر لیا اور بڑی شفقت سے نرم لہجے میں پوچھا۔ ”اے بیٹے بتا یہ جرم جس کی تو نے مجھ سے اجازت مانگی ہے کس سے کرنے کا ارادہ ہے؟ کیا تو ایسا اپنی ماں سے کرے گا؟ اس نے عرض کیا۔ ”یا رسول اللہ ہرگز نہیں۔ کیا کوئی اپنی ماں سے بھی ایسا ارادہ کر سکتا ہے؟“ آپ نے فرمایا۔ ”ہاں! تو نے سچ کہا۔ تو پھر کیا اپنی بہن سے ایسا ارادہ ہے؟“ اس نے عرض کیا۔ ”نہیں! کیا کوئی اپنی بہن سے یہ حرکت کر سکتا ہے؟“ حضور نبی کریم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں! تو نے سچ کہا۔ پھر آپ نے چچی، پھوپھی، خالہ اور جتنے محرم رشتے ہوسکتے تھے سب گنوا دیئے اور وہ ہر ایک کے بارے میں انکار کرتا رہا۔ حضور نبی کریم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس طرح نفسیاتی طور پر اس کو یہ بات باور کرا دی کہ تو جس خاتون سے بھی بدکاری کا ارتکاب کرے گا وہ کسی نہ کسی کی ماں، بہن اور پھوپھی خالہ وغیرہ ہوگی اور اگر تجھے اس امر کی اجازت دے دی جائے تو پھر تیری سگی ماں اور بہن بھی نہیں بچ سکے گے۔ (مسند احمد بن حنبل، 5 : 256) اصل نکتہ جو حضور اکرم علیہ الصلوۃ والسلام اس نوجوان کوسمجھانا چاہتے تھے وہ اس کے دل میں اتر گیا۔ پھر حدیث پاک میں آگے بیان ہوا کہ آپ نے اپنا دست شفقت اس کے کندھے پر رکھ دیا۔ کتنا خوش نصیب تھا کہ وہ جو گناہ کی اجازت مانگنے آیا تھا مگر آقا و مولا کے کرم کا ہاتھ اس کے سر پر تھا۔ آپ نے اس کے حق میں دعا فرمائی کہ اے بارالٰہ! اس نوجوان کے گذشتہ گناہ معاف فرما دے اور اس سے آئندہ گناہ کرنے کی توفیق سلب کر لے۔ حدیث کے راوی صحابی کہتے ہیں کہ پھر زندگی بھر کے لئے اس کی ماہیت قلب اس طرح تبدیل ہوئی کہ مرتے دم تک کسی کی طرف غلط نظر اٹھی ہی نہیں۔ اسلامی تعلیمات کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ اسلام نے گناہ سے نفرت کی تعلیم دی ہے گناہ گار سے نہیں۔ مرض سے بچنے کا سبق سکھایا ہے۔ مریض سے نہیں اس لئے کہ اگر طبیب مریض سے نفرت کرنے لگے تو پھر اس کے مرض کے ازالے کا سامان کہاں سے ہوگا۔ اس طرح اگر روحانی معالج اور طبیب گنہگار کو اپنے قریب پھٹکنے نہ دے تو پھر اس کی اصلاح کرنے والا اور اسے راہ راست پر لانے والا کون ہوگا؟ حضور اکرم کی بارگاہ بے کس پناہ میں کافر اور فاسق و فاجر ہر قسم کے لوگ آتے تھے۔ آپ علیہ الصلوۃ والسلام نے کبھی کسی کو نہیں دھتکارا تھا بلکہ حضور سب کو سینے سے لگاتے۔ خود اپنے ہاتھ سے بکریوں کا دودھ دوھ کر ان کی تواضع فرماتے اور اپنی چادر مبارک ان کے نیچے بچھاتے اور کمال مہربانی و لطف سے پیش آتے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی سنت اور طریقہ ہے کہ وہ اپنے سب بندوں پر مہربان اور وہ اپنی رحمت کی خیرات بانٹتے ہوئے اچھوں اور بروں میں تمیز نہیں کرتا۔ وہ اس دنیا میں کافر اور مومن دونوں کو نوازتا ہے۔ بقول علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ

    بندہ حق از خدا گیر و طریق

    می شود بر کافر و مومن شفیق​

    یہی مردان حق کا شیوہ ہے کہ وہ کسی سے اس بنا پر نفرت نہیں کرتے وہ کافر اور گنہگار ہے، خطا کار و عصیاں کار ہے۔ صحابہ کرام کا بھی یہی وطیرہ تھا۔ حضرت علی شیر خدا نے افطاری کے وقت اپنے منہ سے لقمے نکال کرجس کے منہ میں ڈال دیئے تھے وہ ایک اسیر اور قیدی ہی تو تھا۔ ان کا ایسا کرنا اس آیہ کریمہ کا شان نزول بن گیا اور اس کی محبت پر مسکین، یتیم اور اسیر کو کھانا کھلاتے ہیں۔ (الدھر، 76 : 8) یہ مقبولان الٰہی کا خاصہ ہے کہ وہ اللہ کے بندوں سے پیار کرتے ہیں اور ان کے ایثار کا یہ عالم ہے کہ خود بھوکا رہنا گوارا کر لیتے ہیں اور اپنا کھانا اٹھا کر کبھی مسکین، کبھی یتیم اور کبھی کسی قیدی کو دے دیتے ہیں۔ حضرت سیدنا غوث اعظم اپنے ملفوظات میں ارشاد فرماتے ہیں کہ اللہ نے میرے دل میں یہ بات القاء کر دی ”اے عبدالقادر! میرے بندوں کو میرا یہ پیغام پہنچا دے کہ اللہ سبحانہ، کو نیکوکاروں کی اطاعت اور عبادت گزاری سے بڑھ کر گنہگاروں کی بندگی عزیز ہے“........ کیوں؟ آگے اس کا سبب بھی بیان فرما دیا اس لئے کہ نیکوکار لوگ جب عبادت کرتے ہیں تو ان کا دھیان ہمہ وقت میری جنت کی طرف لگا رہتا ہے اور اسی آرزو میں رہتے ہیں کہ انہیں جنت نصیب ہو مگر گنہگاروں کا دھیان میری طرف رہتا ہے اور آرزوؤں کا محور میری ذات رہتی ہے نہ کہ میری جنت۔ اللہ تعالیٰ نے کتنی راز کی بات بتائی کہ مجھے وہ لوگ عزیز تر ہیں جن کا دھیان میری بخشی ہوئی جنت کی بجائے میری طرف ہو۔ حضرت غوث اعظم آگے فرماتے ہیں کہ میرے مولا کا پیغام بندوں کے لئے یہ ہے کہ اگر وہ میرے قریب ہونا چاہتے ہیں تو تقرب الی اللہ کا صرف ایک طریقہ ہے کہ وہ ان لوگوں کے قریب رہیں جن کے دل ٹوٹ چکے ہیں اور شکستگی و حرمان نصیبی ان کا مقدر بنی ہوئی ہے۔ میں اپنے بندوں کو ان لوگوں کے درمیان ملوں گا۔ رب کریم نے اپنے کلام مجید میں بھی رضائے حق کی متلاشیوں کو یہی پیغام عطا کیا ہے۔ ارشاد ربانی ہے: بے شک اللہ کی رحمت نیکو کاروں سے قریب ہے۔ (الاعراف، 7 : 56) یہ محسنین (احسان کرنے والے) کون لوگ ہیں؟ یہ وہی تو ہیں جو اپنی ذات پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں۔ اپنی نفی کرکے دوسروں پر سب کچھ لٹا دینا ایسے ہی مردان حق کا شیوہ ہے۔ علامہ اقبال نے اس مضمون کو کہ اللہ تعالی کو دلوں کے شکستہ آئینے بہت پسند ہیں، کس خوبصورتی سے اپنے اس شعر میں باندھا ہے۔ فرماتے ہیں:

    تو بچا بچا کے نہ رکھ اسے ترا آئینہ ہے وہ آئینہ

    کہ شکستہ ہو تو عزیز تر ہے نگاہ آئینہ ساز میں​

    دل کاٹوٹنا بارگاہ ایزدی میں خستگی، شرمندگی اور ندامت کا باعث ہے۔ جب گنہ گار شکستگی کے عالم میں بادیدہ نم اپنے لرزتے ہوئے ہاتھ توبہ کے لئے خدا کی بارگاہ میں بلند کرتا ہے تو پھر قبولیت کی گھڑی لپکتی ہوئی اس بندہ گنہگار کی طرف آتی ہے۔

    اجابت از در حق بہر استقبال می آید​

    اللہ تعالی کو توبہ کرنے والے گنہگار کے اشک ندامت جتنے پسند ہیں اتنے لاکھوں عبادت گزاروں اور زاہدان شب بیدار کے سجدے اوراطاعت گزاروں کی اطاعت بھی پسند نہیں۔ اس لئے کہ ان کی عبادت میں ریا اور دکھلاوا ہوسکتا ہے مگر دل شکستہ عاصیوں اور گنہگاروں کے ندامت بھرے آنسوؤں میں ریا کہاں؟ وہ آنسو تو اخلاص کے آنسو ہوتے ہیں۔ حضور اکرم نبی مکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منسوب ایک حدیث قدسی میں اللہ جل مجدہ کا یہ ارشاد بیان کیا گیا ہے۔ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اگر روئ
     
  2. ع س ق
    آف لائن

    ع س ق ممبر

    شمولیت:
    ‏18 مئی 2006
    پیغامات:
    1,333
    موصول پسندیدگیاں:
    25
    ماشاء اللہ، آپ کا شائع کردہ مضمون نیکی، گناہ اور معافی کے تصور کو خوب واضح کرتا ہے۔

    گناہ سے نفرت کرو، گناہگار سے نہیں
     
  3. سموکر
    آف لائن

    سموکر ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مئی 2006
    پیغامات:
    859
    موصول پسندیدگیاں:
    8
    بہت خوب علامہ صاحب کی تحریر پڑھ کر ایمان تازہ ہوگیا
     
  4. ہما
    آف لائن

    ہما مشیر

    شمولیت:
    ‏13 مئی 2006
    پیغامات:
    251
    موصول پسندیدگیاں:
    5
    جزاک اللہ
     
  5. نادیہ خان
    آف لائن

    نادیہ خان ممبر

    شمولیت:
    ‏26 جون 2006
    پیغامات:
    827
    موصول پسندیدگیاں:
    9
    کیا یہ وہی طاہرالقادری صاحب ہیں جو کبھی کبھی ٹی وی پر خطاب کرتے ہیں
     
  6. سموکر
    آف لائن

    سموکر ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مئی 2006
    پیغامات:
    859
    موصول پسندیدگیاں:
    8
    بہترین اصلاحی مضمون پوسٹ کرنے پر آپ کا شکریہ
     
  7. پومی کیوپڈ
    آف لائن

    پومی کیوپڈ ممبر

    شمولیت:
    ‏26 اگست 2006
    پیغامات:
    77
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    تحریر

    ماشاء اللہ تحریر اچھی ہے
    لیکن
    اتنا لمبا مضمون
    :shock:​
     
  8. عقرب
    آف لائن

    عقرب ممبر

    شمولیت:
    ‏14 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    3,201
    موصول پسندیدگیاں:
    200
    پومی کیوپڈ نے لکھا ہے :
    یہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کا خاصہ ہے کہ وہ جس موضوع پر بولتے یا لکھتے ہیں تو اسکی جملہ جزئیات و تفصیلات کا احاطہ کرتے ہیں اور کوئی پہلو تشنہ نہیں رہنے دیتے۔ بالعموم ہماری بد قسمتی کہ دنیاوی قصے کہانیاں، فسانے، لطیفے پڑھنے اور نیٹ سرفنگ کے لیے ہمارے پاس گھنٹوں تو کیا بعض اوقات ہفتوں، مہینوں ہوتے ہیں لیکن اسلامی تعلیمات کو پڑھنے سننے کے لیے 15-20 منٹ نکالنا ہمیں گراں گذرتا ہے۔
     
  9. دن رات
    آف لائن

    دن رات ممبر

    شمولیت:
    ‏11 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    65
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    جزاک اللہ ۔ اللہ آپ کو اس کا اجر دے آمین
     
  10. نوید
    آف لائن

    نوید ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مئی 2006
    پیغامات:
    969
    موصول پسندیدگیاں:
    44
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

    جی ہاں‌یہ وہی ہیں‌۔۔۔

    خوش رہیں
     
  11. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    تمام دوستوں سے التماس ہے کہ اپنی دعاؤں میں ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کو ضرور شامل کر لیا کریں ۔ کہ اللہ تعالیٰ ان کو صحت و تندرستی اور عمر درازعطا کرے ۔ آمین
    کیونکہ اس وقت دنیائے اسلام میں شاید ہی کسی اور اسلامک سکالرکی خدماتِ دین اس طرح، بھرپور، جامع، مدلل، مفصل، جدید بنیادوں پر اور خلوص و ایثار کے جذبے پر مبنی ہوں گی۔ جیسا کہ ڈاکٹر صاحب کی ہیں۔
     
  12. نادیہ خان
    آف لائن

    نادیہ خان ممبر

    شمولیت:
    ‏26 جون 2006
    پیغامات:
    827
    موصول پسندیدگیاں:
    9
    اللہ طاہرالقادری صاحب کو صحت و تندرستی عطا کرے

    اور ہمیں ان کی بتائی ہوئی باتوں کو سمجھنے اور ان پر عمل کرنے کی توفیق دے
     
  13. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    آمین ثم آمین
     
  14. شامی
    آف لائن

    شامی ممبر

    شمولیت:
    ‏25 اگست 2006
    پیغامات:
    562
    موصول پسندیدگیاں:
    1
  15. اقرا ناز
    آف لائن

    اقرا ناز ممبر

    شمولیت:
    ‏31 اگست 2009
    پیغامات:
    147
    موصول پسندیدگیاں:
    6
    جواب: جرم، توبہ اور اصلاح احوال

    جزاک اللہ خیرکم
     

اس صفحے کو مشتہر کریں