1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔
  2. اس صیغے میں اسلامی کتب لگائی جاتی ہیں۔ انتظامیہ کسی بھی مکتبہ فکر پر پابندی نہیں لگاتی ہے اس لیے صارفین کتب پر نقظہ اعتراض اٹھانے کے بجائے اپنی صوابدید کے مطابق کتب سے استفادہ کریں۔یہاں لگائی گئی کتب کسی بھی طرح انتظامیہ کا مذہبی رجحان یا مکتبہ فکر ظاہر نہیں کرتی۔

کتاب التوحید ( نور توحید )

'اسلامی کتب' میں موضوعات آغاز کردہ از ساتواں انسان, ‏17 فروری 2021۔

  1. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    باب کی تشریح
    ( سورۃ فاطر ، 13 + 14 ) میں اللہ تعالی نے فرمایا کہ یہ لوگ اللہ تعالی کو چھوڑ کر جن ملائکہ ، انبیا ، رسل اور فوت شدہ صالحین یا جنات کو پکارتے ہیں ، ان میں سے کوئی بھی ایک پرکاہ ( کھجور کی گٹھلی کے چھلکے ) تک کا بھی مالک نہیں تو یہ لوگ انھیں کیوں پکارتے اور ان سے حاجات کیوں طلب کرتے ہیں ؟ انھیں چاہئے کہ اپنے تمام امور میں صرف اسی کو پکاریں جو ان تمام امور کا مالک اور تصرف کرنے والا ہے ۔
    ( صحیح مسلم ، 1791 ) ( سنن نسائی ، 1078 ) ( صحیح بخاری ، 4070 ) ان احادیث سے واضح طور پر یہ ثابت ہوتا ہے کہ نبی کریم ( ص ) اللہ کی بادشاہت میں سے کچھ بھی اختیار نہیں رکھتے تھے اور آپ نے اس بات کی تبلیغ کی اور صاف صاف بیان بھی کردیا تو پھر آپ کے علاوہ اور کون ہو سکتا ہے جسے یہ اختیار حاصل ہو ؟ چنانچہ ملائکہ ، انبیا اور اولیا و صالحین سے تو بالاولی اس بات کی نفی ہوگئی ۔ لہذا غیر اللہ کی طرف رجوع کرنے کی تمام تر صورتیں باطل ہیں اور یہ ضروری ہے کہ عبادت اور عبادت کی تمام انواع یعنی دعا ، استغاثہ فریاد ، استعاذہ ( پناہ مانگنا ) ، ذبح اور نذر کا سزاوار صرف اور صرف ایک اللہ کو ٹھہرایا جائے ، اس کے علاوہ کسی کو نہیں ۔
    ( صحیح بخاری ، 2753 ) یہ حدیث اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ نبی کریم ( ص ) اپنے قریبی رشتہ داروں کو بھی کچھ نفع نہیں دے سکتے تھے ۔ ہاں اللہ کا پیغام انہیں ضرور پہنچایا اور اللہ کی طرف سے سونپی گئی عظیم امانت رسالت و نبوت کا حق ادا کیا ۔ رہی بات اللہ کے عذاب ، سزا اور عقوبت سے بچانے کی تو یاد رہے کہ اللہ نے اپنی مخلوق میں سے کسی کو اپنی بادشاہت میں کچھ اختیار نہیں دیا ۔ وہ سلطنت و قدرت میں تنہا اور کمال ، جمال اور جلال میں یکتا ہے ۔
     
  2. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    اس باب میں مندرجہ ذیل مسائل ہیں
    1 ۔ ( سورۃ الأعراف ، 191 + 192 ) اور ( سورۃ فاطر ، 13 + 14 ) ان آیات کی تفسیر
    2 ۔ غزوہ احد کا مختصرسا تذکرہ ہے ۔
    3 ۔ سید المرسلین ( ص ) کا نماز میں قنوت نازلہ پڑھنا اور آپ کے پیچھے صحابہ کرام ( رض ) آمین کہا کرتے تھے ۔
    4 ۔ جن پر بد دعا کی جا رہی تھی وہ بلاشبہ کافر تھے ۔
    5 ۔ ان کفار نے نبی کریم ( ص ) کے ساتھ ایسی بدسلوکی کی تھی اور آپ کو ایسی ایذائیں دی تھیں کہ دیگر کفار نے ایسا نہ کیا تھا ۔ مثلا نبی کریم ( ص ) کو زخمی کرنا ، آپ کے قتل کے درپے ہونا اور مسلمان شہداء کا مثلہ کرنا ، حالانکہ وہ شہداء ان کفار کے عم زاد اور رشتہ دار بھی تھے ۔
    6 ۔ نبی کریم ( ص ) کے بد دعا کرنے پر یہ آیت نازل ہوئی " " فیصلہ کے اختیارات میں تمہارا کوئی حصہ نہیں "
    7 ۔ بلکہ اللہ تعالی نے یہ بھی فرمایا کہ " اللہ کو اختیار ہے چاہے انہیں معاف کرے ، چاہے سزا دے " چنانچہ پھر اللہ تعالی نے انھیں معاف کردیا اور وہ ایمان لے آئے ۔
    8 ۔ نزول حوادث کے موقع پر قنوت نازلہ پڑھنے کا ثبوت بھی ملتا ہے ۔
    9 ۔ نماز میں جن لوگوں پر بد دعا کی جائے ان کا اور ان کے آبا و اجداد کا نام بھی لیا جاسکتا ہے ۔
    10 ۔ قنوت نازلہ میں کسی مخصوص آدمی کا نام لے کر اس پر لعنت کرنا جائز ہے ۔
    11 ۔ ( سورۃ الشعراء ، 214 ) کے نزول کا قصہ ۔
    12 ۔ نبی کریم ( ص ) کے اس دعوت میں سنجیدہ محنت کی وجہ سے آپ ( ص ) کو مجنون کہا گیا ۔ اسی طرح آج بھی اگر کوئی توحید کی دعوت دے تو اسے بھی اسی قسم کی باتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔
    13 ۔ نبی کریم ( ص ) نے اپنے قریبی اور دور کے رشتہ داروں سے یہ فرمایا : " اللہ تعالی کے ہاں میں تمہارے کسی کام نہ آؤں گا " حتی کہ آپ ( ص ) سید المرسلین ہونے کے باوجود اپنی لخت جگر اور سیدہ نسا العالمین سے فرما رہے ہیں کہ " اے فاطمہ بنت محمد ! میرے مال میں سے جو چاہے مانگ لے لیکن اللہ تعالی کے ہاں تیرے کام نہ آؤں گا " ۔ جب آپ جنتی خواتین کی سردار کے کچھ کام نہیں آسکتے تو اور ہمارا یہ بھی ایمان ہے کہ نبی کریم ( ص ) کی زبان مبارک سے سوائے حق کے کچھ نہیں نکلتا ۔ ان صراحتوں کی روشنی میں آج کل کے حالات پر غور کیا جائے کہ اس غلط فہمی میں عوام ہی نہیں بلکہ خواص بھی مبتلا ہیں ، تو توحید کی حقیقت منکشف ہو جاتی ہے اور یہ بھی عیاں ہو جاتا ہے کہ آج کل لوگ دین سے کس قدر دور ہیں ۔
     
  3. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    باب کا خلاصہ
    سورۃ الأعراف کی آیت 191 اور 192 سے توحید کے دلائل و براہین کے بیان کا آغاز ہوتا ہے ۔ اللہ تعالی کی توحید کے اتنے زیادہ عقلی اور نقلی دلائل ہیں کہ اتنے دلائل کسی دوسری چیز کے نہیں ہیں ۔ اس سے پہلے گزر چکا کہ دونوں اقسام کی توحید یعنی توحید ربوبیت اور توحید اسماء و صفات اس کے بڑے عظیم الشان اور وسیع ترین دلائل میں سے ہیں ۔ پس وہ ذات جو پیدا کرنے میں ، تدبیر کرنے میں اکیلی ہے وہ ہر لحاظ سے تمام صفات میں کمال مطلق رکھتی ہے اس کے علاوہ کوئی دوسرا عبادت کا مستحق ہرگز نہیں ہوسکتا ۔ ایسے ہی توحید کے دلائل میں سے یہ بھی ہے کہ ان مخلوقات کے اوصاف کی معرفت حاصل کی جائے جن کی بندگی اللہ تعالی کے ساتھ ساتھ کی جاتی ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالی کے علاوہ بنائے گئے تمام معبود خواہ وہ فرشتے ہوں یا بشر ، شجر ہوں یا حجر وہ تمام کے تمام اللہ کی بارگاہ کے محتاج اور نیاز مند ہیں ۔ سب ہی عاجز ہیں وہ کسی کو رائی کے دانے برابر بھی نفع دینے کے مالک نہیں اور نہ ہی کسی چیز کو پیدا کرسکتے ہیں بلکہ وہ خود مخلوق ہیں کسی نفع و نقصان کے مالک نہیں اور نہ ہی زندگی اور موت یا دوبارہ اٹھائے جانے پر کوئی اختیار رکھتے ہیں ۔ صرف اللہ ہی تمام تر مخلوق کے خالق حقیقی ہیں ۔ وہی ہر چیز کو روزی دیتے ہیں اور تمام امور کی تدبیر کرتے ہیں ۔ وہی نفع و نقصان دیتے ہیں وہی عطیات سے نوازتے ہیں ۔ ان کے ہاتھ میں ہر ایک چیز کی بادشاہی ہے ۔ اور ہر چیز نے ان ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے ۔ ہر ایک چیز اسی کا قصد کرتی ہے اور اس کے سامنے سرنگوں ہوتی ہے ۔ اس سے بڑی دلیل اور کیا ہوسکتی ہے جو اللہ تعالی نے کئی بار اپنی کتاب میں بیان کی ہے اور اسے کھول کر واضح کیا ہے ۔ اور اپنے رسول کریم ( ص ) کے ذریعہ سے بھی اسے بیان کیا ہے ۔ یہ عقلی اور فطرتی دلیل ہے ۔ ایسے اس دلیل کا شمار سمعی اور عقلی دلائل میں بھی ہوتا ہے جو اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ اللہ تعالی کی توحید بجا لانا واجب ہے اور بیشک حق ذات صرف اللہ تعالی ہی ہے اور یہ کہ بلاشک و شبہ شرک کرنا ایک باطل عمل ہے ۔
    جب علی الاطلاق مخلوق میں سب سے زیادہ بزرگ اورمحترم ہستی بھی اپنی سب سے قریبی مخلوق اور صلہ رحمی کے سب سے زیادہ مستحق لوگوں کے لیے بھی کسی نفع و نقصان کا اختیار نہیں رکھتی تو پھر کسی دوسرے سے یہ امید کیسے کی جاسکتی ہے ۔ پس ہلاکت ہو اس انسان کے لیے جو اللہ تعالی کے ساتھ شریک ٹھہراتا ہے اور مخلوق میں سے کسی ایک کو اللہ تعالی کے برابر قرار دیتا ہے ۔ یقینا اس کے دین کے سلب ہونے کے بعد اس کی عقل بھی سلب ہو چکی ہے ۔ پس اللہ کی تعریفات اور اس کی عظمت کی صفات اور کمال مطلق میں اس کی وحدانیت و انفرادیت اس بات کی سب سے بڑی دلیل ہے کہ اللہ تعالی کے سوا کوئی دوسرا عبادت کا مستحق ہرگز نہیں ہوسکتا ۔ ایسے ہی مخلوق کی تمام تر صفات اور ان کی ماہیت و کیفیت میں کمی اور نقص پایا جاتا ہے اور وہ مخلوقات اپنے تمام تر امور میں اللہ کی بارگاہ کی محتاج اور فقیر ہیں ۔ انہیں کسی بھی چیز میں کمال حاصل نہیں سوائے اتنے کمال کے جو اللہ تعالی نے انہیں عطا کیا ہے ۔ یہ اس بات کی سب سے بڑی دلیل ہے کہ ان میں سے کوئی ایک چیز بھی معبود نہیں ہوسکتی ۔ پس جو کوئی حقیقی معنوں میں اللہ تعالی اور مخلوق کی معرفت حاصل کر لیتا ہے تو اسے اس کا یہ علم اور معرفت مجبور کرتے ہیں کہ وہ صرف ایک اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت بجا لائے اور دین کو صرف اس کے لیے خاص کرتے ہوئے اس کی حمد و ثناء سے زبان کو تر رکھے ۔ اور اپنے دل و اعضاء سے بھی اس کی شکر گزاری کرے کہ اس اللہ تعالی نے خوف و امید ، محبت اور طمع ہر اعتبار سے اس کا تعلق مخلوق سے موڑ کر اپنے ساتھ وابستہ کر لیا ہے ۔
     
  4. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    ( 16 ) ۔ ۔ ۔ ارشاد باری تعالی " حَتّــٰٓى اِذَا فُزِّعَ ۔ ۔ ۔ " کا بیان
    { فرشتوں پر اللہ کی وحی کا خوف }
    اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے
    ۔ ۔ ۔ حَتّٰۤى اِذَا فُزِّعَ عَنْ قُلُوْبِهِمْ قَالُوْا مَاذَا ۙ قَالَ رَبُّكُمْ ۗ قَالُوا الْحَـقَّ ۚ وَهُوَ الْعَلِىُّ الْكَبِيْرُ ( سورۃ سباء ، 23 )
    ” حتی کہ جب لوگوں کے دلوں سے گھبراہٹ دور ہو گی تو وہ پوچھیں گے کہ تمہارے رب نے کیا جواب دیا وہ کہیں گے کہ ٹھیک جواب ملا ہے اور وہ بزرگ و برتر ہے “
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    حدیث میں آتا ہے
    ابو ہریرہ ( رض ) سے روایت ہے ، نبی کریم ( ص ) نے فرمایا : " جب اللہ تعالی آسمان میں کسی معاملے کا فیصلہ فرماتا ہے تو فرشتے اللہ تعالی کے فرمان کے سامنے جھکاؤ کے لیے عاجزی کے طور پر اپنے پروں کو اس طرح مارتے ہیں گویا صاف پتھر پر لوہے کی زنجیر کھینچی جا رہی ہو ۔ پھر جب ان کے دلوں سے گھبراہٹ دور ہوتی ہے تو ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں : تمہارے رب نے کیا فرمایا ہے ؟ جو کچھ اللہ نے فرمایا ہوتا ہے اس کے متعلق کہتے ہیں کہ وہ بالکل برحق ہے اور وہی سب سے بلند و برتر ہے ، تو سنی ہوئی بات چوری کرنے والے شیاطین بھی اسے سن لیتے ہیں ۔ اور چوری کرنے والے شیاطین اس طرح ایک دوسرے کے اوپر چڑھے ہوتے ہیں ۔۔ سفیان نے اپنی ہتھیلی سے اس کی کیفیت بیان فرمائی : ہتھیلی کو ایک طرف کیا اور انگلیوں کے درمیان فرق کیا ۔۔ بہرحال وہ اس کلمہ حق کو سن کر اپنے نیچے والے تک پہنچاتا ہے اور وہ دوسرا اپنے نیچے والے تک پہنچاتا ہے یہاں تک کہ وہ کسی جادوگر یا نجومی کے کان میں ڈالتا ہے، پھر کبھی تو اس کے پہنچانے سے پہلے ہی شہاب ثاقب اسے پا لیتا ہے اور کبھی اس کے پانے سے پہلے وہ کلمہ پہنچا لیتا ہے ، پھر وہ ساحر یا نجومی اس کے ساتھ سو جھوٹ ملا لیتا ہے ، چنانچہ کہا جاتا ہے : کیا فلاں دن اس نے ہمیں اس اس طرح نہیں کہا تھا ؟ تو وہ کلمہ جو آسمان سے سنا گیا تھا اس کی وجہ سے اس کے جھوٹ کو بھی سچا سمجھا جاتا ہے ۔ " ( صحیح بخاری ، 4800 )
    نواس بن سمعان ( رض ) سے روایت ہے ، رسول اللہ ( ص ) نے فرمایا : " اللہ تعالی جب کسی بات کی وحی کا ارادہ فرماتے ہیں اور اس وحی کا تکلم فرماتے ہیں تو اس کے خوف سے تمام آسمانوں پر دہشت اور کپکپی طاری ہو جاتی ہے ۔ جب آسمان والے اس آواز کو سنتے ہیں تو بے ہوش ہو کر سجدے میں گر پڑتے ہیں ۔ سب سے پہلے جبریل ( ع ) سراٹھاتے ہیں ۔ اللہ تعالی اپنی وحی میں سے جو چاہتے ہیں ان سے کلام فرماتے ہیں ۔ پھر جبریل ( ع ) ملائکہ کے پاس سے گزرتے ہیں ۔ جب بھی کسی آسمان سے ان کا گزر ہوتا ہے تو اس آسمان کے فرشتے ان سے پوچھتے ہیں : اے جبریل ! ہمارے رب نے کیا فرمایا ہے ؟ تو جبریل ( ع ) کہتے ہیں : اس نے حق فرمایا ۔ وہ عالی مقام اور بزرگ و برتر ہے ۔ پھر تمام فرشتے یہی بات دہراتے ہیں ۔ پھر جبریل ( ع ) اس وحی کو جہاں اللہ عزوجل کا حکم ہوتا ہے، وہاں پہنچا دیتے ہیں ۔ " ( ابن ابی حاتم بحوالہ تفسیر ابن کثیر )
     
  5. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    باب کی تشریح
    جب اللہ تعالی آسمان پر کوئی فیصلہ صادر فرماتے ہیں تو فرشتے حکم برداری میں یوں اپنے پر مارتے ہیں گویا صاف پتھر پر نرم زنجیر ٹکرانے کی جھنکار ہو اور وہ فرمان ان فرشتوں تک پہنچ جاتا ہے ۔ حتی کہ جب ان کے دلوں سے گھبراہٹ دور ہوتی ہے تو وہ ایک دوسرے سے کہتے ہیں : تمہارے رب نے کیا فرمایا ؟ تو اللہ تعالی کے مقرب فرشتے کہتے ہیں کہ اس نے جو کہا وہ برحق ہے ۔ اور وہ عالی مقام اوربزرگ و برتر ہے ۔ اللہ تعالی کی اس بات کو شیاطین چوری چھپے سننے کی کوشش کرتے ہیں ۔ شیاطین ایک دوسرے کے اوپر یوں سوار ہوجاتے ہیں ۔ سب سے اوپر والا شیطان جب کوئی بات سن لیتا ہے تو وہ اپنے سے نیچے والے کو بتا دیتا ہے اور وہ آگے اپنے سے نیچے والے کو ۔ حتی کہ آخری سب سے نیچے والا شیطان وہ بات ساحر یا کاہن کو بتا دیتا ہے ۔ کبھی تو کاہن تک وہ بات پہنچنے سے قبل ہی شعلہ یعنی شہاب ثاقب اس شیطان کو جلا دیتا ہے اور کبھی شعلے کے آنے تک شیطان اسے بات بتا چکا ہوتا ہے اور کاہن شیطان کی طرف سے سنی ہوئی بات کے ساتھ سو جھوٹ ملا دیتا ہے ۔ اگر کوئی بات اس کی بتائی ہوئی بات کے مطابق ہوجائے تو لوگ کہتے ہیں کہ کیا فلاں روز فلاں ساحر یا کاہن نے ایسے ہی نہیں کہا تھا ؟ چنانچہ اس کی صرف اس ایک بات کے سچے ہونے سے اس کا ہن یا ساحر کو سچا سمجھ لیا جاتا ہے جو اس نے آسمان سے سنی ہوتی ہے ۔
    پتہ چلا کہ اگر کسی کی باتوں میں ایک آدھ بات سچی اور صحیح ہو تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ اس کی سب کی سب باتیں سچی ہوں گی ۔ کیونکہ گمراہ اور بدعتی لوگوں کا شیوہ ہی یہ ہوتا ہے کہ ایک بات صحیح اور اس کے ساتھ کئی جھوٹی ، غلط اور بےبنیاد باتیں ملا کر عوام کو دھوکے اور فریب میں مبتلا کر دیتے ہیں ۔ یہ لوگ صحیح بات صرف اس لئے کہتے ہیں کہ سادہ لوح عوام ان کی جھوٹی باتوں کے فریب میں پھنس جائیں ۔
    صحابہ کرام ( رض ) ایک رات رسول اللہ ( ص ) کے ہمراہ بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک ایک ستارہ ٹوٹا جس کی وجہ سے ماحول روشن ہوگیا ۔ رسول اللہ ( ص ) نے صحابہ کرام ( رض ) سے پوچھا : " دور جاہلیت میں جب ستارہ ٹوٹتا تھا تو تم کیا خیال کرتے تھے ؟ " انھوں نے عرض کی : ویسے تو اللہ اور اس کے رسول ہی بہتر جانتے ہیں لیکن ہمارے خیال کے مطابق جس رات کوئی بڑا آدمی پیدا ہوتا یا مرجاتا تو یہ کیفیت پیدا ہوتی تھی ۔ رسول اللہ ( ص ) نے فرمایا : " ایسا نہیں ہے کہ کسی کی موت وحیات کی وجہ سے ستارہ ٹوٹتا ہو ، بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارا مالک جل جلالہ جب کچھ حکم دیتا ہے تو عرش کے اٹھانے والے فرشتے تسبیح کرتے ہیں پھر ان کی آواز سن کر ان کے پاس والے آسمان کے فرشتے تسبیح کہتے ہیں یہاں تک تسبیح کی نوبت دنیا کے آسمان والوں تک پہنچتی ہے پھر جو لوگ عرش اٹھانے والے فرشتوں سے قریب ہیں وہ ان سے پوچھتے ہیں کہ کیا حکم دیا تمہارے مالک نے ، وہ بیان کرتے ہیں ۔ اسی طرح آسمان والے ایک دوسرے سے بیان کرتے ہیں یہاں تک کہ وہ خبر اس دنیا کے آسمان والوں تک آتی ہے ان سے وہ خبر جن اڑا لیتے ہیں اور اپنے دوستوں کو آ کر سناتے ہیں ۔ فرشتے جب ان جنوں کو دیکھتے ہیں تو ان تاروں سے مارتے ہیں پھر جو خبر جن لاتے ہیں اگر اتنی ہی کہیں تو سچ ہے لیکن وہ جھوٹ ملاتے ہیں اس میں اور زیادہ کرتے ہیں ۔ ( صحیح مسلم ، 5819 )
    بہرحال ( سورۃ سباء ، 23 ) آیت کو مکمل پڑھا جائے تو اس کے سیاق وسباق سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت شفاعت کے سلسلے میں ہے ۔ ارشاد باری تعالی ہے : " اور اللہ کے حضور کوئی شفاعت بھی کسی کے لیے نافع نہیں ہو سکتی بجز اس شخص کے جس کے لیے اللہ نے سفارش کی اجازت دی ہو حتی کہ جب لوگوں کے دلوں سے گھبراہٹ دور ہو گی تو وہ پوچھیں گے کہ تمہارے رب نے کیا جواب دیا وہ کہیں گے کہ ٹھیک جواب ملا ہے اور وہ بزرگ و برتر ہے "
    سفارش اللہ کی بارگاہ میں اتنی عالی مرتبہ اور بڑی چیز ہے کہ وہاں اللہ کی اجازت کے بغیر نہ مقرب فرشتوں کو دم مارنے کی ہمت ہوتی ہے اور نہ کسی اوربڑی شخصیت ہی کو ۔ وہاں تو یہ عالم ہے کہ فرشتے اللہ کا حکم سن کر بے ہوش ہوجاتے ہیں ۔ واللہ اعلم
     
  6. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    اس باب میں مندرجہ ذیل مسائل ہیں
    1 ۔ اس تفصیل سے سورۃ سباء کی آیت کی تفسیر معلوم ہوئی ۔
    2 ۔ اس میں ابطال شرک کی دلیل ہے بالخصوص ایسے شرک کی جس کا تعلق صالحین امت سے ہے ۔ اس آیت کے متعلق کہا گیا ہے کہ یہ وہ آیت ہے جس پر غور کرنے اور سمجھنے سے انسان کے دل سے ہر قسم کے شرک کی جڑ کٹ جاتی ہے ۔
    3 ۔ اللہ تعالی کے فرمان " قَالُوا الْحَقَّ وَ ھُوَ الْعَلِیُّ الْکَبِیْرُ " کی تفسیر بھی معلوم ہوئی ۔
    4 ۔ فرشتوں کے سوال کی وجہ اور سبب بھی مذکور ہے ۔
    5 ۔ فرشتوں کے سوال پر جبریل ( ع ) انہیں جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اللہ تعالی نے یہ فرمایا ہے ۔
    6 ۔ جب سب فرشتے بے ہوش ہو جاتے ہیں تو سب سے پہلے جبریل ( ع ) سر اٹھاتے ہیں ۔
    7 ۔ چونکہ ہر آسمان کے فرشتے جبریل ( ع ) سے سوال کرتے ہیں ، اس لیے وہ سب کو جواب دیتے ہیں ۔
    8 ۔ یہ بے ہوشی اور غشی تمام آسمانوں کے فرشتوں پر طاری ہوتی ہے ۔
    9 ۔ اللہ تعالی کے کلام سے آسمان لرز جاتے ہیں ۔
    10 ۔ اللہ تعالی کے حکم سے جبریل ( ع ) ہی اللہ تعالی کی وحی کو منزل مقصود پر پہنچاتے ہیں ۔
    11 ۔ شیاطین چوری چھپے اللہ تعالی کے کلام کو سننے کی کوشش کرتے ہیں ۔
    12 ۔ اور اس مقصد کے لیے وہ ایک دوسرے پر سوار ہو جاتے ہیں ۔
    13 ۔ ان شیاطین پر شہاب ثاقب مارے جانے کا ذکر
    14 ۔ بعض اوقات کاہن تک بات پہنچنے سے قبل ہی شہاب ثاقب اس شیطان کو جلاکر خاکستر کر دیتا ہے اور کبھی شہاب کے آنے سے پہلے ہی یہ شیطان اپنے انسانی دوست کاہن، نجومی کووہ بات بتا چکا ہوتا ہے ۔
    15 ۔ بعض اوقات کاہن کی بتائی ہوئی ایک آدھ بات صحیح ثابت ہوجاتی ہے ۔
    16 ۔ اوریہ کہ کاہن اس ایک صحیح بات کے ساتھ سو جھوٹ ملا دیتا ہے ۔
    17 ۔ لوگ کاہن کی جھوٹی باتوں کو محض اس لیے درست مان لیتے ہیں کہ اس کی ایک بات تو صحیح تھی حالانکہ وہ بات آسمان سے سنی گئی ہوتی ہے ۔
    18 ۔ نفوس انسانی باطل کو بہت جلد قبول کر لیتے ہیں ۔ دیکھئے ! وہ کاہن کی صرف اس ایک بات کو مد نظر رکھتے ہیں اور اس کی ایک سو غلط باتوں کی طرف نہیں دیکھتے ۔
    19 ۔ شیاطین اس ایک بات کو ایک دوسرے سے حاصل کر کے یاد کرلیتے ہیں اور اس سے باقی جھوٹوں کے صحیح ہونے پر استدلال کرتے ہیں ۔
    20 ۔ اس آیت سے اللہ تعالی کی صفات کا بھی اثبات ہوتا ہے ۔ جبکہ اشاعرہ اور معطلہ ان صفات کے منکر ہیں ۔
    21 ۔ یہ وضاحت کہ آسمانوں پر طاری ہونے والی دہشت اور کپکپی اللہ تعالی کے خوف سے ہوتی ہے ۔
    22 ۔ فرشتے اللہ تعالی کی عظمت کے حضور سجدہ ریز ہوتے ہیں ۔
     
  7. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    باب کا خلاصہ
    توحید کے وجوب اور شرک کے بطلان پر یہ ایک دوسری عظیم الشان دلیل ہے ۔ اس باب میں وہ دلائل ذکر کئے گئے ہیں جو اللہ رب العزت کی عظمت اور کبریائی پر دلالت کرتے ہیں جس کے سامنے تمام عظیم تر مخلوقات کی عظمتیں بھی مدہم چھوٹی اور کمزور پڑ جاتی ہیں ۔ جس کے سامنے فرشتے عالم بالا اور عالم اسفل کی مخلوقات سرنگوں ہوجاتے ہیں اور جب وہ اللہ کا کلام سنتے ہیں تو ان کے دل پھٹے جاتے ہیں ۔ انہیں قرار نصیب نہیں ہوتا ۔ اوران پر اللہ تعالی کی عظمت اور بزرگی کا ایک معمولی حصہ تجلی پذیر ہوتا ہے ۔ بیشک تمام کی تمام مخلوقات اللہ تعالی کے جلال کے سامنے سر تسلیم خم کئے ہوئے ہیں اوراس کی عظمت و جلال کی معترف ہیں اور اس سے لرزاں و ترساں ہیں ۔ پس جس کی یہ شان ہو وہ وہ رب ہے جس کے علاوہ کوئی دوسرا عبادت حمد و ثناء شکر اور تعظیم کا اور معبود بنائے جانے کا مستحق نہیں ہوسکتا ۔ اس کے سوا جو بھی ہیں انہیں یہ حق حاصل نہیں ۔ جیسے کمال مطلق کبریائی اور عظمت جمال وجلال کی تعریفات مطلق طور پر ساری کی ساری صرف اور صرف اللہ تعالی کے لیے ہیں ۔ یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ کسی دوسرے میں یہ صفات پائی جائیں ۔ ایسے ہی ظاہری او رباطنی عبودیت صرف اورصرف اللہ تعالی کا خاص حق ہے جس میں کسی بھی طرح کوئی دوسرا اللہ تعالی کا شریک نہیں ہے ۔
    اس باب میں جس آیت اور احادیث نبویہ ( ص ) کا ذکر کیا گیا ہے ، یہ کلمہ لَا اِلٰہ اِلَّا اللہ کی وضاحت اور توضیح کرتی ہیں ۔ اللہ تعالی وہ عظیم بادشاہ ہیں جس کے کلام کو سن کر فرشتے خوف و دہشت سے غش کھا کر گر پڑتے ہیں اور تمام مخلوقات اس سے گھبراتی اور کانپتی ہیں اور وہ ذات اقدس ہے جو اپنی صفات ، اپنے علم ، اپنی قدرت ، اپنی بادشاہت ، اپنی عظمت و شرف اور بے نیازی میں تمام مخلوقات سے کامل و اکمل ہے اور ساری کائنات اس کی محتاج ہے اور اس کے فیصلے ، اس کا تصرف اور اس کی تقدیر مخلوقات میں نافذ اور جاری و ساری ہیں کیونکہ وہ علیم و حکیم ہے ۔ پس ایسی باکمال ذات کبریا کے ساتھ کسی کو اس کی عبادت میں شریک ٹھہرانا شرعا یا عقلا کسی لحاظ سے بھی درست نہیں ۔ جو خود پرورش یافتہ ہو ، اسے پرورش کنندہ کیسے تسلیم کیا جا سکتا ہے ؟ اور جو خود عابد ہو، اسے معبود کیونکر مانا جا سکتا ہے ؟ ان کی عقلیں کہاں چلی گئی ہیں اور ان کی قوت فہم کیوں سلب ہو گئی ہے ؟ تعجب ہے کہ یہ موٹی موٹی باتیں ان کی سمجھ میں نہیں آتیں ؟ سبحان اﷲ عما یشرکون ۔ اللہ تعالی تو صاف اور کھلے الفاظ میں فرماتے ہیں : " زمین اور آسمان کے اندر جو بھی ہیں سب اس کے حضور بندوں کی حیثیت سے پیش ہونے والے ہیں 0 سب پر وہ محیط ہے اور اس نے ان کو شمار کر رکھا ہے 0 سب قیامت کے روز فردا فردا اس کے سامنے حاضر ہوں گے " ( سورۃ مریم ، 93 تا 95 )
    پس بلا استثناء جب تمام کائنات اللہ تعالی کی غلام اور عبید ہے تو بغیر کسی دلیل و حجت کے ایک دوسرے کی عبادت کیوں کرتے ہیں ؟ حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ صرف اپنی رائے کی زنجیر میں جکڑے ہوئے ہیں اور اختراعات اور من گھڑت امور میں مبتلا ہیں ، حالانکہ اللہ تعالی نے اول سے آخر تک تمام انبیاء کو صرف اس لئے مبعوث فرمایا کہ وہ لوگوں کو شرک سے بچنے کی تلقین کریں اور اللہ تعالی کے علاوہ دوسروں کی عبادت سے منع کریں اور حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے اللہ کی اطاعت میں ایسا ہی کیا ۔ سب سے اہم مسئلہ جس پر غور و فکر کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ اس خالق کائنات کے علاوہ کون ہے جس کی عبادت کی جائے ، جس سے دعا کی جائے ، جس سے ڈرا اور خوف کھایا جائے اور کون ہے جس پر بھروسہ کیا جائے اور اس سے امیدیں وابستہ کی جائیں اور ان عبادات کے علاوہ دوسری عبادات میں اللہ کے سوا کون مستحق ہے ؟ فرشتوں کی حالت اور ان کے خوف و دہشت پر ایک نظر ڈالیئے کہ وہ اللہ تعالی سے کس قدر لرزہ براندام ہیں ۔ ان کی حالت کو اللہ تعالی نے یوں بیان فرمایا ہے : " یہ کہتے ہیں رحمان اولاد رکھتا ہے سبحان اللہ ، وہ تو بندے ہیں جنہیں عزت دی گئی ہے 0 اس کے حضور بڑھ کر نہیں بولتے اور بس اس کے حکم پر عمل کرتے ہیں 0 جو کچھ ان کے سامنے ہے اسے بھی وہ جانتا ہے اور جو کچھ ان سے اوجھل ہے اس سے بھی وہ باخبر ہے وہ کسی کی سفارش نہیں کرتے بجز اس کے جس کے حق میں سفارش سننے پر اللہ راضی ہو ، اور وہ اس کے خوف سے ڈرے رہتے ہیں 0 اور جو ان میں سے کوئی کہہ دے کہ اللہ کے سوا میں بھی ایک خدا ہوں ، تو اسے ہم جہنّم کی سزا دیں ، ہمارے ہاں ظالموں کا یہی بدلہ ہے ( سورۃ الأنبياء ، 26 تا 29 )
     
  8. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    ( 17 ) ۔ ۔ ۔ شفاعت کا بیان
    { شفاعت کے بیان میں }
    اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے
    وَاَنْذِرْ بِهِ الَّذِيْنَ يَخَافُوْنَ اَنْ يُّحْشَرُوْۤا اِلٰى رَبِّهِمْ لَـيْسَ لَهُمْ مِّنْ دُوْنِهٖ وَلِىٌّ وَّلَا شَفِيْعٌ لَّعَلَّهُمْ يَتَّقُوْنَ ( سورۃ الأنعام ، 51 )
    " اے محمد ! تم اس کے ذریعہ سے ان لوگوں کو نصیحت کرو جو اس بات کا خوف رکھتے ہیں کہ اپنے رب کے سامنے کبھی اس حال میں پیش کیے جائیں گے کہ اس کے سوا وہاں کوئی نہ ہوگا جو ان کا حامی و مدد گار ہو ، یا ان کی سفارش کرے ، شاید کہ وہ خدا ترسی کی روش اختیار کر لیں "
    قُلْ لِّـلّٰـهِ الشَّفَاعَةُ جَمِيْعًا ۔ ۔ ۔ ( سورۃ الزمر ، 44 )
    " کہو ، شفاعت ساری کی ساری اللہ کے اختیار میں ہے "
    ۔ ۔ ۔ مَنْ ذَا الَّذِىْ يَشْفَعُ عِنْدَهٗۤ اِلَّا بِاِذْنِهٖۗ ۔ ۔ ۔ ( سورۃ البقرة ، 255 )
    " کون ہے جو اس کی جناب میں اس کی اجازت کے بغیر سفارش کر سکے ؟ "
    وَكَمْ مِّنْ مَّلَكٍ فِى السَّمٰوٰتِ لَا تُغْنِىْ شَفَاعَتُهُمْ شَيْــًٔــا اِلَّا مِنْۢ بَعْدِ اَنْ يَّأْذَنَ اللّٰهُ لِمَنْ يَّشَاۤءُ وَيَرْضٰى ( سورۃ النجم ، 26 )
    " آسمانوں میں کتنے ہی فرشتے موجود ہیں ، ان کی شفاعت کچھ بھی کام نہیں آ سکتی جب تک کہ اللہ کسی ایسے شخص کے حق میں اس کی اجازت نہ دے جس کے لیے وہ کوئی عرضداشت سننا چاہے اور اس کو پسند کرے "
    قُلِ ادْعُوا الَّذِيْنَ زَعَمْتُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِۚ لَا يَمْلِكُوْنَ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ فِى السَّمٰوٰتِ وَلَا فِى الْاَرْضِ وَمَا لَهُمْ فِيْهِمَا مِنْ شِرْكٍ وَّمَا لَهٗ مِنْهُمْ مِّنْ ظَهِيْرٍ 0 وَلَا تَنْفَعُ الشَّفَاعَةُ عِنْدَهٗۤ اِلَّا لِمَنْ اَذِنَ لَهٗ ۔ ۔ ۔ ( سورۃ سباء ، 22 + 23 )
    " کہو کہ پکار دیکھو اپنے ان معبودوں کو جنہیں تم اللہ کے سوا اپنا معبود سمجھے بیٹھے ہو وہ نہ آسمانوں میں کسی ذرہ برابر چیز کے مالک ہیں نہ زمین میں وہ آسمان و زمین کی ملکیت میں شریک بھی نہیں ہیں ان میں سے کوئی اللہ کا مدد گار بھی نہیں ہے 0 اور اللہ کے حضور کوئی شفاعت بھی کسی کے لیے نافع نہیں ہو سکتی بجز اس شخص کے جس کے لیے اللہ نے سفارش کی اجازت دی ہو "
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    امام ابن تیمیہ ( رح ) فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی نے تمام مخلوق سے ان باتوں کی نفی کی دی جن سے مشرکین سند پکڑتے ہیں اور خصوصا اس بات کی نفی کہ اللہ تعالی کے سوا کسی کو آسمان و زمین میں کسی قسم کی قدرت ہو یا قدرت کا کچھ حصہ یا وہ اللہ کی کچھ مدد کرتے ہوں ۔ باقی رہی سفارش ، تو یہ بھی اسے نفع دے گی جس کے بارے میں رب کریم اجازت عطا فرمائے ، جیسا کہ فرمایا " وہ کسی کی سفارش نہیں کرتے بجز اس کے جس کے حق میں سفارش سننے پر اللہ راضی ہو " ( سورۃ الأنبياء ، 28 )
    البتہ قیامت کے دن وہ شفاعت جس کے مشرکین قائل ہیں ان کے حق میں نہ ہو سکے گی ، کیونکہ قرآن کریم نے اس کی صراحت کے ساتھ غیر مبہم الفاظ میں تردید کی ہے ۔ رسول اکرم ( ص ) نے فرمایا کہ " وہ قیامت کے دن اپنے رب تعالی کے حضور پیش ہوں گے اور فورا شفاعت نہیں کریں گے بلکہ آپ ( ص ) سب سے پہلے اللہ کے سامنے سجدہ ریز ہوں گے ، اس کی حمد و ثنا بیان کریں گے ۔ پھر آپ ( ص ) کو حکم ہو گا کہ اپنا سر مبارک اٹھاؤ ۔ آپ ( ص ) کی بات کو سنا جائے گا اور جو سوال کرو گے وہ دیا جائے گا اور سفارش کیجئے ، آپ کی سفارش قبول کی جائے گی ۔ " ( صحیح بخاری ، 7410 )
    ابوہریرہ ( رض ) نے عرض کی : یا رسول اللہ ! وہ کون خوش نصیب شخص ہے جو آپ کی شفاعت کا مستحق ہو گا ؟ رسول اللہ ( ص ) نے ارشاد فرمایا کہ جو اپنے دل کی گہراہیوں سے کلمہ لَا اِلٰہ اِلَّا اللّٰه کا اقرار کرے ۔ " ( صحیح بخاری ، 99 )
    پس ثابت ہوا کہ یہ شفاعت ان کو حاصل ہو گی جو اپنے اعمال و افعال میں مخلص ہوں گے اور وہ بھی اللہ تعالی کی اجازت سے ، لیکن مشرکین کی شفاعت ہرگز نہ ہو سکے گی ۔ مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالی جن لوگوں کو سفارش کرنے کی اجازت دے گا ان کی دعا کی وجہ سے اہل اخلاص پر اپنا خاص فضل و کرم کرتے ہوئے معاف فرما دے گا تاکہ ان کی عزت و تکریم ہو اور وہ قابل تعریف مقام حاصل کر لیں ۔ پس قرآن کریم نے جس شفاعت کی تردید کی ہے وہ ایسی شفاعت ہے جس میں شرک کی آمیزش ہو ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی نے کئی مقامات پر شفاعت کو اپنی اجازت سے ثابت اور مقید کر دیا ہے ۔ اور یہ شفاعت صرف موحدین اور سچی توحید والوں کے لئے ہو گی "
     
  9. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    باب کی تشریح
    حصہ اول
    اس باب میں بیان کیا گیا ہے کہ سفارش کی دو قسمیں ہیں ۔ ایک سفارش وہ ہے جو قرآن کریم سے ثابت ہے اور دوسری سفارش وہ ہے جس کے قائل مشرک ہیں ۔ سابقہ دو ابواب کے بعد اس مسئلہ کی ازحد ضرورت تھی ۔ کیونکہ جو لوگ نبی ( ص ) یا دیگر اولیاء و انبیاء سے فریادیں کرتے ان آگے ہاتھ پھیلاتے اور ان سے مدد طلب کرتے ہیں جب ان کے سامنے توحید ربوبیت کے دلائل ذکر کئے جائیں تو وہ کہتے ہیں کہ ہم بھی ان تمام باتوں کو مانتے اور ان پر اعتقاد رکھتے ہیں البتہ یہ تمام بزرگ اللہ تعالی کے مقرب ہیں اور ان کا مرتبہ عظیم اور بلند ہے اور جو شخص ان بزرگوں کی طرف رجوع کرے تو یہ بزرگ اس کے حق میں سفارش کریں گے اور اللہ تعالی ان کی سفارش کو قبول فرمائیگا ۔ اس مسئلہ کی وضاحت کے پیش نظر مستقل باب قائم کیا ہے۔ شفاعت سفارش اور دعا کو کہتے ہیں کوئی شخص جب یوں کہے کہ میں نبی ( ص ) کی شفاعت کا طلب گار ہوں تو اس کی بات کا مفہوم یہ ہوتا ہے کہ وہ اللہ تعالی کے ہاں اپنے حق میں رسول اکرم ( ص ) کی سفارش اور دعا چاہتا ہے ۔ گویا سفارش اور دعا کی درخواست کو شفاعت کہتے ہیں ۔
    ( سورۃ الزمر ، 44 ) علامہ بیضاوی ( رح ) فرماتے ہیں " مشرکین جن لوگوں کو اپنا شفاعت کنندہ سمجھتے ہیں ان کے بارے میں ان کی رائے یہ ہے کہ چونکہ یہ مقرب اور برگزیدہ ہیں اس لئے یہ ہماری شفاعت کریں گے ۔ قرآن مجید نے یہ کہہ کر کہ سفارش کا اختیار صرف اللہ ہی کو ہے اس عقیدہ کی تردید کی ہے ۔ "
    ( سورۃ البقرة ، 255 ) اس سے پتہ چلا کہ جب کسی شخص میں دو شرطیں پائی جائیں گی تو وہ سفارش کر سکے گا ۔ 1 ۔ جس کو اللہ تعالی اجازت دیدے کہ تم سفارش کر سکتے ہو ۔ 2 ۔ جس کے لئے شفاعت کرنے پر اللہ تعالی راضی ہو جائے ۔
    ( سورۃ النجم ، 26 ) ابن کثیر ( رح ) فرماتے ہیں کہ " جب مقرب اور برگزیدہ فرشتوں کا یہ علم ہے کہ وہ بھی بارگاہ قدس میں دم نہیں مار سکتے تو یہ جاہل اور احمق لوگ غیر اللہ اور معبودان باطل سے کس طرح توقع اور امید لگائے بیٹھے ہیں ؟ جن کی عبادت کا اللہ تعالی نے نہ شریعت میں کوئی حکم فرمایا اور نہ اجازت دی ۔ بلکہ اس کے برعکس تمام انبیائے کرام کے ذریعہ سے اس کی تردید اور ممانعت فرمائی ، اور اپنی نازل کردہ کتب میں اس کی نفی کی "
    اللہ تعالی نے اپنے علاوہ تمام مخلوق سے ان باتوں کی نفی کر دی جن سے مشرکین استدلال کیا کرتے تھے ۔ مثلا اس نے اس بات کی نفی کی ہے کہ کسی کو زمین و آسمان میں کسی قسم کی قدرت ، کلی یا جزوی اختیارات ہوں ، یا کوئی اللہ تعالی کا معاون اور مدد گار ہو ، البتہ سفارش ہو سکتی ہے ۔ مگر وہ بھی صرف اسی کے لیے مفید ہوگی جس کے حق میں سفارش کی اجازت خود اللہ تعالی دے گا جیسا کہ اللہ کا فرمان ہے " وہ کسی کی سفارش نہیں کرتے بجز اس کے جس کے حق میں سفارش سننے پر اللہ راضی ہو " ( سورۃ الأنبياء ، 28 )
    اللہ تعالی نے ان تمام اسباب اور ذرائع کو کالعدم قرار دے دیا ہے جن کو کسی نہ کسی صورت میں مشرکین عقیدئہ سفارش کو ثابت کرنے کے لئے استعمال کرتے ہیں ۔ مشرک غیر اللہ کو اس لئے معبود بناتا ہے کہ اسے اس سے کوئی فائدہ اور نفع حاصل ہو لیکن جب تک کسی میں مندرجہ ذیل چھ صفات نہ پائی جائیں اس وقت تک اس سے نفع کی توقع عبث ہے
    1 ۔ اسے نفع اور فائدہ پہنچانے پر قدرت یا ملکیت اور اختیار ہو ۔
    2 ۔ ملکیت حاصل نہ ہو تو شریک ملکیت ہو ۔
    3 ۔ شرکت بھی میسر نہ ہو تو مالک کا معین و مددگار ہو ۔
    4 ۔ اگر مددگار بھی نہیں تو کم از کم مالک کے ہاں اس کی یہ حیثیت تو مسلم ہو کہ اس کی سفارش کے اس کے مانی جاتی ہے ۔
    5 ۔ اس کے پاس ایسی ہی سلطنت و ملکیت ہو ۔
    6 ۔ طاقت و قوت میں اس سے بڑھ کر ہو
    پس ایک عقلمند شخص کے لئے ان آیات میں ہدایت اور دلائل کی دولت موجود ہے ۔ اب مردوں سے اپنی حاجات طلب کرنا اور ان سے استغاثہ اور فریاد کرنا دنیا میں سب سے بڑا شرک ہے ۔ اس لئے کہ انسان کے مرنے کے بعد جب کوئی خود اپنی جان کے نفع و نقصان کا بھی مالک نہیں رہتا تو وہ دوسرے کی فریاد سن کر کیا جواب دے گا ؟ اب تو دوسروں کی شفاعت اس کے لئے ممکن ہی نہیں رہی ۔ شفاعت طلب کرنے والا اور جس کو شفاعت کنندہ سمجھ لیا گیا دونوں ہی اللہ تعالی کی بارگاہ میں برابر ہیں ۔ بلکہ زندہ انسان کی شفاعت مردہ کے حق میں اللہ کے ہاں زیادہ مقبول ہے ۔ کیا آپ دیکھتے نہیں کہ زندہ لوگ مرنے والے کی نماز جنازہ پڑھتے ہیں اور ان کے لیے دعائے مغفرت کرتے ہیں
    سب سے غور طلب مسئلہ یہ ہے کہ اللہ تعالی نے غیر اللہ سے استغاثہ ، فریاد رسی اور سوال کرنے کو اپنا رضا کا سبب اور ذریعہ بھی نہیں قرار دیا بلکہ اس کو عدم اجازت اور شرک سے تعبیر فرمایا ہے اور اپنے غضب اور قہر کا باعث ٹھہرایا ہے ۔ معبود حقیقی کے ساتھ شرک اس کے دین خالص میں تغییر و تبدیلی ، اہل توحید سے عداوت اور دشمنی یہ سب عیب مشرکین نے اپنے اندر جمع کر رکھے ہیں ۔ اللہ تعالی ہم سب کو اپنی حفاظت اور امان میں رکھے ۔ آمین
     
  10. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    باب کی تشریح
    حصہ دوئم
    ( صحیح بخاری ، 7410 ) ( صحیح بخاری ، 99 ) ان احادیث میں رسول اللہ ( ص ) نے مشرکین کے اس زعم باطل کے برعکس فرمایا کہ شفاعت حاصل کرنے کا صرف ایک ہی ذریعہ ہے اور وہ ہے توحید میں اخلاص کا پایا جانا ۔ جب اخلاص پیدا ہو جائے گا تو پھر اس کے لئے شفاعت کی اجازت مل جائے گی ۔ مشرکین اس بات کو بالکل بھول گئے ہیں کہ اللہ کے ہاں اس کی اجازت کے بغیر کوئی بھی سفارش کرنے کی جرات نہ کر سکے گا اور اللہ تعالی کے ہاں اسی شخص کی سفارش ممکن ہے جس کے اعمال و افعال اور کردار پر اللہ تعالی راضی ہو گا ۔
    شفاعت کی اقسام : شفاعت کی چھ قسمیں ہیں ۔
    1 ۔ پہلی شفاعت کبری ہے ، جس سے اولوالعزم انبیاء علیہم السلام بھی گھبرا جائیں گے ۔ حتی کہ معاملہ رسول اکرم ( ص ) تک آ پہنچے گا ۔ رسول اکرم ( ص ) فرمائیں گے کہ " یہ میرا ہی کام ہے "
    یہ واقعہ اس وقت پیش آئے گا جب کائنات یکے بعد دیگرے تمام انبیاء کی خدمت میں حاضر ہو کر شفاعت کے لئے عرض کرے گی کہ اس مقام کے عذاب سے لوگوں کو نجات ملنی چاہیے ۔ اس شفاعت کے وہی لوگ مستحق ہوں گے جنہوں نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرایا ہو گا ۔
    2 ۔ دوسری شفاعت دخول جنت کی ہو گی ۔
    3 ۔ ۔ تیسری شفاعت ان لوگوں کی ہو گی جو امت محمدیہ میں سے ہوتے ہوئے اپنے گناہوں کی پاداش میں دخول جہنم کے مستوجب قرار پا جائیں گے لیکن رسول اکرم ( ص ) جہنم میں داخل ہونے سے پہلے ان کی شفاعت کریں گے تاکہ یہ لوگ دوزخ میں نہ جا سکیں ۔
    4 ۔ چوتھی شفاعت ان اہل توحید کے لئے ہو گی جو اپنے گناہوں کی وجہ سے جہنم کی سزا بھگت رہے ہوں گے ۔ احادیث متواترہ ، اجماعِ صحابہ ، اور اہل سنت کا اس پر اتفاق ہے کہ اہل توحید اپنے گناہوں کی وجہ سے سزا بھگتیں گے ۔ جو لوگ اس کا انکار کرتے ہیں ان نفوس قدسہ نے ان کو بدعتی قرار دیا ہے ، ان کی نکیر کی ہے اور ان کو گمراہ ٹھہرایا ہے ۔
    5 ۔ پانچویں شفاعت صرف اہل جنت کے لئے ہو گی تاکہ ان کے اجر میں اضافہ کیا جائے اور ان کے درجات بلند کئے جائیں ۔ اس شفاعت میں کسی کو کوئی اختلاف نہیں ہے ۔ مندرجہ بالا شفاعتیں صرف ان مخلصین کے لئے ہیں جنہوں نے کسی غیر اللہ کو اپنا ولی اور کارساز حاجت روا اور مشکل کشا نہ بنایا ہو اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے " اے محمد ! تم اس کے ذریعہ سے ان لوگوں کو نصیحت کرو جو اس بات کا خوف رکھتے ہیں کہ اپنے رب کے سامنے کبھی اس حال میں پیش کیے جائیں گے کہ اس کے سوا وہاں کوئی نہ ہوگا جو ان کا حامی و مدد گار ہو ، یا ان کی سفارش کرے ، شاید کہ وہ خدا ترسی کی روش اختیار کر لیں " ( سورۃ الأنعام ، 51 )
    6 ۔ چھٹی شفاعت بعض اہل جہنم کفار کے لئے ہے تاکہ ان کے عذاب میں تخفیف کی جائے اور یہ صرف ابوطالب کے لئے خاص ہے ۔ واللہ اعلم
     
  11. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    اس باب میں مندرجہ ذیل مسائل ہیں
    1 ۔ اس باب میں چند آیات قرآنیہ کی تفسیر بیان کی گئی ہے ۔
    2 ۔ غیر مقبول شفاعت کی بھی وضاحت ہوئی ۔
    3 ۔ اور مقبول شفاعت کا بیان بھی ہوا ۔
    4 ۔ شفاعت کبری کا ذکر بھی ہے جس کی اجازت نبی کریم ( ص ) کو ملے گی ۔ اسی کو مقام محمود بھی کہتے ہیں ۔
    5 ۔ نبی کریم ( ص ) کسی طرح شفاعت کریں گے ؟ آپ یکدم ہی شفاعت نہیں کریں گے بلکہ سب سے پہلے اللہ تعالی کے حضور سجدہ ریز ہوں گے ۔ پھر اجازت ملنے پر شفاعت کریں گے ۔
    6 ۔ کون سا آدمی شفاعت کا سب سے زیادہ حقدار ہوگا ؟
    7 ۔ مشرکین ، کو یہ شفاعت حاصل نہ ہو سکے گی ۔
    8 ۔ شفاعت کی حقیقت بھی واضح ہوئی ۔
     
  12. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    باب کا خلاصہ
    سابقہ ابواب کے بعد یہاں پر اب مصنف محمد بن عبد الوہاب نے شفاعت کا مسئلہ بیان کیا ہے ۔ اس لیے کہ مشرکین اپنے شرک جواز اور ملائکہ اور انبیاء اور اولیاء کو پکارنے کے حق میں یہ کہہ کر جواز پیش کرتے تھے کہ : ہم جانتے ہیں کہ یہ بھی مخلوق اور مملوک ہیں لیکن پھر بھی ہم انہیں پکارتے ہیں اس لیے کہ اللہ تعالی کے ہاں ان کا بہت مقام و مرتبہ ہے ۔ اور اعلی مقام پر فائز ہیں ۔ اور ہم انہیں اس لیے پکارتے ہیں تاکہ یہ ہمیں مرتبہ میں اللہ کے قریب کردیں ۔ اوراس کی بارگاہ میں ہماری سفارش کردیں ۔ جیسا کہ بڑے لوگ بادشاہوں اور حکمرانوں کی بارگاہ میں قربت دلانے کے لیے وسیلہ بنتے ہیں ۔ تاکہ انہیں بھی اپنا وسیلہ بنا کر اپنی حاجات کی بارآوری کروائی جائے اور اپنی امید کو پورا کیا جاسکے ۔ یہ سب سے بڑی باطل بات ہے ۔ جس میں اللہ تعالی بزرگ و برتر اور بادشاہوں کے بادشاہ کو جس سے ہر ایک ڈرتا ہے ، اور تمام مخلوق اس کے سامنے سر نگوں ہوتی ہے اور تمام بادشاہ حکمران سردار اور وزراء بھی اپنی خواہشات اور حاجات کی تکمیل اور اپنی قوتوں کے نفاذ میں اس کی بارگاہ کے فقیر اور نیاز مند ہیں ۔
    پس اللہ تعالیٰ نے اس بدگمانی پر رد کیا ہے اور یہ واضح کیا ہے کہ ہر قسم کی شفاعت و سفارش صرف اورصرف اللہ تعالی کے اختیار میں ہے ۔ اور یہ کہ اس کی اجازت کے بغیر اس کی بارگاہ میں کوئی بھی کسی کی بھی سفارش نہیں کرسکتا ۔ اور اللہ تعالی صرف اسی کے لیے سفارش کی اجازت دیں گے جس کے قول اور عمل سے وہ راضی ہوں ۔ اور اللہ کی رضامندی خالص عمل اور توحید کے بغیر ممکن نہیں ۔ پس اللہ تعالی نے واضح کردیا کہ شفاعت میں مشرک کا کوئی حصہ یا نصیب نہیں ہے ۔
    یہ شفاعت حقیقت میں مقام محمود ہے ۔ وہ مقام جس کی اجازت صرف محمد رسول اللہ ( ص ) کو عطا ہو گی ۔ اس عقیدہ کی تفصیل پر کتاب و سنت کے دلائل موجود ہیں ۔ اس موقع پر مصنف محمد بن عبد الوہاب نے امام ابن تیمیہ ( رح ) کا کلام نقل کیا ہے جوکہ اس بحث میں کافی و شافی ہے ۔ پس یہاں پر مقصود یہ ہے کہ : وہ دلائل ذکر کئے جائیں جو ہر اس وسیلہ اور سبب کے باطل ہونے پر دلالت کرتے ہیں جو مشرکین اپنے جھوٹے معبودوں سے جوڑے ہوئے ہیں ۔ اور یہ کہ ان معبودوں کے اختیار میں کچھ بھی نہیں ۔ نہ ہی ذاتی طور پر اور نہ ہی کسی دوسرے کی معاونت سے اور نہ ہی غلبہ کے طور پر ۔ اور نہ ہی انہیں سفارش کرنے پر کوئی زور حاصل ہے ۔ بلکہ یہ تمام امور صرف اور صرف اللہ وحدہ لاشریک کے اختیار میں ہیں ۔
    قیامت کے دن نبی کریم ( ص ) یقینا شفاعت کریں گے لیکن ہم اس شفاعت کے حصول کی درخواست کس سے کریں ؟ صرف اللہ وحدہ سے اور یوں دعا کریں کہ یا اللہ ! ہمیں اپنے نبی کی شفاعت نصیب فرما کیونکہ اللہ رب العزت ہی نبی کریم ( ص ) کو توفیق بخشے گا اور آپ کے دل میں الہام کرے گا کہ فلاں فلاں کے حق میں شفاعت کریں اور یہ شفاعت انھی لوگوں کے حق میں ہوگی جنھوں نے اللہ تعالی سے ، نبی کریم ( ص ) کی شفاعت کے حصول کی دعا کی ہوگی ۔
    عبداللہ بن عمرو بن عاص ( رض ) کا بیان ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ( ص ) کو فرماتے سنا ہے : " جب مؤذن کی اذان سنو تو تم وہی کہو جو مؤذن کہتا ہے پھر مجھ پر درود پڑھو کیونکہ جو کوئی مجھ پر ایک مرتبہ درود پڑھتا ہے تو اللہ تعالی اس پر اپنی دس رحمتیں نازل فرماتا ہے ۔ اس کے بعد اللہ تعالی سے میرے لئے وسیلہ مانگو کیونکہ وسیلہ دراصل جنت میں ایک مقام ہے ، جو اللہ کے بندوں میں سے ایک بندہ کو دیا جائے گا اور مجھے امید ہے کہ وہ بندہ میں ہی ہوں گا اور جو کوئی میرے لیے وسیلہ (مقام محمود) طلب کرے گا اس کے لیے میری شفاعت واجب ہو جائے گی ۔ " ( صحیح مسلم ، 849 )
     
  13. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    ( 18 ) ۔ ۔ ۔ آیت کریمہ " اِنَّكَ لَا تَهْدِىْ مَنْ اَحْبَبْتَ ۔ ۔ ۔ " کا بیان
    { ہدایت دینے والا اللہ تعالی کے سوا کوئی نہیں ہے }
    اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے
    اِنَّكَ لَا تَهْدِىْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَلٰـكِنَّ اللّٰهَ يَهْدِىْ مَنْ يَّشَاۤءُۗ وَهُوَ اَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِيْنَ ( سورۃ القصص ، 56 )
    " اے نبی ، تم جسے چاہو اسے ہدایت نہیں دے سکتے ، مگر اللہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور وہ ان لوگوں کو خوب جانتا ہے جو ہدایت قبول کرنے والے ہیں "
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    حدیث میں آتا ہے
    مسیب ( رض ) اپنے والد حزن ( رض ) سے روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں : جب ابوطالب کی وفات کے آثار دکھائی دیئے تو رسول اللہ ( ص ) اس کے پاس تشریف لے گئے اس وقت ابوجہل اور عبداللہ بن ابو امیہ بھی وہاں بیٹھے تھے ۔ رسول اللہ ( ص ) نے فرمایا " چچا جان ! کلمہ لَا اِلٰہ اِلَّا اللّٰه کا اقرار کر لو ، میں تمہارے لئے یہی کلمہ اللہ تعالی کی بارگاہ میں بطور دلیل پیش کروں گا ۔ " ابوجہل اور عبداللہ بن ابو امیہ بولے " کیا عبدالمطلب کے مذہب کو چھوڑ دو گے ؟ "۔ رسول اکرم ( ص ) باربار کلمہ شہادت کی ترغیب دیتے تھے اور وہ دونوں ابوطالب کو اپنے مذہب پر قائم رہنے پر اصرار کرتے تھے ۔ ابوطالب کی آخری بات یہ تھی کہ " وہ عبدالمطلب کے دین پر ہی قائم رہے گا ۔ " اور اس نے لَا اِلٰہ اِلاَّ اللّٰه کے اقرار سے انکار کر دیا ۔ رسولِ اکرم ( ص ) نے اس سے فرمایا " جب تک مجھے روک نہ دیا گیا میں تمہارے لئے مغفرت کی دعا کرتا رہوں گا ۔ " اس پر اللہ کریم نے یہ آیت نازل فرمائی : " نبی کو اور ان لوگوں کو جو ایمان لائے ہیں ، زیبا نہیں ہے کہ مشرکوں کے لیے مغفرت کی دعا کریں ، چاہے وہ ان کے رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں " ( سورۃ التوبة ، 113 ) اور رب ذوالجلال نے ابوطالب کے بارے میں یہ ( سورۃ القصص ، 56 ) آیت نازل فرمائی " اے نبی ، تم جسے چاہو اسے ہدایت نہیں دے سکتے ، مگر اللہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور وہ ان لوگوں کو خوب جانتا ہے جو ہدایت قبول کرنے والے ہیں " ۔ ( صحیح بخاری ، 4772 )
     
  14. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    باب کی تشریح
    ( سورۃ القصص ، 56 ) اس مفہوم کو اللہ تعالی نے دوسرے مقامات پر بھی واضح فرمایا ہے جیسے : " لوگوں کو ہدایت بخش دینے کی ذمے داری تم پر نہیں ہے ہدایت تو اللہ ہی جسے چاہتا ہے بخشتا ہے " ( سورۃ البقرة ، 272 ) ۔ ان آیات میں جس ہدایت کی نفی کی گئی ہے وہ یہ کہ ہدایت کی توفیق دینا آپ ( ص ) کے اختیار میں نہیں ، اس کا تعلق صرف اللہ تعالی سے ہے اور وہی اس پر قدرت رکھتا ہے ۔
    ( صحیح بخاری ، 4772 ) میں رسول اللہ ( ص ) نے ابوطالب کو کلمہ توحید کا اقرار کرنے کی ترغیب دی لیکن ابوطالب نے انکار کر دیا کیونکہ اس کو معلوم تھا کہ علم و یقین کے ساتھ لَا اِلٰہ اِلاَّ اﷲ کے اقرار کا مطلب یہ ہے کہ شرک اور مشرکین سے کلیۃ اظہار برات کی جائے ۔ اور تمام عبادات پورے اخلاص کے ساتھ اللہ تعالی کے لئے ادا کی جائیں اور اسلام کے دائرہ میں داخل ہوا جائے ۔ یہ واقعہ اس بات کی دلیل ہے کہ اعمال کا دارومدار خاتمے پر ہے کیونکہ اگر ابوطالب خلوص دل سے اور ان تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے جو نفی و اثبات کی صورت میں لَا اِلٰہ اِلاَّ اﷲ سے وابستہ ہیں یہ کلمہ پڑھ لیتا تو وہ لازما اس کے لئے سود مند ثابت ہوتا ۔
    ابوطالب کے ہدایت یاب نہ ہونے میں اللہ تعالی کی بہت سی حکمتیں پوشیدہ ہیں ، ان میں سب سے بڑی حکمت یہ ہے کہ : لوگوں کو اس بات کا علم و یقین ہو جائے کہ کسی کو ہدایت دینا یا نہ دینا صرف اللہ تعالی کے اختیار میں ہے ، اس کے سوا کسی کو یہ اختیار حاصل نہیں ہے ۔ حسب کلام نبی کریم ( ص ) نے حقیقتا اپنے چچا کے حق میں مغفرت کی دعا کی بھی ، لیکن کیا نبی ( ص ) کی دعا نے آپ کے چچا کو کوئی فائدہ پہنچایا ؟ نہیں ! کیونکہ وہ مشرک تھا ۔ مشرک کے حق میں استغفار اور شفاعت قطعا مفید نہیں ۔ پس نبی کریم ( ص ) کو بھی یہ اختیار نہیں کہ وہ کسی مشرک کے گناہوں کی معافی میں اسے کچھ نفع دے سکیں ۔ یا کوئی شخص اگر شرک کا ارتکاب کرتے ہوئے آپ کی طرف رجوع کرے تو آپ اس کی پریشانی کو دور کرکے یا بھلائی پہنچا کر اس کے کچھ کام آسکیں ۔
     
  15. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    اس باب میں مندرجہ ذیل مسائل ہیں
    1 ۔ ( سورۃ القصص ، 56 ) اس آیت کی تفسیر ۔
    2 ۔ ( سورۃ البقرة ، 272 ) اس آیت کی تفسیر اور شان نزول بھی بیان ہوا ۔
    3 ۔ ایک بڑا اور اہم مسئلہ کہ کلمہ توحید لا ِلہ ِلا اللّٰه کا زبان سے اقرار ضروری ہے ۔ اس میں علم کے ان دعوے داروں کی تردید ہے جو محض دلی معرفت کو کافی سمجھتے ہیں ۔
    4 ۔ جب نبی کریم ( ص ) نے اپنے چچا سے لا ِلہ ِلا اللّٰه پڑھنے کو کہا تو ابوجہل اور اس کے ساتھی جانتے تھے کہ نبی کریم ( ص ) کی اس سے کیا مراد ہے ؟ اسی لیے وہ ابوطالب کوعبدالمطلب کے مذہب پر قائم رہنے کی تلقین کرتے رہے ۔ اللہ تعالی ان لوگوں کا برا کرے جن کی نسبت ابوجہل اصل دین لا ِلہ ِلا اللہ کے مفہوم کو بہتر جانتا تھا ۔
    5 ۔ نبی کریم ( ص ) نے اپنے چچا کو مسلمان کرنے کی پوری پوری کوشش کی تھی ۔
    6 ۔ جو لوگ ابو طالب اور اس کے اسلاف کو مسلمان سمجھتے ہیں ، اس میں ان کی بھی تردید ہے ۔
    7 ۔ نبی کریم ( ص ) نے ابو طالب کے حق میں مغفرت کی دعا کی مگر اللہ تعالی نے نہ صرف اس کی مغفرت نہیں کی بلکہ نبی کریم ( ص ) کو مشرکین کے لیے دعا کرنے سے بھی روک دیا ۔
    8 ۔ برے لوگوں کی صحبت ہمیشہ نقصان دہ ہوتی ہے ۔
    9 ۔ اکابر واسلاف کی تعظیم میں غلو کرنا نقصان دہ ہے ۔
    10 ۔ اپنے اکابر و اسلاف کے طریقے کو ہی سند ماننا اور اس کی پیروی کرنا ہی اہل جاہلیت کا مسلک تھا ۔
    11 ۔ نجات کا دارومدار زندگی کے آخری اعمال پر ہے کیونکہ اگر ابو طالب بوقت وفات کلمہ کا اقرار کرلیتا تو اسے ضرور فائدہ ہوتا ۔
    12 ۔ گمراہ لوگوں کے دلوں میں راسخ اس بڑے مغالطے کے بارے میں غور و فکر کرنا چاہئے ، اس لیے کہ ابوطالب کے قصہ میں مذکور ہے کہ سرداران مکہ اسی مغالطہ کی بنا پر ابوطالب سے جھگڑتے رہے جبکہ نبی کریم ( ص ) نے مبالغہ اور تکرار کے ساتھ ابوطالب کے سامنے کلمہ حق ، کلمہ توحید پیش کیا ۔ چونکہ ان لوگوں کے ہاں یہ بہت بڑی بات تھی کہ آبا اجداد کے دین کو چھوڑا نہیں جاسکتا اسی لیے وہ اپنی بات پر ڈٹے رہے ۔
     
  16. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    باب کا خلاصہ
    یہ باب بھی اپنے سے پہلے والے باب کی نظیر اور مثال ہے ۔ اور یہ اس طرح سے ہے کہ جب نبی کریم ( ص ) علی الاطلاق تمام مخلوق سے افضل تھے اور اللہ تعالی کے ہاں آپ کا مقام و مرتبہ سب سے اعلی تھا اور ان سب سے بڑھ کر قربت کا وسیلہ رکھتے تھے مگر آپ بھی اپنے محبوب افراد کو زبردستی راہ راست پر نہیں لاسکتے یعنی توفیق دینا آپ کے بس میں نہیں ۔ بیشک یہ کام صرف اللہ تعالی کے ہاتھ میں ہے اور وہ دلوں کو ہدایت دینے میں بھی ایسے ہی متفرد اوراکیلا ہے جیسے مخلوقات کو پیدا کرنے میں ۔ پس اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ اللہ تعالی ہی مبعود برحق ہے اور جہاں تک اللہ تعالی کے اس فرمان گرامی کا تعلق ہے : " ۔ ۔ ۔ وَاِنَّكَ لَتَهْدِىْۤ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍۙ ۔ ۔ ۔ یقینا تم سیدھے راستے کی طرف رہنمائی کر رہے ہو " ( سورۃ الشوری ، 52 ) تو یہاں پر ہدایت سے مراد ہدایت بیان ہے ۔ اس میں شک نہیں کہ آپ ( ص ) اللہ تعالی کی طرف سے نازل کردہ وحی کو لوگوں تک پہنچانے والے ہیں جس کی وجہ سے مخلوق کی ایک بڑی تعداد نے ہدایت پائی ہے ۔
     
  17. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    ( 19 ) ۔ ۔ ۔ بنی آدم کے شرک میں مبتلا ہونے کا سبب
    { بنی آدم کے کفر اور ترک دین کا بنیادی سبب بزرگوں کے بارے میں غلو ہے }
    اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے
    يٰۤـاَهْلَ الْكِتٰبِ لَا تَغْلُوْا فِىْ دِيْـنِكُمْ وَلَا تَقُوْلُوْا عَلَى اللّٰهِ اِلَّا الْحَـقَّ ۔ ۔ ۔ ( سورۃ النساء ، 171 )
    " اے اہل کتاب ! اپنے دین میں غلو نہ کرو اور اللہ کی طرف حق کے سوا کوئی بات منسوب نہ کرو "
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    حدیث میں آتا ہے
    ابن عباس ( رض ) سے مروی ہے کہ آپ اس آیت ( سورۃ نوح ، 23 ) کی تفسیر میں فرماتے ہیں :
    " انہوں نے کہا ہرگز نہ چھوڑو اپنے معبودوں کو ، اور نہ چھوڑو ود اور سواع کو ، اور نہ یغوث اور یعوق اور نسر کو "
    فرماتے ہیں : یہ سب قوم نوح ( ع ) کے صالح لوگ تھے ، جب وہ مر گئے تو شیطان نے ان کی قوم کو یہ بات سمجھائی کہ یہ نیک لوگ جس جگہ بیٹھتے تھے وہاں بطور یادگار پتھر نصب کرو اور اس پتھر کو ان کے نام سے پکارو ، سو انہوں نے ایسا ہی کیا ۔ جب اگلے لوگ مر گئے اور علم ان سے جاتا رہا تب ان کی اولاد نے ان یادگاروں کی پرستش شروع کر دی ۔ ( صحیح بخاری ، 4920 )
    ابن قیم ( رح ) فرماتے ہیں کہ " اکثر سلف صالحین نے بیان کیا ہے کہ جب وہ مر گئے تو پہلے یہ لوگ ان کی قبروں کے مجاور بنے ، پھر ان کی تصاویر بنائیں ، پھر زمانہ دراز گزرنے پر ان کی عبادت کرنے لگ گئے ۔ "
    عمر ( رض ) سے روایت ہے ، وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ( ص ) نے فرمایا : " میری تعریف میں مبالغہ نہ کرنا جس طرح عیسی بن مریم کی تعریف میں نصاری نے مبالغہ کیا تھا ۔ میں ایک بندہ ہوں ، بس مجھے اللہ کا بندہ اور اس کا رسول کہو ۔ " ( صحیح بخاری ، 6830 )
    عبداللہ بن عباس ( رض ) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ( ص ) نے فرمایا : " غلو سے بچتے رہو کیونکہ تم سے پہلے جتنے لوگ ہلاک ہوئے وہ سب غلو ہی کی وجہ سے ہلاک ہوئے تھے ۔ ( سنن نسائی ، 3059 )
    عبداللہ بن مسعود ( رض ) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ( ص ) نے تین بار فرمایا : " تکلف کرنے اور حد سے بڑھنے والے ہلاک ہو گئے ۔ " ( صحیح مسلم ، 2670 )
     
  18. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    باب کی تشریح
    اس امت میں بھی اور سابقہ امتوں میں بھی شرک کا سب سے بڑا سبب صالحین کی عزت و تکریم میں غلو اور حد سے تجاوز کرجانا ہے جس سے اللہ اور اس کے رسول ( ص ) نے منع کیا ہے ۔ غلو کا معنی ہے کسی چیز کو اس کی حد سے بڑھا دینا ۔ یعنی بنی آدم کے کفر اور اللہ کے مقرر کردہ دین کو ترک کرنے کا سبب صالحین کی عزت و تکریم میں اللہ تعالی کی مقرر کردہ حد سے تجاوز کرجانا ہے ۔ صالحین میں انبیاء و رسل اور اولیاء کے علاوہ وہ تمام لوگ شامل ہیں جو نیکی اور اخلاص کی صفات سے متصف ہوں ۔ وہ نیکی کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والے ہوں یا متوسط درجہ کے ، اللہ کے ہاں ان کے درجات ہیں ۔ اللہ تعالی کی خاطر صالحین سے محبت رکھنے ، ان کی تکریم کرنے اور نیکی اور دین و علم کی باتوں میں ان کی اقتداء کرنا مطلوب ہے ۔ صالحین کے احترام ، ان سے محبت و دوستی ، ان کے دفاع اور ان کی مدد کی حد وہی ہے جس کی اللہ تعالی نے اجازت دی ہے ۔ ان کی تعظیم میں غلو کی ایک صورت یہ ہے کہ ان میں بعض الہی خصوصیات کا عقیدہ رکھا جائے یا یہ اعتقاد ہو کہ وہ لوح و قلم کے اسرار سے واقف ہیں یا بعض امور کائنات پر تصرف رکھتے ہیں ۔
    ( سورۃ النساء ، 171 ) اصل میں یہ خطاب اگرچہ یہود و نصاری سے ہے لیکن اس کے ساتھ ہی پوری امت محمدیہ سے بھی ہے ۔ اس کی وجہ یہ خدشہ ہے کہ یہ امت بھی کہیں رسول اللہ ( ص ) کے ساتھ وہی سلوک نہ کر لے جو نصاری نے سیدنا عیسی ( ع ) کے ساتھ اور یہودیوں نے عزیر ( ع ) کے ساتھ کیا تھا ۔ اس سلسلے میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے " کیا ایمان لانے والوں کے لیے ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ ان کے دل اللہ کے ذکر سے پگھلیں اور اس کے نازل کردہ حق کے آگے جھکیں اور وہ ان لوگوں کی طرح نہ ہو جائیں جنہیں پہلے کتاب دی گئی تھی ، پھر ایک لمبی مدت ان پر گزر گئی تو ان کے دل سخت ہو گئے اور آج ان میں سے اکثر فاسق بنے ہوئے ہیں ؟ " ( سورۃ الحديد ، 16 )
    اسی لئے رسول اکرم ( ص ) ارشاد فرماتے ہیں : " میری تعریف میں مبالغہ نہ کرنا جس طرح عیسی بن مریم کی تعریف میں نصاری نے مبالغہ کیا تھا ۔ میں ایک بندہ ہوں ، بس مجھے اللہ کا بندہ اور اس کا رسول کہو ۔ " ( صحیح بخاری ، 6830 )
    ( صحیح بخاری ، 4920 ) قوم نوح سے ابلیس نے ان سے کہا کہ دیکھو ! تمہارے آباؤ اجداد ان بزرگوں کی عبادت کرتے تھے اور ان کے طفیل بارش ہوتی تھی ۔ اس نے ان اصنام کی عبادت کو ان کے سامنے انتہائی خوبصورت انداز میں پیش کیا اور ان کی عظمت کا نقش اس طرح بڑھا چڑھا کر ان کے دلوں میں بٹھا دیا کہ وہ سمجھنے لگے کہ گویا وہی ان کے معبود حقیقی ہیں ۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ " آدم کے بچو ، کیا میں نے تم کو ہدایت نہ کی تھی کہ شیطان کی بندگی نہ کرو ، وہ تمہارا کھلا دشمن ہے 0 اور میری ہی بندگی کرو ، یہ سیدھا راستہ ہے ؟ 0 مگر اس کے باوجود اس نے تم میں سے ایک گروہ کثیر کو گمراہ کر دیا کیا تم عقل نہیں رکھتے تھے ؟ " ( سورۃ یس ، 60 تا 62 ) اللہ تعالی کے اس عہد و پیمان کو یاد رکھنے کا اصل فائدہ یہ ہے کہ انسان غلو سے محفوظ رہتا ہے ۔ شیطان نے صالحین کی شان میں افراط و مبالغہ اور ان سے غلو فی المحبت کی بنا پر ہی ان لوگوں کو مبتلائے شرک کیا تھا ۔ جیسا کہ آج کل امت محمدی میں سے اکثر لوگ شرک کا شکار ہو گئے ہیں ۔
    قبروں کے پجاریوں کے دل میں شیطان ہمیشہ یہ وسوسہ ڈالتا رہا کہ دیکھو ! انبیائے کرام اور صلحائے عظام کی قبروں پر مجاور بن کر بیٹھنا اور ان پر قبے تعمیر کرنا ان اہل قبور سے محبت و عقیدت کا مظہر ہے اور یہ کہ ان کی قبروں کے پاس آ کر دعا کرنا قبولیت دعا کا ذریعہ ہے ۔ یہ بات ان کے دل میں اچھی طرح گھر کر گئی تو پھر یہ وسوسہ ڈالا کہ : دیکھو! اگر ان کے نام کو وسیلہ ٹھہرا کر دعا کرو گے اور ان کے نام کی قسم دے کر ملتجی ہو گے تو دعا بہت جلد قبول ہو گی ۔ کیونکہ اللہ تعالی کی شان تو اس سے کہیں بلند ہے کہ ان بتوں کا نام لے کر اس کی قسم کھائی جائے یا کسی مخلوق کے ساتھ اس سے سوال کیا جائے ۔ جب یہ بات اچھی طرح ان کے ذہن میں بیٹھ گئی تو یہ وسوسہ ڈالا کہ ان کو براہ راست پکارو ، ان کو اپنا شفاعت کنندہ سمجھو ، ان کی قبروں پر چادریں چڑھاؤ ، اور خوب چراغاں کرو ۔ اگر ان کی قبروں کا طواف کیا جائے ، ان کو بوسہ دیا جائے اور ان پر جانور ذبح کئے جائیں تو یہ بہت ہی نیکی اور سعادت مندی کی بات ہے ۔ جب یہ چیز ان کے ذہن میں راسخ ہو گئی تو کہا : دیکھو ! لوگوں کو بھی ان بزرگان کرام کی عبادت کی طرف بلاؤ ۔ اس کی بہترین صورت یہ ہے کہ ان کے عرس منانے کا اہتمام کرو ، اور ان کے یوم پیدائش مناؤ ۔ مشرکین نے جب دیکھا تو انہوں نے اس فعل کو انتہائی نفع بخش سودا سمجھا ۔ دنیا میں بھی مالا مال ہو گئے اور آخرت میں بھی اپنے آپ ہی کو نجات یافتہ قرار دیا ۔ جیسا کہ آج کل بھی ہم دیکھ رہے ہیں ۔
    ( صحیح مسلم ، 2670 ) " الْمُتنطِّعُوْنَ " ( حدیث کا عربی متن ) سے وہ لوگ مراد ہیں جو اپنے افعال و اقوال یا کسی بھی چیز میں اس قدر غلو اور تکلف کرتے ہیں جس کی اللہ نے اجازت نہیں دی ۔ اس سے یہ ثابت کیا ہے کہ جب لوگ بزرگان دین کے حق میں غلو یعنی ان کی عزت و تکریم میں حد سے تجاوز کرنے لگ جائیں تو وہ دین سے دور اور کفر میں مبتلا ہوجاتے ہیں ۔ جیسا کہ قوم نوح نے صالحین کے حق میں غلو کیا اور ان کی قبروں پر مجاوربن کر بیٹھ گئے تو آخر کار انھی کی پوجا شروع کردی ۔ اسی طرح عیسائیوں نے سیدنا عیسی ( ع ) ، ان کے حواریوں اور علماء کے حق میں غلو کیا ، بالآخر انھیں معبود سمجھنے لگے ۔ اسی طرح اس امت میں بھی بعض لوگ نبی ( ص ) کے متعلق الہی خصوصیات اور اختیارات کا عقیدہ رکھنے لگے ہیں ، حالانکہ نبی ( ص ) نے ان باتوں سے منع فرمایا ہے ۔
    ( سنن نسائی ، 3059 ) امام احمد نے یہاں " ابن عباس " سے" عبداللہ بن عباس " سمجھا ہے ، حالانکہ عبداللہ کو نبی اکرم ( ص ) نے رات ہی میں عورتوں بچوں کے ساتھ منی روانہ کر دیا تھا ، اور مزدلفہ سے منی تک سواری پر آپ کے پیچھے فضل بن عباس ہی سوار تھے ، یہ دونوں باتیں صحیح مسلم کتاب الحج باب 45 اور 49 میں اور سنن کبری بیہقی ( 5 - 127 ) میں صراحت کے ساتھ مذکور ہیں ۔
     
  19. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    اس باب میں مندرجہ ذیل مسائل ہیں
    1 ۔ جو شخص اس باب کو اور اس سے بعد والے دو ابواب کو اچھی طرح سمجھ لے اس پر اسلام کی اجنبیت واضح ہو جائیگی اور دلوں کے پھیر نے میں اللہ تعالی کی قدرت کے عجیب کرشمے اس کے سامنے آئیں گے ۔
    2 ۔ زمین پر رونما ہونے والا اولین شرک صالحین کی شان میں غلو اور ان کی بہت زیادہ تعظیم و تکریم کے سبب ہوا ۔
    3 ۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ سب سے پہلی چیز جس کے ذریعہ انبیاء کے دین میں تغیر ہوا وہ کیا تھی ؟ اور اس کا سبب کیا تھا ؟ جبکہ اس بات کا بھی علم تھا کہ اللہ تعالی ہی نے انہیں رسول بنا کر بھیجا ہے ۔
    4 ۔ بدعات کی مقبولیت کا سبب کیا ہے ؟ جبکہ شریعت اور فطرت سلیمہ اس کو رد کرتی ہے ۔
    5 ۔ اس کا سبب ، حق و باطل کو آپس میں خلط ملط کر دینا تھا ۔ پہلی وجہ صالحین کی حد درجہ محبت تھی ۔ دوسری وجہ یہ کہ بعض اہل علم اور اصحاب دین نے کچھ ایسے کام کیے جن میں ان کا ارادہ تو خیر ہی کا تھا مگر بعد والوں نے ان کا مقصد کچھ اور ہی سمجھ لیا ۔
    6 ۔ سورہ نوح کی آیت 23 کی تفسیر بھی معلوم ہوئی ۔
    7 ۔ فطری طور پر انسان کے دل میں حق بتدریج کم ہوتا رہتا ہے جبکہ باطل بڑھتا رہتا ہے ۔
    8 ۔ اسلاف اہل علم کی تائید ہوتی ہے کہ بدعات ، کفر کا سبب بنتی ہیں اورشیطان کے نزدیک بدعت عام گناہ سے زیادہ پسندیدہ ہے کیونکہ گناہ سے تو انسان توبہ کر لیتا ہے جب کہ بدعت سے توبہ نہیں کرتا ۔
    9 ۔ شیطان بدعت کے انجام سے خوب آگاہ ہے اگرچہ بدعت جاری کرنے والے کی نیت اچھی ہی کیوں نہ ہو ۔
    10 ۔ ایک عمومی قاعدہ ثابت ہوتا ہے کہ غلو سے مکمل طور پر اجتناب کرنا چاہئے اور اس کے انجام کو سمجھنا چاہئے ۔
    11 ۔ اس سے اس بات کا پتہ بھی چلتا ہے کہ کسی نیک کام کے لیے کسی نیک انسان کی قبر کے پاس اعتکاف کرنا بھی کتنا نقصان پہنچاسکتا ہے ۔
    12 ۔ مجسمے کی ممانعت اور ان کو مٹا ڈالنے اور توڑ ڈالنے کی حکمت بھی واضح ہوتی ہے ۔
    13 ۔ قوم نوح کے قصہ کی اہمیت اسے جاننا نہایت ضروری ہے کیونکہ اکثر لوگ اس سے غفلت کا شکار ہیں ۔
    14 ۔ اور سب سے عجیب تر بات یہ ہے کہ یہ لوگ تفاسیر اور احادیث کی کتابوں میں یہ تمام احکام اور امور پڑھتے ہیں اور ان کے معنی بھی سمجھتے ہیں اس کے باوجود اللہ تعالی نے ان کے دلوں اور حقیقی مفہوم کے درمیان ایسا فاصلہ پیدا کردیا ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ قوم نوح کا عمل ہی سب سے بڑی عبادت ہے اور اس کے ساتھ ان کے دل میں یہ بات بیٹھی ہوئی ہے کہ اللہ تعالی اور نبی کریم ( ص ) نے جس کفر سے منع کیا ہے وہ کفر وہ ہے جس کے ارتکاب سے خون اور مال حلال ہوجاتا ہے ۔
    15 ۔ یہ واضح کردیا کہ ان بتوں کو پوجنے والوں کا عقیدہ تھا کہ یہ بزرگ اللہ تعالی کے ہاں ہماری شفاعت کریں گے ۔
    16 ۔ ان مشرکین کا یہ گمان تھا کہ جن سابق اہل علم نے ان بزرگوں کی تصاویر بنائی تھیں ان کا مقصد بھی یہی تھا جو ہمارا ہے ۔
    17 ۔ ( صحیح بخاری ، 6830 ) اس حدیث میں مسلمانوں کے لیے کھلی اور عظیم نصیحت ہے ۔ نبی کریم ( ص ) پر اللہ تعالی کی بے شمار رحمتیں نازل ہوں کہ آپ نے واضح طور پر تبلیغ کا حق ادا فرما دیا ۔
    18 ۔ نبی کریم ( ص ) نے ہمیں تاکیدا یہ نصیحت فرمائی ہے کہ حد سے تجاوز کرنے والے ہمیشہ ہلاک ہوتے ہیں ۔
    19 ۔ علم کی اہمیت اور جہالت کے نقصان کا پتہ چلتا ہے کہ قوم نوح میں علم ختم ہونے کے بعد ہی بتوں کی پوجا پاٹ شروع ہوئی تھی ۔
    20 ۔ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ علم اور اصل معلومات کے باقی نہ رہنے کا باعث یہ ہوتا ہے کہ جاننے والے حضرات رخصت ہوجاتے ہیں ۔
     
  20. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    باب کا خلاصہ
    یہ کہ اولیاء و صالحین کی شان میں غلو ان کے دین سے دور ہونے اور کفر میں جا پڑنے کا سبب بنا ۔ غلو کا مطلب ہے : حد سے تجاوز کرنا ۔ کہ اللہ تعالی کے خاص حقوق میں سے کوئی چیز اولیاء اللہ کے لیے تسلیم کی جائے ۔
    اس میں کوئی شک نہیں عبادت بجا لانے اور معبود بنائے جانے کا مستحق اللہ تعالی کے علاوہ دوسرا کوئی نہیں ہوسکتا ۔ پس جو کوئی مخلوق میں سے کسی ایک کی شان میں غلو کرتا ہے اور ان مذکورہ بالا امور میں سے کوئی ایک چیز اس کے لیے تسلیم کرتا ہے تو یقینا وہ اس کو اللہ کے برابر قرار دیتا ہے ۔ یہ سب سے بڑا شرک ہے ۔
    جان لیجیے کہ حقوق تین اقسام کے ہیں :
    1 ۔ وہ حق جو اللہ تعالی کے ساتھ خاص ہے جس میں کوئی ایک بھی اس کا شریک نہیں ہوسکتا ۔ وہ معبود بنانا اور صرف اس ایک وحدہ لاشریک کے لیے عبادت بجا لانا ۔ محبت خوف اور امید سے اس کی طرف رغبت رکھنا اور رجوع کرنا ۔
    2 ۔ وہ حق جو مرسلین کے لیے خاص ہے یعنی ان کی توقیر بجالانا اور ان کی عزت کرنا اور ان کے خاص حقوق ادا کرنا ۔
    3 ۔ مشترکہ حق : یعنی اللہ تعالی اور اس کے رسول ( ص ) پر ایمان لانا ، اللہ تعالی اور رسول اللہ ( ص ) کی اطاعت کرنا اور اللہ اور رسول سے محبت رکھنا ۔ لیکن یہ حق اصل میں اللہ تعالی کا ہے ، رسول اللہ ( ص ) کا حق اللہ تعالی کے حق کے تابع ہے ۔ اہل حق ان تینوں حقوق کے مابین فرق کو اچھی طرح جانتے ہیں ۔ پس وہ دین کو اللہ تعالی کے لیے خالص کرتے ہوئے اس کی بندگی کرتے ہیں اور اللہ کے رسولوں اور اولیاء کا حقوق کے بھی ان کے مراتب ومنازل کے اعتبار سے ادا کرتے ہیں ۔
     
  21. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    ( 20 ) ۔ ۔ ۔ کسی بزرگ کی قبر کے قریب اللہ کی عبادت کرنا
    { کسی بزرگ کی قبر کے پاس بیٹھ کر اللہ تعالی کی عبادت کرنا ناجائز ہے اور سنگین جرم ہے ، چہ جائیکہ خود اس مرد صالح کی عبادت کی جائے }
    حدیث میں آتا ہے
    عائشہ( رض ) سے مروی ہے آپ فرماتی ہیں :
    ام حبیبہ اور ام سلمہ ( رض ) دونوں نے ایک کلیسا کا ذکر کیا جسے انہوں نے حبشہ میں دیکھا تو اس میں مورتیں تھیں ۔ انہوں نے اس کا تذکرہ نبی کریم ( ص ) سے بھی کیا ۔ آپ ( ص ) نے فرمایا کہ ان کا یہ قاعدہ تھا کہ اگر ان میں کوئی نیکوکار شخص مر جاتا تو وہ لوگ اس کی قبر پر مسجد بناتے اور اس میں یہی مورتیں بنا دیتے پس یہ لوگ اللہ کی درگاہ میں قیامت کے دن تمام مخلوق میں برے ہوں گے ۔ ( صحیح بخاری ، 427 )
    ان لوگوں میں بیک وقت دو فتنے جمع ہو گئے تھے : ایک قبرپرستی کا اور دوسرا تصویر سازی کا فتنہ ۔
    عائشہ ( رض ) سے روایت ہے ، فرماتی ہیں : جب رسول اللہ ( ص ) پر وفات کی علامات ظاہر ہوئیں تو آپ شدت تکلیف سے اپنی چادر کبھی چہرہ انور پر ڈال لیتے اور کبھی اسے ہٹا دیتے ، اس حالت میں فرماتے " یہود و نصاری پر اللہ کی لعنت ہو انہوں نے انبیائے کرام کی قبروں کو عبادت گاہ بنا لیا ۔ " آپ فرماتی ہیں : آپ ( ص ) یہود و نصاری کے اس کردار سے ڈرا رہے تھے ۔ اگر رسول اللہ ( ص ) کی قبر کو سجدہ گاہ بنائے جانے کا خدشہ نہ ہوتا تو آپ ( ص ) کی قبر بھی عام صحابہ کی قبروں کی طرح ظاہر ہوتی ۔ ( صحیح بخاری ، 3453 )
    جندب بن عبداﷲ ( رض ) سے روایت ہے ، وہ فرماتے ہیں کہ : " میں نے رسول اللہ ( ص ) کو وفات سے پانچ روز قبل یہ فرماتے ہوئے سنا کہ میں تم میں سے کسی کو اپنا خلیل نہیں بنا سکتا کیونکہ اللہ تعالی نے مجھے اپنا خلیل بنا لیا ہے اور اگر میں اپنی امت میں سے کسی کو خلیل بناتا تو ابوبکر ہی کو بناتا ۔ غور سے سنو ! تم سے پہلے لوگ اپنے انبیاء کی قبروں کو عبادت گاہ بنا لیا کرتے تھے ۔ خبردار ! میں تم کو قبروں میں مساجد تعمیر کرنے سے منع کرتا ہوں ۔ " ( صحیح مسلم ، 532 )
    اس سے رسول اکرم ( ص ) نے اپنی آخری زندگی میں روکا تھا ، پھر آپ ( ص ) موت و حیات کی کشمکش میں تھے کہ یہود و نصاری اور اس شخص پر جو قبروں میں مسجد بنا کر یا بغیر مسجد بنائے نماز پڑھے ، لعنت فرمائی ہے
    مذکورہ مفہوم اور ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ ( رض ) کے فرمان کہ " اگر رسول اللہ ( ص ) کی قبر کو سجدہ گاہ بنائے جانے کا خدشہ نہ ہوتا " میں کوئی فرق نہیں بلکہ یہ ہم معنی اور ہم مطلب عبارات ہیں ۔ اس لیے کہ صحابہ کرام ( رض ) سے یہ توقع نہ تھی کہ وہ رسول اکرم ( ص ) کی قبر کے ارد گرد مسجد بنا لیں کیونکہ جس جگہ نماز پڑھنا مقصود ہو وہ مسجد ہی کا حکم رکھتی ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر وہ جگہ جہاں نماز پڑھی جائے اسے مسجد ہی کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے ۔ جیسا کہ رسول اللہ ( ص ) نے فرمایا ہے : " میرے لئے ساری زمین پاک اور پاک کرنے والی کی گئی ۔ پھر جس شخص کو جہاں نماز کا وقت آ جائے وہ وہیں نماز پڑھ لے " ( صحیح مسلم ، 1163 )
    عبد اللہ ابن مسعود ( رض ) سے روایت ہے ، رسول اللہ ( ص ) نے فرمایا : " سب سے بدترین لوگ وہ ہوں گے جن کی زندگی میں ان پر قیامت قائم ہوگی ۔ اوروہ لوگ بھی بدترین ہیں جو قبروں کو مساجد کا درجہ دیں گے ۔ " ( مسند احمد ، 12911 )
     
  22. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    باب کی تشریح
    ( صحیح بخاری ، 427 ) اس سے ثابت ہوا کہ قبرستان میں مسجد تعمیر کرنا حرام ہے کیونکہ رسول اللہ ( ص ) نے ایسے افراد پر لعنت فرمائی ہے ۔ چونکہ قبروں پر مساجد کی تعمیر کی وجہ سے اکثر و بیشتر اقوام شرک میں ملوث ہو کر عذاب الہی کا شکار ہوئی تھیں ، اسی بنا پر آپ ( ص ) نے اپنی امت کو اس سے سختی سے منع فرما دیا ۔ جب ہم مشرکین کو کسی بزرگ کی قبر پر دیکھتے ہیں تو وہ وہاں آہ و زاری میں مبتلا ہوتے ہیں ، انتہائی خوف و خشیت کی حالت میں دعائیں کرتے ہیں اور قلب و ذہن کی تمام توجہات سے اس طرح قبر پر عبادت میں مشغول ہوتے ہیں کہ مسجد میں ان کی یہ کیفیت ہرگز نہیں ہو پاتی ۔ اکثر لوگوں کو سجدہ کرتے ہوئے بھی دیکھا گیا ہے اور وہ وہاں نماز پڑھنے اور دعاء و التجا کرنے کو مسجد سے زیادہ بابرکت سمجھتے ہیں ، اسی خرابی کو مد نظر رکھتے ہوئے رسول اکرم ( ص ) نے قبروں کو بالکل سطح زمین کے برابر رکھنے کا حکم فرمایا اور قبرستان میں نماز پڑھنے سے منع فرما دیا اگرچہ نمازی کی نیت برکت حاصل کرنا نہ ہو ۔
    ( صحیح بخاری ، 3453 ) اس بات سے آپ ( رض ) کا مقصود مسلمانوں کو ایسے طرز عمل سے ڈرانا اور روکنا تھا ۔ اگر نبی کریم ( ص ) کی قبر کو سجدہ گاہ بنانے کا خدشہ نہ ہوتا تو آپ کی قبر بھی عام مسلمانوں کی طرح ظاہرکھلی جگہ پر ہوتی ۔ آپ اس سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ جس عمل بد سے رسول اللہ ( ص ) نے روکا ، اور اس کے کرنے والے کو ملعون قرار دیا ، آج اسی عمل میں آپ ( ص ) کی امت کی اکثریت گرفتار ہو چکی ہے ۔
    علامہ قرطبی ( رح ) فرماتے ہیں : یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں نے ذرائع شرک کے سدباب کی غرض سے رسول اللہ ( ص ) کی قبر مبارک کے سلسلے میں انتہائی احتیاط سے کام لیا ۔ انہوں نے آپ ( ص ) کی قبر کی دیوار کو اتنا اونچا کر دیا کہ اس میں داخل ہونے کی کوئی صورت باقی نہ رہی ۔ پھر اس کے ارد گرد چاردیواری تعمیر کی جس کی وجہ سے وہ ایک گھیرے میں آ گئی ۔ بعد ازاں ان کو یہ خطرہ لاحق ہوا کہ آپ ( ص ) کی قبر کو قبلہ نہ بنا لیا جائے ، کیونکہ وہ نمازوں کے سامنے پڑتی تھی اور ان کے متعلق یہ گمان کیا جا سکتا تھا کہ وہ عبادت کی صورت میں ، اس کے سامنے کھڑے ہو کر نماز پڑھنا شروع کر دیں گے چنانچہ اس خطرے کے پیش نظر قبر کے جانب شمال میں دونوں طرف دیواریں اس انداز سے تعمیر کی گئیں کہ نمازوں کے سامنے آنا ممکن نہ رہا ۔
    یہود و نصاری کے اس فعل پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو انکار فرمایا ہے ، اس کے دو سبب تھے :
    1 ۔ پہلا یہ کہ وہ انبیائے کرام کی قبروں کو تعظیمی سجدہ کیا کرتے تھے ۔
    2 ۔ دوسرا یہ کہ وہ انبیاء کی قبروں پر نماز پڑھنا باعث برکت خیال کرتے تھے اور حالت نماز میں ان انبیاء کی طرف خاص توجہ رکھتے تھے ۔ ان کا عقیدہ تھا کہ انبیاء کی تعظیم و توقیر کی وجہ سے اللہ تعالی کی عبادت کو ایک خاص درجہ حاصل ہو جائے گا ۔
    پہلی صورت شرک جلی کہلاتی ہے اور دوسری شرک خفی ۔ اسی بنا پر وہ لعنت کے مستحق ٹھہرائے گئے ۔
    رسول اللہ ( ص ) کی اس درجہ سخت تہدید ، شدید وعید اور ان کو ملعون قرار دینے کے بعد ایک مسلمان کا قبروں کی تعظیم کرنا ، اور ان پر قبے تعمیر کرنا ، وہاں جا کر اور خصوصا ان کو مرکز توجہ ٹھہرا کر نماز پڑھنا کیوں کر جائز ہو سکتا ہے ؟ یہ لوگ اگر ذرا بھی غور و فکر کریں تو یہ بات واضح ہو جائے گی کہ یہ براہ راست اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ دشمنی اور جنگ کرنے کے مترادف ہے ۔ اللہ کی قسم یہی وہ دروازہ ہے جس سے یغوث ، یعوق ، نسر اور اصنام پرستوں میں شیطان داخل ہوا اور قیامت تک یہی ہوتا رہے گا ۔ پس مشرکین میں دو جرم بیک وقت جمع ہو گئے : ایک صالحین کی شان میں غلو ، اور دوسرا صالحین کے طریقے کی مخالفت ۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں