1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

محنت ضائع نہیں جاتی ۔۔۔۔۔ عمار چوہدری

'اردو ادب' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏25 فروری 2021۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    محنت ضائع نہیں جاتی ۔۔۔۔۔ عمار چوہدری

    مشقت اور کامیابی کی اس حقیقی داستان میں آج کل کے نوجوانوں کیلئے ایک سبق شارٹ کٹ کا بھی ہے۔ زندگی میں کوئی شارٹ کٹ نہیں ہوتا۔ اگر کوئی شارٹ کٹ سے تیزی سے اوپر چلا بھی جاتا ہے تو اس سے دُگنی رفتار سے نیچے بھی آتا ہے کیونکہ اس کی کامیابی پائیدار بنیادوں پر نہیں کھڑی ہوتی۔آپ کسی بھی کامیاب شخص کی زندگی اٹھا لیں‘ آپ کو وہ شخص اپنی ابتدائی زندگی میں آفس بوائے‘ اخبار فروش‘ مزدور حتیٰ کہ سویپر اورکلینر تک کے کام کرتا بھی نظر آئے گا۔ پھر کامیابی پانے کا ایک دورانیہ بھی ہوتا ہے جو پندرہ سے بیس سال تک محیط ہے۔ آج کے دور میں مگر یہ دورانیہ بھی سکڑ گیا ہے اور اس کی وجہ انفارمیشن ٹیکنالوجی ہے۔ آج آپ کو کئی نوجوان ایسے دکھائی دیں گے جو ٹیکنالوجی کی مہارتوں کو استعمال کرتے ہوئے صرف پانچ چھ برس میں کروڑ پتی بن گئے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ اس سے پہلے بالکل بیکار تھے۔ یقینا وہ اپنی کوششوں میں مصروف ہوںگے لیکن ٹیکنالوجی کے جدید پلیٹ فارم آنے کے بعد انہوں نے خود کو وقت کے حساب سے ایڈجسٹ کیا اور کامیاب ہو گئے۔ہم واپس کامیابی کی اس کہانی کی طرف آتے ہیں۔
    بیسویں صدی کے اوائل میں مزنگ لاہور میں مقیم ایک کاشتکار ملک کالو کے ہاں دوسرے بیٹے کی ولادت ہوئی۔ یہ لڑکا بہت ذہین اور والدین کا فرمانبردار تھا‘ ایک روز اس کے والد نے اسے کہا کہ وہ نماز عصر کے بعد مسجد میں رہا کرے اور مسجد کے کنویں سے پانی نکال کر وضو کی ٹینکی میں ڈالا کرے‘ لڑکا حیران ہوا تو اس کی والدہ نے کہا: بیٹے یہ کام کر لو اس کے بدلے ملنے والی دعائیں زندگی بھر تمہارے کام آئیں گی چنانچہ اس نے ایسا ہی کیا‘ اس نے میٹرک کا امتحان امتیازی نمبروں میں پاس کر لیا لیکن ساتھ ہی تین بہنوں کی شادی اور دیگر اخراجات آڑے آ گئے اور والد نے اسے مزید پڑھانے سے انکار کر دیا‘ ابھی یہ غم نہ دھلا تھا کہ 3جنوری 1940ء کو ملک کالو کا انتقال ہو گیا۔ والد کی وفات کے بعد گھریلو اخراجات کا بار چاروں بھائیوں پر آن پڑا‘ کچھ عرصہ بعد اس نوجوان کو لاہور کے ڈپٹی کمشنر کے دفتر میں بطور کلرک ملازمت مل گئی‘ اس نے یہاں دو سال بڑی محنت اور جانفشانی سے کام کیا‘ اس دوران آرمی ہیڈکواٹرز میں کچھ اسامیاں نکلیں‘ انٹرویو بورڈ کے چار ارکان ایک ہندو‘ ایک سکھ اور دو انگریز تھے‘ انٹرویو ہوا‘ ہندو اور سکھ نے مخالفت کی جبکہ جنرل لوئیس اور بریگیڈیئر پی مورس نے کہا '' یہ لڑکا ہوشیار‘ تجربہ کار اور محنتی ہے‘یہ بہت آگے جائے گا‘‘ اور اسے ملازمت کی نوید سنا دی‘ یہ نوجوان اس وقت شملہ میں ''سنجولی سٹیٹ‘‘ میں رہائش پذیر تھا‘ دفتر اور گھر کا فاصلہ پانچ میل تھا‘ وہ یہ فاصلہ روزانہ پیدل طے کرتا‘ 1943ء میں اس کی شادی ایک مسلم لیگی رہنما کی صاحبزادی ممتاز بیگم سے ہو گئی‘ ایک مرتبہ قائداعظم شملہ آئے‘ یہ دو پہیوں کے رکشے پر سوار تھے جنہیں بالعموم تین چار مرد کھینچتے تھے‘ اس دوران ایک رکشہ کھینچنے والے کا پائوں پھسل گیا‘ اس خوف سے کہ قائداعظم کو چوٹ نہ لگ جائے‘ سڑک کنارے کھڑے مسلمان لپکے اور رکشہ تھام لیا‘ ان میں سب سے آگے یہ نوجوان بھی تھا‘ قائداعظم نے اس کا شکریہ ادا کیا اور یہ علم ہونے پر کہ یہ شخص میاں فیروزالدین کا ہم زلف ہے‘ اسے مسلم لیگ کی میٹنگز میں شریک ہونے کی تلقین کی۔ قیام پاکستان کا اعلان ہو ا تو ہندو مسلم فسادات پھوٹ پڑے‘ یہ شخص مستقبل میں جھانکنے کا ماہر تھا؛ چنانچہ یہ اپنی فیملی کو 3 جون کو ہی لاہور بھیج چکا تھا‘ خود یہ سولہ اگست کو ایک ٹرین میں سوار ہو کر لاہور پہنچ گیا‘ یہاں سے یہ راولپنڈی چلا گیا‘ آرمی کے جنرل ہیڈ کواٹرز میں ''رپورٹ‘‘ کی اور نئی پوسٹنگ سنبھال لی۔ ذہانت اور محنت کے باعث بہت جلد اگلے گریڈ میں ترقی پائی اور نان ٹیکنیکل سپروائزر بن گیا۔ اس کی تنخواہ بہت معقول تھی لیکن اس کی اہلیہ نے زور دے کر کہا کہ وہ سرکاری ملازمت چھوڑے اور کوئی کاروبار کرے‘ بہت زیادہ اصرار پر اس نے ہتھیار ڈال دیے اور لاہور آ گیا‘ یہ اس کی زندگی کا ٹرننگ پوائنٹ تھا۔
    اس پوائنٹ نے اس خاندان کی قسمت بدل کر رکھ دی‘ اس نے اللہ کانام لیا‘ ایک چھوٹی سی دکان کرایہ پر لی اور موٹر سپیئر پارٹس کا کام شروع کر دیا‘ وہ سولہ سولہ گھنٹے کام کرتا‘ وہ ٹائپسٹ بھی تھا‘ اکائونٹنٹ بھی اور سیلز مین بھی‘ اس کی دکان لاری اڈے کے بہت قریب تھی‘ اڈے پر چار سو بسیں چلتی تھیں اوریہ سب اسی سے سامان خریدتے کیونکہ اس کا منافع جائز اور معقول ہوتا تھا‘چند ماہ میں سیل اتنی بڑھ گئی کہ اسے کاروبار کئی منزلہ بلڈنگ میں منتقل کرنا پڑا‘ مگر ابھی منزل نہیں آئی تھی‘ اسے ایک ہی دھن تھی وہ اور محنت کرے اور زیادہ دولت حاصل کرکے اپنی والدہ کی خواہش کے مطابق بڑا ہسپتال بنائے جہاں غربا و مساکین کا مفت علاج ہو‘ وہ آگے بڑھتا رہا‘ اس نے بادامی باغ میں جگہ خرید لی‘ اس میں مارکیٹ تعمیر کرائی اور اس کی 45دکانوں کا کرایہ اپنے ہسپتال کیلئے وقف کرنے کا اعلان کیا‘ پھر اس نے صنعت کاری کے میدان میں قدم رکھنے کا فیصلہ کیا‘ اس نے سوچا موٹر گاڑیوں کا کوئی ایسا اہم پرزہ بنایا جائے جو بنیادی حیثیت رکھتا ہو اور اس کی مانگ اور کھپت بھی بہت زیادہ ہو؛ چنانچہ سوچ بچار کے بعد فلٹرز بنانے کا فیصلہ کیا گیا‘ اس مقصد کیلئے اس کا ایک بیٹا فلٹر سازی کی ٹریننگ کیلئے جرمنی گیا اور تمام اسرار و رموز سیکھ کر واپس آیا۔ فلٹر کی تیاری شروع ہو گئی‘ اس کام میں اس کی اہلیہ بھی شریک ہوگئیں‘ انہوں نے چھ سلائی مشینیں خریدیں‘ خود اور دس بارہ لیڈی ورکز کے ساتھ نمدے کی سلائی کی‘ یو ں سپلائی لائن میں کمی نہ آئی‘ یہ فلٹر تو بن گیا لیکن یہ لوکل تیار کردہ تھا جبکہ مارکیٹ میں جاپانی فلٹرز کی بھرمار تھی اور پاکستانی فلٹر کوئی خریدنے کو تیار نہ تھا‘ اس دوران انہیں ایک آئیڈیا سوجھا‘ قیام پاکستان سے قبل ہندوستان میں ایک خاص برانڈ کی چائے آئی تو بڑے شہروں میں تیار چائے لوگوں کو مفت پیش ہوتی تھی‘ یوں ہندوستان میں یہ چائے بہت مقبول ہوئی‘اسی طرز پر ان لوگوں نے بھی فلٹرز لوگوں میں مفت تقسیم کرنا شروع کئے‘ یہ فلٹر ٹرانسپورٹروں نے آزمایا اور اسے سودمند پایا، یوں یہ مارکیٹ میں متعارف ہو گیا اور لوگ جاپانی فلٹر چھوڑ کر پاکستانی فلٹر خریدنے پر اصرار کرنے لگے۔ یہ دیکھ کر یہ کام بڑے پیمانے پر پھیلانے کا فیصلہ کر لیا گیا‘اراضی خریدی گئی جس میں سے ایک ایکٹر میں فیکٹری لگائی گئی‘ بعد میں اس میں بریک آئل سمیت مزید درجنوں اشیا بننے لگیں‘ اس کاروبار میں مزید وسعت ہوئی‘ زراعت کیلئے جدید مشینری بننا اور تحقیق بھی شروع ہو گئی‘ چاول کی کاشت اور ایکسپورٹ کا بھی آغاز ہوا‘ گاڑیوں کے پرزے بھی بننے لگے اور پھر اس محنتی انسان نے والدہ کی خواہش کے مطابق ٹرسٹ ہسپتال بھی تعمیرکر لئے۔
    ملک محمد کالو کے اس بیٹے کا نام محمد شفیع ملک ہے‘ جو کلرک سے ایک بڑی صنعت کا مالک بنا اور ستارۂ امتیاز، جناح گولڈ میڈل، تحریک پاکستان گولڈ میڈل، ڈاکٹر عبدالقدیر گولڈ میڈل سمیت متعدد ملکی اور عالمی اعزازات اپنے نام کیے۔ 2007ء میں محمد شفیع ملک 92سال کی عمر میں اس جہانِ فانی سے کوچ کر گئے مگر ان کی زندگی اس ملک کے ہر اس نوجوان کیلئے نمونہ ہے جو قسمت اور حالات کو کوستا رہتا ہے ۔ محمد شفیع ملک نے ثابت کیا‘ انسان محنت کرے‘ ایمانداری اور مستقل مزاجی سے کام کرے تو کامیابی ضرور مقدر بنتی ہے۔ملک صاحب کی سوانح عمری میں زندگی سے متعلق تمام راز موجود ہیں۔ اس میں مثالیں دے کر بتایا گیا ہے کہ انسان محنت کرے‘ اسلامی اخلاق اپنائے‘ آرام و عیاشی ترک کرے‘ رفاہِ عامہ کے کام کرے‘ حرام سے بچے‘ ثابت قدم رہے‘ شارکٹ کٹ نہ ڈھونڈے‘ والدین کی خواہشات کا احترام کرے اور اپنی دولت کا ایک حصہ غربا‘ مساکین‘ یتیموں اور بیوگان کیلئے وقف کر دے تو وہ نہ صرف دنیا میں کامیاب ہوتا ہے بلکہ مخلوق کی خدمت کی وجہ سے آخرت میں بھی صلہ پاتا ہے۔کامیاب ہونے کا واحد فارمولا درست سمت میں محنت ہے اور محنت کبھی بھی ضائع نہیں جاتی۔


     

اس صفحے کو مشتہر کریں