1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

سلطنتِ موریہ کے خدوخال

'متفرقات' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏25 نومبر 2020۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    سلطنتِ موریہ کے خدوخال

    ۔323 قبل مسیح میں ہندوستانی قومیت حیران کن حد تک بیدار ہوگئی تھی۔ اس قومیت کا فائدہ گنگا کنارے کی ایک چھوٹی سی ریاست مگدھ کا حکمران چندر گپت تھا۔ جو موریہ خاندان کا پہلا راجہ تھا۔اس دور میں سلطنتِ فارس کے سابق صوبہ جات ہند اور گندھارا کا علاقہ ہندوکش تک اس راجہ کے تحت آگیاتھا۔
    یہ اس وقت کی سب سے بڑی ہندوستانی سلطنت بن گئی تھی۔ خود تہذیبِ سندھ کی جتنی وسعت مانی جاسکتی ہے یہ اس سے بھی زیادہ وسیع تھی۔ سب سے اہم بات یہ تھی کہ ایک فاتح خاندان‘ جس کی دولت اور ترقی کی تمنا کے ہم پایہ کوئی مصدقہ روایتِ فن ابھی وجود میں نہیں آئی تھی‘ کی سرپرستی حاصل کرنے کا موقع پیدا ہوگیا تھا۔ یہاں اس نئے ہند میں فارس کے ماہرینِ فن اور کاملانِ ہند کے لیے ایک نیا گھر بن گیا تھا اور اسی طرف وہ کھنچے چلے آئے۔
    یہ کہنے میں کوئی مبالغہ نہیں کہ ضرورت اور موقع کے اس سنگم سے جو ہند فارسی دَور شروع ہوا اسی سے ہند میں پتھر کے فنِ تعمیر کا آغاز ہوا۔ اس سے بہت پہلے قبل مسیح تیسرے ہزار سالہ قرن میں بھی پتھر اور اینٹ کی عمارتیں بنتی تھیں۔ اگرچہ جہاں تک ہمیں علم ہے ان میں شاید ہی کسی کے لیے ''فنِ تعمیر‘‘ کی قابلِ فخر اصطلاح استعمال کی جاسکتی ہو‘ اس کے بعد ہند میں پتھر کی سب سے قدیم تعمیر جس کی اغلب تاریخ تعین کی جاسکتی ہے۔ جنوبی بہارکی پہاڑیوں میں پرانے راج گیر کے حفاظتی انتظامات تھے۔ ان کی لمبائی 25 میل تھی اور یہ سلطنتِ مگدھ کی اس راجدھانی کو چاروں طرف سے گھیرے ہوئے تھے۔ اس شہر کا بدھ اور مہاویر کے ساتھ جو تعلق بودھ اور جین متوں کی تشکیل کے ابتدائی دَور میں رہا اس کی وجہ سے اسے قبل مسیح چھٹی صدی میں بہت امتیاز حاصل تھا۔ اس تعمیر میں ایک لمبی دیوار شامل ہے جو بڑے بڑے بغیر تراشے پتھروں کی خشک چنائی سے بنی ہے۔ تھوڑی تھوڑی دُور پر چوکور برج ہیں۔ (اس سے) فنِ تعمیر کے اعلیٰ احساسات کا اندازہ نہیں ملتا لیکن جب مگدھ کے راجائوں نے پانچویں صدی قبل مسیح میں گنگا اور سون ندیوں کے قریب کے میدانوں میں ایک نئی گڈھی تعمیرکی تو ایک نئے ڈھنگ کی بنیادیں رکھی گئیں۔ وہیں اب پٹنہ کا پھیلتا ہوا شہر واقع ہے۔ لگ بھگ 330 قبل مسیح میں پہلے موریہ سمراٹ نے پاٹلی کی اس گڑھی کو وسعت دے کر پُرشکوہ راجدھانی پاٹلی پتر بنائی۔
    یہاں آثارِ قدیمہ کے ماہرین کو زیرِآب مقام پر دشوار حالات میں کام کرنا پڑا ہے پھر بھی ان کی کاوشوں سے اس عظیم شہر کے بارے میں بہت کچھ معلوم ہوچکا ہے ۔اس کے زمانے میں پاٹلی پتر شہر دریا کے ساتھ ساتھ 9 میل سے زیادہ لمبائی میں پھیلا تھا اور اس کی چوڑائی ایک میل سے زیادہ تھی۔ اس کی حفاظت کے لیے ایک 200 گز چوڑی خندق تھی اور لکڑی کا ایک جنگلا تھا جس میں مینار تھے اور تیر اندازوں کے لیے مورچے بنے ہوئے تھے ،شاہی محل میں بہت سی ایسی خصوصیتیں تھیں جو ''قابلِ ستائش‘‘ ہیں اور جن کا نہ تو سُوسہ کی بیش بہا شوکت اور نہ ریکتبانہ کا جاہ وجلال کوئی مقابلہ کرسکتا ہے۔ باغوں میں پالتو مور اور چکور ہیں۔ کاشت کردہ پودے ... سایہ دار درختوں کے جھنڈ ہیں اور چراگاہیں ہیں جن میں پیڑ اگائے گئے ہیں اور درختوں کی ایسی شاخیں ہیں جنہیں ماہرِ فن باغبانوں نے بڑی ہوشیاری کے ساتھ گوندھا ہے۔ نہایت خوبصورت تالاب بھی ہیں جن میں بہت بڑی بڑی مگر بے ضرر مچھلیاں رکھی جاتی ہیں۔ یہ بات قابلِ توجہ ہے کہ یہ ساری تصویر فارس کے ''فردوس‘‘ کے تصور سے ملتی ہے اور اس کے بارے میں کوئی شبہ نہیں ہوسکتا کہ چندرگپت کے محل کا عام انداز کہاں سے آیا تھا۔
    اس مقام کی اہمیت کو دیکھتے ہوئے یہاں ابھی کافی حد تک کھدائی نہیں ہوئی ہے پھر بھی ابتدائی کاوشیں بے کار نہیں گئی ہیں۔ 1926-27ء میں بلند چوبی ڈھانچوں کے حصے ملے ہیں جو میگاس تھینز کی بیان کردہ قلعہ بندی کی عام طور پر تصدیق کرتے ہیں مگر زیادہ خصوصی اہمیت ان پتھر کے کام کے نمونوں کو حاصل ہے جو وقتاً فوقتاً برآمد ہوئے ہیں۔
    بہت عرصہ پہلے 1896ء میں ایک ستون کا بالائی حصہ ملا تھا جو فارسی ڈھنگ کا ہے۔ اس پر محراب ٹکانے کی جگہ سیڑھی دار ہے۔ دونوں طرف سجاوٹی بیلن سے ہیں اور درمیان میں تاڑ کے پتوں کا روایتی نمونہ کندہ ہے۔ 1855ء میں ایسے ہی ستون کے سرے کا ایک ٹکڑا زمین کے نیچے سے پایا گیا تھا جس پر اکاٹمینی تاڑ کا نمونہ اور منکے اور رِیل کا ڈیزائن بنا ہے۔ یہ دوسرا ٹکڑا گھسا کر چمکایا گیا۔ سینڈ سٹون پتھر کا ہے۔

     

اس صفحے کو مشتہر کریں