1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

ذیابیطس …ایک مہلک بیماری

'میڈیکل سائنس' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏24 نومبر 2020۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    ذیابیطس …ایک مہلک بیماری
    تحریر : ڈاکٹر محمد افضل میاں: سابق صدر پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن
    ذیابیطس یا شوگر کا شمار دنیا میں تیزی سے بڑھنے والے امراض میں کیا جاتا ہے۔ اس وقت دنیا بھر میں 42 کروڑ 22 لاکھ افراد ذیابیطس کا شکار ہیں۔ یہ تعداد 40 برس میں چار گنا ہو گئی ہے ۔ ڈبلیو ایچ او کا یہ بھی اندازہ ہے کہ اگلے 25 سالوں میں یہ تعدادمزید د وگنا ہو جائے گی۔ امریکن ذیابیطس ایسو سی ایشن کا کہنا ہے کہ امریکہ میں 2.90دو کروڑ افراد کو یہ مرض لاحق ہے، ان میں سے اسی لاکھ مریضوں میں اس کی تشخیص ہی نہیں ہوئی۔ڈبلیوا یچ او کے بقول جنوبی ایشیا ء میں ذیابیطس کے مریض تیزی کے ساتھ بڑھنے کے امکانات ہیں۔ پاکستان میں ہر سال ذیابیطس کے مرض سے ڈیڑھ سے دو لاکھ افراد معذور ہو جاتے ہیں۔ ایک حالیہ تحقیق کے مطابق یہاں ہر چار میں سے ایک فرد ذیابیطس کے مرض میں مبتلا ہے اور یہ مرض ہلاکتوں کی آٹھویں بڑی وجہ ہے۔ 2005ء سے اب تک متاثرہ ہلاکتوں میں 50 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ اس مرض کی روک تھام کے لیے موثر اقدامات نہ کرنے کی صورت میں آئندہ 25برسوں میں یہ تعداد 1.4کروڑ تک بڑھنے کا امکان ہے۔ متوازن غذا، منصوبہ بندی، باقاعدہ ورزش یا ادویات کے ذریعے ہی اس پر قابو پایاجا سکتا ہے۔ ذیابیطس کے مریض جلد ہی دل اور گردوں اور آنکھوں کے مرض میں بھی مبتلا ہو جاتے ہیں۔

    قابو نہ پایا گیا تو مریضوں کی تعداد ڈیڑھ کروڑ تک پہنچ سکتی ہے
    صحیح سانس نہ لینے کی صورت میں مریض کو پہلو کے بل لٹا دیں، اس پوزیشن میں سانس کی گزرگاہ کھل جائے گی

    اس مرض سے بچاؤ کے لئے اس کی پیچید گیوں اورعلامات سے آگاہی ضروری ہے، ایسا لبلبے میں پیدا ہونے والے ہارمون ’انسولین‘ کے متاثر ہونے سے ہوتا ہے۔ ماہرین کے مطابق انسولین کی یہ کمی دو طرح کی ہو سکتی ہے۔ایک لبلبے سے انسولین کی پیداوار ہی کم یا ختم ہو جاتی ہے، دوسری لبلے سے انسولین تو پیدا ہوتی رہتی ہے، لیکن کسی وجہ سے اسکا اثر کم ہو جاتا ہے۔ اس کیفیت کو انسولین کی بے اثری بھی کہا جاتا ہے۔ذیابیطس سے متاثر افراد میں مندرجہ ذیل علامات ہو سکتی ہیں، لیکن یاد رکھیے کہ ذیابیطس کی حتمی تشخیص کے لیے خون میں شوگر کی مقدار چیک کرانا لازمی ہے۔
    ذیابیطس (شوگر) کی علامات
    ذیابیطس کی معروف علامات میں تھکاوٹ کا احساس ہونا،بھوک اور پیاس میں اضافہ ، پیشاب کی زیادتی، ہاتھوں یا پیروں کا سن ہونا یا جھنجھناہٹ، انفیکشن کا با ر بار ہونا، بینائی میں دھندلاپن، زخموں کا دیر سے ٹھیک ہونا، خشک کھردری جلد/خارش کا ہونا اور جنسی مسائل شامل ہیں۔ لہٰذا کسی ایک یا زائد علامات کی صورت میں فوری طور پر ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے۔چونکہ ذیابیطس کے بارے میں شوگر ٹیسٹ/سکریننگ سے ہی معلوم ہوتا ہے، اس لیے ایسے افراد جن کی عمر چالیس برس سے زائد ہو، خاندان کے دیگر افراد میں ذیابیطس موجود ہو، خواتین جن کو دوران حمل ذیابیطس ہو چکی ہو، خواتین جنہوں نے 9پونڈ سے زیادہ وزن کے بچے کو جنم دیا ہو اور ہائی بلڈ پریشر کے مریضوں کو احتیاطاًسکریننگ کرواتے رہنا چاہیے ۔
    شوگر کے نقصان دہ اثرات
    موٹی شریانوں پر شوگر کے مضر اثرات میں دل پر اثرات جیسے سینے میں درد اور ہارٹ اٹیک ، دماغ میں خون کابہائو کارک جانا جس کو اسٹروک کہتے ہیں اور پیر اورہاتھوں کی شریانوں کا بند ہونا جس کی وجہ سے ہاتھ اور پیر سن ہو جاتے ہیں شامل ہیں۔ جب کہ باریک شریانوں پر اثرات میں آنکھوں کے پردے پر اثرات سے نظر کا ختم ہونااور گردے کا کام نہ کرنا اور فیل ہو جانا شامل ہے۔
    ذیابیطس کی اقسام
    ذیابیطس کی دو اقسام ہیں۔ ذیابیطس ٹائپ 1۔ بچپن یا اوائل عمری میں ہوتی ہے، اس میں انسولین قدرتی طور پر جسم میں کم پیدا ہوتی ہے ، اس کا علاج انسولین کے بغیر ممکن نہیں۔ جبکہ دوسری قسم ذیابیطس کی معروف قسم ہے جسے ذیابیطس ٹائپ 2کہا جاتا ہے۔ذیابیطس کے مریضوں میں دس میں سے کم از کم نو ٹائپ 2میں مبتلا ہوتے ہیں۔ یہ عموماً بڑی عمر کے افراد میں ہوتی ہے۔
    لو بلڈ شوگر کی علامات
    اس میں کمزوری اور کپکپاہٹ محسوس ہونا، جلد زرد پڑ جانا اور ٹھنڈ سمیت چڑچڑاہٹ، الجھن اور خراب رویے کا مظاہرہ، دل کی دھڑکن کی رفتار اچانک بڑھ جانا اور مریض کا ہوش و حواس کھو دینا یا بے ہوش ہوجانا شامل ہے ۔اس کا امکان ان مریضوں میں زیادہ ہوتا ہے جن میں حال ہی میں ذیابیطس کی تشخیص ہوئی ہو۔ ایسے مریضوں کو اگر وہ اپنی حالت غیر محسوس کررہے ہوںیا چکر آرہے ہو تو کسی کرسی یا فرش پر بیٹھنے میں مدد کرنی چاہیے اور اگر مریض مکمل طور پر ہوش و حواس میں اور الرٹ ہو تو اسے کوئی میٹھا مشروب جیسے فروٹ جوس یا کوئی گلوکوز ٹیبلیٹس دینی چاہیے۔ ذیابیطس کے شکار افراد اکثر اپنے ساتھ گلوکوز کی ڈوز یا کوئی میٹھی چیز رکھتے ہیں، جس کا ڈاکٹر بھی انہیں مشورہ دیتے ہیں۔ اگر مریض کچھ کھانے یا پینے کے بعد فوری طور پر حالت میں بہتری محسوس کرنے لگے تو اسے ایسی غذا دیں جو آہستگی سے کاربوہائیڈریٹ ریلیز کرتی ہو جیسے سینڈوچ، پھل کا ایک ٹکڑا، بسکٹ اور دودھ وغیرہ۔اس کے بعد مریض کو ادویات ڈھونڈنے میں مدد دیں، گھر میں مشین ہو تو گلوکوز لیول چیک کریں اور ضرورت پڑنے پر انسولین دیں۔ مریض کے ساتھ اس وقت تک رہیں جب تک اس کی حالت ٹھیک نہ ہوجائے۔ یہ بات ذہن میں رکھیں کہ اگر حالت زیادہ خراب ہونے لگے تو فوراً ڈاکٹر سے رجوع کریں۔
    بلڈ شوگر بڑھنے کی علامات میں بہت زیادہ پیاس، بہت زیادہ پیشاب آنا (خاص طور پر رات کو)،وزن میں کمی، جلد پر خارش، زخموں کا دیر سے بھرنا اور مریض پر ہر وقت غنودگی طاری رہنا جو بے ہوشی کا باعث بن جائے شامل ہیں۔ اگر مریض گر جائے اور آپ کو بلڈ شوگر میں اضافے کا شبہ ہو تو فوری طور پر اس کی سانس چیک کرنی چاہیے اور ایمرجنسی طبی امداد کے لیے کال کرنی چاہیے۔ اگر مریض صحیح سانس نہیں لے رہا ہو تو اسے پہلو کے بل لٹا دیں، اس پوزیشن میں اس کی سانس کی گزرگاہ کھل جائے گی۔ اگر وہ پہلو کے بل لیٹ نہیں پا رہا تو اس کے حواس، سانس اور دھڑکن کو چیک کریں۔ طبی امداد کے آنے تک بار بار مریض کو چیک کرتے رہیں۔
    ذیابیطس (ٹائپ 2) کا علاج
    ذیابیطس (پائپ 2)کے موجودہ طرز علاج کے تحت درج ذیل طریقوں سے بلڈ شوگر (گلوکوز) کنٹرول کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
    ۱۔ خوراک میں تبدیلی اور اعتدال
    ۲۔ فربہ افراد (overweight)کا وزن کم کروانا۔ جس کے لیے باقاعدہ ورزش اور جسمانی فعالیت والا طرز زندگی اختیار کیا جاتا ہے۔
    ۳۔ مذکورہ بالا اقدامات کے ساتھ ایک یا زائد دوائیں یا انسولین کی ضرورت ہوتی ہے۔
    کورونا اور ذیابیطس
    ذیابیطس کا شکار افراد میں کورونا کے باعث شدید پیچیدگیاں ہونے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔جب بھی ذیابیطس کا مریض کسی بھی وائرس کا شکار ہو تو اس میں اس کی علامات زیادہ شدید ہوتی ہیں اس بناء پر موجودہ حالات میں ذیابیطس کے مریضوں کو کورونا سے بچاؤ کی احتیاطی تدابیر اختیار کرنے میں زیادہ خیال رکھنا چاہیے۔ اگر ذیابیطس کا مریض گلوکوز کی مقدار کو کنٹرول میں رکھتا ہے تو اس سے وہ نہ صرف طبیعت کی خرابی سے بچا رہے گا بلکہ ساتھ ہی ساتھ اس کے کورونا سے متاثر ہونے کے امکانات بھی کم ہو جاتے ہیں۔ کورونا یا دیگر قسم کے وائرل انفیکشن سے بچاؤ کے لیے انسانی جسم اور قوت مدافعت کا مضبوط ہونا شرط اولین ہے جبکہ ذیابیطس یا دیگر بیماریاں جسم کو اس طرح کے انفیکشن سے لڑنا مشکل بنا دیتے ہیں۔
    فری ذیابیطس کلینکس
    پاکستان میں ذیابیطس کے مریضوں کی بڑھتی ہوئی شرح کے پیشِ نظر پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن (پیما) نے 2014ء میں ملک بھر میں فری ذیابیطس کلینکس کا آغاز کیا۔ اس منصوبے کے تحت اب تک مختلف شہروں میں 20کلینکس قائم کیے جا چکے ہیں، جہاں رجسٹرڈ مریضوں کو ہر ماہ مفت ادویات اور سکریننگ کی سہولت مہیا کیا جاتی ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ پیما کے ذیابیطس کے کائونسلر مریضوں کو شوگر کے ساتھ رہنے کے لائف اسٹال کے بارے میں آگاہی فراہم کرتے ہیں اور خوراک کے بارے میں سمجھاتے ہیں۔ لاہور، فیصل آباد، صادق آباد، رحیم یار خان، پتوکی، جڑانوالہ، کوٹ مٹھن، سکھر، خیرپور، ماتلی، شکارپور، گلشن حدید، کراچی، مظفرآباد اور میرپور میں یہ کلینکس قائم کیے جا چکے ہیں۔

     
    ھارون رشید نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں