1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

بچوں کو اپنی حفاظت کرنا سکھائیں .... حماد رضا

'گوشہء خواتین' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏20 نومبر 2020۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:

    بچوں کو اپنی حفاظت کرنا سکھائیں .... حماد رضا

    بچوں کے ساتھ زیادتی کی خبریں تواتر سے اخبارات کی زینت بنتی رہتی ہیں اور ہم میں سے اکثر قارئین ایسی خبروں میں خاص دلچسپی بھی لیتے نظر آتے ہیں کیوں کہ زیادتی کا شکار ہونے والا بچہ یا بچی ہمارے گھر یا خاندان کا کوئ فرد نہیں ہوتا۔ بد قسمتی سے ہم ایسی خبروں کو پڑھنے کی حد تک ہی اہم سمجھتے ہیں۔ چند لمحوں کے لیے ہماری طبیعت میں تھوڑا جذباتی پن بھی آتا ہے، ہم سوشل میڈیا پر جا کر اپنا تھوڑا بہت ابال بھی نکال لیتے ہیں لیکن پھر واقعہ ہمارے ذہن سے محو ہو کر قصہ ماضی بن جاتا ہے اور پھر حکومت ایک اور واقعہ رونما ہونے کا انتظار کرتی ہے۔

    ایسے تمام کیسسز میں اگر دیکھا جائے تو پولیس کا کردار ملزم کو گرفتار کر کے عدالت سے سزا دلوانا ہوتا ہے لیکن ایسے بھیانک واقعات کے بعد متاثرہ بچی یا بچے کے روح پر لگے زخم نہ ہی مجرم کے سزا بھگتنے سے مندمل ہوتے ہیں اور نہ ہی ان کا مداوا دنیا کا کوئی بہترین ڈاکٹر کر سکتا ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم اس قسم کے واقعات رونما ہونے سے پہلے ان کی روک تھام کے لیے اقدامات کریں۔

    یہ ایک دو طرفہ عمل ہے، اگر ہم بچوں کو جنسی تعلیم دینے کی بات کرتے ہیں تو اس کے لیے ضروری ہے کہ پہلے والدین کو اس بارے میں مناسب آگاہی ہو، انھیں کم از کم یہ پتہ ہو کہ بچے کو کس سے خطرہ ہو سکتا ہے، کب ہو سکتا ہے۔ اگر ہم یہ بنیادی باتیں جان لیں تو ایسے واقعات میں خاطر خواہ کمی لائی جاسکتی ہے۔

    اس سلسلے میں والدین سے چند گزارشات ہیں، اکژ دیکھنے میں آیا ہے کہ گھر میں موجود بہت چھوٹے بچوں کو دکان پر سودا سلف لینے کے لیے بھیج دیا جاتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں ایک نہایت کم عمر بچے کو بد قسمتی سے مرد سے تشبیہ دے کر اسے ہر قسم کے خطرات کے لیے آزاد چھوڑ دیا جاتا ہے۔ جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ یہ کمسن ‘مرد’ دو چاکلیٹس کے عوض محلے کے کسی دکاندار کی ہوس کا نشانہ بن جاتا ہے۔

    یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ انتہائی پڑھے لکھے گھرانوں کے بچوں کو بھی کم عمری میں کسی گلی محلے کی نکڑ والی مسجد میں دینی تعلیم کی غرض سے کسی مڈل پاس قاری کے رحم وکرم پر تن تنہا چھوڑ دیا جاتا ہے۔ بچہ تو اس عمر میں ہوتا ہے کہ وہ یہ بھی بتانے سے قاصر ہے کہ اس کے ساتھ ہوا کیا ہے۔ بچے کی دینی تعلیم کا اہتمام گھر پر زیادہ بہتر طور پر کیا جا سکتا ہے۔ اکثر والدین اپنے بچوں کو تن تنہا اپنے کسی ملازم چوکیدار یا کسی باورچی کے سپرد کر کے خود کسی تقریب میں جانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ملازم پر اس لیے اعتماد کر لیا جاتا ہے کہ بھائی یہ تو ہمارا سالوں سے نمک خوار اور وفا دار ہے، اس سے بھلا بچے کو کیونکر خطرہ ہو سکتا ہے۔ ایسے کیسسز میں بچہ وقتاً فوقتاً زیادتی کا نشانہ بنتا رہتا ہے اور شدید ذہنی اور جسمانی کرّب سے گزرتا ہے۔

    بہت سے والدین اپنے بچوں کی ٹیوشن کا گھر پر اہتمام کرتے ہیں اور جس کمرے میں بچہ ٹیوشن پڑھ رہا ہوتا ہے اس طرف تمام گھر والوں کو جانے سے منع کر دیا جاتا ہے۔ حتی کہ کمرے میں جھانکنے تک کی احتیاط کی جاتی ہے کہ کہیں خدا نخواستہ ہمارا بچہ پڑھتے ہوۓ ڈسٹرب نہ ہو جائے۔

    آج کل کے مصروف دور میں چونکہ ہر کسی کو وقت کی قلت کا سامنا ہے، اس لیے والدین کی اکثریت اسکول کے پک اینڈ ڈراپ کے لیے رکشہ ڈرائیوروں پر انحصار کرتی نظر آتی ہے، رکشہ ڈرائیور سے صرف مہینے کی اجرت کے متعلق پوچھ گچھ کی جاتی ہے۔ اس بات کی کوئی تحقیق نہیں کی جاتی کہ آپ اپنے بچے کو کس کردار کے رکشہ ڈرائیور کے سپرد کر رہے ہیں۔ بعض دفعہ بچہ معاشرے کے ان کرداروں کی وجہ سے جنسی ہراسگی کا شکار ہوتا رہتا ہے۔

    بعض لوگ بچوں سے لاڈ پیار کے بہانے بھی اپنے مذموم مقاصد پورے کرنے کی کوشش کرتے ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جنہیں ہم انکل کا خطاب دے کر بچے کے لیے تحفظ کا سرٹیفکیٹ ایشو کر دیتے ہیں۔ یہ وہ غلطیاں ہیں جن کی وجہ سے ہم ان شیطان صفت لوگوں کو خود اپنے گھر نقب لگانے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔

    ان واقعات کو روکنے کیلئے ہمیں اپنے بچوں کو اعتماد میں لے کر انھیں گڈ ٹچ اور بیڈ ٹچ کے بارے میں آگاہ کرنا ہو گا تا کہ وہ باہر کسی کی بلیک میلنگ کا شکار نہ ہو سکیں۔ جتنا آپ اپنے بچے کا خود خیال رکھ سکتے ہیں اتنا کوئی اور نہیں رکھ سکتا۔ آپ سے بہتر آپ کے بچے کا کوئ مددگار نہیں اور بطور والدین ہمیں اپنے بچوں سے ایسے معامعلات پر بات کرنے کی گنجائش نکالنی ہو گی اور ان خطرات سے متعلق ان کو آگاہ کرنا ہو گا۔ بچوں کو اس مناسب تربیت سے اس قابل بنایا جا سکتا ہے کہ وہ اپنی حفاظت خود کر سکیں۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں