1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

دھندلا گیا ہے ہر منظر ۔۔۔۔۔ طارق حبیب

'کالم اور تبصرے' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏30 اکتوبر 2020۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    دھندلا گیا ہے ہر منظر ۔۔۔۔۔ طارق حبیب

    ہوا یہ کہ چھوٹے صاحبزادے نے جب مجھے اپنا جمپنگ پیڈ سمجھ کر اچھل کود شروع کی تو میں نیند سے ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا۔ موصوف کو سکول کے بجائے گھر میں اُدھم مچاتے دیکھ کر سخت غصہ آیا۔ کورونا کے باعث طویل تعطیلات کے بعد خدا خدا کر کے تو سکول کھلے تھے۔ اب بھی اگر بچوں کی دھماچوکڑی کو ہم نے ہی برداشت کرنا تھا تو سکول میں فیس دینے کا کیا مقصد؟ خیر! کھوج لگانے پر پتا چلا کہ ہمارے دونوں سپوت کھانسی و زکام کے باعث حصولِ علم سے چھٹی پر ہیں۔ جس دن بچے چھٹی پر ہوں‘ اس دن ہماری ڈیوٹی صبح سویرے ہی شروع ہو جاتی ہے۔ آج بھی یہی ہوا، جب اپنے ہونہاروں کو معالج خصوصی کے پاس لے کر گئے تو والدین کی بڑی تعداد کو بچوں کے ساتھ ہسپتال میں دیکھ کر جھجک ختم ہوگئی کہ ہم اکیلے ہی نہیں جو اس ڈیوٹی پر مامور کیے گئے ہیں۔ معالج محترم نے دوران تشخیص بتایا کہ سموگ نے اپنا اثر دکھانا شروع کر دیا ہے، اب بچوں کے ساتھ ساتھ والدین کو بھی احتیاط کی ضرورت ہے۔ گھر کے معالج کے فوائد اپنی جگہ، نقصان یہ ہے کہ وہ اپنے ''کلائنٹ‘‘ کے جملہ امراض کے ساتھ ساتھ اس کی جیب کی حالت زار سے بھی بخوبی آگاہ ہوتا ہے۔ انسدادِ مرض کا نسخہ تجویز کرتے وقت شخصی کمزوریوں پر بھی بخوبی نگاہ کرتا ہے۔ سو‘ ہمیں بھی نسخہ تھماتے وقت ادویات کی آسمان کو چھوتی قیمتوں کے ساتھ ساتھ یہ بھی بتا دیا گیا کہ اگر احتیاطی تدابیر اختیار کرنے میں حسبِ معمول لاپروائی برتی گئی تو آئندہ ماہ راشن کم لیجئے گا تاکہ ادویات کا سلسلہ جاری رکھا جا سکے۔ ماہانہ بجٹ آئوٹ ہونا ایسی دھمکی تھی جو ہمارے سارے کس بل سیکنڈز میں نکال دیتی تھی۔ سو اب بھی یہی ہوا، بچوں کو گھر لے کر گئے اور سمجھا دیا کہ معالج خصوصی کے گھر آنے سے قبل باہر نکلنے کی صورت میں سنگین نتائج بھگتنا ہوں گے۔
    گھریلو فرائض کی انجام دہی کے بعد جب دفتری امور نمٹانے کو نکلے تو تحقیقاتی صحافت کی رگ پھڑک چکی تھی۔ کھوجا تو جانا کہ سموگ کوئی قدرتی عمل نہیں ہے بلکہ یہ آلودگی کی وہ قسم ہے جو بدانتظامی کے باعث جنم لیتی ہے۔ یہ اکتوبر تا وسط دسمبر، آنکھوں میں جلن، گلے میں سوزش اور نزلہ و زکام کی صورت حکومت کی انتظامی نااہلی ثابت کرتی ہے۔ تحقیقاتی صحافت کی رگ پوری طرح بیدار ہو چکی تھی‘ سو محکمہ ماحولیات کے ایک دوست سے ملاقات کی کوشش کی تو اس نے بھی بیماری کے باعث ملاقات کے لیے گھر بلا لیا۔ اب جو ان کے گھر پہنچے تو ہمیں تو ان کی بیماری بھی سموگ کا ہی شاخسانہ لگی؛ تاہم جب انہیں معلوم ہوا کہ ہم بھی سموگ کے حوالے سے بات کرنے آئے ہیں تو وہ اپنی بیماری کو سموگ کا نتیجہ بتانے سے یکسر انکاری ہو گئے۔ بات سے بات نکلی تو پتا چلا کہ اکتوبر کے مہینے میں ہوا کا دبائو کم ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے آلودگی پھیلانے والے عناصر وہیں فضا میں معلق ہو کر رہ جاتے ہیں جہاں سے یہ خارج ہوتے ہیں، یہی وجہ سموگ کا باعث بنتی ہے۔ انتظامی طور پر سموگ کے خاتمے کی کوششیں کرنے یا اس کے لیے اقدامات کرنے کے بجائے صرف جگاڑ کے ذریعے وقت گزارنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
    اب جو جنم کنڈلی کھولی تو معلوم پڑا کہ ویسے تو دنیا میں سموگ کی اصطلاح پہلی بار 1990ء کی دہائی میں سننے کو ملی تھی مگر پاکستان میں اس کا وار 2016ء میں دیکھا گیا جب پہلی بار دھند اور دھویں کا ملاپ ہوا اور اس ملاپ نے لاہور کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ اس وقت محکمہ تحفظ ماحولیات خواب خرگوش کے مزے لے رہا تھا اور سموگ کے اثرات بھی اس کے آرام میں خلل نہ ڈال سکے۔ نیند کا یہ سلسلہ اس وقت ٹوٹا جب عدالت نے وضاحت طلب کر لی اور محکمہ ماحولیات کو ہوا کے معیار میں بہتری لانے کی ہدایت جاری کیں۔ پھر صرف پالیسی تشکیل دینے میں ایک سال لگ گیا۔ 2018ء میں ہوا کے معیار کے حوالے سے عدالتِ عظمیٰ نے نوٹس لیا۔ محکمہ تحفظ ماحولیات کی اہلیت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ عدالت کی جانب سے نوٹس لینے کے بعد کچھ مستعدی دکھائی جاتی ہے۔ سموگ ہیلتھ ایمرجنسی ایکشن پلان کے نام پر جو تجاویز دی گئی تھیں‘ ماہرین انہیں حکومتی خواہشات کی فہرست قرار دیتے ہیں۔
    ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
    اب کہا یہ جاتا ہے کہ صنعتیں، اینٹوں کے بھٹوں، فصلوں کو جلانے، تعمیراتی و ٹریفک کے باعث پیدا ہونے والا دھواں سموگ کی بنیادی وجوہات ہیں۔ یعنی یہ تو تصدیق شدہ ہے کہ یہ کوئی قدرتی آفت نہیں، انتظامی طور پر اسے قابو کیا جا سکتا ہے‘ اگر اس کی اہلیت ہو۔ سٹیٹ آف گلوبل ایئر کی رپورٹ بتاتی ہے کہ عالمی سطح پر چین بدترین ہوائی آلودگی کا شکار تھا مگر بہترین اقدامات کے ذریعے نہ صرف اب اس مسئلے پر قابو پا چکا ہے بلکہ اب اس کی ہوا کا معیار انتہائی مستحکم ہو چکا ہے۔ اگر سیکھنا چاہیں تو ہمارے پڑوس میں مثالیں موجود ہیں‘ مگر سیکھے کون؟
    ادھر صورتِ حال یہ ہے کہ انتظامیہ کے پاس سموگ کا باعث بننے والے عوامل کے حوالے سے کوئی ڈیٹا ہی موجود نہیں ہے‘ جس کی بنیاد پر کوئی منصوبہ بندی کی جا سکے۔ ماہرین سر پیٹ رہے ہیں کہ بین الاقوامی سطح پر سموگ کی جانچ کے لیے جو پیمانے مقرر ہیں‘ ہم اس کے قریب بھی نہیں ہیں۔ بس ایک معمول کا عمل ہے کہ جیسے ہی سموگ شروع ہوتی ہے‘ اینٹوں کے بھٹے بند کرنے اور کسانوں کو فصلوں کو آگ لگانے سے روکنے کی ہدایات جاری کر دی جاتی ہیں۔ پھر پلٹ کر یہ بھی نہیں دیکھا جاتا کہ ان ہدایات پر عمل ہوا یا نہیں، اس کے لیے شاید الگ محکمہ بنانا پڑے۔ کسان شکایت کرتے ہیں کہ فصل کی باقیات جلانے سے روکنے اور متبادل طریقہ اختیار کرنے کے حوالے سے کسانوں کو ہدایات تو جاری کر دی جاتی ہیں مگر یہ نہیں بتایا جاتا کہ متبادل طریقہ کون سا ہے، نہ اس حوالے سے ان کی کوئی تربیت کی جاتی ہے۔ اسی طرح بھٹہ مالکان کہتے ہیں کہ ہمیں زگ زیگ ٹیکنالوجی اختیار کرنے کا کہا جاتا ہے، مگر اس حوالے سے کوئی رہنمائی نہیں کی گئی۔ جب چند بھٹہ مالکان نے یوٹیوب کو استاد بناتے ہوئے یہ ٹیکنالوجی اپنائی تو انہیں سخت نقصان اٹھانا پڑا۔ بھٹہ مالکان رضاکارانہ طور پر اس ٹیکنالوجی کے استعمال کے لیے تیار ہیں اگر انہیں ٹیکنالوجی کے استعمال کی تربیت دے دی جائے۔ ماہرین اس صورتِ حال سے پریشان ہیں ، وہ چیخ رہے ہیں کہ صورتِ حال بد سے بدتر ہوتی جا رہی ہے۔ لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز کی ایک ریسرچ کا حوالہ بھی موجود ہے جس میں سیٹلائٹ کے ڈیٹا کی مدد سے فصلوں کی باقیات کو آگ لگانے کے پیٹرن کو سمجھنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور اس سے یہ سامنے آیا کہ 2013ء کے بعد سے شمالی پنجاب میں فصل کی باقیات جلانے کے عمل میں بے پناہ اضافہ ہو چکا ہے۔
    اب اگر کوئی واقعتاً سموگ کے خاتمے میں سنجیدہ ہے‘ تو اسے سب سے پہلے ماہرین کی مشاورت سے ڈیٹا مرتب کرنا چاہیے، بھٹہ مالکان کو زگ زیگ ٹیکنالوجی کے استعمال کی تربیت دینے کے ساتھ ساتھ انہیں مالی معاونت بھی فراہم کرنی چاہیے، کسانوں کو فصلوں کی باقیات جلانے سے روکنے اور متبادل راستہ اختیار کرنے کے حوالے سے شعور دینا چاہیے۔ صرف آنیاں جانیاں دکھانے سے کچھ نہیں ہوگا، اگر عملی اقدامات نہ کیے گئے تو آئندہ سالوں میں کورونا کی طرح سموگ کے باعث بھی لاک ڈائون کرنا پڑے گا۔

     

اس صفحے کو مشتہر کریں