1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

تعلیم سے شعور پائیں ۔۔۔۔۔ نجف زہرا تقوی

'گوشہء خواتین' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏20 اکتوبر 2020۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    تعلیم سے شعور پائیں ۔۔۔۔۔ نجف زہرا تقوی

    اسے غرور مت بنائیں با علم لڑکیوں کی شادی میں تاخیر کی بڑی وجہ ’’معیار‘‘ کی گردان ہے

    انسان کو بار بار ’’کم پر راضی‘‘ہو جانے کا حکم دیا گیا ہے ،کیوں؟

    تا کہ اسے اور عطا کیا جائے۔کس قدر خوبصورت ،سادہ اور آسان بات ہے،مگر کیا ،کیا جائے انسان کی ناقص عقل کا جو اس کا مفہوم سمجھنے سے قاصر ہے۔یہ تلاش میں ہے تو زیادہ کی،خواہش کرتا ہے تو بے شمار کی اور خبر اگلے پل کی بھی نہیں۔یہ ہمارے رویے ہی ہیں جو زندگی کو مشکل بنائے جا رہے ہیں۔اپنی سوچ کا خلل ہے جس نے جینا دوبھر کر دیا ہے۔اپنے معاملات کو اختیار میں رکھنے کے چکر میں خود کو ذہنی مریض بنا رہے ہیں۔ایک معیار کا تعین کر لیا ہے کہ اس سے کم تو کسی صورت قبول ہی نہیں۔یہ رویہ جگہ،جگہ دیکھنے کو مل رہا ہے پھر وہ چاہے نوکری ہو،گھر،گاڑی یا شادی،ہر چیز ہمیں معیاری چاہیے۔معیار کو اہم سمجھنے میں کوئی بُرائی نہیں لیکن سوچنا یہ ہے کہ ہم جسے معیار کا نام دے رہے ہیں وہ کہیں ہماری انا یا غرور تو نہیں۔آج شادیوں میں تاخیر کی بڑی وجہ بھی اسی ’’معیار‘‘کی گردان ہے۔یہ کس طرح رشتے ہونے میں رکاوٹ پیدا کر کے ہماری زندگیوں پر اثر انداز ہو رہا ہے اس حوالے سے ہم نے ماہرِ نفسیات ’’قرۃالعین جمیل‘‘سے اہم معلومات حاصل کیں جو قارئین کی نذر ہیں۔

    آج کل کے دور میں لوگ نفسیاتی طور پر بہت پریشان ہیں۔کہیں کسی کے مالی حالات خراب ہیں تو کوئی اپنی ازدواجی زندگی کی الجھنوں میں مبتلا ہے ،کسی کے والدین سے تعلقات بحال نہیں ہوتے تو کوئی شادی کی رکاوٹوں سے پریشان ہے جیسے اچھے رشتے نہ ملنا وغیرہ۔ان ہی کچھ پریشانیوں میں سے ایک سب سے بڑا مسئلہ جو آج کل تقریباً ہر گھر میں دیکھنے کو مل رہا ہے وہ لوگوں کااپنے معیار کے مطابق رشتے نہ ملنے کا شکوہ ہے۔بیشتر گھروں میں لڑکیاں اسی انتظار میں گھر بیٹھے بوڑھی ہو رہی ہیں کہ کوئی ’’اپنے مطابق‘‘رشتہ ملے تو شادی کریں۔

    اس کی وجہ ڈھونڈی جائے تو یہی سمجھ آتا ہے کہ لوگوں کے مطابق ان کے معیارِ زندگی کے ساتھ شادی میں بھی ایک معیار ہونا چاہیے۔پہلے کے زمانے میں لڑکیوں کے رشتے اس لیے قبول نہیں کیے جاتے تھے کیونکہ ان کے پاس تعلیم،عقل و شعور کی کمی ہوا کرتی تھی،اور لڑکوں کے والدین کے خواب اور خواہشات بیٹے کی تعلیم اور تنخواہ پر منحصر ہوتے تھے۔اسی پہلو کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے بہت سے والدین نے اپنی سوچ کو نیا رُخ دیا اور اپنی بیٹیوں کو تعلیم حاصل کروانی شروع کی تا کہ کل کو ان کی زندگی بہتر ہو اور وہ اچھے گھروں میں جا کر آباد ہوں،لیکن جوں جوں لڑکیوں کی تعلیم کو زیادہ اہمیت دی جانے لگی اتنی ہی تیزی سے ان کے دلوں میں زیادہ علم حاصل کرنے کی جگہ بڑھتی چلی گئی۔شروعات میں لڑکیوں کو میڑک تک تعلیم دلوائی جانے لگی،پھر گریجویشن ،اس کے بعد ماسٹرز اور اب تو پی ایچ ڈی بھی عام سی بات ہونے لگی ہے۔آج ہر گھر میں موجود لڑکی نہ صرف اچھی اور اعلیٰ درجے کی تعلیم حاصل کر رہی ہے بلکہ لڑکوں کو اس میدان میں پیچھے چھوڑ رہی ہیں۔اگر اس تعلیمی نظریے سے دیکھا جائے تو یہ یقینا ایک مثبت عمل بھی ہے،لیکن دوسری جانب اس سے پیدا ہونے والی مشکلات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔جہاں لڑکیوں نے تعلیمی میدان میں اپنی جگہ بنائی ہے وہیں لڑکوں کا پڑھائی کی طرف رجحان کم ہوتا جا رہا ہے۔اس کی ایک بڑی وجہ یہ سامنے آئی ہے کہ لڑکیاں پڑھ لکھ کر خود مختار ہو گئی ہیں اور وہ خود کما کر اپنی تما م خواہشات پوری کر لیتی ہیں۔اس لیے آج کل لڑکے بھی ایسی لڑکیوں کے رشتے حاصل کرنے کے خواہش مند ہیں جو کما سکیں ،جبکہ دوسری جانب لڑکیاں شادی کے لیے اپنی مرضی اور تعلیمی قابلیت کی بناء پر لڑکوں کے رشتے قبول کرتی ہیں۔

    کچھ لڑکے اس قابلیت کی جنگ میں آگے بڑھ کر لڑکیوں کے معیار پر پورے اُترتے بھی ہیں ،جو ہر لڑکی کی ترجیح ہوتے ہیں۔لڑکیاں خود چاہے جتنا بھی کما لیں انہیں شوہر ایسا ہی چاہیے جو قابلیت میں نہ صرف ان کے برابر ہو بلکہ ان سے زیادہ کماتا بھی ہو۔یہ سوچ رشتوں کے چنائو میں مشکلات پیدا کرنے کی بہت بڑی وجہ ہے۔اس طرح کے لڑکے حاصل کرنے کی خواہش مند لڑکیاں پہلے ہی اپنا کیریئر بنانے اور تعلیم حاصل کرنے میں آدھی زندگی گزار چکی ہوتی ہیں،اوپر سے ’’آئیڈیل‘‘شوہر کی تلاش میں ان کی مزید عمر گزرنے لگتی ہے۔جس کے بعد یہ جملہ انہیں سننا ہی پڑتا ہے کہ’’اتنی عمر ہو گئی اور ابھی تک شادی نہیں ہوئی‘‘اور اس کا جواب وہ کچھ یوں دیتی ہیں کہ ’’کوئی ڈھنگ کا رشتہ آئے تو کریں نا‘‘۔اب خدا جانے ان کے نزدیک ڈھنگ کا مطلب کیا ہے۔اسی طرح زندگی کے کچھ اور سال گزر جاتے ہیں اور ان کی عمر حقیقتاً ڈھلنے لگتی ہے اور معاشرے کا دبائو بھی بڑھتا ہے تو یہ ذہنی طور پر کوفت اور پریشانی کا شکار ہونے لگتی ہیں۔شروع میں جن لوگوں کی باتوں کو یہ اہمیت دینا پسند نہیں کرتی تھیں ایک وقت کے بعد انہی کے جملے انہیں ڈپریشن کا شکار بنانے لگتے ہیں،اور یہ انتظار کرنے لگتی ہیں کہ جلد کوئی اچھا رشتہ مل جائے۔یہ وہ وقت شروع ہوتا ہے جب ایسے رشتے تو آتے ہیں جو لڑکی کے معیار پر پورے اترتے ہیں لیکن لڑکے والوں کی طرف سے لڑکی کی عمر کو وجہ بنا کر انکار کر دیا جاتا ہے،اور ’’مسترد‘‘کیے جانے کی تکلیف کسی بھی عمر میں کوئی بھی انسان برداشت نہیں کر پاتا۔انسان کے اندر احساسِ کمتری پیدا کرنے کے لیے ایک بار مسترد کر دیے جانا ہی کافی ہوتا ہے،اور جس لڑکی کے چار سے پانچ رشتے ہونے سے پہلے ہی ختم ہو جائیں تو اس کی ذہنی کیفیت کا اندازہ لگانا بھی مشکل ہے۔احساسِ کمتری اسے اندر سے کھوکھلا کرتا جاتا ہے کہ شاید اس کے اندر کوئی خاص کمی ہے جو کسی کو قبول نہیں۔

    حال ہی میں ایک تحقیق کی گئی کہ جن لڑکیوں کی شادی نہیں ہو رہی اور ان کی عمر بھی زیادہ ہوتی جاتی ہے تو اس کا اثر ان کی زندگی اورشخصیت پر کیسے پڑتا ہے؟تو نتیجہ کچھ یوں سامنے آیا کہ ایسی لڑکیاں جو تعلیم اور نوکری کرنے کے چکر میں رشتوں سے انکار کرتی ہیں ایک وقت کے بعد کوفت کا شکار ہونے لگتی ہیں۔یہ ذہن میں اپنے معیار کا تعین کر لیتی ہیں جس کے بعد نہ ’’کم ‘‘پر راضی ہوتی ہیں اور نہ شادی میں مزید تاخیر چاہتی ہیں۔جس کا نتیجہ دماغی بیماریوں کی صورت میں ظاہر ہونے لگتا ہے۔ایسی لڑکیوں پر معاشرتی دبائو تو ہوتا ہی ہے ساتھ دیر سے شادی ہونے یا نہ ہونے کی وجہ سے گھریلو رشتے جیسے ماں،باپ اور بہن بھائی بھی طعنے دینے لگتے ہیں۔جس کی وجہ سے معاشرتی اور ذہنی دبائو کی شکار خواتین کو خود سے نفرت ہونے لگتی ہے اور وہ تنہائی پسند ہو جاتی ہیں،جہاں سے اگلی منزل ڈپریشن ہوتی ہے۔آج کل کی لڑکیوں سے گزارش ہے کہ تعلیم سلیقہ اور شعور دیتی ہے ۔تعلیم حاصل کرنے کے بعد عاجزی پسند ہوں تا کہ لوگ بھی آپ کو پسند کر سکیں اور آپ اپنا گھر بسا سکیں،ورنہ تعلیم اور اس کا غرور شخصیت کو برباد بھی کر سکتا ہے۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں