1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

حکایت مولانا رومیؒ ریچھ کی دوستی

'اردو ادب' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏19 اکتوبر 2020۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    حکایت مولانا رومیؒ ریچھ کی دوستی

    ایک شہ زور پہلوان جنگل میں سے گزر رہا تھا۔ کیا دیکھتا ہے کہ ایک زبردست اژدہے نے ریچھ کو قابو میں کر رکھا ہے،ریچھ نے اپنے بچائو کی کوششیں کیں ،لیکن ہار چکا ہے ۔ ایک پہلوان کو ریچھ پر ترس آیا اور اژدہے کو تلوار کے ایک ہی وار سے ہلاک کر دیا۔اژدہے کو ایسے دائو سے تلوار ماری کہ ریچھ پر ایک خراش تک نہ آئی۔ پہلوان کے پاس زور بازو بھی تھا اور دائو پیچ بھی خوب جانتا تھا۔ اس کے برعکس اژدہے کے پاس قوت تو تھی، مگر دائو پیچ سے آگاہ نہ تھا۔ غرض ریچھ کی جان بچ گئی اور وہ اس جواں مرد قوی ہیکل پہلوان کا اس طرح شکرگزار ہوا کہ اس کے پیچھے پیچھے ہولیا۔
    اژدہے کے قبضے سے ریچھ کو چھڑانے میں پہلوان کو کچھ قوت صرف کرنی پڑی تھی اور ویسے بھی وہ لمبا فاصلہ طے کر کے آ رہا تھا۔ تھوڑی دیر سستانے کے لیے ایک درخت کی چھائوں میں لیٹ گیا۔ ریچھ ازراہِ اُلفت پاسبانی کے فرائض انجام دینے لگا۔ اتفاق سے اسی وقت ایک اور شخص ادھر سے گزرا۔ اس نے ریچھ اور آدمی کی دوستی کا یہ حال دیکھا تو پہلوان کے پاس آیا اور کہنے لگا :''بھائی! تو کون ہے اور اس ریچھ سے دوستی کیسے ہوئی؟‘‘
    پہلوان نے اسے سارا قصہ سنایا۔ راہ گیر نے حیرت سے دانتوں میں انگلی دبا لی۔ پہلوان سے کہنے لگا، ''معلوم ہوتا ہے تو بہت سادہ لوح ہے۔ تیری اور ریچھ کی کیسی دوستی؟ خبردار! اس حیوان پر اعتماد نہ کرنا ورنہ خطا کھائے گا۔ بے وقوف کی دوستی دشمنی سے بدتر ہے۔ جس طرح بھی ممکن ہو، اس ریچھ سے چھٹکارا حاصل کر ‘‘۔
    پہلوان نے جواب دیا، ''خدا کی قسم، تو یہ بات حسد کے جذبے سے مجبور ہو کر کہہ رہا ہے، ریچھ کو مت دیکھ اس کی محبت اور الفت کا دھیان کر ، کس طرح مجھ سے محبت دکھا رہا ہے ، میں اسے ہرگز ،ہرگزنہ بھگائوں گا۔‘‘
    راہ گیر نے کہا ''ارے بھائی! میری نصیحت پر غور کر۔ نادانوں اور بے وقوفوں کی محبت پائیدار نہیں ہوتی۔ بھلا مجھے کیا ضرورت پڑی ہے حسد کرنے کی؟ اور بالفرض حسد ہو بھی تو یہ ریچھ کی محبت سے بہتر ہے کہ مجھے اپنا رفیق بنا لے۔ میں ہر ممکن خدمت بجالانے کو تیار ہوں۔میرا دل ڈرتا ہے کہ تیری اس کی دوستی کا نتیجہ برا نکلے گا۔ یہ وہم نہیں، میں مومن ہوں اور سچ بات کہتا ہوں۔ دیکھ، اس آتش کدے سے دور ہو جا۔‘‘
    غرض اس شریف النفس راہ گیر نے پہلوان کو ہر چند برا بھلا سمجھایا لیکن اس کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ سچ ہے کہ بدگمانی انسان کی عقل و خرد کے آگے دیوار بن کر کھڑی ہو جاتی ہے۔ راہ گیر نے آخر میں کہا ''اچھا بھائی! ہم نے تجھے نیک و بد خوب سمجھا دیا۔ اب تو مان نہ مان، ہم چلتے ہیں۔ خدا تیرا حافظ و نگہبان ہو۔‘‘
    پہلوان نے دُرشتی سے کہا : ''چل چل، یہاں سے نکل ۔ بڑا آیا میرا خیر خواہ بن کر، جان نہ پہچان بڑی خالہ سلام۔‘‘
    راہ گیر نے چلتے چلتے پھر کہا ''اب بھی موقع ہے، میری بات مان لے۔ دیکھ خدا جانتا ہے میں تیرا دشمن نہیں ہوں۔ریچھ کو بھگا دے۔‘‘
    پہلوان نے ناراض ہو کر کہا: ''جاتا ہے یا اٹھوں، کیا شور کر رکھا ہے؟ میرا پیچھا چھوڑ اور اپنا راستہ ناپو۔ خبردار جو اب اِدھر آیا۔‘‘
    ہائے افسوس! وہ پہلوان کس قدر احمق اور بدگمان تھا۔ اس نے اپنی بدگمانی اور حماقت کے سبب دور اندیش ناصح پر حسد کی تہمت لگائی اور ریچھ کو محبت اور وفا کا نشان سمجھا۔ جب اس مردِ مومن نے دیکھا کہ بے وقوف پر کوئی نصیحت کارگر نہیں ہوتی تو لاحول پڑھتا ہوا وہاں سے رخصت ہوا ۔جی میں کہا کہ میں نے اِتمام حجت کر دی۔ اسے نیک و بد اچھی طرح بتا دیا۔ اب بھی نہ مانے تو اپنی بربادی کا خود ذمے دار ہے۔ ایسے لوگوں سے پرے ہٹ جانا ہی بہتر ہے۔
    اِدھر پہلوان کی آنکھیں ٹھنڈی ہوا کے جھونکوں کے اثر سے بند ہونے لگیں اور خراٹے لینے لگا۔ ریچھ قریب بیٹھا مکھیاں اڑاتا رہا۔ لیکن مکھیاں بار بار آنے لگیں اور انہیں اڑاتے اڑاتے تنگ آگیا۔ آخر کا وہ طیش میں آکر اٹھا اور دوڑتا ہوا ایک ٹیلے کی طرف گیا۔ وہاں سے بڑا سا پتھر اٹھا کر لایا، اس دوران بے شمار مکھیاں پہلوان کے منہ پر بھنبھنا رہی تھیں۔ ریچھ نے وہ بھاری پتھر پہلوان کے منہ پردے مارا ، اپنی دانست میں اس نے یہ پتھر مکھیوں پر مارا تھا لیکن بدنصیب پہلوان کا منہ چٹنی بن گیا۔
    سچ ہے، نادان کی دوستی ایسی ہی ہوتی ہے۔ اس کی دوستی بھی عین دشمنی ہوتی ہے ۔ خدا ایسی محبت سے محفوظ رکھے۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں