1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

زہدوتقویٰ کا پیکر ۔۔۔۔۔ صاحبزادہ پیر مختار احمد جمال تونسوی

'عظیم بندگانِ الہی' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏7 اکتوبر 2020۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    زہدوتقویٰ کا پیکر ۔۔۔۔۔ صاحبزادہ پیر مختار احمد جمال تونسوی

    حضرت داتا گنج بخش علی ہجویریؒ قرآن وحدیث کے اعلیٰ پائے کے عالم،زہد وتقویٰ ،متقی وپرہیزگاراور کشف وکرامات میں اپنی مثال آپ تھے۔
    حضرت داتا گنج بخش علی ہجویریؒ نے حضرت شیخ ابو الفضل ختلیؒ کے علاوہ،دو بزرگ (جن کا شمار اپنے زمانے کے باکمال علماء واولیاء اللہ میں ہوتا تھا)ابو سعید ابو الخیرؒاور امام ابو القاسم قشیریؒ سے بھی خصوصی فیض حاصل کیا۔آپؒ حضرت امام ابو حنیفہؒ کے مقلد تھے۔ اپنے دل میں اُن کیلئے بے حد محبت اور عقیدت رکھتے تھے۔آپؒ اپنی زندگی کا ایک خاص اور سبق آموز واقع بیان فرماتے ہیں کہ ’’ایک مرتبہ میں عراق میں تھا ۔ مجھے دنیا کمانے اور خرچ کرنے میں بڑی دلیری اور جرا ٔت حاصل ہوگئی ،حتیٰ کہ جس کسی کو کوئی بھی ضرورت پیش آتی تو وہ میرے پاس چلا آتااور میں اسکی ضرورت پوری کردیتاکیوں کہ میں چاہتا تھا کہ کوئی بھی شخص میرے ہاں سے خالی ہاتھ واپس نہ جائے۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ میری اپنی کمائی اس غرض سے کم پڑنے لگی اور دوسروں کی ضروریات پوری کرنے کی غرض سے مجھے قرض لینا پڑتا،یوں میں چند ہی دنوں میں خاصا مقروض ہوگیااور سخت پریشانی کا شکار ہوگیا۔اُس دور کے ایک بزرگ نے میرے احوال کو دیکھتے ہوئے مجھے نصیحت فرمائی کہ دیکھو!یہ تو ہوائے نفس ہے ۔اِس قسم کے کاموں میں پڑ کر کہیں خدا سے دور نہ ہو جانا۔جو ضرورت مند ہے اس کی احتیاج تو ضرور پوری کرومگر پروردگارِ عالم کی ساری مخلوق کے کفیل بننے کی کوشس نہ کروکیوں کہ انسانوں کی کفالت کا فریضہ خودربِ قدوس نے انجام دینا ہے۔مجھے اُس بزرگ کی نصیحت سے اطمینانِ قلب حاصل ہوا ۔‘‘

    آپؒ کی ازدواجی زندگی کے بارے میں تاریخ کے ورق صرف اتنا ہی بتاتے ہیں کہ آپؒ رشتہء ازدواج میں منسلک ہوئے تھے مگر تھوڑے ہی عرصہ کے بعد بیوی سے علیحدگی ہوگئی۔اورپھر تاحیات دوسری شادی نہ کی۔لاہور میںہر طرف ہندومذہب کے پیرو کار اور پیشوائوں کا دور دورہ تھا۔مگر آپؒ کی،شریعتِ مطہرہ کی پابندی،بے داغ اور دلکش سیرت،اور شفقت ومحبت سے بھرپور شخصیت لوگوں کو کفرو شرک کی دلدل سے نکال کر ’’صراطِ مستقیم‘‘ کی طرف گامزن کرنے کا باعث بنی۔فقط رضائے الہٰی کی خاطر آپؒ نے خلوصِ دل سے دین کی ترویج واشاعت کا بیڑہ اُٹھایا،اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے آپؒ کے ارشاداتِ عالیہ اور مواعظِ حسنہ کی اثر انگیزی سے لوگ اسلام کی حقانیت کو سمجھتے ہوئے جوق درجوق دائرہء اسلام میں داخل ہونے لگے اورآپؒ کے دستِ حق پر بیعت ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔یہی وجہ ہے کہ حضرت داتا گنج بخش علی ہجویریؒ کے حسنِ اخلاق اور مزاجِ کریمانہ اورنگاہِ فیض کے باعث جو خوش قسمت لوگ آپؒ کے دستِ حق پر مشرف بہ اسلام ہوئے،وہ نہ صرف خود ،تادمِ واپسیں،دامنِ مصطفیٰﷺ تھامتے ہوئے ’’شجرِ اسلام‘‘سے وابستہ اور اُس پہ قائم رہے، بلکہ اُن کی نسلیں بھی تقریباًساڑھے نوسو سال گزرنے کے باوجود اسلام پر قائم ودائم ہیں۔ آپؒہمہ وقت اپنے حقیقی خالق ومالک کی یاد میں مصروف رہتے تھے۔اللہ رب العزت نے آپؒ کو وہ شان عطا فرمائی کہ لوگ آپؒ کے پاس کھچے چلے آتے اور آپؒ کے نورانیت سے بھرپور چہرہء انور کو دیکھ کر ایمان کی دولت سے مالا مال ہوجاتے تھے۔ ایک بار خواجہ غریب نوازؒ لاہور تشریف لائے اور حضرت داتا گنج بخش علی ہجویریؒ کے مزارِ اقدس پر حاضری دی اور ایک حجرہ میں چالیس دن کا چلہ کاٹا اور عبادت وریاضت میں مصروف رہے،اِس دوران حضور داتا صاحبؒ نے جو فیوض برکات کی بارش آپؒ پرکی ،اس کا اندازہ خواجہ غریب نواز ہی لگا سکتے ہیں۔جب خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ چلہ سے فارغ ہو کر رخصت ہونے لگے تو بے ساختہ خواجہ غریب نوازؒ کی زبان مبارک پر داتا علی ہجویریؒ کیلئے بطورِ خاص یہ شعر جاری ہواکہ

    گنج بخش فیضِ عالم مظہرِ نور ِ خدا
    نا قصاں را پیرِکامل کاملاں رارہنما

    اس مردِ خدا کی زبان مبارک سے نکلا ہوا یہ شعر اِس قدر زبان زدخاص وعام ہوا کہ جس کی گونج چہار سو پھیل گئی۔اور لوگ آپؒ کے آستانہ سے فیض پانے لگے۔

    حضرت داتا گنج بخش علی ہجویریؒ نماز کے متعلق ارشاد فرماتے ہیں کہ ’’نماز ایسی عبادت ہے ،جو شروع سے آخر تک اللہ تعالیٰ کی راہ میں اس کے چاہنے والوں کی رہنمائی کرتی ہے۔وہ ہمیشہ اسی میں مشغول رہتے ہیں اُن کے مقامات اسی سے ظاہر ہوتے ہیں۔اللہ تعالیٰ کے چاہنے والوں کی طہارت توبہ ہے۔قبلہ کی طرف منہ کرنا‘ان کا پیرِ طریقت سے تعلق ہے۔قیام‘ ان کا مجاہدہ ہے۔قرآت‘ان کا دائمی ذکر ہے۔رکوع‘ان کی عاجزی ہے۔سجود‘ ان کے نفس کی پہچان ہے۔تشہد‘ان کی اللہ سے دوستی ہے۔ سلام‘ان کی دنیا سے علیحدگی اور مقامات کی قید سے باہر نکلنے کا نام ہے۔انسان خطا کار ہے اور دنیا کی رنگینیاں اُس پہ اثر انداز ہو جاتی ہیں۔لیکن پروردگار نے بخشش کا دروازہ بھی اپنے بندوں کیلئے ہر وقت کھلا رکھا ہوا ہے۔​
     

اس صفحے کو مشتہر کریں