1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

اخلاق اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ .. محمد شمیم اختر قاسمی

'تاریخِ اسلام : ماضی ، حال اور مستقبل' میں موضوعات آغاز کردہ از زنیرہ عقیل, ‏28 ستمبر 2020۔

  1. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    ولادت سے وفات تک:

    حضرت علی کرم اللہ وجہہ بن ابی طالب فاطمہ بنت اسد کے بطن سے ایک روایت کے مطابق اندرون خانہ کعبہ چھٹی صدی عیسوی میں پیدا ہوئے۔ صغرسنی میں بعض وجوہ کی بنا پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی کفالت میں آگئے اور دربار نبوت سے آخر تک جڑے رہے۔ دس سال کی عمر میں اسلام قبول کیا۔ خود فرمایا کرتے تھے کہ میں نے بتوں کی پوجا کبھی نہیں کی، اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مجھ سے پہلے کسی نے خدا کی عبادت نہیں کی۔ابتدائی عمر سے ہی حضور سے از حد زیادہ محبت کرتے تھے۔ جب کوہ صفا پر چڑھ کر حضور نے اعلان نبوت کیاتو آپکی آواز پر کسی نے بھی کان نہیں دھرا، مگر حضرت علی جو اس وقت عمر میں صرف ۱۵/ سال کے تھے، کہا: ”گوکہ میں عمر میں چھوٹا ہوں اور مجھے آشوب چشم کا عارضہ ہے، اورمیری ٹانگیں پتلی ہیں، تاہم آپ کا باور دست و بازو بنوں گا۔ جس وقت آپ کی عمر ۲۲ سال کی تھی آپ اپنی جان کی بازی لگاکر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بستر پر پوری رات لیٹے رہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کے لیے نکل گئے۔ اس کے تین دن بعد خود بھی حضور سے جاملے۔ مدینہ پہنچنے کے بعد جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا جو مظاہرہ کیا اور جو کارہائے نمایاں انجام دئیے وہ آپ کی زندگی کا اہم باب ہے۔ سوائے ایک جنگ کے آپ نے ہر جنگ میں شرکت کی اور داد شجاعت دیا۔ غزوئہ تبوک کے موقع پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو جنگ میں شرکت سے روک دیا اور اہل بیت کی حفاظت ونگرانی کے لیے مدینہ ہی میں رہنے کا حکم دیا تو اس کا آپ کو بہت قلق ہوا، مگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کہہ کر ان کے اعزاز کو بلند کیا کہ ”علی تم اسے پسند نہیں کرتے کہ میرے نزدیک تمہارا وہ مقام اور درجہ ہو جو ہارون کا موسیٰ کے نزدیک تھا۔ حضرت علی کی اہمیت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک کتنی تھی اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم بالعموم اہم اور مشکل ترین امور کی انجام دہی کے لیے حضرت علی کو مامور فرماتے۔ جب تک حضور صلی اللہ علیہ وسلم زندہ رہے، دامے، درمے، قدمے، سخنے ہر لحاظ سے حضور کی فرماں برداری اور اطاعت کرتے رہے۔ اسی جاں نثاری کو دیکھ کر حضور نے غدیر خم کے خطبہ میں فرمایا کہ: ”جو علی کا دشمن ہے وہ میرا بھی دشمن ہے اور جو علی کا دوست ہے وہ میرا بھی دوست ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد خلیفہ سوم کے زمانے تک میں بھی اہم کارنامے اور خدمات انجام دیں اور جنگی معرکے سرکیے۔ اور جب خود خلیفہ بنے تو باوجود پورے ملک میں بدامنی اور خلفشاری کے حالات پر قابوپائے، مگر دشمنوں نے آپ کو زیادہ دن حکومت کرنے نہیں دیا اور آپ کو قتل کردیا۔ آپ کا انتقال ۴۰ھء میں ہوا۔ کل ۴/سال نو مہینے حکومت کرسکے۔ آپ کی تعلیمات، خطبات، وصایا، انشاپردازی اور اخلاقی اقدارکا شاہکار مجموعہ نہج البلاغہ ہے، جسے شریف رضی نے جمع کیا ہے۔ پیش نظر مضمون میں حضرت علی کے بعض اہم اخلاقی قدروں پر روشنی ڈالی گئی ہے جو انسانوں کے لیے مینارئہ نور ہیں۔

    نبی کے اخلاق کا اثر

    حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے مقاصد میں ایک اہم مقصد یہ بھی تھا کہ آپ خلق خدا کو ادب و احترام اور اخلاقی اقدار و تہذیب کی تعلیم دیں۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ہی فرمایا: ”انا بعثت لاتمم مکارم الاخلاق“ (میں اخلاق کی تکمیل کے لیے بھیجا گیا ہوں) اور اللہ تبارک و تعالیٰ نے آپ کی اس خوبی کو قرآن کریم میں اس انداز میں بیان کیا ہے: ”انک لعلی خلق عظیم“ (اے نبی ! آپ اخلاق کے اعلیٰ مرتبے پر فائز ہیں) جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس دارفانی سے رخصت فرماگئے، تو کچھ لوگ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوکر یہ معلوم کرنا چاہا کہ آپ کا اخلاق کیساتھا، تو انھوں نے جواب دیا : ”کان خلقہ القرآن“ یعنی جو کچھ قرآن میں بیان کیاگیا ہے وہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اخلاق تھا۔ اسی پس منظر میں حضرت علی کرم اللہ وجہ کے اخلاق و کردار اور ان کی تعلیمات کا بھی مطالعہ کرنا چاہیے۔ چوں کہ آپ درِ رسالت سے ابتدائی عمر سے آخر تک جڑے رہے، اس لیے ان کے بارے میں یہ کہا جاسکتا ہے جو طرز عمل اور اخلاق و کردار حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا تھا اسی کو حضرت علی نے اپنی زندگی میں نافذ کیا۔ چنانچہ علامہ سید ابوالحسن ندوی اس نکتہ پر روشنی ڈالتے ہوئے رقم طراز ہیں کہ:

    ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خاندانی اورنسبی تعلق، ایک عمر کی رفاقت اور روز مرہ کی زندگی کو قریب سے دیکھنے کی وجہ سے سیدنا علی کرم اللہ وجہہ کو آپ کے مزاج افتاد طبع سے اور ذات نبوی کی خاص صفات و کمالات سے گہری مناسبت ہوگئی تھی، جن سے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی برحق صلی اللہ علیہ وسلم کو نوازا تھا، وہ آپ کے میلان طبع اور مزاج کے رخ کو بہت باریک بینی اور چھوٹی بڑی باتوں کی نزاکتوں کو سمجھتے تھے، جن کا آپ کے رجحان پر اثر پڑتا ہے، یہی نہیں بلکہ سیدنا علی کرم اللہ وجہہ کو ان کے بیان کرنے اور ایک ایک گوشہ کواجاگر کرکے بتانے میں مہارت تھی، آپ نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق و رجحان اور طریق تامّل کو بہت ہی بلیغ پیرایہ میں بیان کیا ہے۔“

    اخلاق فاضلانہ کی اعلیٰ مثال

    حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے اخلاق اور ان کی تعلیمات کا مطالعہ کرتے وقت ان عوامل کو بھی اذہان و قلوب میں مستحضر کرنا چاہئے کہ جن کی وجہ سے آپ اپنے اصحاب میں ممتاز و منفرد نظر آتے ہیں۔ باوجود خانگی ذمہ داریوں کے حب نبی میں سرشار اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی راحت رسانی کے لیے ہر وقت بے چین اور مضطرب نظر آتے ہیں۔ اپنے گھر فاقہ ہے مگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اس حالت میں دیکھنا ایک پل کے لیے گوارہ نہیں۔ یہاں تک کہ محنت و مشقت اور مزدوری کرکے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی راحت رسانی کا انتظام فرماتے۔ ابن عساکر کی روایت ہے کہ:

    ”ایک روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں فاقہ تھا، حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو معلوم ہوا تو وہ مزدوری کی تلاش میں نکل گئے، تاکہ اتنی مزدوری مل جائے کہ رسول خدا کی ضرورت پوری ہوجائے۔ اس تلاش میں ایک یہودی کے باغ میں پہنچے اور اس کے باغ کی سینچائی کا کام اپنے ذمہ لیا، مزدوری یہ تھی کہ ایک ڈول پانی کھینچنے کی اجرت ایک کھجور، حضرت علی نے سترہ ڈول کھینچے۔ یہودی نے انہیں اختیار دیا کہ جس نوع کی کھجور چاہیں لے لیں،حضرت علی نے سترہ عجوہ لیے اور رسول خدا کی خدمت میں پیش کردیا۔ فرمایا: یہ کہاں سے لائے؟، عرض کیا: یا نبی اللہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ آج گھر میں فاقہ ہے اس لیے مزدوری کے لیے نکل گیا تاکہ کچھ کھانے کا سامان کرسکوں۔ رسول نے فرمایا: تم کو اللہ اور اس کے رسول کی محبت نے اس پر آمادہ کیا تھا۔ عرض کیا ہاں یا رسول اللہ! رسول نے فرمایا: اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرنے والا ایسا کوئی نہیں جس پر افلاس اس تیزی سے آیا ہو جیسے سیلاب کا پانی اپنے رخ پر تیزی سے بہتا ہے اور جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرے اس کو چاہیے کہ مصائب کے روک کیلئے ایک چھتری بنالے، یعنی حفاظت کا سامان کرلے۔“
     

اس صفحے کو مشتہر کریں