1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

کام آؤ،نام بناؤ ۔۔۔ تحریر : انعم خالد

'اردو ادب' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏24 ستمبر 2020۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    کام آؤ،نام بناؤ ۔۔۔ تحریر : انعم خالد
    kaam aao naam banoo.jpg
    پیارے بچو!پُرانے وقتو ں کی بات ہے دور دراز کسی جنگل میں 2گھنے اور تناور درخت ساتھ،ساتھ تھے۔ان میں سے ایک سیب کا اور دوسرا آم کا درخت تھا۔یہ دونوں درخت ہی بے حد گھنے اور سایہ دار تھے۔ان پر خوب پھل بھی لگتا تھا۔یوں تو دونوں درخت ایک،دوسرے سے قریب تھے اور اکٹھے ہی بڑے ہوئے تھے،لیکن اس کے باوجود ان کے مزاج میں بے حد فرق تھا۔
    آم کا درخت اپنے سائے اور پھل سے سب کو فائدہ پہنچانے والا ،جبکہ سیب کا درخت اکھڑ مزاج اور کسی کے کام نہ آنے والا تھا۔جب کبھی کوئی راہ گزرتا مسافر سیب کے درخت کے نیچے آ کر بیٹھتا ،وہ اس پر اپنے خشک پتے پھینک کر اسے اٹھنے پہ مجبور کر دیتا۔کسی پرندے اور جانور کو بھی درخت پر گھونسلہ نہ بنانے دیتا۔جونہی کوئی پرندہ سیب کے درخت پر بیٹھتا وہ غصے میں اپنی شاخیں ہلانے لگتا اور ڈر کے مارے پرندے اڑ کر دوسرے درختوں پر جا بیٹھتے۔

    دوسری جانب آم کے درخت سے سبھی فائدہ حاصل کرتے تھے۔اس کے سائے میں لوگ سکون سے بیٹھا کرتے اور بے شمار پرندوں نے اس پر اپنے گھونسلے بھی بنا رکھے تھے۔آ م کا درخت اکثر سیب کے درخت کو سمجھانے کی کوشش کرتا کہ اللہ نے ہمیں دوسروں کے کام آنے کے لیے پیدا کیا ہے۔اگر ہم اپنے وجود سے کسی کو فائدہ ہی نہ پہنچا سکیں تو بھلا ہماری تخلیق کا مقصد کیسے پورا ہو گا؟لیکن آم کے درخت کی باتیں سیب کے درخت کو سخت ناگوار گزرتیں ۔وہ اکڑ کر جوا ب دیتا’’مجھے اپنی تخلیق کا مقصد بخوبی معلوم ہے،میں اپنی خوبصورتی سے واقف ہوں اور یہ بھی جانتا ہوں کہ میرے حسن سے متاثر ہو کر ہی لوگ میرے سائے میں بیٹھنے کے لیے آتے ہیں۔یہ جانور اور پرندے بھی اسی سبب میری شاخوں پر گھونسلہ بنانا اور رہنا چاہتے ہیں،لیکن میں بھلا اپنی خوبصورتی کیوں ضائع کروں ۔ دوسرے اسے صرف دیکھ سکتے ہیں اور ان کے لیے اتنا ہی کافی ہے،اس سے زیادہ میں کسی کے کام آ کر بھلا کیا حاصل کر لوں گا‘‘۔

    سیب کے درخت کی باتیں آم کے درخت کو بے حد افسردہ کر دیتیں لیکن وہ اسے سمجھانے کے علاوہ اور کر بھی کیا سکتا تھا۔آم کے درخت کو ڈر تھا کہ کہیں اللہ تعالیٰ اس کے غرور کی اسے کوئی بڑی سزا نہ دیدیں۔

    ایک بار چند شہد کی مکھیاں گھومتی ہوئی سیب کے درخت کے پاس آئیں۔وہ شہد اکٹھا کرنے کے لیے چھتہ بنانا چاہتی تھیں۔جب ان کی نظر سیب کے درخت پر پڑی تو وہ بے حد خوش ہوئیں اور آپس میں کہنے لگیں کہ یہ قد آور اور گھنا درخت چھتہ بنانے کے لیے بہترین رہے گا۔اس پر کوئی اور گھونسلہ بھی نہیں ہے اس لیے وہ آرام سے جتنا مرضی چاہے بڑا چھتہ بنا لیں گی۔ان کی تما م باتیں سیب کا درخت سن رہا تھا جو فوراً غصے میں بولا’’مجھے تمہاری بھنبھناہٹ بالکل پسند نہیں ہے،نہ میں اپنے درخت کی خوبصورتی ہر وقت چپکتے ہوئے شہد کے قطروں سے خراب کرنا چاہتا ہوں ۔ براہ مہربانی تم اپنے چھتے کے لیے کوئی اور درخت تلاش کرو‘‘۔شہد کی مکھیوں کو سیب کے درخت کی بات بے حد بُری لگی لیکن وہ خاموش رہیں ۔ انہوں نے دیکھا کہ آم کے درخت پر خوب رونق ہے ،اس لیے اپنے مطابق مناسب شاخ ڈھونڈ کر اس پہ چھتہ لگا لیا جس پر آم کا درخت مسکرانے لگا۔

    چند روز بعد دو لکڑہارے جنگل کی طرف آئے ۔ یہ کچھ لکڑی کاٹ کربازار بیچنا چاہتے تھے۔چلتے چلتے ان کی نظر آم اور سیب کے گھنے درختوں پر پڑی تو دونوں کو دیکھنے کے بعد وہ آپس میں کہنے لگے’’آم کے درخت پر تو کئی گھونسلے ہیں اور یہاں شہد کی مکھیوں نے چھتہ بھی لگا رکھا ہے،اس لیے یہ درخت چھوڑ دیتے ہیں اور سیب کا درخت کاٹ لیتے ہیں،کیونکہ یہ بھی آم کے درخت جتنا ہی گھنا ہے لیکن اس پر کوئی گھونسلہ موجود نہیں ہے‘‘۔یوں دیکھتے ہی دیکھتے نہ صرف سیب کے درخت کا غرور مٹی میں مل گیا بلکہ اسے کسی کے کام نہ آنے کا سبق بھی حاصل ہو گیا۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں