1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

تذکرۃ الخواتین

'کتب کی ٹائپنگ' میں موضوعات آغاز کردہ از ملک بلال, ‏27 اگست 2020۔

  1. ملک بلال
    آف لائن

    ملک بلال منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2010
    پیغامات:
    22,418
    موصول پسندیدگیاں:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:
    ریختہ صفحہ 261تذکرۃ الخواتین صفحہ 261

    اس کو صلہ دیا۔ مہری کے کلام کا نمونہ ی ہے ۔

    بیخ ہر خارے کہ آن از خاک من حاصل شود
    زاہدا رمسواک سا زدمست و لایعقل شود
    کردم بر اوج برج مہ خویشتن طلوع
    ہاں اے حکیم طالع مسعود من نگر
    حل ہر نکتۂ کہ از پیر خرد مشکل بود
    آزمودیم بیک جرعۂ مے حاصل بود
    گفتم از مدرسہ پرسم سبب حرمت مے
    در ہر کس کہ زدم آں خر لا یعقل بعد
    خواستم سوز دل خویش بگویم با شمع
    داشت خود او بزباں آنچہ مرا در دل بود
    در چمن صبحدم از گریہ و زاری دلم
    لالہ سوختہ خوں در دل و پا در گل بود
    آنچہ از بابل و ہاروت روایت کردند
    سحر چشم تو بدیدم ہمہ را شامل بود
    دولتے بود تماشے رخت مہریؔ را
    حیف صد حیف کہ ایں دولت مستعجل بود

    ترجمہ (1) ۔ جس کانٹے دار درخت کی جڑ کہ میری خاک سے حاصل ہو گی۔ زاہد اگر مسواک کرے تو مست اور بے عقل ہو جائے۔
    (2) ۔ میں نے اپنے چاند کے برج اوج پر طلوع کیا۔ اے حکیم ذرا میرے طالع مسعود کو دیکھ۔
    (3) ۔ جس نکتہ کا حل کہ پیر خرد سے مشکل تھا۔ میں نے آزمایا تو ایک گھونٹ شراب مین وہ مقصد حاصل ہو گیا۔
    (4) ۔ میں نے کہا کہ مدرسہ میں حرمت مے کا سبب پوچھوں گا۔ جس کسی کے دروزہ پر گیا وہی بے وقوف نکلا۔
    (5) ۔ میں نے چاہا کہ اپنے دل کا سوز
    ----------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 262تذکرۃ الخواتین صفحہ 262

    شمع سے کہوں اس کی زبان پر خود وہی بات تھی جو میرے دل میں تھی۔
    (6) ۔ چمن میں صبحدم دل کی گریہ و زاری سے لالہ سوختہ خون تھا اور کیچڑ میں پاؤں پھنسا ہوا تھا۔
    (7) ۔ جو کچھ کہ بابل اور ہاروت کا قصہ مشہور کیا ہے۔ تیری آنکھوں کا جادو سب میں شامل تھا۔
    (8) ۔ تیرا نظارہ مہریؔ کے لئے ایک نعمت غیر مترقبہ تھا۔ افسوس صد افسوس کہ یہ دولت جلد واپس لے لی گئی۔

    تذکرہ آتش کدۂ آذر میں لکھا ہے کہ مہری کو بیگم کے بھانجے سے تعلق خاطر تھا۔ اور یہ واقعہ اتنا مشہور ہو گیا تھا کہ شدہ شدہ اس بات کی شوہر کو خبر ہو گئی چنانچہ یہ معاملہ بادشاہ تک پہنچا اور حکیم صاحب کے اشارہ اور بادشاہ کے حکم سے مہری کو قید کر دیا گیا۔ قید کی بے پایاں مشقت پڑی تو مہری نے ایک رباعی کہہ کر بیگم کو بھیجی۔ مگر یہ واقعہ غالباً صاحب تذکرہ کی غلطی سے درج ہوا ہے بلکہ دراصل اس مہری کے ساتھ متعلق ہے جس ذکر لکھا جا چکا ہے۔

    مہستی ۔
    کنجہ کی رہنے والی ایک عورت کا نام تھا۔ بعض اہل تذکرہ کا خیال ہے کہ نیشا پور کی اور بعض کہتے ہیں بدخشاں کی رہنے والی تھی۔ سلطان سنجر کے زمانہ میں نہایت عزت و جاہ کے ساتھ زندگی بسر کرتی تھی۔ شعر کہتی تھی اور طبیعت اس فن کے نہایت مناسب پائی تھی۔
    ----------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 263تذکرۃ الخواتین صفحہ 263

    ایک روز کا ذکر ہے کہ سلطان کی محفل عیش گرم تھی۔ شراب و کباب ساقی مغنی و سرود کا دور رہتا تھا۔ مہستی کو کچھ ضرورت ہوئی باہر جانا پڑا۔ جاڑے کا موسم تھا اور سردی اپنے شباب کی بہار دکھا رہی تھی۔ مہستی باہر گئی تو دیکھا کہ برف چاروں طرف جمی ہوئی تھی۔ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔ غریب مہستی کانپتی ہوئی واپس آئی۔ بادشاہ نے واقعہ پوچھا۔ اس نے فی البدیہہ رباعی کہہ کر سنائی۔

    شاہ فلکت اسپ سعادت زیں کرد
    و زجملہ خسرواں ترا تحسیں کرد
    تا در حرکت سمندر زریں نعلت
    بر گل نہ نہد پائے زمیں سیمیں کرد

    ترجمہ (1) ۔ اے بادشاہ آسمان نے تیرے لئے سعادت کا گھوڑا کس کر تیار کیا ہے۔ اور تمام بادشاہوں کے مقابلہ پر تیری تحسین کی ہے۔
    (2) ۔ تیرا گھوڑا جس کے زریں نعل جڑے ہوئے ہیں۔ تاکہ مٹی پر پاؤں نہ رکھے اس لئے آسمان نے زمین کو سیمیں بنا دیا ہے۔

    مہستی نہایت زود گو اور پُر گو تھی۔ بلکہ اس کا دیوان شعر بھی مرتب ہو چکا تھا۔ بعض تذکروں سے معلوم ہوتا ہے کہ جس زمانہ میں عبداللہ خاں اوزبک نے تسخیر ہرات کے لئے حملہ کیا ہے شاید اس وقت اس کا دیوان برباد ہو گیا۔
    ----------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 264تذکرۃ الخواتین صفحہ 264

    قصاب چنانکہ عادت اوست مرا
    بفگند و بکشت و گفت این خوست مرا
    سر باز بہ عذر می نہد برپایم
    دم مید ہدم تا بہ کند پوست مرا

    افسوس کہ اطراف گلت خار گرفت
    زاغ آمد و لالہ را بہ منقار گرفت
    سیمات زنخداں تو آور دمداد
    شنجرف لب لعل تو زنگار گرفت

    شب ہا کہ بناز با تو خفتم ہمہ رفت
    در ہا کہ نبوک غمزہ سفتم ہمہ رفت
    آرام دل و مونس جانم بودی
    رفتی و ہرانچہ با تو گفتم ہمہ رفت

    قصہ چہ کنم کہ اشتیاق تو چہ کرد
    بامن دل پر زرق و نفاق تو چہ کرد
    چوں زلف دراز تو شبے می باید
    تا با تو بہ گویم کہ فراق تو چہ کرد

    ہر شب زغمت تازہ عذابے بینم
    در دیدہ بجائے خواب آ بے بینم
    وانگہ کہ شو نرگس تو خوابم ببرد
    آشفتہ تر از زلف تو خوابے بینم

    من عہد تو سخت سست میدانستم
    بشکستن آں درست میدانستم
    ہر دشمنی ایدوست کہ بامن کردی
    آخر کر دی نخست میدانستم

    در دام غام تو خستۂ نیست چو من
    و زجور تو دل شکستۂ نیست چو من
    برخاستگاں جور تو بسیاراند
    لیکن بہ وفا فانشستۂ نیست چو من

    ان لطیف رباعیوں کے بعد غزل کا نمونہ بھی دیکھئے۔ اور لطف اٹھائیے۔
    ----------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 265تذکرۃ الخواتین صفحہ 265

    جام را برکف دست تو نشست دگراست
    ید بیضا دگر دوست تو دست دگراست

    از من طمع وصال داری
    الحق ہوس محال داری
    وصلم نتواں بخواب دیدن
    ایں چیست کہ در خیال داری
    جائیکہ صبا گذر ندارد
    آیا تو کجا مجال داری

    ترجمہ (رباعی) (1) ۔ قصاب نے اپنی عادت کے موافق مجھے گرایا اور مار ڈالا اور کہا کہ میری یہی عادت ہے۔ اب پھر عذر کے لئے میرے قدموں پر سر رکھ رہا ہے۔ اور مجھے دم دیتا ہے کہ میری کھال کھینچ لے۔
    (رباعی نمبر 2) ۔ افسوس کہ تیرے پھول کے اطراف پر کانٹوں نے قبضہ کر لیا گویا کوا لالہ کا پھول چونچ میں لئے ہوئے ہے۔ تیری ٹھوڑی کے پارہ پر سیاہی جم گئی ہے۔ تیرے ہونٹوں کے شنجرف پر زنگ لگ گیا۔
    (رباعی نمبر 3) ۔ راتوں کو جو میں تیرے پاس ناز کے ساتھ سویا تھا، سب برباد ہو گیا۔ وہ موتی کہ میں نے نوک غمزہ کے ساتھ پروئے تھے، سب برباد ہو گئے۔ تو میرا آرام دل تھا اور میری جان کا رفیق تھا۔ تو چلا گیا تو تیرے ساتھ جو کچھ میں نے کہا سب برباد ہو گیا۔
    (رباعی نمبر 4) ۔ اب کیا قصہ بیان کروں کہ تیرے اشتیاق نے کیا کیا۔ تیرے مکر بھرے ہوئے دل نے کیا کیا۔ تیری زلف کی طرح ایک دراز رات چاہیے تب میں تجھ سے بیان کروں کہ تیری جدائی نے
    ----------------------------------------------------------------------
     
  2. ملک بلال
    آف لائن

    ملک بلال منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2010
    پیغامات:
    22,418
    موصول پسندیدگیاں:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:
    ریختہ صفحہ 266تذکرۃ الخواتین صفحہ 266

    مجھے سے کیا سلوک کیا۔
    (رباعی نمبر 5) ۔ تیرے غم سے ہر رات کو ایک تازہ عذاب اٹھانا پڑتا ہے آنکھوں میں بجائے نیند کے پانی رہتا ہے۔ اور پھر جب تیری آنکھوں کی طرح میں سو جاتا ہوں تو تیری زلفوں سے زیادہ پریشان خواب دیکھتا ہوں۔
    (رباعی نمبر 6) ۔ میں تیرے عہد کو بہت کمزور سمجھتا تھا اور اس کے ٹوٹنے کو یقینی جانتا تھا۔ تو نے اے دوست میرے ساتھ جو دشمنی کی۔ بہت دیر میں کی۔ میں نے پہلے ہی سمجھ لیا تھا۔
    (رباعی نمبر 7) ۔ تیرے غم کے جال میں میری طرح کوئی خستہ نہیں ہے۔ اور تیرے جور سے مجھ سا کوئی دل شکستہ نہیں ہے۔ تیرے ظلم سے جو لوگ اٹھ گئے وہ بہت ہیں لیکن وفا کے لئے کوئی میری طرح بیٹھا ہوا نہیں ہے۔

    (شعر 1 ) ۔ پیالہ تیرے ہاتھ پر رکھا ہوا اور ہی طرح کا معلوم ہوتا ہے۔ ید بیضا اور ہے اور تیرا ہاتھ اور ہے۔
    (شعر 2 ) ۔ تو مجھ سے وصال کی طمع رکھتا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ یہ ایک بے کار کی ہوس ہے۔
    (شعر 3) میرا وصل خواب میں بھی ممکن نہیں ہے۔ یہ تیرے کیا خیال ہیں۔
    (شعر 4) ۔ جہاں ہوا کا بھی گزر نہ ہو ۔ میری کی مجال ہے۔

    غزل کے آخر شعر واقعات پر مبنی معلوم ہوتے ہیں۔ مہستی ظرافت کے شعر بھی کہتی تھی۔ مگر میں یہاں ان کا لکھنا پسند نہیں کرتا۔

    مہری ہرویہ ۔
    ایک نہایت حسین خوب صورت اور بے باک عورت تھی۔
    ----------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 267تذکرۃ الخواتین صفحہ 267

    ایک بادشاہ ایران کی بیگم بنی ہوئی تھی مگر چونکہ نہایت ہی آزاد مزاج بے باک تھی۔ اسی واسطے ایک جوان پر عاشق ہو کر فعل شنیع کی مرتکب ہوئی مگر بدقسمتی سے سر منڈاتے ہی اولے پڑے۔ گرفتار ہو گئی۔ اور عتاب شاہی کی مستوجب قرار پائی۔ قید میں ڈال دی گئی۔ مگر شوخی نے گدگدایا۔ یہ رباعی موزوں کر کے بادشاہ کی خدمت میں بھیجی۔ چونکہ اس رباعی کا لطف اسی میں ہے اس لئے میں ترجمہ کرنا نہیں چاہتا۔

    شہ کندہ نہاد سر و سیمیں تن را
    زیں واقعہ شیوں مرد و زن را
    افسوس کہ برکندہ نیاید سودن
    پائیکہ دو شاخہ بود صد گردن را

    چونکہ مولانا عبدالرحمن جامی کی معاصر تھی۔ لہذا ایک مرتبہ ان سے ناراض ہوئی اور یہ ہجو کہہ ڈالی۔

    اے شاہِ مبارزان و شیر یزداں
    آزردہ شد از دست دو عبدالرحمن
    آں یک پسر ملجم و دیگر جامی
    آں زخم سناں زدست و ایں تیغ زباں

    چونکہ شوہر بڈھا تھا اور خود جوان جہاں تھی اس وجہ سے ہمیشہ شوہر سے آزردہ رہتی تھی۔ چنانچہ ان رباعیات سے پتہ چلتا ہے ۔ ملاحظہ کیجیے۔

    ہر گز کامم رخفت و خوابم ندہی
    شب با تو سخن کنم جوابم نہ دہی
    ----------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 268تذکرۃ الخواتین صفحہ 268

    من تشنہ لب و تو خضر وقتم گوئی
    از بہر خدا چہ شد کہ آبم نہ دہی
    در خانہ تو آنچہ مرا شاید نیست
    بندے زدل رمیدہ بکشاید نیست
    گوی ہمہ چیز دارم از مال و منال
    آ رے ہمہ ہست وانچہ می باید نیست
    شوے زن نوجواں اگر پیر بود
    چوں پیر بود ہمیشہ دلگیر بود
    ارے مثل است اینکہ زناں میگویند
    در پہلوے زن تیر بہ از پیر بود
    گفتم کہ مرا از نظر اندختہ
    گفتا کہ بمہر دگراں ساختہ
    گفتم کہ ترا شناختم بے مہری
    گفتا کہ مرا ہنوز نہ شناختہ

    ترجمہ (1) ۔ ہر گز میرا مطلب سونے سے تو پورا نہیں کرتا۔ رات کو میں تجھ سے باتیں کرتی ہوں تو جواب بھی نہیں دیتا۔
    (2) ۔ میں پیاسی ہوں اور تو میرے وقت کا خضر ہے۔ خدا ک لئے مجھ کو بتا تو سہی کیا ہو گیا کہ تو مجھ کو پانی نہیں دیتا۔
    (3) ۔ تیرے گھر میں جو کچھ مجھے چاہیے نہیں ہے۔ ایسی چیز جو دل سے غم دور کرے ، نہیں ہے۔
    (4) ۔ تو کہتا ہے مال و متاع کی میں سب چیزیں رکھتا ہوں۔ سچ ہے سب کچھ ہے بس جو کچھ چاہیے وہی نہیں ہے۔
    (5) ۔ نوجوان عوعرت کا شوہر اگر بڈھا ہو وہ عورت بڑھیا کی طرح ہمیشہ رنجیدہ رہے گی۔
    (6) ۔ سچ ہے عورتیں یہ کہتی ہیں کہ عورت کے پہلو میں بڈھے سے تیر کا ہونا اچھا۔
    (7) ۔ میں نے کہا کہ تو نے مجھے نظر سے
    ----------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 269تذکرۃ الخواتین صفحہ 269

    گرا دیا ہے تو کہنے لگا کہ تو نے دوسروں سے محبت کر لی ہے۔ میں نے کہا کہ میں نے تجھے پہچان لیا ہے تو بے وفا ہے۔ تو بولا کہ ابھی تو نے مجھے نہیں پہچانا ہے۔

    طفل اشکم ہمیشہ در نظراست
    چہ توانکرد پارۂ جگراست
    میر و دیار و مدعی از پے
    خوب دزشت زمانہ درگزر است
    آں خال عنبریں کہ نگارم برد زدہ
    دل می برد از آنکہ بوجہ نکو زدہ
    قصاب وار مردم چشمم بچا بکی
    مژگاں قنارہ کرد و دلہا برد زدہ
    عشاق سر بسر ہمہ دیوانہ گشتہ اند
    تا او گرہ بہ سلسلۂ مشکبو زدہ
    آں قدرہا نہ شکست ایں دل غم پیشۂ ما
    کہ دگر شیشۂ تواں ساختن از شیشۂ ما
    ہمچو آئینہ کہ گردد زچمن عکس پذیر
    نقش اندیشہ مہری است در اندیشۂ ما

    ترجمہ (1) ۔ طفل اشک ہمیشہ میری نظر میں رہتا ہے۔ کیا کیا جائے اپنے جگر کا ٹکڑا ہے۔
    (2) ۔ یار جا رہا ہے اور دشمن اس کے پیچھے پیچھے ہے۔ زمانہ کا اچھا برا سب گزر رہا ہے۔
    (3) ۔ وہ کال عنبریں کہ میرے معشوق نےمنہ پر لگایا ہے۔ چونکہ بہت اچھے طریقہ سے لگایا ہے اس لئے بہت دلکش ہے۔
    (4) ۔ قصاب کی طرح اس کی آنکھوں کی پتلیوں نے پلکوں کو چالاکی سے قنارہ بنا کر دل کو اس کے اوپر
    ----------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 270تذکرۃ الخواتین صفحہ 270

    لگایا ہے۔
    (5) ۔ عاشق تمام دیوانے ہو گئے ہیں۔ جب سے کہ اس نے زلف عنبریں میں گرہ دی ہے۔ ہمارا غمگیں دل اتنا نہیں ٹوٹا ہے کہ دوبارہ اس شیشہ سے شیشہ بنا سکیں۔
    (6) ۔ آئینہ کی طرح کہ چمن سے عکس پذیر ہو جائے مہری کا نقش اندیشہ ہمارے اندیشہ میں ہے۔

    ردیف نون

    نسائی ۔
    سادات محروسہ نسا میں سے تھی جو ملک خراسان میں سے ہے۔ شعر نہایت عمدہ کہتی تھی۔ نمونہ کلام یہ ہے۔

    دردم زیادہ میشود و کم نمی شود
    گفتم بہ صبر چارہ کنم ہم نمی شود
    شادم اگر دللم زتو بے غم نمی شود
    بارے غم تو از دل من کم نمی شود
    مرہم نہاد بر دلم آں بے وفا کہ عمر
    بہ گزشت و دردمندی آں کم نمی شود
    سازد بداغ ہجر نسائیؔ خاکسار
    چوں خاطرش بوصل تو خرم نمی شود
    عاشقی با قامت ابرو کمندے کردہ ایم
    باہمہ پستی تمناے بلندی کردہ ایم
    بہ عالم ہر کرابینی بدل درد و غمے دارد
    زدست غم منال ایدل کہ غم ہم عالمی دارد
    ----------------------------------------------------------------------
     
  3. ملک بلال
    آف لائن

    ملک بلال منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2010
    پیغامات:
    22,418
    موصول پسندیدگیاں:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:
    ریختہ صفحہ 271تذکرۃ الخواتین صفحہ 271

    ترجمہ (1) ۔ میرا درد زیادہ ہوتا ہے اور کم نہیں ہوتا۔ میں نے کہا کہ صبر سے کچھ علاج کروں تو وہ بھی نہیں ہوتا۔
    (2) ۔ میں خوش ہوں اگر میرے دل سے تیرا غم نہیں جاتا۔ یہ کیا کم ہے کہ تیرا غم میرے دل میں ہے۔
    (3) ۔ میری دوائی کے لئے اے طبیب مرہم مت لا۔ کہ یہ عاشقی کا درد ہے جو مرہم سے کم نہیں ہوتا۔
    (4) ۔ میرے دل پر اس بے وفا نے وہ داغ لگایا ہے کہ عمر گزر گئی اور اس کا درد نہیں جاتا۔
    (5) ۔ نسائیؔ خاکسار درد ہجو سے اختلاط کر رہی ہے کیا کرے اس کا دل تیرے وصل سے خوش نہیں ہو سکتا کیونکہ وہ اسے میسر نہیں ہے۔
    (6) ۔ ہم نے ایک ابرو کمند سے عشق کیا ہے۔ باوجود اس پستی کے بلندی کی تمنا ہے۔
    (7) ۔ دنیا میں تو جس کو دیکھے کوئی نہ کوئی غم اس کے ساتھ لگا ہوا ہے۔ غم کے ہاتھ سے مت رو کہ غم کا بھی ایک عالم ہے۔

    نظیر ۔
    شیراز کی رہنے والی اور مرزا امان اللہ جو وہاں کے ایک نامور رئیس تھے، کی بیوی تھی۔ شعر کہتی تھی۔ مگر اب ایک دو شعر اس سے یادگار ہیں۔

    مگر آں سر و چماں سوے چمن می آید
    کز چمن رائحہ مشک ختن می آید
    شوخ عاشق کش من اینہمہ بےباک مباش
    کہ ہنوز از لب تو بوئے لبن می آید

    ترجمہ (1) ۔ شاید وہ سر وچماں چمن کی طرف آتا ہے کہ باغ سے مشک ختن
    ----------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 272تذکرۃ الخواتین صفحہ 272

    کی خوشبو آتی ہے۔
    (2) ۔ اے میرے شوخ عاشق کش اس قدر بےباک نہ ہو کہ ابھی تیرے منہ سے دودھ کی بو آتی ہے۔

    نور ۔
    جہانگیر کی عزیز ترین بیگم نور جہاں کا تخلص ہے۔ بعض اہل تذکرہ نے بیگم کا تخلص مخفی لکھا ہے۔ مگر میں چونکہ اسی کو زیادہ قریں قیاس جانتا ہوں اس واسطے اسی تخلص سے لکھتا ہوں۔
    نور جہاں کے دادا محمد شریف طہران سے آئے وہیں پیدا ہوئے تھے اور وہیں کے شاہی خاندان کے متوصلین و متعلقین میں سے تھے۔ آخر میں شاہ طہماسپ صفوی کے زمانہ میں مرو کی گورنری پر مامور ہوئے۔ دولت اور مال کے رشک و حسد نے پورے دربار کو ان کا دشمن جان بنا دیا تھا۔ اور مخالفین سیکڑوں تدبیروں میں مصروف تھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ان کی آنکھ بند ہوتے ہی تمام درباری ان ک بیٹے مرزا غیاث پر ٹوٹ پڑے اور اس روپیہ کا مطالبہ کیا جو محمد شریف کے ذمہ غصب کرنا ثابت کیا گیا۔ مرزا غیاث حریفوں کے اس دل شکن حملہ کی تاب نہ لا سکے اور معہ اپنے متعلقین کے ہندوستان کی طرف بھاگے۔ حاملہ بیوی اور اپنے دوسرے متعلقین کو ساتھ لیا۔ یہ واقعہ 1577 ھ میں رونما ہوا۔ راستہ ہی میں جب قندھار پہنچے تو حالت مسافرت میں نور جہاں پیدا ہوئی۔ ماں باپ
    ----------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 273تذکرۃ الخواتین صفحہ 273

    سخت پریشان تھے۔ کہ یا اللہ کیا کریں مسافرت کا عالم، کس مپرسی، مفلسی، نہ کوئی یار نہ مدد گار۔ انتہا یہ کہ جس دن نور جہاں پیدا ہوئی اس روز اس کی ماں کئی وقت کے فاقہ سے تھی۔ لیکن پھر بھی بچی نہایت توانا اور تندرست تھی۔ چونکہ دم لینے کی مہلت نہ تھی۔ مجبوراً پھر سفر کی ٹھہری۔ مرزا غیاث کے دل پر قیامت ٹوٹ پڑی تھی۔ چھوٹے چھوٹے بچوں کی گریہ وزاری، کئی کئی وقت کا فاقہ، سفر کا تکان، منہ پر گرد جمی ہوئی، پاؤں سوجے ہوئے، بیوی انتہا سے زیادہ کمزور مگر مجبوراً گھوڑے پر سوار۔ نوزائیدہ بچی کو گود میں لئے صعوبتوں پر صعوبتیں سہتے سہتے مرزا کا دل چور ہو گیا۔ بچہ کو سنبھالیں یا راستہ طے کریں۔ کیا کریں۔ غرض یہ طے ہوا کہ بچی کو کہیں جنگل میں ڈال دیں ۔ چنانچہ یہی ہوا۔ دل پر جبر کا پتھر رکھا اور بچی کو ایک جھاڑی میں دال کر آگے چل کھڑے ہوئے۔ مگر حافظ حقیقی نگہبان تھا۔ نور جہاں رات بھر جھاڑی میں پڑی رہی نہ کسی درندے نے کوئی آزار پہنچایا نہ کسی موذی جانور نے ستایا۔ دوسرے دن ایک قافلہ ادھر سے گزر رہا تھا۔ قافلہ کے ایک سوداگر نے بچی کو دیکھا، دل بھر آیا اور اٹھا لیا۔ بچی کی پرورش کا مصمم ارادہ کر لیا۔ اور آگے چل کھڑا ہوا۔ اب اتفاق دیکھئے کہ مرزا غیاث کا مصیبت زدہ قافلہ کچھ دور جا کر تھک کر ایک جگہ
    ----------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 274تذکرۃ الخواتین صفحہ 274

    ٹھہر گیا تھا کہ اتنے میں ملک مسعود ننھی سی بچی کو گود میں لئے پہنچا۔ اور جہاں یہ لوگ ٹھہرے ہوئے تھے وہیں ٹھہر گیا۔ اب تلاش ہوئی کہ بچی کو دودھ پلانے والی کہاں سے آئے۔ چنانچہ اپنے آدمیوں کو بھیجا کہ دودھ پلانے کے لئے کسی عورت کو تلاش کریں۔ آخر کار مرزا کی بیوی دودھ پلانے کے لئے تجویز ہوئی۔ مگر ملک مسعود نے جب تباہی اور بربادی کا پورا قصہ سنا تو آنسو بھر آئے۔ پہلے بچی کو حوالہ کیا اور پھر پوری امداد کرتا رہا۔ تا آں کہ مصیبت زدہ غیاث قافلہ کے ساتھ خوش و ناخوش ہندوستان تک پہنچ گیا۔ اس زمانہ میں شہنشاہ اکبر کی علم دوستی اور مردم شناسی کا جابجا چرچا تھا۔ فیض کے دربار جاری تھی۔ مصیبت زدہ مرزا غیاث ملک مسعود کے ساتھ ساتھ دربار تک پہنچا۔ اور داروغۂ محل مقرر ہو گیا۔ ادھر عصمت النساء بیگم حرم شاہی میں بیگموں کی تعلیم و تربیت کی خدمت پر مامور ہو گئی۔
    نور جہاں کا ابتدائی نام مہرالنساء تھا اسی نام سے وہ شاہی محل میں پکاری جاتی تھی۔ جوان ہونے پر اس کی شادی عہد اکبر کے مشہور شجاع سردار علی قلی خاں المخاطب بہ شیر افگن خاں سے کر دی گئی۔ مگر شیر افگن خاں چند روز میں دشمنوں کی سازش سے مارا گیا اور مہرالنساء بیوہ ہو گئی۔
    ----------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 275تذکرۃ الخواتین صفحہ 275

    1611 ء میں جہانگیر نے ایک مرتبہ مہرالنساء کو مینا بازار میں دیکھا اور اس پر عاشق ہو کر شادی کر لی۔ شادی کے وقت اس کی عمر 34 برس کی تھی مگر وہ اب بھی ویسی ہی خوبصورت تھی جیسی سولہ برس کی عمر والی ہو سکتی ہے۔ 1613 ء میں سلطان سلیمہ بیگم کے انتقال پر وہ بادشاہ بیگم کے بلند مرتبہ پر فائز ہوئی اور محلات شاہی کی تمام عورتوں سے زیادہ اس کا اعزاز ہو گیا۔
    وہ نہایت دانش مند، علم و فضل میں کامل اور اخلاق حسنہ میں مکمل انسان تھی۔ نفاست پسندی اس کی طبیعت کا جوہر تھی۔
    اہل حاجت کی ضرورتیں پوری کرتی اور ہمیشہ سخاوت اور بذل و ایثار میں مصروف رہتی تھی۔ ایجاد و اختراع کا مادہ اس کے مزاج میں بے حد تھا۔ چنانچہ زنانہ لباس میں اس نے بہت تبدیلیاں کیں اور اسے انتہا سے زیادہ دل کش بنا دیا۔ گلاب کا عطر اسی نے ایجاد کیا تھا۔ تمیز و سلیقہ کا یہ عالم تھا کہ جہانگیر نے سلطنت کی باگ گویا اسی کے ہاتھ میں دے دی تھی۔ اور وہ نہایت خوش انتظامی کے ساتھ اہم فرائض شاہی کو انجام دیتی تھی۔ 1627 ء میں جب جہانگیر کا انتقال ہوا تو نور جہاں کو شاہی کاموں سے کوئی تعلق نہ رہا۔ وہ اسی غم میں گھلتی رہی۔ اگرچہ اس کے لئے بہت معقول پنشن پیچیس لاکھ روپیہ سالانہ کی مقرر تھی۔ مگر غموں نے کسی طرح اس کا
    ----------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 276تذکرۃ الخواتین صفحہ 276

    پیچھا نہ چھوڑا اور 1645 ء مطابق 1055 ھ میں بہتر برس کی عمر پا کر اس نے انتقال کیا۔
    تحقیق کے ساتھ یہ معلوم نہ ہو سکا کہ اس نے شاعری کب شروع کی، کس سے اصلاح لی۔ مگر یہ بات پایۂ ثبوت تک پہنچ چکی ہے کہ وہ ایک نازک خیال شاعرہ تھی۔ بذلہ سنجی اور حاضر جوابی میں فرد تھی۔ اس کے لطائف و ظرائف بہت سے مشہور و معروف ہیں۔ مگر ہم بہ لحاظ اختصار چند لکھتے ہیں۔
    ایک مرتبہ رمضان کا مہینہ ختم ہوا اور ہلال عید دکھائی دیا۔ نور جہاں اور جہانگیر بھی بالاخانہ شاہی پر اس دل خوش منظر کا تماشہ دیکھ رہے تھے۔ چاند دکھائی دیا۔ مے پرست بادشاہ جہانگیر نے خوش ہو کر بیگم کی طرف متوجہ ہو کر یہ مصرعہ پڑھا ؎ ہلال عید بر اوج فلک ہویدا شد۔ حاضر جواب بیگم نے فوراً یہ مصرع فی البدیہہ پڑھا ؎ کلید میکدہ گم گشتہ بود پیدا شد۔
    ایک مرتبہ جہانگیر کو ملتفت صحبت پا کر اور خود کو اس قابل نہ دیکھ کر یہ شعر سنایا۔

    بہ قتل من اگر شاہا دلت خوشنود میگردد
    بجاں منت مگر تیغ تو خواں آلود میگردد

    جب جہانگیر نے امور سلطنت کا اس کو مختار کل بنا دیا تو سکہ پر یہ شعر مسلوک کرایا۔

    بحکم شاہ جہانگیر یافت صد زیور
    بنام نور جہاں بادشاہ بیگم زر
    ----------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 277تذکرۃ الخواتین صفحہ 277

    ایک روز بیگم حمام کر رہی تھی۔ جہانگیر وہاں جا پہنچے اور چھیڑنے کے لئے یہ مصرعہ پڑھا۔

    زیر دامان تو پنہاں چیست اے نازک بدن

    بیگم نے جواب دیا ع

    نقش سّمِ آہوے چین است بر برگ سمن

    ایک مرتبہ بادشاہ کے تکمہ جواہر کی تعریف میں یہ شعر کہا۔

    ترا کہ تکمۂ لعل است بر لباس حریر
    شدہ است قطرہ خوں منت گریباں گیر

    اگرچہ اس کا لطیف کلام بہت کچھ ہو گا۔ مگر اب جستہ جستہ تذکروں میں چند شعر ملتے ہیں۔ وہی درج کئے جاتے ہیں۔

    شرارم شعلہ ام داغم کبابم جلوۂ نورم
    طپید نہائے برقم اضطرابم نبض رنجورم
    عشقت چناں گداخت تنم را کہ آب شد
    گردی کہ ماند سرمہ چشم حباب شد
    کشاد غنچہ اگر از نسیم گلزارست
    کلید قفل دل ما تبسم یاراست
    نہ گل شناسد نے رنگ و بو نہ عارض و زلف
    دل کسے کہ بحسن او گرفتار است
    زاہدا ہول قیامت مفگن در دل ما
    ہول ہجراں گر زاندیم و قیامت معلوم
    نام تو بر دم و زدم آتش بجان خویش
    در آتشم چو شمع زدست و زبان خویش
    سلک مرواردی بر فرق سرش دانی کہ چیست
    تشنگان شوق را جوئے است از آب حیات
    ----------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 278تذکرۃ الخواتین صفحہ 278

    تہِ زلف خالش بلائے نہاں است
    مترس از بلا ہا کہ شب درمیاں است
    ہمچشم ما براے نظر بازی تو شد
    آئینہ را جلاے وطن می کنیم ما
    ہنوز آں طفل خندیدن نہ داند
    نگہ دزدیدن و دیدن نہ داند
    ایں خانہ بر انداز کہ در خانہ زین است
    معمار تمنائے من خاک نشین است
    نیست فوارہ کہ بینی بسر آب رواں
    آب از گرمیٔ ایں فصل برآورد زباں
    نمی آید بغیر از گریہ دیگر کار از چشمم
    بلے از مردم بیدست و پا دیگر چہ می آید

    ترجمہ 1 ۔ میں شرار ہوں، شعلہ ہوں، داغ ہوں، کباب ہوں، جلوہ ہوں، نور ہوں، بجلی کا تڑپنا ہوں، اضطراب ہوں، بیمار کی نبض ہوں۔
    2 ۔ تیرے عشق نے ایسا پگھلایا کہ میرا جسم پانی ہو گیا۔ جو گرد کہ باقی رہی چشم حباب کا سرمہ بن گئی۔
    3 ۔ اگر غنچہ نسیم گلزار سے کھلتا ہے تو میرے دل کی کنجی یار کا تبسم ہے۔
    4 ۔ نہ گل کو پہنچانتا ہے نہ رنگ و بو کو نہ عارض اور زلف کو۔ جس کسی کا دل کہ اس کے حسن میں گرفتار رہے۔
    5 ۔ اے زاہد ہمارے دل میں قیامت کا خوف مت ڈال۔ ہم نے جدائی کی دہشت میں اپنا گزارہ کر لیا ہے۔ قیامت تو اپنی جگہ ہے۔
    6 ۔ میں نے تیرا نام لیا اور اپنی جان میں آگ لگا لی۔ میں اپنے ہاتھ اور زبان سے آگ میں پڑا ہوں۔
    7 ۔ اس کے سر پر مروارید کی لڑی کو جانتا ہے کہ کیا چیز ہے۔ شوق کے
    ----------------------------------------------------------------------
     
  4. ملک بلال
    آف لائن

    ملک بلال منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2010
    پیغامات:
    22,418
    موصول پسندیدگیاں:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:
    ریختہ صفحہ 279تذکرۃ الخواتین صفحہ 279

    پیاسوں کو ایک آب حیات کی ندی ہے۔
    8 ۔ اس کی زلف کے نیچے اس کا خال ایک بلائے پنہاں ہے۔ بلاؤں سے مت ڈر کہ رات درمیان ہے۔
    9 ۔ آئینہ نے تیری نظر بازی میں ہمارا مقابلہ کیا ہے۔ اس لئے ہم اس کو جلا وطن کرتے ہیں۔
    10 ۔ ابھی وہ بچہ ہے ہنسنا نہیں جانتا۔ نگاہ چرانا اور دیکھنا اس کو نہیں آتا۔
    11 ۔ یہ ظالم جو گھوڑے سوار زین میں بیٹھا ہوا نظر آتا ہے۔ ہماری تمام تمناؤں کا بانی ہے۔
    12 ۔ یہ جو پانی کے اوپر تو دیکھتا ہے۔ یہ فوارہ نہیں ہے۔ پانی نے اس فصل کی گرمی کی وجہ سے زبان نکال دی ہے۔
    13 ۔ میری آنکھوں سے رونے کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ سچ تو ہے بیدست و پا آدمی سے اور کیا ہو سکتا ہے۔

    نور جہاں کی قبر لاہور میں ہے جس کے اوپر کتبہ میں یہ شعر لکھا ہوا ہے۔

    برمزار ما غریباں نے چراغے نے گلے
    نے پر پروانہ سوزد نے صدائے بلبلے

    نہانی ۔
    اصفہان کی رہنے والی تھی۔ سلطان حسین مرزا کی بیگم کی خدمت میں آتونی کی خدمت انجام دیتی تھی۔ نہایت خوش گو تھی۔ اب ایک شعر یادگار ہے۔

    از ہر دو طرف در طلبم زلف نگار است
    در مذہبِ ما سبحۂ و زنار نبا شد

    ترجمہ ۔ دونوں طرف سے میری طلب میں معشوق کی زلف ہے۔ ہمارے مذہب میں تسبیح اور زنار یکساں ہے۔
    ----------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 280تذکرۃ الخواتین صفحہ 280

    نہانی ۔
    اکبر آباد کی رہنے والی تھی۔ شہنشاہ جلال الدین کے عہد میں زندہ تھی اور اس کا بیٹا کشمیر میں میر بحر کی خدمت انجام دیتا تھا۔ نمونہ کلام۔

    روز غم شب درد بے آرام پیدا کردہ ام
    درد مندی ہا دریں ایام پیدا کردہ ام

    ترجمہ ۔ دن کو غم اور رات کو درد بے آرام میں نے پیدا کر لیا ہے۔ اس زمانہ میں میں نہایت درد مند ہوں۔

    نہانی ۔
    قائن کی رہنے والی ایک شوخ طبع خوش خیال شاعرہ کا تخلص ہے۔

    ہمچو من بر رخ خوباں نظر پاک انداز
    ہر کجا دیدۂ آلودہ بود خاک انداز

    ترجمہ ۔ میری طرح معشوقوں کے رخسار پر پاک نظر ڈال۔ جہاں کہیں آلودہ عصیاں نگاہ ہو اس پر خاک ڈال۔

    نہانی ۔
    کرماں کی رہنے والی خواجہ افضل کرمانی کی بہن تھی۔ جو کہ سلطان حسین مرزا کے دربار میں دیوان بیگی کی خدمت انجام دیتا تھا۔ نہایت اچھے شعر کہتی تھی۔

    اگرچہ مہر بتقدیر لا یزال بر آید
    بماہ من نرسد گر ہزار سال آید
    واے بر شاعران نادیدہ
    کہ ندارند نور در دیدہ
    قد خوباں بسر و میخوانند
    رخ ایشاں بماہ تابیدہ
    ----------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 281تذکرۃ الخواتین صفحہ 281

    ماہ قرصی است نا تمام عیار
    سر و چو بے است نا تراشیدہ

    ترجمہ 1 ۔ اگرچہ سورج خدا کے حکم سے طلوع کرتا ہے مگر میرے چاند کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ اگر ہزار سال نکلے۔
    2 ۔ شاعران نادیدہد پر افسوس ہے۔ ان کے دیدے پھوٹ گئے ہیں۔ معشوقوں کے قد کو سرو کہتے ہیں۔ اور ان کے رخسار کو چاند۔ یہ نہیں جانتے کہ چاند ایک قرص ہے کھوٹا اور سرو ایک ناتراشیدہ لکڑی ہے۔

    نہانی ۔
    شیراز کی رہنے والی تھی۔ نہایت عمدہ شعر کہتی تھی۔ مفصل حال معلوم نہ ہو سکا۔

    قدم بخانۂ چشمم بنہ کہ جا اینجاست
    رواق منظر خوباں خوش لقا اینجاست
    شدم دیوانہ تا در خواب دیدم آں پری رو را
    چہ باشد حال گر بیند بہ بیداری کسے او را

    ترجمہ 1 ۔ میری آنکھوں میں قدم رکھ کہ جگہ اسی جگہ ہے۔ خوب خوش لقا کا وراق منظر یہیں ہے۔
    2 ۔ میں دیوانہ ہو گیا جب سے کہ اس پری رو کو خواب میں دیکھا ہے۔ کیا حال ہو اگر اس کو کوئی جاگتے میں دیکھ لے۔

    نہانی ۔
    حرم بیگم والدہ شاہ سلیمان کی مصاحب اور ہم نشیں تھی۔ اس کا باپ شاہ سلیمان کے زمانہ کے امرائے نامی میں تھا۔ چونکہ نہانی نہایت حسین اور خوبرو تھی اور اس کے حسن و جمال کا شہرہ جا بجا ہو چکا تھا۔ اس وجہ سے جا بجا سے اس کی
    ----------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 282تذکرۃ الخواتین صفحہ 282

    خواستگاری کے لئے رقعے آتے تھے۔ اور اونچے اونچے گھرانوں میں اس کی منگنی کی تمنا کی جاتی تھی۔ مگر نہانی نے عجب انداز اختیار کیا تھا۔ ایک رباعی کہی تھی۔ اور مشہتر کر کے یہ اعلان کر دیا تھا کہ جو کوئی اس کا جواب لکھے گا اسی سے شادی کر لوں گی۔ مگر کوئی اس کا جواب نہ لکھ سکا۔ رباعی یہ ہے۔

    از مرد برہنہ روے زر می طلبم
    از خانۂ عنکبوت پر می طلبم
    من از دہن مار شکر می طلبم
    و زپشۂ مادہ شیر نر می طلبم

    ترجمہ 1 ۔ مرد برہنہ سے میں زر طلب کرتی ہوں۔ اور مکڑی کے جالے سے پر مانگتی ہوں۔
    2 ۔ سانپ کے منہ سے شکر مانگتی ہوں اور پشہ مادہ سے شیر نر طلب کرتی ہوں۔

    سنا ہے کہ سعد اللہ خاں وزیر شاہجہاں بادشاہ نے اس کا جواب دیا۔ بعد کو نہیں معلوم کہ کیا نتیجہ ہوا۔ سعدہ اللہ خاں کی رباعی یہ ہے۔

    علم است برہنہ رو کہ تحصیل زر است
    تن خانہ عنکبوت و دل بال و پر است
    زہر است جفای علم و معنی شکر است
    ہر پشپہ از وحشید آں شیر نر است

    اسی بنا پر مصنف اختر تاباں نے اس کو دہلی کی رہنے والی بتایا ہے۔ غالباً یہ صحیح نہیں ہے۔ مصنف مراۃ الخیال نے اس کے مولد و مسکن کے متعلق کوئی ذکر
    ----------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 283تذکرۃ الخواتین صفحہ 283

    نہیں کیا۔ اس کی شاعری کا انداز بیان یہ ہے۔

    در مذہب ما تو بہ زمیخانہ حرام است
    زہد و ورع و سبحہ صد دانہ حرام است
    بابادہ فروشان غم ایام حرام است
    بادود کشاں دولت بہرام حرام است
    فرض است بہ عاشق کہ نبوشد مئے تجرید
    بازاہد خود بیں مئے گلفام حرام است
    رنداں نظر بجلوۂ دنیا نمی کنند
    جز آرزوئے ساغر و صہبا نمی کنند

    ترجمہ 1 ۔ ہمارےمذہب میں میخانہ سے توبہ کرنا حرام ہے۔ زہد اور پرہیز گاری اور سو دانوں کی تسبیح حرام ہے۔
    2 ۔ شراب بیچنے والوں کے لئے زمانہ کا غم حرام ہے۔ تلچھٹ پینے والوں کے لئے دولت بہرام کی ضرورت نہیں ہے۔
    3 ۔ عاشق کے لئے فرض ہے کہ تجرید کی شراب پئے۔ زاہد خود بیں کے لئے مئے گلفام حرام ہے۔
    4 ۔ رند جلوۂ دنیا پر نظر نہیں ڈالتے سوائے شراب و ساغر کی آرزو کے ان کو اور کوئی آرزو نہیں ہوتی۔

    ردیف واؤ

    وزیر ۔
    تخلص تھا اور وزیر النساء بیگم نام تھا۔ دہلی کی رہنے والی تھی۔ محمد اکبر خاں متخلص بہ خاور سیستانی کی اہلیہ تھی۔ شوہر کے فیض سے صحبت نے شاعر بنا دیا تھا۔
    ----------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 284تذکرۃ الخواتین صفحہ 284

    مرزا غالب سے اصلاح لیتی تھی۔ ایک شعر اس کا ملتا ہے۔

    دلم از کوچۂ آں زلف دو تا باز آمد
    رفتہ بود انچہ زما باز بما باز آمد

    ترجمہ ۔ میرا دل کوچۂ زلف دوتا سے واپس آ گیا۔ جو چیز ہمارے پاس سے گئی تھی پھر ہم کو واپس مل گئی۔

    ردیف ہائے ہوز

    ہما ۔
    افراسیاب بیگ خاں ترک کی لڑکی تھ۔ ایرانی النسل تھی۔ نہایت حسین مہ جبین تھی۔ چنگ خوب بجاتی تھی۔ ایک شعر اس سے یادگار ہے۔

    زخونم چہرہ قاتل پر افشاں وقت زبحم شد
    رخش یک سادہ قرآں بود از خونم مترجم شد

    ترجمہ ۔ میرے خون سے ذبح کے وقت میرے قاتل کا چہرہ پر افشاں ہو گیا۔ اس کا رخسارہ ایک سادہ قرآن تھا میرے خون سے مترجم ہو گیا۔

    ہمدمی ۔
    تخلص تھا۔ شریفہ بانو نام تھا۔ نہایت عفیفہ سیدانی تھی۔ جرجان کی رہنے والی تھی۔ خوب بلکہ بہت خوب شعر کہتی تھی۔ یہ غزل اسی کی ہے۔

    من سوختۂ لالہ رخانم چہ تواں کرد
    والہ شدۂ سیز خطانم چہ تواں کرد
    صد تیر بلا و ستم و جور رسیدہ
    زاں ناوک دلدوز بجانم چہ تواں کرد
    ----------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 285تذکرۃ الخواتین صفحہ 285

    مجنوں صفت از عشق بتاں زار و نزارم
    دیوانہ لیلٰے صفتانم چہ تواں کرد
    جز نام تو ام ہر نفسے ذکر دگر نیست
    نامت شدہ چوں ورد زبانم چہ تواں کرد
    اے ہمدمیؔ از جور رقیبان ستمگار
    بر عرش بریں رفت فغانم چہ تواں کرد
    جامہ گلگونی در آمد مست در کاشانہ ام
    خیز اے ہمدم کہ افتاد آتشے در خانہ ام

    ترجمہ 1 ۔ میں لالہ رخوں کا جلایا ہوا ہوں کیا کروں۔ سبز خطوں کا عاشق ہوں کیا کروں۔
    2 ۔ ظلم اور جور کے سو تیر بلا مجھ پر لگے ہیں۔ اس کے تیر دلدوز سے عاجز آ گیا ہوں کیا کروں۔
    3 ۔ مجنوں کی طرح معشوقوں کے عشق سے زار و نزار ہوں۔ لیلےٰ ادا معشوقوں کا دیوانہ ہوں کیا کروں۔
    4 ۔ تیرے نام کے سواے ہر نفس میرے لئے کوئی دوسرا ذکر نہیںتیرا نام میرے ورد زباں ہو گیا ہے کیا کروں۔
    5 ۔ اے ہمدمیؔ ظالم رقیبوں کے طلم سے میرا شور اور فریاد عرش بریں پر گیا ہے کیا کروں۔
    6 ۔ ایک سرخ پوش معشوق یکا یک میرے گھر میں آ گیا۔ اے ہم نشیں دوڑ کہ میرے گھر میں آگ لگ گئی ۔

    ردیف یاء

    یاسمن بو ۔
    مرزا عسکری دامغانی کی معاصر تھی۔ اس کا شوہر ایران سے ہندوستان چلا آیا تھا اور یہیں گلبرگہ دکن میں اس کا انتقال ہوا۔ اس کے بعد یاسمن بو
    ----------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 286تذکرۃ الخواتین صفحہ 286

    کسی بادشاہ کے حرم میں ملازم ہوئی اور دہلی چلی آئی۔ عمر بھی عزت اور حشمت سے رہی۔ نہایت خوشنویس تھی۔ خط ثلث، خط شفیعا، خط نستعلیق میں ماہر کامل تھی۔ طبیعت نہایت شوخ پائی تھی۔ نمونہ کلام کے لئے چند شعر لکھے جاتے ہیں۔ جو اس کی شوخ طبعی کے شاہد عادل ہیں۔

    ایں قدر ریش چہ معنی دارد
    صورت میش چہ معنی دارد
    یک نخود کلہٗ و نہ من دستار
    ایں کم و بیش چہ معنی دارد
    کشتن و زندہ نمودن ما را
    اے ستم کیش چہ معنی دارد
    در رہ مہر و جفا اے ظالم
    ایں پس و پیش چہ معنی دارد

    ترجمہ 1 ۔ اس قدر داڑھی کے آخر کیا معنی۔ بکرے کی صورت بنانے سے کیا نتیجہ۔
    2 ۔ ایک چنے کی برابر منہ اور نو من پگڑ اس کمی اور بیشی سے کیا مراد ہے۔
    3 ۔ ہم کو مارنا اور جلانا اے ظالم یہ حرکتیں آخر کس لئے۔
    4 ۔ محبت اور ظلم کے راستہ میں اے ظالم اس پس و پیش سے کیا مطلب ہے۔

    تمام شد
    ----------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 287تذکرۃ الخواتین صفحہ 287

    کلام وزیر النساء وزیرؔ

    مرا عہدیست با جاناں کہ تا جاں در بدن دارم
    سر کویش ز در اشک خود رشک عدن دارم
    خیال آں قدر رعنائی زیر پیرہن دارم
    چو فانوس آتش سوزاں درون جان و تن دارم
    بہار و مطرب و ساقی و یار و ابرا زہر سو
    کدا حافظ من اے یاراں دل پیماں شکن دارم
    تو اے صیاد بر بستی اگر بال و پرم باری
    زبانم دہ کہ پیغامے بہ مرغان چمن دارم
    بصحرا روح مجنوں می طپید از انتظار من
    جنونم خوش کہ من دل بسگتی ہا با وطن دارم
    غبار راہ جاناں سرمۂ چشم من آوردی
    صبا صد منت پایت بجان خویشتن دارم
    وزیرمؔ گرچہ در گنج تواری بودہ ام لیکن
    سمند طبع جولاں گر بمیدان سخن دارم

    ترجمہ 1 ۔ معشوق سے میرا ایک عہد ہے یہ کہ جب تک جسم میں جان رہی اس کی گلی کو اپنے آنسوؤں سے رشک عدن رکھوں گا۔
    2 ۔ اس قدر رعنا کا خیال میرے دل میں چھپا ہوا ہے ۔ فانوس کی طرح آگ جلانے والی۔ میری جان و تن میں موجود ہے۔
    3 ۔ بہار ہی مطرب ہے، ساقی ہے ، یار ہے اور ہر طرف گھٹا چھائی ہے۔ اے یارو رخصت۔ میرے پاس ایک پیماں شکن دل ہے۔
    4 ۔ تو نے اے صیاد اگر میرے بال و پر باندھے
    ----------------------------------------------------------------------
     
    ساتواں انسان نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں