1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

تذکرۃ الخواتین

'کتب کی ٹائپنگ' میں موضوعات آغاز کردہ از ملک بلال, ‏27 اگست 2020۔

  1. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    ریختہ صفحہ 22 تذکرۃ الخواتین صفحہ 20
    نہ کیجئے ناز حسن عارضی پر
    نہ سمجھو یہ بہار بیخزاں ہے
    اب دو شعر انعام اللہ خان یقین کے سنئے
    اتنا کوئی جہاں میں کبھو بیوفا نہ تھا
    ملتے ہی تیرے مجھ سے یہ دل آشنا نہ تھا
    جو کچھ کہیں ہیں تجھ کو یقین ہے سزا تری
    بندہ جو تو بتوں کا ہوا کیا خدا نہ تھا
    ولہ
    سریر سلطنت سے آستان یار بہتر تھا
    ہمیں ظل ہما سے سایہ دیوار بہتر تھا
    ولہ
    کعبہ بھی ہم گئے نہ گیا پر بتوں کا عشق
    اس درد کی خدا کے بھی گھر میں دوا نہیں
    بنو { ط } دلی کی ایک پردہ نشین عفت فروش تھی حسن ظاہری سے نہایت ہی آراستہ تھی ۔ گلاب سنگھ کھتری متخلص بہ آشفتہ دہلوی جو خود بھی ایک حسین طرحدار جوان تھے اس پر فریفتہ تھے ۔ مگر یہ ظالم قتالہ عالم کبھی ادھر ملتفت نہ ہوتی تھی ۔ اور بعض تذکرہ نویس کہتے ہیں کہ بنو بھی آشفتہ پر شیفتہ تھی ۔ کچھ دن وصل و وصال میں بسر ہوئے ۔ مگر آخر کار فلک تفرقہ انداز رنگ لایا ۔ عاشق و معشوق کو جدا کردیا ۔ آشفتہ کی طرف سے اگرچہ وصل اور صفائی کی سینکڑوں تدبیریں کی گئیں مگر
     
    ملک بلال نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. ملک بلال
    آف لائن

    ملک بلال منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2010
    پیغامات:
    22,418
    موصول پسندیدگیاں:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:
    ریختہ صفحہ 161 تذکرۃ الخواتین صفحہ 161

    ناز (ط) ۔
    بی جان طوائف سکنۂ فرخ آباد کا تخلص تھا۔ نمونہ کلام درج کیا جاتا ہے۔

    زہرہ بلائیں لینے لگی آسمان پر
    توڑا لیا جو ناچ میں اس نے اٹھا کے ہاتھ
    ان کو جانا تھا مرے پاس سے گر وقت اخیر
    شکل اک بار مجھے اور دکھاتے جاتے
    ناتوانی کا برا ہو نہیں اٹھنے دیتی
    رہ گئے کوچۂ دلدار میں جاتے جاتے
    ان کی محفل میں کہاں ہم سے غریبوں کا گذر
    دیکھ لیتے ہیں مگر راہ میں جاتے جاتے
    سر محفل میں رقیبوں سے الجھ پڑتا ہوں
    ہو وہ ہر بات پہ زانوں ہیں دباتے جاتے
    خیر وہ بھی ہمیں کیا یاد کریں گے اے نازؔ
    دل و دیں ان کو دیے جاتے ہیں جاتے جاتے

    ہاتھ جینے سے جبکہ دھو بیٹھے
    بحر الفت میں دل ڈبو بیٹھے
    ہم تو جاتے ہیں او ستم ایجاد
    تیرے پہلو میں چاہے جو بیٹھے
    میری تربت دکھا کے کہتے ہیں
    اپنے ہاتھوں یہ جان کھو بیٹھے
    بے مروت ہے نازؔ وہ گل رو
    تم تو بے کار دل کو کھو بیٹھے

    ناز (ط) ۔
    تخلص۔ گیتی آرا بیگم بنت گمانی بیگم دہلوی کا تھا۔ نہایت شوخ مزاج چالاک تھی اور بہت عمدہ شعر کہتی تھی۔ نمونۂ کلام کے لئے کچھ شعر لکھے جاتے ہیں جو اس کی طباعی کا آئینہ ہیں۔
    -------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 162 تذکرۃ الخواتین صفحہ 162

    وصال یار کا ساماں جہاں بنا بگڑا
    ہمارا کام یونہی ہر زماں بنا بگڑا
    تمہارے پاؤں کے ناخن کی ہمسری نہ ہوئی
    ہلال لاکھ سر آسماں بنا بگڑا

    ہمارے عین لکھنے پر ہزاروں صاد کرتے ہیں
    یہ عین ان کی عنایت ہے کرم ایزاد کرتے ہیں

    تم تو باز آ گئے جفا کر کے
    ہم نے مارا نہ دم وفا کر کے
    ہم نے دکھلا دیا کمال عشق
    ابتدا ہی میں انتہا کر کے

    مرا دل زلف کو زنجیر یا دام بلا سمجھے
    ہزاروں پیچ ہوں جس میں اسے انسان کیا سمجھے
    غلط فہمی ہے اپنی آپ کو ہم باوفا سمجھے
    بڑا دھوکہ ہوا نا آشنا کو آشنا سمجھے
    تمہیں ہم دوست سمجھے دوست کو ناآشنا سمجھے
    ہمیں نادان تھے صاحب جو تم سمجھے بجا سمجھے

    ناز (ط) ۔
    تخلص۔ امیر جان بنت گوہر جان طوائف۔ لکھنؤ کی رہنے والی تھی۔ فکر شعر میں بھی کچھ اوقات صرف کرتی تھی۔ نمونۂ کلام ملاحظہ فرمائیے۔

    اپنے پہلو میں جگہ دی سر محفل مجھ کو
    دل دہی یار نے کی دیکھ کے بے دل مجھ کو
    اور مہماں ہوں کوئی دم کا ذرا ٹھہرو تو
    کیا چلے جاؤ گے اب چھوڑ کے بسمل مجھ کو
    الفت یار سے بس ہو گا نہ حاصل مجھ کو
    خاک میں خوب ملائے گا مرا دل مجھ کو
    گرمیاں یار نے کیں غیر سے میرے آگے
    صفت شمع جلایا سر محفل مجھ کو
    لے گیا بام پہ وہ حور شمائل مجھ کو
    آج رتبہ ہوا معراج کا حاصل مجھ کو
    -------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 163 تذکرۃ الخواتین صفحہ 163

    کر کے تیغ نگہ ناز سے بسمل مجھ کو
    دیر تک غور سے دیکھا کیا قاتل مجھ کو
    جس کا دیوانہ و سرگشتہ پھرا کرتا ہوں
    اسی لیلیٰ کا دکھا دے کوئی محمل مجھ کو

    ہو مبارک تم کو اے ناصح حکیمانہ علاج
    ہم سڑی * سودائی رکھتے ہیں دیوانہ مزاج
    رشک مہر ہ ماہ اب کہیے نہ کیونکر آپ کو
    آسماں پر آجکل رہتا ہے جانانہ مزاج
    ترک الفت کو جو مجھ سے کہہ رہا ہے ناصحا
    کب قبول اس کو کرے گا کوئی فرزانہ مزاج
    داغ سودا تاج ہے اقلیم صحرائے جنوں
    اے پری ہے تیرے دیوانوں کا شاہانہ مزاج
    واہ واہ اے عشق کیا کہنا ترا شاباش ہے
    ہو گئے اپنے یگانے ہم سے بیگانہ مزاج
    نازؔ گر ناز ان جناب شیخ کو طاعت پہ ہے
    اس کی رحمت پر ہیں نازاں جو ہیں رندانہ مزاج

    جذبۂ دل نہ دکھاتا جو اثر وصل کی رات
    وہ کسی طرح نہ رکتے مرے گھر وصل کی رات
    پاؤں پڑ پڑ کے جو ہم کہتے ہیں دل کا مطلب
    کچھ وہ شرما کے جھکا لیتے ہیں سر وصل کی رات

    بخت خفتہ کبھی جاگے گا نہ مجھ وحشی کا
    غل مچاتی ہے مرے پاؤں کی زنجیر عبث

    نازک ۔
    تخلص ۔ نازک بیگم نام ہے۔ کسمنڈی کی رہنے والی کوئی عفت مآب
    -------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 164 تذکرۃ الخواتین صفحہ 164

    خاتون ہیں۔ دور موجودہ کی ایک خوش فکر شاعرہ ہیں۔ کلام سے نسائیت کی بو آتی ہے۔ مردانہ طرز میں ہے۔ ایک غزل حاضر ہے۔

    اگر وہ درد مندان محبت کا گلا سنتے
    تو کاہے کو زبان خلق سے اچھا برا سنتے
    ذرا سی بات تھی عرض تمنا پر بگڑ بیٹھے
    وہ میرے عمر بھر کی داستان عشق کیا سنتے
    مرا افسانۂ غم خود کہا جاتا نہیں مجھ سے
    مرے ہمدرد کیا سنتے مرے غمخوار کیا سنتے
    نہ دل دیتے حسینوں کو نہ دم بھرتے محبت کا
    مرے منہ سے مرا قصہ جو ارباب وفا سنتے
    لکھا تو ہے انہیں نامہ مگر یہ خواہش دل ہے
    ہماری ہی زباں سے وہ ہمارا ماجرا سنتے
    یہ حسرت آخری حسرت ہے بیمار محبت کی
    کسی صورت سے وہ حال دل درد آشنا سنتے
    ہوا ہے جلوہ گاہ عام میں جلوہ نما کوئی
    کبھی اے کاش نازکؔ ہم بھی یہ دل کش صدا سنتے

    نازک (ط) ۔
    زینت جان طوائف دہلوی کا تخلص تھا۔ قدیم رنگ سے پتا چلتا ہے کہ شاید میر و سودا وغیرہ کے وقت میں تھی۔

    ہے نالہ و زاری کا مری شور فلک تک
    پر وہ بت گلفام کوئی کان دھرے ہے
    یاد آتی ہے ان آنکھوں میں آمد وہ نشے کی
    ساقی مۓ گل رنگ سے جب جام بھرے ہے
    -------------------------------------------------------------------
     
  3. ملک بلال
    آف لائن

    ملک بلال منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2010
    پیغامات:
    22,418
    موصول پسندیدگیاں:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:
    ریختہ صفحہ 165 تذکرۃ الخواتین صفحہ 165

    نازک (ط) ۔
    فتنہ جان طوائف مرزا شاہ رخ بہادر دہلوی کی گاینوں میں تھی۔ فارسی زبان اچھی جانتی تھی۔ پھر منا جان طوائف کی نوچی بن کر رہی۔ بری عیار فتنہ پرداز تھی۔ بات بات میں حریفان عشق میں فساد کرا دیتی تھی اور آپ پھر اچھی کی اچھی رہتی تھی۔ اس کے دیکھنے والوں کو میں نے بھی دیکھا ہے۔ آخر میں اس نے نکاح کر لیا تھا اور معاصی سے تائب ہو کر گوشۂ قناعت میں بیٹھ گئی تھی۔

    کہتا ہوں میں خدا سے یہ اب ماجرائے دل
    ایسا نہ ہو کہ میرا کسی بت پر آئے دل
    ڈرتے رہو خدا سے بتو ظلم مت کرو
    ایسا نہ ہو کہ تم کو کوئی دے سزائے دل
    نازکؔ شب فراق میں اتنا نہ روئیے
    اشکوں کی جا نکل نہ پڑیں لخت ہائے دل

    نازنین ۔
    کسی مجہول الحال عورت کا تخلص جس کے نام مقام اور کام کا کچھ حال نہ مجھے معلوم ہوا نہ میرے پیشرو تذکرہ نویسوں کو۔ مجبوراً یونہی کلام نقل کیے دیتا ہوں۔

    رک گیا دل جو مرا قابل افغاں ہو کر
    رہ گئے برہمی دہر کے ساماں ہو کر
    اپنے کشتہ کو تو ٹھوکر سے جلاتے جاؤ
    پھر کے جاتے ہو کہاں عیسی دوراں ہو کر
    نازنیںؔ جوش صفا یہ ہے کہ میرا کینہ
    رخ سے ظاہر ہے ترے قلب میں پنہاں ہو کر
    -------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 166 تذکرۃ الخواتین صفحہ 166

    جوہر خنجر قاتل جو گل افشاں ہو جائے
    تن مجروں مرا رشک گلستاں ہو جائے
    دم مسیحانہ بھریں اپنی مسیحائی کا
    گر کہیں شہرۂ جاں بخشی جاناں ہو جائے
    امتحان دل عاشق جو انہیں ہے منظور
    یا خدا جلد یہ مشکل کہیں آساں ہو جائے

    دل مٰں میرے ہے خیال زلف جاناں آج کل
    دیکھتا ہوں روز میں خواب پریشاں آج کل
    سر میں سودا ہے مرے زلف سیاہ یار کا
    خوش مجھے آتی ہے سیرسنبلستاں آج کل

    جب کہیں پرتو فگن تیرا رخ روشن ہوا
    گھر بنا برج قمر روشن ہر اک روزن ہوا
    دم بدم بسمل تڑپتا خوب جی کو کھول کر
    پر ادب آموز اے قاتل ترا دامن ہوا
    جان دی میں نے جو اس چشم سیہ کے عشق میں
    سیرگاہِ آہواںِ چیں مرا مدفن ہوا

    کس صاحب حیا کی آمد ہوئی چمن میں
    نرگس نے منہ چھپایا پتوں کے پیرہن میں
    اس مہر وش نے رخ کو کاکل میں جب چھپایا
    چوٹی کی بات سوجھی مہ چھپ گیا گہن میں

    نجبین (ط) ۔
    دہلی کی ایک بازاری عورت کا تخلص تھا۔ ایک شعر کے سوا اور نہ کوئی حال معلوم ہوا نہ شعر ملا

    تک دیکھو بعد مرگ مرے انتظار کو
    نرگس نے چھا لیا ہے ہمارے مزار کو

    نزاکت (ط) ۔
    تخلص۔ رمجو نام تھا۔ نارنوں کی ایک طوائف تھی جو بچپن ہی سے دہلی میں رہی اور یہیں جوان ہوئی۔ نہایب مہذب حسین خوبصورت تھی
    -------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 167 تذکرۃ الخواتین صفحہ 167

    نواب مصطفے خاں شیفتہ رئیس جہانگیر آباد مرحوم اس پر شیفتہ و فریفتہ تھے۔ نواب صاحب کے فیض صحبت نے شاعر بھی بنا دیا تھا۔ یہ شعر تذکرۂ گلشن بے خار میں اسی کے نام سے درج کئے ہیں۔

    بسکہ رہتا ہے یار آنکھوں میں
    ہے نظر بار بار آنکھوں میں
    محفل گل رخاں میں وہ عیار
    لے گیا دل ہزار آنکھوں میں
    سرمۂ خاک پا عنایت ہو
    آ گیا ہے غبار آنکھوں میں

    کہیے جو رقیبوں سے برائی تو کہے وہ
    ہے وہ ہی وفادار جو جو ایسوں سے نباہے

    پڑا ہے خون دل سر سے قدم تک جا بجا میرے
    بنایا تھا مجھے گویا کہ خاک کوئے قاتل سے

    کہتا ہے آپ کی بھی ہے کیا عاشقی غلط
    گر کہیے تیرے عہد میں الفت نہیں رہی
    کیا کیا عذاب اٹھائے ہیں اندوہ عشق کے
    جز نام اب تو کچھ بھی نزاکت نہیں رہی

    ہوں نزاکت ولے کوئی کیا ذکر
    دم رخصت ترے سنبھال سکے

    کیوں نہ میں قربان ہوں جب وہ کہے ناز سے
    ہم کو جفا کا ہے شوق اہل وفا کون ہے

    مرے شوق پنہاں کی تاثیر دیکھو
    کہ دلدار بھی دلربا جانتا ہے
    نزاک ہوں ہر ناتوانِ محبت
    لطیفہ مرے کام کا جانتا ہے
    -------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 168 تذکرۃ الخواتین صفحہ 168

    نامنصفی اور اے بت بیداد گر ایسی
    چاہت تری غیروں کو بھی ہو گی مگر ایسی
    حرماں ہے اگر چاہ کی تعذیر تو ظالم
    تقصیر نہ ہو گی کبھی بار دگر ایسی
    ہم بزمی دشمن کو چھپانا ہی قاصد
    کہتا ہے کسی سے کوئی ناداں خبر ایسی

    نزاکت (ط) ۔
    تخلص۔ کندن نام۔ بنت حسینی طوائف دہلوی۔ سلیقہ شعار عورت تھی۔ ستار بجانے میں کمال حاصل تھا۔ شگفتہ مقیم جے پور کی شاگرد تھی۔ 1290 ھ میں زندہ تھی۔ کبھی کبھی شعر بھی کہتی تھی۔ نمونۂ کلام یہ ہے۔

    بلبل زار ہوں تو تیرا ہوں
    میں گرفتار ہوں تو تیرا ہوں
    خواہش دیں نہ کام دنیا سے
    میں طلب گار ہوں تو تیرا ہوں
    ہوں نہ اچھا کبھی مسیحا سے
    میں جو بیمار ہوں تو تیرا ہوں
    سجدہ کروا نہ غیر کے آگے
    بندہ اے یار ہوں تو تیرا ہوں

    نہ بوسہ رخ کا دیتے ہیں نہ گیسو چھونے دیتے ہیں
    یونہی اک عمر گزری ہے کہ صبح و شام کرتے ہیں

    نزاک (ط) ۔
    بمبئی کی ایک شاہد بازاری کا نام اور تخلص تھا۔
    -------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 169 تذکرۃ الخواتین صفحہ 169

    شعر عمدہ کہتی تھی۔ یہ غزل مشتری کو لکھنؤ بھیجی تھی۔

    جسے دیکھیے سنگدل بے وفا ہے
    نہیں بت کوئی دل لگانے کے قابل
    اسی سے ہے درد و الم عاشقوں کو
    ہے یہ نقش الفت مٹانے کے قابل
    کہیں کیا کیا ضعف نے حال اپھنا
    نہیں اب رہے لب ہلانے کے قابل

    نسرین ۔
    عابدہ خانم نام ہے۔ متھرا کی رہنے والی ایک نہایت معزز خاتون ہیں۔ پہلے پروین تخلص کرتی تھیں مگر جب یہ معلوم ہوا کہ اس نام کی کئی اک اور خواتین بھی ہیں تو آپ نے اس تخلص کو ترک کر کے نسرین تخلص اختیار کیا۔ اکثر غزلیں اور نظمیں کہتی رہتی ہیں اور زمانۂ حال کی ایک ممتاز شاعرہ ہیں۔ دو نظمیں مجھے اس وقت مل سکیں۔ نقل کیے دیتا ہوں۔ انہیں سے ناظرین ان کی جودت طبع کا اندازہ فرمائیں۔ پروین کے نام سے بھی آپ ہی کا کلام ہے۔ یہ تکرار نہیں بلکہ دانستہ ایسا کیا ہے۔

    دعائے شام

    کیوں ہیں پڑے ہوئے اداس کیف مری نگاہ میں
    پردے گرے ہوے ہیں کیا حسن کی بارگاہ میں
    -------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 170 تذکرۃ الخواتین صفحہ 170

    دل ہی نہیں کہ تجھ کو دوں نذر محبت ازل
    آنکھیں نہیں کہ آ رہوں میں بھی تری نگاہ میں
    ہاے و رحم کن نظر جس کی کرم نمائیاں
    بن گئیں ساز زندگی عشق کی سوزگاہ میں
    پھر تری برہمی کی یاد رنگ اڑا کے لے چلی
    دیکھ رہی ہوں میں تھے پھر افق سیاہ میں
    دعوت سیر دل تجھے دے نہ سکے معاف کر
    بند پڑے تھے راستے ہر نفس تباہ میں
    ہاں ترا عشوہ خفا اب نہیں مائلِ کرم
    ہاں نہیں اب مری نگاہ تیری حسین نگاہ میں
    خیر سکون دل نہ بن خیر التفات نہ کر
    آنے دے ذکر تو مرا پرسشِ گاہ گاہ میں
    کچھ نہیں چاہتی مگر اک نگہہِ غلط اثر
    ہمت اعتراف ہو جس سے لب گناہ میں
    گوش حقیقت آشنا نوحۂ خستہ کام سن
    مہر سحر نمائے دل عرض نیاز شام سن

    (برف)

    برف اے جوہر شفاف اور اے شیشۂ نور
    ہے تجھے سے اثر موسم گرما ٹھنڈا
    ایک تسکین ترے دم سے ہے میخانہ میں
    ہے خنک جام و سبو سرد ہے شیشا ٹھنڈا
    تو نے سوز تپ فرقت میں بہت کام دیا
    تو نہ ہوتا تو دل گرم نہ ہوتا ٹھنڈا
    جسم پر ہوتی ہے اک تازگی طاری تجھ سے
    کہ اثر سے ترے آتا ہے پسینا ٹھنڈا
    تیرے ٹکڑے ہیں کہ بلور کے آئینے ہیں
    نظر آتا ہے تخیل کا سراپا ٹھنڈا۔
    -------------------------------------------------------------------
     
  4. ملک بلال
    آف لائن

    ملک بلال منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2010
    پیغامات:
    22,418
    موصول پسندیدگیاں:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:
    ریختہ صفحہ 181 تذکرۃ الخواتین صفحہ 181

    تذکرۂ خواتین

    حصہ دوم

    یعنی ان عورتوں کا کلام جو فارسی میں شعرہ کہتی تھیں

    مصنفہ

    مصور درد مولانا عبدالباری۔ آسی مدنی

    باہتمام کیسری داس سیٹھ سپرنٹنڈنٹ

    مطبع منشی نول کشور لکھنؤ میں چھپا
    -------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 182 تذکرۃ الخواتین صفحہ 182

    ردیف الف

    آرام ۔
    کسی بادشاہ ہندوستان کے محلات میں سے تھیں۔ مگر گردش زمانہ کو دیکھیے اتنا مٹا دیا کہ آج یہ بھی پتا نہیں چلتا کہ وہ کون سا ذی جاہ تھا جس کے شبستان اقبال میں دل آرام جو اس نازک خیال کا نام ہے، جلوہ افروز تھی۔ بعض کا قیاس ہے کہ رنگیلے مزاج بادشاہ نورالدین جہانگیر کی حرم محترم تھیں۔ مگر یہ بات پایۂ تحقیق کو نہیں پہنچتی۔ خدا بہتر جاننے والا ہے۔ آج ہمارے سامنے صرف یہ چند شعر موجود ہیں جو نقل کئے جاتے ہیں۔

    محو از دل خود ساز ہمہ نقش عدم را
    منزل گہ اغیار مکن فرش حرم را
    سرمایۂ عقبیٰ بکف آور کہ مبادا
    تقدیر کشد بر سر تو تیغ دودم را
    بآہ و نالہ کردم صید خود وحشی نگاہاں را
    بزور جذب کردم رام باخود کجکلاہاں را
    بہ پوشیدم سحر گہ چوں لباس بیریائی را
    گرو کردم بجام مے لباس پارسائی را
    شدم ہمدم بہ میخواران بہ خلوت خانۂ حیرت
    شکستم ساغر و پیمانۂ زہد ریائی را
    -------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 183 تذکرۃ الخواتین صفحہ 183

    گرفتم دامن صحرا شدم ہم پیشۂ مجنوں
    سبق آموز گشتم دین عشق بینوائی را

    ترجمہ (ا)
    اپنے دل دل سے تمام نقش عدم مٹا دے۔ فرش حرم کو دوسروں یا غیروں کے رہنے کی جگہ نہ بنا۔
    اسی مضمون کا ایک شعر تذکرۂ خزانہ عامرۂ مولفہ مولانا غلام علی آزاد میں ایک مرتبہ دیکھا تھا جو اب تک یاد ہے۔

    غیر حق را مید ہی رہ در حریم دل چرا
    میکنی بیگانہ را مہمان ایں من زل چرا

    ترجمہ
    ؎غیر حق کو راہ دیتا ہے حریم دل میں خیوں
    کرتا ہے بیگانہ کو مہنان اس منزل میں کیوں

    ترجمہ (2)
    عقبیٰ کا سرمایہ حال کر کہیں ایسا نہ ہو کہ قضا تیرے سر پر تیز تلوار کھینچ لے۔
    (3) میں نے آہ و نالہ کر کے وحشی نگاہوں کو اپنا شکار کر لیا۔ اپنے جذب کے زور سے میں نے ٹیڑھی ٹوپی والے معشوقوں کو اپنا تابعدار کر لیا۔
    (4) صبح کے وقت جب میں نے بیریائی کی شراب پی تو ایک جام مے کے بدلے اپنے جامۂ پارسائی کو گرو کر دیا۔
    (5) دل میں حیرت کے خلوت خانہ میں شرابیوں کا ہمدم ہو گیا اور زہد کے ساغر اور پیمانۂ ریائی کو توڑ ڈالا۔
    (6) میں جنگل میں نکل گیا اور مجنوں کا ہم پیشہ ہو گیا۔ اور بینوائی کے عشق کا سبق پڑھانے والا
    -------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 184 تذکرۃ الخواتین صفحہ 184

    ہو گیا۔

    آرزوی ۔
    سمرقند کی رہنے والی ایک شاعرہ تھی تذکر مرأۃالخیال سے معلوم ہوتا ہے کہ نہایت حسین اور صاحب جمال تھی۔ شعر نہایت عمدہ کہتی تھی۔ اکثر نازک نازک مضامین نظم کرتی تھی اور معاصرن سے خراج تحسین وصول کرتی تھی۔ اس کا یہ مطلع نہایت مشہور ہے۔

    شدیم خاک رہت گر بدرد ما نرسی
    چناں رویم کہ دیگر بگرد ما نرسی

    ترجمہ۔ ہم تیری راہ میں خاک ہو گئے ہیں اگر تو ہمارے درد کو نہ پہنچا تو ہم ایسے جائیں گے کہ پھر تو ہماری گرد کو بھی نہ پہنچ سکے گا۔

    ماند داغ عشق او بر جانم از ہر آرزو
    آرزو و سوزست عشق و من سراسر آرزو

    ترجمہ ۔ تمام آرزؤں کے فنا ہونے پر اس کے عشق کا داغ میری جان پر رہ گیا ہے۔ عشق آرزو سوز ہے اور میں سراپا آرزو ہوں۔

    آغا باجی ۔
    فتح علی شاہ قاچار گزشتہ شاہ ایران کی حرم محترم تھیں۔ شعر کہتی تھیں اور خوب کہتی تھیں۔ چند شعر جو مجھے ملے درج کرتا ہوں۔

    خرم آں کو بہ سر کوئے تو جائے دارد
    کہ سر کوئے تو خوش آب و ہوائے دارد
    بسفر رفت و دلم شد جرس ناقۂ او
    رسم انیست کہ ہر ناقہ ورائے دارد
    -------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 185 تذکرۃ الخواتین صفحہ 185

    سوختم از آتش غم ناصحا تا کے زمنع
    میزنی بر آتشم دامن برو خاموش باش
    تا حشر نویسند اگر می نہ شود طے
    نے دفتر حسن تو نہ طومار فراقم

    ترجمہ (1) ۔ وہ بڑا اچھا جو تیری گلی میں رہتا ہے۔ کیونکہ تیری گلی کی آب و ہوا بڑی اچھی ہے۔
    (2) میرا معشوق سفر میں گیا اور میرا دل اس کے ناقہ کا جرس بن کر اس کے ساتھ گیا ہے۔ کیوں نہ ہو، یہ رسم ہے ہر ناقہ کے ساتھ جرس ہوا کرتا ہے۔
    (3) میں غم کی آگ سے جل گیا۔ اے ناصح تو کب تک منع کر کر کے میری آگ کو بھڑکائے گا۔ بس بہتر یہی ہے کہ جا خاموش رہ۔
    (4) اگر حشر تک لکھتے رہیں تو بھی لکھا نہ جائے گا۔ نہ تیرے حسن کا دفتر اور نہ میری جدائی کا طومار۔

    آغا کوچک ۔
    سیف اللہ مرزا قاچار کی صبیہ تھی۔ کبھی کبھی شعر کہتی تھی۔ یہ رباعی اسی کی ہے۔

    گویند بہشت و حور و کوثر باقی است
    در روز جزا دوزخ و محشر باقی است
    دوزخ چہ بود بغض علی و آلش
    جنت بہ محبت پیمبر باقی است

    ترجمہ (1) کہتے ہیں کہ بہشت اور حور اور کوثر باقی رہیں گے۔ روز جزا میں دوزخ اور محشر باقی رہیں گے۔
    (2) دوزخ کیا چیز ہے حضرت علی کرم اللہ وجہہ اور آپ کی اولاد امجاد سے بغض رکھنا۔ اور جنت پیغمبر ؤ کی محبت کی وجہ سے باقی ہے۔
    -------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 186 تذکرۃ الخواتین صفحہ 186

    آقا بیگہ اباق ۔
    سلطان حسین جس کی علم دوستی شہرۂ آفاق تھی اور جس کے امرا میں امیر علی شیر ایک علم پرور دوست امیر تھا۔ اسی کے زمانہ میں یہ شاعرہ شہر ہرات میں رہتی تھی۔ نہایت متمول اور ذی رتبہ تھی۔ خاص و عام کی حاجت برآری اس کا شعار تھا۔ تمام سامان ظاہری اور جائداد و املاک اس کے پاس تھی۔ بڑے بڑے ادیبوں اور فاضلوں کا مجمع رہتا تھا اور اس نے اپنی علو ہمتی سے سب کے وظائف اور تنخواہیں مقرر کر رکھی تھیں۔ چنانچہ خواجہ آصفی کی بھی تنخواہ مقرر تھی۔ یہ اس زمانہ کے ایک مشہور و معروف شاعر تھے۔ ایک مرتبہ اتفاق سے ان کی تنخواہ پہنچنے میں کچھ دیر ہو گئی۔ انہوں نے کچھ دن انتظار کیا۔ جب انتظار سے کوئی کام نہ چلا تو یہ قطعہ آقا بیگہ کو لکھ بھیجا۔

    ایا عروس خطا بخش جرم پوش بگو
    کہ کے وظیفۂ مارا قرار خواہی داد
    بوقت غلہ مرا گفتۂ کہ باز دہم
    سرم فدائے درت چند بار خواہی داد

    ترجمہ ۔ اے خطا بخش اور جرم پوش دلہن یہ بتا کہ ہمارا وظیفہ کب قرار دے گی۔ تو نے غلہ دیتے وقت کہا تھا کہ پھر دیا جائے گا۔ میں تیرے قربان کتنے مرتبہ تو دے گی۔

    آقا بیگہ یہ قطعہ پڑھ کر ہنسی اور وظیفہ مقرر معہ کچھ زائد سامان وغیرہ کے
    -------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 187 تذکرۃ الخواتین صفحہ 187

    بھیج دیا۔ آقا بیگہ کا دیوان اگرچہ بڑا ہو گا۔ اور ظاہر ہے کہ اس قدر شاعر دوست شاعرہ خود بھی کیسی باکمال ہو گی مگر افسوس کہ آج ان کے چند اشعار کے سوا اور اس کے کلام کا پتا نہیں۔ آہ۔

    نسب نامہ دولت کیقباد
    ورق بر ورق بردہر سوئے باد

    شعر یہ ہیں۔

    آوازاں دامے کہ دارد رشتۂ جاں تاب ازو
    و اے بر لعلے کہ ہر دم میخورد خونآب ازو
    نتواں دید رخ خوب ترا ماہ بماہ
    زانکہ آساں نتواں کرد بخورشید نگا

    ترجمہ ۔ ہائے فریاد ہے اس جال سے جس سے میرا رشتہ جاں امبٹھا * جاتا ہے۔ افسوس ہے اس لب سے کہ ہر وقت شراب اس سے اپنا خون پیتی ہے۔
    (2) تیرے خوب صورت رخسارہ کو ماہ بماہ نہیں دیکھا جا سکتا۔ اس واسطے کہ آفتاب کو آسانی سے نہیں دیکھ سکتے ۔

    آقا دوست ۔
    قیام درویشن کی لڑکی تھی سبزوار کی رہنے والی تھی۔ نہایت فاضل تھی۔ خصوصیت سے علم عروض و قوافی میں بہت کامل دستگاہ حاصل تھی۔ آج صرف چند شعر اس سے یادگار ہیں۔

    ز آشنائی تو عاقبت جدائی بود
    فغاں کہ با تو مرا ایں چہ آشنائی بود
    -------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 188 تذکرۃ الخواتین صفحہ 188

    ہر کجا آں مہ بآں زلف پریشاں بگزرد
    ہر کہ کفر زلف او بیند زایماں بگزرد
    اے محباں بوالعجب دردیست درد عاشقی
    ہر کہ دامن گیرد ایں دردش زدرماں بگزرد
    در فراقش دوستی گرید چو ابر نو بہار
    گریۂ رازش چو بیند ابر گریاں بگزرد

    ترجمہ (1) ۔ تیری دوستی کا نتیجہ آخر جدائی تھا۔ ہائے دہائی ہے میری تیرے ساتھ یہ کیا اور کیسی آشنائی تھی۔
    (2) جہاں کہیں میرا معشوق اپنی زلف پریشاں کئے ہوئے گزرتا ہے جو اس کی زلف کے کفر کو دیکھتا ہے۔ ایمان کو چھوڑ دیتا ہے۔
    (3) اے دوستو عاشقی کا درد عجب درد ہے۔ یہ درد جس کا دامن پکڑ لیتا ہے وہ علاج سے درگزرتا ہے۔
    (4) جو کوئی عاشق ہوا پھر سر و سامان کی امید نہ رکھو۔ کیونکہ عاشق اپنے سر اور سامان کو چھوڑ دیتا ہے۔
    (5) اس کی جدائی میں جو دوست ابر نوبہار کی طرح روتا ہے۔ تو جب اس کا رونا دیکھتا ہے تو ابر بھی روتا ہوا گزرتا ہے۔

    (ردیف ب)

    بزرگی ۔
    کشمیر جنت نظیر کے خطہ کی رہنے والی ایک طوائف تھی۔ گانے
    -------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 189 تذکرۃ الخواتین صفحہ 189

    بجانے میں مشاق اور دلربائی میں شہرۂ آفاقی تھی۔ آخر میں خدائے کریم نے ہدایت دی اور تمام منہیات سے توبہ کر کے گوشۂ قناعت اختیار کیا۔ دروازہ بند کئے رہتی تھی اور کوئی شخص آنے نہ پاتا تھا۔ عہد جہانگیر میں زندہ تھی۔ ایک شعر اس کا ملتا ہے جو درج کرتا ہوں۔

    مو بمو در نالہ ام گوئی کہ استاد ازل
    رشتۂ جانم بجائے تار در طنبور بست

    ترجمہ ۔ میں سر بسر نالہ و زاری بنئی ہوئی ہوں۔ گویا کہ استاد ازل نے میرے رشتۂ جاں کو بجائے تار کے طنبور میں باندھا ہے۔

    بلیغہ ۔
    شیراز کی رہنے والی نہایت طلیق اللسان اور فصیح البیان شاعرہ تھی۔ یہ مطلع اسی کا ہے۔

    شب سگ کویت بہر جائیکہ پہلو میزند
    روز خورشید آں زمیں را بوسہ بر رو میزند

    ترجمہ ۔ رات کو تیری گلی کا کتا جس جگہ کہ پہلو رکھتا ہے صبح کے وقت سورج اس زمین کے بوسے لیتا ہے۔

    بیدلی ۔
    یہ شاعرہ ہرات کی رہنے والی خواجہ عبداللہ کی بیوی تھی۔ خواجہ عبداللہ ہرات کا رہنے والا خواجہ حکیم کا بیٹا تھا۔ مشہور و معروف آدمی تھا۔ اس شاعرہ کا صرف ایک مطلع اب یادگار ہے۔
    -------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 190 تذکرۃ الخواتین صفحہ 190

    روم بہ باغ و زنرگس دو دیدہ وام کنم
    کہ تا نظارہ آں سرو خوش خرام کنم

    ترجمہ ۔ میں باغ میں جاؤں اور جا کر نرگس سے دو آنکھیں قرض لوں۔ تاکہ اس سرو خوش خرام کو دیکھ سکوں۔

    بیدلی ۔
    ناچنے گانے میں مہارت تامہ رکھتی تھی۔ ایران کے ایک قصبہ خیاباں کی رہنے والی تھی۔ ایک شعر اس کی نغمہ سنجی کا یادگار ہے۔

    چشم پرخوں و خیال خام آں دلبر درو
    مجمر پر آتش است و پارۂ عنبر درو

    ترجمہ ۔ میری آنکھ میں خون بھرا ہوا ہے۔ اور اس دلبر کا خیال خام اس میں ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جیسے آگ بھری ہوئی انگیٹھی میں عنبر کا ٹکڑا کوئی ڈال دیتا ہے۔

    بیگی ۔
    تخلص ہے اور آقا بیگی نام تھا۔اباق جلائز شاید کوئی معزز خطاب یا نسبی لقب نام کے ساتھ شامل تھا۔ امیر علی جلایر کی بیٹی تھی۔ امیر درویش علی کتاب وار حاکم قبۃ الاسلام بلخ برادر امیر نظام الدین علی شیر کی اہلیہ تھی۔ ہرات میں نہایت عزت و حشمت کے ساتھ زندگی بسر کرتی تھی۔ سلطان حسین بہادر خاں کے مقرباں خاص میں تھی۔ خود بھی شعرائے معاصر کے وظیفے اور تنخواہیں مقرر کر رکھی تھیں۔ اس کی یہ رباعی ملتی ہے۔
    -------------------------------------------------------------------
     
  5. ملک بلال
    آف لائن

    ملک بلال منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2010
    پیغامات:
    22,418
    موصول پسندیدگیاں:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:
    ریختہ صفحہ 191 تذکرۃ الخواتین صفحہ 191

    آ بے ک فلک بلب چکاند مارا
    سر گشتہ بہ بحر و بر دواند مارا
    اے کاش بہ منزلے رساند مارا
    کزہستی خود باز رہاند مارا

    ترجمہ (1) آسمان وہ پانی جو ہمارے لبوں پر ٹپکاتا ہے۔ ہم کو سرگشتہ کر کے جنگلوں اور دریاؤں میں پھراتا ہے۔
    (2) کاش ہم کو ایسی جگہ پہنچا دے کہ ہم اپنی ہستی سے چھوٹ جائیں۔

    بیگی کبھی کبھی شراب بھی پیا کرتی تھی۔ مگر ایک وقت آیا کہ وہ خود متنبہ ہو گئی۔ اور شراب خوری سے توبہ کر لی۔ ایک مرتبہ مرزا بدیع الزماں کی مجلس عیش و سرور گرم تھی۔ بیگی بھی وہاں موجود تھی۔ شراب کا دور چل رہا تھا۔ بدیع الزماں شراب پی رہے تھے مگر بیگی خاموش تھی۔ اسی وقت یہ مطلع نظم کر کے میرزاے مذکور کو سنایا۔

    من اگر توبہ زمے کردہ ام اے سرو سہی
    تو خود ایں توبہ نہ کردی کہ مرا مے نہ دہی

    اسی شعر کا گویا مرزا غالب نے ترجمہ کیا ہے۔

    میں اور بزم مے سے یوں تشنہ کام آؤں
    گر میں نے کی تھی توبہ ساقی کو کیا ہوا تھا

    بنت ۔
    حسام الدین سالار کی صبیہ تھی۔ شاہ عباس صفوی کے زمانہ کی ایک مشہور شاعرہ نغز گفتار تھی۔ دو شعر اس سے یادگار ہیں جو درج کئے جاتے ہیں۔ باقی کلام ضائع ہو گیا۔ نہیں ملتا
    -------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 192 تذکرۃ الخواتین صفحہ 192

    روزیکہ طرب بالب و خال تو کنیم
    جاں تازہ بفرخندہ جمال تو کنیم
    ایں جرم کہ زندہ ماندہ ام بے رخ تو
    در گردن امید وصال تو کنیم

    ترجمہ (1) جس روز کہ تیرے لب اور خال کے دیکھنے سے خوشی ہو گی۔ ہم تیرے جمال کو دیکھ کر اپنی جان کو تازہ کریں گے۔
    (2) یہ جرم کہ ہم بغیر تیرے دیکھے زندہ رہے۔ تیری امید وصل کے سر ڈالیں گے۔

    بنو بیگم ۔
    دہلی کی رہنے والی تھی۔ نہایت ذکی اور ذہین تھی۔ نہایت رنگین شعر کہتی تھی۔ ایک یہ شعر اس سے یادگار ہے۔

    گر میسر شود آں روئے چو خورشید مرا
    بادشاہی چہ کہ دعویٰ خدائی نکنم

    ردیف بائے فارسی

    پری بیگہ ۔
    نیشا پور کی رہنے والی تھی ک لام نہایت مست ہوتا تھا۔ ایک ہی شعر تذکرۂ اختر تاباں سے مل سکا جو درج ہے۔

    سراسر جانی اے باد صبا در قالب شوقم
    سرت گردم مگر در کوے او بسیار میگردی
    -------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 193 تذکرۃ الخواتین صفحہ 193

    ترجمہ ۔ اے باد صبا میرے قالب شوق میں تو سراسر جان معلوم ہوتی ہے۔ میں تیرے قربان جاؤں شاید تو اس کی گلی میں بہت چکر لگاتی ہے۔

    ردیف تائے فوقانی

    تصویر ۔
    مرشد آباد کی رہنے والی تھی۔ بلقیس خانم نام تھا۔ اردو کی شاعرہ تھی۔ میر جوشش عظیم آبادی نے مصنف تذکرہ اختر تاباں سے بیان کیا کہ اگرچہ یہ صرف اردو شعر کہتی تھی مگر ایک یہ شعر فارسی بھی اسی کا ہے۔

    فتنہ زائی منت شناختہ ام
    بد بلائی منت شناختہ ام

    ترجمہ ۔ تو بڑا فتنہ پرداز ہے میں نے تجھے خوب سمجھ لیا ہے۔ تو بڑا ہی بدلا ہے میں نے تجھے پہچان لیا ہے۔

    میر جوشش کا بیان ہے کہ ایک روز یہ اپنے بچہ کو گود میں لئے گھر کے صحن میں کھڑی تھی اور کھلا رہی تھی۔ میر عشق جو اس کے شوہر تھے باہر سے آئے اور اس حال میں اس کو دیکھ کر یہ مصرع پڑھا

    دیدم بدوش آں مہ طفلے پری نژزادے

    تصویر سے رہا نہ گیا اور فوراً دوسرا مصرع لگا کر شوہر کے سامنے پڑھا۔ عجیب و غریب مصرع کہا ہے۔

    چو مصرعے کہ باشد پیوند مستزادے
    -------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 194 تذکرۃ الخواتین صفحہ 194

    توتی ۔
    ایک ایرانی پردہ نشین خاتون کا تخلص تھا۔ مرزا کمال الدین سنجر قزوینی مرزا سپہر لسان الملک مولف ناسخ التواریخ کی زبانی صاحب تذکرۂ اختر تاباں یہ نقل کرتے ہیں کہ توتی کے شوہر امرد پرست ایرانی مذاق کے بزرگ تھے۔ ایک لڑکے پر ایسے فریفتہ تھے کہ بیچاری توتی کی طرف کبھی ملتفت ہی نہ ہوتے تھے۔ توتی اپنے شوہر کی اس نامعقول حرکت سے عاجز تھی۔ ایک دن جان پر کھیل کر یہ رباعی کہی اور شوہر کے حوالے کی۔

    آں شوخ کہ ہست حسن عالمگیرش
    یا رب چہ شود شبے بخوابم زیرش
    اے خواجہ بیا تا من و تو صلح کنیم
    تو با ۔۔۔ نش بساز و من با ۔۔۔۔ ش*

    شوہر کے دل پر یہ رباعی سن کر ایک چوت لگی۔ سخت متنبہ ہوا اور اسی دن سے اپنی بدنما حرکت کو چھوڑ کر توتی کی طرف متوجہ ہو گیا۔ اور عمر بھر ایسی خلاف فطرت حرکت سے مجتنب رہا۔

    تون آتواں ۔
    ملا بقائی کی بیوی تھی۔ ملا بقائی امیر علی شیر کا مصاحب اور مقرب تھا۔ نہایت ظریف اور بذلہ سنج آدمی تھا۔ میاں بیوی میں اکثر مشاعرہ ہوا کرتا تھا۔ اور ایک دوسرے پر چوٹیں چلا کرتے تھے۔ ایک دن بقائی نے یہ رباعی کہی اور چھیڑ کے لئے تونی آتواں کے روبرو پڑھی۔
    -------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 195 تذکرۃ الخواتین صفحہ 195

    یاراں ستم پیرہ زنے کشت مرا
    کاواک شدہ چونے از و پشت مرا
    گر پشت بسوئے او دمے خواب کنم
    بیدار کند بضرب انگشت مرا

    ترجمہ (1) ۔ یارو مجھے ایک بڑھیا عورت کے ستم نے مار ڈالا۔ میری کمر نے کی طرح اس کی وجہ سے خالی ہو گئی ہے۔
    (2) ۔ اگر دم بھر اس کی طرف پست کر کے لیٹتا ہوں تو انگلی کے ٹہوکے دے دے کر مجھے جگا دیتی ہے۔

    حاضر جواب تونی آتواں بھلا کب چوکنے والی تھی۔ فوراً اس نے جواب دیا۔

    ہم خوابگی سست رگے کشت مرا
    روزی نبود از و بجز پشت مرا
    قوت نہ چنانکہ پا تواند برداشت
    بہتر بود از پشت دو صد مشت مرا

    ترجمہ (1) ۔ ایک عنیں نامرد کے پاس سونے نے مجھے مار ڈالا۔ سوائے پیٹھ کے اور کچھ مجھے اس سے روزی نہیں۔
    (2) ۔ اتنی بھی قوت نہیں کہ پاؤں اٹھا سکے۔ پشت سے تو میرے لئے دو سو گھونسے بہتر ہیں۔

    مگر جواہر العجائب میں یہ رباعی یوں درج ہے۔

    مُلا ہمہ ناز و غمزہ ات کشت مرا
    تا چند زنی طعنہ بانگشت مرا
    شبہا ہمہ پشت سوے من خواب کنی
    بگزار کہ دل گرفت از پشت مرا

    ترجہ (1) ۔ مُلا تیرے ناز و غمزہ نے مجھے مار ڈالا۔ کب تک انگلی مٹکا مٹکا کر
    -------------------------------------------------------------------
     
  6. ملک بلال
    آف لائن

    ملک بلال منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2010
    پیغامات:
    22,418
    موصول پسندیدگیاں:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:
    ریختہ صفحہ 196 تذکرۃ الخواتین صفحہ 196

    مجھے طعنے دے گا۔
    (2) ۔ راتوں کو تو میری طرف پشت پھر کر سوتا ہے۔ بس ہت اس پشت سے میں عاجز ہو گئی۔ میرا جی بھر گیا۔

    ردیف جیم

    جاناں بیگم ۔
    عبدالرحیم خانخانان کی لڑکی تھی۔ نہایت حسین و خوبصورت ذکی اور ذہین تھی۔ جہانگیر نے جب اس کے حسن عالمگیر کا شہر سنا تو نادیدہ عاشق ہو گیا اور منگنی کا پیام دیا۔ مگر خانخاناں کو یہ منظور نہ تھا۔ اس واسطے وہ بہت رنجیدہ ہوا اور لڑکی کے دانت اکھڑوا اور سر منڈوا کر دربار میں حاضر کر دیا۔ بادشاہ کو بے حد افسوس ہوا۔ اور انعام و اکرام دے کر رخصت کر دیا۔ 1070 ھ میں انتقال کیا۔ یہ شعر اسی کا ہے۔

    عاشق زخلق عشق تو پنہاں چہ ساں کند
    پیداست از دو چشم ترش خوں گریستن

    ترجمہ ۔ عاشق دنیا سے تیرا عشق کیونکر چھپائے۔ اس کی دونوں چشم تر سے خون رونا ظاہر ہوتا ہے۔

    جمیلہ ۔
    صفاہاں کی رہنے والی ایک خوش فکر عورت تھی۔ صرف ایک شعر اس سے یادگار ہے۔
    -------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 197 تذکرۃ الخواتین صفحہ 197

    جز خار غم نرست زگلزار بخت ما
    آنہم خلید در جگر لخت لخت ما

    ترجمہ ۔ ہمارے نصیبہ کے باغ میں غم کے خار کے سوا اور کچھ اگا ہی نہیں اور وہ کانٹا بھی ہمارے ہی جگر لخت لخت میں چبھا۔

    جہاں آرا بیگم ۔
    ہندوستان کے مشہور و معروف بادشاہ شاہجہان کی بیٹی اور اورنگ زیب عالمگیر کی حقیقی بہن تھی۔ یہ عفیفہ ممتاز محل نامور بیگم کے بطن سے بتاریخ 21 صفر المظفر 1032 ھ مطابق یکم اپریل 1614 ء ایسے وقت میں پیدا ہوئی جبکہ اس کا نامور باپ شاہجہاں شاہزادۂ خرم کی حیثیت سے رانا امر سنگہ والیٔ اودے پورے سے حکم شاہی کی بموجب معرکہ آرا تھا۔ جس وقت جہاں آرا پیدا ہوئی وہی زمانہ شاہجہاں کی فتح اور کامیابی کا تھا۔ اس مولود کو سب نے نہایت مسعود خیال کیا اور نہایت خوشیاں منائی گئیں اور اس کو اس کے دادا شاہنشاہ نورالدین جہانگیر کے پاس بھیج دیا گیا۔ سن شعور پر پہنچتے ہی اس کی تعلیم و تربیت شروع ہوئی اور نہایت اعلیٰ پیمانہ پر تعلیم دلائی گئی۔ جہاں آرا علم عربی فارسی اور حفظ و قرآن قرأت و تجوید خوشنویسی وغیرہ وغیرہ ہر ایک بات سے بخوبی بہرہ مند تھی۔ 1037 ھ میں جہاں آرا کی عمر تقریباً 14 برس کی تھی یہی وہ سال ہے کہ شاہجہاں تخت سلطنت پر جلوہ افروز ہاو۔ جہاں آرا نے بھی ہدایا کے طریق پر نذر و نیاز
    -------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 198 تذکرۃ الخواتین صفحہ 198

    پیش کئے جس کے جلدو اور صلہ میں شاہجہاں نے تقریباً 20 لاکھ روپیہ کے زیورات اس کو عطا کئے۔
    جب 1040 ھ مطابق 1631 ء میں ممتاز محل راہی ملک بقا ہوئی تو شاہجہاں نے ازراہ عنایت وہ اختیارات جو اس کو حاسل تھے جہاں آرا کے سپرد کر دئے۔
    جہاں آرا بیگم کو کتب اخلاق و تصوف سے بہت گہری دلچسپی تھی۔ وہ اپنا زیادہ وقت قرآن شریف کی تلاوت میں صرف کیا کرتی تھی۔ باقی وقت خانگی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں صرف ہوتا تھا۔ یکا یک 1054 ھ مطابق 1644 ء کو جب حرم شاہی میں ایک جشن نہایت تزک و احتشام سے کیا گیا تھا تو اتفاقاً ایک موم بتی سے اس کے آنچل میں آگ لگ گئی جس سے زخمی ہو کر عرصہ تک بیمار رہی۔ اچھے ہونے پر بادشاہ نے اس کو بہت سے انعامات شاہی سے سرفراز کیا۔ جس کی تفصیل اس کی خاص سوانح عمری میں موجود ہے۔ جب شاہ جہاں نظر بند ہوا تو عین حیات تک جہاں آرا اس کی خدمت میں مشغول رہی بلکہ اور بھی عجیب و غریب کام جو اس نے کیا وہ یہ تھا کہ عالمگیر کے لئے شاہجہاں سے اس کے قصوروں کا معافی نامہ لکھوایا۔ اورنگ زیب کی تخت نشینی پر بھی اس کا اعزاز وہی رہا جو شاہجہاں کے سامنے تھا۔ خود عالمگیر نے بھی اس کو تنزہ نقاب بیگم خطاب دیا اور ایک لاکھ اشرفیاں مرحمت کیں۔ اس کے بعد
    -------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 199 تذکرۃ الخواتین صفحہ 199

    زندگی بھر جہاں آرا نہایت معزز طریقہ سے بسر کرتی رہی اور عالمگیر کی مصاحب خاص اور مشیر کی حیثیت سے رہی۔ 1092 ھ مطابق 16 اپریل 1681 ء میں ستر برس کی عمر میں جہاں آرا نے وفات پائی اور دہلی میں حضرت امیر خسرو رح کے مزار کے قریب مدفون ہوئی۔ اس کا مقبرہ سفید سنگ مرمر کا بنا ہوا ہے۔ گرداگرد کی جالیاں بے حد نفاست سے کاٹی گئی ہیں۔ اس پر کوئی چھت نہیں ہے اور اس طرح سے گویا آسمانی برکات اس پر ہمیشہ بعد مرگ بھی نازل ہوتے ہیں۔ اس کے لوح مزار پر خود اسی کا یہ شعر لکھا ہوا ہے۔

    ھو الحی القیوم

    بغیر سبزہ نہ پوشد کسے مزار مرا
    کہ قبر پوش غریباں ہمیں گیاہ بس است

    جہاں آرا نہایت نیک مزاج متدین اور پارسا تھی۔ صوفیائے کرام کے ملفوظات سے اسے بہت شوق تھا۔ اس نے اپنی شادی نہیں کی۔ مگر عمر بھر نہایت پارسائی کے ساتھ زندگی بسر کی۔ اگرچہ مغربی مصنفوں نے اس کے شادی نہ کرنے کی بنا پر اس پر بہت سے الزام لگائے ہیں مگر ان میں تعصب کے سوا اور کوئی اصلیت نہیں۔
    وہ نہایت علم دوست تھی۔ اس کو لغویات سے نفرت قطعی تھی۔ شعر و شاعری سے
    -------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 200 تذکرۃ الخواتین صفحہ 200

    کمال دلچسپی رکھتی تھی۔ نثر میں اس کی تصنیف مونس الارواح ہے۔ اس نے اپنا سیاحت نامہ بھی مرتب کیا ہے۔ مشہور ہے کہ اس نے ایک مثنوی بھی لکھی مگر وہ مل نہیں سکتی۔ اور اب تقریباً ناپید ہے۔ بہ یقین یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس کا دیوان غزلیات مرتب ہوا تھا یا نہیں مگر چند شعر اب بھی یادگار ہیں جو درج کرتا ہوں۔

    رباعی

    آنجا کہ کمال کبریاے تو بود
    عالم نمے از بحر عطائے تو بود
    مارا چہ حد حمد و ثنائے تو بود
    ہم حمد و ثنائے تو سزاے تو بود

    ترجمہ (1) ۔ جہاں کہ تیری کمال کبریائی ہو۔ تمام عالم اس کے دریاے بخشش سے ایک کم ہے۔
    (2) ۔ ہم کو تیری حمد اور ثنا کی کیا مجال ہے۔ بس تیری حمد و ثنا تیری ہی حمد و ثنا کی لائق ہے۔

    اے بو صفت بیان ما ہمہ ہیچ
    ہمہ آن تو آن ما ہمہ ہیچ
    ہر چہ بیند ما ہمہ نقص
    ہر چہ گوید زبان ماہمہ ہیچ
    ما بہ کنہ حقیقت نرسیم
    اے یقین و گماں ما ہمہ ہیچ

    ترجمہ (1) ۔ اے وہ ذات کے تیرے وصف میں ہمارا بیان بے کار ہے۔ تمام تیری ملک سے ہے اور ہماری ملک کچھ نہیں۔
    (2) ۔ جو کچھ ہمارا خیال دیکھتا ہے وہ سب
    -------------------------------------------------------------------
     
  7. ملک بلال
    آف لائن

    ملک بلال منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2010
    پیغامات:
    22,418
    موصول پسندیدگیاں:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:
    ریختہ صفحہ 201 تذکرۃ الخواتین صفحہ 201

    نقصان ہیں۔ اور جو ہماری زبان کہتی ہے وہ سب ہیچ ہے۔
    (3) ۔ ہم تیری کنہ حقیقت کو نہیں پہنچ سکتے یعنی ہمارا یقین اور گمان سب ہیچ ہیں۔

    شاہجہاں کے انتقال پر جہاں آرا نے یہ پردرد مرثیہ کہا۔

    اے آفتاب من کہ شدی غایب از نظر
    آیا شب فراق ترا ہم بود سحر
    اے بادشاہ عالم و اے قبلۂ جہاں
    بکشاے چشم رحمت و برحال من نگر
    حالم چنیں ز غصہ دما دم بود بدست
    سوزم چو شمع در غم و دودم ور زسر

    جہاں آرا کے دربار سے اکثر نامی شعراء انعام و اکرام پاتے رہتے تھے اور بقدر لیاقت سب اس کے جود و کرم سے بہرہ مند تھی۔ چنانچہ محمد علی ماہر اکبر آبادی نے جہاں آرا کی تعریف میں مثنوی کہی اور پیش کی۔ تو صرف اس شعر کے صلے میں اس فیاض اور سخن فہم ملکہ نے پانچ سو روپے انعام دیے۔

    بہ ذات او صفات کردگار است
    کہ خود پنہان و فیضش آشکار است

    ترجمہ ۔ اس کی ذات میں صفات خداوندی پائی جاتی ہیں۔ یعنی وہ خود چپھی ہوئی ہے اور اس کا فیض ظاہر ہے۔

    ایسے ہی ایک مرتبہ جہاں آرا بیگم باغ کی سیر کے لئے نکلی تو میر صیدی طہرانی نے یہ مشہور مطلع کہا۔

    برقعہ برخ افگندہ برد ناز بہ باغش
    تا نگہت گل بیختہ آید بہ دماغش
    -------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 202 تذکرۃ الخواتین صفحہ 202

    ترجمہ ۔ ناز اس کو برقع پہنا کر باغ میں اس لئے لے جاتا ہے تاکہ پھول کی خوشبو چھن چھن کر اس کے دماغ میں آئے۔

    بیگم نے شعر کو بہت پسند کیا۔ مگر اس شوخی پر بے حد غصہ آیا۔ حکم دیا کہ شاعر کو کشاں کشاں سامنے لاؤ۔ چنانچہ میاں صیدی پکڑی گئے اور سامنے لائے گئے۔ بار بار مطلع سنا اور پانچ ہزار انعام دے کر شہر بدر ہونے کا حکم دے دیا۔
    ایسے ہی ملک الشعراء حاجی محمد جان موسی قدسی نے جہاں آرا کے جل جانے کے متعلق ایک قصیدہ لکھ کر بادشاہ کی خدمت میں پیش کیا۔ بادشاہی انعام جو کچھ ملا ہو مگر خود جہاں آرا نے پانچ ہزار روپے اس شعر کے صلے میں دیے۔

    تا سرزدہ از شمع چنیں بے ادبی
    پروانہ زعشق شمع را سوختہ است

    ترجمہ ۔ جب سے کہ شمع سے یہ بے ادبی ہوئی ہے۔ پروانہ نے عشق سے شمع کو جلایا ہے۔

    جہاں خاتون ۔
    شیراز کی رہنے والی تھی۔ نہایت عمدہ شعر کہتی تھی۔ حافظ شیرازی کی معاصر تھی۔ اکثر دونوں میں باہم شاعرانہ ملاقات ہوا کرتی تھی۔ ایک دن ملاقات کے لئے گئی تھی کہ خواجہ نے اپنی یہ غزل پڑھ کر جہاں خاتوں کو سنائی۔

    دردم از یار ست و درماں نیزہم
    دل فدائے او شد و جاں نیزہم
    -------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 203 تذکرۃ الخواتین صفحہ 203

    پڑھتے پڑھتے جب اس شعر پر پہنچے۔

    اعتمادے نیست برکار جہاں
    بلکہ بر گردوں گرداں نیزہم

    جہاں خاتون نے یہ صوفیانہ شعر سن کر فی البدیہہ یہ شعر کہا ۔

    حافظاؔ ایں مئی پرستی تابہ کے
    مے زتو بیزار و مستاں نیزہم

    ترجمہ ۔ اے حافظ یہ شراب خوری کب تک۔ تجھ سے شراب بھی بیزار ہے اور شراب خور بھی۔

    یہ شعر بھی جہاں خاتوں کا ہے۔

    مصورے است کہ صورت زآب میسازد
    زذرہ ذرۂ خاک آفتاب می سازد

    ترجمہ ۔ ایسا مصور ہے کہ پانی سے صورتیں بناتا ہے اور ایک ایک ذرہ سے آفتاب بناتا ہے۔

    جہاں خانم ۔
    ناصرالدین شاہ قاچار کی والدہ کا نام تھا۔ برطریق تفنن طبع کبھی کبھی شعر و شاعری کی طرف متوجہ ہوتی تھیں۔ اور جو کچھ کہتی تھیں خوب کہتی تھیں۔ کیوں نہ ہو ایک تو اہل زبان اور پھر بادشاہ وقت۔ پھر اگر اچھا شعر نہ کہتیں تو اور کون کہتا۔ مگر افسوس کہ کلام اس وقت دستیاب نہیں ہوتا۔ مجبوراً دو شعر جو اخلاقی درجہ رکھتے ہیں، لکھے دیتا ہوں۔

    از مرد و زن آنکہ ہوش مند است
    اندر ہمہ حال سر بلند است
    -------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 204 تذکرۃ الخواتین صفحہ 204

    بیدانش اگر زنست و گر مرد
    باشد بمثل چو خار خار بے ورد

    ترجمہ (1) ۔ مرد اور عورتوںمیں سے جو عقل مند ہے۔ وہ ہر حال میں سر بلند ہے۔
    (2) ۔ بے عقل خواہ عورت ہو یا مرد ہو وہ بے کار اس کانٹے کی طرح ہے جس کے پاس گلاب نہیں ہے۔

    جہانی ۔
    دہلی کی رہنے والی تھی۔ نہایت عمدہ شعر کہتی تھی۔ اب ایک شعر یادگار ہے۔

    گل و باغ و رخ آن غنچہ دہن ہر دو یکے است
    قدر عناے وے و سر و چمن ہر یکے است

    ترجمہ ۔ باغ کے پھول اور اس غنچہ دہن کے رخسار دونوں ایک ہیں۔ اس کا قدر عنا اور سروچمن دونوں ایک ہیں۔

    ردیف حاء حّطی

    حاکمی ۔
    یہی تخلص تھا اور غالباً یہی نام تھا۔ شہر خواف کی حاکم تھی۔ کبھی کبھی فکر سخن کرتی تھی۔

    کماں ابروئے من فکر من زار بلاکش کن
    فگن در سینہ ام تیرے و پیکانش در آتش کن
    -------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 205 تذکرۃ الخواتین صفحہ 205

    ترجمہ ۔ اے میرے کمان ابرو مجھ ناتوان بلاکش کے لئے کچھ فکر کر۔ میرے سینہ پر ایک تیر لگا اور اس کا پیکان آگ میں گرم کر لے۔

    حجابی ۔
    استر آباد کی رہنے والی۔ خواجہ ہادی کی لڑکی تھی۔ نہایت حسین اور صاحب جمال تھی اور اس قدر عفت مآب تھی کہ خلوت و جلوت میں منہ پر نقاب ڈالے رہتی تھی۔ اسی مناسبت کی وجہ سے اس کا تخلص حجابیؔ ہوا تھا۔ ایک شعر اس سے یادگار ہے جو تذکرۂ مرأۃ الخیال سے لکھا جاتا ہے۔

    مہ جمال تو و آفتاب ہر دو یکے است
    خط عذار تو و مشک ناب ہر دو یکے است

    ترجمہ ۔ تیرے جمال کا چاند اور آفتاب دونوں ایک ہیں۔ تیرے رخسار کا خط اور مشک خالص دونوں برابر ہیں۔

    حجابی استر آبادی ۔
    استر آباد کی رہنے والی تھی۔ نہایت حسین و جمیل تھی۔ ملا ہلالی کی لڑکی تھی اور شعر گوئی میں مشاق اور شہرۂ آفاق تھی۔

    بہار سبزہ و گل خوش بہ روئے جانان است
    وگرنہ ہر یک ازیں جملہ آفت جان است
    بہ غنچہ مہر چہ بند و زگل چہ بکشاید
    ولے کہ خوش شدہ از خار خار ہجران است
    حدیث زلف دلآویز آں نگار امشب
    زمن مپرس کہ بس خاطرم پریشان است
    مگوئے شعر حجابی کہ نزد سیمبراں
    ہزار بیت و غزل پیش حبہ کمیسان است
    -------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 206 تذکرۃ الخواتین صفحہ 206

    ترجمہ (1) ۔ اگر معشوق سامنے ہو تو سبزہ و گل کی بہار اچھی معلوم ہوتی ہے وگرنہ ان سب میں سے ہر ایک آفت جاں ہے۔
    (2) ۔ غنچہ کے ساتھ محبت کیا کرے۔ اور پھول سے شگفتہ کیا ہوتا ہے۔ جو دل جدائی کے کانٹوں سے خون ہو گیا ہے۔
    (3) ۔ اس کی زلف دلآویز کی باتیں آج کی رات مجھ سے مت پوچھ میرا دل بہت پریشان ہے۔
    (4) ۔ اے حجابی شعر مت کہہ معشوقوں کے نزدیک ہزار بیت اور غزل سب یکساں ہیں۔

    اسی غزل میں یہ شعر خوب کہا ہے ۔

    مراں بخواریم اے باغباں زگلشن خویش
    کہ پنچ روز دگر گل بہ خاک یکسان است

    ترجمہ ۔ اے باغباں اپنے باغ سے مجھے خواری سے نہ نکال کہ پانچ دن بعد پھول اور خاک یکساں ہو جائیں گے ۔

    حجابی جرباد قانیہ ۔
    ایران کی ایک شاعرہ تھی۔ بہت عمدہ شعر کہتی تھی۔ دو شعر مل سکے ہیں، حاضر ہیں۔

    حفظ ناموس تو شد مانع رسوائی من
    ورنہ مجنوں تو رسوا تر ازیں می بایست
    بعمر خویش کسے کز تو یک سخن نشنود
    اگر کند گلۂ از تو شرمسار تو نیست

    ترجمہ (1) ۔ تیرا حفظ ناموس میری رسوائی کا مانع ہوا ورنہ تیرا مجنوں اس سے
    -------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 207 تذکرۃ الخواتین صفحہ 207

    زیادہ رسوا ہونا چاہیے تھا۔ اپنی عمر کے کے دور میں جس نے کبھی تجھ سے ایک بات بھی نہیں سنی اگر وہ کوئی گلہ کرے تو تجھ سے اسے شرمندہ نہ ہونا چاہیے۔

    حسینہ ۔
    تخلص اور حسینہ بیگم نام ہے۔ مصنف تذکرۂ اختر تاباں کی والدہ ماجدہ کا۔ اکثر اردو اور کبھی کبھی فارسی کا شعر بھی کہتی تھیں۔ مگر جو کچھ کہتی تھیں چند روز بعد خود ہی اس کلام کو ضائع کر دیتیں اور فرمایا کرتی تھیں کہ میں صرف بطریق تفنن طبع شعر کہتی ہوں۔ مجھے اس سے کوئی فائدہ یا شہرت مقصود نہیں ہے۔ بھوپال میں انتقال کیا۔ اور وہیں شہر کے باہر مغرب کی طرف قلعہ کی فصیل کے پاس احمد علی شاہ کے تکیہ میں مدفون ہیں۔ اور سر لوح مزار پر یہ شعر جو ان کے شوہر کے ہیں۔ لکھے ہیں۔

    چوں حسینہ بیگم عفت سرشت
    دفعتاً دنیائے فانی رات بہ ہشت
    جس عباس حزیں تاریخ او
    با ادب فرمود رضوان بہشت
    بر سر لوح مرزار پاک آں
    فادخلی فی جنتی 1248 باید نوشت

    یہ پانچ شعر اس عفیفہ سے یادگار ہیں۔

    نقش نگیں دلم صورت جاں پرورت
    ورد زبانم بود روز و شبان نام تو
    ایں مصرع چہ خوش گفت عاقلے
    دیوانہ باش تا غم تو دیگراں خورند
    -------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 208 تذکرۃ الخواتین صفحہ 208

    چشم ہر کس صبحدم افتد بروے آں صنم
    روز او تا شام باشد ہمچونام و شام عید
    ماہ نو ہر کس بہ بیند بر رخ آں ماہ رو
    ماہ کامل بگذارد او را بہ شادی بے گماں
    سرت گردم کجا بودی تو امروز
    وصالت شد مرا عید دل افروز

    ترجمہ (1) ۔ میرے دل کے نگینہ پر تیری صورت جاں پرور نقش ہے اور میری زبان کا ورد رات دن تیرا نام ہے ۔
    (2) ۔ یہ مصرع عجیب کسی عقلمند نے کیا خوب کہا ہے۔ دیوانہ رہ کہ تیرا غم دوسرے کھائیں۔
    (3) ۔ صبح کے وقت جو کوئی اس کو دیکھتا ہے اس کا دن صبح سے شام تک نام و روز عید کی طرح گزرتا ہے۔
    (4) ۔ شروع ماہ میں جو کوئی اس ک امنہ دیکھتا ہے تمام مہینہ اس کا خوشی کے ساتھ گزرتا ہے ۔
    (5) ۔ تیرے قربان تو آج کہاں تھا۔ تیرا وصال میرے لئے عید ہو گیا۔

    حیاتی بیگم ۔
    نور علی شاہ صوفی کی اہلیہ تھی۔ شعر کہتی تھی اور خوب خوب کہتی تھی۔ افسوس ہے کہ اس شاعرہ کا مفصل حال سکونت وغیرہ کا مجھے معلوم نہ ہو سکا۔ ایک قلمی بیاض سے یہ شعر ملے ۔
    منع دلم از نالہ مکن درپۓ محمل
    کز نالہ کسے منع نکرد است جرس را
    چارۂ درد من بے چارہ را
    داند و عمداً تغافل میکند
    -------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 209 تذکرۃ الخواتین صفحہ 209

    مثنوی ۔
    ایا طائر قدس عرش آشیاں
    مجودانہ از دام ایں خاکدان
    قفس بشکن و بال د پر باز کن
    بہ گلگشت گلزار پرواز کن

    ترجمہ (1) ۔ میرا دل اگر تیرے محمل کے پیچھے روتا ہے تو اس کو منع مت کر ۔ کسی نے نالہ سے جرس کو منع نہیں کیا ہے۔
    (2) ۔ مجھ بیچارہ کے درد کا علاج وہ جانتا ہے اور جان کر تغافل کرتا ہے۔
    (ترجمہ مثنوی) خبردار ہو اے طائر عرش آشیاں۔ اس خاکدان سے دانہ مت ڈھونڈھ۔
    (2) قفس کو توڑ دے اور پر کھول دے۔ اور گلزار کی گلگشت میں پروز کر۔

    حاجیہ ۔ یہ ایرانی شاعرہ فتح علی شاہ قاچار کی حرم محترم تھی۔ نہایت نیک مزاج اور خوش گو تھی اس کا کلام یہ ہے اکثر نعت کہتی تھی۔
    طواف کعبہ مرا حاجیہ میسر شد
    خدا زیارت طیبہ کنوں بفرماید

    ترجمہ ۔ اے حاجیہ مجھے کعبہ کا طواف میسر ہو گیا۔ اب خدا طیبہ کی زیارت نصیب کرے۔

    ردیف خاء معجمہ

    خان زادہ ۔
    فخر النسا نام تھا۔ امیر یادگار خان کی لڑکی تھی۔ تبریز کی
    -------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 210 تذکرۃ الخواتین صفحہ 210

    رہنے والی تھی۔ شعر نہایت عمدہ کہتی تھی۔ یہ مطلع اس سے یادگار ہے۔

    شبے در منزل ما میہماں خواہی شدن یا نے
    انیس خاطر ایں ناتواں خواہی شدن یا نے

    ترجمہ ۔ تو ایک رات ہمارے گھر مہمان ہونا چاہتا ہے یا نہیں۔ اس ناتوان کے دل کا انیس ہونا چاہتا ہے یا نہیں

    تذکرہ مراۃ الخیال کا مصنف لکھتا ہے کہ یہ شاعرہ اس قدر حسین تھی کہ شاید اس کا اس وقت کوئی ہمسر نہ تھا۔

    خاتون ۔
    قطب الدین کرمانی کی لڑکی کا تخلص ہے۔ بہت عمدہ شعر کہتی تھی۔ سعدی کی معاصر تھی۔ 694 ھ میں انتقال کیا۔ حسین قلی خاں کے تذکرہ میں یہ رباعی خاتون کے نام سے لکھی ہے ۔۔
    بس غصہ کہ از چشمۂ نوش تو رسید
    تا دست من امروز بدوش تو رسید
    در گوش تو دانہاے در زمی بینم
    آب چشمم مگر بہ گوش تو رسید

    تذکرۂ جواہر العجائب ملا فخری ہروی میں جو طہماسپ شاہ معاصر اکبر بادشاہ کے عہد میں لکھا گیا ہے اس میں یہ رباعی بھی اسی کے نام سے لکھی ہوئی ہے۔

    آں روز کہ در ازل نشانش کردند
    آسائش جاں بیدلانش کر دند
    دعوے بلب نگار میکرد نبات
    زاں روے بہ چوب در دہانش کر دند
    -------------------------------------------------------------------
     
  8. ملک بلال
    آف لائن

    ملک بلال منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2010
    پیغامات:
    22,418
    موصول پسندیدگیاں:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:
    -------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 211 تذکرۃ الخواتین صفحہ 211

    میرزا آفتاب طہرانی نے یہ پانچ شعر مصنف اختر تاباں کو اسی کے نام سے نائے تھے۔

    من آن زنم کہ ہمہ کار من نکو کاری است
    بزیر مقنع من فرہ کلہ داری است
    درون پردۂ عصمت کہ جائگاہ منست
    مسافران صبا را گزر بہ دشواری است
    جمال و سایہ خود را دریغ میدارم
    زآفتاب کہ آں کوچہ گرد بازاری است
    نہ ہر زنے بد و گز مقنع است کد بانو
    نہ ہر سرے زکلاہے سزاے سرداری است
    ہمیشہ باد سر زن بزیر مقنع او
    کہ تار و پود ولے از عصمت و نکو کاری است

    ترجمہ رباعی اول ۔ چونکہ تیرے چشمۂ نوش یعنی لبوں سے بہت رنج پہنچا یہاں تک کہ آج میرا ہاتھ تیرے روش تک پہنچا۔ میں تیرے کان میں موتی کے دانےدیکھ رہا ہوں۔ میری آنکھ کا پانی شاید تیرے کانوں میں پہنچ گیا۔
    ترجمہ رباعی دوم ۔ جب ازل کے دن اس کو منتخب کر کے بے دلوں کی جان کا آرام بنایا۔ تو مصری اس کے شیریں ہونٹوں کے مقابلہ کا دعویٰ کر رہی تھی۔ اسی لیے تین لکڑیاں اس کے منہ میں ٹھونس دی گئیں۔ مصری لکڑیوں پر بنائی جاتی ہے۔

    ترجمہ اشعار (1) ۔ میں وہ عورت ہوں کہ میرا ہر کام نیکی ہے ۔ میرے ڈوپٹہ کے نیچے مرد کا دبدبہ اور سرداری ہے۔
    (2) میں عصمت کے پردہ کے اندر رہتی ہوں جہاں ہوا کا بھی گزر نہیں ہو سکتا ۔
    (3) ۔ میں اپنے جمال اور اپنے سایہ کو آفتاب سے بھی چھپاتی ہوں۔
    -------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 212 تذکرۃ الخواتین صفحہ 212

    کیوں کہ وہ ایک کوچہ گرد اور بازاری ہے۔
    (4) ۔ ہر عورت دو گز کا ڈوپٹہ اوڑھ کر کدبانو نہیں بن سکتی۔ ہر کوئی ٹوپی پہن کر سردار بننے کے قابل نہیں ہو جاتا۔
    (5) عورت کا سر ہمیشہ ڈوپٹہ میں چھپا رہنا چاہیے اور ڈوپٹہ بھی ایسا ہونا چاہیے کہ جس کا تانا بانا عصمت اور نیکو کاری سے ہو۔

    ردیف دال

    دختر ۔
    ایک شاعرہ عفیفہ روزگار کا تخلص تھا جو ایران کی رہنے والی تھی۔ یہ شعر اسی کا ہے۔

    مگو رسوائے عشق از مردم عالم غمی دارد
    کہ عاشق گشتن و رسوا شدن ہم عالمے دارد

    ترجمہ ۔ یہ نہ سمجھ کہ رسوائے عشق دنیا کے آدمیوں سے کچھ آرزردہ ہے۔ کیونکہ عاشق ہونا اور بدنام ہونا بھی ایک شان رکھتا ہے۔

    دلشاد خاتون ۔
    امیر علی جلایر کی صاحبزای تھیں۔ نظم و نثر دونوں خوب لکھتی تھیں۔ یہ شعر نمونتاً درج ہیں۔

    اشکے کہ سر زگوشۂ بروں کند
    بر روئے من نشیند و دعوے خوں کند
    حل شد از غم ہمہ مشکل کہ مرادر دل بود
    جز غم عشق کہ حل کردن آن مشکل بود
    -------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 213 تذکرۃ الخواتین صفحہ 213

    ترجمہ (1)۔ جو اشک میری آنکھوں سے نکلتا ہے وہ میرے منہ پر آتا اور خون کا دعویدار ہوتا ہے۔
    (2) ۔ غم سے میری وہ تمام مشکلیں حل ہو گئیں جو میرے دل میں تھیں۔ نہ ہوا تو غم عشق حل نہ ہوا۔ اس کا حل ہونا دشوار تھا۔

    ردیف را

    رابعہ صفاہانیہ ۔
    اصفہان کی رہنے والی ایک شاعرہ خوش گو خوبرو کا نام ہے جو دولت سامانیہ میں زندہ تھی۔ یہ اس کے شعر ہیں۔

    دعوتم آں است بر تو کا یزدت عاشق کناد
    بر یکے سنگیں دل و نامہرباں چوں خویشتن
    تابدانی درد عشق و داغ مہر و غم خوری
    چوں بہ ہجر اندر بہ پیچی پس بدانی قدر من

    ترجمہ ۔ میری تیرے لئے دعا ہے کہ خدا تجھے کسی کا عاشق کر دے۔ جو تجھ سا ہی سنگین دل اور انمل ہو تاکہ تو عشق کے درد کی اور محبت کے داغ کی حالت معلوم کر کے غم کھائے۔ جدائی کی سختیاں اٹھائے تب تجھے میری قدر معلوم ہو۔

    غالب نے بھی ایک شعر اسی انداز کا کہا ہے ۔

    عاشق ہوئے ہیں آپ بھی اک اور شخص پر
    آخر ستم کی کچھ تو مکافات چاہیے

    رخشندہ بانو ۔
    بغداد کی رہنے والی تھی۔ 1300 ھ میں اپنے بھائی کے ساتھ
    -------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 214 تذکرۃ الخواتین صفحہ 214

    بھوپال میں آئی تھی اور شاہجہاں بیگم صاحبہ والی بھوپال بالقابہ کی خدمت میں ایک مدحیہ قصیدہ کہہ کر گزرانا تھا۔ جس کے صلہ میں معقول انعام پایا۔ دو شعر اس کے لکھے جاتے ہیں۔

    ہست امیدم کہ باشم در حضورت ہر زماں
    تا بود جاں در تنم باشم ترا خدمتگذار
    در جناب حضرتت ہاشم ہمیشہ چوں ایاز
    سایۂ لطف تو بر سر با شدم لیل و نہار

    ترجمہ (1) ۔ مجھ کو امید ہے کہ میں تیرے حضور میں ہر وقت رہوں۔ جاں جب تک میرے جسم میں رہے میں تیرا خدمتگذار رہوں۔
    (2) ۔ تیری بارگاہ میں ایاز کی طرح میں حاضر رہوں۔ میرے سر پر تیری مہربانی کا رات دن سایہ رہے۔

    رشحہ ۔
    کاشان کی رہنے والی تھی۔ اور ہاتف کاشانی کی لڑکی تھی۔ علی اکبر نظیری کی بیوی اور مرزا احمد کشتہ کی ماں تھی۔ فتح علی شاہ قاچار کے زمانہ میں عیش و آرام سے کاشان میں رہتی تھی۔ شعر و شاعری سے فطری ذوق اور قدرتی لگاؤ تھا۔ صاحب دیوان تھی۔ چند شعر درج کئے جاتے ہیں۔

    آن بت گل چہرہ یار رب بستہ از سنبل نقاب
    یا بہ افسوں کردہ پنہاں در دل شب آفتاب
    دل رفت و زخوں دیدہ مارا
    پیداست برخ ازیں علامت
    می تبد از شوق دل در سینہ ام گوئی کہ باز
    تیر دلدوزی بدل زارو کمانے میرسد
    -------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 215 تذکرۃ الخواتین صفحہ 215

    بقصد صید تو چوں رشحہ دیدمش گفتم
    کسے ندیدہ شکار مگس کند شہباز

    ترجمہ (1) ۔ یا الہی اس گل چہرہ معشق نے سنبل سے نقاب باندھی ہے یا افسوں کے ساتھ رات کے دل میں آفتاب چھپا دیا ہے۔
    (2) ۔ ہمارا دل چلا گیا اور خون کے آنکھوں میں بہنے سے رخسار کے اوپر یہ علامت ظاہر ہے۔
    (3) ۔ شوق دل سے میرے سینے میں دھڑکتا ہے۔ شاید پھر کوئی دلدوز تیر کوئی معشوق میرے سینہ میں لگاتا ہے۔
    (4) اے رشحہ جب میں نے تیرے معشوق کو تیرے شکار کے لئے تیار دیکھا تو کہا کہ کسی نے شہباز کو مکھی کا شکار کرتے نہیں دیکھا ہے۔

    ردیف زائے معجمہ

    زایری ۔
    ایران کی رہنے والی ایک خوش گو خوش مذاق تھی۔ صرف اتنا ہی معلوم ہو سکا باقی حال پردۂ خفا میں ہے۔

    خوردن خون دل از چشم تر آموختہ ام
    خوردہ ام خون دل و این ہنر آموختہ ام
    کار من بے تو بجز خون جگر خوردن نیست
    ہمہ از مردم صاحب نظر آموختہ ام
    شیوۂ عاشقی و رسم نظر بازی را
    ہمہ از مردم صاحب نظر آموختہ ام
    ناصحا چند کنی منع از عشق بتاں
    من زاستاد ازل ایں قدر آموختہ ام
    -------------------------------------------------------------------
     
  9. ملک بلال
    آف لائن

    ملک بلال منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2010
    پیغامات:
    22,418
    موصول پسندیدگیاں:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:
    ریختہ صفحہ 216 تذکرۃ الخواتین صفحہ 216

    زایریؔ بہر طواف حرم کوئے کسے
    صبح خیزی زنسیم سحر آموختہ ام

    ترجمہ (1) ۔ میں نے دل کا خون پینا چشم تر سے سیکھا ہے اور میں دل کا خون کھا کر یہ ہنر سیکھا ہے۔
    (2) ۔ میرا کام تیری جدائی میں خون جگر کھانے کے سواے اور کچھ نہیں ہے۔ عجب کام ہے جو خون جگر کھا کر سیکھا ہے۔
    (3) عاشقی کے طریقے اور نظر بازی کی رسم کو تمام اہل نظر سے میں نے سیکھا ہے۔
    (4) اے ناصح تو مجھے کب تک بتوں کے عشق سے منع کرے گا۔ میں نے استاد ازل سے اسی قدر سیکھا ہے۔
    (5) ۔ زایری کسی کے حرم کوچہ کے طواف کے واسطے صبح کو اٹھنا میں نے نسیم سحر سے سیکھا ہے۔

    زبیدہ خاتون ۔
    خلیفہ ہارون رشید کی چہیتی بیوی تھی۔ جس کے کارناموں سے تاریخ کی کتابیں بھری ہوئی ہیں۔ تفنن طبع کے لئے کبھی عربی اور فارسی میں شعر کہتی تھی۔ چنانچہ یہ وہ چند شعر ہیں جو اس نے اپنے بیٹے محمد امین کے مرثیہ میں کہے تھے۔

    اے جان جہاں جہان ناخوش بے تو
    بغداد پریشان و مشوش بے تو
    رفتی تو و من بے تو بماندم فریاد
    تو در خاکی و من در آتش بے تو

    ترجمہ (1) ۔ اے جان جہاں تیرے بغیر جہان برا معلوم ہوتا ہے۔ بغداد تیرے بغیر پریشان ہو رہا ہے۔
    (2) ۔ تو چلا گیا اور میں تجھ بغیر رہ گئی۔ فریاد ہے۔ تو خاک میں ہے
    -------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 217 تذکرۃ الخواتین صفحہ 217

    اور میں تیری جدائی سے آگ میں ہوں۔

    زلیخا خانم ۔
    نوغ تمش خاں ترک کی بیوی تھی۔ دہلی میں انتقال ہوا اور یہیں مدفون ہوئی۔ قصہ را می و ریس منظوم اس کا لکھا ہوا ہے۔ مگر اب ناپید ہو گیا۔ ظاہر ہے کہ جس نے نظم میں ایک داستان لکھی اس نے کیا کیا کچھ نہ کہا ہو گا۔ مگر زمانہ کی بے مہری نے سب نسیاً منسیا کر دیا۔ اس وقت صرف ایک شعر ملتا ہے جو کسی کی ہجو میں کہا ہے۔

    ازاں ہستی معالم شوخ و اوباش
    دو چشمانت جواں شیر قزلباش

    ترجمہ ۔ تو اس سبب سے دنیا میں شوخ و اوباش ہے کہ تیری دونوں آنکھیں جوان شیر قزلباش ہیں۔

    زہرہ ۔
    لکھنؤ کی رہنے والی ایک رقاصہ کا نام تھا جس کا ذکر اردو گویوں میں کیا جا چکا ہے۔ عروض و قافیہ سے باخبر تھی۔ فارسی کتب درسیہ نکلی ہوئی تھی۔ آغا شمس علی شمسؔ سے اصلاح لیتی تھی۔ اس کی غزل گوئی سے اس کی غزل خوانی بہت بہتر تھی۔ آخر میں ایک رئیس کے گھر بیٹھ گئی۔ اور پیشہ سے توبہ کر کے تمام عمر عفت و عصمت سے بسر کی۔ یہ اس کا کلام ہے۔

    ہے ہے چہ بے حیاست کہ در پیش مردماں
    پروانہ بہ بزم بغل گیر کرد شمع
    -------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 217 تذکرۃ الخواتین صفحہ 217

    ترجمہ ۔ ہائے ہائے کیسی بے حیا ہے کہ لوگوں کے سامنے شمع کو پروانہ نے بغل میں لے لیا۔

    رفتہ رفتہ تا بحالم مہرباں گردد طبیب
    ایں جراحتہا کہ من دارم کہن خواہد شدن

    ترجمہ ۔ آہستہ آہستہ جب تک طبیب میرے حال پر مہربان ہو۔ جو زخم میرے بدن میں ہیں وہ پرانے ہوتے جاتے ہیں۔

    خبر از من کہ برو تا بہ غلام بابا
    زہرہ در بزم غزل تازہ نوائے دارد

    ترجمہ ۔ میرے غلام بابا کو کون خبر پہنچائے کہ زہرہ غزل کی محفل میں تازہ نوا رکھتی ہے۔

    غلام بابا ایک رئیس سورتی کا نام تھا۔ شاید ان سے کچھ ایسے تعلقات ہوں گے جن کی بنا پر یہ شعر کہا گیا۔

    زیب ۔
    ہندوستان کی نہات مشہور شاعرہ زیب النساء بیگم کا تخلص ہے۔ جس نے غالباً مخفی اور زیب دونوں تخلص اختیار کئے تھے۔ شاہ عالمگیر کی لڑکی تھی جو 1048 ھ میں دلرس بانو دختر شاہ نواز خاں صفوی کے بطن سے پیدا ہوئی۔ زیب النساء جب پڑھنے لکھنے کے قابل ہوئی تو اس کی تعلیم و تربیت حافظہ مریم عنایت اللہ خاں کی ماں کے سپرد ہوئی۔ عنایت اللہ خاں ایک نہایت امیر کبیر
    -------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 219 تذکرۃ الخواتین صفحہ 219

    آدمی تھا جو دربار عالمگیری میں کسی عہدے پر ممتاز تھا۔ اول میں قرآن شریف حفظ کرایا گیا۔ بعدہٗ اس کو فارسی عربی کی تعلیم دلائی گئی اور اس میں استادی کا فخر ملا سعید اشرف ماژندرانی کو حاصل ہوا۔ اس وقت زیب النساء کی عمر اکیس سال کی تھ۔ چونکہ ملا سعید اشرف ماژندرانی ایک شعر بھی تھے لہذا شاہزادی کے کلام نظم کی بھی اصلاح کرتے رہے۔ تیرہ چودہ برس تک تعلیم و تعلم کے تعلق سے ملا صاحب موصوف شاہزادی کے پاس رہے۔ آخر 1083 ھ میں انہوں نے وطن جانے کا قصد کیا اور یہ قصیدہ لکھ کر زیب النساء کی خدمت میں گزرانا۔

    یک با از وطن نتواں بر گرفت دل
    در غربتم اگرچہ قرون ست اعتبار
    پیش تو قرب و بعد تفاوت نمی کند
    گو خدمت حضور نباشد مرا شعار
    نسبت چو باطنی است چہ دہلی چہ اصفہان
    دل پیش تست من چہ بہ کابل چہ کندہار

    زیب النساء نے انعام و اکرام کے ساتھ ان کو رخصت کر دیا۔ زیب النساء ایک شاعرانہ بے تعلق زندگی بسر کرنے والی آدمی تھی۔ اور سیاسی امور سے اس کو بالکل تعلق خاطر نہ تھا۔ مگر پھر بھی جب شاہزادہ اکبر نے عالمگیر سے بغاوت کی تھی۔ اس وقت اس وجہ سے کہ زیب النساء اور اکبر دونوں حقیقی بھائی بہن تھے کچھ لوگوں نے زیب النساء کی طرف سے عالمگیر کو بدظن کر دیا۔ اور اس کی تنخواہ چار لاکھ سالانہ اور تمام
    -------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 220 تذکرۃ الخواتین صفحہ 220

    مال و متاع ضبطی میں آ گیا۔ اگرچہ اس کی بے گناہی جلد تر ثابت ہو گئی۔ اور پھر اس کا تمام اعزاز بحال کر دیا گیا۔ مگر پھر بھی اس کو کچھ نہ کچھ صدمہ ضرور پہنچا۔ عالمگیر زیب النساء کی بے حد عزت کرتا تھا۔ جب وہ باہر سے آتی تو اس کے استقبال کے لئے شاہزادوں کو حکماً بھیج دیتا۔ مگر جب عالمگیر دکن کے طویل سفر پر گیا زیب النساء دلی ہی میں رہی اور 1113 ھ میں پیوند خاک ہو گئی۔
    اگرچہ تمام مؤرخین اس بارہ میں متفق اللفظ ہیں کہ وہ عربی و فارسی میں نہایت قابل تھی۔ نسخ اور شکستہ خط میں اس کو نہایت دستگار تھی۔ مگر تعجب ہے کہ کوئی تذکرہ لکھنے والا مصنف اس کے دیوان کا تذکرہ نہیں کرتا۔ مولوی غلام علی آزاد ید بیضا میں یہ لکھتے ہیں۔ "کہ ایں دو بیت از نام او مسموع شدہ"۔ اور اس کے بعد دو شعر نقل کر کے خاموش ہو جاتے ہیں۔
    تذکرۂ مخزن الغرائب کا مصںف لکھتا ہے کہ "اما دیوان اشعارش بہ نظر نیامدہ مگر در تذکرہ ہا انتخابش بہ نظر آمدہ لیکن اعتبار را نہ شاید بسبب آنکہ اکثر شعر اساتذہ صاحب آن بنام بیگم نوشتہ بود"۔ اسی تذکرہ میں یہ ذکر ہے کہ اس کے اشعار کی بیاض پانی میں گر گئی۔ ارادت فہم ایک خواص سے یہ خطا ہوئی۔ مگر یہ واقعہ قابل یقین نہیں ہے۔ اس لیے کہ حوض سے بیاض نکالی جا سکتی تھی اور پھر اس کی نقل بہت ممکن تھی۔
     
  10. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    ریختہ صفحہ 171 تذکرۃ الخواتین صفحہ 171
    مرتے مرتے نہ رہے حسرت برفاب مجھے
    اور اک گھونٹ پلادے کوئی تھنڈا ٹھنڈا
    تیرے ایثار وفا کا ہے نمونہ اے برف
    ہوگیا خود تو وفا کرکے کلیجا ٹھنڈا
    نشتر __ جناب قیصر بیگم صاحبہ نشتر لکھنوی ۔ کوئی زمانہ حال کی شاعرہ ہیں ۔ لکھنو کے رنگ موجودہ کا انداز ہر شعر سے عیاں ہوتا ہے ۔ کلام بالکل مردانہ ہے ، زبان نسواں کی بو بھی اس میں نہیں پائی جاتی۔
    چمن میں آج آمد ہے جو اس سرد خراماں کی
    بہار رفتہ پھر آئی ہوا بدلی گلستاں کی
    دھواں اٹھتا ہے جس دم آہ کرتا ہوں شب فرقت
    نہ پوچھ اے ہمنفس حالت ہمارے قلب سوزاں کی
    یہ ادنی سی عنایت تھی جنون فتنہ سامان کی
    کہ چھانی خاک ہم نے عمر بھر کوہ دبیاباں کی
    ابھی کمسن ہو ڈر جاؤگے یہ مرگ جوانی ہے
    نہ دیکھی جائے گی حالت مریض شام ہجراں کی
    پھر آئی فصل گل پھر وحشت دل رنگ لائیگی
    ترے وحشی کرینگے دھجیاں جیب و گریباں کی
    کسی کے گیسو پرخم جو نشتر یاد آتے ہیں
    مری آنکھوں میں پھرتی ہیں سیاہی شام ہجراں کی
    نظیرن __ لکھنو کی ایک عقت مآب خاتون کا نام تھا ۔ یہ دو شعر ان کے یادگار ہیں
    کیا کہیں تم سے ہم کہ کیا ہیں ہم
    پاک دامن ہیں پارسا ہیں ہم
     
    ملک بلال نے اسے پسند کیا ہے۔
  11. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    ریختہ صفحہ 172 تذکرۃ الخواتین صفحہ 172
    تو جو اغیار کے پہلو میں یہاں رہتا ہے
    مجھ پہ تنہائی میں پہروں خفقاں رہتا ہے
    نقاب __ صرف تخلص معلوم ہے ۔ باقی حال خدا جانے ۔ اتنا جانتا ہوں کہ کوئی مستورہ عفت مآب یا شاہد بازاری جنس نازک سے ہیں کلام ہدیہ اہل نظر کیا جاتا ہے ۔
    آنکھوں سے آب اشک بہایا نہ جائے گا
    طوفان نوح ہم سے اٹھایا نہ جائے گا
    میرے بجائے اس نے عدو کو بٹھالیا
    یہ داغ رشک مجھ سے اٹھایا نہ جائے گا
    وہ اور وصل غیر یہ امر محال ہے
    تسکیں دے رہا ہے مجھے یار کا حجاب
    ہمارے خط کے پرزے کس لئے وہ بھیجتا ہم کو
    جواب نامہ پر تکرار قاصد نے مقرر کی
    نقاب اور کوچہ گردی خاکساری آبلہ پائی
    عدو اور آستان دلربا خوبی مقدر کی
    وہ ہجراں کے صدمے اٹھائے ہوئے ہیں
    کہ ہاتھوں سے دل کو دبائے ہوئے ہیں
    اگر سرکروں جائیں چوتھے فلک پر
    یہ نالے مرے آزمائے ہوئے ہیں
    فلک کے عدو کے دل غمزدہ کے
    کہیں کیا کس کے ستائے ہوئے ہیں
    وہ کیا منہ دکھائیں گے محشر میں مجھ کو
    جو آنکھیں ابھی سے چرائے ہوئے ہیں

    نہ تھے گھر میں غیروں کے میں نے یہ مانا
    مگر کچھ تو ہے جو لجائے ہوئے ہیں
    دور سب سے بزم جاناں میں میں بیٹھا رہ گیا
    یہ نہ بولا ہائے کوئی ایک پیمانہ اسے
    اس سے اور امید رحم اے حضرت دل خیر ہے
    آپ تو نام خدا عاقل تھے کیا جانا اسے
     
    ملک بلال نے اسے پسند کیا ہے۔
  12. ملک بلال
    آف لائن

    ملک بلال منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2010
    پیغامات:
    22,418
    موصول پسندیدگیاں:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:
    ریختہ صفحہ 221 تذکرۃ الخواتین صفحہ 221

    اگرچہ بہت سے لوگ اس بات پر متفق ہیں کہ اس کا کلام ضائع ہو گیا مگر ایک فرقہ یہ بھی کہتا ہے کہ یہی مطبوعہ دیوان زیب النساء کا دیوان ہے۔ اس لئے آخر میں ہم اس دیوان سے بھی دو شعر انتخاب کریں گے۔ اور وہ دو چار شعر جو قدیم تذکروں میں اس کے نام سے پائے جاتے ہیں، بھی لکھ دیں گے۔
    چونکہ وہ ایک بذلہ سنج شاعرہ تھی اس لئے بہت ممکن ہے کہ یہ لطائف جو اس کے نام سے مشہور و معروف ہیں، صحیح ہوں۔ اگرچہ ان کے غلط ہونے کے احتمالات کچھ کم نہیں مگر ہم لکھے دیتے ہیں۔
    سنا ہے کہ زیب النساء نے ایک مرتبہ بکری کو بچہ دیتے ہوئے دیکھا۔ چونکہ وہ نہایت تکلیف میں تھی۔ زیب النساء ہنسی اور یہ شعر پڑھا۔ خدا جانے اسی کا ہے یا اور کسی کا۔

    اے صدف تشنہ بمیرہ سوئے نیساں منگر
    بہر یک قطرۂ آبے کہ شکم بشگافند

    یعنی اے صدف پیاسا مر جانا منظور کر اور ابر نیساں کی طرف ایک قطرہ پانی کے لئے نظر نہ اٹھا۔ کیونکہ اسی ایک قطرہ پانی لینے کی وجہ سے پیٹ چیرا جاتا ہے۔

    ایک مرتبہ یہ مصرع طرح ہوا۔ ع دُرِ ابلق کسے کم دیدہ موجود" زیب النساء نے فی البدیہہ کہا ۔ مگر اشکِ بتانِ سُرمہ آلود۔
    -------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 222 تذکرۃ الخواتین صفحہ 222

    ایک مرتبہ کوئی کنیز آئینہ اتھا کر زیب النسا کے پاس لا رہی تھی۔ اتفاق وقت سے آئینہ گر پڑا۔ کنیز ڈرتی ڈرتی زیب النسا کے پاس آئی۔ زیب النسا نے پوچھا کیا ہوا۔ کنیز نے یہ مصرع پڑھا۔

    از قضا آئینہ چینی شکست

    زیب النسا شاید شاعرانہ ترنگ میں بیٹھی ہوئی تھی۔ غصہ کرنا یا خفا ہونا تو درکنار فوراً یہ مصرع موزوں کر کے اس مصرعہ کے ساتھ چسپاں کر دیا اور یہ اچھا خاصہ شعر ہو گیا۔

    از قضا آئینۂ چینی شکست
    خوب شد اسباب خود بینی شکست

    نعمت خان عالی کو کچھ روپیہ کی ضرورت تھی ۔ اپنا حیفیہ * مرصع زیب النسا کے پاس رہن کرنے کے لئے بھیجا۔ نوابی دربار تو تھا ہی۔ کون یاد رکھتا ہے۔ زیب النساء کو خیال بھی نہ رہا۔ نعمت خاں تو ایک ہی بے چین طبیعت کا آدمی تھا۔ اس نے ایک رباعی لکھ کر بھیجی۔

    اے بند گیت سعادت اختر من
    در خدمت تو عیاں شدہ جوہر من
    گر جیغہ خریدنی است پس کو زر من
    وزنیست خریدنی بزن بر سر من

    رباعی دیکھ کر زیب النساء کو بڑی ہنسی آئی اور فوراً پانچ ہزار روپیہ بھیج دیے۔ اور غریب شاعر کی پگڑی بھی واپس دے دی۔ غرض کہ زیب النساء علم و فضل کی
    -------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 223 تذکرۃ الخواتین صفحہ 223

    نہایت قدردان تھی۔ بہت سے شعراء اور ادباء کا اس کے یہاں سے وظیفہ مقرر تھا۔ اس کی شادی نہیں ہوئی تھی۔ اور وہ نہایت زاہدانہ زندگی بسر کرتی تھی۔ مگر بہت سے ناعاقبت اندیش مصنفوں نے اس پر طرح طرح کے الزام لگائے ہیں۔ عاقل خاں کے قصے انہیں افتراپردازوں کے فرصت کے کارنامے ہیں۔ ورنہ ہر عقل مند سمجھتا ہے کہ اورنگزیب عالمگیر ایسا بادشاہ جلیل القدر اور اس کے زمانہ میں خود اسی کی لڑکی کی نسبت یہ افواہیں اڑیں اور وہ خبر نہ ہو۔ ان واقعات یا اسی قسم کے دوسرے من گھڑت افسانوں کو سن کر وہی شخص یقین کر سکتا ہے جسے قدرت نے دل و دماغ دینے میں نہایت احتیاط بلکہ بخل سے کام لیا ہے۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ زیب النساء نے ایک مرتبہ یہ مصرع ناصر علی خان کے پاس بھیجا۔ اور یہ صرف اس لئے کہ اس پر دوسرا مصرع لگایا جائے۔

    از ہم نمی شود زحلاوت جدا لبم

    ناصر علی نے بےباکانہ جواب لکھ بھیجا کہ ع شاید رسید بر لب زیب النساء لبم " اول تو ہیبت شاہی کیونکر اس بات کی مقتضی ہوتی۔ دوسرے بھلا کہاں ناصر علی کا رنگ اور کہاں یہ ہزالانہ مصرع وہ اشعار جو اہل تذکرہ نے زیب النساء کے نام سے لکھے ہیں۔ یہ ہیں۔

    بشکند دستے کہ خم در گردن یارے نشد
    کور بہ چشمے کہ لذت گیر دیدارے نشد
    -------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 224 تذکرۃ الخواتین صفحہ 224

    صد بہار آخر شد و ہر گل بفرقے جا گرفت
    غنچہ باغ دل ما زیب دستارے نشد

    (1) وہ ہاتھ جو کسی محبوب کی گردن میں خم ہو کر نہیں پڑا ہے ٹوٹ جائے تو اچھا ہے۔ وہ آنکھ جس نے لذت دیدار حاصل نہیں کی۔ اگر اندھی ہو جائے تو بہتر ہے۔
    (2) ۔ سو 100 بہاریں آئیں اور ختم ہو گئیں۔ ہر پھول کسی گوشہ د ستار پر پہنچ گیا۔ مگر ہمارے دل کے باغ کا غنچہ کسی دستار تک نہ پہنچ سکا۔

    اب چند شعر دیوان مخفی سے بھی نقل کئے دیتا ہوں۔ اگرچہ جس دیوان سے میں لکھ رہا ہوں وہ ایک نہایت قدیم نسخہ ہے اور میرے خیال میں کم سے کم دو سو دیڑھ سو برس کا لکھا ہوا ہے۔ مگر پھر بھی میں اس کو وہی متنازعہ فیہ کا درجہ دیتا ہوں۔

    از جراحتہائے دل از بسکہ لذت یافتم
    پنبہ از ناخن نہم برزخم داغ خویش را
    قصد من بہر نگاہی زمروت دورست
    کس گنہ گار نکردہ است تماشائی را
    مخفی اگر نہ کافری در رہِ عاشقی درآ
    از سر صدق سجدہ کن آں بت دلربائے را
    کوئے عشق است زناموس سلام است اینجا
    صد چو حمود بہر گوشہ غلام است اینجا
    چو مجنون از سر ہمت قدم در وادی دل نہ
    کہ بستم تازہ مخفی با محبت عہد و پیماں را
    علاج تشنگیم کے شود کہ از پس عشق
    بود برابر اک قطرۂ رود نیل مرا
    فلک بہ بخت زبونم ہر آنچہ خواہی کن
    کہ چشم مہر و وفا نیست جز اصیل مرا
    -------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 225 تذکرۃ الخواتین صفحہ 225

    بسکہ لذت دارد از درد جراحت و مبدم
    سودۂ الماس خواہد سینۂ افگار مار

    زینت ۔
    زیب النساء بیگم کی چھوٹی بہن کا نام تھا۔ یہ شہزادی بھی نہایت ذکی اور ذہین تھی۔ زینۃ المساجد جو اب تک دہلی میں موجود ہے۔ اسی کی بنوائی ہوئی ہے۔ اسی مسجد میں اس کی قبر ہے۔ کبھی کبھی شعر کہتی تھی۔ یہ شعر اسی کا اس کے مزار پر لکھا ہوا ہے۔

    مونس ما در لحد فضل خدا تنہا بس است
    سایۂ از ابرِ رحمت قبر پوش ما بس است

    ترجمہ ۔ ہمارا مونس قبر میں میں صرف فضل خدا کافی ہے۔ ابر رحمت کا سایہ ہمارا قبر پوش بہت ہے۔

    ردیف سین

    سلطان ۔
    خدیجہ بیگم نام تھا اور سلطان تخلص تھا۔ علی قلی خاں والہ داغستانی کی چچا زاد بہن تھی۔ اپنے وقت کی مشہور و معروف شاعرہ تھی۔ چند شعر انتخاب کر کے درج کئے جاتے ہیں۔

    از رنج درون خستہ ام ہیچ مپرس
    از حال دل شکستہ ام ہیچ مپرس
    انداز پرش رفتہ زیادم عمریست
    اے دوست زیاں بستہ ام ہیچ مپرس

    ترجمہ (1) ۔ میرے رنجیدہ دل کا حال کچھ مت پوچھ۔ میرے ٹوٹے ہوئے دل کا حال
    -------------------------------------------------------------------
     
  13. ملک بلال
    آف لائن

    ملک بلال منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2010
    پیغامات:
    22,418
    موصول پسندیدگیاں:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:
    ریختہ صفحہ 226 تذکرۃ الخواتین صفحہ 226

    کچھ مت پوچھ۔
    (2) ۔ اڑنے کا انداز ایک عمر سے میری یاد سے جاتا رہا۔ اے دوست میرے بندھے ہوئے بازوؤں کا کیا حال پوچھتا ہے۔

    من سستیٔ عہد یار مے دانستم
    بے مہری آں نگار مے دانستم
    آخر بہ خزاں ہجر خویشم نہ نشاند
    من عادت نو بہار مے دانستم

    ترجمہ (1) ۔ میں یار کی عہد کی سستی کو جانتا تھا۔ اس کی بے محبی مجھے معلوم تھی۔
    (2) ۔ آخر اس نے اپنے جدائی کی خزاں کو مجھے حوالہ کیا۔ میں تو پہلے ہی بہار کی عادت جانتا تھا۔

    من ساقیم و شراب حاضر
    اے عاشق خستہ آب حاضر
    آب است شراب پیش معلم
    ہاں لعل من و شراب حاضر

    ترجمہ ۔ میں ساقی ہوں اور شراب حاضر ہے۔ اے عاشق خستہ پانی حاضر ہے۔ شراب میرے سرخ ہونٹوں کے سامنے پانی ہے ہاں میرے ہونٹ اور شراب دونوں موجود ہیں۔ ملا لے۔

    با حسن من آفتاب ہیچ است
    اینک من و آفتاب حاضر
    سلطانؔ چو منے بنودہ در دہر
    عالم عالم کتاب حاضر

    ترجمہ ۔ آفتاب میرے حسن کے سامنے ہیچ ہے۔ دیکھ لو میں اور آفتاب
    -------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 227 تذکرۃ الخواتین صفحہ 227

    دونوں موجود ہیں۔
    (2) ۔ سلطان دنیا میں میری طرح کوئی نہ ہو گا۔ کہ جس کو علم کی اس قدر یادداشت ہو۔

    سلیمہ ۔
    تخلص تھا سلیمہ بیگم زوجہ بیرم خاں خانخاناں کا۔ اگرچہ یہ شاعرہ اپنے وقت کی نہات مشہور خوش گو تھی مگر آج اس کا صرف ایک مطلع مل سکا۔

    کاکلت را گر زمستی رشتۂ جاں گفتہ ام
    مست بودم زیں سبب حرف پریشاں گفتہ ام

    ترجمہ ۔ تیری کاکل کو اگر مستی کی حالت میں میں نے رشتۂ جاں کہہ دیا تو معاف کر میں مست تھا اس وجہ سے کچھ پریشاں باتیں میرے منہ سے نکل گئیں۔

    سیدہ بیگم ۔
    سید ناصر کی بیٹی جرجان کی رہنے والی تھی۔ اور خاقانی کی معاصر تھی۔ نہایت عمدہ شعر کہتی تھی۔

    دلے دارم بہ پہلو بیقرار از ہجر یار خود
    چہ گریم پیش بیدرداں ز درد بیقرار خود
    بدرد دل چناں گریم چوں گر در دل خارا
    چو یاد آرم من سرگشتہ از یار و دیار خود
    ازاں پیوستہ در عالم چنیں سرگشتہ میگردم
    کہ می بینم چو زلف او پریشاں روزگار خود
    گلے از باغ وصل او نچیدم بر مراد خود
    چو غنچہ گرچہ خود دیدم دل امیدوار خود
    زاستغنا ندارد گوش یکبار آں جفا پیشہ
    اگر درپیش او صد بار گویم حال زار خود
    بکار خویش حیرانم کہ از عشق بتاں ہر گز
    سر و ساماں نمی بینم من مسکیں بکار خود
    -------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 228 تذکرۃ الخواتین صفحہ 228

    ازیں سوزیکہ من دارم زعشق او پس مردن
    بخواہم سوخت آخر سیدہ لوح مزار خود

    ترجمہ (1) ۔ میرے پہلے میں ایک دل ہے جو میرے معشوق کے چھٹنے سے بیقرار ہو گیا ہے۔ بے دردوں کے سامنے اپنے بیقرار درد کا کیا اظہار کروں۔
    (2) ۔ دل کے درد سے میں ایسی روتی ہوں کہ پتھر کا دل خون ہو جاتا ہے۔ جب میں پریشان حال اپنے یار و دیار کو یاد کرتی ہوں۔
    (3) ۔ اس سبب سے دنیا میں ہمیشہ پریشان پھرتی ہوں کہ اس کی زلف کی طرح میں اپنا زمانہ پریشان دیکھتی ہوں۔
    (4) ۔ اس کے وصل کے باغ سے ایک پھول بھی اپنے حسب مراد نہ چن سکی۔ اگرچہ غنچہ کی طرح میرا امیدوار دل خون ہو گیا۔
    (5) وہ ظالم بے پروائی سے ایک مرتبہ بھی نہیں سنتا اگرچہ میں اس کے سامنے سیکڑوں مرتبہ اپنا حال زار کہتی ہوں۔
    (6) ۔ میں اپنے کام میں حیران ہوں کہ بتوں کے عشق سے میں مسکین اپنا سر و سامان نہیں دیکھتی۔
    (7) ۔ یہ سوز جو مرنے کے بعد مجھے اس کے عشق میں ہے اسی سے میں اپنی لوح مزار پھونک دوں گی۔
    -------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 229 تذکرۃ الخواتین صفحہ 229

    ردیف شین

    شاہجہاں ۔
    شاہجہاں بیگم صاحبہ والیہ بھوپال کا تخلص ہے۔ اردو میں شیریں تخلص فرماتی ہیں اور فارسی میں شاہجہاں۔ آپ کی مفصل سوانح عمری اردو کے ذکر میں لکھی گئی ہے۔ یہاں صرف انتخاب کلام پر ہی اکتفا کی جاتی ہے۔

    تا چراغ عقل در فانوس دل افروختم
    عجب و نخوت جملہ اسباب جہالت سوختم
    چوں بال و پر افشاند و چوں دم ببرد
    صیدیکہ زصیاد بریدن نتواند
    چو زعہد او بہ پرسم چہ بلا جواب گوید
    کہ ہزار جا بہ بستم بہزار جا شکستم
    افتاد بہ خاکم گزر آں سر و رواں را
    من مردہ خوشم زیست مبارک دگرانرا
    ہر کہ بہ نشست دریں راہ نہ آساں برخاست
    در رہ یار نشیستم کہ نتواں برخاست
    تا زخم من لبے نہ کشاید بہ آرزو
    کس پیش بندہ نام نمکداں نمی برد
    گرچہ ایں نغہ آزادی تو نیز خوش است
    لیک خوشتر بود آہنگ اسیری بلبل
    فدائے طالع خویشم شبے در انجمنش
    کہ مست بودم و از مستیم سخن میرفت
    بلاست ہمت عاشق کہ کوہ می لرزید
    دراں زماں کہ بکف تیشہ کوہ کن میرفت
    چوں کمال ہنر عشق معلم آموخت
    قیس از مکتب و لیلے زدبستاں برخاست
    -------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 230 تذکرۃ الخواتین صفحہ 230

    برخیزم و نگاہ بہر چار سو کنم
    باشد کہ رفتہ رفتہ ترا رو برو کنم
    ایں جست و خیز ساغر کم ظرف تنگ ماست
    مستی اگر کنم بہ شکوہ سبو کنم
    مرغوب طبع تفرقۂ خوب و زشت نیست
    من بعد بدنمائم و دانم نکو کنم
    بیدل مباش شاہجہاںؔ ایں محبت ست
    صد بار زندہ گردم و مرگ آرزو کنم

    تا بگذر نداز بت بے اختیار ما
    مستانہ قتل عالم کند ہوشیار ما

    ترجمہ (1) ۔ جب سے عقل کا چراغ ہم نے دل کے فانوس میں جلایا ہے، تکبر اور نخوت غرض کہ تمام اسباب جہالت جلا دیا۔
    (2) ۔ کیونکہ اڑنے کی کوشش کرے اور کیونکر جال کاٹے۔ وہ شکار کہ صیاد سے علیحدہ ہونا نہیں چاہتا۔
    (3) ۔ جب میں اس کے عہد کا ذکر کرتا ہوں تو کس قدر بےباکی سے جواب دیتا ہے کہ ایسا عہد ہزار جگہ باندھا ہے اور ہزار جگہ توڑا ہے۔
    (4) ۔ میری خاک پر وہ گزر رہا ہے۔ میں مردہ اچھا ہوں۔ زندگی دوسروں کو مبارک ہو۔
    (5) ۔ جو کوئی اس راہ میں بیٹھا آسانی سے نہیں اٹھا۔ یار کی راہ میں میں ایسا بیٹھا ہوں کہ اٹھ نہیں سکتا۔
    (6) ۔ جب تک میرا زخم آرزو کے ساتھ لب نہیں کھولتا۔ میرے سامنے کوئی نمکداں کا نام نہیں لیتا۔
    (7) ۔ اگرچہ تیرا یہ آزادی کا نغمہ بھی اے بلبل اچھا ہے مگر اسیری کی آوازے اے بلبل اس سے بھی اچھی ہے۔
    (8) ۔ میں اپنے نصیبے کے قربان کہ ایک رات محفل دوست میں
    -------------------------------------------------------------------
     
  14. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    ریختہ صفحہ 173 تذکرۃ الخواتین صفحہ 173
    نقاب { ط } حمیدن بائی طوائف کلکتہ والی کا تخلص تھا ۔ منی بائی حجاب کی چھوٹی بہن تھی ۔ نمونہ شاعری یہ ہے ۔
    نقاب اس بت سے ملنا نہ ہرگز
    وہ ظالم ہے ستائے گا ترا دل
    دور سب سے بزم جاناں میں میں تنہا رہ گیا
    یہ نہ بولا ہائے کوئی ایک پیمانہ اسے
    نورن { ط } یہ مسماۃ فرخ آباد کی ایک شاہد بازاری تھی ۔ ایک شعر بھی اس کے نام سے موجود ہے ۔
    مارا تھا تیری زلف نے کل جس کو گلبدن
    باغ جہاں سے آج وہ بیمار اٹھ گیا
    نوشابہ __ تخلص تھا ۔ امجدی جان نام تھا ۔ رامپور کی رہنے والی تھی ۔
    شعر خوب کہتی تھی اور میر صادق علی مائل کو اپنا کلام دکھاتی تھی ۔ یہ شعر نمونتا حاضر ہیں ۔
    لطف افشاں کا ہے اے رشک قمر و وصل کی رات
    کیجئے آپ نہ تاروں پہ نظر و وصل کی رات
    آسماں صبح کو عاشق سے عوض لے گا ضرور
    جیسے لوٹے ہیں مزے چار پہر وصل کی رات
    جس کی منزل میں وہ آ نکلے پھرے دن اس کے
    اب ادھر وہ مہ تاباں ہے ادھر وصل کی رات
    واومہملہ
    وحید ۔ تخلص ۔ وحید النساء نام ۔ ایک خاتون عصمت مآب عفت گزین
     
    ملک بلال نے اسے پسند کیا ہے۔
  15. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    ریختہ صفحہ 174 تذکرۃ الخواتین صفحہ 174
    آگرہ کی رہنے والی ہیں دور موجودہ کی نہایت خوش خیال شاعرہ ہیں ۔ آپ کی غزل دیکھ کر کہنہ مشقی کا پتہ چلتا ہے ۔ آپ کے زیادہ حالات معلوم نہیں صرف ایک غزل ضیافت طبع ناظرین کی جاتی ہے ۔
    دنیا سے جا رہی ہوں تمنا لئے ہوئے
    دل ہے کہ ایک یاس کی دنیا لئے ہوئے
    ارماں سینکڑوں دل شیدا لئے ہوئی
    جاتا ہے بزم یار میں تنہا لئے ہوئے
    صد سوزش جراحت و صد شورش فراق
    دل ہے اک اضطراب کی دنیا لئے ہوئے
    ارمان و عشق و حسرت و حرمان و درد و یاس
    آئی ہوں بزم یار سے کیا کیا لئے ہوئے
    اب آرزو ہے کوئی نہ ارمان ہے کوئی
    مایوس موت کی ہوں تمنا لئے ہوئے
    مصروف شغل مشق تصور ہے رات دن
    دل میں ترے خیال کی دنیا لئے ہوئے
    امید چارہ سازی بیمار الوداع
    خود ہی جگر میں درد مسیحا لئے ہوئے
    وہ دن بھی تھے کہ رہتے تھے مسرور آرزو
    اب آرزو کی ہوں میں تمنا لئے ہوئے
    پہلو میں ہے مرے دل صد آرزو وحید
    ہر آرزو ہے شوق کی دنیا ئے ہوئے
    وزیر { ط } وزیر بیگم طوائف خیر آباد ضلع سیتا پور کی رہنے والی تھی ۔ شعر و شاعری سے بھی اک گونہ شوق تھا ۔ یہ اس کے شعر ہیں ۔
     
    Last edited: ‏8 ستمبر 2020
    ملک بلال نے اسے پسند کیا ہے۔
  16. ملک بلال
    آف لائن

    ملک بلال منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2010
    پیغامات:
    22,418
    موصول پسندیدگیاں:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:
    ریختہ صفحہ 231 تذکرۃ الخواتین صفحہ 231

    میں مست تھا۔ اور میری مستی کی باتیں ہوتی تھیں۔
    (9) ۔ عاشق کی ہمت بھی ایک بلا ہے پہاڑ اس وقت لرز رہا تھا جب فرہاد ہاتھ میں تیشہ لئے جا رہا تھا۔
    (10) ۔ جب معلم نے عشق کا ہنر اچھی طرح سکھا دیا قیس اور لیلی مکتب سے اٹھ گئے۔
    (11) ۔ میں اٹھتا ہوں اور چار طرف نگاہ کرتا ہوں۔ شاید کہ رفتہ رفتہ تجھے سامنے دیکھ سکوں۔
    (12) ۔ مجھے اچھے برے کا تفرقہ اچھا نہیں معلوم ہوتا۔ اس کے بعد میں برا کروں گا اور اچھا سمجھوں گا۔
    (13) ۔ اے شاہجہاںؔ بیدل مت ہو۔ یہ تو محبت ہے ہم سو بار زندہ ہوں گے اور سو بار مرنے کی آرزو کریں گے۔
    (14) ۔ اس لئے کہ ہمارے بے اختیار معشوق سے درگزر کریں۔ مستانہ قتل عام کرتا ہے ہمارا ہوشیار۔

    شاہی ۔
    گیلان کی رہنے والی فحش گو اور بےباک ہزال تھی۔ مگر نہایت طرار اور چرب زبان تھی۔ ایک شخص کی ہجو میں یہ رباعی کہی تھی۔ جو اس کی بےباکی کا نمونہ ہے۔

    تا چند نس خویش نہی بر نس من
    گیرے جو دوال در زلی در پس من
    گر قاعدہ گیر تو ایں خواہد شد
    ریس تو بجائے گیر بہ در گس من

    شرم ۔
    ایک طوائف تھی جو لکھنؤ کی رہنے والی تھی۔ اس شاعر گر زمین نے اسے اردو کا کامل شاعر بنا دیا تھا۔ اور فارسی کے شعر بھی کبھی کبھی کہتی تھی۔ ایک شعر
    -------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 232 تذکرۃ الخواتین صفحہ 232

    موجود ہے لکھتا ہوں۔

    قاقش سرو رخش گلفام است
    چشم بادام و دو زلفش دام است

    ترجمہ ۔ اس کا قدر سرو کی طرح ہے اور اس کا رخسار پھول کی مانند ہے۔ آنکھ بادام اور دونوں زلفیں جال ہیں۔

    شیریں ۔ رضیہ سلطان دختر شمس الدین التمش کا تخلص ہے۔ جس نے چند روز تخت دہلی پر حکمرانی کی۔ اس کا پورا نام سکہ پریوں مضروب تھا۔ سلطان اعظم رضیۃ الدنیا والدین۔ رضیہ اپنے باپ کی نہایت پیاری بیٹی تھی سلطان شمس الدین التمش اس کی محبت کو بیٹوں پر ترجیح دیتا تھا۔ اس نے اس کو مردانہ اور سپاہیانہ تعلیم دلائی تھی۔ اور جو ہنر مردوں کو سکھائے جاتے ہیں سب اس کو سکھائے تھے۔ لکھنا پڑھنا، فن شمشیر زنی، شہسواری، تیر اندازی وغیرہ میں ماہر تھی۔ نہایت نازک اندام اور حسین تھی۔ مروت اور خلق کوٹ کوٹ کر اس میں بھرا تھا۔ مطالعہ کتب کی بے حد شائق تھی۔ تمام درباری اس کی صفات کی وجہ سے اس کی عزت کرتے تھے اور اس کو دل سے عزیز رکھتے تھے۔
    التمش جب فوج لے کر جانب جنوب گیا تو اس کی غیبت میں چھ سال تک تمام سلطنت کا بوجھ رضیہ نے اٹھایا اور نہایت حسن و خوبی سے حکمرانی کرتی رہی۔ جب
    -------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 233 تذکرۃ الخواتین صفحہ 233

    شمس الدین التمش کا انتقال ہوا۔ تو اس نے وصیت کی کہ میرے بعد عنان سلطنت رضیہ کے ہاتھ میں رہے۔ مگر اس کی وصیت پر عمل نہ ہوا۔ اور اس کے بجائے رضیہ کا بھائی فیروز حکمراں ہوا۔ مگر اس کی بے انتظامی کی وجہ سے امرائے عہد نے چھ مہینہ بعد ہی اس کو تخت سے اتار کر رضیہ کو سلطاں بنایا۔ دو سال تک وہ نہایت ہی بیدار مغزی سے امور سلطنت انجام دیتی رہی۔ مگر جب اس کو یہ خیال ہوا کہ اسے اب شادی کرنا چاہیے تو اسی نے ایک سردار یاقوت نامی سے شادی کرنا چاہی۔ اور اسی پر جھگڑے بڑھے یہاں تک کہ تمام سردار باغی ہو گئے اور بالآخر اس کو اپنے ایک سردار التونیہ سے لڑنا پڑا۔ یاقوت جو اس کی معیت میں تھا اس معرکہ میں مارا گیا۔ خود رضیہ التونیہ کے قبضہ میں گئی۔ اس سردار نے اس کا احترام کیا۔ اور بالآخر اس شرط پر اس کو رہا کر دیا کہ وہ اسی سے شادی کرے گی۔ انہیں قضیوں کے اثنا میں اور سرداروں نے اس کے نکمے بھائی کو تخت پر بٹھایا۔ التونیہ جو اب رضیہ کا شوہر تھا اور خود رضیہ نے اس کا انتقام لینا چاہا۔ مگر وہ دونوں خود اپنی رعایا اہالیان دربار کے ہاتھوں میں پڑے اور گرفتار ہو کر دونوں مارے گئے۔ رضیہ کو شعر و شاعری کا ذوق تھا۔ معلوم ہوا ہے کہ وہ ترکی اور فارسی دونوں زبانوں میں شعر کہتی تھی۔ فارسی کے چند شعر یہ ہیں۔
    -------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 234 تذکرۃ الخواتین صفحہ 234

    نادیدہ رخش چو مردم چشم
    کدیم درون دیدہ جایش
    من نام ترا شنیدہ میدارم دوست
    نادیدہ ترا چو دیدہ میدارم دوست
    در دہان خود دارم عندلیب خوش الحاں
    پیش من سخن گویاں زاغ در دہن دارند
    غلطیدن نور رخ خورشید جز ایں چہ
    بسمل شدہ تیغ نگاہ غضب ماست
    از ماست کہ بر ماست چہ تقصیر دل زار
    آن کشتہ انداز غم بے سبب ماست
    کنم ببرکت پا تخت چرخ سلطانی
    و ہم ببال ہما خدمت مگس رانی
    باز آ شیریں منہ در راہ الفت گام خویش
    ہاں ولے نہ شنیدہ ماشی قصۂ فرہاد را

    ترجمہ (1) ۔ اس کا منہ دیکھے بغیر آنکھ کی پتلی کی طرح میں نے اس کو اپنی آنکھ میں جگہ دی ہے۔
    (2) ۔ میں تیرا نام سن کر تجھے دوست رکھتی ہوں۔ بغیر دیکھے ہوئے تجھے آنکھوں کی طرح عزیز جانتی ہوں۔
    (3) ۔ اپنے منہ میں ایک بلبل خوش آواز کہتی ہوں۔ میرے سامنے شاعر گویا کوے منہ میں لئے پھرتے ہیں۔
    (4) ۔ سورج کے منہ کا نور اڑانا کس واسطے ہے سواے اس کے کہ ہماری نگاہ سے زخمی ہے۔
    (5) ۔ جو کچھ ہے وہ ہمیں نے خود پر ستم کیا ہے۔ دل کا کیا قصور ہے۔ وہ ہمارے غم بے سبب کے انداز کا مارا ہوا ہے۔
    (6) ۔ میں پاؤں کی برکت سے چرخ کو تخت سلطانی بناؤں گی۔ اور ہما کے بازوؤں کو مگس کی رانی کی خدمت میں دوں گی۔
    (7) ۔ شیریں کہنا مال راہ الفت میں قدم نہ رکھ۔ ہاں
    -------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 235 تذکرۃ الخواتین صفحہ 235

    شاید تو نے فرہاد کا قصہ نہیں سنا ہے۔

    شیریں ۔ ایک رقاصہ کا تخلص تھا۔ جو لکھنؤ بازار چوک میں رہتی تھی۔ نہایت عمدہ شعر کہتی تھی۔ اردو کا دیوان مطبعہ ہے۔ کچھ غزلیں فارسی بھی کہی تھیں۔ چند شعر فارسی کے منتخب کر کے لکھے جاتے ہیں۔ بعض بعض شعر نہایت عمدہ کہے ہیں۔

    زنیکاں مر مرا مشمار من آنم کہ من دانم
    طریق حسن ظن بگزار من آنم کہ من دانم
    اسیر نفس غدارم گنہہ گار و خطا کارم
    نیم کاذب بدیں گفتار من آنم کہ من دانم
    رہ نخوت نمی پویم ہمی ہر بار میگویم
    خراب و زشت و بدکردار من آنم کہ من دانم
    اگر خلقم کند تحسیں نگردم شاد اے شیریںؔ
    بہ خلوت خانہ از اغیار من آنم کہ من دانم

    ترجمہ (1) ۔ مجھ کو نیکوں میں سے نہ گن میں وہ ہوں کہ میں ہی جانتی ہوں۔ حسن ظن کا طریقہ چھوڑ دے میں وہ ہوں کہ میں ہی جانتی ہوں۔
    (2) ۔ میں نفس غدار کی قیدی ہوں، گنہگار اور خطاوار ہوں۔ اس بات میں میں جھوٹی نہیں ہوں، میں وہ ہوں کہ میں ہی جانتی ہوں۔
    (3) ۔ نخوت کی راہ میں نہیں چلتی ہر مرتبہ میں یہی کہتی ہوں۔ خراب بری اور بدعادت میں وہ میں ہوں کہ میں ہی جانتی ہوں۔
    (4) ۔ اگر دنیا میری تعریف کرے تو اے شیریں میں خوش نہ ہوں گی ۔ خلوت خانہ میں غیروں سے میں وہ ہوں کہ میں ہی جانتی ہوں۔
    -------------------------------------------------------------------
     
  17. ملک بلال
    آف لائن

    ملک بلال منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2010
    پیغامات:
    22,418
    موصول پسندیدگیاں:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:
    ریختہ صفحہ 236 تذکرۃ الخواتین صفحہ 236

    ردیف صاد

    صراحی ۔
    یہ تخلص تھا۔ اور محترم النساء خانم نام تھا۔ تیمان کی رہنے والی میر علی اکبر مشہدی کی لڑکی اور میر مرتضیٰ شاہ کی بیوی تھی۔ شعر بہت کم کہتی تھی۔ مگر کہتی تھی۔ ایک شعر یادگار ہے۔

    صراحیؔ گر غمے داری زبخت سرنگون خود
    قدح را ہمدم خود ساز و خالی کن درون خود

    ترجمہ ۔ اے صراحیؔ اگر تجھے اپنے سرنگوں نصیب سے کوئی غم ہے تو قدح کو اپنا ہمدم بنا اور اپنا دل خالی کر۔

    ردیف ضاد

    ضعیفی ۔
    آرزوی شاعرہ جس کا ذکر پہلے ہو چکا ہے۔ اس کی معاصر تھی۔ یہ اُس کی اور وہ اِس کی غزل پر غزل کہا کرتی تھی۔ یہ شاعرہ ظریفہ بھی تھی اور کبھی کبھی اپنے شوہر سے نوک جھوک ہوا کرتی تھی۔ ایک دن کا ذکر ہے کہ ضعیفی اور اس کا شوہر بیٹھے ہوئے تھے۔ ضعیفی نے یہ رباعی کہی اور شوہر کو سنائی۔

    اے مرد ترا بمہرم انگیزی نیست
    ہم پیر و ضعیفی و ترا چیرے نیست
    -------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 237 تذکرۃ الخواتین صفحہ 237

    با ایں ہمہ مید ہی نہیبم ززدن
    خود قوت آں ترا کہ برخیزی نیست

    ترجمہ (1) ۔ اے مردوے تجھے میری محبت نہیں ہے۔ تو بڈھا ہے ضعیف ہے اور تجھ سے کچھ ہو نہیں سکتا۔
    (2) ۔ ان سب باتوں کے باوجود بھی تو مجھے مارنے سے ڈراتا رہتا ہے۔ حالانکہ تجھ میں اٹھنے کی بھی طاقت نہیں ہے۔

    بڈھا شوہر بھی شوخ مزاج تھا۔ اس نے فوراً جواب دیا۔

    اے زن دگر آنکہ با من آمیزی نیست
    کار تو بغیر فتنہ انگیزی نیست
    دارم ہمہ عیب را کہ گفتی با ما
    عیبے بتر از بلاے بے چیزی نیست

    ضیا ۔
    تخلص۔ سکندر جہاں بیگم نام۔ امیر علی جو ایک وقت میں ریاست جاورہ کے کوتوال تھے ان کی لڑکی تھی۔ اردو میں اس شاعرہ کا ذکر گزر چکا ہے۔ فارسی میں بھی یہ کبھی کبھی کچھ کہتی تھیں۔ دو شعر مل سکے ۔ حاضر ہیں۔

    ہمہ تن پیکر شکرم بہ سپاس رفعت
    للہ الحمد کہ شکر از من و احساں ازوے
    شدہ طبعم زشمیم گل فیضش خوشبو
    گل زمین دل من رشک گلستاں ازوے

    ترجمہ (1) ۔ میں تمام تر شکر کی تصویر ہوں۔ رفعت کے شکریہ میں۔ خدا کا شکر ہے کہ وہ احساں کرتا ہے۔ اور میں شکر کرتی ہوں۔
    (2) ۔ میری طبیعت اس کے فیض شمیم گل سے خوشبودار ہو گئی۔ اور میرے دل کی گل زمیں میں اس سے رشک گلستاں ہو گئی۔
    -------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 238 تذکرۃ الخواتین صفحہ 238

    ردیف عین

    عائشہ ۔
    سمرقند کی ایک پردہ نشین عورت کا نام اور تخلص تھا۔ اس کے کلام سے اس کی ذہانت کا پتہ چلتا ہے۔ مگر کلام صرف اسی قدر ملتا ہے جو درج تذکرہ کیا جاتا ہے۔

    آراستہ باغ عندلیباں سرمست
    یاراں ہمہ از نشاط گل بادہ پرست
    اسباب فراغت ہمہ درہم زدہ است
    بستاب کہ جز تو ہر چہ میباید ہست
    اے از تو وفا و مہربانی نایاب
    بے عیش تو لذت جوانی نایاب
    وصل تو حیات جاودانی لیکن
    یا بندہ آب زندگانی نایاب

    ترجمہ (1) ۔ باغ آراستہ ہے اور بلبلیں مست ہیں۔ یار سب خوش ہیں گل اور بادہ کی پرستش کر رہے ہیں۔
    (2) ۔ اسباب فراغت سب مہیا ہیں تو دوڑ کر آ کہ بس تیری کمی ہے۔
    (3) ۔ اے وہ شخص کہ تیری ذات میں وفا اور مہربانی نہیں ہے۔ بے یترے عیش اور جوانی کی لذت نہیں ہے۔
    (4) ۔ تیرا وصل زندگانی جاوید ہے لیکن جو شخص اس آب زندگانی کو پائے وہ نہیں ملتا۔
    -------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 239 تذکرۃ الخواتین صفحہ 239

    اشکے کہ زچشم من بروں غلطید است
    در گوش کشیدۂ کہ مروارید است
    از گوش بروں آر کہ بدنامی تست
    کانرا برخم تمام عالم دید است
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    بامن چوشب وصل تو بکشا ید راز
    ناگاہم از شام کند صبح آغاز
    با ایں ہمہ گر عوض کنندم مذہم
    کوتاہ شبے ازاں بصد عمر دراز

    ترجمہ ۔ (1) ۔ وہ آنسو کہ میری آنکھوں سے نکلا ہے تو نے یہ سمجھ کر کہ موتی ہے کان میں ڈال لیا ہے۔ کان سے اس کو باہر نکال کیونکہ اس میں تیری بدنامی ہے۔ میرے رخسار پر اس کو سب نے دیکھا ہے۔
    (2) ۔ اگر تیری شب وصل میرے ساتھ ہمراز ہو جاوے تو یکا یک شام ہی سے صبح ہونی شروع ہو جاوے۔ باوجود اس سب خرابی کہ اگر بدلہ میں سو عمر دراز مجھے دیں تو میں اس کوتاہ شب کو اس عمر دراز سے بدل نہیں سکتا۔

    عصمت بیگم ۔
    سیف الملوک تورانی کی لڑکی تھی اور نہایت عمدہ شعر کہتی تھی۔ یہ نمونۂ کلام اسی کا ہے۔

    چوں ابر بہار دمبدم گریانم
    مانند فلک ہمیشہ سرگردانم
    باہر کہ وفا کنم جفائے بینم
    بربخت خود و طالع خود حیرانم
    -------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 240تذکرۃ الخواتین صفحہ 240

    تذکرۂ مراۃالخیال میں یہ شعر بھی اسی کے نام سے لکھا ہے۔

    از پا شکستگاں طلب کعبہ مشکل است
    آں کعبۂ کہ دست دہد کعبۂ دل است

    ابر بہر کی طرح میں دم بدم روتی ہوں اور آسمان کی طرح میں ہیشہ سرگردان رہتی ہوں۔ (2) جس کے ساتھ میں وفا کرتی ہوں جفا اس کا نتیجہ پاتی ہوں۔ اپنی قسمت اور اپنے ستارہ پر سخت حیران ہوں۔ (3) ۔ جو لوگ پاؤں توڑ کر طلب کرنے سے باز آ گئے ہیں ان کو کعبہ ڈھونڈنا مشکل ہے۔ وہ کعمہ جو مل سکتا ہے وہ دل کا کعبہ ہے۔

    عصمتی ۔
    سمرقند کی ایک خوش فکر عورت تھی۔ نمونہ کلام یہ ہے۔

    تا فگند است مرا بخت بد از یار جدا
    غم جدا می کشدم چرخ ستمگار جدا

    ترجمہ ۔ جب سے مجھ کو بدنصیبی نے یار سے جدا کر دیا ہے۔ غلم علیحدہ مجھ کو مارے ڈالتا ہے اور آسان علیحدہ۔

    عفتی ۔
    ملا آزری کی کنیز با تمیز تھی اور ملائے موصوف کے فیض صحبت نے شاعر بھی بنا دیا تھا۔ اس کا شعر یہ ہے۔

    قامت سرو کہ در آب نمودار شدہ
    کرد دعوے بقد یار نگونسار شدہ

    ترجمہ ۔ سرو کا قد کہ پانی میں ظاہر ہوا۔ اس نے قد یار سے دعوےٰ کیا اور نتیجہ یہ ہوا کہ نگونسار ہو گیا۔
    -------------------------------------------------------------------
     
  18. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    ریختہ صفحہ 175 تذکرۃ الخواتین صفحہ 175
    کسی پردہ دار کا غم جو نہ پردہ دار ہوتا
    تو یہ استخواں میں ہرگز نہ مرے غبار ہوتا
    نہیں جب ثبات دنیا تو مجھے ترا گلا کیا
    مرے ساتھ عہد کیوں کر ترا استوار ہوتا
    یہ غضب نہیں تو کیا ہے کہ چمن ہے اور گھٹا ہے
    یہ وہی وقت ہے کہ جام مے ناب و یار ہوتا
    تجھے کب غفور کہتا کوئی اے کریم و ارحم
    کسے بخشتا جو کوئی نہ گناہگار ہوتا
    کیوں دیتے ہیں تعزیر تبان ستم ایجاد
    یارب اگر میں ہوں تو گناہگار ہوں تو تیرا
    ہائے ہوز
    ہلال { ط } تخلص نام چندا جان دہلی کی ادنی درجہ کی طوائف تھی ۔ جس کا ابھی سات آٹھ برس پہلے انتقال ہوا ہے کچھ دیوانی سی تھی اپنے شعر بھی سنایا کرتی تھی ۔ اور شعر اسے نہایت اختلاط و محبت سے پیش آتی تھی ۔ میں نے خود اس کی زبان سے یہ شعر سنے ہیں نہیں معلوم اسی کے ہیں یا کس کے ۔
    دیکھتا ہے جو کوئی غور سے ان کی جانب
    ہاتھ رکھ لیتے ہیں وہ پھولوں سے رخساروں پر
    ایک کاہیدگی کافی نہیں ہوتی ہے ہلال
    لوٹنا پڑتا ہے عشاق کو انگاروں پر
    ایک شخص نے دوسرا شعر سن کر کہا ہلال آپ کا تخلص ہے تو اس نے جواب دیا کہ جی ہاں یہی تخلص ہے ۔ یہ باتیں اب سے پندرہ برس پہلے کی ہیں
     
    ملک بلال نے اسے پسند کیا ہے۔
  19. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    ریختہ صفحہ 176 تذکرۃ الخواتین صفحہ 176
    ممکن ہے کہ اس کے بعد بھی وہ شاعری کرتی رہی ہو اور اور کچھ شعر کہے ہوں ۔
    ہمایوں __ تخلص ہے میرٹھ کی رہنے والی ہیں ۔ فی الحال اپنے شوہر کے ہمراہ انبالہ میں مقیم ہیں ۔ نہایت ذہین ہیں ۔ اردو فارسی میں اچھی خاصی دستگاہ ہے ۔ بقدر ضرورت انگریزی بھی جانتی ہیں ۔ اس وقت کوئی 25 سال کی عمر ہوگی ۔ شعر و شاعری سے کافی ذوق مگر کسی رسالہ اور گلدستہ میں کبھی اپنی غزل نہیں دیتیں بلکہ جو ایسا کرتی ہیں ان سے ہمیشہ اظہار ناراضی کرتی رہتی ہیں ۔ میرے ایک دوست نے جو آپ کے عزیز قریب ہیں میرے اوپر کرم فرمایا اور بمشکل یہ کلام مجھ تک پہونچایا ۔ نام وغیرہ کی اب بھی اجازت نہیں ہے نمونہ کلام حاضر ہے ملاحظہ ہو
    آسمان روز نئے رنگ ہی لاتا جائے
    جس قدر اس سے بنے قبر مٹاتا جائے
    خیر منظور ہے فرقت کی مصیبت مجھ کو
    جاتے جاتے کوئی جلوہ تو دکھاتا جائے
    وعدہ وصل کر نہیں دیتے
    پھول کی طرح مسکراتے ہیں
    بس تسلی نہ دو دم رخصت
    جائے آپ روز آتے ہیں
    نہیں ملتے اگر غریبوں سے
    ان کو دیوانہ کیوں بناتے ہیں
    رند سے اعتبار توبہ کا
    کالی کالی گھٹا کے ساتھ اٹھا
     
    ملک بلال نے اسے پسند کیا ہے۔
  20. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    ریختہ صفحہ 177 تذکرۃ الخواتین صفحہ 177
    یاس نے جب سے دل توڑ دیا
    پھر دعاؤں کو بھی نہ ہاتھ اٹھا
    میں تو کمبخت ہوں اور نام ہمایوں ہے مرا
    انھیں باتوں سے فلک سخت جگر خوں ہے مرا
    ہمدم __ تخلص تھا ۔ گوہر جان طوائف کا کلکتہ کی رہنے والی تھی ۔ یہ چند شعر یادگار ہیں ۔
    دل کیا یار نے زخمی دم تقریر عبث
    بےسبب کھنچ گیا وہ صورت شمشیر عبث
    تیرا دیوانہ الفت ہے نہ ٹہرے گا کبھی
    موجیں پہناتی ہیں سیلاب کی زنجیر عبث
    سینکڑوں آہوے دل صید ہیں ان زلفوں میں
    ڈھونڈتے پھرتے ہیں صحرا میں نخچیر عبث
    ہنر __ گنا جان طوائف در بھنگہ کی رہنے والی کا تخلص تھا ۔ حسین خوش مزاج تھی ۔ شعر بھی خوب کہتی تھی
    کیوں نہ چرخ پیر کو کہیے ہے دیوانہ مزاج
    ہاے بہ پیرانہ سالی اور طفلانہ مزاج
    مردم چشم صنم بھی سامری فن ہیں کوئی
    اپنے قابو میں جو کرلیتے ہیں بیگانہ مزاج
    حشر میں اک حشر ہوجائے گا برپا اے پری
    قبر سے اٹھیں گے جس دم تیرے دیوانہ مزاج
    اے پریرو تو نے عالم کو یہ دیوانہ کیا
    شکل عنقا کی نظر آتے ہیں فرزانہ مزاج
    اک شمار رحمت اپنے واسطے کافی ہے شیخ
    کیجئے اتنا نہ لے کر صبحہ صددانہ مزاج
    آگیا نام خدا عہد شباب اس کا اگر
    بڑھ کے طفلی سے کرے گا پھر وہ جانانہ مزاج
     
    ملک بلال نے اسے پسند کیا ہے۔
  21. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    ریختہ صفحہ 178 تذکرۃ الخواتین صفحہ 178
    ہوش __ کرنال کی ایک مجہول الحال عورت کا تخلص تھا ۔ ایک شعر اس کا یادگار ہے ۔
    عمر انساں جس قدر بڑھ جاے ہے
    اتنے درجے حرص بھی چڑھ جائے ہے
    یائے تحتانی
    یاد __ ایک خاتون عفت مآب خاتون تیموریہ کا تخلص تھا ۔ نہایت خوبصورت اور صاحب سلیقہ تھی 1292ھ میں دارفانی کو چھوڑ کر عالم بقا کو راہی ہوئی ۔ اور یہ چند شعر یادگار چھوڑ گئی ۔
    عبث فکر دارماں ہے اے اقربا
    کہ اب یاد تو یاں سے چلنے کو ہے
    سر انجام غسل و کفن کر رکھو
    تن زار سے جاں نکنے کو ہے
    یاس تخلص ۔ آفتاب بیگم نام ۔ فیض آباد کی رہنے والی تھیں ۔ شعر خوب خوب کہتی تھیں ۔ ملاحظہ کیجئے ۔
    اڑنے وہ نخچیر یاد شوق میں بےپر لگا
    تیر تیرا جس کسی کے اے پری پیکر لگا
    کیا خبر سودائیوں کو موسم گل کی ہوئی
    میری تربت پر برسنے رات دن پتھر لگا
    اب بھی گر آنا ہے تو جلدی سے آ لیجئے خبر
    بے مسیحا اب تو دم آنے مرا لب پر لگا
     
    ملک بلال نے اسے پسند کیا ہے۔
  22. ملک بلال
    آف لائن

    ملک بلال منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2010
    پیغامات:
    22,418
    موصول پسندیدگیاں:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:
    ریختہ صفحہ 241تذکرۃ الخواتین صفحہ 241

    ردیف غین

    غریب ۔
    شیراز کی ایک خوش گو شاعرہ تھی۔ جس کو کسی ضرورت سے ترک وطن کرنا پڑا۔ اور عہد اکبر شاہ میں ہندوستان آئی۔ صرف ایک شعر اس کا دستیاب ہو سکا۔

    خود بہ بودی یا کسِ دیگر ربود
    اینقدر دانم کہ دل در سینہ بود

    ترجمہ ۔ تو لے گیا یا کوئی اور لے گیا۔ میں تو یہ جانتا ہوں کہ میرے سینے میں دل تھا۔

    ردیف فا

    فاطمہ بیگم ۔
    خراسان کی ایک شاعرہ عفت مآب تھی جس کا نام اور تخلص ایک ہی تھا۔ عمدہ شعر کہتی تھی لیکن اب ایک شعر بھی نہیں جو درج کروں۔

    فصیحہ خانم ۔
    پردہ نشینان ہرات میں سے ایک عفت مآب کا تخلص تھا۔ شاہ عباس ماضی کے زمانہ کی شاعرہ ہے۔ آخر میں حبیب اللہ ترک سے اس نے نکاح کر لیا تھا اور کافی سرمایہ پایا تھا۔ اس کے بعد ہندوستان چلی آئی تھی اور یہیں انتقال کیا۔ دو رباعیاں اس کی مل سکیں۔

    دیگر نہ زغم نہ از جنوں خواہم خفت
    نے از دل غم دیدہ بخوں خواہم خفت
    -------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 242تذکرۃ الخواتین صفحہ 242

    زینگونہ بد بست نرگست خواب مرا
    در گور بحیرتم کہ چوں خواہم خفت

    ترجمہ (1) ۔ اب دوبارہ میں غم اور نہ جنوں سے سوؤں گی۔ نہ دل غم دیدہ سے خون میں سوؤں گی۔
    (2) ۔ تیری آنکھوں نے اس طرح میری نیند اڑا دی ہے کہ مجھے تعجب ہے کہ قبر میں کیونکر سو سکوں گی۔

    روزے کہ بخواں وصل مہاں گشتم
    شرمندہ زانتظار ہجراں گشتم
    زاں چشمۂ حیواں کہ کشیدم آبے
    از زندگی خویش پیشماں گشتم

    ترجمہ (1) ۔ وز کہ میں وصل کے خوان پر مہمان ہوئی۔ جدائی کے انتظار سے شرمندہ ہوئی۔
    (2) ۔ اس چشمۂ حیوان سے میں نے پانی پیا۔ اپنی زندگی سے پشیمان ہوئی۔

    فناء النساء بیگم ۔
    ایک شاعرہ عہد جہانگیر میں تھی۔ نہایت نازک مزاج عالی دماغ تھی۔

    ہنگام سحر دلبر من جلوہ گر آمد
    صد فتنۂ خوابیدہ محشر بسر آمد
    مکن تکرار اے دل ہر نفس درس محبت را
    مدہ دہر دو عالم نشۂ صہبائے حیرت را
    من از فراق تو الماز غم بدل خورم
    تو دل شکستی و سوگند وصل ماخوردی

    ترجمہ (1) ۔ صبح کے وقت میرا معشوق جلوہ گر ہوا۔ سو فتنہ محشر جو سو رہے تھے۔
    -------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 243تذکرۃ الخواتین صفحہ 243

    جاگ اٹھے۔
    (2) ۔ اے دل ہر وقت محبت کے سبق کو مت دہرا۔ دونوں جہاں میں نشہ صہباے حیرت مت دے۔
    (3) ۔ تیری جدائی سے غم کا الماس میرے دل میں چبھا۔ تو نے دل توڑا اور ہمارے وصل کی قسم کھائی۔

    ردیف قاف

    قرۃ العین ۔
    زریں تاج ام سلمہ خلیفہ۔ بعض نے اس کو اس مذہب بابی کا محترع لکھا ہے جو ایران میں رائج ہوا۔ یہ مرزا محمد صالح مجتہد ایران کی لڑکی تھی۔ نہایت فاضلہ اور علوم میں کاملہ تھی۔ مگر جن لوگوں کا یہ خیال ہے کہ مذہب بابی کی محترح یہی تھی۔ غلط ہے۔ اصل واقعہ یہ ہے کہ ایک شخص باب جس کا اصلی نام علی محمد تھا۔ یہ ایران کے ایک مشہور تاجر محمد رضا کا بیٹا تھا۔ اس نے پہلے فارسی پڑھی پھر عربی کی معمولی تکمیل کی پھر سید محمد کاظم کربلائی کے حلقۂ درس میں شریک ہوا۔ جب استاد کا انتقال ہو گیا تو اس کے بہت سے شاگرد ہو گئے۔ یہ اپنے شاگردوں کو ساتھ لے کر کوفہ کی مسجد میں پہنچا اور ریاضات شاقہ کرنے لگا۔ 1260 ھ میں اس نے اپنے عقیدت مندوں کو یقین دلایا کہ دراصل وہ مہدی جس کا انتظار ہے وہ میں ہی ہوں۔ اور
    -------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 244تذکرۃ الخواتین صفحہ 244

    اور اس کے ثبوت میں بہت سی احادیث بھی پیش کیں۔ اس بات پر اس سے معجزہ طلب کیا گیا تو اس نے کہا کہ میری تحریر و تقریر ہی کو معجزہ سمجھو۔ میں اس سے بہتر کوئی معجزہ پیش نہیں کر سکتا کہ ایک دن میں ہزار شعر مناجات کے تصنیف کرتا ہوں۔ اور چند مناجاتیں پیش کیں جن کے اعراب بھی درست نہ تھے۔ لوگوں نے اعتراض کیا تو اس نے جواب دیا کہ دراصل قصہ یہ ہے کہ علم نحو اب تک غضب الہیٰ میں گرفتار تھا۔ اب تک اس میں غلطی ہونا نا جائز تھا۔ اب میں نے خدا سے اس کی سفارش کر دی ہے اور اس کے اوپر سے اللہ نے وہ سختیاں اٹھا دی ہیں۔ اب یہ قیود اس پر عارض نہیں رہیں۔ پھر اس نے اعلان کیا کہ میری وجود سے عرض یہ ہے کہ تمام ادیان متحد ہو جائیں۔ جس کے لئے میں آئندہ سال مکہ معظمہ سے شمشیر بکف خروج کروں گا اور تمام روئے زمین پر قبضہ کروں گا۔ لہذا جب تک کہ نام ادیان متحد نہ ہوں اور تمام لوگ میرے مطیع نہ ہو جائیں۔ تمام تکالیف شرعیہ میرے پیرووں کے لئے معاف ہیں۔ اس لالچ میں بہت سے لوگ اس کے مطیع ہو گئے۔ اس کے مذہب میں حقیقی بہن سے مبتلا ہونا بھی زنا نہیں تھا۔ ایک عورت کا نو آدمیوں کو نکاح میں لانا جائز تھا۔ اسی قسم کے بہت سے احکام مریدوں کو دئے جن کو طویل ہونے کی وجہ سے نظر انداز کیا جاتا ہے۔
    -------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 245تذکرۃ الخواتین صفحہ 245

    سلام علیک کی بجائے مرحبا بک سلام رائج کیا۔ (2) اذان میں اپنا نام داخل کرنا چاہا۔ (3) اس کا یہ قول بھی تھا کہ رسول اللہ ص اور حضرت علی رض نے مجھ سے بیعت کی۔ (4) جس طرح بغیر باب کے مکان میں داخل نہیں ہو سکتا۔ اسی طرح بغیر میرے دیکھے اور متابعت کئے دین خدا تک کوئی نہیں پہنچ سکتا۔
    مریدین نے اس قول کو سن کر اس کا لقب باب مقرر کر دیا۔ اور مذہب بابی کی بنا پڑی۔ اس نے اپنے چند مریدین کو مناد کے طریقہ پر شیراز بھیجا تا کہ وہ لوگوں کو باب کے مہدی موعود ہونے کا یقین دلائیں۔ اور جو لوگ اس کے مہدی موعود ہونے کی تصدیق کریں ان سے بیعت لیں۔ اپنا تصنیف کیا ہوا کلام بھی جس میں کسی کا نام مناجات اور کسی کا قرآن تھا۔ ان کو دیا تاکہ لوگوں کو سنائیں۔ اور وہ بجائے قرآن مجید اور صحیفۂ سجادیہ کے پڑھا کریں۔
    اس کے بعد اس کا خلیفہ ملا حسین شیروبہ ہوا۔ اور قراۃالعین جس کا یہ ذکر ہے اس کی نائب بنی۔ یہ نہایت حسین اور صاحب جمال بھی تھی۔ عربی میں ایسی قابل تھی کہ کچھ عبارتیں لکھ کر اس دعوے کے ساتھ پیش کیں کہ یہ کلام الہی کا جواب ہے اور اس نے ہر طریقہ سے اشاعت مذہب باب شروع کی۔ ہر فرقہ کے لوگ اس کے حسن و جمال کے لالچ سے اس مذہب میں داخل
    -------------------------------------------------------------------
     
  23. ملک بلال
    آف لائن

    ملک بلال منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2010
    پیغامات:
    22,418
    موصول پسندیدگیاں:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:
    ریختہ صفحہ 246تذکرۃ الخواتین صفحہ 246

    ہو گئے۔ جب سلطنت کو اس کے متعلق اطلاع ہوئی تو انہوں نے ہر طریقہ سے اس کی روک تھام کی اس کے بانیوں کو شدید سزائیں دیں اور انہیں میں قرۃالعین بھی تھی جس کو جلا کر مار ڈالا گیا۔
    یہ ایک زبردست شاعرہ تھی۔ اس کا دیوان مکمل مطبوع ہوا لیکن اب نایاب ہے۔ چند شعر جو مجھے مل سکے درج کرتا ہوں۔ عربی اور فارسی دونوں زبانوں میں شعر کہتی تھی۔ اور خوب کہتی تھی۔ اس کے دیوان کا شروع یہ ہے۔

    لمعات وجہک اشرقت بشعاع طلعتک اعتلا
    زچہ روالست بربکم نزنی بزن کہ بلیٰ بلیٰ
    بجواب طبل الست تو زدلے کہ کوس بلی زدند
    ہمہ خیمہ زد بدر دلم سپہ غم و حشم بلا
    چہ شود کہ حیرت آتشے بزنم بہ قبلۂ طور دل
    فککتہ و دککتہ متدکد کامتزلزلا
    من و مہر آں مہ خوبرو کہ زدہ صلائے بلا برد
    بہ نشاط قہقہہ سد مرو کہ اناالشہید بکربلا
    چو شنید نالۂ مرگ من پے ساز من شد و برگ من
    فمشے الی مہر ولادبکی علی مجلجلا
    تو کہ فلس ماہی حیرتی حوزنی بہ بحر وجود دم
    بہ نشیں چہ طوطی دم بہ دم بشنو خردش لہنگ لا
    ۔۔۔۔۔۔۔۔
    جذبات شوقک الجمت لسلاسل غمۃ و البلا
    ہمہ عاشقان شکستہ دل کہ دہند جاں برہ بلا
    -------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 247تذکرۃ الخواتین صفحہ 247

    اگر آن صنم زرہ ستم بے کشتن من بیگنہ
    لقد استقام بسیفہ فلقدر رضیت بما رضا
    سحر نے نگار ستمگرم قدمے نہادہ بہ بسترم
    و ازا رائت جمالہ طلع الصباح کانما
    تو کہ غافل از می و شاہدی پے مرد زاہد و عابدی
    چہ کنم کہ کافر و جاہدی زخلوص نیت اصفیا
    تو بہ ملک و جاہ سکندری من و رسم و راہ قلندری
    اگر آں خوش است تو در خوری و گر ایں ست بد مرا سزا
    بگذر ز منزل ما و من گزیں بملک فنا وطن
    فاذا فعلت بمثل ما فلقد بلفت بما تشا
    زہ زلف غالیہ بار او زچہ چشم فتنہ شعار او
    شدہ نافۂ بہمہ ختن شدہ کافی بہمہ خطا
    پئی خوان نعمت عشق او ہمہ شب زخیل کر وبیاں
    رسد ایں صفیر مہیمنی کہ گروہ غم زدہ الصلا
    ہلہ اے گروہ امامیاں بہ کشید ولولہ را میاں
    کہ ظہور دل بر ماعیاں شدہ فاش و ظاہر و برملا
    گر تاں بود طمع لقا و رتان بود ہوس بقا
    زوجود مطلق مطلقا برآن ضم کشوید لا
    لمعات قدس بشارتے کہ ظہور حق شدہ برملا
    بز اے صبا تو بہ محضرش کہ بکردہ زندہ دلاں صلا
    ہلد اے طوائف منتظر زعنایت شہ مقتدر
    مہ مفتخر شدہ مشتہر مبتہییاً متجللا
    شدہ طلعت صمدی عیاں کہ بپاک کند علم بیاں
    کہ زوہم ہائے جہانیاں جبرو اقدس اعتلا
    بتموج آمدہ ایں یے کہ بکربلاش بخرمی
    متظہر است بہر دمے دو ہزار وادیٔ کربلا
    صمددم زعالم سرمدم احمد زمنبع لاحدم
    بے اہل فہدۂ آمدم وہم الی لمقبلا
    منم آں ظہور مہیمنی منم آں منیست بیمنی
    منم آں سفینہ ایمنی ولقد ظہرت و قد علا
    ہلہ اے گروہ عمائیاں بزنید ہلہلہ و لا
    کہ جمال دبائیاں شدہ فاش ذ طاہر و برملا
    بزنید نغمہ زہر طرف کہ زوجہ طلعت ما عرف
    دفع القناع و قد کشف ظلم اللیاں قد انجلا
    طیر العماء تکفکفت دیک الثناء تصفصفت
    ورق البہاء تدفدفت رکز و الیہ مہر ولا
    دو ہزار احمد مصطفے زبروق آں شہ شہ باصفا
    شدہ مختفی شدہ در خفا متزملا متدثرا
    کسے ارنکرد اطاعتش نگرفت حبل ولایتیش
    کندش بعید زساحتش دہدش ز قہر با دلا
    ۔۔۔۔۔۔۔
    یہ ہیں اس آزاد بےباک شاعرہ کے خیالات جو اس قصیدہ میں ظاہر ہیں۔ بوجہ طول اس کے قصیدہ کے ترجمہ سے گریز کرتا ہوں۔ اور نہ کچھ اچھا سمجھتا ہوں کہ ترجمہ کیا جائے۔

    ردیف کاف

    کاملہ بیگم ۔
    دلی کی رہنے والی عہد اکبر شاہ کی ایک شاعرہ تھی۔ شاید شیخ فیضی وغیرہ سے کوئی تعلق رکھتی تھی۔ چنانچہ شیخ فیضی کے مرنے پر ایک رباعی دردناک لکھی ہے۔

    فیضی مخور ایں غم کہ دلت تنگی کرد
    یا پاے امید عمر تو لنگی کرد
    -------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 249تذکرۃ الخواتین صفحہ 249

    میخواست کہ مرغ روح بیند رخِ دوست
    زیں واسطہ از قفس شب آہنگی کرد

    ترجمہ ۔ فیضی غم نہ کھا اگر تو دل تنگ ہے یا تیری امید کے پاؤں میں دم نہیں ہے۔ مرغ روح یہ چاہتا تھا کہ رخ دوست دیکھے۔ اس واسطے قفس سے راتوں رات اڑ گیا۔

    میرا ذاتی خیال ہے کہ شاید یہ مصنف اختر تاباں کی غلطی ہے۔ عجب نہیں اگر یہ رباعی فیضی ہی کی ہو۔

    کنیز فاطمہ ۔
    شاہ سلیمان کابلی کی والدہ تھی۔ ایک یہ شعر اس کا ہے۔

    سزد کہ فخر برد آسماں بہ دوارنم
    کنیز فاطمہ و مادر سلیمانم

    ترجمہ ۔ آسمان اگر میرے زمانہ میں فخر کرے تو بجا ہے۔ میں فاطمہ کی کنیز اور سلیمان کی ماں ہوں۔

    کوکب ۔ ستارہ بانو نام۔ شیخ مصلحالدین سعدی شیرازی علیہ الرحمۃ کی دختر نیک اختر کا تخلص ہے۔ نہایت تیز طبع ذہین اور عمدہ شاعرہ تھیں۔ سنا ہے کہ ایک مرتبہ کوئی شخص شیخ سے ملنے گیا۔ شیخ تشریف فرما نہ تھے۔ اس شخص نے آواز دی جواب ملا کہ وہ نہیں ہیں۔ چونکہ مکان بالکل معمولی حیثیت کا تھا۔ اس شخص نے یہ لکھ کر بھیج دیا۔
    -------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 250تذکرۃ الخواتین صفحہ 250

    سعدیا شیراز یا نامت بس است
    چوں بدیدم خانہ از خار و خس است

    ستارہ بانوں نے جواب میں یہ شعر کہہ کر بھیج دیا۔

    ہمرہاں رفتند و ماہم میرویم
    از برائے چند روزہ ایں بس است

    یہ شعر ستارہ بانو سے منسوب کیا جاتا ہے۔

    عشق بازاں رو بسوئے قبلۂ آں کو کنید
    ہر کجا محراب ابرویش نماید رو کنید

    ترجمہ ۔ اے عشق بازو اس گلی کے قبلہ کی طرف منہ کرو جہاں اس کے محراب ابرو کو دیکھو اسی طرف رخ کرو۔

    ردیف کاف فارسی

    گلبدن بیگم ۔
    بادشاہ ظہیرالدین بابر کی صاحبزادی تھیں۔ علوم رسمیہ سے نہایت اچھی طرح آگاہ تھیں۔ کبھی کبھی تفنن طبع کے لئے شعر بھی کہتی تھی۔ معلوم نہیں کیا کیا کہا ہو گا۔ میرے تذکرہ کے حصہ میں ایک شعر آیا ہے۔

    ہر پری روئے کہ او با عاشق خود یار نیست
    تو یقیں میداں کہ ہیچ از عمر برخوردار نیست

    ترجمہ ۔ جو پری رو کہ اپنے عاشق کا یار نہیں ہے۔ یقیں جانئیے کہ وہ اپنی عمر سے برخوردار نہیں ہو گا۔
    -------------------------------------------------------------------
     
  24. ملک بلال
    آف لائن

    ملک بلال منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2010
    پیغامات:
    22,418
    موصول پسندیدگیاں:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:
    ریختہ صفحہ 251تذکرۃ الخواتین صفحہ 251

    گلچہرہ بیگم ۔
    شاہنشاہ بابر کی دوسری لڑکی کا نام ہے۔ باپ اور بڑی بہن کی طرح اس کا بھی کلام ضائع ہو گیا۔

    ہیچ کہ آن شوخ گل رخسار بے اغیار نیست
    راست بودست آنکہ در عالم گلے بے خار نیست

    ترجمہ ۔ کسی وقت وہ شوخ اغیار کے بغیر نہیں رہتا۔ سچ کہا ہے کہ دنیا میں پھول کانٹے کے بغیر نہیں ملتا۔

    گُنّا بیگم ۔
    علی قلی خاں والۂ داغستانی کی صبیہ اور نواب اعتماد الدولہ دہلوی کی بیوی تھی۔ موزوں طبع خوش فکر شاعرہ تھی۔ اور اس قدر نازک تھی کہ نو برس کی لڑکی معلوم ہوتی تھی۔ نو سو روپیہ کی برابر وزن تھا۔ یہ دو شعر اسی کے ہیں۔

    تاکشیدی از نزاکت سرمۂ دنبالہ دار
    شد عصائے آبنوسی چشم بیمار ترا
    جگر پر سوز و دل پر خوں گریباں چاک و جاں بر لب
    قضا را شرم می آید زسامانیکہ من دارم

    ترجمہ : جب سے تو نے نزاکت کے ساتھ سرمۂ دنبالہ دار لگایا ہے۔ تو وہ تیری آنکھ کے واسطے عصائے آبنوسی بن گئی ہے۔ (2) ۔ جگر میں سوز، دل میں خوں، گربیاں پھٹا ہوا، جان ہوٹنوں پر۔ قضا کو اس سامان سے شرم آتی ہے جو میرے پاس ہے۔
    -------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 252تذکرۃ الخواتین صفحہ 252

    گلشن ۔
    ایک شاعرہ دہلی کی رہنے والی تھی جو زمانہ صاحبقران شاہجہاں بادشاہ دہلی کے عہد میں زندہ تھی اب کلام نہیں ملتا۔ صرف چار پانچ شعر مل سکے۔

    بخیال قدر رعنائے تو اے غیرت گل
    سرو آہ است کہ از سینۂ گلشن برخاست
    بے رخت خار نماید بہ چمن گل مارا
    نالۂ زاغ بود نغمۂ بلبل مارا
    در جہاں ہمچو چناریم کہ بادست تہی
    ہر گز از جا نہ رود پائے توکل مارا
    دُر شود قطرہ چو افتادہ زابر نیساں
    رہنما سوئے ترقی است تنزل مارا

    ترجمہ (1) ۔ اے غیرت گل تیرے قد رعنا کے خیال میں۔ سرو ایک آہ ہے کہ باغ کے سینہ سے نکلی ہے۔
    (2) ۔ باغ تیرے جلوہ سے پری خانہ ہو گیا ہے۔ پھول کی بو تیری ہوا میں دیوانہ ہو گئی ہے۔
    (3) ۔ تیرے رخسار کے بغیر باغ میں گل ہم کو کانٹا معلوم ہوتا ہے۔ نغمۂ بلبل نالۂ زاغ معلوم ہوتا ہے۔
    (4) ۔ ہم دنیا میں چنار کی مانند ہیں کہ خالی ہاتھ ہیں مگر پائے توکل نہیں ڈگمگاتا۔
    (5) ۔ قطرہ جب ابر نیساں سے گرتا ہے تو موتی ہو جاتا ہے۔ تنزل ہم کو ترقی کا رستہ بتاتا ہے۔
    -------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 253تذکرۃ الخواتین صفحہ 253

    لالہ خاتون ۔
    مردانہ صفت عورت تھی جو ایک وقت میں خراسان کی حاکم تھی۔ اور نہایت عدل و داد کے ساتھ انتظام حکومت کرتی تھی۔ خود علوم میں کامل تھی اسی وجہ سے اہل کمال کی قدر دان رہتی تھی۔ اور سلوک کرتی رہتی تھی۔ اب اس کا ایک شعر مل سکا ہے۔

    دوست جائے دیگر و من ماندہ ام در کوئے دوست
    از در و دیوار کوئے دوست آید بوئے دوست

    دوست دوسری جگہ ہے اور میں دوست کی گلی میں رہ گیا ہوں۔ دوست کی گلی کے در و دیوار سے بوئے دوست آتی ہے۔

    ردیف میم

    ماہ ۔
    ایک منجملہ کا تخلص ہے۔ یہ شاعرہ جام کی رہنے والی اور ملا جامی کی معاصر تھی۔ یوں تو اس کی شعر و شاعری مشہور تھی مگر آج صرف ایک یہ شعر ملتا ہے۔ جو اس نے اپنے شوہر کے مرثیہ میں کہا تھا۔

    کوکب بختم کہ بود از وے منور آسماں
    بنگر اے مہ کز فراقت در زمیں ست ایں زماں

    ترجمہ ۔ میری قسمت کا ستارہ کہ اس سے آسمان روشن تھا۔ اے میرے
    -------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 254تذکرۃ الخواتین صفحہ 254

    چاند دیکھ کہ تیری جدائی میں اس وقت وہ زمین میں نظر آتا ہے۔

    ماہ لقا ۔
    اس شاعرہ کا اصلی نام چندا پری تھا۔ حیدر آباد کی رہنے والی تھی۔ گانے بجانے والی عورت تھی۔ نواب نظام علی خاں خلف نواب نظام الملک آصف جاہ کی نوکر تھی۔ بہت مال دار تھی۔ جب انتقال ہوا تو اتنا مال اسباب چھوڑا کہ ایک معقول رقم اس کی نوچیوں پر تقسیم ہوئی۔ اہل قلم اور اہل سیف دونوں فرقوں کی قدر دان تھی اور ان کے ساتھ ہمیشہ حسن سلوک سے پیش آتی تھی۔ مردانہ بھیس بدل کر گھوڑے پر سوار ہوتی تھی اور سیر کرتی تھی۔
    ماہ لقا نے اپنا روپیہ بہت سے نیک کاموں میں صرف کیا۔ چنانچہ اپنی زندگی میں ایک مسجد بنوائی تھی۔ ایک اس کی تاریخ کے لئے فرمائش کی۔ شوخ طبع شاعر نے یہ بے مثل اور لاجواب تاریخ کہی۔

    چو محرابش سجود خاص و عام است
    فلک گفتار کہ ایں بیت الحرام است

    شیر محمد خاں ایمانؔ سے اصلاح لیتی تھی۔ نہایت پُر گو تھی۔ پورا دیوان جمع کر لیا تھا۔ مگر وہ دیوان 1799 ء میں خود ہی جنرل مالکم کو بطریق تحفہ دے دیا تھا۔ جو سنا ہے کہ اب بھی یورپ کے کتب خانہ میں موجود ہے۔ اس کا مقبرہ حیدر آباد میں مشہور و معروف ہے۔ نمونۂ کلام یہ ہے ۔
    -------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 255تذکرۃ الخواتین صفحہ 255

    بروز حشر الہی چو نامہ عملم
    کنند باز کہ آں روز کہ آں روز باز خواہ من است
    بکن مقابلہ آں را بہ سر نوشت ازل
    کمی و بیشی اگر باشد آں گناہ من است

    ترجمہ ۔ یا اللہ باز خواہی یعنی قیامت کے دن جب میرا نامۂ اعمال کھولیں تو اس کو میرے سرنوشت ازل سے مقابلہ کر لینا اگر اس سرنوشت میں کوئی کمی بیشی کی ہو تو میں گناہ گار

    گرانی میکند بار تبسم لعل جاناں را
    کہ آں لب از نزاکت بر ندارد سرخی پاں را

    ترجمہ ۔ تبسم کا بوجھ میرے معشوق کے لب پر گرانی کرتا ہے۔ کیونکہ وہ لب نزاکت کی وجہ سے سرخیٔ پان کا بھی متحمل نہیں ہے۔

    ماہی ۔
    مُلا نثاری کی بہن تھی۔ جلائر کی رہنے والی تھی۔ نظم و نثر میں ماہر تھی۔ نمونۂ کلام ۔

    اشکے کہ 1 سر زگوشۂ چشمم بروں کند
    بر روئے من نشیند و دعوائے خوں کند

    ترجمہ ۔ جو آنسو میری آنکھ سے نکلتا ہے منہ پر پیٹھ کر خون کا دعویٰ کرتا ہے۔

    محوی ۔
    ایک عورت قم کی رہنے والی تھی۔ جو کبھی کبھی شعر کہتی تھی۔ عربی میں بھی اس کا کلام ہے۔

    آبرو در زند من بہتر از آب زندگی
    چشمۂ حیواں زچشم آفتاب افتادہ است
    ۔۔۔۔۔
    1 ۔ یہ شعر ایک دوسری شاعرہ کے کلام میں بھی آیا تھا۔
    -------------------------------------------------------------------
     
  25. ملک بلال
    آف لائن

    ملک بلال منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2010
    پیغامات:
    22,418
    موصول پسندیدگیاں:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:
    ریختہ صفحہ 256تذکرۃ الخواتین صفحہ 256

    ترجمہ ۔ آبرو میرے نزدیک آب زندگی سے بہتر ہے۔ چشمۂ حیوان آفتاب کی نظروں سے گر گیا ہے۔

    می نماید عکس مہ در آب با صد پیچ و تاب
    زاں گل عارض مگر بند نقاب افتادہ است

    ترجمہ ۔ چاند کا عکس پانی میں پیچ و تاب کھاتا دکھائی دیتا ہے۔ اس گل عارض سے شاید بند نقاب کھل گیا ہے۔

    نیست ایں خال سیہ بر بیت ابروئے خوشت
    نقطۂ از کلک قضا در انتخاب افتادہ است

    ترجمہ ۔ تیری خوبصورت ابرو پر یہ سیاہ خال نہیں ہے۔ بلکہ قلم قضا سے یہ نقطہ انتخاب کے وقت گر گیا ہے۔

    مخدومہ ۔
    یزد کی رہنے والی ایک شاعرہ تھی۔ کبھی کبھی شعر کہتی تھی۔ یہ اس کا کلام ہے۔

    شب عربدہ با محنت ہجراں کردم
    با او دل و جاں دست گریباں کردم
    چوں دیدم از وروئے خلاصی مشکل
    جاں دادم و کار بر خود آساں کردم

    ترجمہ ۔ رات میں نے جدائی کی محنت سے مقابلہ کیا۔ اور دل وجان سے اس کے ساتھ دست و گریبان رہی (2) جب میں نے اس کے پنچہ جے چھوٹنے کی صورت نہ دیکھی ۔ مجبوراً جان دے کر اپنا پیچھا چھڑایا۔
    -------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 257تذکرۃ الخواتین صفحہ 257

    مستورہ ۔
    کردستان کی رہنے والی ابوالحسن بیگ کی صبیہ اور خسرو خاں کی منکوحہ تھی۔ نہایت نازک مزاج خوبرو خوش خو اور سلیقہ شعار عورت تھی۔ ماہ شرف اس کا نام تھا۔ شعر و شاعری سے فطری دلچسپی رکھتی تھی۔ اور نہایت عمدہ شعر کہتی تھی۔ نمونہ کلام یہ ہے۔

    می سوزم و می نالم پیوستہ بہجرانت
    رحمے بدل و جانم دست من و دامانت
    دل خستہ و محزونم از نرگس بیمارت
    سرگشتہ و مجنونم از زلف پریشانت
    دہن و لعل لو دیدہ و گیسوئے تو ام
    از نبات و شکر و نرگس سنبل خوشتر
    گوش بر موعظۂ بیہدۂ شیخ مدار
    زیں ہمہ قول و فسوں ساغری از مل خوشتر
    نہ تنہا من بدام زلف مشکنیش گرفتارم
    ہزاراں عاشق سرگشتہ وار وجعد طرارش
    فشاند جان شیریں در رہش از شوق مستورہؔ
    دہد از مہر گر خسرو بہ بزم خویشتن بارش
    گرم خسرو چو شیرین از وفا پا بست تمودے
    بعالم خویش را رسوا ترا زفرہاد میکردم
    ہر کس بہ دلا رامے وار و سر و سودائی
    تو شوخ پری پیکر آرام دل مائی
    عالم ہمہ گردیدم آفاق نور دیدم
    در کشور نیکوی بنود چو تو زیبائی

    ترجمہ (1) ۔ میں ہمیشہ تیری جدائی میں جلتا ہوں اور روتا ہوں۔ خدا کے لئے میرے دل و جان پر رحم کر ۔
    (2) ۔ میں رنجیدہ اور دلخستہ ہو رہا ہوں تیری
    -------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 258تذکرۃ الخواتین صفحہ 258

    جدائی میں تیری زلف پریشاں سے سرگشتہ اور مجنوں بنا ہوا ہوں۔
    (3) ۔ تیرا منہ، ہونٹ، آنکھیں، زلف مجھے مصری، شکر، نرگس اور سنبل سے اچھی معلوم ہوتی ہیں۔
    (4) ۔ واعظ کے بیہودہ اقوال کی طرف توجہ مت کر۔ ان تمام قولوں اور منتروں سے ایک شراب کا بھرا ہوا پیالہ اچھا ہوتا ہے۔
    (5) ۔ ایک اکیلا میں ہی اس کی زلف مشکیں کے جال میں پھنسا ہوا نہیں ہوں۔ ہزاروں عاشق سرگشتہ ایسے ایسے اس کی زلفوں میں گرفتار ہیں۔
    (6) ۔ مستورہؔ شوق سے اپنی جان شیریں قربان کر دے۔ اگر محبت سے خسرو اپنی بزم میں بلائے۔
    (7) ۔ اگر بادشاہ مجھ کو شیریں کی طرح محبت کا پابند نہ کر دیتا تو میں اپنے آپ کو دنیا میں فرہاد سے زیادہ بدنام کرتی۔
    (8) ۔ ہر کوئی کسی معشوق سے دلچسپی اور عشق رکھتا ہے۔ اے شوخ پری پیکر تو ہمارے دل کا آرام ہے۔
    (9) ۔ میں تمام زمانہ میں پھرا مگر حسن کی ولایت میں تجھ سا کوئی نہ پایا۔

    مشتری ۔
    زہرہ طوائف لکھنؤ کی بہن تھی۔ یہ بھی آغا علی شمس سے اصلاح لیتی تھی۔ اب دو شعر اس کے تذکروں میں پائے جاتے ہیں۔ ورنہ یہ اردو فارسی دونوں زبانوں کی شاعرۂ کاملہ تھی۔

    بسکہ در اطراف عالم رفت نام مشتریؔ
    راجگان گشتند جوگی ہمچو راجہ بھرتری
    -------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 259تذکرۃ الخواتین صفحہ 259

    با گلبدنے لالہ غدارست دل ما
    آئینہ در دست بہارست دل ما

    ترجمہ ۔ (1) ۔ چونکہ اطراف عالم میں مشتریؔ کا نام ہو گیا ہے۔ تو اس کے لئے راجہ جوگی ہو گئے ہیں جیسے راجہ بھرتری جوگی ہو گیا تھا۔
    (2) ۔ ہمارا دل ایک گلبدن لالہ غدار کے پاس ہے۔ بلکہ یوں سمجھو کہ آیک آئینہ ہے جو بہار کے ہاتھ میں ہے۔

    مطربہ ۔
    اسل میں کاشغر کی رہنے والی تھی۔ نہایت کامل الفن تھی۔ طغان شاہ کے زمانہ میں زندہ بلکہ اسی بادشاہ ذی جاہ کے حرم میں تھی۔ جب طغان شاہ کا انتقال ہوا تو مطربہ کو بڑا صدمہ ہوا اور اسی غم میں ایک مرثیہ لکھا۔ اسی مرثیہ کے یہ شعر ہیں۔ بطریق رباعی۔

    در ماتمت اے شاہ سیہ شد روزم
    بے روئے تو دیدگان خود بردوزم
    تیغ تو کجاست اے دریغا تا من
    خوں ریختن از دیدہ با و آموزم

    ترجمہ ۔ تیرے ماتم میں اے بادشاہ میں سیہ روز ہو گئی۔ تیرے دیدار کے بغیر میں اپنی آنکھوں کو سی لوں۔
    (2) ۔ تیری تلوار کہاں ہے تاکہ میں اس کو خون رونا سکھاؤں۔

    مہری ۔
    ہرات کی رہنے والی تھی۔ شاہ رخ مرزا گورگاں کے زمانہ میں
    -------------------------------------------------------------------

    ریختہ صفحہ 260تذکرۃ الخواتین صفحہ 260

    بقید حیات تھی۔ گوہر شاہ بیگم کی مصاحب تھی۔ حکیم عبدالعزیز کی بیوی تھی۔ جو میرزائے مذکور کے ایک خاص طبیب تھے۔ مہری اور حکیم موصوف میں اکثر چوٹیں چلا کرتی تھیں۔ تذکرۂ آتشکدۂ اذر اور تذکرۂ مرأۃ الخیال میں یہ قصہ لکھا ہے کہ ایک روز مہری قصر جہاں نما پر نور بیگم کے پاس بیٹھی تھی۔ اتفاقاً مہری کے شوہر خواجہ حکیم آتے دکھائی دئے۔ بیگم کو کچھ ترنگ سوجھی۔ انہوں نے مہری سے کہا کہ حکیم صاحب کو ذرا جلد بلاؤ۔ چنانچہ خواجہ حکیم سے کہا گیا۔ انہوں نے جلدی چلنا چاہا۔ مگر بڑھاپے کے ضعف نے جلد جلد قدم نہ اٹھانے دیا۔ اور کچھ عجیب و غریب حرکات دکھائی تیں۔ بیگم کو ہنسی آئی اور مہری سے کہا کہ خواجہ کی انہیں حرکتوں کو نظم کر کے ہم کو سناؤ۔ مہری نے یہ فی البدیہہ دو شعر کہے۔

    مرا با تو سر یاری نہ ماندہ
    دل مہر و وفاداری نماندہ
    ترا از ضعف پیری قوت زورد
    چنانکہ پائے بر داری نماندہ

    ترجمہ (1) ۔ مجھے اب تیرے ساتھ دوستی کا خیال نہیں رہا۔ محبت اور وفاداری کو جی نہیں چاہتا۔
    (2) ۔ تجھ میں ضعف پیری کی وجہ سے اتنا قوت اور زور بھی باقی نہیں کہ ٹانگ اٹھا سکے۔ یہ سن کر بیگم نہایت خوش ہوئی۔ اور
    -------------------------------------------------------------------
     
    ساتواں انسان نے اسے پسند کیا ہے۔
  26. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    ریختہ صفحہ 181 تذکرۃ الخواتین صفحہ 181
    تذکرہ خواتین
    حصہ دوئم
    یعنی ان عورتوں کا کلام جو فارسی میں شعر کہتی تھیں
    مصنفہ
    مصور درد مولانا عبدالباری آسی بدنی
    باہتمام کیسری داس سیٹھ سپرنٹنڈنٹ
    مطبع منشی نولکشور لکھنو میں چھپا
     
    Last edited: ‏13 ستمبر 2020
    ملک بلال نے اسے پسند کیا ہے۔
  27. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    ریختہ صفحہ 182 تذکرۃ الخواتین صفحہ 182
    ردیف الف
    آرام __ کسی بادشاہ ہندوستان کی محلات میں سے تھیں ۔ مگر گردش زمانہ کو دیکھئے اتنا مٹا دیا کہ آج یہ بھی پتہ نہیں چلتا وہ کون سا ذیجاہ تھا جس کے شبستان اقبال میں دل آرام جو اس نازک خیال کا نام ہے ۔ جلوہ افروز تھی ۔ بعض کا قیاس ہے کہ رنگیلے مزاج بادشاہ نور الدین جہانگیر کی حرم محترم تھیں ۔ مگر یہ بات پایہ تحقیق کو نہیں پہونچتی ۔ خدا بہتر جاننے والا ہے ۔ آج ہمارے سامنے صرف یہ چند اشعار موجود ہیں جو نقل کئے جاتے ہیں
    محو ازدل خود ساز ہمہ نقش عدم را
    منزل گہہ اغیار مکن فرش حرم را
    سرمایہ عقبی بکف آور کہ مبادا
    تقدیر کشد برسر تو تیغ دودم را
    بآہ و نالہ کردم صید خود وحشی نگاہاں را
    بزور جذب کردم رام باخود کجکلاہاں را
    بہ پوشیدم سحر گہ چوں لباس بریائی را
    گرو کردم بجام مے لباس پارسائی را
    شدم ہمدم بہ میخواران بہ خلوتخانہ حیرت
    شکستم ساغر و پیمانہ زہد ریائی را
     
    ملک بلال نے اسے پسند کیا ہے۔
  28. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    ریختہ صفحہ 179 تذکرۃ الخواتین صفحہ 179
    حال تیرے زار کا نوع دگر ہونے لگا
    جاں بلب عاشق ترا اے سیمبر ہونے لگا
    نہ جلوہ بخش ترا نور گر اے مصطفے ہوتا
    تو دنیا میں نہ کوئی واقف امام خدا ہوتا
    تصدق جاؤں میں اپنے رسول پاک کے ہر دم
    مری مشکل میں ہے اے یاس وہ مشکل کشا ہوتا
    اک نہ اک فرقت میں جاناں کی مرض ہم کو رہا
    درد دل گر مٹ گیا درد جگر ہونے لگا
    یاسمن __ یہ تخلص چنبیلی نام کنیزک سید انشاء اللہ خان کا تھا ۔ عجیب بات یہ ہے کہ صحبت مرد سے اس کو قطعی تنفر تھا ۔ سید انشاء نے اس بات کو تصنع خیال کیا ۔ اور بہ اتباع شریعت اس کی شادی ایک نہایت معقول آدمی کے ساتھ کردی ۔ تیسے روز بغیر کسی عارضہ اور مرض کے جاں بحق تسلیم ہوئی ۔ جس کا انشاء اللہ خان کو بڑا افسوس ہوا انھیں سے مشورہ سخن کرتی تھی ۔
    یاد آیا مجھے گھر دیکھ کے دشت
    دشت کو دیکھ کر گھر یاد آیا
    سرمہ کھلوایا خموشی نے مجھے
    جب وہ منظور نظر یاد آیا
    صبر جاتا رہا قرار کے ساتھ
    پر مری واے جان تو نہ گیا
    دختر رز سے رات صحبت تھی
    شیخ گی کا مگر وضو نہ گیا
    یاسمیں __ یہ تخلص تومن نامی ایک طوائف سہارن پور کی رہنے والی کا ہے ۔ یہ شعر اس کے نام سے مشہور ہیں ۔
     
    ملک بلال نے اسے پسند کیا ہے۔
  29. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    ریختہ صفحہ 180 تذکرۃ الخواتین صفحہ 180
    دل میں میرے زخم ہے تیغ نگہ کا چارہ گر
    فائدہ دے گا نہ پھاہا مرہم زنگار کا
    تیر نے تیرے اگر چاٹا نہیں ہے میرا خوں
    سرخ ہے پھر کس لئے ظالم دہن سوفار کا
    تپ کی شدت میں کسی زہرہ جبیں کا تھا خیال
    جو پڑا بتخالہ لب پر مثل اختر ہوگیا
    دل کی بیتابی نے رسوا کردیا اے یاسمیں
    تذکرہ اپنے جنوں کا اب تو گھر گھر ہوگیا
    تمام شد ۔ بعونہ تعالی
    عبد الباری آسی
    9 جنوری 1927ء
     
    ملک بلال نے اسے پسند کیا ہے۔
  30. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    ریختہ صفحہ 288 تذکرۃ الخواتین صفحہ 288 { آخری صفحہ }
    ہیں تو زباں مجھ کو بخش دے کہ مرغان چمن کو ایک پیغام بھیج دوں { 5 } جنگل میں مجنوں کی میرے انتظار میں تڑپ رہی تھی ۔ میرا جنون اچھا کہ دلچسپی وطن وطن سے رکھتا ہوں { 6 } راہ جاں کا غبار میری آنکھوں کے لئے تو سرمہ لائی ہے ۔ اے صبا سو احسان تیری پاؤں کے میری جان پر ہیں { 7 } میں وزیر ہوں اگرچہ گوشہ گمنامی میں رہی ہوں ۔ مگر طبع چالاک کا گھوڑا میدان سخن میں کوداتی ہوں ۔
    تمام شد
     
    ملک بلال نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں