1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

اسلام میں جھوٹی باتیں پھیلانے کی ممانعت ۔۔۔۔ مولانا حافظ فضل الرحیم اشرفی

'متفرقات' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏8 اگست 2020۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    اسلام میں جھوٹی باتیں پھیلانے کی ممانعت ۔۔۔۔ مولانا حافظ فضل الرحیم اشرفی

    خاندانوں میں اکثر لڑائی جھگڑوں کی ابتدا جھوٹی باتوں سے ہوتی ہے
    {عن ابی ہریرۃ رضی اللّٰہ عنہ قال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کَفٰی بِالْمَرْئِ کَذِبًا اَنْ یُّحَدِّثَ بِکُلِّ مَاسَمِعَ} (رواہ مسلم)
    ’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا، آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات (بلا تحقیق) بیان کر دے۔‘‘
    آج کل معاشرہ میں بے چینی اور بے سکونی کا بہت بڑا سبب افواہیں ہیں۔ عربی زبان میں ’’افواہ‘‘ فوہ کی جمع ہے یعنی ’’کئی منہ‘‘ چنانچہ افواہ میں بھی یہی ہوتا ہے کہ جتنے منہ اتنی باتیں اس لیے اردو میں بے بنیاد بات کو افواہ کہتے ہیں اور عربی زبان میں افواہ کو ’’شائِعۃٌ‘‘ کہتے ہیں۔

    اسلام نے ایک مومن کی شان یہ بیان کی کہ ’’مسلمان نہ دھوکہ دیتا ہے اور نہ دھوکہ کھاتا ہے‘‘ لہٰذا ایمان والے کی شان یہ ہے کہ وہ غلط بات کہہ کر دوسرے کو دھوکہ نہیں دیتا، یہ اس کی شرافت کی علامت ہے اور کسی سے دھوکہ نہیں کھاتا، یہ اس کے سمجھدار اور ہوشیار ہونے کی نشانی ہے۔ رسول اللہﷺ کے زمانہ میں کفار کا ایک شاعر ابو عزہ مسلمانوں کے خلاف اشعار کہہ کر کفار کو جنگ میں بھڑکاتا تھا۔ جنگ بدر میں یہ شاعر گرفتار ہوا لیکن آپﷺ کے سامنے وعدہ کیا کہ اگر اس مرتبہ چھوڑ دیا جائے تو وہ آئندہ مسلمانوں کے خلاف اشعار نہیں کہے گا۔ آپﷺ نے اسے چھوڑ دیا لیکن اس نے رہائی کے بعد دوبارہ مسلمانوں کے خلاف کفار کو اکسانا شروع کر دیا۔ غزوۂ احد میں دوبارہ گرفتار ہوا پھر معافی مانگنے لگا لیکن آپﷺ نے معافی قبول نہ کی اور ساتھ یہ فرمایا ’’کہ مومن کو ایک سوراخ سے دو دفعہ نہیں ڈسا جا سکتا۔‘‘ اور یہ بات ایمان والے کی ہوشیاری اور سمجھداری کی دلیل ہے۔

    رسول اکرمﷺ نے فرمایا: ’’لیس الخبر کالمعاینۃ‘‘، سنی ہوئی بات دیکھی ہوئی بات کی طرح نہیں ہوتی۔ اللہ تعالیٰ نے بھی سورۂ حجرات کی آیت ۶ میں ارشاد فرمایا:

    ’’ اے ایمان والو، اگر تمہارے پاس کوئی گنہگار اطلاع لے کر آئے تو تحقیق کر لو، کہیں تم کسی قوم پر نادانی میں نہ جا پڑو پھر تم بعد میں اپنے کیے پر پشیمان ہونے لگو‘‘۔ مولانا شبیر احمد عثمانیؒ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ اکثر لڑائی جھگڑوں کی ابتدا جھوٹی باتوں سے ہوتی ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اختلاف کے اسی سرچشمہ کو بند کرنے کی تعلیم دی اور یہ ہدایت کی کہ بلا تحقیق کسی بات کو قبول نہیں کرنا چاہیے۔

    لہٰذا جب تک کسی بُری اطلاع کی تصدیق نہ ہو جائے یا اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ لے دوسرے کو وہ نہیں بتانی چاہیے۔ یہ بات درست ہے کہ سورۂ بقرہ کے آغاز میں اللہ تعالیٰ نے متقین کی یہ صفت بیان فرمائی ہے ’’کہ وہ اَن دیکھی بات یعنی غیب پر ایمان رکھتے ہیں۔‘‘ ظاہر ہے کہ مسلمان کو ہر اَن دیکھی بات پر یقین کرنے کا حکم نہیں، اگر وہ خبر اللہ اور اس کے رسولﷺ نے دی ہے تو بے چون و چرا اس پر ایمان لانے کا حکم ہے لیکن اس کے علاوہ خبر کے جو عام ذرائع ہیں ان میں جھوٹ کا احتمال موجود ہے اس لیے رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’کسی شخص کے جھوٹا ہونے کے لیے اتنی بات کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات بیان کرتا پھرے۔‘‘ لہٰذا افواہیں پھیلانے میں ایک تو جھوٹ بولنے کا گناہ ہوا اور پھر اگر خود جھوٹ بول رہا ہے دوسرا اسے سچا سمجھ رہا ہے تو یہ ایک اور بددیانتی ہے۔

    ابوداؤد میں حضرت سفیان رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’یہ بہت بڑی خیانت ہے کہ تو اپنے بھائی سے کوئی بات کہے اور وہ تجھے سچا سمجھ رہا ہو حالانکہ تو اس سے جھوٹ بول رہا ہے۔‘‘

    اب سوال یہ ہے کہ آخر افواہیں پھیلانے والوں کو ملتا کیا ہے؟ جب ماہرین نفسیات نے اس بارے میں انسانی ذہنوں اور طبیعتوں کا مطالعہ کیا تو معلوم ہوا کہ انسانی طبیعت میں یہ بات شامل ہے کہ وہ دوسرے کے دکھ کو بیان کر کے لذت و سرور محسوس کرتا ہے لیکن یہ تب ہی ہوتا ہے کہ جب ان دونوں کے درمیان محبت کے بجائے دشمنی‘ بغض اور نفرت موجود ہو۔ اگر دونوں کے درمیان محبت موجود ہو تو کبھی اس کے دکھ کو بیان کر کے لذت محسوس نہیں کرے گا۔

    اسلامی تعلیمات میں مسلمانوں کو خصوصی طور پر یہ سبق دیا گیا ہے کہ اپنے بھائی کو مصیبت اور تکلیف میں دیکھ کر کبھی خوش نہ ہونا ورنہ اس کا انجام بہت بُرا ہے اس لیے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’اپنے بھائی کو کسی مصیبت میں مبتلا دیکھ کر خوشی ظاہر نہ کرنا ورنہ اللہ تعالیٰ اس مصیبت زدہ پر رحم کرے گا اورتجھے اس مصیبت میں مبتلا کر دے گا۔‘‘

    ماہرین نفسیات کے تجزیہ کے مطابق افواہیں پھیلانے کا ایک مقصد یہ بھی ہوتا ہے کہ دوسرے لوگوں کو خوف میں مبتلا کیا جائے کیونکہ یہ چیز بھی انسانی طبیعت میں ہے کہ دوسرے کو ڈرا کر، خوف زدہ کر کے لذت محسوس ہوتی ہے یا دوسرے کو خوف زدہ کر کے اپنا مقصد پورا کر لیا جاتا ہے۔ اسلام نے اس چیز کا بھی خاتمہ کیا۔ ایک مرتبہ رسول اللہﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سفر میں تھے، ایک شخص سو رہا تھا‘ ایک صاحب اٹھے اور سونے والے کے قریب جا کر اس کے پاس پڑی ہوئی رسی اٹھالی، سونے والا اس سے ڈر گیا، اس پر رسول اللہﷺ نے فرمایا ’’کسی مسلمان کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ کسی مسلمان کو ڈرائے‘‘۔

    اللہ تعالیٰ افواہیں پھیلانے والوں کو ہدایت نصیب فرمائے اور اہل معاشرہ کو خوف و ہراس سے نجات دے کر قلبی سکون نصیب فرمائے۔

    ٭٭٭​
     

اس صفحے کو مشتہر کریں