1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

اُنہوں نے فراموش کردیا کہ ۔۔۔۔ سہیل احمد قیصر

'کالم اور تبصرے' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏8 اگست 2020۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    اُنہوں نے فراموش کردیا کہ ۔۔۔۔ سہیل احمد قیصر

    ایک یہ وقت ہے جب بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے آر ایس ایس چیف کے ساتھ مل کر ایودھیا جا کر خود رام مندر کا سنگ بنیاد رکھا‘ ایک وہ وقت تھا جب بھارتی وزیراعظم جواہر لعل نہرو اپنی جماعت کے رہنماؤں کو ایسی تقریبات میں شرکت سے گریز کا مشورہ دیا کرتے تھے۔ غالباً وہ گمان کرتے تھے کہ ایسا کرنے سے تقسیم کے باعث لوگوں کے درمیان پہلے سے موجود دراڑیں مزید گہری ہو جائیں گی، تب وہاں حکومتی سطح پر یہ بھی طے کیا جا چکا تھا کہ بھارت ایک سیکولر ملک ہوگا۔ اِس مقصد کے لیے ضروری تھا کہ مذہبی انتہا پسندی سے گریز برتا جائے اور تب کی بھارتی حکومت نے اِس پر کافی حد تک عمل بھی کیا، لیکن اُنہیں کون سمجھائے جو حصولِ اقتدار کی خواہش میں اخلاقیات کو روندتے چلے جا رہے ہیں۔ مذہبی انتہا پسندی کے گھوڑے پر سوار اِسے بگٹٹ بھگائے چلے جا رہے ہیں‘ انہیں تدبر سے دور تلک کوئی واسطہ نہیں‘رویہ ایسا ہے جیسے سب کو کچل کر رکھ دیں گے۔ ایسا طریق کہ گویا انسانیت نامی کسی چیز کا دنیا میں وجود ہی باقی نہ رہا ہو۔ حتیٰ کہ دائمی اقتدار کے حصول کی دوڑ میں اندھے ہوکر اپنے ہی شہریوں کی زندگی کو اجیرن بنا دیا جائے۔ یہی سب کچھ اِن دنوں ہمارے ایک بڑے ہمسائے بھارت کے ہاں ہو رہا ہے۔ ایک ایسے ملک میں ہندوتوا کے گھوڑے کو کچھ ایسے بے لگام چھوڑ دیا گیا ہے کہ جسے اُس کے پرکھو ں نے دنیا بھر میں سیکولر ثابت کرنے کے لیے نجانے کون کون سے پاپڑ بیلے تھے۔ اِس حقیقت کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ بھارت اِس حوالے سے اپنی پہچان بنانے میں کافی کامیاب بھی رہا تھا۔ اب بھلے یہ کہا جاتا رہے کہ وہاں اقلیتوں سے تعلق رکھنے والوں کو صرف دکھاوے کے لیے اعلیٰ عہدوں پر فائز کیا جاتا تھا۔ یہ بھی سنتے رہے کہ اصل میں یہ ہاتھی کے دانتوں والا معاملہ تھا کہ جو کھانے کے اور‘ اور دکھانے کے لیے اور ہوتے ہیں لیکن اگر یہ دکھاوا تھا تو بھی اِس کے مثبت اثرات ضرور مرتب ہوئے۔ دیکھنے والے اِس سے متاثر ہوتے تھے جس کے باعث بھارت کو ایک سیکولر ریاست سمجھا جانے لگا مگر اب یہ سب قصہ پارینہ بنتا دکھائی دے رہا ہے۔ بھارتی حکمران سیکولرازم کے تابوت میں ایک کے بعد ایک کیل ٹھونکتے چلے جا رہے ہیں۔ اِس کی نئی کڑی ایودھیا میں رام مندر کا سنگ بنیاد رکھنے کی صورت میں سامنے آئی ہے۔
    اِس پر مزید بات کرنے سے پہلے یہ بھی ذہن میں رکھنا ہوگا کہ رام مندر کا سنگ بنیاد رکھنے کے لیے خصوصی طور پر پانچ اگست کی تاریخ چنی گئی۔ یہ وہی دن ہے جب ٹھیک ایک سال پہلے بھارت نے کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کیا تھا۔ اِس تاریخ کو چننے کا مقصد یقینی طور پر یہی پیغام دینا مقصود تھا کہ دنیا چاہے کچھ بھی کرلے‘ ہم اپنی راہ نہیں چھوڑیں گے۔ایک سال ہو چلا کہ مقبوضہ کشمیر کے عوام مسلسل محاصرے میں ہیں۔ ابھی کچھ ہفتے پہلے کہیں جاکر وہاں انٹرنیٹ جزوی طور پر بحال کیا گیا ہے۔ اب یہ تو کوئی بھی سمجھ سکتا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کو اِس طرح دنیا سے کاٹ دینے کا ایک ہی مقصد ہے کہ دنیا کو وہاں جاری مظالم کی بابت معلوم نہ ہو سکے۔ دوسری طرف اندرونِ ملک اپنے ووٹ بینک میں اضافے کے لیے بی جے پی کی حکومت مسلسل مذہب کارڈ یعنی ہندوتوا کو استعمال کر رہی ہے۔ رام مندر کا سنگ بنیاد رکھتے ہوئے بھی ہندوئوں کی اکثریت کو متاثر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اِس حوالے سے بھی کوئی دوسری رائے نہیں ہو سکتی کہ اِس کا ایک بڑا مقصد بھارتی عوام کی توجہ ملک کو درپیش مختلف مسائل سے ہٹانا بھی ہے۔ یہ کئی دہائیوں کے دوران شاید پہلا موقع ہے کہ بھارت کے بنگلا دیش اور نیپال کے ساتھ تعلقات کافی نچلی سطح پر پہنچ گئے ہیں۔ یہ دونوں ممالک بھارت کے مقابلے میں بہت کمزور اور چھوٹے ہیں لیکن دونوں کی طرف سے بھارت کو آنکھیں دکھائی جا رہی ہیں۔ نیپال کی معیشت کا تو تمام تر انحصار ہی بھارت کے ساتھ تجارت پر ہے۔ بلند و بالا پہاڑوں میں گھرے اِس ملک کو اب کہیں جا کر چین کی طرف سے ایک شاہراہ کی صورت میں دنیا کے ساتھ رابطے کی ایک اور سہولت میسر آئی ہے۔ اِس کے باوجود وہ ابھی تک اپنی بقا کے لیے بھارت کے ساتھ ملنے والے زمینی راستوں کا ہی محتاج ہے۔ بنگلا دیش کا بھی بھارت سے کوئی مقابلہ نہیں ہے لیکن اب وہ بھی بھارت کے ساتھ کھل کر اپنے اختلافات کا اظہار کر رہا ہے۔
    پاکستان کے ساتھ تو صورت حال کو کشیدہ رکھنا موجودہ بھارتی حکومت کی سیاسی بنیاد کا ہمیشہ سے اہم عنصر رہا ہے۔ اگرچہ اِس حکومتی پالیسی کے خلاف خود بھارت کے اندر سے بھی آوازیں اُٹھتی رہتی ہیں لیکن اِس سے عوام متاثر بھی ہوتے ہیں۔ چین کے ساتھ لائن آف ایکچوئل کنٹرول (ایل اے سی) پر صورت حال آج بھی انتہائی کشیدہ ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ اِس معاملے پر بھارتی حکومت کو اپنے ہی عوام کے سامنے بہت سبکی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ وجہ اِس کی یہ رہی کہ پہلے پہل خود نریندر مودی نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ چین کی طرف سے بھارتی حدود میں کوئی مداخلت نہیں کی گئی۔ اب جھوٹ کا یہ پول کھل چکا تو حکومتی رہنماؤں کے لیے اپنے پہلے موقف کا دفاع کرنا مشکل ہو رہا ہے۔ اب خود بھارت کے اندر سے یہ سوال اُٹھ رہا ہے کہ بلاوجہ اور ہر وقت پاکستان کو آنکھیں دکھانے والے بھارتی رہنما چین کے ساتھ کشیدگی پر کیوں چپ سادھے ہوئے ہیں۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ اب بھارت تو کمبل کو چھوڑنے کی بھرپور کوشش کر رہا ہے لیکن کمبل اُسے نہیں چھوڑ رہا۔ ایسے میں فرانس سے ملنے والے رافیل طیاروں کے حوالے سے بھی بہت شور مچایا جا رہا ہے جیسے اِن کے ملنے سے اُسے پاکستان اور چین پر فیصلہ کن فضائی برتری حاصل ہو گئی ہو۔ بھارتی میڈیا نے رافیل طیارے ملنے پر آسمان سر پر اُٹھا رکھا ہے لیکن حقیقت کچھ اور ہی ہے۔ اگرچہ رافیل بہت موثر اور کارآمد طیارے ہیں تاہم اِبھی صرف چھ رافیل ہی بھارت پہنچے ہیں جبکہ مجموعی طور پر اُسے 36طیارے ملنا ہیں۔ اب اِن طیاروں کے حوالے سے یہ دعویٰ کہ اب بھارتی فضائیہ پاکستان اور چین کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کرنے کی پوزیشن میں آگئی ہے، حقیقت سے کوسوں دور ہے۔ بظاہر اِتنے بھرپور پروپیگنڈے کا مقصد یہی ہے کہ بھارتی عوام کو یقین دلایا جائے کہ ایک نئے بھارت کی بنیاد رکھی جا رہی ہے۔
    حقیقت یہ ہے کہ ایک نئے بھارت کی بنیاد ضرور رکھی جا رہی ہے لیکن ایسے بھارت کی جہاں عوام کو صرف کھوکھلے اقدامات سے ہی بہلایا جائے گا۔ ایسے وقت میں کہ جب بھارتی معیشت تاریخی سست روی کا شکار ہے، اِن حالات میں کہ جب کورونا کے حوالے سے بھارت دنیا کے سب سے زیادہ متاثرہ ممالک میں شامل ہے اور آنے والے دنوں میں اِس کے مزید متاثر ہونے کے بھرپور امکانات موجود ہیں، ایسی صورت حال میں کہ جب سبھی ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات بگڑ چکے ہوں تو پھر مذہبی انتہا پسندی کے گھوڑے پر بیٹھ کر کم از کم اندرونی طور پر حالات کو ہی اپنے حق میں بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ اِس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے مندر کا سنگ بنیاد رکھنے سے پہلے پورے ملک میں ایک تہوار کا سا ماحول پیدا کیا گیا۔ ویسا ہی ماحول جو 1990ء میں ایل کے ایڈوانی کی رتھ یاترا سے پہلے پیدا کیا گیا تھا۔ ایک ماہ سے زائد جاری رہنے والی اِس رتھ یاترا کے دوران فسادات میں ساڑھے تین سو سے زائد بھارتی شہری مارے گئے تھے‘ یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ اِن میں اکثریت مسلمانوں کی تھی۔ اِس سے کون انکار کر سکتا ہے کہ اِسی رتھ یاترا کے نتیجے میں 1992ء میں بابری مسجد کو منہدم کر دیا گیا تھا۔ یہ انہدام تین ہزار سے زائد افراد کی جانیں لے گیا۔ اب مذہبی انتہا پسندی کے بے لگام گھوڑے کی زد میں آکر مارے جانے والوں کی لاشوں پر رام مندر کا سنگ بنیاد رکھ دیا گیا ہے۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ یہ بھارتی ہندوتوا کے لیے ایک یادگار لمحہ قرار دیا جا سکتا ہے لیکن ایسا کرنے والوں نے بہت سے زمینی حقائق کو فراموش کر دیا ہے۔ اُنہوں نے فراموش کر دیا ہے کہ اس عمل نے ثابت کر دیا ہے کہ مذہب کے نام پر ملک میں جتنے بھی فسادات ہوتے رہے، اُن کے پیچھے بی جے پی کا ہی ہاتھ تھا۔ اُنہوں نے فراموش کر دیا ہے کہ اِس روش پر چل کر انہوں نے خود اپنے ہی ملک کی بنیادیں کھوکھلی کرنے کی رفتار تیز تر کر دی ہے۔ اُنہوں نے فراموش کردیا ہے کہ یہ گھوڑا بے لگام ہونے میں زیادہ وقت نہیں لیتا۔​
     

اس صفحے کو مشتہر کریں