1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

مور اور دانش ور ........ حکایت شیخ سعدیؒ

'اردو ادب' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏24 جنوری 2020۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    مور اور دانش ور ........ حکایت شیخ سعدیؒ
    ایک شخص خود کو بڑ ادانش مند سمجھتا تھا۔وہ ایک دن سیر کی غرض سے جنگل میں اِدھر اُدھر پھر رہا تھا کہ ایک مور کو دیکھا جو چونچ سے اپنے ہی پر اُکھیڑ رہا تھا۔ دانشور مور کے قریب گیا اور کہنے لگا: ’’اے مور، کیا تیرے حواس جاتے رہے کہ اتنے حسین اور خوب صورت پروں کو اس بے دردی سے اُکھیڑ ڈالتا ہے؟ کیا تجھے یہ احساس نہیں کہ تیرے ایک ایک پر کو لوگ کس شوق سے سنبھال کر رکھتے ہیں؟ تیرے نازک پروں کی پنکھیاں بنائی جاتی ہیں۔ ارے حیوان، تجھے یاد نہیں کہ تیرا خالق کون ہے اور کس نے تیرے بدن پر یہ بے مثال نقش و نگار بنائے ہیں؟ کیا تُو اس مُصور کو بھی بھول گیا جس نے اپنی مُصوری کے لیے تجھے منتخب کیا ہے؟ معلوم ہوتا ہے تو غرور میں آن کر اپنی نئی وضع قطع بنانے کے درپے ہے؟‘‘۔مور نے اُسے اُوپر سے نچے تک غور سے دیکھا، پھر چلّا چلّا کر رونے لگا۔ اس کے رونے میں ایسا درد تھا کہ جنگل کے چرند پرند سب رونے لگے۔ دانشور پشیمان ہو کر دل میں کہنے لگا کہ میں نے ناحق اس مور کو چھیڑا یہ تو پہلے ہی غموں سے بھرا ہو اتھا۔کاش! وہ دانش ور جانتا کہ مور کے ایک ایک آنسو میں سوسو جواب چُھپے ہوئے تھے لیکن اُسے اِن آنسوئوں کی کیا قدر و قیمت معلوم ہوتی۔ جب مورخوب رو دھو کر اپنے دل کی بھڑاس نکال چکا تو اس نے دانش ور سے کہا: ’’اے نادان، حیف ہے تیری عقل و بصیرت پر کہ ابھی تک تو طلسمِ رنگ و بُو میں گرفتار ہے۔ اُلٹا مجھے پر اُکھیڑنے پر مطعُون کرتا ہے لیکن اس پر غور نہیں کرتا کہ انہی حسین پروں کے باعث مجھ پر سینکڑوں بلائوں اور ہزاروں آفتوں کا نزول ہوتاہے۔ کتنے سفّاک شکاری ہیں جو محض ان پروں کے لیے ہر طرف جال بچھاتے ہیں اور میری جانِ ناتواں سے کھیلتے ہیں۔ ایسی آفتوں سے اپنے آپ کو بچائے رکھنے کی مجھ میں طاقت نہیں، اس لیے یہی راستہ نظر آیا کہ اِن بلائے جان پروں کو اُکھیڑ کر بد شکل ہو جائوں۔میری جان ان خوبصورت رنگین پروں سے ہزار درجے قیمتی ہے کیونکہ وہ باقی رہنے والی اور جسم فنا ہونے والا ہے۔ اے دانش ور، یہ بال و پر ہی میرے غرور و تکبر کا باعث بن گئے، اور یہ تکبر متکبرین کو ہزاروں بلائوں میں گرفتار کرا دیتا ہے‘‘۔اے عزیز، میں تجھ سے کہتا ہوں، اگر سلامتی مطلوب ہے تو اسبابِ تکبر کو ترک کر دے۔​
     

اس صفحے کو مشتہر کریں