1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

بارہواں کھلاڑی

'ادبی طنز و مزاح' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏19 جنوری 2020۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    بارہواں کھلاڑی
    وزیر آغا
    کل ٹیلیویژن پر کرکٹ میچ دیکھتے ہوئے میرے ایک دوست نے اپنی آنکھوں میں ایک شریر چمک اور ہونٹوں پر ایک مکروہ سی پان زدہ مسکراہٹ سجاتے ہوئے دفعتاً مجھ سے سوال کیا: ’’آغا جی! اگر آپ کو قومی کرکٹ ٹیم میں شامل ہونے کی دعوت ملے تو کیا آپ اسے قبول کر لیں گے؟‘‘ میں نے فوری طور پر اس غلیظ سوال کا جواب دینے کے بجائے پہلے ایک اچٹتی سی نگاہ اپنے ہاتھوں پر ڈالی جن پر وقت اپنی لکیریں چھوڑ کر جا چکا ہے۔ جیسے سمندر پیچھے کو ہٹ جائے تو اس کے ریتیلے ماتھے پر برہم سی سلوٹیں باقی رہ جاتی ہیں۔ پھر میں نے ایک لمبی سانس لی اور چاہا کہ سانس چند لمحے میرے سینے میں مہمان رہے لیکن اس نے اندر جاتے ہی جانے کس موہنجودڑو کے آثار دیکھ لیے کہ پل بھر بھی نہ رکی اور فوراً نتھنوں کے راستے باہر آ گئی۔ تب میں نے اپنے دوست کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا: ’’ایک شرط پر‘‘ ’’وہ کیا ہے؟‘‘ دوست نے حیران ہو کر پوچھا۔ ’’وہ یہ‘‘ میں نے ڈراما پیدا کرنے کے لیے قدرے توقف کیا اور پھر زور دے کر کہا: ’’وہ یہ کہ مجھے بارہویں کھلاڑی کا منصب جلیل عطا کیا جائے۔ بصورت دیگر میں قومی مفاد کی پروا کیے بغیر ٹیم میں شامل ہونے کی دعوت کو مسترد کر دوں گا۔‘‘ میرا یہ جواب سن کر میرے دوست کی آنکھوں سے شرارت کی رمق اور ہونٹوں سے تبسم کی نمی آنِ واحد میں رخصت ہو گئی۔ غالباً وہ سوچ رہا تھا کہ اگر اس شخص کو بارہویں کھلاڑی کی حیثیت سے بھی شامل کیا گیا تو ٹیم کو یقینی شکست سے کوئی نہیں بچا سکے گا۔ مگر دوسری طرف میں مطمئن تھا کہ میں نے ایک ایسی بات کہہ دی تھی جس میں انگنت انسانی نسلوں کا تجربہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا مگر جس تک میرے دوست کے گیند نما سر کی رسائی قیامت تک بھی ممکن نہیں تھی۔ میں سوچنے لگا کہ اس بھلے آدمی کو تو یہ تک معلوم نہیں کہ ٹیم کے گیارہ کے گیارہ کھلاڑی دراصل ’’مشقتی‘‘ ہیں جو بارہویں کھلاڑی کی تفریح طبع کے لیے میدان میں اترتے ہیں۔ وہ سارا عرصہ میدان میں ایک سرے سے دوسرے سرے تک دوڑتے ہیں اور دوڑ دوڑ کر نڈھال ہو جاتے ہیں…محض اس لیے کہ دو کوڑی کے اس بدنما گیندکو دبوچ سکیں جسے مخالف ٹیم کے کسی بددماغ بلّاباز نے ہوا میں اچھال دیا تھا یا پورا ایک فرلانگ سرپٹ دوڑنے کے بعد گیند کو اس طرح پھینکیں کہ لکڑی کی تین بدوضع نلکیوں میں سے کم از کم ایک اس کی زد میں ضرور آ جائے یا بلے کی مدد سے گیند کو خلقِ خدا کے سروں کے اوپر سے گزرنے کا اہتمام کریں۔ سوچئے کہ کس درجہ مضحکہ خیز حرکات ہیں۔ مگر بارہویں کھلاڑی ایک بڑی حد تک ان جملہ حرکات سے محفوظ اور قعرِدریا کے درمیان ’’تختہ بند‘‘ ہونے کے باوجود ہوشیار رہتا ہے اور اپنا دامن تر نہیں ہونے دیتا۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ وہ طبعاً محض ایک تماشائی ہے۔ وہ کرکٹ کے میدان میں ضرور اترتا ہے مگر اس وقت جب کسی کھلاڑی کو درد کی ایک آدھ گولی پہنچانا درکار ہو یا تیز باؤلنگ سے بچاؤ کی کوئی ترکیب بتانا مقصود ہو جو خاندانی نسخے کی طرح صرف کپتان ہی کو معلوم ہے لیکن جس پر خود کپتان کو اپنی باری میں عمل کرنے کی توفیق نہ ہو سکی تھی یا جب کپتان محسوس کرے کہ اگر بارہواں کھلاڑی میدان میں جا کر دو چار بے معنی دوڑیں نہیں لگائے گا تو اس کی صحت بالکل برباد ہو جائے گی۔ باقی تمام عرصہ یہ ’’مرد مجاہد‘‘ کھلاڑیوں کی گیلری میں براجمان بڑے مزے سے بازیچۂ اطفال کو دیکھتا ہے، مونگ پھلی کھاتا ہے یا اچک اچک کر ٹیلیویژن کیمرے کی زد میں آنے کی کوشش کرتا ہے تاہم اس کی اصل حیثیت ایک تماشائی ہی کی رہتی ہے اور کسی بھی کھیل میں یہی بنیادی اور مرکزی حیثیت ہے۔ ممکن ہے آپ سوچیں کہ بارہویں کھلاڑی کو تماشائی قرار دینا تماشائیوں کے جم غفیر سے ناانصافی کے مترادف ہے مگر آپ یقین کریں کہ ایسا ہرگز نہیں ہے کیوں کہ تماشائی ’’تماشائی‘‘ ہوتے ہی کب ہیں۔ وہ تو اپنی اپنی ٹیم کے غیرحاضر کھلاڑی ہیں جو میچ کے دوران سارا وقت باؤلروں کے ساتھ باؤلنگ اور بلّابازوں کے ساتھ بیٹنگ کرتے ہیں اور کبھی جب طبیعت ذرا گدگدائے تو وکٹ کیپنگ بھی کر لیتے ہیں۔ جب مخالف ٹیم کے بلّاباز کی گیند ہوا میں اچھلتی ہے تو اسے دبوچنے کے لیے ہزاروں نادیدہ ہاتھ از خود ہوا میں اٹھ جاتے ہیں اور جب ٹیم کے سب سے ہونہار اور خوبصورت کھلاڑی کے دونوں ہاتھوں میں موجود کسی مشتعل سوراخ سے گیند پھسل کر زمین پر آ رہتی ہے تو انہیں یوں لگتا ہے جیسے گیند خود ان کے ہاتھوں سے پھسلی ہے۔ پھر جب کبھی ان کی اپنی ٹیم کا بلّا باز چھکّا لگاتا ہے تو ان کے ہزار ہا بازوؤں کا زور بلّاباز کے بازو میں سمٹ آتا ہے۔ وہ اپنی ٹیم کی فتح و شکست میں اس درجہ ’’مبتلا‘‘ ہوتے ہیں کہ اگر ٹیم جیتے تو یہ ان کی ذاتی جیت اور اگر ٹیم ہارے تو یہ ان کی ذاتی شکست ہے۔ کھیل دیکھنے والوں کا یہ مجمع حقیقتاً ایک ایسی ’’ہستی‘‘ ہے جس کے ہزاروں سر اور بازو ہیں جس کی لاتعداد آنکھیں اور اَن گنت کان ہیں اور جو بیک زبان اپنی خوشی غمی یا برہمی کا برملا اظہار کرتی ہے اور کھیل میں بھرپور شرکت سے یہ ثابت کرتی ہے کہ وہ بیچ میدان کھڑی ہے… دوسری طرف بارہواں کھلاڑی ایک مردِ آزاد ہے۔ اس کی بلا سے اگر ٹیم ہارے یا جیت سے سرفراز ہو۔ اگر ٹیم خدانخواستہ جیت گئی تو اس کے گلے میں کوئی ہار پہنانے نہیں آئے گا اور اگر ٹیم ہار گئی تو کوئی اس سے باز پرس نہیں کرے گا۔ اسے دیکھ کر ’’شیم شیم‘‘ کے نعرے نہیں لگائے گا اور اس پر سنگترے کے چھلکے نہیں پھینکے گا۔ یہ شخص ٹیم کی فتح و شکست ہی سے بے نیاز نہیں بلکہ اپنی کارکردگی کے بارے میں بھی کسی خوش فہمی کا شکار نہیں۔ اسے معلوم ہے کہ کوئی سر پھرا اسے ’’مین آف دی میچ‘‘ کا ایوارڈ نہیں دے گا اور کوئی اخبار اس کی صحت یا علالت کے بارے میں اپنے قارئین کو مطلع کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرے گا۔ بارہواں کھلاڑی راہ و رسم عاشقی کے ان جملہ نازک مقامات سے قطعاً محفوظ ہے۔ وہ میچ کے پانچوں دن اپنی نیند سوتا ہے اور اپنی نیند جاگتا ہے۔ خوش خوراکی کے معاملے میں بھی اسے کسی احتیاط کی ضرورت نہیں۔ کپتان کی تعریف یا سرزنش سے بھی اسے کوئی سروکار نہیں۔ غرضیکہ بارہواں کھلاڑی، کھلاڑی کہلانے کے باوجود اپنی ٹیم کی ذمہ داریوں سے سبکدوش اور ان کی تمام بوالعجبیوں سے بے نیاز ہے۔ یہی تماشائی کا اصل منصب بھی ہے کہ وہ تماشا میں شریک ہونے کے باوجود تماشا سے الگ بھی رہے۔​
     

اس صفحے کو مشتہر کریں