1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

استاد دامن

'اردو ادب' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏15 ستمبر 2019۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    استاد دامن عوامی شاعر تھے،حبیب جالب کو اپنا,, اردو ایڈیشن,, کہتے تھے


    [​IMG]

    عبدالحفیظ ظفر

    استاد دامن ایک عجیب و غریب شخصیت تھے۔ وہ تھے تو پنجابی کے عوامی شاعر لیکن ایسے شاعر جن کا ان کی زندگی میں کبھی کوئی شعری مجموعہ شائع نہیں ہوا۔ جب کبھی ان سے استفسار کیا جاتا کہ وہ شعری مجموعہ کیوں نہیں شائع کراتے تو ان کا جواب ہوتا ’’جب میرا کلام عوام کو زبانی یاد ہے تو پھر مجھے شعری مجموعہ چھپوانے کی کیا ضرورت ہے۔‘‘ چار ستمبر 1911ء کو لاہور میں جنم لینے والے استاد دامن کا اصل نام چراغ دین تھا۔ 1947ء میں تقسیم ہند کے وقت وہ پنجابی کے سب سے مشہور شاعر تھے۔ انہوں نے کیا شعر کہا تھا ایہہ دُنیا منڈی پیسے دی، ہر چیز وکِندی بھا سجنا ایتھے روندے چہرے وکدے نئیں، ہسنے دی عادت پا سجنا انہوں نے پاکستان میں ہمیشہ فوجی آمریت کی مخالفت کی۔ انہیں سیاست میں میاں افتخارالدین لائے جو بائیں بازو کے معروف رہنما اور تحریکِ پاکستان کے کارکن تھے۔ استاد دامن کو اصل میں برطانوی راج کے خلاف جدوجہد کے حوالے سے متعارف کرایا گیا۔ استاد دامن پیشے کے اعتبار سے درزی تھے۔ 1930ء میں انہوں نے میاں افتخارالدین کا ایک سوٹ تیار کیا جو ان کی شاعری سن کر بڑے متاثر ہوئے۔ انہوں نے استاد دامن کو دعوت دی کہ وہ انڈین نیشنل کانگریس کے زیراہتمام جلسے میں اپنی نظم پڑھیں۔ جب استاد دامن نے نظم پڑھ کر سنائی تو ان کے نام کا ڈنکا ہر طرف بجنے لگا۔ پنڈت جواہر لعل نہرو اس جلسے میں موجود تھے۔ انہوں نے استاد دامن کی انقلابی اور سامراج کے خلاف نظم سن کر انہیں ’’شاعرِ آزادی‘‘ قرار دیا۔ 1947ء کے فسادات میں استاد دامن کی دکان اور گھر کو فسادیوں نے نذرِ آتش کر دیا۔ ان کی اہلیہ اور جوان بیٹی کو بھی موت کی نیند سلا دیا۔ تاہم استاد دامن نے لاہور میں ہی قیام پذیر ہونے کا فیصلہ کر لیا۔ وہ تمام زندگی آمریت، منافقت اور کرپشن سے نفرت کرتے رہے۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہے کہ ان کی وفات کے بعد ان کے مداحین نے ان کا شعری مجموعہ ’’دامن دے موتی‘‘ شائع کیا۔ ان کی نظموں کا آج بھی پنجاب کے مختلف علاقوں میں حوالہ دیا جاتا ہے۔ وہ پہلے ’’ہمدم‘‘ کے قلمی نام سے لکھتے رہے۔ یہ قلمی نام بعدازاں ’’دامن‘‘ ہو گیا۔ استاد کا خطاب انہیں مقامی لوگوں نے دیا۔ اس کے بعد استاد دامن سیاسی اور عوامی جلسوں میں باقاعدگی سے شرکت کرنے لگے۔ وہ اکثر اس رائے کا اظہار کرتے رہتے تھے کہ جدوجہدِ آزادی اس وقت تک کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو سکتی جب تک ہندو، مسلمان اور سکھوں میں اتحاد نہیں ہو جاتا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دورِ حکومت میں انہوں نے ایک نظم لکھی جس پر انہیں گرفتار کر لیا گیا۔ ان کی مقبولیت کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ وہ عوام کے جذبات انہی کی زبان میں بیان کرتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ وہ عوامی شاعر کہلائے۔ اس کے علاوہ وہ رجائیت پسند تھے اور انہوں نے اپنے مداحین کو کبھی یاسیت اور قنوطیت کی دلدل میں نہیں دھکیلا۔ ذرا ان کی یہ شاعری ملاحظہ کیجیے۔ ساڈے ہتھاں دیاں ریکھاں پراں نال میٹن والیو اوئے موئیاں ہویا دیاں صفاں ولیٹن والیو کر لو کوٹھیاں وچ چاننا کھو کے ساڈیاں اکھیاں دا نور ایتھے انقلاب آئے گا ضرور سانوں کوئی شکست نہیں دے سکدا بھانویں کوئی کڈا دم خم نکلے استاد دامن دے گھر ویکھیا جے دو ریوالور تے تن دستی بم نکلے استاددامن نے پنجاب اور پنجابی زبان سے اپنی محبت کا اظہار بھی بڑے واضح انداز میں کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں میں پنجابی پنجاب دے رہن والا سدا خیر پنجابی دی منگ دا ہاں موتی کسے سہاگن دی نتھ دا ہاں ٹُکڑا کسے پنجابن دی ونگ دا ہاں اس کے بعد وہ اس بات کا بھی اظہار کرتے ہیں کہ وہ اردو اور انگریزی کے دشمن نہیں لیکن ان کی منہ بولی زبان پنجابی کی اہمیت کو بھی تسلیم کیا جائے۔ وہ کہتے ہیں اردو دا میں دوکھی ناہیں تے دشمن نہیں انگریزی دا پچھدے او میرے دل دی بولی ہاں جی ہاں، پنجابی اے بلھا ملیا ایسے وچوں ایسے وچوں وارث وی دھاراں ملیاں ایسے وچوں میری ماں پنجابی اے اب زندگی کے بارے میں وہ کیا کہتے ہیں زندگی کیہ اے پتن سیاپیاں دی روندے آئے ساں پٹ دے گزر چلے خون جگر دا تلی تے رکھ کے تے دھرتی پوچدے پوچدے گزر چلے ایتھے کیویں گزارئیے زندگی نوں ایہو سوچدے سوچدے گزر چلے اب ذرا مندرجہ ذیل شعروں کو دیکھیں جہاں وہ دلیل سے کہتے ہیں کہ کم عقلوں اور نادانوں کو اپنے اشعار سنانا بالکل بے سود ہے۔ کم عقلی تے تیری کوئی شک نہیں دانش جاہلاں نوں پیا وار ناں دامنؔ شعر سناؤنا ایں مورکھاں نوں موتی پتھراں تے پیا وار ناں ایں استاد دامن فطری حقائق کا بہت ادراک رکھتے تھے اور انسانی فطرت کے گوشے بھی بے نقاب کرتے تھے۔ ان کی یہ شاعری ملاحظہ کریں لا غرض اگے غرض پیش کر کے انھّے اگے مورکھا رون لگا ایں آئی جوانی گئی جوانی جیون بدلاں دی چھاں بھاویں رہی ایہہ چار دیہاڑے ناں دی پھلے ناں کسے غیر نے مینوں ماریا نہیں جنھے ماریا یار بن کے جنہوں کلی گلاب سمجھیا ساں اوہ ساہمنے آیا تلوار بن کے استاد دامن حبیب جالب کو اپنا ’’اردو ایڈیشن‘‘ کہتے تھے۔ وہ کہتے تھے وہ اردو کا عوامی شاعر ہے اور میں پنجابی کا عوامی شاعر ہوں۔ اگرچہ بعض نقاد حبیب جالب اور استاد دامن کو نعرے باز کہتے ہیں لیکن یہ ایک رائے ہے۔ ویسے تو ڈاکٹر وزیر آغا جیسے جیّد نقاد نے فیض احمد فیض کو بھی نعرے باز کہا تھا۔ ان نقادوں کے نزدیک معروضی صداقتوں اور عصری کرب کو عوام کی زبان میں بیان کرنا نعرے بازی ہے اور ایسا کلام شعری طرزاحساس سے خالی ہوتا ہے۔ بقول حسن عسکری یہ نفس کی نہیں آفاق کی شاعری ہے۔ ’’وقت کی راگنی‘‘ میں انہوں نے بڑی صراحت سے ایسی شاعری کو رد کیا ہے۔ لیکن کیا یہی حرفِ آخر ہے؟ اس پر بحث کے درواز ے کھل سکتے ہیں۔ 1984ء ایک ایسا سال تھا جب بڑی معروف ہستیاں عالمِ جاوداں کو سدھار گئیں۔ ان میں راجندر سنگھ بیدی، خواجہ خورشید انور اور فیض احمد فیض شامل ہیں۔ اسی سال کے آخر میں (تین دسمبر1984ئ) کو استاد دامن بھی یہ جہاں چھوڑ گئے… رہے نام اللہ کا۔

     

اس صفحے کو مشتہر کریں