1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

سامری جادوگر کون تھا؟

'متفرقات' میں موضوعات آغاز کردہ از زنیرہ عقیل, ‏13 مئی 2019۔

  1. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    فرعون کی ہلاکت کے بعد بنی اسرائیل اس کے پنجے سے آزاد ہو کر سب ایمان لائے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کو خداوند کریم کا یہ حکم ہوا کہ وہ چالیس راتوں کا کوہِ طور پر اعتکاف کریں۔ اس کے بعد انہیں کتاب توراۃ دی جائے گی۔ چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کوہِ طور پر چلے گئے اور بنی اسرائیل کو اپنے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کے سپرد کردیا۔ آپ چالیس دن تک دن بھر روزہ دار رہ کر ساری رات عبادت میں مشغول رہتے۔اور ادھر سامری کو بنی اسرائیل کو گمراہ کرنے کا موقع مل گیا۔

    بنی اسرائیل میں ایک حرامی شخص تھا جس کا نام سامری تھا جو طبعی طور پر نہایت گمراہ اور گمراہ کن آدمی تھا۔ اس کی ماں نے برادری میں رسوائی و بدنامی کے ڈر سے اس کو پیدا ہوتے ہی پہاڑ کے ایک غار میں چھوڑ دیا تھا اور حضرت جبرئیل علیہ السلام نے اللہ کے حکم سے اس کو اپنی انگلی سے دودھ پلا پلا کر پالا تھا۔ اس لئے یہ حضرت جبرئیل علیہ السلام کو پہچانتا تھا۔ اس کا پورا نام ”موسیٰ سامری” ہے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کا نام بھی ”موسیٰ” ہے۔ موسیٰ سامری کو حضرت جبرئیل علیہ السلام نے پالا تھا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی پرورش فرعون کے گھر ہوئی تھی۔ مگر خدا کی شان کہ فرعون کے گھر پرورش پانے والے موسیٰ علیہ السلام تو خدا کے رسول ہوئے اور حضرت جبرئیل علیہ السلام کا پالا ہوا موسیٰ سامری کافر ہوا اور بنی اسرائیل کو گمراہ کر کے اس نے بچھڑے کی پوجا کرائی۔ اس بارے میں کسی عارف نے کیا خوب کہا ہے:۔

    اِذَاالْمَرْءُ لَمْ یُخْلَقْ سَعِیْدًا مِّنَ الْاَزَل
    فَقَدْ خَابَ مَنْ رَبّٰی وَخَابَ الْمُؤَمِّل
    فَمُوْسَی الَّذِیْ رَبَّاہُ جِبْرِیْلُ کَافِرُ
    وَمُوْسَی الَّذِیْ رَبَّاہُ فِرْعَوْنُ مُرْسَل


    یعنی جب کوئی آدمی ازل ہی سے نیک بخت نہیں ہوتا تو وہ بھی نامراد ہوتا ہے۔ اور اسکی پرورش کرنے والے کی کوشش بھی ناکام اور نامراد ہوتی ہے۔ دیکھ لو موسیٰ سامری جو حضرت جبرئیل علیہ السلام کا پالا ہوا تھا وہ کافر ہوااور حضرت موسیٰ علیہ السلام جو فرعون کی پرورش میں رہے وہ خدا کے رسول ہوئے۔ اس کا راز یہی ہے کہ موسیٰ سامری ازلی شقی اور پیدائشی بدبخت تھا تو حضرت جبرئیل علیہ السلام کی تربیت اور پرورش نے اس کو کچھ بھی نفع نہ دیا،اور وہ کافر کا کافر ہی رہ گیا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام چونکہ ازلی سعید اور نیک بخت تھے اس لئے فرعون جیسے کافر کی پرورش سے بھی ان کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔

    (تفسیر الصاوی،ج۱،ص۶۳،پ۱،البقرۃ: ۵۱)

    جن دنوں حضرت موسیٰ علیہ السلام کوہِ طور پر معتکف تھے۔ سامری نے آپ کی غیر موجودگی کو غنیمت جانا اور یہ فتنہ برپا کردیا کہ اس نے بنی اسرائیل کے سونے چاندی کے زیورات کو مانگ کر پگھلایا اور اس سے ایک بچھڑا بنایا۔ اور حضرت جبرائیل علیہ السلام کے گھوڑے کے قدموں کی خاک جو اس کے پاس محفوظ تھی اس نے وہ خاک بچھڑے کے منہ میں ڈال دی تو وہ بچھڑا بولنے لگا۔
    پھر سامری نے مجمع عام میں یہ تقریر شروع کردی کہ اے بنی اسرائیل! حضرت موسیٰ علیہ السلام خدا سے باتیں کرنے کے لئے کوہِ طور پر تشریف لے گئے ہیں لیکن خدا تو خود ہم لوگوں کے پاس آگیا ہے اور بچھڑے کی طرف اشارہ کر کے بولا کہ یہی خدا ہے ”سامری” نے ایسی گمراہ کن تقریر کی کہ بنی اسرائیل کو بچھڑے کے خدا ہونے کا یقین آگیا اور وہ بچھڑے کو پوجنے لگے۔ اور بارہ ہزار آدمیوں کے سوا ساری قوم نے چاندی سونے کے بچھڑے کو بولتا دیکھ کر اس کو خدا مان لیا اور اس کے آگے سر بسجود ہو کر اس بچھڑے کو پوجنے لگے۔ چنانچہ خداوند قدوس کا ارشاد ہے:۔ترجمہ:۔ اور موسیٰ کے بعد اس کی قوم اپنے زیوروں سے ایک بچھڑا بنا بیٹھی بے جان کا دھڑ تھا وہ۔گائے کی طرح آواز کرتا۔

    (پ۹،الاعراف:۱۴۸)

    جب چالیس دنوں کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام خدا عزوجل سے ہم کلام ہو کر اور توراۃ شریف ساتھ لے کر بستی میں تشریف لائے اور قوم کو بچھڑا پوجتے ہوئے دیکھا تو آپ پر بے حد غضب و جلال طاری ہو گیا۔ آپ نے جوش غضب میں اپنے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کی داڑھی اور سر کے بال پکڑ کر گھسیٹنا اور مارنا شروع کردیا اور فرمانے لگے کہ کیوں تم نے ان لوگوں کو اس کام سے نہیں روکا۔ حضرت ہارون علیہ السلام معذرت کرنے لگے۔ جیسا کہ قرآن مجید میں ہے:۔
    ترجمہ:۔کہا اے میرے ماں جائے قوم نے مجھے کمزور سمجھا اور قریب تھا کہ مجھے مار ڈالیں تو مجھ پر دشمنوں کو نہ ہنسا اور مجھے ظالموں میں نہ ملا۔

    (پ9،الاعراف:150)

    حضرت ہارون علیہ السلام کی معذرت سن کر حضرت موسیٰ علیہ السلام کا غصہ ٹھنڈا پڑ گیا۔ اس کے بعد آپ نے اپنے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کے لئے رحمت اور مغفرت کی دعا فرمائی۔ پھر آپ نے اس بچھڑے کو توڑ پھوڑ کر اور جلا کر اور اس کو ریزہ ریزہ کر کے دریا میں بہا دیا۔
    پھر اللہ تعالیٰ کا یہ حکم نازل ہوا کہ جن لوگوں نے بچھڑے کی پرستش نہیں کی ہے وہ لوگ بچھڑا پوجنے والوں کو قتل کریں۔ چنانچہ سامری سمیت ستر ہزار بچھڑے کی پوجا کرنے والے قتل ہو گئے ۔اس کے بعد یہ حکم نازل ہوا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام ستر آدمیوں کو منتخب کر کے کوہِ طور پر لے جائیں اور یہ سب لوگ بچھڑا پوجنے والوں کی طرف سے معذرت طلب کرتے ہوئے یہ دعا مانگیں کہ بچھڑا پوجنے والوں کے گناہ معاف ہوجائیں۔
    چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے چن چن کر اچھے اچھے ستر آدمیوں کو ساتھ لیا اور کوہِ طور پر تشریف لے گئے۔ جب لوگ کوہِ طور پر طلب معذرت و استغفار کرنے لگے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آواز آئی کہ:۔
    ”اے بنی اسرائیل!میں ہی ہوں، میرے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں میں نے ہی تم لوگوں کو فرعون کے ظلم سے نجات دے کر تم لوگوں کو بچایا ہے لہٰذا تم لوگ فقط میری ہی عبادت کرو اور میرے سوا کسی کو مت پوجو۔
    اللہ تعالیٰ کا یہ کلام سن کر یہ ستر آدمی ایک زبان ہو کر کہنے لگے کہ اے موسیٰ!ہم ہرگزہرگز آپ کی بات نہیں مانیں گے جب تک ہم اللہ تعالیٰ کو اپنے سامنے نہ دیکھ لیں۔ یہ ستر آدمی اپنی ضد پر بالکل اَڑ گئے کہ ہم کو آپ خدا کا دیدار کرایئے ورنہ ہم ہرگز نہیں ما نیں گے کہ خداوند عالم نے یہ فرمایا ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ان لوگوں کو بہت سمجھایا، مگر یہ شریر و سرکش لوگ اپنے مطالبہ پر اڑے رہ گئے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے غضب و جلال کا اظہار اس طرح فرمایا کہ ایک فرشتہ آیا اور اس نے ایک ایسی خوفناک چیخ ماری کہ خوف و ہراس سے لوگوں کے دل پھٹ گئے اور یہ ستر آدمی مر گئے۔ پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے خداوند عالم سے کچھ گفتگو کی اور ان لوگوں کے لئے زندہ ہوجانے کی دعا مانگی تو یہ لوگ زندہ ہو گئے۔

    (تفسیر صاوی،ج۱،ص۶۴،۶۵،پ۱،البقرۃ : ۵۵،۵۶ )
    (عجائب القرآن سے ماخوذ)
     
    ملک بلال اور آصف احمد بھٹی .نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    بہت سی ایسی روایات کہ جو سینہ گزٹس کے زریعے صدیوں سے بلکہ شاید ہزاروں سالوں چلی آ رہی ہیں ، اس زمانے میں ان سے پردہ اُٹھ رہا ہے اور ان میں سے اکثر روایات ہم تک بنی اسرائیل سے پہنچی ہیں اور ان بنی اسرائیلی روایات کا کسی بھی مستند حدیث یا قران کی کسی صورت حتی کے آیت سے بھی حوالہ نہیں ملتا ، چونکہ یہ روایات صدیوں سے چلی آ رہی ہیں اس لیے عوام ان کے سحر میں بری طرح مبتلا ہیں ، انہیں روایات میں سامری کا جادوگر ہونا اور اس کا جبرائیل علیہ السلام کا لے پالک ہونا بھی ہے ، یوسف علیہ السلام اور کسی خاتون (زلیخہ) کا قصہ اسی طرح خضر علیہ اسلام کا قصہ اور بہت سی روایات ایسی ہیں ۔ ۔ ۔
    سامری جادوگر نہیں بلکہ اس زمانے کا ایک کنٹریکٹر اور کیما گر تھا ، یہ درست ہے کہ اس نے اپنی کیما گری کے سبب کسی طور (وقتی طور پر ) ایسی بینائی حاصل کر لی تھی کہ جس کے سبب اسے سیدنا جبرائیل علیہ السلام کا عکس نظر آ گیا تھا ، اس نے دیکھا کہ جس جگہ حضرت جبرائیل علیہ السلام کی سواری کے پاؤں پڑتے ہیں وہاں کی سوکھی گھاس فوری ہری ہو جاتی ہے اس کے کے شرارتی دماغ نے اس کا فائدہ اُٹھانے کا فیصلہ کیا اور اس جگہ سے کسی طور تھوڑی سی مٹی حاصل کر لی ، چونکہ کیمیا گر (سائنس دان ) سو اس مٹی کے استعمال کا طریقہ وضع کر لیا ، بنی اسرائیل چونکہ حضرت یعقوب علیہ السلام کی اولاد تھے سو ہزار برائیوں کے باوجود اس وقت تک امین تھے اس لیے مصری لوگ ان کے پاس اپنی ایمانتیں رکھوایا کرتے تھے اس لیے مصر سے نکلتے وقت بھی ان میں سے کچھ لوگوں کے پاس مصریوں کے زیورات رہ گئے جسے وہ اب حرام سمجھ کر ان سے چھٹکارہ پانا چاہتے تھے سامری نے ان سے وہ تمام زیورات وآپس لیے اور اس سے ایک بچھڑے کو اس طور ڈھالا کہ جب اُس میں سے ہوا کا گزر ہوتا تو اس میں سے ہو بہو بچحرے کی آواز نکلتی ۔ ۔ ۔
     
    زنیرہ عقیل اور ملک بلال .نے اسے پسند کیا ہے۔
  3. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    مشہور یہ ہے کہ سامری کا نام موسیٰ ابن ظفر تھا۔ ابن جریر نے حضرت ابن عباس سے روایت کیا ہے کہ موسیٰ سامری پیدا ہوا تو فرعون کی طرف سے تمام اسرائیلی لڑکوں کے قتل کا حکم جاری تھا اس کی والدہ کو خوف ہوا کہ فرعونی سپاہی اس کو قتل کر دیں گے تو بچہ کو اپنے سامنے قتل ہوتا دیکھنے کی مصیبت سے یہ بہتر سمجھا کہ اس کو جنگل کے ایک غار میں رکھ کر اوپر سے بند کر دیا (کبھی کبھی اس کی خبر گیری کرتی ہوگی) ادھر اللہ تعالیٰ نے جبرئیل امین کو اس کی حفاظت اور غذا دینے پر مامور کر دیا وہ اپنی ایک انگلی پر شہد ایک پر مکھن ایک پر دودھ لاتے اور اس بچہ کو چٹا دیتے تھے یہاں تک کہ یہ غار ہی میں پل کر بڑا ہو گیا اور اس کا انجام یہ ہوا کہ کفر میں مبتلا ہوا اور بنی اسرائیل کو مبتلا کیا پھر قہر الٰہی میں گرفتا ہوا۔ (از روح المعانی)
    تفسیر معارف القرآن،مفتی محمد شفیع،سورۃ طٰہٰ،آیت85
     
  4. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    تفسير ابن كثير
    قَالَ فَمَا خَطْبُكَ يَا سَامِرِيُّ[95] قَالَ بَصُرْتُ بِمَا لَمْ يَبْصُرُوا بِهِ فَقَبَضْتُ قَبْضَةً مِنْ أَثَرِ الرَّسُولِ فَنَبَذْتُهَا وَكَذَلِكَ سَوَّلَتْ لِي نَفْسِي[96] قَالَ فَاذْهَبْ فَإِنَّ لَكَ فِي الْحَيَاةِ أَنْ تَقُولَ لَا مِسَاسَ وَإِنَّ لَكَ مَوْعِدًا لَنْ تُخْلَفَهُ وَانْظُرْ إِلَى إِلَهِكَ الَّذِي ظَلْتَ عَلَيْهِ عَاكِفًا لَنُحَرِّقَنَّهُ ثُمَّ لَنَنْسِفَنَّهُ فِي الْيَمِّ نَسْفًا[97] إِنَّمَا إِلَهُكُمُ اللَّهُ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ وَسِعَ كُلَّ شَيْءٍ عِلْمًا[98]

    [ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] کہا تو اے سامری! تیرا معاملہ کیا ہے؟ [95] اس نے کہا میں نے وہ چیز دیکھی جو ان لوگوں نے نہیں دیکھی، سو میں نے رسول کے پائوں کے نشان سے ایک مٹھی اٹھالی، پھر میں نے وہ ڈال دی اور میرے دل نے اسی طرح کرنا میرے لیے خوش نما بنادیا۔ [96] کہا پس جا کہ بے شک تیرے لیے زندگی بھر یہ ہے کہ کہتا رہے ’’ایک دوسرے کو چھونا نہیں‘‘ اور بے شک تیرے لیے ایک اور بھی وعدہ ہے جس کی خلاف ورزی تجھ سے ہرگز نہ کی جائے گی اور اپنے معبود کو دیکھ جس پر تومجاور بنا رہا، یقینا ہم اسے ضرور اچھی طرح جلائیں گے، پھر یقینا اسے ضرور سمندر میں اڑا دیں گے، اڑانا اچھی طرح۔ [97] تمھارا معبود تو اللہ ہی ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں، اس نے ہر چیز کو علم سے گھیر رکھا ہے۔ [98]

    تفسیر آیت/آیات، 95، 96، 97، 98،

    گائے پرست سامری اور بچھڑا ٭٭

    موسیٰ علیہ السلام نے سامری سے پوچھا کہ تو نے یہ فتنہ کیوں اٹھایا؟ یہ شخص باجرو کا رہنے والا تھا، اس کی قوم گائے پرست تھی۔ اس کے دل میں گائے کی محبت گھر کئے ہوئے تھی۔ اس نے بنی اسرائیل کے ساتھ اپنے ایمان کا اظہار کیا تھا۔ اس کا نام موسیٰ بن ظفر تھا۔ ایک روایت میں ہے، یہ کرمانی تھا۔ ایک روایت میں ہے، اس کی بستی کا نام سامرا تھا۔ اس نے جواب دیا کہ جب فرعون کی ہلاکت کے لیے جبرائیل علیہ السلام آئے تو میں نے ان کے گھوڑے کے ٹاپ تلے کی تھوڑی سی مٹی اٹھا لی۔ اکثر مفسرین کے نزدیک مشہور بات یہی ہے۔

    سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب جبرائیل علیہ السلام آئے اور موسیٰ علیہ السلام کو لے کر چڑھنے لگے تو سامری نے دیکھ لیا۔ اس نے جلدی سے ان کے گھوڑے کے سم تلے کی مٹی اٹھا لی۔ موسیٰ علیہ السلام کو جبرائیل علیہ السلام آسمان تک لے گئے، اللہ تعالیٰ نے تورات لکھی، موسیٰ علیہ السلام قلم کی تحریر کی آواز سن رہے تھے لیکن جب آپ کو اپنی قوم کی مصیبت معلوم ہوئی تو نیچے اتر آئے اور اس بچھڑے کو جلا دیا۔ لیکن اس اثر کی سند غریب ہے۔

    اسی خاک کی چٹکی یا مٹھی کو اس نے بنی اسرائیل کے جمع کردہ زیوروں کے جلنے کے وقت ان میں ڈال دی۔ جو بصورت بچھڑا بن گئے اور چونکہ بیچ میں خلا تھا، وہاں سے ہوا گھستی تھی اور اس سے آواز نکلتی تھی۔ جبرائیل علیہ السلام کو دیکھتے ہی اس کے دل میں خیال گزرا تھا کہ میں ان کے گھوڑے کے ٹاپوں تلے کی مٹی اٹھا لوں، میں جو چاہوں گا، وہ اس مٹی کے ڈالنے سے بن جائے گا۔ اس کی انگلیاں اسی وقت سوکھ گئی تھیں۔

    جب بنی اسرائیل نے دیکھا کہ ان کے پاس فرعونیوں کے زیورات رہ گئے اور فرعونی ہلاک ہو گئے اور یہ اب ان کو واپس نہیں ہو سکتے تو غمزدہ ہونے لگے۔ سامری نے کہا، دیکھو اس کی وجہ سے تم پر مصیبت نازل ہوئی ہے، اسے جمع کر کے آگ لگا دو۔ جب وہ جمع ہو گئے اور آگ سے پگھل گئے تو اس کے جی میں آئی کہ وہ خاک اس پر ڈال دے اور اسے بچھڑے کی شکل میں بنا لے چنانچہ یہی ہوا۔ اور اس نے کہہ دیا کہ تمہارا اور موسیٰ علیہ السلام کا رب یہی ہے۔ یہی وہ جواب دے رہا ہے کہ میں نے اسے ڈال دیا اور میرے دل نے یہی ترکیب مجھے اچھی طرح سمجھا دی۔

    کلیم اللہ علیہ السلام نے فرمایا، تو نے نہ لینے کی چیز کو ہاتھ لگایا، تیری سزا دنیا میں یہی ہے کہ اب نہ تو تو کسی کو ہاتھ لگا سکے نہ کوئی اور تجھے ہاتھ لگا سکے۔ باقی سزا تیری قیامت کو ہو گی جس سے چھٹکارا محال ہے۔ ان کے بقایا اب تک یہی کہتے ہیں کہ نہ چھونا۔ اب تو اپنے معبود کا حشر بھی دیکھ لے جس کی عبادت پر اوندھا پڑا ہوا تھا کہ ہم اسے جلا کر راکھ کر دیتے ہیں

    چنانچہ وہ سونے کا بچھڑا اس طرح جل گیا جیسے خون اور گوشت والا بچھڑا جلے۔ پھر اس کی راکھ کو تیز ہوا میں دریا میں ذرہ ذرہ کر کے اڑا دیا۔ مروی ہے کہ اس نے بنی اسرائیل کی عورتوں کے زیور جہاں تک اس کے بس میں تھے لیے ان کا بچھڑا بنایا جسے موسیٰ علیہ السلام نے جلا دیا اور دریا میں اس کی خاک بہا دی۔ جس نے بھی اس کا پانی پیا، اس کا چہرہ زرد پڑ گیا، اس سے سارے گئوسالہ پرست معلوم ہو گئے۔

    اب انہوں نے توبہ کی اور موسیٰ علیہ السلام سے دریافت کیا کہ ہماری توبہ کیسے قبول ہو گی؟ حکم ہوا کہ ایک دوسرے کو قتل کرو۔ اس کا پورا بیان پہلے گزر چکا ہے۔ پھر آپ نے فرمایا کہ تمہارا معبود یہ نہیں۔ مستحق عبادت تو صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ باقی تمام جہان اس کا محتاج ہے اور اس کے ماتحت ہے۔ وہ ہرچیز کا عالم ہے، اس کے علم نے تمام مخلوق کا احاطہٰ کر رکھا ہے، ہرچیز کی گنتی اسے معلوم ہے۔

    ایک ذرہ بھی اس کے علم سے باہر نہیں، ہر پتے کا اور ہر دانے کا اسے علم ہے بلکہ اس کے پاس کی کتاب میں وہ لکھا ہوا موجود ہے۔ زمین کے تمام جانداروں کو روزیاں وہی پہنچاتا ہے، سب کی جگہ اسے معلوم ہے، سب کچھ کھلی اور واضح کتاب میں لکھا ہوا ہے۔ علم الٰہی محیط کل اور سب کو حاوی ہے۔ اس مضمون کی اور بھی بہت سی آیتیں ہیں۔
     
  5. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جن مصری دوستوں کا خیال ہے کہ سامری مرا نہیں بلکہ موسی علیہ السلام کی بدُعا کے سبب طویل عرصے سے اپنی سزا بھگت رہا ہے وہ اس ہی آیت کا حوالہ دیتے ہیں قَالَ فَاذْهَبْ فَإِنَّ لَكَ فِي الْحَيَاةِ أَنْ تَقُولَ لَا مِسَاسَ وَإِنَّ لَكَ مَوْعِدًا لَنْ تُخْلَفَهُ وَانْظُرْ إِلَى إِلَهِكَ الَّذِي ظَلْتَ عَلَيْهِ عَاكِفًا لَنُحَرِّقَنَّهُ ثُمَّ لَنَنْسِفَنَّهُ فِي الْيَمِّ نَسْفًا[97] ( اور کہا (موسی نے ) جاؤ کہ تمہارے لیے ہے سزا پوری عمر کہ تم کہتے پھرو کہ مت چھوؤں اور نہ میں تمہیں چھوؤں اور تمہارے لیے ہے ایک وعدہ اور جس کی خلاف ورزی نہ کی جائے گی ۔ ۔ ۔ الخ ۔ ۔ ۔ مصری کہتے ہیں اس آیت کی رو سے اسے قتل نہیں کیا گیا تھا بلکہ موسی علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ " جاؤ " یعنی اُسے چلے جانے کا حکم دیا تھا ، اس وقت سے ہی وہ دیوانہ بنا پھرتا ہے اور صحراؤں میں پکارتا پھرتا ہے کہ لَا مِسَاسَ وَإِنَّ لَكَ ۔ ۔ ۔
     
  6. سید شہزاد ناصر
    آف لائن

    سید شہزاد ناصر ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏24 مئی 2015
    پیغامات:
    1,459
    موصول پسندیدگیاں:
    2,245
    ملک کا جھنڈا:
    مولاناتھانوی کے بقول سامری نام نہیں بلکہ لقب ہے مزید قدیم مفسرین کی تحقیق کے مطابق سامرہ کا باشندہ تھا گمان غالب ہے کہ اس کے باپ دادا سامرہ سے بنی اسرائیل میں آ کر سکونٹ پذیر ہو گئے ہوں اور اس طرح یہ اہل سامرہ میں شمار کیا جاتا ہو۔
    ترجمان القران میں میں مولانا ابو الکلام آزاد نے لکھا ہے کہ یہ سمیری قبیلہ کا رہنے والا تھا اس لئے قرآن پاک میں اسے سامری کے نام سے یاد کیا جاتا ہے-
    مولانا مودودی کے مطابق یہ قبیلہ حضرت ابراہیم کے زمانے میں عراق کے آس پاس آباد تھا
    جدید محققین کے مطابق قدیم مصری زبان میں سمر پردیسی اور غیر ملکی کو کہتے ہیں
    سامری سے مراد ہے کوئی شخص جو غیر اسرائیلی تھا اور مصر سے اسرائیلیوں کےساتھ ہو گیاتھا۔ یہودیوں کہ ہاں ایک مستقل فرقہ کا نام بھی سامریہ (samaritans) ہے،(اس فرقہ کی تفصیل قاموس الکتاب لغاتِ بائبل صفحہ 493 پر دیکھی جا سکتی ہے) ان کی توریت اور سارے مذہبی صحیفے یہود کی مسلم و متعارف توریت اور دوسرے صحیفوں سے کسی قدر مختلف ہے
     
    Last edited: ‏24 مئی 2019
    آصف احمد بھٹی نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں