1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

والدین

'متفرقات' میں موضوعات آغاز کردہ از زنیرہ عقیل, ‏11 مئی 2019۔

  1. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    والدین کے لیے خوبصورت آسمانی دُعا

    رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا

    اے میرے رب! جس طرح والدین نے مجھے (رحمت و شفقت سے) بچپن میں پالا ہے
    اسی طرح تو بھی ان کے حال پر رحم فرما ۔”


    حضرت ابو ہریرہ رضي اللہ عنہ سے روایت ہے
    کہ آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمایا
    کہ نیک آدمی کا اللہ جنت میں درجہ بلند کرتا ہے تو وہ پوچھتا ہے کہ
    اے اللہ! مجھے یہ درجہ کیوں ملا ہے تو اللہ فرماتا ہے: تیرے بیٹے نے تیرے لیئے بخشش کی دعا کی ہے

    چناچہ والدین کے لیئے بخشش کی دعا کرتے رہنا چاہیے

    والدین دنیا کی لاکھوں کروڑوں نعمتوں میں سب سے بڑی نعمت ہیں۔اللّٰہ کا ہم پر خاص کرم ہے کہ اس نے ہمیں ایسی نعمت سے نوازا۔ماں زندگی کی تاریک راتوں میں روشنی کا مینار ہے اور باپ ٹھوکروں سے بچانے والا مضبوط سہارا ہے۔زندگی ماں باپ کے بغیر بالکل ادھوری ہے۔دنیا میں اگر کامیابی چاہتے ہو تو ماں باپ کی خدمت کرو۔والدین کے ہم پر اتنے احسانات ہیں کہ اگر ساری زندگی بھی گزر جائے تو اولاد کبھی ان کے حقوق ادا نہیں کرسکتی ،ہمارے والدین ہماری زندگی کی خوشی،ہمارا سکھ اور سکون ہیں۔

    ایک آدمی نے اپنی والدہ کو کندھوں پر بیٹھا کر طواف کروایا تھا تو اس نے نبی اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے سوال کیا:
    “کیا میں نے اپنی والدہ کا حق ادا کردیا؟”
    تو آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا:
    “نہیں بلکہ تو نے ابھی ایک رات جب ،جب اس نے تمہیں اپنی سوکھی جگہ لٹایا اور خود گیلی جگہ لیٹی اس کا حق ادا نہیں کیا۔”

    اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ماں باپ کے حقوق ساری زندگی ادا نہیں ہوسکتے۔اگر تم ستر سال تک خانہ کعبہ کا طواف کرکے اس کی نیکیاں اپنے والدین کو ہدیہ کرتے ہو تب بھی تم ان کے ایک آنسو کے قطرے کا بوجھ ہلکا نہیں کرسکتے۔

    ماں باپ کی خدمت کا اندازہ اس حدیث سے لگایا جاسکتا ہے۔

    حضور اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ
    “میں جنت میں داخل ہوا تو میں نے سنا کہ وہاں کوئی شخص قرآن پاک کی تلاوت کررہا ہے،جب میں نے دریافت کیا کہ قرآن پاک کی قرآت کون کررہا ہے؟ تو فرشتوں نے بتایا کہ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے صحابی حارثہ بن نعمان ہیں۔حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا لیکن وہ تو ابھی زندہ ہیں تو جنت میں آواز کیسے.
    فرشتوں نے کہا کہ اس نے اپنی ماں کی ایسی خدمت کی ہے کہ اللہ نے حکم دیا ہے کہ حارثہ جب تلاوت کرے تو پوری جنت کو سناؤ.

    اللہ ہمیں بھی اپنے والدین کی خدمت کرنے والا بنا دے. آمین
     
    آصف احمد بھٹی اور غوری .نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. غوری
    آف لائن

    غوری ممبر

    شمولیت:
    ‏18 جنوری 2012
    پیغامات:
    38,539
    موصول پسندیدگیاں:
    11,602
    ملک کا جھنڈا:
    ماں باپ کے ادب کا مقام:

    قرآن مجید میں سورۃ الاسراء آیت 23 میں اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ :

    وَقَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوٓا اِلَّآ اِيَّاهُ وَبِالْوَالِـدَيْنِ اِحْسَانًا ۚ اِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَـرَ اَحَدُهُمَآ اَوْ كِلَاهُمَا فَلَا تَقُلْ لَّـهُمَآ اُفٍّ وَّلَا تَنْـهَرْهُمَا وَقُلْ لَّـهُمَا قَوْلًا كَرِيْمًا۔

    اور تیرا رب فیصلہ کر چکا ہے اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ نیکی کرو، اور اگر تیرے سامنے ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو انہیں اف بھی نہ کہو اور نہ انہیں جھڑکو اور ان سے ادب سے بات کرو۔

    اللہ تعالی نے اس آیت میں اولاد کو والدین کے لئے 2 احکام کی ممانعت کی ہے اور 2 احکام صادر کیے ہیں۔

    1. ماں باپ کے ساتھ نیکی کے لئے کہا ہے۔
    2. لفظ اف سے منع کیا ہے ۔
    3. والدین کو جھڑکنے سے منع کیا ہے۔
    4. والدین سے ادب سے بات کرنے کا حکم دیاہے۔

    1۔ ماں باپ کے ساتھ نیکی:

    یاد رکھیئے ہر وہ کام جو اللہ کی رضا اور انسان کے بھلا کے لئے ہو، اسے نیکی کہتے ہیں۔ نیکیاں وہ کرنسی ہے جو ہمارے اعمال کے اکاؤنٹ میں جمع ہوتی ہے اور میدان حشر میں نیکی کا میزان بمقابلہ برائیوں سے ہوگا اور جس کا پلڑہ بھاری ہوگا اسے اس کا حق نہایت شفاف طریقے سے دے دیا جائے گا۔

    ہمیں اپنے ذہن میں واضح کرنا چاہیے کہ نماز، روزہ ، حج عبادات کے زمرہ میں آتی ہیں۔ اور اس کا تعلق اللہ تعالی کے لئے اس کے بندے کی عبدیت کا اظہار ہے۔جبکہ نیکیوں کا تعلق انسانوں کی دلجوئی، ان کی خدمت ، ان کی حوصلہ افزائی، مالی مدد اور انسانیت کے فائدے کے کاموں سے ہے۔ اس کے علاوہ جانوروں اور درختوں پہ توجہ دینا، راستے میں پڑے ہوئے کانچ اٹھا کر ایک طرف رکھنا اور راستے کے پتھر کو ہٹانا ، سبھی نیکی کے زمرے میں شمار ہوتے ہیں۔

    اگر ہم روزانہ اپنے ماں باپ کے ساتھ نیکی کریں تو ہر روز ہمارے اعمال نامے میں نیکیاں جمع ہوتی رہیں گی۔ اور یہی نیکیاں ہمیں جنت کا حقدار بنانے میں بنیادی کردار ادا کریں گی۔

    2۔ لفظ اف نہ کہیں:

    ذرا غور فرمائیے کہ انسان کو سب سے ہلکی چوٹ کسی پھول کو توڑتے ہوئے کانٹا چبھ جانے سے لگتی ہے اور خود بخود لفظ اف نکل جاتاہے۔ دوسرے نہاتے ہوئے ذیادہ گرم پانی کے نیچے کھڑا ہون پر ، لفظ اف نکلتا ہے یا زیادہ ٹھنڈا (یخ) پانی جسم پہ پڑجائے تو بھی لفظ اف ہی نکلتا ہے۔

    یہ ایسی چوٹیں ہیں جو ہمارے جسم کو کوئی نقصان نہیں پہنچاتیں۔ بلکہ ہماری فطری استطاعت کے برخلاف ہوتی ہیں۔ جسے ہم قبول نہیں کرسکتے۔

    اس کا مطلب یہ ہوا کہ انسان کو اپنے والدین سے بات کرتے ہوئے اور ان سے معاملات نبٹاتے ہوئے بہت سنبھل کر گفتگو کرنا چاہیے اور ان کے ادب و احترام میں حد درجہ محتاط ہونا چاہیے کہ ہماری کوئی بات یا عمل جس میں ہمارا ذرا سا بھی فائدہ ہوسکتا ہو یا ہماری بیوی اور بچوں کی کوئی خواہش کار فرما ہو یا مدنظر ہو اسے پورا کرنے کے لئے اپنے والدین سے ایسا تقاضا نہ کریں یا ان پہ پریشر نہ ڈالیں کہ انھیں اتنی سی بھی تکلیف ہوکہ وہ اف کہہ دیں۔

    3۔ والدین کو جھڑکنے سے منع کیا ہے:

    آپ سب جانتے ہیں کہ جب بھی کوئی انسان جان بوجھ کر یا بھولے سے کسی غلطی کا مرتکب ہوتو ہم اسے فوراً جھڑکنا شروع کردیتے ہیں۔ حالانکہ جو آپ کے قربت والے ہوں، آپ کو چاہنے والے ہوں، آپ کی عزت کرنے والے ہوں، آپ کے دوست ہوں یا آپ کے ملازم ہوں، کوئی بھی دل سے آپ کا نقصان نہیں چاہتا ۔ اگر کوئی بات ایسی ہوگئی جو فوری طور پر آپ کو سمجھ نہیں آسکی یا بظاہر آپ کو غلطی لگتی ہے۔ اس پہ بھی فوری ردعمل سے بہتر ہے کہ ٹھنڈے دل سے معاملے کو سمجھنے کی کوشش کیجئے اور ایسا کوئی اقدام یا عمل نہ کیجئے جو کسی کے دل کو چوٹ پہنچائے۔

    اور یہ کام اگر والدین کی وجہ سے ہوجائے تو پھر اپنے غصے اور بھڑکتے ہوئے جذبات کو اللہ تعالی کی خاطر روک کے رکھو۔ کہیں ایسا نہ ہوجائے کہ آپ اپنے والدین کو جھڑک دیں اور اللہ تعالی کے عذاب کا سامنا کریں۔

    4۔ والدین سے ادب سے بات کریں:

    اللہ تعالی نے اولاد کو اپنے والدین سے گفتگو یا بات کرتے ہوئے ادب کا لحاظ رکھنے کا حکم دیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب بھی ہمیں اپنے والدین سے گفتگو کرنا ہو تو پہلے اپنے دل و دماغ میں ان کی حیثیت اپنے باس، اپنے اعلی آفیسر ، اپنی کمپنی کے مالک یا سربراہ مملکت سے برتر تصور کرنا چاہیے تاکہ ان سے نہایت ادب والے، دھیمے لہجے، شائستگی اور محبت پیار سے بات کریں۔اور انھیں ان کے مرتبے کا پورا مان دیا جائے تاکہ وہ کھلے دل اور اطمینان سے آپ کی بات سن سکیں اور سچائی سے اس کا جواب دیں۔

    انسان کتنا بھی پڑھا لکھا ہوجائے، کسی بھی مقام پہ پہنچ جائے اسے یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اپنے والدین کو اپنے برابر یا اپنے سے کمتر سمجھ کر گفتگو کرے۔ اللہ تعالی نے اس کے والدین کو اسی کا والدین منتخب کیا ہے ، جسے تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔ اس لئے ماں باپ کو کبھی اپنی حیثیت سے موازنہ نہ کیجئے۔جو اس اصول کو توڑے گا اسے اللہ تعالی کے غضب سے ڈرنا چاہیے۔

    قرآن مجید میں سورۃ الاسراء آیت 24 میں اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ :

    وَاخْفِضْ لَـهُمَا جَنَاحَ الـذُّلِّ مِنَ الرَّحْـمَةِ وَقُلْ رَّبِّ ارْحَـمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِىْ صَغِيْـرًا۔

    اور ان کے سامنے
    شفقت سے عاجزی کے ساتھ جھکے رہو اور کہو اے میرے رب جس طرح انہوں نے مجھےبچپن سے پالا ہے اسی طرح تو بھی ان پر رحم فرما۔

    اللہ تعالی نے اس آیت میں اولاد کو والدین کے لئے 3 احکام دیئے ہیں اور 1 حکم والدین کے حسن سلوک کا ذکر کیا ہے اور 1 دعا کی درخواست کے لئے کہا ہے۔

    1. ماں باپ کے ساتھ شفقت سے پیش آنا۔
    2. ماں باپ کے سامنے عاجزی دکھانا۔
    3. ماں باپ کے سامنے عقیدت سے جھکنا۔
    4. بچپن سے پالا یعنی مشکل اور نازک دور۔
    5. اللہ تعالی سے رحم کی دعا۔


    1۔ ماں باپ کے ساتھ شفقت سے پیش آنا۔

    اولاد کو ماں باپ کے لئے اللہ تعالی کا حکم ہے کہ دونوں سے شفقت سے پیشں آئیں۔ شفقت کا مطلب ہے الفت، پیار، عنایت، لطف، محبت، مہربانی اور ہمدردی۔

    یہ تمام الفاظ ان رشتوں اور ان تعلقات کے لئے مخصوص ہوتے ہیں جو ہمارے دل کے نہاں خانوں میں بستے ہیں اور ہم ان کو اس طرح فریفتہ ہوکر چاہتے ہیں کہ ان سے شفقت سے پیش آتے ہیں۔ ان سے ہمدردی کرتے ہیں ان سے لطف و پیار کرتے ہیں۔ اور دل میں یہ ڈر بھی ہوتا ہے کہ کہیں وہ ہماری درشتگی سے ناراض نہ ہوجائیں۔

    کیا ہم اپنے والدین کو واقعی اسی انداز سے چاہتے ہیں اور اسی طرح محترم سمجھتے ہیں جیسے اللہ تعالی کا حکم ہے؟

    2۔ ماں باپ کے سامنے عاجزی دکھانا:

    اس آیت میں اللہ تعالی نے دوسرا حکم یہ دیا ہے کہ اولاد اپنے والدین کے سامنے عاجزی دکھائے۔

    عاجزی کے معنی ہیں بے بسی، بے چارگی، نیاز مندی، انکساری، خاکساری، درماندگی، ضعف، عجز، عجز و انکسار، فدویت، فروتنی، مجبوری، معذوری، منت، ناچاری، ناکامی، کمزوری وغیرہ۔

    اللہ تعالی حق اور سچ ہیں۔ اللہ تعالی کے بیان کردہ الفاظ اپنے اندر ایک حقیقت رکھتے ہیں اور مبالغہ ختم کرتے ہیں۔

    اللہ تعالی نے فرمایا کہ انسان کی اولاد اپنے والدین کے سامنے عاجزی دکھائیں۔ یہ وہ سچائی ہے کہ جس طرح اولاد اپنے بچپن میں عاجز اور مجبور تھی۔ تب والدین سے دست شفقت وصول کرتی رہی اور آج اگرچہ وہی اولاد جسمانی طور پر اپنے والدین سے زیادہ قوی ہیں۔ لیکن اللہ تعالی کی نظر میں والدین کے روحانی مقام اور قدرت کی طرف سے عطیہ کردہ سماجی برتری میں ذرا بھر بھی کوئی فرق نہیں آیا۔ بلکہ آج بھی والدین اسی قدر طاقت اور قوت رکھتے ہیں کہ اپنی اولاد کے لئے اللہ تعالی کے حضور اپنی گذارشات کے ذریعے اپنی اولاد کی کامیابی اور کامرانی طلب کرسکیں۔ والدین کی دعاؤں کو رب کائنات بہت جلد قبولیات کا درجہ عنایت فرماتے ہیں۔

    اولاد کی اکثر کامیابیاں والدین کی مناجات اور دعاؤں کی مرہون منت ہیں۔اور اللہ تعالی نے والدین کو وہ مقام عطا کیا ہے اللہ تعالی والدین کی دعاؤں کوشرف قبولیت دیتے ہیں۔ ایسی اولاد جو والدین کی دعاؤں سے محروم ہے اسے رسوائی اور آزمائشوں کا سامنا رہتاہے۔

    3۔ ماں باپ کے سامنے عقیدت سے جھکنا۔

    سورۃ الاسراء کی آیت نمبر 24 میں تیسرا حکم جھکنا ہے۔ یہ جھکنا صرف تعظیم اور عقیدت کے لئے ہے اس میں عبودیت کا کوئی عنصر شامل نہیں۔

    لفظ جھکنا سے مراد ہے اطاعت اختیار کرنا، نیچا ہونا اور شرماجانا۔

    آیت میں الفاظ ہیں کہ شفقت اور عاجزی کے ساتھ جھکے رہو۔ان الفاظ کے جامع اور واضح معانی یہ ہے کہ والدین کے سامنے جب حاضر ہوں تو نہایت مہربانی اور کمزوری کے ساتھ نیچے ہوکر پیش ہوں۔

    4۔ بچپن سے پالا۔

    آیت میں بیان ہوا ہے کہ :-

    اور کہو اے میرے رب جس طرح انہوں نے مجھے
    بچپن سے پالا ہے

    انسانی بچپن کی پرورش نہایت صبر آزما اور مشکل کام ہے۔ جب بچہ نا سمجھ ہوتا ہے اور گفتگو کے قابل نہیں ہوتا۔ بار بار ضد کرتا ہے اور روتا ہے اور چیختا و چلاتا ہے۔ لیکن ایسی صورت حال میں بھی والدین نہایت صبر سے اپنے اعصاب پر قابو رکھتے ہوئے بچے کی ضروریات پوری کرتے ہیں اور اس کے ناروا رویہ کو خندہ پیشانی سے برداشت کرتے ہیں۔

    5۔ اللہ تعالی سے رحم کی دعا۔

    آیت میں ذکر ہوا ہے کہ کہو اے میرے رب جس طرح انہوں نے مجھےبچپن سے پالا ہے اسی طرح تو بھی ان پر رحم فرما۔

    ہمارے والدین نے ہمارے بچپن میں ہم پہ رحم کیا یا الہی میں اس قابل نہیں اور نا ہی ایسے رحم کی استطاعت رکھتا ہوں۔ یا خدائے بزرگ و برتر اپنے رحم و کرم اور فضل و کرم سے ہمارے والدین پہ رحم فرما اور ان کی مدد فرما۔

    نوٹ: مندرجہ بالا تحریر میری آئندہ کتاب غوریان کے مضمون والدین سے لیا گیا اقتباس ہے
     
    آصف احمد بھٹی نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں