جن کو سوجھ بوجھ ہوتی ہے وہ کبھی کچھ نہیں پاتے، ہمیشہ بھٹکے رہتے ہیں، زندگی کے معانی کبھی ان کی سمجھ میں نہیں آتے، بس اس دنیا میں احمق لوگوں کے مزے ہیں، وہ ہمیشہ پا لیتے ہیں، کیونکہ وہ پانے کا مطلب ہی نہیں سمجھتے۔۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ عقل والے سوچتے رہ جاتے ہیں اور عشق والے پا لیتے ہیں۔ اب کوئی انہیں احمق کہے یا کچھ اور۔ اصل بات تو یہ ہے کہ عقل والے مزید سے مزید کی تلاش میں رہتے ہیں اور عشق والے قلیل پر قناعت کر لیتے ہیں۔
ہما جی! آپ کی بات بجا لیکن آپ نے تو میری بات کا رخ ہی بدل ڈالا، یہ عقل و عشق کا فلسفہ کہاں سے آ گیا؟ واللہ ہم نے عشق کو احمق نہیں کہا۔
تو پھران سیانے لوگوں کے کہے کو کیا کہئے جو کہتے ہیں کہ جو پاتے ہیں وہ ؛؛ سوتے ؛؛ ہیں !!! جو سوتے ہیں وہ ؛؛کھوتے ؛؛ ہیں !!!
جبار جی آپ اپنی اتنی گہری بات کی تشریح کرنا پسند کریں گے۔ دوسرے دوستوں نے جو جوابات ارسال کیے ہیں ان سے تو بات کا رخ ہی بدل گیا ہے۔ والسلام
پومی بھائی! سادہ سی بات ہے کہ جو لوگ سوجھ بوجھ رکھتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ وہ جتنا بھی علم حاصل کر لیں یا جتنا بھی زندگی کو جان لیں لیکن وہ کبھی خود کو مکمل نہیںکر پائیں گے، کیونکہ انسان ماں کی گود سے قبر کی کوکھ تک کچھ نہ کچھ سیکھتا ہی رہتا ہے۔ اِس کے بر عکس وہ لوگ جن کو سوجھ بوجھ نہ ہو وہ سمجھتے ہیں کہ اُنہیں ساری سمجھ ہے، وہ ہمیشہ خود کو مکمل سمجھتے ہیں، کیوں کہ وہ کاملیت کا مطلب ہی نہیں سمجھتے۔ (کوئی انسان کامل نہیں سوائے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے)
جبار جی آپ اپنی اتنی گہری بات کی تشریح کرنا پسند کریں گے۔ دوسرے دوستوں نے جو جوابات ارسال کیے ہیں ان سے تو بات کا رخ ہی بدل گیا ہے۔ والسلام[/quote:1bvh2ndv] ناتجربہ کاری سے واعظ کی یہ باتیں ہیں اس رنگ کو کیا جانے پوچھو تو کبھی پی ہے؟
پومی بھائی! سادہ سی بات ہے کہ جو لوگ سوجھ بوجھ رکھتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ وہ جتنا بھی علم حاصل کر لیں یا جتنا بھی زندگی کو جان لیں لیکن وہ کبھی خود کو مکمل نہیںکر پائیں گے، کیونکہ انسان ماں کی گود سے قبر کی کوکھ تک کچھ نہ کچھ سیکھتا ہی رہتا ہے۔ اِس کے بر عکس وہ لوگ جن کو سوجھ بوجھ نہ ہو وہ سمجھتے ہیں کہ اُنہیں ساری سمجھ ہے، وہ ہمیشہ خود کو مکمل سمجھتے ہیں، کیوں کہ وہ کاملیت کا مطلب ہی نہیں سمجھتے۔ (کوئی انسان کامل نہیں سوائے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے)[/quote:150g4x1t] بے شک کوئی انسان کامل نہیں سوائے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے
دراصل عبد الجبار بھائی نے بات بے سیاق و سباق شروع کی تھی ۔ اس لیے سمجھنا آسان نہ تھا۔ اگر بات کا پسِ منظر سامنے ہو تو پھر ایسے فلسفے سمجھنا آسان ہوتا ہے۔ جیسا کہ بعد میں عبد الجبار بھائی نے خود ہی تشریح فرما کر بات کو سمجھایا ہے۔
عبد الجبار بھائی کے بات شروع کرنے کے انداز سے مجھے ایک لطیفہ سا یاد آ گیا ۔ بلا تشبیہہ و بلا مثال عرض کرتا ہوں ایک جھلا سا آدمی کسی گلی کی نکر پر کھڑا کہہ رہا تھا ۔“چوبیس، چوبیس، چوبیس، چوبیس۔۔۔“ کوئی سیانا اسکے قریب سے گذرتے ہوئے کہنے لگا “اوئے پاگل یہ کیا چوبیس چوبیس کی رٹ لگا رکھی ہے؟ کوئی اور کام نہیں تمھیںکرنے کو۔۔۔ وغیرہ وغیرہ “ لیکن وہ پھر بھی باز نہ آیا اور سپاٹ لہجے میں کہتا رہا “چوبیس، چوبیس، چوبیس۔۔“ سیانا آدمی سر جھٹک کر پاگل آدمی کے پاگل پن پر ہنستا ہوا آگے بڑھ گیا کہ یہ تو پاگل ہے میں سیانا ہوںمیں کیوںاس سے الجھوں۔۔۔۔۔۔ جونہی وہ گلی کی نکر مڑا عین اسی جگہ پر بغیر ڈھکنے کے گٹر تھا وہ سیانا آدمی اس میں گر گیا۔ گھڑام کی آواز سنتے ہی پاگل آدمی کہنا شروع ہو گیا۔ “ پچیس، پچیس، پچیس، پچیس۔۔۔۔“ :lol:
فائزہ جی کو اس لڑی میں کوئی بات اچھی لگی ۔ گویا اس لڑی کا مقصد پورا ہو گیا۔۔۔ کیونکہ لڑی کا عنوان ہی “اچھی بات“ہے