کوئی تو محبت میں مجھے صبر ذرا دے تیری تو مثل وہ ہے نہ میں دوں نہ خدا دے بے جرم کرے قتل وہ قاتل ہے ہمارا یہ شیوہ ہے اُس کا کہ خطا پر نہ سزا دے دولت جو خدائی کی ملے کچھ نہیں پروا بچھڑے ہوئے معشوق کو اللہ ملا دے کرتا ہے رقیب اُن کی شکایت مرے آگے ڈرتا ہوں کہ مِل کر نہ کہیں مجھ کو دغا دے پھٹ جائے اگر دل تو کبھی مل نہیں سکتا یہ چاک نہیں وہ جو کوئی سی کے ملا دے تیرے تو برسنے سے ترستا ہے مرا دل اے ابر کبھی میری لگی کو بھی بجھا دے یہ دل کا لگانا تو نہیں جس سے ہو نفرت تو بھی تو جنازے کو مرے ہاتھ لگا دے ان جلوہ فروشوں سے تو سودا نہیں بنتا جب مول نہ ٹھہرے ، کوئی کیا لے کوئی کیا دے کیا کیا نہ کیا عشق میں ، اپنی سی بہت کی تدبیر سے کیا ہو جسے تقدیر مٹا دے میں وصل کا سائل ہوں، جھڑکنا نہیں اچھا یا اور سے دلوا کسی محتاج کو یا دے وہ لطف وہ احساں کر، اے چرخ مرے ساتھ دوں میں بھی دعا تجھ کو مرا دل بھی دعا دے
انتہا صبر آزمائی کی ہے درازی شبِ جدائی کی ہے بُرائی نصیب کی کہ مجھے تم سے اُمید ہے بھلائی کی نقش ہے سنگِ آستاں پہ ترے داستاں اپنی جبہ سائی کی ہے فغاں بعد امتحانِ فغاں پھر شکایت ہے نارسائی کی کیا نہ کرتا وصال شادی مرگ تم نے کیوں مجھ سے بیوفائی کی راز کُھلتے گئے مرے سب پر جس قدر اُس نے خودنمائی کی کتنے عاجز ہیں ہم کہ پاتے ہیں بندے بندے میں بُو خدائی کی رہ گئیں دل میں حسرتیں سالک آ گئی عمر پارسائی کی
تمہاری یاد سے جب ہم گزرنے لگتے ہیں جو کوئی کام نہ ہو بس وہ کرنے لگتے ہیں تمہارے آئینۂ ذات کے تصور میں ہم اپنے آئینے آگے سنورنے لگتے ہیں تمہارے کوچۂ جاں بخش کے قلندر بھی عجیب لوگ ہیں ہر لمحہ مرنے لگتے ہیں ہم اپنی حالتِ بے حالتی اذیت میں نہ جانے کس کو کسے یاد کرنے لگتے ہیں بہت اُداس ہوں میں غم سدا نہیں رہتا بہت اداس ہوں میں زخم بھرنے لگتے ہیں انہیں میں تیری تمنا کا فن سکھاتا ہوں جو لوگ تیری تمنا سے ڈرنے لگتے ہیں یہاں میں ذکر نہیں کر رہا مکینوں کا کبھی کبھی در و دیوار مرنے لگتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ جون ایلیا
میرے صبر کا اور امتحان نہ لو آخری دموں پہ ہے حوصلہ میرا جو چاہو دے دو سزا محبت کی مگر نہ چھینو مجھ سے آسرا میرا
بنادیں گے تمہیں اپنا ذرا تم صبر تو کرلو مجھے دنیا سے لڑنا ہے ذرا تم صبر تو کرلو تمہارے بن کسی کا سوچنا ممکن نہیں جاناں یہ جیون تم بن ادھُورا ہے ذرا تم صبر تو کرلو یہ دنیا چھوڑدے مجھ کو مجھے پروانہیں اس کی فقط تم کو ہی پانا ہے ذرا تم صبر تو کرلو تم اپنی دل کی بستی میں مجھے آباد ہی رکھنا بہت برداشت ہے مجھ میں ذرا تم صبر تو کرلو میرے چہرے پہ زخموں کی لڑی آباد ہے اب تک مجھے زخموں کو سینا ہے ذرا تم صبر تو کرلو ملن ممکن نہیں جاناں اگر اس فانی دنیا میں ذرا محشر تو آنے دو ذرا تم صبر تو کرلو تمہارا تھا تمہارا ہوں تمہارا ہی رہوں گا میں یاسر کو آزماؤ نا ذرا تم صبر تو کرلو