1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

متحدہ عرب امارات نے پوری دُنیا کے مسلمانوں کا سر شرم سے جھکا دیا ہے

'خبریں' میں موضوعات آغاز کردہ از زنیرہ عقیل, ‏19 فروری 2018۔

  1. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    رسول خداﷺ نے 1400 سال پہلے سرزمین عرب کو بُتوں سے پاک کیا تھا، دبئی میں نریندرا مُودی کے ہاتھوں مندر کے افتتاح نے صرف سرزمین عرب کا ہی نہیں بلکہ پوری دُنیا کے مسلمانوں کا سر شرم سے جھکا دیا ہے

    بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے متحدہ عرب امارات کے دار الحکومت ابوظہبی میں پہلے ہندو مندر کی تعمیر کا افتتاح کر دیا۔ مودی نے مندر کی تعمیر کے آغاز پر متحدہ عرب امارات کے ولی عہد کا شکریہ بھی ادا کیا۔ یہ مشر ق وسطیٰ میں بھی پہلا ہندو مندر ہوگا
     
  2. ناصر إقبال
    آف لائن

    ناصر إقبال ممبر

    شمولیت:
    ‏6 دسمبر 2017
    پیغامات:
    1,670
    موصول پسندیدگیاں:
    346
    ملک کا جھنڈا:
    کوئی شرم’ کوئی حیا کوئی آنکھ کا پردہ کچھ بھی نہیں رہا۔ سب کچھ بے نقاب کردیا‘ رہا سہا بھرم بھی جاتا رہا۔ مسلمانوں کی اکثریت غیر حاضر خالی خولی نعرے بازی، بن لڑے غازی بن کر اپنے آپ کو بہلا رہے ہیں۔
     
  3. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    کیا اسلامی ریاست میں غیرمسلموں کی عبادت گاہیں غیرشرعی اور ممنوع ہیں ؟
     
  4. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    کیا نبی پاک ﷺ نے بتوں سے عربوں کو پاک نہیں کیا تھا؟
    جس سر زمین سے بتوں کو نکال باہر کیا تھا اسی سر زمین پر بتوں کو واپس لانا شرعی ہے؟
    ایک مسلمان کا اپنے خرچے پر بت خانہ بنوانا شرعی ہے؟
     
  5. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    اسلامی ریاست میں اقلیتوں کے حقوق ہوتے ہیں لیکن مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ مندر کے لیے جگہ دے اور اس کی تعمیر میں حصہ لے
     
  6. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    اپنی اس مفتیانہ رائے پر کوئی نصِ شرعی کا حوالہ بھی عنایت فرما دیں تو بڑی عنایت ہوگی ؟
    سیچوئشین پیشِ نظر رہے کہ اگر اسلامی ریاست میں اقلیتیوں کی کثیرتعداد ہو وہ اپنا ذمہ یعنی ٹیکسز وغیرہ ادا کررہے ہوں اور اپنی مذہبی آزادی کے مطابق اپنی عبادت گاہ بنانا چاہیں تو شریعت کیا کہتی ہے؟
    پیشگی شکریہ۔
     
  7. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    محترم نعیم بھائی مفتیانہ رائے (فقرہءِ تنز) پر نص شرعی کے دو سوالات آپ نے کیے ہیں
    پہلے سوال کے لیے میرا جواب یہ ہے کہ کفروشرک پر تعاون کا اجرو ثواب آپ قرآن و حدیث سے ثابت کردیں تو مسجد و جہاد کے لیے مسلمان اگر خرچ کرتا ہے تو اس کی فضیلت میں بیان کر دونگی.

    جس طرح مشرکانہ عمل کو انجام دینا بعض صورتوں میں کفر یا گناہ ہے ، اسی طرح شرک کے کاموں میں تعاون کرنا حرام ہے ،مندر کی تعمیر کا مقصد ہندو طریقہ کے مطابق عبادت کرنا ہے اور یہ سب کو معلوم ہے ہندو بتوں کی پوجا کرتے ہیں اور اللہ کے شریک مانتے ہیں تو مندر میں تعاون کرنا ان کے عقائد کو تقویت دینا ہے اور مسجد کی تعمیر جس طرح صدقہ جاریہ ہے اسی طرح وسائل کفر پیدا کرنا اور مندر میں جب تک کفر و شرک ہوگا تو آپ بتائیں کون سا ثواب نامہ اعمال میں لکھا جائےگا؟

    مندر کے تعمیر میں حصہ لینا کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں ہے ؛ البتہ اگرمندر کے ساتھ انسانی خدمت کا کوئی ادارہ ہو اوراس کی مدد کی جائے تو اس کی گنجائش ہے

    ( وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلا تَعَاوَنُوا عَلَى الإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ)
    ترجمہ: نیکی اور تقوی کے کاموں میں ایک دوسرے کا تعاون کرو، برائی اور زیادتی کے کاموں میں باہمی تعاون مت کرو، اور اللہ تعالی سے ڈرو، بیشک اللہ تعالی سخت عذاب دینے والا ہے۔ [المائدة :2]


    (قَوْلُهُ : وَأَنْ يَكُونَ قُرْبَةً فِي ذَاتِهِ ) أَيْ بِأَنْ يَكُونَ مِنْ حَيْثُ النَّظَرُ إلَى ذَاتِهِ وَصُورَتِهِ قُرْبَةً ، وَالْمُرَادُ أَنْ يَحْكُمَ الشَّرْعُ بِأَنَّهُ لَوْ صَدَرَ مِنْ مُسْلِمٍ يَكُونُ قُرْبَةً حَمْلًا عَلَى أَنَّهُ قَصَدَ الْقُرْبَةَ۔
    (الدر المختار علي الرد كتاب الوقف۱۷۵/۱۷)


    إِنَّ ٱلَّذِينَ يَكْفُرُ‌ونَ بِٱللَّهِ وَرُ‌سُلِهِۦ وَيُرِ‌يدُونَ أَن يُفَرِّ‌قُوا بَيْنَ ٱللَّهِ وَرُ‌سُلِهِۦ وَيَقُولُونَ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَنَكْفُرُ‌ بِبَعْضٍ وَيُرِ‌يدُونَ أَن يَتَّخِذُوا بَيْنَ ذَ‌ٰلِكَ سَبِيلًا ﴿١٥٠﴾ أُولَـٰٓئِكَ هُمُ ٱلْكَـٰفِرُ‌ونَ حَقًّا ۚ وَأَعْتَدْنَا لِلْكَـٰفِرِ‌ينَ عَذَابًا مُّهِينًا ﴿١٥١﴾

    سورۃ النساء
    ''جو لوگ اللہ اور اس کے رسولوں کے ساتھ کفر کرتے ہیں، اور چاہتے ہیں کہ اللہ اور اس کے رسولوں کے درمیان تفریق کریں اور کہتے ہیں کہ ہم بعض کو مانیں گے اور بعض کو نہیں مانیں گے اور کفر وایمان کے درمیان ایک راہ نکالنے کا ارادہ رکھتے ہیں، وہ سب پکے کافر ہیں اور ایسے کافروں کے لئے ہم نے ایسی ہولناک سزا تیار کررکھی ہے جو اُنہیں ذلیل و رسوا کردے گی۔

    دوسرے سوال کا جواب
    تعصب،ہٹ دھرمی اور اسلام کے ساتھ اندھی دشمنی سے بالاتر ہوکر تاریخ کا خصوصی مطالعہ کرنے سے یقینا یہ حقیقت واضح ہوجائے گی کہ اس کرۂ ارض پر ایسا کوئی مذہب اور شریعت موجود نہیں ہے جس نے انسانی حقوق کو اس جامعیت و تفصیل اور وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہو اور اس کی اس قدر خوبصورت اورسچی تصویر کشی ہو، جیسا کہ اسلام نے کی ہے

    غیر مسلموں کے حقوق کے تحفظ کی اس سے بڑھ کر مثال کیا ہوسکتی ہے کہ اسلام ان سے گفتگواور مباحثہ کے دوران بھی ان کی عزتِ نفس اور ان کے جذبات کا خیال رکھنے کی تلقین کرتا ہے
    وَلَا تُجَـٰدِلُوٓا أَهْلَ ٱلْكِتَـٰبِ إِلَّا بِٱلَّتِى هِىَ أَحْسَنُ إِلَّا ٱلَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْهُمْ ۖ
    ''اور اہل کتاب سے بحث نہ کرو مگر عمدہ طریقہ سے، سوائے ان لوگوں کے جو ان میں سے ظالم ہوں


    انسان کائنات کی افضل ترین مخلوق ہے۔ قرآن کی گواہی ملاحظہ ہو:
    ٱللَّهُ ٱلَّذِى خَلَقَ ٱلسَّمَـٰوَ‌ٰتِ وَٱلْأَرْ‌ضَ وَأَنزَلَ مِنَ ٱلسَّمَآءِ مَآءً فَأَخْرَ‌جَ بِهِۦ مِنَ ٱلثَّمَرَ‌ٰ‌تِ رِ‌زْقًا لَّكُمْ ۖ وَسَخَّرَ‌ لَكُمُ ٱلْفُلْكَ لِتَجْرِ‌ىَ فِى ٱلْبَحْرِ‌ بِأَمْرِ‌هِۦ ۖ وَسَخَّرَ‌ لَكُمُ ٱلْأَنْهَـٰرَ‌ ﴿٣٢﴾ وَسَخَّرَ‌ لَكُمُ ٱلشَّمْسَ وَٱلْقَمَرَ‌ دَآئِبَيْنِ ۖ وَسَخَّرَ‌ لَكُمُ ٱلَّيْلَ وَٱلنَّهَارَ‌ ﴿٣٣﴾وَءَاتَىٰكُم مِّن كُلِّ مَا سَأَلْتُمُوهُ ۚ وَإِن تَعُدُّوا نِعْمَتَ ٱللَّهِ لَا تُحْصُوهَآ ۗ إِنَّ ٱلْإِنسَـٰنَ لَظَلُومٌ كَفَّارٌ‌﴿٣٤﴾...سورۃ ابراھیم
    ''اللہ وہی ہے جس نے زمین اور آسمان کو پیدا کیااور آسمان سے پانی اُتارا، پھر اس کے ذریعہ سے طرح طرح کے پھل پیدا کرکے تمہاری رزق رسانی کا سامان کیا، اور تمہارے لئے کشتی کو مسخر کیا کہ سمندر میں اس کے حکم سے چلے، نیز دریاؤں کو تمہارے لئے مسخر کیا، اور سورج اور چاند کو تمہارے لئے مسخر کیا کہ مسلسل چلے جارہے ہیں اور تمہارے لئے دن اور رات کو مسخر کیا اور اِس نے تمہیں وہ سب کچھ عطا کردیا جو تم نے مانگا، اگر تم اس کی نعمتوں کو شمار کرنا چاہو تو نہیں کرسکتے ۔حقیقت یہ ہے کہ انسان بڑا ہی بے انصاف اور ناشکرا ہے۔''

    انسان کے اس بلند مقام کے پیش نظر جو اللہ نے اسے عطا کیا اس کی عزت و شرف کا تحفظ بحیثیت ِانسان، خواہ وہ مسلم ہو یا غیر مسلم، انسان کا بنیادی حق ہے اور ہمارا دعویٰ ہے کہ احترام آدمیت کی جیسی صحیح اور مؤثر تعلیم اسلام نے دی، انسان کی عزت و شرف کا جیسا تحفظ اسلام نے کیا ہے، حتیٰ کہ غیر مسلموں کے لئے بھی، دنیا کا کوئی مذہب اس لحاظ سے اس کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ دنیا کی تمام قومیں اور تمام انسان اس کی نگاہ میں ایک ہی حیثیت رکھتے ہیں، ان کے حقوق یکساں ہیں کیونکہ بشریت کی اصل بنیاد ایک ہے۔ قرآنِ کریم نے جابجا مختلف پیرایوں میں اس تعلیم کو دل نشین کرنے کی کوشش کی ہے۔ اللہ فرماتے ہیں :
    يَـٰٓأَيُّهَا ٱلنَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَـٰكُم مِّن ذَكَرٍ‌ۢ وَأُنثَىٰ وَجَعَلْنَـٰكُمْ شُعُوبًا وَقَبَآئِلَ لِتَعَارَ‌فُوٓا ۚ إِنَّ أَكْرَ‌مَكُمْ عِندَ ٱللَّهِ أَتْقَىٰكُمْ ۚ إِنَّ ٱللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ‌﴿١٣﴾...سورۃ الحجرات
    ''لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد اور عورت سے پیدا کیا اور تمہاری قومیں اور برادریاں بنائیں تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو، بے شک اللہ کے نزدیک تم میں سب سے عزت والا وہ شخص ہے جو تم میں سب سے زیادہ پرہیزگار ہے۔''

    اور یہ تاریخی حقیقت ہے کہ مسلمانوں نے ہمیشہ غیر مسلموں کی خوبیوں کا اعتراف کیا ہے اور ان کی اچھی چیزوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھا ہے۔ اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ جلیل القدر صحابی حضرت عمرو بن العاص ؓکے سامنے رومیوں کا تذکرہ کیا گیا تو اُنہوں نے فرمایا:
    إن فیھم لخصالاً أربعًا: إنھم لأحلم الناس عند فتنة وأسرعھم إفاقة بعد مصیبة،وأوشکھم کرة بعد فرة،وخیرھم لمسکین ویتیم وضعیف، وخامسة حسنة جمیلة: وأمنعھم من ظلم الملوك16
    ''ان میں چار خوبیاں پائی جاتی ہیں: یہ لوگ فتنہ اور آزمائش کے وقت سب لوگوں سے زیادہ حلیم اور بردبار واقع ہوئے ہیں اور یہ مصیبت کے بعد جلد اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور بھاگنے کے بعد پلٹ کر حملہ میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ اور مسکین، یتیم اور کمزور کے لئے سب سے بڑھ کر خیرخواہ ہیں اوران کی پانچویں شاندار خوبی یہ ہے کہ بادشاہوں کو ظلم و ستم سے روکنے میں طاق ہیں۔''
     
    Last edited: ‏21 فروری 2018
    نعیم نے اسے پسند کیا ہے۔
  8. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    محترمہ میں نے فقرہء طنز نہیں بولا۔ آپکے جوابات چونکہ بالعموم رائے سے زیادہ فتوی (حتمی فیصلہ) ہی کی صورت میں ہوتے ہیں جیسا کہ مندرجہ بالا جواب بھی ہے۔ اس لیے میں "مفتیانہ رائے" کی ترکیب استعمال کی۔
    اور ہاں اوپر ساری دلیلیں برحق ہے۔۔ لیکن برمحل نہیں ۔۔۔ چونکہ مسئلہ بالا کی نوعیت ہی مختلف ہے۔ نوعیت "اسلامی ریاست میں غیرمسلموں ذمی شہریوں کے حقوق" ہے۔
    جبکہ دلائل بالعموم مسلمان بمقابلہ کافر کے پسِ منظر میں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں قرآن و حدیث کے اطلاق کے لیے دین اسلام کے حتی الوسع وسیع علوم رکھنے والے فقہائے عظام و آئمہ کرام اور تاریخ اسلام پر گہری نظر رکھنے والے اہلِ علم سے حتمی رائے لینا چاہیے-
    اس لیے براہ کرم غلط المبحث کی بجائے نفسِ سوال پر غور فرمائیے اور اسی کا جواب عنایت فرمائیے تاکہ واضح ہوسکے کہ بطوراسلامی ریاست، غیرمسلم اقلیتوں کےلیے مندر، گرجا گھر وغیرہ کا قیام جائز ہے یا ناجائز؟
     
    Last edited: ‏23 فروری 2018
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  9. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    محترم نعیم صاحب
    آپ کے اسلامی ریاست کے حوالے سے سوالات کو مد نظر رکھ کر ہی دلائل دیے ہیں اگر آپ حسبِ سابق فتویٰ کا درجہ دینے کی بجائے غورفرمائیں اور کسی انجانی غلطی کی نشاندہی فرمائیں تو مشکور رہونگی

    شہریوں کے حقوق کے حوالے سے اسلام وسیع القلبی کا مظاہرہ کر رہا ہے اور تمام جائز شہری حقوق کی بجا آوری کا حکم دیتا ہے بجلی پانی گیس سیکیورٹی اور اقلیتوں کے لیے مختص فنڈ سے سہولیات کا حصول انکا حق ہے

    اسلام ان تمام حقوق میں،جو کسی مذہبی فریضہ اور عبادت سے متعلق نہ ہوں؛ بلکہ ان کا تعلق ریاست کے نظم و ضبط اور شہریوں کے بنیادی حقوق سے ہو غیرمسلم اقلیتوں اور مسلمانوں کے درمیان عدل و انصاف اور مساوات قائم کرنے کا حکم دیتا ہے۔ قرآن میں ان غیرمسلموں کے ساتھ، جو اسلام اور مسلمانوں سے برسرپیکار نہ ہوں اور نہ ان کے خلاف کسی شازشی سرگرمی میں مبتلا ہوں، خیرخواہی، مروت، حسن سلوک اور رواداری کی ہدایت دی گئی ہے۔

    لاینہٰکم اللّٰہ عن الذین لم یقاتلوکم فی الدین، ولم یخرجوکم من دیارکم․ أن تبروہم وتقسطوا الیہم․ (الممتحنة: ۸)

    اللہ تم کو منع نہیں کرتا ہے ان لوگوں سے جو لڑے نہیں تم سے دین پر اور نکالا نہیں تم کو تمہارے گھروں سے کہ ان سے کرو بھلائی اور انصاف کا سلوک۔


    اسلامی ریاست میں تمام غیرمسلم اقلیتوں اور رعایا کو عقیدہ، مذہب، جان و مال اور عزت و آبرو کے تحفظ کی ضمانت حاصل ہوگی۔ وہ انسانی بنیاد پر شہری آزادی اور بنیادی حقوق میں مسلمانوں کے برابر شریک ہوں گے۔ قانون کی نظر میں سب کے ساتھ یکساں معاملہ کیا جائے گا، بحیثیت انسان کسی کے ساتھ کوئی امتیاز روا نہیں رکھا جائے گا۔ جزیہ قبول کرنے کے بعد ان پر وہی واجبات اور ذمہ داریاں عائد ہوں گی، جو مسلمانوں پر عائد ہیں، انھیں وہی حقوق حاصل ہوں گے جو مسلمانوں کو حاصل ہیں اور ان تمام مراعات و سہولیات کے مستحق ہوں گے، جن کے مسلمان ہیں۔

    ”فان قبلوا الذمة فأعْلِمْہم أن لہم ما للمسلمین وعلیہم ما علی المسلمین“ (بدائع الصنائع، ج:۶، ص: ۶۲)

    اگر وہ ذمہ قبول کرلیں، تو انھیں بتادو کہ جو حقوق و مراعات مسلمانوں کو حاصل ہیں، وہی ان کو بھی حاصل ہوں گی اور جو ذمہ داریاں مسلمانوں پر عائد ہیں وہی ان پر بھی عائد ہوں گی۔


    تحفظ جان:

    جان کے تحفظ میں ایک مسلم اور غیرمسلم دونوں برابر ہیں دونوں کی جان کا یکساں تحفظ و احترام کیا جائے گا اسلامی ریاست کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی غیرمسلم رعایا کی جان کا تحفظ کرے اور انھیں ظلم و زیادتی سے محفوظ رکھے۔ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

    ”من قتل معاہدًا لم یرح رائحة الجنة، وان ریحہا لیوجد من مسیرة أربعین عامًا“ (بخاری شریف کتاب الجہاد، باب اثم من قتل معاہدًا بغیر جرمِ، ج:۱، ص: ۴۴۸)

    جو کسی معاہد کو قتل کرے گا وہ جنت کی خوشبو تک نہیں پائے گا، جب کہ اس کی خوشبو چالیس سال کی مسافت سے بھی محسوس ہوتی ہے۔


    حضرت عمر نے اپنی آخری وصیت میں فرمایا:

    ”میں اپنے بعد ہونے والے خلیفہ کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد و ذمہ کی وصیت کرتا ہوں کہ ذمیوں کے عہد کو وفا کیا جائے، ان کی حفاظت و دفاع میں جنگ کی جائے، اور ان پر ان کی طاقت سے زیادہ بار نہ ڈالا جائے۔“(۱)


    تحفظ مال:

    اسلامی ریاست مسلمانوں کی طرح ذمیوں کے مال وجائیداد کا تحفظ کرے گی، انھیں حق ملکیت سے بے دخل کرے گی نہ ان کی زمینوں اور جائیدادوں پر زبردستی قبضہ، حتیٰ کہ اگر وہ جزیہ نہ دیں، تو اس کے عوض بھی ان کی املاک کو نیلام وغیرہ نہیں کرے گی۔ حضرت علی رضی اللہ عنہہ نے اپنے ایک عامل کو لکھا:

    ”خراج میں ان کا گدھا، ان کی گائے اور ان کے کپڑے ہرگز نہ بیچنا۔“(۲)

    ذمیوں کو مسلمانوں کی طرح خرید و فروخت، صنعت و حرفت اور دوسرے تمام ذرائع معاش کے حقوق حاصل ہوں گے، اس کے علاوہ، وہ شراب اور خنزیر کی خریدوفروخت بھی کرسکتے ہیں۔ نیز انھیں اپنی املاک میں مالکانہ تصرف کرنے کا حق ہوگا، وہ اپنی ملکیت وصیت و ہبہ وغیرہ کے ذریعہ دوسروں کو منتقل بھی کرسکتے ہیں۔ ان کی جائیدادانھیں کے ورثہ میں تقسیم بھی ہوگی، حتیٰ کہ اگر کسی ذمی کے حساب میں جزیہ کا بقایا واجب الادا تھا اور وہ مرگیا تو اس کے ترکہ سے وصول نہیں کیا جائے گا اور نہ اس کے ورثہ پر کوئی دباؤ ڈالا جائے گا۔

    کسی جائز طریقے کے بغیر کسی ذمی کا مال لینا جائز نہیں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

    ”ألا ! لا تحل أموال المعاہدین الا بحقہا“(۳)

    خبردار معاہدین کے اموال حق کے بغیر حلال نہیں ہیں۔


    تحفظِ عزت و آبرو:

    مسلمانوں کی طرح ذمیوں کی عزت وآبرو اور عصمت و عفت کا تحفظ کیاجائے گا، اسلامی ریاست کے کسی شہری کی توہین و تذلیل نہیں کی جائے گی۔ ایک ذمی کی عزت پر حملہ کرنا، اس کی غیبت کرنا، اس کی ذاتی و شخصی زندگی کا تجسس، اس کے راز کو ٹوہنا،اسے مارنا، پیٹنا اور گالی دینا ایسے ہی ناجائز اور حرام ہے، جس طرح ایک مسلمان کے حق میں۔

    ”ویجب کف الأذی عنہ، وتحرم غیبتہ کالمسلم“ (۴)

    اس کو تکلیف دینے سے رکنا واجب ہے اوراس کی غیبت ایسی ہی حرام ہے جیسی کسی مسلمان کی۔


    عدالتی و قانونی تحفظ:

    فوج داری اور دیوانی قانون ومقدمات مسلم اور ذمی دونوں کے لیے یکساں اور مساوی ہیں، جو تعزیرات اور سزائیں مسلمانوں کے لیے ہیں، وہی غیرمسلموں کے لیے بھی ہیں۔ چوری، زنا اور تہمتِ زنا میں دونوں کو ایک ہی سزا دی جائے گی، ان کے درمیان کوئی امتیاز نہیں کیا جائے گا۔ قصاص، دیت اور ضمان میں بھی دونوں برابر ہیں۔ اگر کوئی مسلمان کسی ذمی کو قتل کردے، تواس کو قصاص میں قتل کیاجائے گا۔

    حدیث شریف میں ہے:

    ”دماوٴہم کدمائنا“ (۵)

    ان کے خون ہمارے خون ہی کی طرح ہیں۔


    حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک مسلمان نے ایک ذمی کو قتل کردیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو قصاص میں قتل کرنے کا حکم دیا اور فرمایا:

    ”أنا أحق من وفیٰ بذمتہ“ (۶)

    میں ان لوگوں میں سب سے زیادہ حقدار ہوں جو اپنا وعدہ وفا کرتے ہیں۔


    البتہ ذمیوں کے لیے شراب اور خنزیر کو قانون سے مستثنیٰ کردیاگیا ہے، چنانچہ انھیں خنزیر رکھنے، کھانے اور خرید و فروخت کرنے،اسی طرح شراب بنانے، پینے اور بیچنے کا حق ہے۔

    مذہبی آزادی:

    ذمیوں کو اعتقادات و عبادات اور مذہبی مراسم وشعائر میں مکمل آزادی حاصل ہوگی، ان کے اعتقاد اور مذہبی معاملات سے تعرض نہیں کیا جائے گا، ان کے کنائس، گرجوں، مندروں اور عبادت گاہوں کو منہدم نہیں کیا جائے گا۔

    قرآن نے صاف صاف کہہ دیا:

    لا اکراہ في الدین قد تبین الرشد من الغي (البقرہ)

    دین کے معاملہ میں کوئی جبر واکراہ نہیں ہے، ہدایت گمراہی سے جدا ہوگئی۔


    وہ بستیاں جو امصار المسلمین (اسلامی شہروں) میں داخل نہیں ہیں، ان میں ذمیوں کو صلیب نکالنے، ناقوس اور گھنٹے بجانے اور مذہبی جلوس نکالنے کی آزادی ہوگی، اگر ان کی عبادت گاہیں ٹوٹ پھوٹ جائیں، تو ان کی مرمت اور ان کی جگہوں پر نئی عبادت گاہیں بھی تعمیر کرسکتے ہیں۔ البتہ امصار المسلمین یعنی ان شہروں میں، جو جمعہ عیدین، اقامت حدود اور مذہبی شعائر کی ادائیگی کے لیے مخصوص ہیں، انھیں کھلے عام مذہبی شعائر ادا کرنے اور دینی و قومی جلوس نکالنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ اور نہ وہ ان جگہوں میں نئی عبادت گاہیں تعمیر کرسکتے ہیں۔ البتہ عبادت گاہوں کے اندر انھیں مکمل آزادی حاصل ہوگی۔ اور عبادت گاہوں کی مرمت بھی کرسکتے ہیں۔

    حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہہ کے دور خلافت میں حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہہ نے اہل حیرہ کے لیے جو عہدنامہ لکھا وہ حقوق معاشرت میں مسلم اور غیرمسلم کی ہمسری کی روشن مثال ہے:

    ”اورمیں یہ طے کرتاہوں کہ اگر ذمیوں میں سے کوئی ضعف پیری کی وجہ سے ناکارہ ہوجائے، یا آفت ارضی و سماوی میں سے کسی آفت میں مبتلا ہوجائے، یا ان میں سے کوئی مالدار محتاج ہوجائے اوراس کے اہل مذہب اس کو خیرات دینے لگیں، تو ایسے تمام اشخاص سے جزیہ معاف ہے۔ اور بیت المال ان کی اور ان کی اہل وعیال کی معاش کا کفیل ہے۔ جب تک وہ دارالاسلام میں مقیم رہیں۔“

    اسلامی خزانے سے غیرمسلم محتاجوں کی امداد

    صدقات واجبہ (مثلاً زکوٰة عشر) کے علاوہ بیت المال کے محاصل کا تعلق جس طرح مسلمانوں کی ضروریات و حاجات سے ہے، اسی طرح غیرمسلم ذمیوں کی ضروریات و حاجات سے بھی ہے، ان کے فقراء ومساکین اور دوسرے ضرورت مندوں کے لیے اسلام بغیر کسی تفریق کے وظائف معاش کا سلسلہ قائم کرتا ہے۔ خلیفہ کی یہ ذمہ داری ہے کہ اسلامی ریاست کا کوئی شہری محروم المعیشت نہ رہے۔

    ایک مرتبہ حضرت عمر رضی اللہ عنہہ نے گشت کے دوران میں ایک دروازے پر ایک ضعیف العمر نابینا کو دیکھا آپ نے اس کی پشت پر ہاتھ رکھ کر پوچھا کہ تم اہل کتاب کے کس گروہ سے تعلق رکھتے ہو،اس نے جواب دیا کہ میں یہودی ہوں۔

    حضرت عمررضی اللہ عنہہ نے دریافت کیا کہ گداگری کی یہ نوبت کیسے آئی۔ یہودی نے کہا۔ ادائے جزیہ، شکم پروری اور پیری سہ گونہ مصائب کی وجہ سے۔ حضرت عمر نے یہ سن کر اس کا ہاتھ پکڑ کر گھرلائے اور جو موجودتھا،اس کو دیا اور بیت المال کے خازن کو لکھا:

    ”یہ اور اس قسم کے دوسرے حاجت مندوں کی تفتیش کرو۔ خدا کی قسم ہرگز یہ ہمارا انصاف نہیں ہے کہ ہم جوانی میں ان سے جزیہ وصول کریں اور بڑھاپے میں انھیں بھیک کی ذلت کے لیے چھوڑ دیں قرآن کریم کی اس آیت (انما الصدقات للفقراء والمساکین) میں میرے نزدیک فقراء سے مسلمان مراد ہیں اور مساکین سے اہل کتاب کے فقراء اور غرباء۔ اس کے بعد حضرت عمررضی اللہ عنہہ نے ایسے تمام لوگوں سے جزیہ معاف کرکے بیت المال سے وظیفہ بھی مقرر کردیا۔“
    -------------
    جبکہ پہلے سوال کے دلائل میں پہلے ہی بتا چکی ہوں
    مندر کے تعمیر میں حصہ لینا کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں ہے ؛ البتہ اگرمندر کے ساتھ انسانی خدمت کا کوئی ادارہ ہو اوراس کی مدد کی جائے تو اس کی گنجائش ہے

    ( وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلا تَعَاوَنُوا عَلَى الإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ)
    ترجمہ: نیکی اور تقوی کے کاموں میں ایک دوسرے کا تعاون کرو، برائی اور زیادتی کے کاموں میں باہمی تعاون مت کرو، اور اللہ تعالی سے ڈرو، بیشک اللہ تعالی سخت عذاب دینے والا ہے۔ [المائدة :2]

    (قَوْلُهُ : وَأَنْ يَكُونَ قُرْبَةً فِي ذَاتِهِ ) أَيْ بِأَنْ يَكُونَ مِنْ حَيْثُ النَّظَرُ إلَى ذَاتِهِ وَصُورَتِهِ قُرْبَةً ، وَالْمُرَادُ أَنْ يَحْكُمَ الشَّرْعُ بِأَنَّهُ لَوْ صَدَرَ مِنْ مُسْلِمٍ يَكُونُ قُرْبَةً حَمْلًا عَلَى أَنَّهُ قَصَدَ الْقُرْبَةَ۔
    (الدر المختار علي الرد كتاب الوقف۱۷۵/۱۷)
    --
    اللہ کمی بیشی معاف فرمائے آمین
     
  10. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    المختصر یہ کہ عبادت گاہوں کی اجازت ہے ؟
     
  11. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    المختصر انہیں بنانے کی اجازت ہے آپ اپنے حلال پیسے حرام کام میں نہیں دے سکتے
     
    نعیم نے اسے پسند کیا ہے۔
  12. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    شکریہ ۔ گل مُکی np
     
    زنیرہ عقیل نے اسے پسند کیا ہے۔
  13. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    ہاہاہاہا .......... گُل مکی
    شکریہ
     
    نعیم نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں