1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

حاملین قرآن ( علماء) سے دشمنی اللہ سے دشمنی

'متفرقات' میں موضوعات آغاز کردہ از زنیرہ عقیل, ‏18 جنوری 2018۔

  1. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    علماء کا مقام امت میں نائبین انبیاء کا ہے۔ علماء انبیاء کے وارث ہیں یہ وراثت علمی ہے۔ ہمارے معاشرے کا ایک بہت بڑا طبقہ علماء کی شان میں گستاخی کرنا اپنا مقصد سمجھتا ہے۔ کچھ طبقات جان بوجھ کر اور سمجھ رکھتے ہوئے یہ لعن و طعن کرتے ہیں۔ جبکہ کچھ لوگ انجانے میں اور نا سمجھی کی وجہ سے ایسا کرتے ہیں۔ علماء اور صلحاء کی شان میں گستاخی کرنا، ان کی اہانت کرنا، ان کا مذاق اڑانا اور تحقیر کرنا یہ سب انتہائی نقصان کا باعث ہے ان باتوں سے ایمان جانے کا خطرہ ہے۔ غیر سیاسی علماء کے تو اکثر لوگ معتقد ہوتے ہیں ان کی تعریفیں کرتے ہیں لیکن سیاسی علماء جو سیاست میں حصہ لیتے ہیں ان کے بارے میں بیباک لہجہ اپنانا ہمارا شیوہ بن چکا ہے کیونکہ ان کی رائے ہماری رائے سے مختلف ہوتی ہے یا کچھ جماعتوں کی یہ خصلت و جبلت ہے کہ ان جماعتوں میں کام کرنے والوں کا ذہن ہی بغض علماء پر بنایا جاتا ہے ان کی مجلسوں اور محفلوں میں سوائے علماء کی غیبت کے باقی کچھ نہیں ملتا۔

    ایک مسلمان کہ لیے یہ باتیں تعجب خیز ہیں اور ہلاکت کا سبب ہیں۔ سوشل میڈیا پر یہ وبا عام ہے اپنے سوچ اور نظریہ سے متصادم اگر کوئی عالم ہو تو عوام اس کی عزت افزائی اس انداز میں کرتی ہے کہ سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ بلکہ بعض تو اس حد تک چلے جاتے ہیں کہ سنت رسول( داڑھی) کا مذاق اڑانے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ علماء کی توہین اور بدنامی کے لیے مختلف بے دین دانشوروں کے اقوال اور شاعروں کے اشعاربڑے فخر سے پیش کیے جاتے ہیں۔

    ان سب باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے اور لوگوں کی رہنمائی کے لیے اس مضمون میں چند احادیث جمع کی ہیں۔ جن کی روشنی میں ہم اپنی اصلاح کر سکتے ہیں۔ بھٹکے ہووں کو راستہ مل سکتا ہے، پھسلے ہوئے سنبھل سکتے ہیں، راہ سے ہٹے ہوئے راہ پا سکتے ہیں۔ ایک مسلمان کے لیے قرآن و احادیث سے بڑی رہنمائی کسی اور کتاب میں نہیں۔ لہذا ہمیں ان احادیث کی روشنی میں اپنی سمت بدلنی چاہیے اور گزشتہ گناہوں پر توبہ کر کے آئیندہ احتیاط سے چلنا چاہیے۔ اختلاف ضرور رکھیں لیکن تحقیر نہ کریں، کم نظر سے نہ دیکھیں، اور علماء سے محبت کرنے والے بن جائیں۔

    نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ تو یا عالم بن یا طالب علم یا علم کا سننے والا یا ( علم اور علماء) سے محبت رکھنے والا۔ پانچویں قسم میں داخل نہ ہونا ورنہ ہلاک ہو جائے گا۔
    حافظ ابن عبد البر فرماتےہیں کی پانچویں قسم سے مراد علماء کی دشمنی اور ان سے بغض رکھنا“۔ ( مقاصد حسنہ جامع ) اب ذرا غور کریں کہ ہم ان پانچ اقسام میں سے کس قسم میں داخل ہیں۔

    ایک حدیث میں وارد ہے کہ ”حاملین قرآن ( علماء) اللہ کے ولی ہیں۔ جو شخص ان سے دشمنی کرتا ہے وہ اللہ سے دشمنی کرتا ہے اور جو ان سے دوستی کرتا ہے وہ اللہ سے دوستی کرتا ہے“۔
    اب سوچیں: علماء سے دشمنی کرنے والا اللہ سے دشمنی کر رہا ہے تو اللہ سے دشمنی والا ہلاک ہی ہو گا۔ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ تو عالم بن یا طالب علم اور اگر دونوں نہ بن سکے تو علماء سے محبت رکھنا ان سے بغض نہ رکھنا۔ ( مجمع )
    حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جو شخص کسی فقیہ ( عالم ) کو اذیت پہنچائے اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اذیت پہنچائی اور جو شخص رسول اللہ ص۔ ع کو اذیت پہنچائے اسں نے اللہ جل جلالہ کو اذیت پہنچائی۔

    نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ وہ شخص میری امت میں سے نہیں ہے جو ہمارے بڑوں کخ تعطیل نہ کرے ہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کرے اور ہمارے عالم کی قدر نہ کرے۔
    ( ترغیب)
    اس ارشاد نبوی کے بعد علماء کو علی العموم گالیاں دینے والے برا بھلا کہنے والے اپنے کو امت محمدیہ میں شمار کرتے رہیں لیکن صاحب امت ان ک اپنی امت میں شمار کرنے کے لیے آمادہ نہیں ہیں۔


    نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے من اللہ جل جلالہ ارشاد فرماتے ہیں ”جو شخص میرے کسی ولی سے دشمنی رکھے، میری طرف سے اس کو اعلان جنگ ہے“۔ ( مشکوتہ و بخاری )

    ایک حدیث میں آیا ہے، جو میرے کسی ولی کی اہانت کرتا ہے وہ میرے ساتھ مقابلہ کے لیے سامنے آتا یے۔ ( فتح الباری ) بعض روایتوں میں وارد ہے جس شخص نے میرے کسی ولی کو ستایا، وہ میرے ساتھ لڑائی تک اتر آیا۔ ( فتح الباری )۔

    ائمہ نے کہا ہے کہ گناہوں میں کوئی گناہ بھی ایسا نہیں ہے جس کے کرنے والے کو اللہ جل شانہ نے اپنے ساتھ لڑائی سے تعبیر فرمایا ہے بجز اس گناہ ( اہانت علماء ) کے اور سود کھانے کے۔ اس سے ثابت ہوا کہ ان دونوں کا گناہ بہت ہی زیادہ بڑھا ہوا ہے اور ان لوگوں کے سوئہ خاتمہ ( برا خاتمہ ) کا سخت اندیشہ ہے۔
    ( مرقات شرح مرقات )۔ صاحب مظاہر حق نے بھی لکھا ہے کہ اللہ سے بندہ کخ لڑائی دلالت کرتی ہے خاتمہ بد ہونے پر۔ یہاں اللہ کے ولی سے مراد علماء ہی ہیں۔ خطیب بغدادی نے حضرت امام ابو حنیفہ اور امام شافعی سے نقل کیا ہے کہ اگر فقہاء ( علماء) اللہ کے ولی نہیں ہیں تو پھر اللہ کا کوئی ولی ہے ہی نہیں۔

    حضرت علیؓ نے فرمایا ”جہلا اہل علم کے دشمن ہوتے ہیں“
    علامہ شعرانی طبقات کبری میں لکھتے ہیں کہ امام ابو تراب بخشی جو مشائخ صوفیہ میں ہیں فرماتے ہیں کہ ”جو شخص اللہ تعالی سے نامانوس ہوجاتا ہے تو وہ اہل اللہ پر اعتراض کرنے کا خوگر ( کے درپے ) ہو جاتا ہے“۔

    علامہ عبد الوہاب شعرانی جو اکابر صوفیہ میں ہیں انہوں نے کتاب عہد محمدیہ میں لکھا ہے کہ ہم سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے یہ عام عہد لیا گیا ہے کہ ہم علماء کی اور صلحاء کی اور اکابر کی تعظیم کیا کریں چاہے وہ خود اپنے علم پر عمل نہ کیا کریں اور ہم لوگ ان کے ذاتی معاملہ کو اللہ کے سپرد کر دیں۔

    مولانا عبد الحی اپنے فتوی میں لکھتے ہیں: اگر گالیاں دینے والے کا مقصود علم اور علماء کی تحقیر کی وجہ سے ہے تو فقہاء اس کے کفر کا فتوی دیتے ہیں ورنہ اگر کسی اور وجہ سے ہے تو تب اس شخص کے فاسق فاجر ہونے میں اللہ کے غصہ اور دنیا اور آخرت کے عذاب کے مستحق ہونے میں شبہ نہیں۔ حافظ ابو القاسم بن عساکر فرماتے ہیں کہ ”علماء کے گوشت ( یعنی غیبت) نہایت زہریلے ہیں ان کی شان میں گستاخی کرنے والوں کی پردہ دری میں اللہ کی عادت سب کو معلوم ہے ( کہ جو لوگ علماء کی اہانت کرتے ہیں اللہ تعالی ان کی پردہ دری فرماتے ہیں)۔ جو شخص ان کو عیب لگانے میں کب کشائی کرتا ہے اس کے مرنے سے پہلے حق تعالی شانہ اس کے دل کو مردہ بنا دیتے ہیں“۔

    شیخ الحدیث مولانا زکریا رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں اپنے سے تعلق رکھنے والوں کو خاص طور سے متوجہ کرتا ہوں اور کرتا رہتا ہوں کہ وہ اللہ والوں سے ذرا بھی دل میں کدورت نہ رکھیں ورنہ مجھ سے تعلق نہ رکھیں۔

    درج بالا احادیث اور بزرگوں کے اقوال سے ہمیں درس عبرت حاصل کرنا چاہیے۔ علماء و صلحاء کے بارے میں اپنی زبانوں کو لگام دینے میں ہی عافیت ہے۔ اختلاف رائے رکھنے کے شریعت نے اپنے اصول و ضوابط بتائے ہیں۔ حدود متعین ہیں۔ شائستگی اور سنجیدگی سے اختلاف قائم کرنا احسن ہے لیکن بے ادبی، سطحیت، تذلیل، حقارت اور توہین کرنا کسی صورت جائز نہیں۔ ان باتوں سے اہل علم کی شان میں کوئی کمی نہیں آئے گی البتہ اپنا ہی خسارہ اور نقصان ہے۔ علماء پر بہتان لگانا اور سنی سنائیں باتوں کو ان سے منسوب کرنا اور ہر محفل میں زبان درازی کر کے اپنی علمیت ظاہر کرنا جہالت کے سوا کچھ نہیں۔ سوشل میڈیا پر ہمیں ایسی پوسٹس کو شئیر کرنے اور لائق کرنے سے اجتناب برتنا چاہیے جن پوسٹس میں ارباب علم کی توہین کا کوئی پہلو نکلتا ہو۔ اللہ پاک ہمیں اپنے پیارے نبیؐ کے سچی اتباع نصیب کرے اور نیکوں کی محبت عطا کرے۔ آمین۔
     
  2. محمدداؤدالرحمن علی
    آف لائن

    محمدداؤدالرحمن علی سپیکر

    شمولیت:
    ‏29 فروری 2012
    پیغامات:
    16,600
    موصول پسندیدگیاں:
    1,534
    ملک کا جھنڈا:
    انسان ہونے کے ناطے ہر ایک میں خامیاں موجود ہیں اور اُمت کا کوئی بھی طبقہ نقائص اور عیوب سے مبرا نہیں ،لیکن آج کل ذرا سی بات پر علماءاکرام اور دین کی دعوت دینے والوں کوبرا بھلا کہنا شروع کردیا جاتا ہے۔
    نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد پر ذرا غور کریں۔
    نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
    مرغے کو بُرا بھلا مت کہو،کیونکہ وہ نماز کے لئے جگاتا ہے۔(سنن ابی داؤد:5103 باب ماجاء فی الدیک والبہائم،حدیث صحیح)
    مرغے کو بُرا بھلا کہنے سے اس لیے منع فرمایاکہ وہ نمازِ فجر کے لیے جگاتا ہے اور لا شعوری طور پر دین کا کام کرتا ہے تو پورے شعور اور مشن کے طور پر دینی خدمات سر انجام دینے والے علماء اکرام اور اصحابِ دعوت کو بُرا بھلا کہنا اور اُن کی کردار کشی کرنا کیسے درست ہو سکتا ہے!!!!!!
     
    زنیرہ عقیل نے اسے پسند کیا ہے۔
  3. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    بہت خوبصورت بات ک ہے آپ نے اللہ ہم سب کو ہدایت نصیب فرمائے اور دین کے وارثوں کی قدر و منزلت ہمارے دلوں میں بٹھا دے آمین
     

اس صفحے کو مشتہر کریں