1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

ولی کی اجازت کے بغیر ہونے والے نکاح کی شرعی حیثیت کیا ہے؟

'متفرقات' میں موضوعات آغاز کردہ از کنعان, ‏20 نومبر 2017۔

  1. کنعان
    آف لائن

    کنعان ممبر

    شمولیت:
    ‏25 جولائی 2009
    پیغامات:
    729
    موصول پسندیدگیاں:
    977
    ملک کا جھنڈا:
    ولی کی اجازت کے بغیر ہونے والے نکاح کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
    موضوع: نکاح | شرائط نکاح | ولی
    سوال پوچھنے والے کا نام: شہباز احمد خاں مقام: کھاریاں

    سوال نمبر 4529:

    السلام علیکم! بالغ لڑکی کے نکاح کے لئے بنیادی شرائط کیا ہیں؟ کیا اس کے والدین، بھائیوں کا اس میں رضامند ہونا اور شامل ہونا لازمی ہے؟

    جواب
    :
    اگر کوئی عاقل و بالغ لڑکا اور لڑکی‘ مسلمان گواہوں کی موجودگی میں حق مہر کے عوض ایجاب وقبول کرتے ہیں تو ان کا نکاح منعقد ہو جاتا ہے۔ نکاح کے وقت دو مرد گواہوں یا ایک مرد اور دو عورتوں کی موجودگی میں حق مہر کے ساتھ ایجاب و قبول کرنا‘ نکاح کی لازمی شرائط ہیں۔ ماں باپ، بہن بھائیوں کی نکاح میں رضامندی یا مجلسِ نکاح میں شمولیت ایک سماجی اور معاشرتی ضرورت ہے، کوئی قانونی تقاضا نہیں۔ نکاح کرنے یا نہ کرنے کا حتمی اختیار لڑکی کو ہی حاصل ہے۔
    قرآن کریم میں نکاح کی نسبت صرف لڑکے اور لڑکی کی طرف کی گئی ہے،
    تاہم احادیث مبارکہ کے مطابق باپ، دادا، بھائی یا دوسرے بزرگوں کے مشورے کو بھی اہمیت حاصل ہے، چنانچہ
    رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد لَا نِکَاحَ إِلَّا بِوَلِیٍّ‘ (کوئی شادی ولی کی اجازت کے بغیر نہیں ہونی چاہیے)

    اور اس طرح کی دوسری روایات اسی پہلو کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔
    ہر عاقل بالغ لڑکے، لڑکی کو جس طرح اپنے مال میں تصرف کا حق ہے اسی طرح اپنی ذات کے فیصلوں کا بھی ہے۔

    قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:


    فَانكِحُواْ مَا طَابَ لَكُم مِّنَ النِّسَاءِ.
    ان عورتوں سے نکاح کرو جو تمہارے لئے پسندیدہ اور حلال ہوں.

    النساء، 4: 3

    درج بالا آیت میں نکاح کی نسبت لڑکے کی طرف کی گئی ہے، جبکہ درج ذیل آیت میں نکاح کی نسبت لڑکی کی طرف کی گئی ہے‘ ولی کی طرف نہیں:

    وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا يَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا فَإِذَا بَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا فَعَلْنَ فِي أَنفُسِهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ وَاللّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ.
    اور تم میں سے جو فوت ہو جائیں اور (اپنی) بیویاں چھوڑ جائیں تو وہ اپنے آپ کو چار ماہ دس دن انتظار میں روکے رکھیں، پھر جب وہ اپنی عدت (پوری ہونے) کو آپہنچیں تو پھر جو کچھ وہ شرعی دستور کے مطابق اپنے حق میں کریں اس کی تم پر کوئی ذمہ داری نہیں، اور جو کچھ تم کرتے ہو ﷲ اس سے اچھی طرح خبردار ہے۔
    البقره، 2: 234


    لڑکی کے اختیارِ نکاح کو بیان کرتے ہوئے مزید فرمایا:


    فَإِن طَلَّقَهَا فَلاَ تَحِلُّ لَهُ مِن بَعْدُ حَتَّى تَنكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ فَإِن طَلَّقَهَا فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْهِمَا أَن يَتَرَاجَعَا إِن ظَنَّا أَن يُقِيمَا حُدُودَ اللّهِ وَتِلْكَ حُدُودُ اللّهِ يُبَيِّنُهَا لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ.
    پھر اگر اس نے (تیسری مرتبہ) طلاق دے دی تو اس کے بعد وہ اس کے لئے حلال نہ ہو گی یہاں تک کہ وہ کسی اور شوہر کے ساتھ نکاح کر لے، پھر اگر وہ (دوسرا شوہر) بھی طلاق دے دے تو اب ان دونوں (یعنی پہلے شوہر اور اس عورت) پر کوئی گناہ نہ ہوگا اگر وہ (دوبارہ رشتۂ زوجیت میں) پلٹ جائیں بشرطیکہ دونوں یہ خیال کریں کہ (اب) وہ حدودِ الٰہی قائم رکھ سکیں گے، یہ اﷲ کی (مقرر کردہ) حدود ہیں جنہیں وہ علم والوں کے لئے بیان فرماتا ہے۔

    البقره، 2: 230

    اور فرمایا:

    فَلاَ تَعْضُلُوهُنَّ أَن يَنكِحْنَ أَزْوَاجَهُنَّ إِذَا تَرَاضَوْاْ بَيْنَهُم بِالْمَعْرُوفِ.
    جب وہ (طلاق یافتہ عورتیں) شرعی دستور کے مطابق باہم رضامند ہو جائیں تو انہیں اپنے (پرانے یا نئے) شوہروں سے نکاح کرنے سے مت روکو.
    البقره، 2: 232


    حضرت نافع ابن جبیر نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ:

    قال رسول الله الایم احق بنفسها من ولیها والبکر تستامر واذنها سکوتها وفی روایة الثیب احق بنفسها من ولیها.
    ’’بیوہ عورت اپنے ولی سے زیادہ خود اپنے بارے میں فیصلہ کرنے کی حقدار ہے، اور کنواری کا مشورہ لیا جانا چاہیے اور اس کی اجازت اس کی خاموشی ہے اور ایک روایت میں ہے کہ شوہر دیدہ عورت اپنے ولی سے زیادہ اپنے نکاح کے معاملے میں حقدار ہے۔‘‘

    (نصب الروایه، جلد 3، صفحه 182)

    اسی موضوع کی ایک حدیث ان الفاظ کے ساتھ روایت ہے کہ:

    لا تنکح الایم حتی تستامر ولا تنکح البکر تستاذن. قالو! یارسول ﷲ کیف اذنها قال ان تسکت.
    متفق علیہ
    ’’ غیر شادی شدہ لڑکی کا نکاح اس کے مشورے کے بغیر نہ کیا جائے اور کنواری کا نکاح اس کی اجازت کے بغیر نہ کیا جائے۔ صحابہ کرام نے کہا: یا رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (وہ شرماتی ہے تو) اس کی اجازت کیسے ہو گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اس کی خاموشی ہی اجازت ہے‘‘

    ملا علی قاری اس کی شرح میں لکھتے ہیں:

    فذهبوا جمعیا الی انه لا یجوز تزویج البالغة العاقلة دون اذنها.
    ’’علماء نے احدیث سے یہ اصول لیا ہے کہ عاقل بالغ لڑکی کا نکاح اس کی اجازت کے بغیر جائز نہیں‘‘


    حضرت ابن عباس رضی ﷲ عنہما سے روایت ہے کہ ایک کنواری لڑکی نے رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں عرض کی میری باپ نے میری ناپسندیدگی کے باوجود میرا نکاح کر دیا۔
    فخیرها النبي صلی ﷲ علیه وسلم.
    تو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس لڑکی کو
    (قبول یا رد کرنے کا اختیار دے دیا)۔
    ایسا ہی واقعہ خنساء بنت خذام سے پیش آیا اور رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کا نکاح رد کر دیا۔


    یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ عاقل و بالغ لڑکا، لڑکی خود مختار ہیں اور اپنی مرضی سے نکاح کر سکتے ہیں‘ کوئی ان پر جبر نہیں کر سکتا۔ اس کے ساتھ نوجوان لڑکے لڑکیوں کو دوسرے پہلو کا بھی خیال کرنا چاہیے۔ والدین کے جائز جذبات و خواہشات کا لحاظ و پاس رکھنا بھی ممکن حد تک لازم ہے۔ یہ بات بڑی شقاوت و سنگدلی ہے کہ جن والدین کی محنت و محبت سے انسان پلتا بڑھتا اور ترقی کرتا ہے بیاہ شادی کے معاملہ میں ان کی رضامندی و مشورے کو اہمیت ہی نہ دی جائے اور ان کو اس موقع پر ناراض کر دیا جائے۔ اس لیے ان کے حقوق و جذبات اور احساسات کا خیال رکھانا اور ان سے رہنمائی لینا خوش بختی ہے، اس حقیقت کو آقا علیہ السلام نے ان ارشادات میں واضح فرمایا:

    سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں:


    ایما امراة نکحت نفسها بغیر اذن ولیها فنکاحها باطل فنکاحها باطل فنکاحها باطل. فان دخل بها فلها المهر لما استحل من فرجها فان اشتجر وا فالسلطان ولی من لاولی له.
    ’’جو عورت اپنے ولی (سرپرست) کی اجازت کے بغیر نکاح کرے تو اس کا نکاح باطل ہے، اس کا نکاح باطل ہے، اس کا نکاح باطل ہے۔ اب اگر اس نے اس سے صحبت کر لی تو اس عورت کو مہر ملے گا کیونکہ اس نے اس کی شرمگاہ حلال کی ہے۔ پھر اگر (سرپرست) اختلاف کریں تو حاکم ولی ہے جس کا کوئی ولی نہیں۔‘‘

    احمد، ترمذی، ابو داؤد، ابن ماجہ، دارمی

    احناف کے نزدیک عاقل بالغ عورت اپنا نکاح خود کر سکتی ہے اور قرآن و حدیث کے تمام دلائل اس کی تائید کرتے ہیں۔ درج بالا حدیث میں بغیر ولی کی اجازت کے نکاح کو باطل‘ زجر و توبیخ کے طور پر فرمایا گیا ہے، مگر نکاح ولی کی اجازت کے بغیر بھی ہو جاتا ہے اسی لیے فرمایا:

    اگر ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کر کے قربت کرلی تو مہر پورا دینا ہوگا۔ اگر نکاح حقیقتاً باطل ہوتا یعنی منعقد ہی نہ ہوتا تو نہ عورت حلال ہوتی نہ نکاح ہوتا نہ حق مہر لازم ہوتا۔


    واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔
    مفتی: عبدالقیوم ہزاروی

    تاریخ اشاعت: 2017-11-18
     
    ھارون رشید نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    [​IMG]
     
    ھارون رشید نے اسے پسند کیا ہے۔
  3. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    سب کچھ واضح ہونے کے باوجود ایسے صاحب علم موجود ہیں جو اس کی بھی تاویلات میں ایسے حد سے گزرتے ہیں کہ حدیث رسول کی وضاحت کو عام انسان کے لیے مشکوک کر دیتے ہیں۔اللہ تعالیٰ ایسے پڑھے لکھے جاہلوں سے معاشرے کو محفوظ فرمائے۔آمین
     
    ھارون رشید نے اسے پسند کیا ہے۔
  4. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    امام ابو عبداللہ محمد بن احمد القرطبی ارقام فرماتے ہیں:

    ''یہ آیت کریمہ اس بات پر بطور نص کے دلیل ہے کہ ولی کے بغیر نکاح نہیں ہوتا امام محمد باقر رحمة اللہ علیہ نے فرمایا کہ نکاح کا بذریعہ ولی منعقد ہونا اللہ کی کتاب میں موجود ہے پھر انہوں نے (ولا تنکحو المشرکین)آیت کریمہ پڑھی۔(الجامع الاحکام القرآن۳/۴۹)
     
    ھارون رشید نے اسے پسند کیا ہے۔
  5. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    مولانا عبدالماجد دریابادی رحمة اللہ علیہ لکھتے ہیں:

    (ولا تنکحوا) خطاب مردوں سے ہے کہ تم اپنی عورتوں کو کافروں کے نکاح میں نہ دو۔ حکم خود عورتوں کو براہ ِ راست نہیں مل رہا ہے کہ تم کافروں کے نکاح میں نہ جائو۔ یہ طرزِ خطاب بہت پُر معنی ہے۔ صاف اس بات پر دلالت کر رہا ہے کہ مسلمان عورتوں کا نکاح مردوں کے واسطہ سے ہونا چاہیے۔ (تفسیر ماجدی ص۸۹)

    قاضی ثناء اللہ پانی پتی حنفی طراز ہیں:

    ''یہ خطاب یا ت (عورتوں ) کے ولیوں کو ہے یا حکام کو ہے۔ مطلب یہ ہے کہ عورتوں کو مشرک مردوں سے نکاح نہ کرنے دو''۔
    (تفسیر مظہری۱/۴۵۸)

    اس آیت کریمہ میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس بات کی توضیح فرما دی ہے کہ مسلمان عورت کے نکاح کا انعقاد اس کے ولی کے ذریعے ہونا چاہیے اس لئے فرمایا: (ولا تنکحو)کہ تم اپنی عورتوں کو مشرکوں کے نکاھ مٰں نہ دو اگر ولی کا نکاح میں ہونا لازم نہ ہوتا تو اللہ تعالیٰ اس انداز سے خطاب نہ فرماتا بلکہ عورتوں کو حکم دیتا کہ تم ان کے ساتھ نکاح نہ کرو۔ حالانکہ ایسے نہیں فرمایا۔
     
    ھارون رشید نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں