1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

پاکستان کے وزرائے اعظم جو مدت مکمل نہ کر سکے

'خبریں' میں موضوعات آغاز کردہ از کنعان, ‏30 اگست 2017۔

  1. کنعان
    آف لائن

    کنعان ممبر

    شمولیت:
    ‏25 جولائی 2009
    پیغامات:
    729
    موصول پسندیدگیاں:
    977
    ملک کا جھنڈا:
    پاکستان کے وزرائے اعظم جو مدت مکمل نہ کر سکے (پہلی قسط)

    قاتل بھی مارا گیا اور پاکستان کا پہلا وزیرِاعظم اپنے عہدے کی معیاد پوری نہ کرسکا۔

    پاکستان کی سیاست میں انقلاب لانے اور نیا پاکستان بنانے کے نام پر سڑکوں پر نکل کر تبدیلی لانے کی کوششیں جاری ہیں جبکہ 2018ء کے عام انتخابات کے پیش نظر نواز شریف اور اُن کا حلقہِ سیاست اب بھی نااہلی کے فیصلے کو ووٹر کے پاس لے کر جانا چاہتا ہے، جس کا بنیادی نعرہ یہ ہے کہ گزشتہ 70 سال میں کسی بھی وزیراعظم پاکستان کو اپنے عہدے کی معیاد مکمل کرنے نہیں دی گئی۔ اسی نکتہ کو زیرِ غور لاتے ہوئے ہم نے اِس بلاگ میں پاکستان کے اُن وزرائے اعظم کا جائزہ لینے کی کوشش کی ہے جو اپنے عہدہ کی مدت پوری ہونے سے قبل ہی برطرف کر دئیے گئے۔

    وزیرِ اعظم لیاقت علی خان
    قیامِ پاکستان کے بعد پہلے وزیراعظم کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریاں بخوبی انجام دے رہے تھے کہ اِس دوران 23 فروری 1951ء کو میجر جنرل اکبر خان کی رہائش گاہ پر ایک اجلاس ہوا، جس میں چند فوجی اور ملک کی کچھ اور مشہور شخصیات نے شرکت کی جن میں فیض احمد فیض بھی تھے۔ اِس اجلاس میں موضوعِ بحث کشمیر کا مسئلہ اور پاک بھارت جنگ بندی تھا لیکن 9 مارچ 1951ء کو حکومت کی طرف سے واضح کیا گیا کہ یہ اجتماع حکومت کا تختہ اُلٹنے کیلئے ہوا تھا۔ جس کے بعد اِس اجلاس کے تمام شرکاء کو ’راولپنڈی سازش‘ کے تحت گرفتار کر لیا گیا اور اُن کا مقدمہ خصوصی عدالت میں پیش کیا گیا، تاکہ اِس سازش کے شواہد جلد از جلد عوام کے سامنے لائے جا سکیں۔

    ابھی یہ مقدمہ خصوصی عدالت میں چل ہی رہا تھا کہ وزیرِاعظم لیاقت علی خان کو سید اکبر نامی شخص نے 16 اکتوبر 1951ء کو راولپنڈی میں ایک جلسہ عام میں تقریر کرتے ہوئے دو گولیاں مار کر شہید کر دیا۔ لیاقت علی خان گارڈن باغ (اب نیا نام لیاقت باغ) میں اُس وقت تقریر کیلئے کھڑے ہی ہوئے تھے اور منہ سے صرف برادرانِ اسلام کہہ پائے تھے کہ گولیاں اُن کے سینے کے پار ہو گئیں اور گولی لگنے کے بعد اُن کی زبان سے جو آخری لفظ نکلے وہ یہ تھے:


    خدا پاکستان کی حفاظت کرے

    سید اکبر (قاتل) ایک افغانی باشندہ تھا اور ایبٹ آباد میں مقیم تھا۔ جب اُس نے وزیراعظم پاکستان لیاقت علی خان پر گولی چلائی تو بھگڈر مچ گئی اور ایک پولیس انسپکٹر نے سید اکبر کو گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ یوں قاتل بھی مارا گیا اور پاکستان کا پہلا وزیرِاعظم اپنے عہدے کی معیاد پوری نہ کرسکا۔


    وزیرِاعظم خواجہ ناظم الدین
    خواجہ ناظم الدین کا تعلق بنگال کے معزز خاندان سے تھا۔ اُن کے ماموں نواب سلیم اللہ خان ڈھاکہ کی رہائش گاہ پر آل انڈیا مسلم لیگ کا قیام عمل میں آیا تھا اور پھر یہی جماعت پاکستان کے قیام کا باعث بنی تھی۔ خواجہ ناظم الدین قائداعظم کی وفات کے بعد دوسرے گورنر جنرل بنے تھے۔ لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد اُنہوں نے وزارتِ عظمیٰ کا عہدہ سنبھال لیا تھا اور اُن کی جگہ گورنر جنرل پاکستان کے عہدے کے لیے پہلے وزیر خزانہ ملک غلام محمد کا نام طے ہو گیا تھا، لیکن جب گورنر جنرل پاکستان ملک غلام محمد نے اپنی آئینی حیثیت پر قناعت نہ کرتے ہوئے حکومت کے اصل اختیارات حاصل کرنے کی کوشش کی اور اُس میں کافی حد تک کامیابی بھی حاصل کر لی تو اُنہوں نے ایک اندرونی کابینہ بنا لی، جن میں سینئر سرکاری افسران بھی شامل تھے۔

    خواجہ ناظم الدین ایک شریف النفس انسان ہونے کے ساتھ ساتھ ایک تجربہ کار سیاست دان بھی تھے، لہذا اُنہوں نے بھی اِن حالات کا مقابلہ کرنے کی ٹھان لی۔ محلاتی سازشیں عروج کو پہنچیں اور گورنر جنرل ملک غلام محمد نے خواجہ ناظم الدین کو 17ِ اپریل 1953ء کو اپنی رہائش گاہ پر بُلا کر اُن سے استعفیٰ طلب کر لیا۔ گورنر جنرل نے ملک میں غذائی قلت اور امن و امان قائم نہ رکھنے جیسے مسائل کا ذکر کرتے ہوئے قلم کی ایک جُنبش سے وزیراعظم خواجہ ناظم الدین کو اُن کی کابینہ سمیت برخاست کر دیا۔


    وزیراعظم محمد علی بوگرہ
    بوگرہ صاحب ایک اہم بنگالی سیاست دان اور ذہین شخص تھے۔ اُنہیں اپریل 1953ء میں امریکہ سے بُلا کر وزیراعظم کا عہدہ دیا گیا تھا لیکن اگلے ڈیڑھ برس میں اُنہیں یہ اندازہ ہو گیا تھا کہ گورنر جنرل غلام محمد کے ارادے نیک نہیں ہیں۔ گورنر جنرل غلام محمد نے 24ِ اکتوبر 1954ء کو دستور ساز اسمبلی اور وزیراعظم محمد علی بوگرہ کی کابینہ توڑ کر ملک میں ہنگامی حالات کا نفاذ کر دیا۔ نئی کابینہ کیلئے وزراء غلام محمد نے خود منتخب کیے۔ وزارت کے قلمدان ڈاکٹر خان صاحب، حسین شہید سہروردی، اسکندر مرزا اور جنرل ایوب خان کو بھی سونپے گئے اور اِس طرح فوج بھی پہلی دفعہ براہِ راست سیاست میں شامل ہو گئی۔ اِس دوران کچھ تنظیموں نے غلام محمد کو محافظِ ملت کا خطاب بھی دے دیا۔

    وزیراعظم چوہدری محمد علی
    محمد علی جناح نے قیام پاکستان کے بعد چوہدری محمد علی کو پاکستان کا پہلا سیکرٹری جنرل مقرر کیا جو کہ سول سروس میں پہلی بار سب سے بڑا عہدہ تھا۔ بعد ازاں خواجہ ناظم الدین کی وزارتِ عظمیٰ کے دور میں چوہدری محمد علی کو وزیرِ خزانہ بنا دیا گیا۔ کچھ مُدت بعد چوہدری محمد علی کو دستور ساز اسمبلی کا رُکن منتخب کر کے اقتصادی معاملات کی وزارت کا قلمدان بھی سونپ دیا گیا۔ اِس وزارت پر اُنہوں نے وزیراعظم خواجہ ناظم الدین اور وزیراعظم محمد علی بوگرہ کے ادوار میں اپنی ذمہ داریاں انجام دیں۔

    اِس دوران ہی محلاتی سازشوں کی بدولت گورنر جنرل غلام محمد کو رُخصتی پر بھیج کر میجر جنرل اسکندر مرزا کو گورنر جنرل بننے کا موقع مل گیا اور پھر نئی حکومت بنانے کیلئے مسلم لیگ نے متحدہ محاذ پارٹی کے ساتھ مل کر مخلوط حکومت بنائی اور 11 اگست 1955ء کو چوہدری محمد علی نے پاکستان کے نئے وزیراعظم کی حیثیت سے حلف اُٹھا لیا۔ جس کے بعد بلاشبہ 1956ء کا آئین منظور کروانا چوہدری محمد علی کی سب سے بڑی کامیابی تھی لیکن دوسری طرف داخلی سیاست میں مات اُن کی ناکامی کا سبب بھی بن گئی اور صرف ایک سال بعد ہی مسلم لیگ پارٹی نے اُن کی حمایت سے دستبرداری کا اشارہ دے دیا۔ جس پر اُنہوں نے ایک مسلم لیگی کی حیثیت سے 8 ستمبر 1956ء کو وزارتِ عظمیٰ کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔

    وزیراعظم حسین شہید سہروردی
    مشرقی پاکستان کی جماعت عوامی لیگ کے اہم رہنما حسین شہید سہروردی 12 ستمبر 1956ء کو ملک کے پانچویں وزیراعظم بنے۔ وزارت بنانے کیلئے اُنہیں اپنی جماعت کے 14 ارکان کے ساتھ صدر اسکندر مرزا کی حمایت یافتہ جماعت ری پبلکن پارٹی اور 7 شیڈولڈ کاسٹ ارکان کی حمایت حاصل کرنا پڑی۔ لیکن جلد ہی اُنہوں نے پنجاب کے دورے کے دوران عوام کو ری پبلکن پارٹی کے عزائم سے آگاہ کر دیا۔ جماعت کے نمائندوں نے صدر اسکندر مرزا سے شکایت کی، جب صدر اسکندر مرزا نے حسین شہید سہروردی سے بات کرنا چاہی تو اُنہوں نے مرکزی اسمبلی کا اجلاس بُلانے کا مطالبہ کر دیا۔

    سہروردی کے ذہن میں تھا کہ اُن کے پاس ری پبلکن پارٹی کے علاوہ کچھ دوسرے ممبران کی اتنی اکثریت ہے کہ اُنہیں دوبارہ اعتماد کا ووٹ لینے میں مشکل پیش نہیں آئے گی لیکن یہ سوچ اُس وقت غلط ثابت ہو گئی جب صدر اسکندر مرزا نے مرکزی اسمبلی کا اجلاس بُلانے کی تجویز رد کر دی کیونکہ وہ اختیارات اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہتے تھے۔ لہذا اُنہوں نے اپنی اور ری پبلکن پارٹی کی اہمیت کو قائم رکھنے کیلئے حسین شہید سہروردی کو مستعٰفی ہونے کیلئے پیغام بھیج دیا اور ساتھ یہ بھی کہا کہ اگر اُنہوں نے ایسا نہ کیا تو ان کو برطرف کر دیا جائے گا۔

    وزیراعظم حسین شہید سہروردی فوراً صدر پاکستان میجر جنرل اسکندر مرزا کے پاس پہنچے اور نظرثانی کی درخواست کی لیکن اسکندر مرزا نے انکار کر دیا۔ اِس پر انہوں نے 13 ماہ وزارتِ عظمیٰ کے عہدے پر برسرِ اقتدار رہنے کے بعد برطرفی کی ذِلت سے بچنے کیلئے صدر کی خواہش پر 11 اکتوبر1957ء کو وزارتِ عظمیٰ کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ صدر اسکندر مرزا نے اُن سے استعفیٰ لے لیا جو سراسر غیر آئینی کارروائی تھی۔

    وزیر اعظم آئی آئی چندریگر
    23 مارچ 1940ء کو لاہور میں تاریخی قراردادِ لاہور کی منظوری کے وقت جس شخص نے بمبئی کے مسلمانوں کی طرف سے نمائندگی کرتے ہوئے اِس قرارداد کی تائید کی تھی وہ اُس وقت بمبئی صوبائی مسلم لیگ کے صدر اسماعیل ابراہیم چُندریگر تھے۔ جنہیں بعد ازاں تقریباً دو (2) ماہ پاکستان کا وزیر اعظم رہنے کا موقع بھی ملا۔ اُنہوں نے صدر میجر جنرل اسکندر مرزا کی طرف سے وزارت بنانے کی دعوت پر 18ِ اکتوبر 1957ء کو ری پبلکن پارٹی، مسلم لیگ اور کرشک سرامک پارٹی کی مخلوط وزارت بنا لی اور خود وزیراعظم بن گئے۔

    لیکن پھر جب جلد ہی اندازہ ہو گیا کہ صدر اسکندر مرزا جن کو اپنی صدارت کی کرسی بچانے کیلئے ری پبلکن پارٹی کے ساتھ مسلم لیگ کا اتحاد ایک آنکھ نہ بھا رہا تھا اور ایک غیر ممکنہ قسم کی سیاسی چالیں وزارتِ عظمیٰ کے معاملات میں رکاوٹ بن رہی تھیں تو آئی آئی چندریگر نے بہتر سمجھتے ہوئے 11 دسمبر 1957ء کو اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔

    وزیراعظم ملک فیروز خان نون
    ملک فیروز خان نون بھی ماضی کے وزرائے اعظم کی طرح وزارتِ عظمیٰ پر جمے نہ رہ سکے کیونکہ اُن کے دور میں ری پبلکن پارٹی کے صدر ڈاکٹر خان صاحب کا قتل ہوا تھا جبکہ حسین شہید سہروردی کا آئندہ انتخابات میں ایک دفعہ پھر وزیراعظم کا عہدہ حاصل کرنے کیلئے فی الوقت حکومت کا ساتھ دینے کا بھی کیا تھا۔ نومبر 1958ء میں منعقد ہونے والے انتخابات کو 15 فروری 1959ء میں منعقد کروانے کا فیصلہ کرنا اور جون 1958ء میں جنرل ایوب خان کی معیادِ ملازمت میں 2 سال کی توسیع دینے جیسے معاملات عوام اور حزب اختلاف کے سیاسی رہنماؤں کو پسند نہ آئے۔

    صدر اسکندر مرزا نے بگڑتے ہوئے حالات کا جائزہ لے لیا تھا اور اپنی کرسی کو قائم رکھنے کیلئے 7 اکتوبر1958ء کو ملک میں مارشل لاء لگا دیا اور ملک کا آئین 1956ء جو پاکستان بننے کے 9 سال بعد بمشکل بنا تھا منسوخ کر دیا۔ اِس کے علاوہ قومی اور صوبائی اسمبلیاں توڑ دیں۔ بری فوج کے کمانڈر انچیف جنرل ایوب خان کو چیف مارشل لاء ایڈمِنسٹریٹر مقرر کر دیا گیا اور فیروز خان نون کو وزارتِ عظمیٰ کے عہدے سے برطرف کر دیا گیا۔


    لکھاری کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے
    تحریر: عارف جمیل
    منگل 29 اگست 2017
     
  2. کنعان
    آف لائن

    کنعان ممبر

    شمولیت:
    ‏25 جولائی 2009
    پیغامات:
    729
    موصول پسندیدگیاں:
    977
    ملک کا جھنڈا:
    پاکستان کے وہ وزرائے اعظم جومدت پوری نہ کر سکے

    وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو
    پاکستان کے پہلے سِول مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر، چوتھے صدر اور 9 ویں وزیراعظم پاکستان اور پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو نے سپریم کورٹ کے سامنے اپنے دفاعی بیان میں لکھا تھا کہ اگر زورِ بیان کی بات ہوتی تو لوگ مجھے نہیں عطاء اللہ شاہ بخاری اور شورش کاشمیری کو منتخب کرتے۔
    جنرل ضیاء الحق کے دور میں پہلے اُنہیں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا اہم کردار قرار دے کر مقدمے بازی میں ملوث کرنے کی کوشش کی گئی، لیکن جب کچھ ثابت نہ ہوا تو احمد رضا قصوری کے والد نواب محمد احمد خان قصوری کے قتل کے مقدمے میں 4 اپریل 1979ء کی رات 2 بجے پھانسی دے دی گئی۔


    سوال یہ تھا کہ ایسا ہوا کیوں؟ جبکہ وہ ایک خود مختار وزیراعظم تھے اور پاکستان کو 1973ء کا آئین اور ایٹم بم بنانے کی ٹیکنالوجی دے چکے تھے، ساتھ میں سب سے اہم یہ کہ اسلامی ممالک کیلئے اسلامک بینک کے قیام کا تصور بھی پیش کر چکے تھے اور مارچ 1977ء کے انتخابات میں کامیابی حاصل کر کے دوسری دفعہ وزیراعظم بھی منتخب ہو گئے تھے لیکن حزبِ اختلاف کا انتخابات میں دھاندلی کا شور اور پھر اُن کی حکومت کے خلاف ملک بھر میں تحریکِ نظام مصطفیٰ کے نام سے مظاہرے شروع ہو گئے۔ اِس دوران اسلامی نظام کے نفاذ کے سلسلے میں اُنہوں نے اتوار کے بجائے جمعہ کی چھٹی کے اعلان کے بعد 17 اپریل 1977ء کو شراب نوشی، نائٹ کلبوں اور قمار بازی پر بھی پابندی عائد کر دی۔

    بیرونی سازشی طاقتوں نے بھی اِن حالات میں بھٹو حکومت کے خلاف سر اُٹھایا ہوا تھا، لہذا جنرل ضیاء الحق نے 4 اور 5 جولائی 1977ء کی درمیانی شب کو آپریشن ’’فیئر پلے‘‘ کا آغاز کرتے ہوئے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو برطرف کر کے نظر بند کر کے ملک میں مارشل لاء کے نفاذ کا اعلان کردیا اور خود چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بن گئے۔

    وزیراعظم محمد خاں جونیجو
    اپنے پانچ نکاتی پروگرام کے ساتھ عوام میں ایک اچھی ساکھ بنانے والے محمد خان جونیجو کی جمہوری حکومت کا انداز بھی بہت بہتر تھا۔ صدر جنرل ضیاء الحق کے نزدیک وزیراعظم جونیجو کی مقبولیت اُن کے آئندہ کے مستقبل کیلئے اچھی نہ تھی۔ اِس کے علاوہ افغان مسئلے میں صدر جنرل ضیاء الحق کے گزشتہ آٹھ سالوں کے کردار کو نظر انداز کرتے ہوئے جونیجو حکومت نے جو جینوا معاہدہ کیا تھا، اُسے بھی صدر جنرل ضیاء الحق نے پسند نہ کیا اور اِس مسئلے پر ملکی سطح پر آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد کروا دیا۔ پھر کراچی کے بوہری بازار اور راولپنڈی کے کشمیری بازار کے بعد 10ِ اپریل 1988ء کو اسلام آباد کے نزدیک اوجڑی کیمپ میں شدید نوعیت کے دھماکے ہوئے، جہاں عوام پر قیامت گزر گئی تو وہ دھماکے سیاسی چنگاری کو بھڑکانے کا بھی باعث بن گئے۔

    اِن واقعات پر وزیراعظم جونیجو کو جو تفتیشی رپورٹ دی گئی وہ اُنہوں نے صدر جنرل ضیاء الحق کے حوالے کر دی تاکہ اِن رپورٹس کی روشنی میں اوجڑی کیمپ واقعہ کے ذمہ داروں کا تعین کیا جا سکے۔ وزیراعظم محمد خاں جونیجو رپورٹسں صدر جنرل ضیاء الحق کے حوالے کر کے بیرونی ممالک کے دورے پر رخصت ہو گئے۔ 29ِ مئی 1988ء کو صدر جنرل ضیاءالحق نے 1973ء کے آئین میں آٹھویں ترمیم کے تحت محمد خاں جونیجو کو وزارت عظمیٰ کے عہدے سے برطرف کر دیا۔ اِس طرح ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت ختم کرنے والے آپریشن فیئر پلے کے بعد یہ بھی اُن کا آپریشن کلین اَپ نامی ایک خُفیہ منصوبہ کہلایا۔

    وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو
    پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم اور ذوالفقار علی بھٹو کی صاحبزادی بے نظیر بھٹو دسمبر 1988ء میں پہلی مرتبہ اور پھر اکتوبر 1993ء میں دوسری دفعہ وزیراعظم پاکستان بنیں، لیکن دونوں بار سیاسی طور پر حزبِ اختلاف کی محاز آرائی کا کچھ ایسا شکار رہیں کہ اُن کے اچھے کام بھی تنقید کی نذر ہوگئے بلکہ کرپشن کے الزامات کے باعث قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد کا سامنا بھی کرنا پڑا۔

    اُن کی حکومت کو کچھ خاص حلقوں نے پسند نہیں کیا اِس لیے اُس وقت کے صدر غلام اسحاق خان نے 6 اگست 1990ء کو آٹھویں ترمیم کے تحت حاصل کردہ اختیارات استعمال کرتے ہوئے قومی اسمبلی توڑ کر بے نظیر بھٹو کو برطرف کر دیا اور اُن کے خاوند آصف علی زرداری کو کرپشن کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا۔

    وزیراعظم میاں محمد نواز شریف
    پاکستان کے کاروباری طبقے سے منسلک پہلے وزیراعظم نواز شریف نے پہلی بار اپنے عہدے کا حلف نومبر 1990ء میں اُٹھایا اور پھر ’’پیلی ٹیکسی‘‘ اور اسلام آباد سے لاہور تک موٹر وے کے دو اہم منصوبے شروع کر کے پاکستانی عوام میں مقبولیت حاصل کر لی۔

    اِس کے علاوہ وہ ملکی سطح پرعوامی کام کر رہے تھے کہ کچھ ایسے سیاسی حالات پیدا ہونے شروع ہو گئے جو اُس وقت کے صدر غلام اسحاق کو پسند نہیں آرہے تھے۔ محلاتی سازشیں بڑھنی شروع ہوئیں تو نواز شریف نے اپریل 1993ء میں قوم سے براہِ راست خطاب میں اعلان کر دیا کہ اپنے منصوبوں کی تکمیل کی خاطر نہ استعفیٰ دوں گا، نہ اسمبلیاں توڑوں گا اور نہ ہی ڈکٹیشن لوں گا، اِس کے باوجود 18 اپریل 1993ء کی رات 8 بجے صدر غلام اسحاق خان نے 1973ء کے آئین کی آٹھویں ترمیم کے آرٹیکل (بی)2-58 کے تحت وزیراعظم نواز شریف کی حکومت برطرف کر دی اور قومی اسمبلی کو توڑ دیا۔

    سپریم کورٹ نے 26 مئی 1993ء کو اپنے فیصلے میں صدارتی حکم کو کالعدم قرار دے کر نواز شریف حکومت اور قومی اسمبلی بحال کر دی، لیکن سیاسی سازشیں اتنی عروج پر تھیں کہ اُنہوں نے وزارتِ عظمیٰ کے عہدے سے استعفیٰ ہی دے دیا۔

    محترمہ بے نظیر بھٹو کا دوسرا دورِ حکومت
    دوسرے دورِ وزارت میں بے نظیر بھٹو کی اپنی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے اہم رُکن اور اُس وقت کے صدر سردار فاروق احمد خان لغاری نے 5 نومبر 1996ء کو 8 ویں ترمیم کے تحت رات گئے برطرف کر دیا اور قومی اسمبلی بھی توڑ دی، اور اُن کے شوہر آصف علی زرداری کو ایک دفعہ پھر گرفتار کر لیا گیا۔

    نواز شریف کا دوسرا دورِ حکومت
    نواز شریف نے فروری 1997ء کے انتخابات میں جب ایک دفعہ پھر کامیابی کے بعد وزارتِ عظمیٰ کا عہدہ سنبھالا تو سب سے پہلے اپنی جماعت مسلم لیگ (ن) کی پارلیمانی اکثریت کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے 13ویں ترمیم کے ذریعے 8 ویں ترمیم کی تلوار سر سے ہٹائی اور بااختیار وزیراعظم بن گئے۔ نواز شریف کا یہی دور تھا جس میں مئی 1998ء کو پاکستان ایٹم بم کا تجرباتی دھماکہ کر کے ایٹمی قوت بن گیا۔ تاہم اگلے برس بھارت کے ساتھ کارگل کا تنازعہ ملکی سطح پر کچھ ایسا رنگ اختیار کر گیا کہ افواجِ پاکستان کے اعلیٰ عہدے داروں سے اُن کی چپقلش بڑھ گئی۔

    وزیراعظم نواز شریف نے اپنے رفقاء کے تعاون سے نیا آرمی چیف آف اسٹاف لانے کی کوشش کی۔ پھر اُس وقت کے آرمی چیف جنرل پرویز مشرف جو اُس روز بیرونِ ملک دورے کے بعد پاکستان آرہے تھے تو اُن کے ہوائی جہاز کو پاکستان میں لینڈنگ سے روکنے کی کوشش کی جس کے بعد افواج پاکستان نے اُن کی حکومت برطرف کر دی اور 12 اکتوبر 1999ء کو نواز شریف کو گرفتار کر کے وزارتِ عظمیٰ سے برطرف کر دیا اور ساتھ ہی آرمی چیف جنرل پرویز مشرف نے پاکستان کے چیف ایگزیکٹیو کا عہدہ سنبھال لیا۔

    وزیراعظم میر ظفراللہ خان جمالی
    صدر جنرل پرویز مشرف نے پاکستان کی عدالت کے حکم پر اکتوبر 2002ء میں انتخابات کروا کے اپنی آشیرباد والی جماعت مسلم لیگ (ق) کی حکومت بنوا دی۔ بلوچستان کی اہم سیاسی شخصیت میر ظفراللہ خان جمالی وزیراعظم پاکستان بن گئے لیکن اگلے دو سال کے اندر ہی صدر پرویز مشرف اُن سے نالاں ہو گئے۔ اُنہوں نے وزیراعظم کو برطرف تو نہیں کیا لیکن اُن کے ساتھ کچھ اِس انداز کا رویہ اپنایا کہ 26 جون 2004ء کو پاکستان کا ایک اور وزیراعظم محلاتی و جماعتی سازشوں کی نذر ہو گیا۔

    وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی
    فروری 2008ء کے عام انتخابات کے بعد وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور وزیراعظم راجہ پرویز اشرف پاکستان پیپلز پارٹی اور اُن کی اتحادی جماعتوں کے بالترتیب وزیراعظم منتخب ہوئے۔ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو عدالتی فیصلے کے مطابق جون 2012ء میں سوئس حکومت کو خط نہ لکھنے کے کیس میں عہدے سے الگ ہونا ہی پڑا۔

    نواز شریف کا تیسرا دورِ حکومت
    5 جون 2013ء کو نواز شریف پاکستان کے پہلے وزیراعظم بن گئے جنہوں نے تیسری دفعہ اِس عہدے پر اپنی ذمہ داریاں سنبھالیں لیکن ایک سال بعد ہی سیاسی سطح پر اُنہیں ایک دفعہ پھر مخالف سیاسی جماعتوں کی طرف سے تنقید کا سامنا کرنا پڑ گیا۔ گوکہ اِس دوران اُن کی سیاسی بصیرت اُن کے کام آئی اور وہ تنقید کے باوجود اپنی حکومت چلاتے رہے لیکن پھر اپریل 2016ء میں جب بین الاقوامی سطح پر دُنیا بھر میں ’’پانامہ اسکینڈل‘‘ سامنے آیا تو اُس میں اُن کے خاندان کا نام بھی آگیا۔ جس کے بعد معاملہ عدلیہ کے سامنے پیش ہوا تو عدلیہ کی جانب سے ایک جے آئی ٹی بنا کر مزید تفتیش کیلئے نواز شریف اور اُن کے خاندان سے سوالات کئے گئے۔

    جے آئی ٹی رپورٹ کے مطابق سوالات سے متعلقہ جوابات میں ابہام تھا اور پھر جے آئی ٹی پانامہ کیس میں نواز شریف اور اُن کے خاندان سے تفتیش کر رہی تھی تو اُس دوران میاں نواز شریف کا دبئی کا اقامہ بھی منظرِ عام پر آگیا جو کئی سال پہلے جاری ہونے کے باوجود عوام کی نظروں سے اوجھل رکھا گیا تھا، بلکہ انکم ٹیکس ریٹرن میں بھی چُھپایا گیا تھا اور ایف بی آر کو آگاہ نہیں کیا گیا تھا۔

    لہذا 28 جولائی 2017ء کو جسٹس آصف سعید کھوسہ، جسٹس اعجاز افضل خان، جسٹس گلزار احمد، جسٹس عظمت سعید اور جسٹس اعجاز الحسن سمیت پانچوں جج صاحبان نے متفقہ طور پر میاں نواز شریف کو نااہل قرار دے دیا۔

    (اِس تحریر کیلئے تحقیقی مواد اخبارات، کُتب و رسائل سے حاصل کیا گیا ہے، اور ساتھ میں اپنے دوست ناصر علی کے علمی تعاون بھی شُکر گزار ہوں)۔


    عارف جمیل
    جمعرات 31 اگست 2017
     

اس صفحے کو مشتہر کریں