1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

دیوان دیوان شیخ عبدالقادر جیلانی کی دعوت ایک جائزہ-13:(حضرت شیخ کی تعلیمات:کامل ایمان، اخلاق۔۔۔)

'عظیم بندگانِ الہی' میں موضوعات آغاز کردہ از دیوان, ‏5 مارچ 2017۔

  1. دیوان
    آف لائن

    دیوان ممبر

    شمولیت:
    ‏21 فروری 2008
    پیغامات:
    63
    موصول پسندیدگیاں:
    56
    کامل ایمان
    حضرت شیخ فرماتے ہیں:
    نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ مومن کا ایمان کامل نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کے لیے وہ نہ چاہے جو اپنے نفس کے لیے چاہتا ہے۔یہ ارشاد ہے ہمارے سردار کا، ہمارے حاکم کا، ہمارے سپہ سالار کا، ہمارے سفیر کا، ہمارے شفیع کا جو زمانہ آدم سے لے کر قیامت تک کے سارے نبیوں، رسولوں اور صدیقوں کے پیشوا ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص سے کمال ایمان کی نفی فرما دی جو اپنے مسلمان بھائی کے لیے اس جیسی چیز کو محبوب نہ سمجھے جس کو اپنے لیے محبوب سمجھ رہا ہے۔پس جب تو نے اپنے نفس کے لیے اچھے کھانے اور نفیس کپڑے، اچھے مکان، حسین عورتیں اور کثرت مال کو محبوب سمجھا اور اپنے بھائی مسلمان کے لیے اس کے برخلاف پسند کیا تو اپنے کمال ایمان کے دعوے میں جھوٹا ہے۔ (الفتح الربانی مجلس 18)
    اخلاق
    رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
    میزان (نامہ اعمال کی ترازو) میں کوئی چیز حسن اخلاق سے زیادہ وزنی نہ ہوگی۔ (ابوداود)
    حضرت شیخ کا ارشاد ہے:
    رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لوگوں سے بہترین اخلاق سے ملو جلو۔ پس اگر تم مرگئے تو تم پر رحم ہوگا۔ اس وصیت کو سنو۔اس کو اپنے دلوں سے باندھ لو۔ لوگوں کو چاہیے کہ نیک اخلاق دکھائیں، نیکی نیکی کرنے والے کے لیے راحت ہوتی ہے۔ برائی برائی کرنے والے کو مشقت میں ڈالنے والی اور دوسرے کے لیے تکلیف (کا باعث) ہوتی ہے۔مومن کو چاہیے کہ اپنے اخلاق بہتر بنانے کے لیے اپنے نفس سے جہاد کرے۔اس کو اس طرح لازم سمجھے جیسے تمام باقی عبادات میں مجاہدہ کرتا ہے۔ (جلاء الخواطر مجلس 40)
    حسن معاملہ
    ارشا د رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
    اللہ اس شخص پر رحم فرمائے جو نرمی اور فیاضی سے کام لیتا ہے جب کہ وہ بیچتا ہے اور خریدتا ہے اور جب (اپنے کسی حق کا) تقاضا کرتا ہے۔ (صحیح بخاری)
    حضرت شیخ فرماتے ہیں:
    احسان یہ ہے کہ تم دو اور اپنا کوئی ہی حق لو۔اور اگر تم سے ہو سکے تو اپنا سارا حق بخش دو۔اور اس پر اور چیز کا اضافہ کرو۔یہ بات تمہارے ایمان و یقین کی طاقت اور تمہارے اپنے پروردگار اعلی پر بھروسہ کی طرف لوٹتی ہے۔جب تم تول کر دو تو بڑھا کر دو۔ اللہ تعالیٰ قیامت میں تمہارے میزان کو بڑھا دیں گے۔ (جلاء الخواطر مجلس 43)
    موت و مراقبہ موت
    موت زندگی سے بھی بڑی حقیقت ہے۔ یہ ایسی حقیقت ہے کہ اس دنیا کے کسی انسان کو اس سے انکار نہیں۔ حضرت شیخ کا یہ ملفوظ اس حقیقت کو اجاگر کرتا ہے۔
    سارے غموں کا ساری خوشیوں کا، ساری دولتمندی کا، افلاس کا، سختی کا، آسانیوں کا، بیماریوں کا اور درد و تکالیف کا سب کا اختتام موت ہے۔جو مر گیا اس کی قیامت تو آگئی اور کے حق میں تو دور قریب آلگا۔ (الفتح الربانی مجلس 56)
    الفتح الربانی مجلس 37 میں ارشاد ہے:
    اے غافل! اے نادان! ہوشیار ہوجا تو دنیا کے واسطے نہیں پیدا کیا گیا بلکہ تو آخرت کے لیے پیدا کیا گیا ہے۔ موت کا ڈرانے والا تیرے پاس آچکا ہے اور وہ بالوں کی سفیدی ہے۔ تو ان سفید بالوں کو کاٹ دیتا ہے یا سیاہی سے ان کو بدل دیتا ہے۔جب تیری موت آجائے گی اس وقت کیا کرے گا؟ جب ملک الموت اپنے ساتھیوں کے ساتھ آئیں گے تو ان کو کس چیز سے واپس کرے گا؟ جب تیرا رزق ختم ہوجائے گا اور تیری مدت پوری ہوجائے گی تب کون سی چال چلے گا؟ تو اس ہوس کو چھوڑ، دنیا کی بنیاد تو عمل پر ہے۔ جب تو یہاں عمل کرے گا تب آخرت پائے گا اور اگر عمل نہ کرے گا تو کچھ بھی نہ ملے گا۔
    رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
    لذتوں کو کاٹنے والی (یعنی موت) کو بہت یاد کرو۔ (ترمذی)
    اس حدیث کی روشنی میں حضرت شیخ اپنا حال بتاتے ہیں:
    موت کو یاد رکھنا نفس کی بیماریوں کی دوا اور ان کا سر کچلنے کے لیے ہتھوڑا ہے۔ میں برسوںرات دن موت کو یاد کرتا رہا ہوں اور اس یاد کی بدولت مجھ کو فلاح نصیب ہوئی اور اس کی یاد سے میں اپنے نفس پر غالب ہوگیا۔ (الفتح الربانی مجلس 62)
    الفتح الربانی مجلس61 میں حضرت شیخ کا ارشاد ہے:
    درحقیت پوری فکر کے ساتھ موت کی یاد ہر قسم کی خواہش کو ناگوار بنا دیتی ہے اور ہر خوشی کے سامنے آکھڑی ہوتی ہے۔تو موت کو یاد رکھ اس سے کہیں بچاؤ نہیں۔
    اسی لیے صوفیائے کرام اس بات پر زور دیتے ہیں کہ انسان دن میں کم از کم ایک بار اپنی موت اور اس کے بعد آنے والے حالات پر غور کرے۔
    طول امل
    تم اپنی عمریں بے فائدہ ہی ختم کررہے ہو۔میں تمہیں دیکھ رہا ہوں کہ اپنی دنیا کے معاملے میں تو کوتاہی کرتے نہیں اور اپنے دین کے معاملے میں کوتاہی کرتے ہو۔ اس کا برعکس کردو اچھے رہو گے۔ دنیا کسی کے پاس بھی نہیں رہی اسی طرح تمہارے پاس بھی نہیں رہے گی۔ جو شخص اپنی آخرت کو ویران کرکے دوسروں کی دنیا آباد کرتا ہے وہ اپنے دین کے ٹکڑے کرکے دوسروں کے لیے دنیا جمع کرتا ہے وہ اپنے اور اپنے اللہ کے درمیان پردہ ڈالتا ہے اور اپنی جیسی مخلوق کی رضامندی کے لیے اللہ کا غصہ اپنے اوپر لیتاہے۔ (الفتح الربانی مجلس 18)
     

اس صفحے کو مشتہر کریں